علم ِرجال اورعلمِ جرح و تعدیل (۵)
اہل سنت اور اہل تشیع کی علمی روایت کا ایک تقابلی مطالعہ

مولانا سمیع اللہ سعدی

  • امام ابن ابی حاتم رازی الجرح و التعدیل میں رقم طراز ہیں :
شداد بن سعيد أبو طلحۃ الراسبي روی عن أبي الوازع جابر بن عمرو وغيلان بن جرير وسعيد الجريري روی عنہ أبو معشر البراء وحماد بن زيد وابن المبارك وحرمي بن عمارۃ ومسلم بن إبراہيم وأبو الوليد وسعيد بن سليمان البصري سمعت أبي يقول ذلك.
قال أبو محمد وروی عن قتادۃ ومعاويۃ بن قرۃ ۔ ويزيد بن عبد اللہ بن الشخير روی عنہ إسماعيل ابن عليۃ ووكيع وأبو سعيد مولی بني ہاشم وحجاج بن نصير والنضر بن شميل
حدثنا عبد الرحمن أنا عبد اللہ ابن أحمد [بن حنبل ۔ فيما كتب إلی قال قال أبي: أبو طلحۃ شداد شيخ ثقۃ روی عنہ ابن عليۃ ووكيع.
حدثنا عبد الرحمن قال ذكرہ أبي عن إسحاق بن منصور عن يحيی بن معين أنہ قال: شداد بن سعيدالراسبی ثقۃ1

اس ترجمہ میں بھی امام ابو حاتم نے مذکورہ راوی کے اہم اساتذہ و تلامذہ کی فہرست دی ہے، اہل سنت کے علم رجال کی کوئی کتاب اٹھائیں، اس میں راوی کے اساتذہ و شیوخ کی فہرست ملے گی، انہی فہارس کی مدد سے محدثین ارسال و انقطاع، اتصال و اسناد، طبقہ و عصر ِ راوی اور شیوخ حدیث سے لقاء و عدم لقاء کا پتا لگاتے ہیں اور ان کی مدد سے احادیث پر احکام لگاتے ہیں ۔

اس کے برعکس جب ہم اہل تشیع کے کتب رجال کو دیکھتے ہیں، تو حیرت انگیز طور پر یہ فہرستیں رجال کی کتب سے غائب ہیں، خال خال کسی استاذ یا شاگرد کا ذکر ملتا ہے، کتب رجال سے شواہد پیش کرنے سے پہلے تین جلیل القدر شیعہ محققین کی اس بابت رائے پیش کی جاتی ہے :

  • معروف شیعہ محدث اور معاصر شیعہ محقق شیخ جعفر سبحانی کے نزدیک شیعہ رجالی تراث اساتذہ و تلامذہ کی معرفت کے حوالے سے ناکافی ہے، چنانچہ شیخ سبحانی اپنی مشہور کتاب "کلیات فی علم الرجال " میں لکھتے ہیں :
"وربما سقط الراوي من السند من دون أن يكون هناك ما يدلنا عليه، وعلى ذلك يجب أن يكون الكتب الرجالية بصورة توقفنا على طبقات الرواه من حيث المشايخ والتلاميذ، حتى يقف الباحث ببركة التعرف على الطبقات، على نقصان السند وكماله، والحال أن هذه الكتب المؤلفة كتبت على حسب حروف المعجم مبتدأة بالألف ومنتهية بالياء، لا يعرف الانسان عصر الراوي وطبقته في الحديث، ولا أساتذته ولا تلامذته إلا على وجه الاجمال والتبعية، وبصورة قليلة دون الاحصاء"2

ترجمہ :اور کبھی سند سے کوئی راوی گرجاتا ہے، جبکہ کوئی ایسا قرینہ نہیں ہوتا، جو اس راوی کے سقوط پر دلالت کرے، تو اس صورت میں ضروری ہے کہ کتب رجال ہمیں رواۃ کے طبقات اور مشائخ و تلامذہ سے واقف کرا سکیں، تا کہ ان کتب کو دیکھنے والا طبقات مدد سے سند میں موجود نقص یا کمال کا پتا لگا سکے، جبکہ حالت یہ ہے کہ یہ کتب رجال، جو معجم کی طرح الف سے شروع ہو کر یا پر ختم ہوتی ہیں، ان کتب سے راوی کے زمانے اور حدیث میں اس کے طبقے کا کسی کو پتا نہیں چل سکتا، راوی کے اساتذہ نہ تلامذہ، سوائے اجمالی طور پر محض برائے تذکرہ، وہ بھی بہت ہی کم تعداد کا، اساتذہ و تلامذہ کا احاطہ ان کتب میں نہیں کیا گیا ہے ۔

  • شیعہ علم حدیث و رجال پر گرانقدر تحقیقات و تصنیفات کی حامل شخصیت ، معروف شامی شیعہ محقق شیخ حیدر حب اللہ اپنی مفصل کتاب "المدخل الی موسوعۃ الحدیث عند الامامیہ " میں لکھتے ہیں :
إنّ الحديث عن عدم ذكر الإماميّة لتواريخ الرواة من حيث الوفاة، يمكن القول بأنّه صحيح في الجملة، فالإماميّة يعتمدون في الغالب على تحديد الطبقة من خلال معاصرة الراوي لأحد الأئمة الاثني عشر، كما هي الحال مع كتاب الطبقات للبرقي وكتاب الرجال للشيخ الطوسي، ويذكرون في أحيان كثيرة تاريخ الوفاة، كما يعتمدون أيضاً في تحديد طبقة الراوي على الراوي والمرويّ عنه، وهي طريقة ذكرها المحدّثون من أهل السنّة كابن الصلاح وكان للمزي في تهذيب الكمال خدمات جليلة فيها.وفي تجربتنا الخاصّة في تخريج الأحاديث النبويّة عند الإماميّة لاحظنا إمكانية سدّ هذه الثغرة من خلال الرجوع إلى سائر مصادر التراجم والتاريخ وكتب الرجال عند أهل السنّة والشيعة معاً.3

ترجمہ:یہ بات کہ امامیہ نے رواۃ کے تواریخ وفات ذکر نہیں کئے، فی الجملہ درست قرار دی جاسکتی ہے، لھذا امامیہ رواۃ کے طبقات کی تحدید میں عموما اس پر اعتماد کرتے ہیں کہ راوی ائمہ (معصومین) میں سے کسی ایک کے معاصر ہے ، جیسا کہ اسی طرح برقی کی کتاب الطبقات اور شیخ طوسی کی کتاب الرجال ہے، بہت سی جگہوں میں تاریخ وفات بھی ذکر کرتے ہیں، نیز طبقہ کی تحدید میں راوی و مروی عنہ پر بھی اعتماد کرتے ہیں، یہ طریقہ اہل سنت محدثین جیسے ابن صلاح اور بالخصوص امام مزی نے تہذیب الکمال میں اس حوالے (راوی و مرونی عنہ کی تعیین )سے گرانقدر خدمات سر انجام دی ہیں، امامیہ کی احادیث کی تخریج کے سلسلے میں ہمارے تجربے کے مطابق اس خلا کو پر کرنا ممکن ہے کہ تراجم، تاریخ اور شیعہ و سنی رجال کی جملہ کتب کی طرف اس سلسلے میں رجوع کیا جائے ۔

اس عبارت میں حیدر حب اللہ نے راوی و مروی عنہ کی تعیین کو اہل سنت محدثین کا طریقہ قرار دیا ہے اور اہل سنت کی کتب کا اس سلسلے میں ذکر کیا ہے، اگر شیعہ کتب رجال میں راوی و مروی عنہ کی تعیین کے حوالے سے وافر مواد موجود ہوتا، تو حیدر حب اللہ اسے صرف اہل سنت محدثین کا طریقہ کار قرار نہ دیتے اور شیعہ کتب کا بھی ذکر کرتے ۔

  • شیعہ علمائے رجال میں ایک معروف نام اور شیعہ مکتب میں مرجعیت کے مقام پر فائز شخصیت سید حسین طباطبائی بروجردی اپنی کتاب " ترتیب اسانید الکافی " میں لکھتے ہیں :
"ما صنف علماءنا فی فنی الرجال و تمیز المشترکات رایت ان الطائفة الاولی من ھذا الکتب نقائص، لاھمالھا ذکر کثیر ممن تضمنتہ الاسانید من اسماء الرواۃ، وعدم تعرضھا فی تراجم من ذکر فیھا لبیان طبقته و شیوخه الذین روی عنھم و تلامذته الذین تحملو ا عنه، مع ان ھذہ االامورمن اھم ما له دخل فی الغرض من ھذ الفن4

ترجمہ : ہمارے اہل علم نے فن رجال و تمییز المشترکات میں جو کتب لکھی ہیں، ان کتب کے اولین مصادر میں متعدد نقائص ہیں، کیونکہ ان میں اسانید میں موجود بہت سے رواۃ کا ذکر متروک ہے، اور ان تراجم میں راوی کے طبقہ اور اس کے شیوخ و تلامذہ کا ذکر نہیں ہے، حالانکہ ان امور کا فن رجال کے اغراض میں اساسی دخل ہے ۔(یعنی فن رجال کے اہم ترین اغراض میں سے راوی کے طبقہ و شیوخ و تلامذہ کی تعیین ہے )

تین معتمد شیعہ محققین کے اعتراف کے بعد اگرچہ شیعہ کتب رجال سے حوالے پیش کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے، لیکن تحقیق کا تقاضا پورا کرنے کی خاطر سنی طرز پر شیعہ کی ایک اولین اور ایک متاخر مصدر رجال سے کچھ عبارات پیش کی جاتی ہیں تاکہ اس بات کی مزید وضاحت ہوجائے کہ شیعہ کتب رجال میں راوی کے اساتذہ و تلامذہ کی تعیین کے حوالے سے کس قدر مواد موجود ہے ۔

  • شیعی رجالی تراث کے اولین چار مصادر میں شمار ہونے والی رجال النجاشی میں مصنف احمد بن علی نجاشی رقم طراز ہیں :
الحسین بن اشکیب شیخ لنا خراسانی ثقة مقدم ذكره أبو عمرو في كتاب الرجال في أصحاب أبي الحسن صاحب العسكر ع روى عنهالعياشي فأكثر واعتمد حديثه ثقة ثقة ثبت قال الكشي هو القمي خادم القبر قال شيخنا قال لنا أبو القاسم جعفر بن محمد: كتاب الرد على من زعم أن النبي ص كان على دين قومه والرد على الزيدية للحسين بن إشكيب حدثني بهما محمد بن الوارث عنه وبهذا الاسناد كتابه النوادر5

اس ترجمہ میں شیخ نجاشی نے ایک ایسے راوی کا ذکر کیا ہے، جو ان کے نزدیک بھی ثقہ و معروف شیخ ہیں اور امام عمرو کشی نے بھی ان کو قابل اعتماد قرار دیا ہے، نیز شیخ عیاشی نے ان سے کثرت سے روایات لی ہیں، لیکن اس جیسے معروف شیخ و ثقہ راوی کے تلامذہ و اساتذہ کی کوئی فہرست پیش نہیں کی ہے، ہم نے قصدا ایسا ترجمہ تلاش کیا، جو ایک معروف شیخ، ثقہ راوی کا ہو، تاکہ کوئی ناقد یہ نہ کہہ دے کہ غیر معروف راوی کے اساتذہ و تلامذہ عموما ذکر نہیں کئے جاتے یا قلت حدیث کی وجہ سے اس کے قابل ذکر تلامذہ و شیوخ نہیں ہوتے، لھذا جب ایک معروف ثقاہت کے حامل شیخ کے اساتذہ و شیوخ کی فہرست نہیں دی گئی ہے، تو ان سے فروتر رواۃ کے تلامذہ و شیوخ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ہمارا دعوی یہ ہر گز نہیں ہے کہ شیخ نجاشی نے کسی بھی راوی کے تلامذہ یا اساتذہ بالکل ذکر نہیں کئے، دو چند تلامذہ و شیوخ کا ذکر بعض رواۃ کے ترجمے میں کرتے ہیں، لیکن ایک تو ہر راوی کے ترجمے میں ایسا نہیں کرتے، بلکہ خال خال کسی راوی کے شیوخ و تلامذہ ذکر کرتے ہیں، جبکہ اہل سنت مصادر، تہذیب الکمال و الجرح والتعدیل میں تقریبا (تقریبا کا لفظ اس لئے کہا کہ عین ممکن ہے، ان دو کتب میں ایسے ایک آدھ رواۃ مل جائیں، جن کے شیوخ و تلامذہ کی فہرست نہ ہو، لیکن ظاہر ہے اعتبار اکثریت کا ہوتا ہے )ہر راوی کے تذکرے میں ایسا کرتے ہیں، دوسرا جب کسی راوی کے شیوخ و تلامذہ ذکر کرتے ہیں، تو اس قدر استیعاب و تفصیل سے ذکر نہیں کرتے جیسا کہ اہل سنت کےمذکورہ دو محدثین تفصیل سے کام لیتے ہیں ۔

  • شیعہ رجال کی سب سے وسیع و محققانہ ڈائریکٹری معجم رجال الحدیث کے مصنف شیخ خوئی لکھتے ہیں:
• أحمد بن إسحاق بن سعد.
روى عن بكر بن محمد الأزدي، وروى عنه الحسين بن محمد. الكافي: الجزء، ٥، كتاب النكاح ٣. باب أنهن بمنزلة الإماء ٩٥، الحديث ٢، والتهذيب: الجزء ٧باب تفصيل أحكام النكاح، الحديث ١١١٦، والاستبصار: الجزء ٣، باب أنه يجوز الجمع بين أكثر من أربع في المتعة، الحديث ٥٣٥أقول: هو متحد مع ما بعده6.
• إبراهيم الحذاء:
روى عن أحمد بن عبد الله الأسدي، وروى عنه أحمد بن محمد.الكافي: الجزء ٦، الكتاب ٦، باب الخلال ١٣٢، الحديث ٤، وروى عن محمد بن صغير، وروى عنه محمد بن علي. الكافي: الجزء ٢
الكتاب ١، باب ما أخذه الله على المؤمن من الصبر ١٠٥، الحديث ٧. وروى، عنه أحمد بن محمد بن عيسى، باب فضل فقراء المسلمين ١٠٧، الحديث ١٦وروى عن فضيل، عن عثمان، وروى عنه أحمد بن محمد بن عيسى.
، التهذيب: الجزء ٥، باب الذبح، الحديث ٧٦٢ . ورواها في الاستبصار: الجزء ٢باب جواز أكل لحوم الأضاحي بعد ثلاثة أيام، الحديث ٩٧١، وفيه أحمد بن محمدابن عيسى، عن إبراهيم الحذاء، عن فضيل بن عثمان. وهو الموافق للوافي، وفي الوسائل: الفضل بن عثمان.7
• جعفر بن بكر:
روى عن عبد الله بن أبي سهل، وروى عنه علي بن الحسين التيمي.الكافي: الجزء ٥، كتاب المعيشة ٢، باب أن من السعادة أن يكون معيشة الرجلفي بلده ١٢٢، الحديث ٢، والتهذيب: الجزء ٧، باب الزيادات من كتاب التجارات، الحديث ١٠٣٢، إلا أن فيه علي بن الحسين فقط.8

ہم نے بالقصد معجم رجال الحدیث کی مختلف جلدوں سے تین الگ الگ تراجم نقل کئے، تاکہ امام خوئی کا راوی و مروی عنہ کے ذکر کرنے کا منہج ذرا وضاحت کے ساتھ سامنے آئے، امام خوئی نے اپنی کتاب میں راوی کے اساتذہ و شیوخ کا ذکر کرنے کا بڑا اہتمام کیا ہے، لیکن امام خوئی نے اساتذہ و تلامذہ کی یہ فہرست خود کتبِ حدیث سے نقل کی ہے، چنانچہ اسی وجہ سے جب وہ راوی کے کسی شیخ یا شاگرد کاذکر کرتے ہیں، تو اس کے ساتھ کتب اربعہ یا دیگر مصادرِ حدیث سے اس کا حوالہ بھی دیتے ہیں، امام خوئی کے اس عمل کو منطقی اصطلاح میں "مصادرۃ علی المطلوب " کہا جاتا ہے، مصادرۃ علی المطلوب منطقی مغالطوں میں سے ایک مغالطہ ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ مدعی اپنے دعوی کو ہی دلیل بنا کر پیش کردے، وہ یوں کہ کتبِ حدیث میں جب کوئی محدث سلسلہ سند ذکر کرتا ہے اور اپنی اسناد سے روایات لاتا ہے، تو اس سلسلہ سند میں مذکور رواۃ کے شیوخ و تلامذہ یا دوسرے لفظوں میں راوی و مروی عنہ کو پرکھنے اور جانچنے کے لئے کتبِ رجال کو دیکھا جاتا ہے کہ اس محدث کے ذکر کردہ سلسلہ سند کی جو لڑی بنتی ہے، کیا نفس الامر میں بھی یہی لڑی ہے یا نہیں ؟یوں کتب ِ رجال سے اس راوی کے شیوخ و تلامذہ کی فہرست نکال کے اس محدث کے سلسلہ سند کی تصحیح یا اس کا تخطئہ کیا جاتا ہے، لھذا محدث کا ذکر کردہ سلسلہ سند ایک قسم کا "دعوی " ہوتا ہے اور اس دعوے کی تصدیق یا تکذیب کتبِ رجال سے کی جاتی ہے، جبکہ امام خوئی نے رواۃ کے جو شیوخ و تلامذہ کی فہرستیں دی ہیں، وہ خود کتبِ حدیث سے نقل کی ہیں، یوں مصادرۃ علی المطلوب کرتے ہوئے دعوی یعنی کتبِ حدیث میں مذکورہ سلسلہ اسناد کی مدد سے دلیل یعنی راوی کے شیوخ و اساتذہ کو متعین کیا ہے، اب ترتیب یوں بنی کہ اگر کوئی آدمی کافی کے کسی سلسلہ سند پر سوال کرے کہ اس راوی کا یہ شیخ نفس الامر میں بھی اس کا شیخ ہے یا نہیں ؟اس کی دلیل دو، تو شیعہ حضرات معجم رجال الحدیث کی عبارت پیش کریں گے کہ معجم رجال الحدیث میں امام خوئی نے اس راوی کا یہ شیخ لکھا ہے ، تو سائل جب سوال کرے گا کہ امام خوئی نے اس راوی کا یہ شیخ کیسے معلوم کیا ؟تو شیعہ مجیب جواب دے گا کہ امام خوئی نے الکافی کے اسی سلسلہ سند سے نکالا ہے، یوں بات دعوے سے شروع ہو کر پھر دعوے پر آجائے گی ۔ اس کے برخلاف اہل سنت علمائے رجال نے راوی کے اساتذہ و شیوخ کی فہرستیں کتب ِ حدیث سے مرتب نہیں کیں، بلکہ کتب ِ حدیث کی تصنیف سے قطع نظر اپنے ذرائع و وسائل سے مرتب کی ہیں، جس کے لئے علمائے رجال عموما راوی کے اسفار، معروف شیوخ کے مجالس ِ حدیث میں آنے والے طلبائے حدیث، کسی راوی کے ہم سبق رواۃ وغیرہ کی تحقیق کر کے شیوخ و تلامذہ متعین کرتے تھے، ذیل میں امام ابن ابی حاتم رازی کی الجرح و التعدیل سے نقل کردہ ترجمہ دوبارہ نقل کیا جاتا ہے، جو ہم پچھلے صفحات میں نقل کر آئے ہیں، تاکہ امام خوئی کے منہج سے فرق واضح ہو کر آئے :

شداد بن سعيد أبو طلحة الراسبي روى عن أبي الوازع جابر بن عمرو وغيلان بن جرير وسعيد الجريري روى عنه أبو معشر البراء وحماد بن زيد وابن المبارك وحرمي بن عمارة ومسلم بن إبراهيم وأبو الوليد وسعيد بن سليمان البصري سمعت أبي يقول ذلك.
قال أبو محمد وروى عن قتادة ومعاوية بن قرة ۔ ويزيد بن عبد الله بن الشخير روى عنه إسماعيل ابن علية ووكيع وأبو سعيد مولى بني هاشم وحجاج بن نصير والنضر بن شميل
حدثنا عبد الرحمن أنا عبد الله ابن أحمد [بن حنبل ۔ فيما كتب إلى قال قال أبي: أبو طلحة شداد شيخ ثقة روى عنه ابن علية ووكيع.
حدثنا عبد الرحمن قال ذكره أبي عن إسحاق بن منصور عن يحيى بن معين أنه قال: شداد بن سعيدالراسبى ثقة9

اس ترجمہ میں امام ابن ابی حاتم رازی نے شداد بن سعید کے جتنے شیوخ و تلامذہ ذکر کئے، اس کی دلیل میں علمائے رجال جیسے اپنے والد اور معروف محدث ابو حاتم رازی اور امام بخاری کی تحقیق اور حوالہ ذکر کیا ہے اور کسی کتاب کا سلسلہ سند دلیل بنانے کی بجائے علم رجال کے ماہر ین کی مدد سے راوی کے شیوخ و تلامذہ کی فہرست کو متعین کیا ہے ۔

اہل سنت کے اس منہج کو مزید واضح کرنے کے لئے امام ذہبی کی سیر اعلام النبلاء سے ایک ترجمہ نقل کیا جاتا ہے :

" سفيان بن حسين بن الحسن الواسطي الحافظ، الصدوق، أبو محمد الواسطي.
حدث عن: الحسن، ومحمد بن سيرين، والحكم بن عتيبة، والزهري، وإياس بن معاوية.روى عنه: شعبة، وهشيم، وعباد بن العوام، ويزيد بن هارون، وعمر بن عبد الله بن رزين، وجماعة.
وقد وثقه: جماعة، في سوى ما يرويه عن الزهري، فإنه يضطرب فيه، ويأتي بما ينكر.
روى: عباس، عن ابن معين، قال:ليس به بأس، وليس من أكابر أصحاب الزهري.
وروى: أحمد بن أبي خيثمة، عن ابن معين: ثقة، كان يؤدب المهدي، وحديثه عن الزهري فقط ليس بذاك، إنما سمع منه بالموسم.
وقال أبو حاتم: صالح الحديث، ولا يحتج به، هو نحو محمد بن إسحاق.
وقال ابن حبان: الإنصاف في أمره تنكب ما روى عن الزهري، والاحتجاج بما روى عن غيره، وذاك أن صحيفة الزهري اختلطت عليه، فكان يأتي بها على التوهم.قلت: توفي في خلافة أبي جعفر، سنة نيف وخمسين ومائة، ووقع له نحو ثلاث مائة حديث.10

اس ترجمہ میں امام ذہبی نے سفیان بن حسین واسطی کے شیوخ و تلامذہ بیان کئے، ان کے شیوخ میں امام زہری کا ذکر بھی کیا، اس کے بعد امام ابن ابی حاتم و ابن حبان جیسے علمائے رجال سے یہ بات نقل کی کہ امام زہری سفیان واسطی کے باقاعدہ شیخ نہیں رہے ہیں، نہ ہی سفیان واسطی امام زہری کے اکابر تلامذہ میں آتے ہیں، بلکہ سفیان واسطی نے امام زہری سے صرف ایامِ حج میں کچھ سنا ہے (اور ظاہر ہے کہ ایام حج میں علی سبیل الاتفاق ہوتا ہے ) اس لئے زہری سے سفیان واسطی جو روایات نقل کرتے ہیں وہ قابل ِ اعتماد نہیں ہیں، امام ذہبی کی اس عبارت سے اہل سنت علمائے رجال کے منہج کی کافی وضاحت ہوتی ہے کہ اہل سنت اہل علم کتبِ حدیث سے شیوخ و تلامذہ کی تعیین نہیں کرتے تھے، بلکہ اپنے آزاد ذرائع سے راوی کے شیوخ و تلامذہ کی تحقیق کرتے تھے، حالانکہ ابو داود، نسائی اور ابن ماجہ میں سفیان واسطی امام زہری کے واسطے سے تین روایات آئی ہیں، 11 اس کے باوجود امام ذہبی نے سفیان واسطی کے اساتذہ میں امام زہری پر اعتراض کیا کہ سفیان واسطی نے امام زہری سے جو نقل کیا ہے، وہ روایات قابلِ اعتماد نہیں ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ علمائے رجال شیوخ و تلامذہ کی تحقیق میں کتب ِ حدیث میں مذکور سلسلہ اسناد کو مدار نہیں بناتے تھے، بلکہ اپنے ذرائع سے راوی کے شیوخ و تلامذہ کی تحقیق کر کے کتبِ حدیث میں مذکور سلسلہ اسناد کو اس پر چانچتے اور پرکھتے تھے، شیوخ و تلامذہ کی تعیین میں اس طرح کی گہرائی و گیرائی اہل تشیع کے رجالی تراث میں نظر نہیں آتی، بلکہ اہل تشیع کے رجالی تراث میں اول تو اس چیز کا بیان ہی نہیں ہوا، جیسا کہ ما قبل میں شیعہ محققین کی تصریحات اور شیعہ رجالی کتب سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے، جبکہ امام خوئی و بعض شیعہ علمائے رجال نے شیوخ و تلامذہ کو اگر بیان بھی کیا ہے، تو مصادرۃ علی المطلوب کے مرتکب ہوتے ہوئے خود کتبِ حدیث سے یہ فہرست مرتب کی، جس کا سند کی تحقیق میں کوئی فائدہ نہیں ہے، کیونکہ دعوی کو دلیل بنا لینے سے مدعا ثابت نہیں ہوتا ۔

حواشی

  1.  الجرح و التعدیل، ابن حاتم رازی، رقم الترجمہ :1446
  2.  کلیات فی علم الرجال، جعفر سبحانی، ص141
  3.  المدخل الی موسوعۃ الحدیث عند الامامیہ، حیدر حب اللہ، ص515
  4.  ترتیب اسانید الکافی، بروجردی ص108 بحوالہ المنہج الرجالی، سید محمد رضا حسینی، ص 134
  5.  رجال النجاشی، احمد بن علی النجاشی، ص47
  6.  معجم رجال الحدیث، ابو القاسم خوئی، ج2، ص49
  7.  معجم رجال الحدیث، ج1، ص326
  8. معجم رجال الحدیث، ج5، ص 27
  9. الجرح و التعدیل، ان ابی حاتم رازی، رقم الترجمہ :1446
  10. سیر اعلام النبلاء، شمس الدین ذہبی، ج7، ص302-3030
  11. تحفۃ الاشراف بمعرفۃ الاطراف، جمال الدین مزی، ج9، ص 330

(جاری)

حدیث و سنت / علوم الحدیث

(دسمبر ۲۰۲۱ء)

تلاش

Flag Counter