’’جسٹس فائز عیسیٰ نے سوات میں جائیداد کی تقسیم سے متعلق کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ کوئی عدالت یا جرگہ وراثتی جائیداد کی تقسیم کے شرعی قانون کو تبدیل نہیں کر سکتی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس یحییٰ آفریدی پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی، دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ جرگے کے فیصلے کے ذریعے دین الٰہی کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا، جائیداد کی تقسیم سے متعلق دستاویزات پر سات سالہ بچے کے انگوٹھے کا نشان لگایا گیا، ایسی دستاویزات کے ذریعے قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں، پاکستان میں سچ بولنے کے حالات کا سب کو علم ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا جس علاقے کی زمینی حقیقت کی آپ بات کر رہے ہیں وہاں تو عورت کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا، زمینی حقائق دیکھتے دیکھتے فوجی آمروں نے ملک میں مارشل لاء لگا دیے۔ فاضل جج نے کہا کہ سعودی عرب میں جائیداد کی تقسیم کا فیصلہ ایک دن میں ہوتا ہے، پاکستان میں جائیداد کی تقسیم کا فیصلہ ہوتے ہوتے چالیس سال لگ جاتے ہیں، جائیداد کی تقسیم کا اصول ساڑھے چودہ سو سال پہلے طے ہو چکا ہے۔ این، این، آئی کے مطابق عدالت نے سوات کے حبیب اللہ مرحوم کی جائیداد کو تمام قانونی ورثاء کے مابین شرعی اصول کے مطابق تقسیم کرنے کا حکم دیا اور جائیداد کی تقسیم سے متعلق نچلی عدالتوں کے تینوں فیصلے کالعدم قرار دے دیے۔‘‘
یہ خبر خود کو بار بار پڑھنے کا تقاضا کر رہی ہے اور ہمارے ملک میں عدالتی نظام عورتوں کی مظلومیت اور شرعی احکام کو نظر انداز کرنے یا تبدیل کرنے کے حوالہ سے معروضی صورتحال کی عکاسی کرتی ہے۔ ہم نے قیام پاکستان کے وقت قرآن و سنت کی عملداری اور شرعی قوانین کے نفاذ کا فیصلہ بڑے جوش و جذبہ کے ساتھ کیا تھا مگر اس کے لیے معاشرتی ماحول کو تیار کرنے اور عدالتی نظام کو اس کے تقاضوں کے مطابق از سر نو تشکیل دینے کا کام ابھی تک ہم نہیں کر پائے۔ بلکہ برطانوی دور کا وہی نو آبادیاتی جوڈیشری سسٹم ہمارے ہاں بدستور مصروف کار ہے اور ہم اس میں وقتاً فوقتاً چھوٹے چھوٹے جوڑ لگانے کے علاوہ اس کے بنیادی ڈھانچے میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکے۔ فاضل جج نے اپنے ریمارکس میں سعودی عرب میں جائیداد کی تقسیم کا معاملہ ایک دن میں طے ہونے کا ذکر کیا ہے اور پاکستان میں ایسے معاملات میں چالیس چالیس سال گزر جانے کی شکایت کی ہے جو درست اور زمینی حقائق کے مطابق ہے۔ مگر اس کے ساتھ اس وضاحت کی بھی ضرورت ہے کہ سعودی عرب کا عدالتی نظام اسلامی اصولوں کے مطابق شرعی احکام و قوانین کے نفاذ کی ذمہ داری کے ماحول میں تشکیل دیا گیا ہے جس کے باعث نہ صرف مقدمات کے بروقت اور جلد فیصلے ہوتے ہیں بلکہ جرائم اور لاقانونیت کی شرح بھی دوسرے ممالک کی بہ نسبت بہت کم ہے۔ چونکہ وہاں قضا کا نظام ہے اور قرآن و سنت کو بنیادی قانون کی حیثیت حاصل ہے اس لیے وہاں کے عدالتی نظام کا حوالہ دینے کی ایسے ہر موقع پر خود ہمیں بار بار ضرورت پیش آتی ہے۔
اسی طرح جسٹس موصوف کا یہ ارشاد بھی پوری قوم کی خصوصی توجہ کا طالب ہے کہ کوئی جرگہ یا عدالت شرعی قوانین میں ردوبدل کی مجاز نہیں ہے اور شرعی احکام و قوانین وہی ہیں جو ساڑھے چودہ سو سال قبل طے ہوچکے ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں قیام پاکستان کے بعد سے مسلسل یہ تگ و دو جاری ہے کہ کسی نہ کسی طرح شرعی قوانین اور قرآن و سنت کے احکام کو آج کے عالمی ماحول، ہمارے علاقائی رجحانات اور طبقاتی مفادات کے سانچے میں ڈھال لیا جائے۔ اس کے لیے بین الاقوامی معاہدات کے تحت ہونے والی مسلسل قانون سازی کے علاوہ کم و بیش ہر طبقہ کے کچھ دانشوروں کی طرف سے قرآن و سنت کے قوانین کی تعبیر نو اور بے جا تاویلات و تحریفات کی مشق بھی اسلامی قوانین کی ’’ویسٹرنائزیشن‘‘ کی مہم کا حصہ ہے جس کی طرف راسخ العقیدہ مسلمان دانشوروں کو زیادہ توجہ دینی چاہئے۔
اس کے ساتھ ہی عورت کی مظلومیت کا مسئلہ بھی بطور خاص لائق توجہ ہے کیونکہ ہمارے ہاں عورت ایک طرف مغرب کی مادر پدر آزاد ثقافت کی زد میں ہے اور دوسری طرف علاقائی روایات و رواجات اور قبائلی تقاضوں نے اس مظلوم طبقہ کے گرد پابندیوں اور قدغنوں کا حصار قائم کر رکھا ہے جس سے عورت کو ان دونوں انتہاؤں سے نجات دلا کر اسلامی تعلیمات اور خلافت راشدہ کے ماحول کے مطابق فطری آزادی اور حقوق سے بہرہ ور کرنے کا کام بھی ہمارے ہاں ابھی تشنہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان اہم امور کے حوالہ سے اپنے فرائض صحیح طور پر سر انجام دینے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔