خاندانی نظام اور دور جدید کے رجحانات

محمد عمار خان ناصر

(حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر اس موضوع کے بعض اہم پہلووں سے متعلق کچھ  معروضات پیش کی گئیں جنھیں ایک مناسب ترتیب سے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔)


قیامت کے قریب رونما ہونے والے مظاہر کا ذکر متعدد احادیث میں کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں ایک حدیث میں، جسے امام ترمذی نے نقل کیا ہے،  ایک علامت یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ أمورکم الی نساءکم، یعنی تمھارے معاملات تمھاری خواتین کے سپرد ہو جائیں گے۔ مولانا وحید الدین خانؒ نے  اس پیشین گوئی کو  فیمنزم یا صنفی مساوات کے اس ظاہرے پر منطبق   کیا ہے جو دور جدید   میں نمایاں ہوا ہے۔  اس حوالے سے سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ  فیمنزم کے ظاہرے کا ذکر اس حدیث میں کس پہلو سے ہوا ہے؟ کیونکہ احادیث میں قرب قیامت کی علامات کا ذکر عموما منفی رنگ میں ہوا ہے، یعنی ان کو معاشرت اور رویوں میں اختلال کے پہلو سے بیان کیا گیا ہے۔   

ہمارے خیال میں اس حدیث کا انطباق فیمنزم کے ظہور پر کرنا ذرا غور طلب بات ہے۔ اس مضمون کی دیگر احادیث سے جو بات سامنے آتی ہے، وہ یہ ہے کہ مرد، جن کے ذمے زیادہ تر معاملات کی انجام دہی رہی ہے، اپنے فیصلوں میں غیر ضروری طور پر اپنی بیویوں کے زیر اثر ہوں، اس طرح کہ ذمہ داریوں کی متوازن ادائیگی میں خلل واقع ہونے لگے۔ یہاں بنیادی طور ہر اس مزاج کی بات نہیں ہو رہی جس کو ہمارے ہاں زن مریدی سے تعبیر کیا جاتا ہے، بلکہ اس سے اخلاقی طور پر ذمہ داریوں کی ادائیگی پر پڑنے والے اثرات، یعنی ناانصافی اور جانبداری وغیرہ کی طرف اشارہ مقصود ہے۔ سمجھنے کے لیے عہد نبوی کا ہی ایک واقعہ پیش نظر رکھا جا سکتا ہے جس میں ایک صحابی نے ایک اہلیہ کی خوشنودی کے لیے صرف اس بچے کو باغ تحفے میں دینے کا ارادہ کر لیا جس کو وہ دلوانا چاہتی تھی، اور اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تنبیہ فرمانا پڑی۔

یہ پہلو اگر خانگی معاملات سے آگے بڑھ کر عمومی معاشرت میں بھی ظاہر ہونے لگے تو وہ بھی اسی کا مصداق ہوگا۔ اس لحاظ سے فیمنزم کے وہ بیانیے جو ردعمل میں پوری انسانی معاشرت کو اب سر کے بل کھڑا دیکھنا چاہتے ہیں، یقینا اس حدیث کے تحت آتے ہیں۔ حدیث کے الفاظ " أمورکم الی نساءکم" (اگر اس سے واقعتا فیمنزم کے ظاہرے کی نشاندہی مقصود ہے) بھی یہی بتاتے ہیں کہ معاملات کلیتا نسوانی نقطہ نگاہ سے طے کیے جانے لگیں گے اور یوں معاشرت کے فساد پر منتج ہوں گے۔ الفاظ میں اس کی طرف کوئی اشارہ دکھائی نہیں دیتا کہ خواتین کا امور معاشرت میں زیادہ فعال شرکت کرنا یا اپنے حقوق اور مقام سے متعلق زیادہ باشعور ہو جانا بھی کوئی منفی چیز ہے۔ خلاصہ یہ کہ اس کو ایک مخصوص تاریخی ظاہرے پر سو فیصد منطبق کرنے کے بجائے اس اخلاقی پہلو کو ملحوظ رکھنا چاہیے جس کے پیش نظر امورکم الی نساءکم کو قرب قیامت یعنی اخلاقی ودینی فساد کی ایک علامت شمار کیا گیا ہے۔

سوالات

(مذکورہ معروضات پر کچھ اہم سوالات سامنے آئے جو ذیل میں درج کیے جا رہے ہیں)

وقاص خان: فیمنزم کے معاملے میں 'انسانی معاشرے کو سر کے بل کھڑا کرنے' کی تعبیر سے بظاہر یہ تاثر ملتا ہے کہ آپ کے ہاں پدر سری سماج دراصل 'سماج کا درست زاویہ' ہے اور نسوانیت جب اسے نشانہ تنقید بنائے تو یہ درست کو نادرست کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ کیا ایسا ہی ہے؟

جواب: خاندان فطری طور پر ایک پدرسری ادارہ ہے۔ اس کی قلب ماہیت نہیں ہو سکتی۔ اس کی ریفلیکشن عمومی معاشرت میں بھی ہونا ناگزیر ہے، لیکن اس کو کم سے کم کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔

وقاص خان: لیکن ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ خاندان کی قدیم صورت تبدیل ہونا ممکن ہو گیا ہے۔ خواتین بچے کی خواہش میں اپنا جسم ہی استعمال کریں، یہ ضروری نہیں رہا۔ اگرچہ یہ پراسس نسبتا سست رفتار ہے، مگر اس کے اثرات میں خاندان کا فطری طور پر پدر سری ہونا شاید حتمی پوزیشن نہیں۔ اس کے ساتھ خاندان کا ایک ہی مفہوم کہ اس کے ذریعے سے نسل آگے بڑھے، اب واحد یا سب کے لیے ہمیشہ سے مرغوب ترین انتخاب بھی نہیں رہا۔ یہ دونوں آپشنز اور ان کے ساتھ خواتین میں پروفیشنلزم کی مقبول شکل کے ہوتے ہوئے آپ کے بنیادی مقدمے کی غیر مذہبی حیثیت کیا رہے گی؟

جواب: فطری کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی کسی دخل اندازی کے بغیر کوئی چیز کیسی ہے۔ اس مفہوم میں خاندان فطری طور پر ہی پدرسری ہے۔ انسان فطرت میں مداخلت کر کے صنفوں کی نئی خصوصیات متعین کر لے تو یہ فطری تو نہیں ہوگا۔ اس کی قبولیت یا عدم قبولیت کا فیصلہ کرنے کی کوئی نیوٹرل اساس نہیں جس کو معیار مانا جائے۔ اہل مذہب اپنی اساسات پر فیصلہ کریں گے، دوسرے لوگ اپنی اساسات پر کر سکتے ہیں۔

سنیہ ڈار: خاندان کا ادارہ اپنی فطرت میں ہے ہی پدر سری ، یعنی خاندان کا ادارہ معاشرے میں قائم رکھنے کے لیے پدر سریت نا گزیر ہے اور فطری ہے؟ یعنی مذہب پدر سریت کو جواز دیتا ہے بلکہ خاندان کا ادارہ بنانے کے لیے اسے ایک لازمی جزو کے طور پر مانتا ہے؟ اگر ایسا ہی ہے تو یہاں آپ ایک انتہا کو تو دین کی أساس پر فطری ٹھہراتے ہیں جبکہ دوسری انتہا کو معاشرت کی تباہی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔

جواب: آپ کے سوال سے پدرسری کا جو مفہوم سامنے آ رہا ہے، وہ اس کا صحیح مفہوم نہیں۔ پدرسری کا مطلب یہ ہے کہ مرد اولاد حاصل کرنے کے لیے عورت کو اپنے نکاح میں لیتا ہے اور کنبے کے سربراہ کے طور پر اس کی کفالت وحفاظت کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس میں "ایک انتہا" کون سی ہے جس کو فیمنزم کی دوسری انتہا کے مقابلے میں رکھا جائے؟ ہاں مرد کے اختیار اور حاکمیت میں عدم توازن پیدا ہو سکتا ہے جیسے خواتین کی جانب فیمنزم کی بعض صورتوں میں ہوتا ہے۔ ان دونوں انتہاؤں کا تقابل کرنا چاہیے۔ پدرسری فی نفسہ کوئی انتہا نہیں ہے، ایک فطری نظام ہے۔

سنیہ ڈار: اس فطری پدر سری نظام میں توازن برقرار رکھنے کے لیے مذہب کے مطابق مرد کے اختیار اور حاکمیت کی حد کیا ہے ؟

جواب: رشتہ نکاح میں زوجین کے حقوق وفرائض شریعت میں بہت وضاحت سے بیان ہوئے ہیں۔ ان کی تفصیل تو وہاں دیکھنی چاہیے۔ البتہ اگر مراد اختیار کا سوء استعمال اور اس کا سدباب ہے تو یہ انتظامی مسئلہ ہے۔ اس میں قرآن نے خاندان کے بااثر افراد کو کردار ادا کرنے کے لیے کہا ہے۔ اس کے علاوہ معاشرتی سطح پر تعلیم وتربیت اور سماجی دباؤ کے مختلف طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں اور ریاست بھی اس ضمن میں مددگار پالیسیاں بنانے اور قانونی  اقدامات کی ذمہ دار ہے۔

سنیہ ڈار: آخری سوال یہ ہے کہ کیا مذہب کے مطابق اس فطری پدر سری نظام میں جدید دور کے تقاضوں کے مطابق کوئی تغیر و تبدل ممکن نہیں ہے؟ یعنی مذہب کے مطابق یہ نظام ہمیشہ ہر دور میں ایسا ہی رہے گا تو ہی خاندان کا ادارہ برقرار رہے گا اور کسی اور صورت میں اس کی بقا اور نشوونما ہر گز ممکن نہیں ہے؟ ہر دوسری صورت یا تبدیلی انارکی پر منتج ہو گی چنانچہ اسے ہمیشہ ایسے ہی اسی فارم میں قائم رہنا چاہیے؟  مذہب کے مطابق اس حوالے سے کس حد تک لچک کی گنجائش ہے یا سرے سے ہے ہی نہیں؟

جواب:  جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تبدیلیوں کے ضمن میں  ایک بنیادی سوال کا جواب پہلے طے کرنا ضروری ہے، اور وہ یہ کہ کیا ہم سماجی زندگی کی تشکیل میں کچھ چیزوں کو ثوابت مانتے ہیں یا سب کچھ قابل تبدیل ہے؟ اگر ہر چیز قابل تبدیل ہے تو پھر خاندان کے ادارے کی ہیئت بھی قابل تبدیل ہے، بلکہ شاید خاندان کے ادارے کو بھی ختم کیا جا سکتا ہے۔ اگر کچھ چیزیں ناقابل تبدیل ہیں تو حد فاصل قائم کرنے میں ہم بطور مسلمان شریعت کو کیا اہمیت دیتے ہیں؟ اگر شریعت ثابت اور متغیر کی تعیین میں ماخذ ہے تو جواب اس کے مطابق ہوگا۔ اگر شریعت ماخذ نہیں ہے تو پھر ثوابت کو طے کرنے کے لیے کوئی اور معیارات وضع کرنے ہوں گے، اگر وہ ممکن ہوں۔

اس سیاق میں ہمارا موقف یہ ہے کہ شریعت ہمارے لیے خاندانی نظام کی تشکیل میں ماخذ ہے اور اس میں دیے گئے ثوابت کی پابندی ہم پر بطور مسلمان لازم ہے۔ بطور مسلمان کی وضاحت اس لیے ضروری ہے کہ دنیا کی دوسری تہذیبیں اس ضمن میں مختلف تجربات کر سکتی ہیں اور ان کا دنیا میں سیاسی عوامل سے عمومی شیوع بھی ہو سکتا ہے، لیکن مسلمان ان تجربات کو شریعت پر نہیں، بلکہ شریعت کو ان تجربات پر حکم مانیں گے۔

اس بنیادی نکتے کی روشنی میں، مختلف مجوزہ تبدیلیوں کا جائزہ لے کر دیکھا جا سکتا ہے کہ ان میں سے کون سی شرعی اصولوں کے لحاظ سے قبول کی جا سکتی ہے اور کون سی نہیں۔

سنیہ ڈار: یعنی  مسلمانوں کے لیے بھی زمانے اور صورتحال کی بنا پر اس وضع شدہ نظام کے اندر تغیر و تبدل ممکن ہے بشرطیکہ وہ تبدل شریعت سے انحراف پر مبنی نہ ہو؟ اور یہ فطری پدر سری نظام جامد  نہیں ہے کہ اس میں تبدیلی سرے سے ممکن ہی نہیں؟

جواب:  بالکل۔ پدرسری نظام کے جن پہلووں کا تعلق عرف اور کلچر سے ہے، وہ یقینا قابل تبدیل ہیں۔ اسی طرح کسی خاص پابندی کی بنیاد اگر کسی علت پر ہے تو اس کی روشنی میں بھی تبدیلی کی جا سکتی ہے۔ کسی پابندی میں ملحوظ مصلحت اگر تقاضا کر رہی ہو کہ قانون کی ظاہری ہیئت میں کچھ تبدیلیاں کی جائیں تو اس کا راستہ بھی کھلا ہے۔


اسی بحث سے جڑا ہوا  ایک سوال گزشتہ دنوں محترمہ ڈاکٹر عابدہ شریف نے اٹھایا  کہ  آج مغربی سماج میں شادی کے بغیر پیدا ہونے والے بچوں کے والدین پر اس کے باقاعدہ حقوق تسلیم کیے جاتے ہیں، جبکہ اسلامی قانون کی رو سے ایسے بچے کی ولدیت وراثت کے حقوق صرف ماں سے ثابت ہوتے ہیں، یعنی بچے کا باپ اس کی پرورش،  اخراجات اور وراثت وغیرہ تمام ذمہ داریوں سے آزاد ہے۔   اس کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ موجودہ دور میں بدکاری کے مواقع عام ہو جانے کی وجہ سے  مائیں، یک طرفہ ذمہ داری سے بچنے کے لیے   ایسے بچوں کو پیدائش کے بعد قتل کر کے پھینک دیتی ہیں۔  تو کیا حالیہ معاشرتی بگاڑ کے تناظر میں ایسے بچوں کی شناخت کو  والد کے ساتھ  نتھی کر کے اسے بچے کی جملہ ذمہ داریوں میں شریک نہیں ٹھہرانا چاہیے؟

اس کے جواب میں عرض کیا گیا کہ ثبوت نسب کے لیے شریعت کا  واضح قانون یہ ہے کہ زنا سے نسب ثابت نہیں ہوتا ، اس کے لیے رشتہ نکاح کا ہونا ضروری ہے۔ یہاں شریعت میں اہم تر مصلحت کو زیادہ اہمیت دینے کا اصول اختیار کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ  خاندان کے ادارے کی مجموعی مصلحت ایسے بچوں کی انفرادی مصلحت سے مقدم ہے۔ زنا سے نسب ثابت مانا جائے تو خاندان کا پورا نظام متاثر ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ تجویز کہ ایسے بچوں کو قتل سے بچانے کے لیے ان کی ولدیت قانونا مان لی جائے، مسئلے کا حل نہیں۔  بچے کا قتل یقینا گناہ اور جرم ہے، لیکن کیا زناکار عورت اس لیے ایسا کرتی ہے کہ اس کی ممانعت کا کوئی قانون نہیں بنا ہوا؟ وہ تو اس لیے کرتی ہے کہ اس سے زنا ثابت ہو جائے گا اور یا تو سزا ملے گی یا بدنامی ہوگی اور زندگی مشکل ہو جائے گی۔ ایک ایسا ماحول جس  میں زنا بھی ایک جرم رہے اور ماؤں کو سزا بھی ملتی رہے، لیکن مائیں  بچے کے حق زندگی کا احترام  کرتے ہوئے پھر بھی اسے زندہ رہنے دیں، انفرادی اخلاقیات کا مسئلہ ہے۔ اس میں  معاشرتی قوانین کو یک طرفہ طور پر ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا، اور یہ تجویز کہ چونکہ زنا عملا عام ہو گیا ہے، اس لیے اس کو قانونی تحفظ بھی دے دیا جائے،  تو بالکل ہی ناقابل فہم ہے۔  

مثال کے طور پر  بچوں کی پرورش والد اور والدہ کی ذمہ داری ہے۔ اگر کسی معاشرے میں خود غرضی اتنی عام ہو جائے کہ والد اور والدہ یہ ذمہ داری اٹھانے کے روادار نہ ہوں تو کیا ریاست کو یہ قرار دینا چاہیے کہ آج سے بچوں کی پرورش والدین کی ذمہ داری میں شامل نہیں؟ ظاہر ہے، ایسا نہیں ہوگا۔ ریاست ایک ’’مسئلے’’ کے طور پر یقینا ان بچوں کی پرورش اور کفالت کا انتظام کرے گی جن کے والدین اس ذمہ داری سے فرار اختیار کیے ہوں، لیکن ایک معاشرتی واخلاقی ضابطے کی حیثیت سے اس اصول کو کالعدم قرار نہیں دے گی کہ بچوں کی پرورش والدین کی ذمہ داری ہے۔

یہی نوعیت ناجائز تعلقات سے پیدا ہونے والے بچوں کی ہے۔ ان کو قانونی لحاظ سے نکاح کے تحت پیدا ہونے والے بچوں جیسا قرار دینا ولدیت کے رشتے کے ساتھ وابستہ تقدس اور زنا کے ساتھ وابستہ تنفر کو ختم کیے بغیر ممکن نہیں۔ یقینا ایسے بچوں کا کوئی قصور نہیں اور ان کے ساتھ ازروئے شریعت، عام سماجی  معاملات میں کوئی امتیاز نہیں برتا جا سکتا، لیکن ولدیت کی شناخت حاصل نہ ہونا ایسے ہی ایک تقدیری معاملہ ہے جیسے مثلا کچھ بچوں کا معذور پیدا ہو جانا۔  یہاں یہ بنیادی فیصلہ کرنا ہوگا کہ ایسے بچوں کو انفرادی طور پر جس محرومی کا  سامنا کرنا پڑتا ہے، اس میں اور خاندانی نظام کی مجموعی مصلحت میں سے کس کو زیادہ اہمیت دی جائے۔ مغربی معاشرے بچوں کے انفرادی حقوق کو جبکہ اسلامی شریعت خاندان اور معاشرے کی مجموعی مصلحت کو زیادہ اہمیت دیتی ہے۔ ہم بطور مسلمان اسی ترجیح کو قبول کرنے کے پابند ہیں جو شریعت نے قائم کی ہے۔

تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ ولدیت کے رشتے کے علاوہ، باقی معاشرتی وقانونی امور میں اگر ایسے بچوں کے ساتھ ناانصافی یاامتیاز برتا جاتا ہے تو اس کی اصلاح میں مذہب واخلاق اور ریاست کا کوئی کردار نہیں بنتا۔ اس پہلو کی اپنی جگہ اہمیت ہے اور دراصل اسی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر تعلیم وتربیت اور ریاستی اقدامات سے ایسا ماحول بنا دیا جائے جس میں ایسے بچوں کے ساتھ باقی تمام افراد کی طرح ہی برتاو کیا جائے تو ولدیت کی شناخت کا مسئلہ اتنا سنگین نہیں رہے گا۔ اسی طرح مثال کے طور پر  بچے کے اخراجات زانی پر بطور تعزیر اجتہادا لازم کیے جا سکتے ہیں۔ اس کی بنیاد حق ولدیت پر نہیں، تعزیر کے اصول پر ہوگی۔ اس کے مقابلے میں اگر زنا اور نکاح کو ایک ہی قانونی درجے پر لے آیا جائے تو اس کے مضمرات واضح طور پر مہلک اور تباہ کن ہوں گے۔


مذکورہ مسئلے کے تقابل میں، جن چیزوں میں تمدنی حالات کی تبدیلی کے تحت ایک اجتہادی زاویہ نظر اختیار کیا جانا چاہیے، اس کی  مثال کے طور پر بیویوں کی جسمانی تادیب کے مسئلے کو دیکھا جا سکتا ہے۔  شوہروں کی طرف سے اس اختیار کا سوء استعمال   ایک اہم اور قابل توجہ مسئلہ ہے اور اس سوال کا پیدا ہونا بالکل فطری ہے کہ  شریعت نے جن شرعی واخلاقی حدود میں   ایک خاص صورت حال میں شوہر کو تادیب  کا اختیار دیا ہے، اگر  معاشرے میں عموما ان حدود کی پابندی نہ کی جا رہی ہو تو  اس کا سدباب کیسے کیا جا سکتا ہے؟   یہ سوال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی سامنے آیا  تھا اور آپ نے خواتین کی شکایت پر شوہروں کی طرف سے اختیار کے سوء استعمال کو دیکھتے ہوئے ایک موقع پر اس پر پابندی لگا دی۔ تاہم اس کا نتیجہ خواتین کے جری ہو جانے کی صورت میں نکلا اور شوہروں کی طرف سے جوابی شکایت پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو انھیں  دوبارہ اس کی اجازت دینا پڑی۔

دور جدید میں بہت سے اہل علم اس تناظر میں یہ رائے رکھتے ہیں کہ سد ذریعہ کے طور پر  شوہروں کے اس اختیار پر قانونی پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔  ممتاز  تیونسی عالم ابن عاشور  نے اس ضمن میں یہ اہم نکتہ بھی  پیش کیا ہے کہ شوہروں کو اپنی بیویوں کو مارنے کی جو اجازت دی گئی، وہ ان لوگوں کے عرف کے لحاظ سے ہے جو اس کو معیوب نہ سمجھتے ہوں اور ان کے ہاں اسے شوہر کا ایک معمول کا اختیار مانا جاتا ہو۔ ابن عاشور مزید یہ کہتے ہیں کہ یہ چونکہ محض ایک اجازت ہے جو کئی شرائط کے ساتھ مشروط ہے، مثلا ناجائز تعدی نہ کرنا، اور اس میں معاشرتی عرف کا بھی لحاظ ہے، اس لیے حکومت اس اختیار پر پابندی لگا سکتی اور اسے قابل تعزیر عمل قرار دے سکتی ہے۔ (التحریر والتنویر  ۵/۴۴)

بعض دیگر اہل علم اس اختیار کے سوء استعمال کو روکنے کے لیے   بیوی کی تادیب کا اختیار نظم اجتماعی کو تفویض کر دینے کی تائید کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر جناب جاوید احمد غامدی  لکھتے ہیں :

’’ اِس آخری چیز کے بارے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تمدن کی تبدیلی کے ساتھ ریاست کیا شوہروں کو پابند کر سکتی ہے کہ پہلی دونوں تدابیر اگر موثر نہ ہوں اور سزا کی نوبت آ جائے تو وہ خود کوئی اقدام نہیں کریں گے، بلکہ معاملہ عدالت کے سپرد کر دیں گے؟

ہمارا جواب یہ ہے کہ یقیناًکر سکتی ہے، اِس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر عمل کے لیے یہ محض طریق کار کی تبدیلی ہے، اِس سے کوئی حکم معطل نہیں ہوتا۔ عورت کی اصلاح کے لیے سزا شوہر دے، خاندان کے بزرگ دیں یا عدالت، اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اللہ تعالیٰ کا منشا یہ ہے کہ گھر کو بچانے کے لیے اگر سزا بھی دینی پڑے تو دی جائے۔ یہ اصلاح کی ایک تدبیر ہے، اِس سے زیادہ اِس سے کچھ مقصود نہیں ہے۔“

ان دونوں مثالوں سے کافی حد تک یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ خاندانی نظام سے متعلق شریعت کے احکام میں کون سی چیزیں ہیں  جو اس نظام کے لیے بنیادی اساس کی حیثیت رکھتی ہیں اور جنھیں ان کی جگہ سے ہٹانے سے پورے ڈھانچے کا  زمیں بوس  ہو جانا یقینی ہے، اور کون سی چیزیں ہیں جن کے حوالے سے نظام کی بنیادی عمارت  کو قائم رکھتے ہوئے  تمدنی، سماجی اور قانونی ضرورتوں کے تحت اجتہادی انداز فکر اختیار کیا جا سکتا ہے۔

ہذا ما عندی واللہ تعالیٰ اعلم

اسلام اور عصر حاضر

(دسمبر ۲۰۲۱ء)

تلاش

Flag Counter