دورحاضرمیں اسلامی فکر : توجہ طلب پہلو

ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

(نوٹ: مرکز جماعت اسلامی ہند کی تصنیفی اکیڈمی نے خاکسار کو اسی موضوع پر اپنے ورکشاپ منعقدہ ۳۰ نومبر ۲۰۲۱ء میں اظہار خیال کی دعوت دی ہے اسی ورکشاپ کے لیے یہ مقالہ لکھا گیا)


موجودہ دور میں اسلامی فکرکے میدان میں بہت کام ہواہیخاص کرروایتی علوم کے احیاء کے سلسلہ میں۔اس کی پوری قدرکرتے ہوئے اب کام کے نئے میدانوں اورنئی جہات پرتوجہ مبذول کرنے کی ضرورت ہے۔

ذیل کی سطورمیں اختصارکے ساتھ اس کے بعض پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے گی۔اس مجوزہ علمی کام کی دوسطحیں ہیں ایک عالمی دوسری قومی ومقامی۔لیکن اس تحریرمیں صرف عالمی مسائل سے بحث ہوگی۔البتہ آخرمیں ایک ایسے پہلوکی طرف توجہ دلانی ہے جوعالمی بھی ہے اورمقامی اہمیت بھی رکھتاہے۔اختصارکی خاطربعض نکات کی طرف صرف اشارے کیے گئے ہیں تفصیلی بحث سے گریزکیاگیاہے اوربعض میں تھوڑی تفصیل کردی گئی ہے۔مقالہ میں پیش کیے گئے نکات غوروفکرکے لیے پیش کیے جارہے ہیں،وہ مصنف کی کسی حتمی رائے کا اظہارنہیں کرتے۔

عالمی سطح پر:

سیاسیات: عصرحاضرمیں اسلامی اجتماعیات کے میدان میں سب سے نمایاں اورممتازترین نام مولاناسیدموددوی علیہ الرحمہ کاہے۔

۱۔انہوں نے سیاسیات کے میدان میں بھی ایک تھیوری دی تھی کہ اسلامی سیاست نہ خالص تھیاکریسی ہے اورنہ خالص ڈیموکریسی۔وہ ان دونوں کے بین بین کی چیز ہوگی۔(۱)مولانامعاصرسیاسیات پر گہری نظررکھتے تھے تاہم ایسامحسوس ہوتاہے کہ اس اصطلاح کے بارے میں ان کا ذہن واضح نہ تھاکیونکہ ایک جگہ انہوں نے یہ بھی کہاہے کہ نام کی یااصطلاح کی کوئی اہمیت نہیں ”اس طرزکی حکومت کوموجودہ زمانہ کی اصطلاحوں میں آپ اسے سیکولرکہیے،ڈیموکریٹک یاتھیوکریٹک ہمیں کسی پراعتراض نہ ہوگا“۔(۲)ڈاکٹراسراراحمدجوعصرحاضرمیں نظام خلافت کے سب سے پرجوش داعی رہے ہیں،نے اِس پر مختصر اضافہ کیااوراس نظام کی کچھ عملی صورتیں تجویزکیں۔مگراس بنیاد پر مضبوط عمارت اٹھانے کی ضرورت ہے جس پرابھی کوئی توجہ نہیں دی جاسکی ہے۔(۳)

۲۔جمہوریت میں اصل زورعام لوگوں کی شراکت اقتدارپر ہوتاہے اس موضوع پر زیادہ مسلمان اہل علم نے خواہ مخواہ ہی حاکمیت ِالٰہ کی بحث چھیڑدی ہے۔جوسراسرایک اضافی اورRelative مسئلہ ہے۔ظاہرہے کہ مسلم اکثریتی ممالک میں حاکمیتِ الٰہ کونظری طورپرتسلیم نہ کرنے کا کوئی سوال نہیں بحث عملی ہے۔البتہ غیرمسلم اکثریتی ممالک میں حاکمیت الٰہ کا مطالبہ فضول ہوگا۔پہلے توان کوایمان کی دعوت کا مخاطب بنایاجائے گا۔

۳۔ دارالاسلام اوردارالحرب کی بحثوں سے اسلامی فقہ کاذخیرہ بھراپڑاہے مگریہ اصطلاحات اپنے دورمیں Relevant تھیں آج نہیں ہیں۔اب نئی اصطلاحات بنانے کی ضرورت ہے۔مثال کے طورپر مولاناوحیدالدین خاں دارالدعوۃ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں یاعلامہ یوسف القرضاوی دارالعہدکی۔

۴۔اسلامی فقہ میں غیرمسلم شہریوں کے لیے ذمی،مستامن وغیرہ کی اصطلاحیں رائج ہیں مگریہ شہریت کے موجودہ تصورات کے مطابق نہیں ہیں۔جدیدذہن اس جبرکوتسلیم نہیں کرتاکہ شہریوں کومذہب کی بنیادپر اول درجہ اور دوسرے درجہ کے شہریوں میں تقسیم کردیاجائے۔آج کی نیشن اسٹیٹ میں تمام شہریوں کودستوری طورپر یکساں حقوق حاصل ہوتے ہیں۔(۴)ہاں یہ بات صحیح ہے کہ عملی صورت حال بہت سے ملکوں میں اس کے بالکل برعکس ہے۔

سیکولرزم ایک فکری نظریہ اورعملی رویہ ہے جومذہب کوانسانی زندگی سے خارج کرتایاکم ازکم اس کونجی زندگی تک محدودکرتاہے۔ظاہرہے کہ مسلمان اہل علم میں کوئی بھی اس نظریہ کی تائیدنہیں کرسکتا۔مگرسیکولراسٹیٹ ریاست کے ایک عملی بندوبست کاسوال بھی ہے خاص کران ممالک میں جہاں مختلف مذہبی اکائیاں رہتی ہوں۔ مسلمان اہل فکرعام طورپر دونوں میں خلط ملط کردیتے ہیں اوراس پر گومگوکا شکارہیں۔البتہ عملی صورت حال تضاد فکری کی غماض ہے وہ یوں کہ جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں وہ سیکولراسٹیٹ کی بھی جوش وخروش سے مخالفت کرتے ہیں اورجہاں اقلیت میں ہیں وہاں وہ ا س کوباقی رکھناچاہتے ہیں اوراس کا دفاع وتحفظ کرتے ہیں۔ مولانا سعید احمد اکبرآبادی،پروفیسرمشیرالحق،مولاناوحیدالدین خاں اورڈاکٹرعبدالحق انصاری سیکولراسٹیٹ کی تائید کرتے ہیں اوراس کوہندوستان جیسے ملک میں نسبتاً ایک بہترنظام سیاست خیال کرتے ہیں کہ ریاست کا کوئی مذہب نہ ہو، وہ کسی مذہب میں مداخلت نہ کرے بلکہ سبھی مذاہب اس کی نظرمیں برابرہوں۔غامدی صاحب نیشن اسٹیٹ میں مطلقا اس کی نفی کرتے ہیں کہ ریاست کا کوئی مذہب ہو۔ (۵)

۵۔حدودکے سلسلہ میں ارتدادکی سزاکا تصورجدیدتعلیم یافتہ لوگوں کے نزدیک موجودہ زمانہ کی مذہبی آزادی اور اظہاررائے کی آزادی سے متصادم ہے اورقرآن کے صریح نص کے خلاف بھی۔یقیناعلماء اسلام کی اکثریت اسی کی قائل رہی ہے مگراس بارے میں دوسری رائے بھی صدراول سے ہی موجودرہی ہے جوبوجوہ دبی رہی۔کیا آج کے دور میں اس رائے کا اظہار موزوں نہ ہوگا؟اورکیااس پر کھلے بحث ومباحثہ کی ضرورت نہیں ہے؟ (۶)

۶۔توہین رسالت کے قانون اوراس کے اطلاق کوعوامی ہاتھوں میں دینے کا تصورجدیدذہن کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔اس پر گفتگوہونی چاہیے جس کا امکان مسلم معاشروں میں کم ہے۔پاکستان میں 1990 سے اب تک تقریبا 1500لوگ اس قانون کے تحت گرفتارہوئے ہیں۔اورتقریبا700لوگوں کوماوراء عدالت عام لوگوں میں سے کسی نے اٹھ کرقتل کردیاہے۔جب کہ عدالت میں ان میں سے کسی پر بھی جرم ثابت نہ ہوسکاتھااورعدالتوں نے ان کو بری کردیاتھا۔(۷) پاکستان میں کسی پر بھی توہین مذہب کا الزام لگایا جا سکتا ہے اگروہ مذہبی لوگوں کے رویے کو چیلنج کرے۔ پاکستان کے لبرل مفکرین اور دانشور اس روایت کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں لیکن وہ ہمیشہ خطرے کی زد میں رہتے ہیں۔ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو توہین مذہب کے قوانین کی منسوخی کا مطالبہ کرنے پر ایک مذہبی انتہا پسند نے قتل کر دیا تھا۔جس کوآج مذہب پسندوں کی ایک کثیرتعداداپناہیرومانتی ہے۔

توہین مذہب کو جرم قرار دینے والے 71 ممالک میں سے 32 میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ لیکن مختلف ممالک میں اس سزاکا نفاذ مختلف ہے۔بعض ممالک نے ان سزاؤں کوRepeal کردیاہے اوربعض نے ان پر عمل درامدکومنسوخ کردیاہے۔البتہ یہ عجیب وغریب بات ہے کہ ہولوکاسٹ پر سوال اٹھانایابات کرنامغربی ممالک میں ممنوع اورقابل سزاہے۔ایران، پاکستان، افغانستان، برونائی، موریطانیہ اور سعودی عرب میں توہین مذہب کی سزا موت ہے۔ غیر مسلم اکثریتی ممالک میں توہین مذہب کے سب سے سخت قوانین اٹلی میں ہیں، جہاں زیادہ سے زیادہ سزا تین سال قید ہے۔

ایک طرف تویہ موضوع بہت حساس ہے۔دوسری طرف یہ پہلوبھی سامنے رہے کہ کسی شاتم ِرسول کوقتل کرڈالنے سے اہانت کے کیسوں میں کوئی کمی نہیں آتی بلکہ اسلاموفوبیاکی مہم کواس سے اورمسالہ مل جاتاہے۔حالانکہ حنفی فقہ میں شاتم ِرسول کی سزامطلقاموت نہیں ہے بلکہ اس میں تفصیل ہے۔(۸)لیکن برصغیرمیں امام ابن تیمیہ کی رائے کوعمومی طورپر قبول کرلیاگیاہے اوراس پراجماع کا دعوی بھی کیاجاتاہے۔اس سلسلہ میں جتنی بھی روایات آئی ہیں ان کے ظاہری مفہوم پر علما کی اکثریت اصرارکرتی ہے۔اورمسلم اکثریتی ممالک میں اس طرح کے کیسوں میں مسلمانوں کا عمومی ردعمل شاتم کوفوری طورپر کیفرکردارکوپہنچانے کا ہوتاہے جبکہ اقلیتی ممالک میں ان کا ردعمل زیادہ سے زیادہ احتجاجی مظاہروں تک محدودرہتاہے۔اس سے کھل کراختلاف کا اظہارمولاناوحیدالدین خاں، جاویداحمدغامدی صاحب اورعمار خاں ناصرکے علاوہ کسی نے نہیں کیا۔(۹)بہت سے دوسرے علماء بھی یہی رائے رکھتے ہیں مگرعوامی ردعمل کے خوف سے وہ اس کا اظہارنہیں کرتے۔مسلمان اس سلسلہ میں مغرب کی آزادیئ فکر (جوکہ ان کے لیے تقریباایک مذہب ہے اورخیراعلی(sumnum Bonum)سمجھی جاتی ہے)کی حساسیت کونہیں سمجھ پاتے اوراہل مغرب ناموس ِرسالت سے متعلق مسلمانوں کی حساسیت کا ادراک نہیں رکھتے۔اسی لیے ناگزیرہوگیاہے کہ مسلمان اہل علم کے درمیان اس موضوع پر کھل کرگفتگوہواوراہل مغرب سے مکالمہ کی راہ کھولی جائے۔

اسی سے متعلق ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ نظری طورپر اہانت رسول کے قانون میں اللہ تعالیٰ،قرآن پاک،رسول اکرم ﷺ اورکسی بھی نبی کی اہانت شامل ہے اورمغرب میں حضرت عیسیٰ کولے کرخوب اہانت ہوتی ہے مگرمسلمان عملاًصرف رسول اللہ ﷺکی اہانت پر متشددردعمل کا اظہارکرتے ہیں؟اصولی اوراخلاقی طورپر ان کومطلقاًہرنبی کی اہانت پر ردعمل کا اظہارکرناچاہیےے۔

۷۔جزیہ کا آج عملاکوئی بھی اسلامی ملک غیرمسلم شہریوں سے مطالبہ نہیں کرتا۔مگرعلماء کرام اورفقہااپنی تحریروں اورفتووں میں آج بھی اس پر زوردیتے ہیں اوریہی بتارہے ہوتے ہیں کہ وہ غیرمسلموں کی تذلیل کے لیے لگایاجاتاہے۔بعض لوگ دوسری توجیہات بھی کرتے ہیں۔مولاناعنایت اللہ سبحانی نے یہ توجیہ پیش کی ہے کہ جزیہ نہ عام لوگوں پر لاگوہوگااورنہ وہ غیرمسلموں کی تذلیل کا نشان ہے۔ان کا کہناہے کہ جزیہ مغلوب غیرمسلم ریاست سے غالب اسلامی ریاست لے گی (۱۰) ہمارے خیال میں اس رائے پرغورکیاجاناچاہیے۔اورکیامسلم حکومتوں کا تعامل بھی بطورنظیرکام آسکے گا؟

اصل میں جب اسلامی فقہ کی تدوین شروع ہوئی تو اس وقت عالم اسلام وقت کاسپرپاورتھا اورپوری اسلامی ریاست ایک خلیفہ کے ماتحت تھا یاکم ازکم نظری طورپر ایک خلیفہ کی اتھارٹی کو چیلنج نہ کیاجارہاتھا اورمسلم سلاطین اس کی وفاداری کا دم بھرتے تھے،ایسے ماحول میں فقہاء اسلام نے جوسیاسی اصول مدون کیے یامسلم مفکرین سیاست نے جو تحریریں چھوڑیں وہ زیادہ تر نظری باتوں پر مشتمل ہیں اورعصرحاضرکے نت نئے مسائل کا ان میں کوئی مرتب حل نہیں پایاجاتاہے۔مثلااس سوال کا مدون اسلامی فقہ یااسلامی سیاسی فکرجوجواب دیتی ہے کہ اگرکوئی غیرمسلم ریاست جومسلمانوں کے خلاف جارحیت کی مرتکب نہیں ہوتی تو اسلامی ریاست کے تعلقات اس کے ساتھ بھی محاربہ پرمبنی ہوں گے یامسالمہ پر،وہ بہت زیادہ relivantنہیں۔کہ فقہاء کی اکثریت بظاہرپہلی رائے کی حامل ہے جوموجودہ حالات میں قابل عمل نہیں۔(۱۱)مستشرقین اوران کے ہم نوا بعض مسلمان اسکالر وں کے نزدیک اسلامی فقہ تمام تر اسلام کی حکمرانی کی فضاء میں پروان چڑھی۔اسی وجہ سے وہ مسلمانوں کو اس صورت حال کے بارے میں تو تفصیلی رہنمائی دیتی ہے،جب وہ حاکم ہوں،لیکن جب مسلمان خود محکومی کی حالت میں ہوں یا محکومی سے مشابہ حالت ہویا تھوڑے بہت وہ خود بھی اقتدار میں شریک ہوں جیسے کہ ہندوستان میں ہے،تو ایسی صورت حال کے لیے مدون فقہ اسلامی رہنمائی دینے سے قاصر ہے۔فقہ الاقلیات کی بحث اسی عملی صورت حال کی پیداکردہ ہے۔(۱۲)

اسی طرح اقتدارکی منتقلی کا کوئی میکینزم اسلامی فکرمیں نہیں ملتاہے۔جس کی وجہ سے تاریخ اسلام کا بیشترحصہ درباری سازشوں،خلیفہ وزراء اورامراء کی اقتدارکی رسہ کشیوں اوراس کے نتیجہ میں خون ریزی سے بھرا ہوا ہے۔ علامہ یوسف القرضاوی نے خیال ظاہرکیاہے کہ اسلامی سیاسی فکرپر ابھی عصرحاضرکے تناظرمیں بہت کام کیا جانا باقی ہے اوراس سلسلہ میں اجتہادوتجدیدفکرکی ضرورت ہے (۱۳)اِن مسائل پر سوچتے ہوئے اورنئی آراء قائم کرنے کی ضرور ت اس لیے محسو س ہوتی ہے کہ آج ہم تمدنی وتہذیبی طورپراس دنیامیں رہ رہے ہیں جہاں مغرب کا غلبہ ہے۔ اس کے برعکس دنیابنانے کا ہم خواب تودیکھ سکتے ہیں لیکن ابھی واقع میں کوئی نئی اورالگ دنیابنتی دکھائی نہیں دیتی۔

معاشرت:

خواتین کواسلامی فقہ میں قریب قریب مثل باندی بناکرپیش کیاگیاہے۔آج کے دورمیں تملیک وغیرہ کی تعبیرات پرنظرثانی کی ضرورت ہے۔چہرہ کا پردہ کوئی دینی فریضہ نہیں ایک کلچرل مسئلہ ہے۔(۱۴)

ایک مبہم حدیث:عن ابنی بکرہ لما بلغ رسول اللہ ﷺ ان اہل فارس ملکوا علیہم بنت کسری قال: لن یفلح قوم ولوا امرہم امرأۃ، رواہ البخاری (وہ لوگ جنہوں نے اپنے معاملات کا ذمہ دارکسی عورت کوبنادیاہے کامیاب نہ ہوں گے (جوخبرہے یاانشاء یہ ہی طے نہیں)اورناقصات عقل ودین والی روایت کوبنیادبناکرعورت کوعلما ناقص العقل مانتے ہیں آج کا ذہن اِس کوتسلیم نہیں کرتا۔مذہبی حلقوں میں کہاجاتاہے کہ عورت کواعلی تعلیم کی ضرورت نہیں ہے اس کوتوگھرچلاناہے گھریلوکام کاج کی تربیت دینی چاہیے۔وہ محرم کے بغیرسفرنہیں کرسکتی۔اس کوکسی سیاسی،تعلیمی،معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔اسی طرح عورت کی امامت،عورت کی قیادت وغیرہ کے مسائل ہیں۔بغیرکسی قرآنی بنیادکے یہ مان لیاگیاہے کہ عورت کا دائرہ کارگھرہے اوراس سے باہروہ ضرورت کے وقت ہی نکلے گی۔

عصررسالت میں ایساکوئی ظاہرہ نہیں تھاکہ عورت ڈربہ میں بندنظرآئے وہاں تومعاشرہ میں اس کی چلت پھرت ہے اورخاتون پوری طاقت کے ساتھ معاشرہ کی تمام سرگرمیوں میں حصہ لے رہی ہے۔جنگ کے میدان میں نظرآتی ہے تعلیم وتعلم کے میدان میں اورمارکیٹ میں بھی اپناکرداراداکررہی ہے۔(۱۵)آج جسمانی سے زیادہ عقلی صلاحتیوں کی ضروت ہوتی ہے کیونکہ انسانی زندگی کومشین کنٹرول کررہی ہے جس میں عورت مردسے پیچھے نہیں ہے ایسے میں مردوعورت میں تفریق کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آتی ہے۔اسلام میں عورتوں کے حقوق وذمہ داریوں کے سلسلہ میں جولٹریچرلکھاگیاہے اُس پر بڑااعتراض یہ ہے کہ وہ ایکPatriarchal(پدرسری)سوسائٹی کا بیانیہ ہے جس میں عورت کی حیثیت دوسرے درجہ کی ہے۔اس سوال کوایڈریس کرنے کی ضروت ہے۔(۱۶)

جدید کاسمولوجی کا چیلنج اور اسلام

موجودہ دورمیں علم کلام کی طرف پھرویسے ہی توجہ واعتناکی ضرورت ہے جیسے کہ ماضی کے ائمہ وعلمانے کی تھی،لیکن آج ہماری ساری توجہ فقہ کی طر ف ہوگئی ہے۔اس چیز کی اہمیت ہمارے سامنے اس وقت واضح ہوتی ہے جب ہم معاصردنیامیں مذہب اورسائنس کے تعامل پر غورکرتے ہیں۔جدید کاسمولوجی جوسائنس وٹیکنالوجی نے تشکیل دی ہے اس نے مذہب کے روایتی موقف پر جوسوال کھڑے کردیے ہیں ان پر غورفکرکرتے ہوئے پہلااصولی مسئلہ یہ سامنے آتاہے کہ آج ارسطوکا وہ ورلڈ ویوجوسترہ صدیوں تک دنیاپر چھایارہا مسترد ہوچکا ہے۔اْس ورلڈویومیں زمین کائنات کامرکز تھی۔ وہ ساکن تھی،سورج اس کے گردچکرلگاتا تھا(پرانی ادبیات میں اسی لیے آسمان کو گردوں کہتے تھے)کائنات ارضی کا مرکزتوجہ،مخدوم اورامین انسان تھا بعض لوگ اس کوخلافت ارضی سے بھی تعبیرکرتے ہیں۔اس ورلڈ ویومیں اسلام کے حامی اورمخالف دونوں ایک ہی پیچ پر تھے۔

آج جوورلڈ ویودنیاکورول کررہاہے وہ گلیلیو،ڈیکارتے،نیوٹن،ہبل اورآئن اسٹائن وغیرہ کے نظریات اورتحقیقات پر مبنی ہے۔اس ورلڈ ویوکے مطابق زمین سورج کے گردگھومتی ہے،سورج اوردوسرے ستارے وسیارے اپنے اپنے محورپر گردش میں ہیں۔انسان کوکوئی خاص پوزیشن اس زمین پر حاصل نہیں۔بلینیوں کہکشاؤں پر محیط اس کائنا ت میں خودزمین ایک نقطہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ارتقاء اوراب بگ ہسٹری کے تصورات نے مذہب کے نظریہ تخلیق اورانسان کی خصوصیت کوختم کرکے رکھ دیاہے۔بگ بینگ یانیچرل ارتقاء پر مبنی یہ تاریخ بتاتی ہے کہ نہ اس کائنات کا کوئی مقصدہے اورنہ انسان کی تخلیق کا کوئی مقصدہے۔یہ کائنا ت ومافیہاسب نیچرکے اندھے قوانین کے تحت وجودمیں آئی اوران ہی قوانین کے تحت اپنے آپ بے مقصدختم بھی ہوجائے گی۔ایسے میں خداکا وجود، حشرنشرآخرت وغیرہ کے تصورات سب غیرسائنسٹفک تصورات قرارپاتے ہیں۔مولاناوحیدالدین خاں کے ہاں اِس کے بارے میں غیرمرتب کام اورابتدائی درجہ کا کام موجودہے مگراس بہت آگے بڑھانے کی ضرورت ہے جس کی طرف انجینئرسیدسعادت اللہ حسینی نے توجہ دلائی ہے۔(۱۷)

مذہب انسان کی جوتاریخ اورکہانی بتاتاہے وہ پانچ چھ ہزارسال سے پیچھے نہیں جاتی جبکہ بگ بینگ اورنیچرل ارتقاء پر مبنی تاریخ عظیم بتاتی ہے کہ کائنا ت کی عمرقریبا۱۳،ارب سال ہے۔اس کے مطابق ہماری زمین سات ارب سال پہلے بنی اوراس پر زندگی کا وجودپانی میں تقریباچارارب سال پہلے ہوا۔لائف نے مختلف ارتقائی منازل سے گزرکربلینوں سال پہلے حیوانی قالب اختیارکیا۔ارلی مین اورنیندرتھیل وجودمیں آتے ہیں لاکھوں سال کے گزرنے اورنیچرل سیلیکشن سے گزرتے ہوئے وہ ہنٹنگ گیدرنگ کے مرحلہ میں پہنچتاہے۔ایک لاکھ نوے ہزارسال ہنٹنگ اورگیدرنگ کے مرحلہ میں رہنے کے بعدوہ آئس ایج،حجری زمانہ سے گزرکرزراعت کے دورمیں داخل ہوااورایک متمدن معاشرہ کی بنیادپڑی۔زراعت کے بعدموجودہ صنعتی معاشرہ وجودمیں آیا۔

تاریخ عظیم کی یہ کہانی بتاتی ہے کہ بایولوجی کے اعتبارسے مردوعورت میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔مختلف معاشروں میں ہم جوفرق ان دونوں میں دیکھتے آئے ہیں وہ اصل میں کلچرل مؤثرات کی وجہ سے ہے اس کی کوئی حقیقی وجہ نہیں۔ہوموسپین کے مصنف کا کہناہے کہ:

”انسانی سماج میں مردکے وظائف،عورت کے وظائف اوراس سے بھی آگے بڑھ کرانسانی جسم کے مختلف اعضاء کے بامقصدوظائف کا تصوراَن نیچلرل ہے۔وہ اصل میں مسیحی تھیولوجی سے آیاہے ورنہ بایولوجیکلی کسی چیز کا کوئی مقصداورہدف نہیں ہوتا۔مردقوام ہے اورعورت گھرکی ملکہ ہے وغیرہ تصورات اصل میں انسانی Imagination کے ساختہ ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ انسان بنیادی طورپر چیزوں کوimagine کرتاہے۔چنانچہ یہ انسانی کلچر،ثقافت وتہذیب،مذہب وروحانیت،اخلاقی احساس وغیرہ یہ سب اس کی imagination کا نتیجہ ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں“۔(۱۸)

یہ کاسمولوجی کہتی ہے کہ تاریخ blindly سفرکرتی ہے اوراس کائنات اوراس پر زندگی کا کوئی مقصدنہیں،ایک دن یہ یونہی Blindly ختم بھی ہوجائے گی۔ ظاہرہے کہ یہ جوبیانیہ ہے یہ اپنے اندرمذہب،وجودباری تعالی وغیرہ کے کتنے بڑے چیلنج رکھتاہے اورہماری اس فتنہ سے مقابلہ کی تیاری کیسی ہونی چاہیے یہ کسی پر مخفی نہیں ہوناچاہیےے۔

اورایک مسئلہ مغربی سائنس وٹیکنالوجی کایہ ہے کہ آج جینیٹک انجنیئرنگ کے ذریعہ یعنی انسانی جینوم کوکنٹرول کرنے کے پروگرواموں کے ذریعہ یہ کوشش کی جارہی کہ اپنے من پسندانسان پیداکیے جاسکیں۔کلوننگ کا عمل جوشروع میں ڈولی نامی بھیڑپر کیاگیااوراس کا ہمزاد پیدا کیا گیاتھااب بات اس سے بہت آگے بڑھ چکی ہے اورپیڑپودوں،سبزیوں اوراناجوں سے گزرکراب حریم انسانی اس کی زدمیں آیاچاہتاہے۔جاپان میں مردوں کی آخری رسومات ایک روبوٹ انجام دے رہاہے،جرمنی میں چرچ کے اندرایک روبوٹ پادری کلیسائی مذہبی فرائض انجام دے رہاہے یعنی AIآرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ذریعہ روبوٹ اب محض مشینی آلا ت نہ رہ کرانسانی ذہن وشعورکے حامل بھی ہوں گے اوروہ دن دورنہیں جب ہمارے امام ومؤذن روبوٹ ہواکریں گے۔کبھی فلموں میں اورفکشن میں روبوٹک بیویوں کی بات آیاکرتی تھی مگراب تووہ سچائی بن کرانسانوں کے سامنے آنے والی ہے۔ توسوال ہماری فقہ کے سامنے یہ ہوگاکہ روایتی معاشرتی احکام اِن نئے قسم کے اورانوکھی نوعیت کے انسانوں پر کس طرح لاگوہوں گے؟کیاوہ سِرے سے شریعت کے مخاطب بھی رہ جائیں گے یانہیں؟یاان کے لیے کوئی اورہی فقہ ڈولپ کی جائے گی؟(۱۹)

یہ آٹومیشن ایج اب آچکاہے جس میں نانوٹیکنولوجی پر مبنی آلات وسائل انسانی زندگی کوگورن کریں گے۔مسئلہ صرف اس کے مظاہرکے عام لوگوں کے دسترس میں آنے کا ہے جس میں اب زیادہ دیرنہیں لگے گی۔(۲۰)

انسانی زندگی میں مختلف جذبا ت کی بڑی اہمیت ہے اوربہت سے احکام بھی انہیں جذبات مثلاٰمحبت والفت،رحم ومہربانی،نفرت وکراہمیت،غصہ وحسدوغیرہ کی بنیادپر وجودمیں آتے ہیں۔انسانی تہذیب ان کی بنیادپر ترقی کرتی ہے،سماجی رشتے ان سے بنتے بگڑتے ہیں۔اب ڈرگس اوردواؤں کے ذریعہ ان کوجذبات کوختم کرنے،ان کوکنٹرول کرنے یاان کوبدل دینے کی بات کی جارہی ہے۔حتی کہ ایک بڑاپروجیکٹ اس پر تحقیق کررہاہے کہ موت کاخاتمہ انسان کی زندگی سے کردیاجائے۔انسان کی زندگی کا دورانیہ بڑھادیاجائے وہ ہمیشہ جوان رہے اُسے کوئی مرض لاحق نہ ہووغیرہ۔اگرایساکسی بھی درجہ میں ہوجاتاہے تو اس سے روایتی فقہی احکام پر کیااثرپڑے گاکیاان چیزوں کوتغییرِخلق اللہ کی قبیل سے سمجھاجائے گایانہیں؟ہمارے علما گزشتہ سوسال سے بھی زیادہ عرصہ سے تصویرکے مسئلہ سے الجھے ہوئے ہیں کہ آیافوٹومیں کسی شیئی کی حقیقت خودآجاتی ہے یااس کا عکس آتاہے؟تصویراگرسرکٹی ہوتوجائزہوگی یانہیں؟ڈیجیٹل کیمرے سے لیے گئے فوٹوپر حدیث میں آئی وعیدکا اطلاق ہوگایانہیں وغیرہ۔سوال یہ ہے کہ اب سائنس وٹیکنالوجی جس دنیاکوسامنے لارہے ہیں اس میں ہمارے یہ فقہی قواعدوضوابط کچھ کام دیں گے؟فی الحال کیتھولک چرچ کی مخالفت کی وجہ سے اورکچھ اوراسباب سے بعض ملکوں میں سائنس کوکچھ پابندکیاگیاہے اوراس کی تحقیقات پر کچھ قدغنیں عائدکی گئی ہیں مگرتابکے؟جب یہ جن بوتل سے باہرآئے گاتونطشے نے توGod is dead کہ دیاتھامستقبل قریب کا انسان فرعون کی زبان میں کہے گاکہ ”میں پیداکرتاہوں اورمارتاہوں اس لیے میں ہی خداہوں“۔یعنی سائنس داں ہی اناربکم الاعلی کا نعرہ لگائے گا۔

یہ نئی کاسمولوجی اورجدیدٹیکنالوجی کے وہ پہلوہیں جوارتقااورنیچرل ہسٹری کی بنیادپرمذہب کے بالمقابل کائنات کے آغازوارتقاء اورزندگی کی تخلیق کا نیابیانیہ ہمارے سامنے لارہاہے۔(۲۱)یہ چیز اپنے اندرمذہب کے لیے کتنے خطرے لیے ہوئے ہے ہماری معروضات سے یہ بات کسی حدتک سامنے آجاتی ہے۔اب اہل مذہب کوسوچنایہ ہے کہ اس خطرے سے مقابلہ کی کیاتیاری ان کے پاس ہے؟آج کا الحادسائنس کی بنیادپر کھڑاہے،ڈارون کا نظریہ ارتقاء سائنس دانوں کی اکثریت کے نزدیک ثابت شدہ ہے جبکہ مسلمان اہل دانش نے نظریہ ارتقاء کے علمی مطالعہ سے بہت کم اعتناکیاہے۔(۲۲)

ہندوستان:

وطن عزیز ہندوستان میں انڈونیشیاکے بعدمسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی رہتی ہے۔ان کوگوناگوں مسائل ومشکلات کا سامناہے جس کا ایک پہلویہ ہے کہ آج کا پڑھالکھاہندوطبقہ اس بات پر بہت زوردیتاہے کہ ہندودھرم چونکہ کسی کتاب کسی نبی اورکسی شریعہ (قانون)پرمبنی نہیں اس لیے اس میں بڑی رواداری،برداشت،تسامح،وسعت نظری اورفراخ دلی پائی جاتی ہے۔یہ مذہب اپنی نہادمیں سیکولرہے اورمتضادلوگوں اورچیزوں کواپنے میں سمونے اورساتھ لیکرچلنے کی صلاحیت رکھتاہے۔یہاں تک کہ جوشخص خداکونہ مانتاہواورمذہب میں یقین نہ رکھتاہووہ ہندوہوسکتاہے۔ہندومذہب کا یہ بیانیہ سیٹ کرنے میں سیکولراورانتہاپسندہندودونوں ایک ہی پیج پرہیں۔مشرکانہ مذاہب کا یہ تصورکہ وہ کسی institutionalizedمذہبی روایت پر قائم نہیں بہت سے مغربی ملحدوں کوبھی بہت بھاتاہے اوروہ اس کے اس پہلوکی بڑی تعریف کرتے ہیں مثال کے طورپر مشہورمؤرخ اورماہرمستقبلیات یوال نواحراری نے بھی اس کی بڑی تعریف کی ہے اورابراہمی مذاہب کے مقابلہ میں مشرکانہ مذاہب کوفوقیت دی ہے۔(۲۳)یہ تصورجوطرح طرح کی پابندیوں سے عبارت مذہیبت سے بے زارلوگوں کی اکثریت کواپیل کرتاہے حقیقت میں گمراہ کن ہے اس لیے اس نکتہ پر علمی وتاریخی بحث اوراس کی تردیدکی خاص ضرورت ہے۔


حواشی و حوالے:

(۱) ملاحظہ ہو:مولاناسیدابوالاعلی مودودی اسلامی ریاست،مرتبہ خورشیداحمداسلامک پبلیکیشنزپرائیویٹ لمیٹڈای ۱۳ شاہ عالم مارکیٹ لاہورص 502،

(۲) ایضاص 379

(۳) ڈاکٹراسرار مختلف مروجہ نطامہائے سیاست اوران کی ظاہری صورتوں کے بارے میں کہتے ہیں: ”خلافت کا نظام صدارتی نظام سے قریب ترہے ……میں ہمیشہ کہتاآیاہوں کہ پارلیمانی اورصدارتی دونوں نظام جائزہیں،وحدانی unitary نظام وفاقی federalنظام اورکنفیڈرل confideralسب جائز ہیں ……دنیامیں کئی سیاسی نظام چل رہے ہیں وحدانی صدارتی وفاقی صدارتی،وفاقی صدارتی (جیسے امریکہ میں ہے)کنفیڈرل صدارتی،پھرپارلمانی،وفاقی پارلیمانی اورکنفیڈرل پارلیمانی یہ چھ کے چھ جائزہیں“۔دیکھیں ڈاکٹراسراراحمد، پاکستان میں نظام خلافت،امکانات خدوخال اوراس کے قیام کاطریقہ کار صفحہ 36 مطبوعات تنظیم اسلامی پاکستان

(۴) حقوق المواطنہ فی الاسلام میں ڈاکٹرراشدغنوشی نے اِس مبحث کوکافی اجاگرکیاہے اورتیونس میں اسے اختیارکرنے کی کوشش بھی کی ہے مگردوسرے ممالک کی اسلامی تحریکوں میں ابھی اس خیال کی پذیرائی نہیں ہوئی۔البتہ پروفیسرنجات اللہ صدیقی بھی اسی رائے کے حامی ہیں۔ملاحظہ ہو:اسلامی فکرچندتوجہ طلب مسائل،شائع کردہ ہدایت پبلیکیشنز نئی دہلی، مولانا مودودی (اسلامی ریاست)مولاناسیدجلال الدین عمری،(غیرمسلموں کے حقوق مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی،)عبدالکریم زیدان احکام اہل الذمہ فی الاسلام نیز وہبہ الزحیلی (الفقہ الاسلامی وادلتہ جلد۷)کی بحثوں سے جدیدذہن کی تشفی کا سامان نہیں ہوتا۔ اس ضمن میں یوسف القرضاوی کی آراء (فقہ الجہاد)بہت سے پہلوؤں پر نیاراستہ کھولتی ہیں۔

(۵)تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو،ڈاکٹرعبدالحق انصاری،سیکولرازم،جمہوریت اورانتخابات صفحہ 6-7)

Secularism Adn Islam Musheerul haq مکتبہ جامعہ لمیٹڈ

مولاناوحیدالدین خاں،فکراسلامی گڈورڈنظام الدین ویسٹ نئی دہلی،جاویداحمدغامدی، اسلام اورریاست ایک جوابی بیانیہ مقامات طبع 2019المورد(ہند)

(۶) مولاناعنایت اللہ سبحانی،تبدیلی ئمذہب اوراسلام،،ادارہ احیاء دین بلریاگنج،جنوری 2002طہٰ جابرالعلوانی اشکالیۃ الردۃ فی الاسلام،ڈاکٹرمحمدغطریف شہبازندوی اسلام اورتبدیلی مذہب کا مسئلہ بعض نئے مطالعات کی روشنی میں،اشراق لاہورستمبر2018

Blasphemy Laws Have Turned Muslim Countries into Killing Fields -7

Newageislam12 October 2021(https://www.newageislam.com/)

(۸)تفصیل کے لیے دیکھیں:مولاناعمارخان ناصرحدودوتعزیرات،الموردلاہور

(۹) مولاناوحیدالدین خان شتم رسول کا مسئلہ گڈورڈ نظام الدین نئی دہلی،جاویداحمدغامدی میزان الموردفاؤنڈیشن لاہوراورمولاناعمارخان ناصرحدودوتعزیرات،الموردلاہور

(۱۰) ملاحظہ ہوان کی کتاب: جہاداورروح جہاداورجہاداورآیات جہادہدایت پبلشرزنئی دہلی)

(۱۱) اس پر تفصیلی گفتگوکے لیے دیکھیں:عبدالحمیداحمدابوسلیمان:

Towards An Islamic Theory of International Relations: New Directions for Islamic Methodology and Thought Washington: IIIT, 1993.

اوریوسف القرضاوی:فقہ الجہادالجزء الاول مکتبہ وہبہ

(۱۲) ملاحظہ کریں:الشیخ عبداللہ بن محفوظ بن بیہ مشاہدمن المقاصدرمؤسسۃ الاسلام الیوم الطبعۃ الاولی 2010سعودی عربیہ اورنجات اللہ صدیقی،مقاصدشریعت مرکزی مکتبہ اسلامی نئی دہلی)یوسف القرضاوی کتاب الدین والسیاسۃ،خاص طورپر باب الاقلیات الاسلامیۃ والسیاسۃ

(۱۳) ملاحظہ ہویوسف القرضاوی کتاب الدین والسیاسۃ،خاص طورپر باب الاقلیات الاسلامیۃ والسیاسۃ۔

(۱۴) دیکھیں:تحریرالرسالہ فی عصرالرسالہ،عبدالحلیم ابوشقہ اوراس کی تلخیص (ڈاکٹرعبداللہ الکبیسی)کا اردوترجمہ شائع کردہ جوگائی بائی نئی دہلی نیز شیخ البانی کی کتاب:حجاب المرأۃ المسلمۃ

(۱۵) پروفیسریسین مظہرصدیقی،رسول اکرم اورخواتین ایک سماجی مطالعہ اسلامک بک فاؤنڈیشن نئی دہلی

(۱۶) ضرورت ہے کہ اسلامی فیمنزم کی اسکالر داعیوں امینہ ودود،سعدیہ یعقوب وغیرہ پر فتوے وغیرہ لگانے کی بجائے ان کوengage کیاجائے اوران سے ڈائلاگ کیاجائے۔

(۱۷) ملاحظہ کریں امیرجماعت اسلامی انجینئرسیدسعادت اللہ حسینی کا مقالہ:تحریکی لٹریچراور درپیش علمی معرکہ ماہنامہ ترجمان القرآن لاہورمارچ 2016

(۱۸) Yuval Noah Harihi Sapiens A brief History of Humankind p:122 Vintage Books London 2011

(۱۹) ڈاکٹرمحمدغطریف شہبازندوی،کائنات کا آغازوارتقاء:قرآنی بیانات اورسائنسی حقائق میں تطبیق کی راہ(تین قسط)ماہنامہ اشراق (ہند)مئی،جون جولائی 2021 الموردہندفاؤنڈیشن

(۲۰) ملاحظہ ہو:سعادت اللہ حسینی امیرجماعت اسلامی کا مقالہ:تحریکی لٹریچراور درپیش علمی معرکہ ماہنامہ ترجمان القرآن لاہورمارچ 2016اورابویحیٰ کا مقالہ چوتھاصنعتی انقلاب یاآٹومیشن ایج اشراق ستمبر2021

(۲۱) ملاحظہ کریں:غطریف شہبازندوی،جدیدکاسمولوجی کا چیلنج اورفکراسلامی اشراق لاہوراکتوبر2019

(۲۲) دیکھیں:شعیب احمدملک /غطریف شہبازندوی اسلام اورنظریہ ارتقاء:ایک مختصرجائزہ تجدیدشش ماہی جولائی دسمبر2019شمارہ ۲ جلد:۱انسٹی ٹیوٹ آف ریلیجس اینڈسوشل تھاٹ شاہین باغ جامعہ نگرنئی دہلی اورنظریہ ارتقاء کے تفصیلی مطالعہ کے لیے:ڈاکٹرمحمدرضوان ماہنامہ زندگی نو(جنوری 2021اوراس کے بعدکی متعدداقساط)نئی دہلی

(۲۳)۔ملاحظہ کریں Yuval Noah Harihi Sapiens A brief History of Humankind p:239 Vintage Books London 2011

اسلام اور عصر حاضر

(دسمبر ۲۰۲۱ء)

تلاش

Flag Counter