تحفظ بنیاد اسلام ایکٹ جس میں انبیائے کرامؑ، خاتم النبیین ، ازواج مطہراتؓ ، صحابہ کرامؓ اور خلفائے راشدین کے ناموں کے ساتھ القابات اور دعائیہ کلمات کو لکھنا ضروری قرار دیا گیا ہے، اس اعتبار سے ایک اچھی قانونی پیش رفت ہے کہ اسلام میں جو محترم ومقدس اور معتبر ہستیاں ہیں ، جن سے مسلمانوں کی ایک عقیدت وابستہ ہے، ان کا تذکرہ عام دنیاوی رہنماﺅں کی طرح نہ کیا جائے، اسے کچھ اصول وآداب کا پابند بنایا جائے۔ لیکن مذہبی اعتبار سے یہ جتنا حسّاس موضوع ہے ، اس قانون کے مسودے کی نوک پلک سنوارنے والوں نے اس کی نزاکتوں کا احساس کیے بغیر اسے عجلت میں پاس کر دیا ہے۔ حکومتی حلقوں کی طرف سے اسے ریاست مدینہ کی طرف ایک اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے ، اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔ چند اسلام پسند قلمکاروں نے بھی اس کی تعریف وتحسین کی ہے۔
ستمبر ۲٠۲٠ء کے ماہنامہ افکار معلم میں شائع شدہ اور یا مقبول جان کے مضمون میں اس ایکٹ کے پاس ہونے پر وزیر اعلیٰ پنجاب کو تحسین کا مستحق قرار دیا گیا ہے اور وزیر اعظم پاکستان کو بھی پورے ملک میں اس قانون کو نافذ کر کے یہ سہرا اپنے ماتھے پر باندھنے کی ترغیب دی گئی ہے ۔ ماہنامہ ”افکار معلم “ کے مدیر کے مطابق بھی یہ قانون فرقہ واریت اور مذہبی منافرت کو ختم کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔ اللہ کرے کہ ایسا ہو جائے لیکن ہمارا تاثر یہ ہے کہ ہمارے ان احباب نے اس بل کے تمام مندرجات کو دیکھے بغیر اس سے اتنی امیدیں وابستہ کر لی ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ انبیائے کرامؑ، اصحاب رسول اور ازواج مطہراتؓ کے ناموں کو عزت واحترام سے لینا ہمارے ایمان کا حصہ ہے لیکن تحریرو تصنیف میں ان کے ناموں کے ساتھ اس طرح سابقے لاحقے اور القاب وآداب لگانا کیا شرعی لحاظ سے امرواجب ہے؟،اور کیا یہ قابلِ عمل بھی ہے ؟ ہمارے اہل علم کی چودہ سو سالہ تصنیفی روایت میں اس کا کتنا اہتمام ہے؟، یہ ایکٹ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ اور اشاعت کتب میں معاون ہے یا کہ رکاوٹ ؟۔اہل علم کو اس ایکٹ کے ان پہلوﺅں پر تفصیلی بحث کرنا چاہیے ۔ اب ہم اس ایکٹ کی کچھ دفعات کا طائرانہ جائزہ لیتے ہیں۔
ایکٹ کے سیکشن ۸ کی ۵ تا ۱۱ شقوں کے مطابق حضور کے نام سے پہلے خاتم النبیین ،آخری نبی یا The Last Prophet اور نام کے بعد عربی ٹیکسٹ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھنا ہو گا ۔ ہر نبی کے نام کے ساتھ علیہ السلام ، ازواج نبی کے ناموں سے پہلے امہات المومنین اور بعد میں رضی اللہ عنھا ، خلفائے راشدین کے اسمائے گرامی سے پہلے خلیفہ راشد یا امیر المومنین اور بعد میں رضی اللہ عنہ لکھنا ہو گا۔ بنی کے تین صاحبزادوں اور چار صاحبزادیوں ،اہلِ بیت اور نواسے نواسیوں اور صحابی وصحابیہ کے ناموں کے بعد رضی اللہ عنہ یا رضی اللہ عنھا لکھنا ہو گا۔
(۱)یقینا انبیائے کرام کی محبت اور احترام کا تقاضا ہے کہ ہم ان پر بار بار صلوة وسلام کہیں۔ درود کی فضیلت اور اس کے موجب اجر وثواب ہونے پر ساری امت متفق ہے لیکن ان کا نام لیتے ہوئے کیا ہر مرتبہ یا ایک مجلس میں ایک مرتبہ یا کہ زندگی میں ایک مرتبہ درود پڑھنا فرض ہے، واجب ہے ۔؟یقینا حضور پر صلاة وسلام بھیجنا سنت اسلام ہے ۔خصوصاً نماز میں اس کے پڑھنے پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے۔ جب آپ کا نام آئے تو درود پڑھنا مستحب ہے۔ اس امر پر بھی اجماع ہے کہ زندگی میں ایک مرتبہ آپ پر درود پڑھنا فرض ہے۔ لیکن اس کے بعد درود کے مسئلے میں اختلاف رائے ہے۔ امام شافعی ؒ اور امام احمد بن حنبل کے نزدیک نماز میں صلوة علی النبی پڑھنا فرض ہے۔ اس کے بغیر نماز نہ ہو گی۔ امام ابو حنیفہ اور امام مالک اور جمہور علما کے نزدیک درود زندگی میں صرف ایک مرتبہ پڑھنا فرض ہے کلمہ شہادت کی طرح ۔ اہل علم کے ایک گروہ کے نزدیک حضور کا نام جب بھی آئے درود پڑھنا واجب ہے اور ایک گروہ کے نزدیک ایک مجلس میں حضور کا ذکر خواہ کتنی مرتبہ آئے ، درود بس ایک دفعہ پڑھنا واجب ہے۔ (تفہیم القرآن ، ۴/۱۲۷)
جب ہر بار نام آنے پر ان اہل علم کے نزدیک صلوة پڑھنا لازم نہیں تو آج ایک ایکٹ کے ذریعے کسی بھی تصنیف میں اس کو ہر جگہ لکھنا لازم کرنا کیا لکھنے والے مسلمانوں پر وہ بوجھ نہیں لادا جا رہا جس کا شریعت نے اپنے ماننے والوں کو مکلف ہی نہیں کہا۔ اور” عدم تکلیف“ فقہ کے بنیادی اصولوں میں سے ایک اصول ہے۔ لا یُکلف اللّٰہ نفساً ِالّا وُسعھا (البقرہ ۲: ۲۸۶) ”اللہ کسی بھی نفس کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔“
(۲) یہ بھی لازم قرار دیا گیا ہے کہ آپ کے نام سے پہلے خاتم النبیین لکھا جائے ۔ ہمارے بعض سادہ لوحوں نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اس سے ختم نبوت کے منکروں کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ اب ان سادہ اندیشوں کو کون سمجھائے کہ قادیانیوں کو بھی خاتم النبیین لکھنے، کہنے اور بولنے پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا ۔ لیکن وہ خاتم النبین کی تشریح ایسی کرتے ہیں کہ اس سے آخری نبوت کا انکار لازم آتا ہے۔ لیکن مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لیے وہ خاتم النبیین لکھتے ور بولتے رہیں گے۔
(۳)صحابہ کرام کے لیے یقینا اللہ نے اپنی رضا مندی کا اظہار رضی اللہ عنھم کے الفاظ سے کیا ہے۔ اور ان سے ہمارے ایمان اور محبت کا تقاضا ہے کہ ان کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے لیے یہ دعائیہ کلمات کہے جائیں ۔ لیکن سوال ہے تحریر میں اس کے شرعی لزوم کا۔ حدیث کے قدیم تریم نسخوں میں کہیں صحابی کے نام کے ساتھ اس کا اہتمام موجود ہے اور کہیں نہیں ہے۔ اب ہمارے دیگر اہل علم اور مصنفین کی کتب میں بھی یہی صورت حال ہے۔لیکن خلیفہ راشد یا ام المومنین کے الفاظ تو ایک آدھ جگہ ہی ہیں۔
اب میرے پاس الہلال بک ایجنسی شیرانوالہ گیٹ لاہور کی ۱۹۲۵ءاور ۱۹۲۷ءکی شائع شدہ امام ابن تیمیہؒ اور امام ابن قیمؒ کی پانچ کتابیں (اردو ترجمہ) موجود ہیں ۔ جن میں جہاں بھی صحابی کا نام آیا ہے انھوں نے صرف ؓ کی علامت ڈال دی ہے ۔پورا رضی اللہ عنہ نہیں لکھا۔ ہمارے ہاں عموماً اہلحدیث اور دیو بندی حضرات رضی اللہ عنہ کے الفاظ صحابہ کے ساتھ مخصوص کرتے ہیں جب کہ بریلوی مکتب فکر دیگر صلحاءواولیاءکے لیے بھی ان کے استعمال کے قایل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چودھری غلام رسول مہر نے اپنی کتاب ”سیرت امام ابن تیمیہ “ کے ٹائٹل پر ان کے لیے رضی اللہ عنہ لکھا ہے۔ ابن تیمیہ کی کتاب رفع الملام (مترجم سید ریاست علی ندوی)اور خلاف الامۃ (مترجم مولانا عبدالرحیم) اور ابن قیم کی اسلامی تصوف پر کتاب طریق الہجرتین(مترجم مولانا عبدالرحیم )کے ٹائٹل پر دونوں ائمہ کے ناموں کے ساتھ پورے اہتمام سے رضی اللہ عنہ لکھا ہوا ہے۔ حالانکہ ان سب کتابوں کے شائع کرنے والے سلفی الفکر ہوں یا حنفی ، بہرحال وہ بریلوی مکتب فکر کے نہیں ہے۔ لیکن آج اہلحدیث حضرات اس کی گنجائش کو تسلیم کرنے کے لیے قطعاًتیار نہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ انبیاءصحابہ اور اولیاءمیں فرق وامتیاز کرنے کے لیے ان الفاظ کا الگ مرتبہ و مقام کے مطابق اختیار کرنا، فروغ دینا اچھی بات ہے لیکن اس کے لیے کوئی ایک سخت اصول بنا لینا مناسب نہیں ہے۔ رضی اللہ عنہ کے الفاظ کی تخصیص تو رہی ایک طرف خود، صلوٰة کی نسبت ابنیاءکے علاوہ نیک بندوں کی طرف اللہ نے قرآن میں کی ہوئی ہے۔ اولئک علیھم صلٰوات من ربھم (البقرہ۱۵۷:۲) وصلِّ علیھم (التوبہ :۱٠۳) ھو الذی یصلّی علیکم (الاحزاب :۴۳)
اسی طرح حضور نے صحابی ابی اوغیٰ ، سعد بن عبادہ ، جابر بن عبداللہ اور دیگر افراد کے لیے صلِّ علیٰ کے الفاط استعمال کیے جن کی بنیاد پر قاضی عیاض مالکی ودیگر اسے مطلقاً ہر نیک انسان کے لیے جائز قرار دیتے ہیں ۔البتہ جمہور امت کے نزدیک یہ اختیار صرف رسول اللہ کا تھا، ہمارے لیے نہیں ۔ اب یہ مسلمانوں کا شعار بن چکا ہے کہ صلوٰة وسلام ابنیاءکے لیے مخصوص ہے۔ پانچویں خلیفہ راشد عمربن عبدالعزیز نے صلوٰة کو حکما رسول اللہ کے لیے مخصوص فرما دیا۔ (روح المعانی بحوالہ تفہیم القرآن ۴/۱۲۸)
(۴) ایکٹ میں ایک اور بوجھ جو لکھنے والوں پر ڈال دیا گیا ہے کہ وہ نبی کے نام کے ساتھ پہلے خاتم النبیین ازواج مطہرات کے نام کے ساتھ ُام المومنین اور خلفائے راشدین کے نام کے ساتھ خلیفہ راشدبھی لکھیں۔ اب اس بات کی ایکٹ میں کوئی وضاحت نہیں کہ کیا یہ ایک مضمون یا کتاب میں ایک بار یا ہر بار لکھنا ہے۔ اب یہ اہتمام تو چودہ سو سالہ تاریخ میں کسی سیرت نبوی اور سیرت ازواج مطہرات اور سیرت صحابہ وخلفائے راشدین کی کتابوں میں بھی نہیں ہے جب کہ دین بیزار طبقہ پہلے ہی لوگوں کو دین سے متنفر کرنے کے لیے اہل دین کی باتوں کا مذاق بنانے کے مواقع تلاش کرتا رہتا ہے۔
اس ایکٹ میں وضاحت نہیں ہے کہ کیا وہ کتابیں جو سیرت نبوی اور سیرة صحابہ پر ادبی اسلوب میں لکھی گئی ہیں اور ان میں حضور یا صحابی کے نام کے ساتھ حضرت یا خاتم النبیین کے سابقے لاحقے نہیں ہوتے تو کیا انھیں گستاخی قرار دیا جائے جب کہ ادبی اسلوب کی کتابیں حُبِّ رسول میں ڈوب کر لکھی گئی ہیں۔ پھر ایک شاعر اپنے شعر میں محمد یا ابوبکر وعمر کا تذکرہ کرتا ہے تو اگر اس ایکٹ کی رو سے وہ پہلے خاتم النبیین یا خلیفہ راشد لکھے گا تو اس کے شعر کا وزن کہاں سے کہاں پہنچ جائے گا۔
اقبال کے مصرعے: ’’دہر میں اسم محمد سے اجالا کر دے‘‘ کو کیا اب یوں لکھا جائے گا: دہر میں اسم خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اجالا کر دے۔
اب یہ اہتمام نہ حسانؓ بن ثابت کی مدح رسول میں نظر آئے گا نہ حفیظ تائب کی نعت گوئی میں۔ بلاشبہ ایکٹ کی یہ شق مسلمانوں کو تنگی میں ڈالنے والی ہے۔ اور فقہ کے بنیادی اصولوں میں سے ایک اصول” عدم حرج“ ہے کہ تفقہ فی الدّین مسلمانوں کو تنگی میں ڈالنے کے لیے نہیں فراخی کے راستے پر چلانے کے لیے ہے۔ وَما جعل علیکم فی الدّین مِن حرج (الحج ۷۸:۲۲)”اور تم پر دین کی کسی بات میں تنگی نہیں رکھی“۔
(۵)اب سیکشن ۳ کی شق ایف میں ملاحظہ ہو:
جو شخص اللہ تعالیٰ ، حضور اور دیگر مذکورہ مقدس شخصیات ، قرآن ، تورات ، زبور، انجیل ، دین اسلام پر تنقید کرے گا یا ان کو Defameیا Disrepute (شہرت خراب )کرے گا ۔ اسے پاکستان کے پینل کوڈ 1860 یا کسی اور قانون کی رو سے سزا دی جا سکے گی۔ اس سیکشن کی زد سب سے پہلے تو قرآن پر پڑے گی کیونکہ قرآن بار بار تورات اور انجیل کے بارے میں کہتا ہے کہ یہود ونصاری نے ان میں تحریف کر ڈالی ہے۔ اب قرآن نے تورات انجیل کو Disrepute کر دیا تو اس ایکٹ کی رُو سے مقدمہ کس پر چلے گا (نعوذ باللہ ) اب وہ تمام علمی وتحقیقی کتابیں جو تورات وانجیل کو تحریف شدہ کتاب ثابت کرنے کے لیے مسلمان علماءنے لکھیں ، رحمت اللہ کیرانوی سے لے کرشیخ احمد دیدات اور ڈاکٹر ذاکر نائیک تک ،سب اس قانون کی زد میں آ چکی ہیں۔
(۶)اب ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ یہ ہر ایکٹ اشاعتِ کتب اور کتب بینی میں معاون بنے گا یا کہ رکاوٹ۔ ایکٹ کے سیکشن ۵ تا ۱۳ کی شقوں کا خلاصہ یہ ہے کہ :
۱۔ یہ تحقیق ڈی جی پبلی کیشنز کے اختیارمیں ہو گی کہ کسی کتاب میں کوئی ایسا مواد تو نہیں جس میں ایکٹ کی خلاف ورزی پائی جاتی ہے۔ وہ اپنے اختیارات کسی بھی مجاز افسر کے سپرد کر سکتا ہے۔
۲۔ جس دن کتاب چھپے، اسی دن پبلیشر مجاز افسر کو اس کی چار کاپیاں فراہم کرنے کا پابند ہے (کیا یہ قابل عمل ہے؟)سیکشن ۸ شق ۲ کہتی ہے کہ کسی بھی کتاب کو چھاپنے کے لیے طے کردہ طریقے کے مطابق درخواست وینی ہو گی اور اس کی طے کردہ فیس جمع کرانی ہو گی۔ (یہ شق کتابوں کی اشاعت کو آسان کرے گی یا مشکل؟)۔
سیکشن ۹، شق ۱ کے مطابق پبلشر یا بک سیلر مجاز افسر کے طے کردہ طریقے کے مطابق منظوری کے بغیر کوئی کتاب فروخت نہ کر سکے گا۔ ایکٹ کی خلاف ورزی پر یا نچ سال سزا اور پانچ لاکھ تک جرمانہ ہو سکے گا۔ یہ قانون پبلشر کو اتنا خوف زدہ کرے گا کہ وہ کتاب چھاپتے وقت سو مرتبہ سوچے ۔ ان کے علاوہ آٹھ دس اور پابندیاں ہیں جن کا ذکر ہم طوالت سے بچنے کے لیے نہیں کر رہے اب ایک تو پاکستان میں پہلے ہی کتاب بینی کا شوق ختم ہوتا جا رہا ہے اور جب پبلشر حضرات کو اتنا ڈرایا جائے گا کہ اسے ہر سُو پابندیاں ہی پابندیاں ، جرمانے اور سزا کا خوف دامن گیر ہو گا تو وہ اس کاروبار میں کیوں خود کو کھپائے گا۔
دوسرا ن اختیارات کا مجاز افسروں کے ہاتھوں استعمال ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ لکھنے والوں کے لیے ان احکامات کی پابندی پوری کرنا ممکن ہے اور نہ اشاعتی اداروں کے نگران سرکاری حکام کے پاس اتنا وقت کہ وہ کسی کتاب کے ایک ایک لفظ کا حساب لگائیں۔ ہو گا صرف یہی کہ جس کسی پبلشر یا مصنف کی کتاب کا کوئی مخالف ہوگا ۔وہ اس میں سے آسانی سے ایسے چند نقائص نکال کر مجاز افسر کو دے دے گا اور مجاز افسر کی مرضی پر ہے کہ وہ ان الفاظ والقابات پر چاہے تو مصنّف وپبلشر کو قانون کے شکنجے میں کس دے اور چاہے تو چھوڑ دے ۔ اور اس ایکٹ کا استعمال بھی زیادہ تر مذہبی کتب کے خلاف ہوگا۔ یہ ایکٹ فروغ مذہب کی بجائے مذہبی کتابوں کے پبلشرز کے اوپر ایک لٹکی ہوئی تلوار ہو گا۔ ہماری بیوروکریسی جو پہلے ہی کام کو لٹکانے اور الجھاﺅ پیدا کرنے میں ماہر ہے۔ یہ اسے مزید با اختیار کرنے کا قانون ہے کہ وہ کسی بھی کتاب کو قبل ز اشاعت یا بعد از اشاعت عوام تک پہنچنے سے روک سکے۔
رہا فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا فروغ تو اس کا نظارہ گذشتہ دنوں کے شیعہ سُنّی بیانات اور کشیدگی کی صورت میں ہم کر چکے ہیں ۔ صحابہ کرام ، ازواج مطہرات اور خلفائے راشدین سے متعلق ان کے عقائد ونظریات کا فرق ایک بیّن حقیقت ہے۔ اس سے آنکھیں بند کر کے کلہیا میں گڑپھوڑنے کی کوئی کوشش کریں گے تو وہ پنڈورا باکس کھلے گا کہ ہمارے ارباب اختیار اس کو سنبھال نہ سکیں گے کیونکہ ان کے پاس مذہبی ہم آہنگی کو قائم رکھنے کا کوئی میکنزم سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ سوائے خالی خولی امن کمیٹیوں کے۔ اور اس بات کو ہماری یکجہتی کا دشمن بخوبی سمجھ چکا ہے ۔میڈیا میں بیٹھے ہمارے دین بیزار اور چالاک اینکرز عوام کے سامنے اہل مذہب کو مزید شدت پسند باورکر انے میں کامیاب ہوں گے ۔ جب کہ سیاسی زعما قوم کی بچی کچھی یکجہتی کو اپنی سستی نیک نامی کی بھینٹ چڑھا دیں گے ۔ ممکن ہے اتنی آگ لگانے سے کچھ سادہ لوحوں کے سطحی جذبات کی تسکین ہو جائے۔
اس مسئلے میں مزید بہتری کا راستہ کیا ہے؟ اگر ارباب اختیار واقعی حرمت انبیاؑءاور احترام صحابہ وازدواج ؓ کے تحفظ بارے سنجیدہ اور مخلص ہیں اور اس کام کی حساسیت سے آگاہ بھی ۔
(۱)پہلا کام وہ یہ کریں کہ اس ایکٹ کو اسلامی نظریاتی کونسل میں، اس سے رہنمائی اور مدد لینے کے لیے پیش کریں۔ ہم جانتے ہیں کہ اب وہاں بھی صاحبانِ علم کم اور سیاسی وابستگان زیادہ ہیں، لیکن پھر بھی وہ ہمارا ایک آئینی علمی فورم ہے، جو اس کے تمام پہلوﺅں پر غور کر کے بہتر رائے دے سکے گا۔
(۲)ملی یکجہتی کونسل پاکستان نے شیعہ سنّی تنازعات کے بارے میں کچھ فیصلے کیے اور سفارشات تیار کی تھیں ، ان کے ذریعے بھی اس کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔
(۳) القاب وآداب اور دعائیہ کلمات لکھنے کی پابندی کو کوئی بہتر شکل دیتے ہوئے اسے صرف درسی کتب تک محدود کر دیا جائے۔
(۴)القاب وآداب اور دعائیہ کلمات کا التزام شاعری اور ادبی کتب میں کرنا، ان کی ادبیت وشعریت چھیننے کے مترادف ہے، اسے ان کتب کے لیے ضروری قرار نہ دیا جائے۔
(۵) قابل اعتراض مواد پر گرفت کرنے کے لیے مجاز افسران کو مزید اختیارات سے مسلّح کرنے کی بجائے پہلے سے موجود قانون تعزیرات پاکستان کی دفعات ۵۹۲ تا ۸۹۲ کافی جامع ہیں۔ ان پر ان کی روح کے مطابق عمل درآمد ہو جائے تو بڑا فرق واقع ہو جائے گا۔ ورنہ یہی سمجھا جائے گا کہ حکومت نے پبلشرز کو قابو کرنے کے لیے نیک ہستیوں کے نام کو آڑ بنایا ہے۔ ہمیں اس ایکٹ کے پاس ہونے پر اراکین اسمبلی کی مذہب پسندی پر ایک گونہ خوشی ضرور ہوئی تھی لیکن یہ خدشہ بھی ذہن میں تھا کہ :
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
اور ہم سمجھتے ہیں کہ وہ ملائی گئی چیز پبلشرز پر گرفت کرنے کے یہی حکومتی اختیارات ہیں۔