ڈاکٹر اختر حسین عزمی

کل مضامین: 4

شیعہ سُنّی اختلاف اور مشاہیرِ اسلام کا رویّہ

اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان بہت سے اصولی احکام مشترک ہیں اور کچھ بنیادی عقاید و احکام میں شدید اختلاف رائے بھی پایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ہر دو فریق کے ہاں ایک دوسرے کے با رے میں بہت سی بدگمانیاں بھی موجود ہیں، ایک دوسرے کی تکفیر کے اقوال بھی ملتے ہیں اور تکفیر پر خاموشی اور احتیاط کی روش بھی پائی جاتی ہیں، اگر کوئی تکفیر کا قائل نہ بھی ہو تو ایک دوسرے کو گمراہ ضرور سمجھتا ہے اور کہیں اشارے کنائے میں ایک دوسرے کو منافق باور کرایا جاتا ہے۔ جن بنیادی عقاید میں اشتراک پایا جاتا ہے، ان میں توحید، رسالت،ختم نبوت، آخرت،...

شیعہ سُنّی بقائے باہمی کا راستہ

ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘کے اکتوبر ۲۰۲۰ کے شمارے میں جناب مولانا زاہد الراشدی کا شیعہ سنی کشیدگی کے تناظر میں یہ فرمانا بہت ہی گہرے غور و فکر کا متقاضی ہے: ’’ہمارا اس وقت اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے پاکستان کو شام، عراق اور یمن بننے سے بھی بچانا ہے اور قومی وحدت کو بھی ہر صورت میں برقرار رکھنا ہے۔ اس لیے کہ جس طرح یہ ضروری ہے کہ ہم صحابہ کرامؒ و اہلبیت عظام کے حوالہ سے اپنے ایمان و عقیدہ و جذبات کا تحفظ کریں، اسی طرح ہماری یہ بھی ملی اور قومی ذمہ داری ہے کہ پاکستان کو مشرقِ وسطیٰ کی صورت حال سے ہر قیمت پر بچائیں۔‘‘ ان کی یہ تشویش بھی بجا ہے کہ ایسا...

تحفظِ بنیادِ اسلام ایکٹ پنجاب کا ایک رخ

تحفظ بنیاد اسلام ایکٹ جس میں انبیائے کرامؑ، خاتم النبیین ، ازواج مطہراتؓ ، صحابہ کرامؓ اور خلفائے راشدین کے ناموں کے ساتھ القابات اور دعائیہ کلمات کو لکھنا ضروری قرار دیا گیا ہے، اس اعتبار سے ایک اچھی قانونی پیش رفت ہے کہ اسلام میں جو محترم ومقدس اور معتبر ہستیاں ہیں ، جن سے مسلمانوں کی ایک عقیدت وابستہ ہے، ان کا تذکرہ عام دنیاوی رہنماﺅں کی طرح نہ کیا جائے، اسے کچھ اصول وآداب کا پابند بنایا جائے۔ لیکن مذہبی اعتبار سے یہ جتنا حسّاس موضوع ہے ، اس قانون کے مسودے کی نوک پلک سنوارنے والوں نے اس کی نزاکتوں کا احساس کیے بغیر اسے عجلت میں پاس کر...

’’خلطِ مبحث‘‘ کی مصنوعی افزائش

علم و دانش کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ افراد و اقوام کے مسائل اور تنازعات باہمی مشاورت سے طے کیے جائیں۔ لیکن اگر کسی قوم کے طے شدہ معاملات کو ہی متنازع بنانے پر زور صرف ہونے لگے تو وہ قوم ایک دائرے کے اندر ہی سفر کرتی رہتی ہے۔ ہمارے ہاں یہ المیہ ہے کہ ایک طبقہ قومی رہنمائوں کی مشاورت سے طے کردہ معاملات پر بھی مسلسل چاند ماری کرتا رہتا ہے۔ ایسی ہی ایک کوشش ماہنامہ الشریعہ کے مارچ 2020ء کے شمارے میں ڈاکٹر عرفان شہزاد کے مضمون ’’قومی اور مذہبی اظہاریوں کا خلطِ مبحث‘‘ کی صورت میں نظرآتی ہے جس میں انہوں نے پاکستانی قوم کے ایک طے شدہ ریاستی اظہار یئے...
1-4 (4)