جنسی درندگی کا بڑھتا ہوا رجحان

محمد عمار خان ناصر

لاہور موٹروے پر  رونما ہونے والے  حالیہ واقعے کے تناظر میں تحریک انصاف کی حکومت نے آبرو ریزی کے مجرموں کو سرجری کے ذریعے سے نمونہ عبرت بنانے کے لیے قانون سازی کا عندیہ ظاہر کیا ہے۔ اس طرح کے اعلانات ایسے واقعات کے تناظر میں حکومتوں کی سیاسی ضرورت ہوا کرتے ہیں اور اجتماعی غم وغصہ کو نیوٹرلائز کرنے کا ایک فوری اور موثر ذریعہ بنتے ہیں، اس لیے ان سے زیادہ امیدیں باندھنے کے بجائے ایک بڑے تناظر میں اس انتہائی سنگین مسئلے کا جائزہ لینے اور ایک اجتماعی معاشرتی سوچ کو تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔

آبروریزی کا عمل مختلف واقعاتی سیاقات میں مختلف نوعیتیں رکھتا ہے اور اس کے محرکات ہمیشہ ایک جیسے نہیں ہوتے، اس لیے کس نوعیت کی آبروریزی کی روک تھام کے لیے کس طرح کے اقدامات موثر ہو سکتے ہیں، اس کا گہرا تجزیہ کیے بغیر اس باب میں کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں کی جا سکتی۔

بنیادی طور پر آبروریزی کے چار بڑے محرکات مشاہدے میں آتے ہیں:

۱۔ دشمن گروہ سے تعلق رکھنے والی خواتین کی آبروریزی کو دشمن کی اجتماعی تذلیل اور ڈی مورلائزیشن کے لیے بطور ہتھیار استعمال کرنے کا طریقہ جنگوں میں فتح یاب ہونے والی فوجیں اختیار کرتی آئی ہیں اور انسانی ضمیر کے اجماع اور بین الاقوامی قانون انسانیت جیسے ضابطوں کی موجودگی میں بھی اس نفسیات سے چھٹکارا پانا ابھی تک انسانوں کے لیے ممکن نہیں ہو پایا جس پر حالیہ تمام  جنگوں کے واقعات شاہد ہیں۔ ذرا نچلی سطح پر یہی نفسیات وڈیرہ شاہی کلچر میں ایسے واقعات میں کارفرما ہوتی ہے جس میں کسی کمی کمین کو اس کی اوقات بتانے کے لیے اس کے خاندان کی خواتین کو آبروریزی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایک اور سطح پر یہی نفسیات بعض افراد کو بھی اس پر آمادہ کر سکتی ہے کہ ذاتی رنجش کی وجہ سے کسی خاتون کو آبروریزی کا نشانہ بنا کر اپنے جذبہ انتقام کی تسکین کریں۔

۲۔ جنسی جبلت سے مغلوبیت کی کسی وقتی کیفیت کے تحت انفردی سطح پر بھی اس طرح کے واقعات رونما ہو سکتے ہیں۔ اس کا نشانہ عموما ماحول میں موجود کمزور اور غیر محفوظ خواتین بنتی ہیں، تاہم بعض صورتوں میں اس کی ابتدائی تحریک یا حوصلہ افزائی میں خود متاثرہ فریق (victim)  کا بھی کردار ہو سکتا ہے۔ ناجائز اور خفیہ روابط کی صورت میں اس کے امکانات عموما زیادہ ہوتے ہیں۔ اس محرک میں اہم نکتہ یہ ہے کہ مردانہ طاقت کے اظہار یا متاثرہ فریق کی تذلیل وغیرہ کا داعیہ  بنیادی طور پر شامل نہیں ہوتا اور ضروری نہیں کہ اس کا ارتکاب کرنے والے بنیادی طور پر مجرمانہ ذہنیت کے حامل یا جرائم پیشہ لوگ ہوں۔

۳۔ جنسی جبلت سے مغلوبیت بعض خاص حالات میں  perversion کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور مختلف نفسیاتی پیچیدگیوں کے زیراثر بیمار ذہن کے افراد اس کی تسکین کے لیے بہت ہی پست اور مجرمانہ طریقے اختیار کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ چھوٹے بچوں کے ساتھ زیادتی کے بعد ان کو قتل کر دینا اور محارم کو آبروریزی کا نشانہ بنانا وغیرہ اس مجرمانہ نفسیات کے عمومی مظاہر ہیں۔

۴۔ جنسی جبلت جب مختلف عوامل سے انسان کو بالکل حیوانیت کی سطح پر لے آئے اور اس کے ساتھ مجرمانہ ذہنیت اور مردانہ طاقت کے اظہار کی نفسیات بھی شامل ہو جائے تو ایسے افراد یا گروہ ماحول میں اس طرح کے مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں اور ایسا ماحول ان کی جرات کو خاص طور پر شہہ دیتا ہے جس میں نظام انصاف بہت کمزور اور الٹا طاقتور کی مدد کرنے والا ہو۔ لاہور موٹروے کا واقعہ اس نوعیت کی ایک مثال ہے۔

ان میں سے ہر سیاق، ایک مختلف نوعیت رکھتا ہے اور اس مخصوص نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی پیش بندی کی کوئی حکمت عملی زیربحث لائی جا سکتی ہے۔ ہر طرح کے واقعے پر ایک ہی جیسے عمومی تبصرے کرنا یا غم وغصہ کا وقتی اظہار کرنا یا حکومتی سطح پر کچھ اعلانات وغیرہ کر دیا جانا، اصلاح احوال میں کوئی مدد نہیں دے سکتا۔

آبروریزی کے رجحان کا تجزیہ جب نفسیاتی وسماجی عوامل کی روشنی میں کرنے کی بات کی جاتی ہے تو اس کا اہم ترین مقصد اس پہلو کی طرف توجہ دلانا ہوتا ہے کہ ریاستی طاقت اور قانون کا کردار اس معاملے میں بہت بنیادی ہونے کے باوجود اسے مسئلے کے حل کی شاہ کلید نہیں سمجھا جا سکتا۔ انسانی بساط کی حد تک مسئلے کے حل کی تدبیر کے لیے ضروری ہے کہ جرم کی نفسیات کو پیدا کرنے یا فروغ دینے والے عوامل کے سدباب، اور جرم کے وقوع کے بعد ریاستی طاقت کے کردار، دونوں کے مابین ایک متوازن تعلق وجود میں لایا جائے، یعنی جرم پر مناسب تعزیری اقدامات کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ جرم کی پیش بندی پر بھی اتنی ہی توجہ دی جائے۔ جرم کو اگر آوارہ کتے کے کاٹنے کی مثال سے سمجھا جائے تو جرم پر قابو پانے کا یہ طریقہ کبھی موثر نہیں ہو سکتا کہ شہری آبادیوں میں آوارہ کتوں کے پھیلتے چلے جانے پر تو کوئی توجہ نہ دی جائے اور سارا زور اس پر صرف کیا جائے کہ اگر کتا کسی کو کاٹ لے تو سگ گزیدہ کی اشک شوئی کے لیے ہر ڈسپنسری اور اسپتال میں انجکشن وافر تعداد میں میسر ہوں اور میونسپل کمیٹی کے کارندے فوری طور پر ایسے کتے کے خلاف ایکشن لینے کے لیے مستعد ہوں۔ ان ضروری اقدامات سے پہلے آوارہ کتوں کی افزائش نسل پر قدغن لگانے کی اہمیت اس سے کہیں زیادہ ہے، اور یہ صرف ریاستی اداروں کی ذمہ داری نہیں، بلکہ شہری آبادی اور حکومتی اداروں کے باہمی تعاون کے ساتھ اجتماعی طور پر انجام دی جانے والی ایک ذمہ داری بنتی ہے۔

اس بنیادی تناظر میں اگر آبروریزی کی مختلف صورتوں کا تجزیہ کیا جائے تو پہلی صورت میں بنیادی کردار ریاستی طاقت اور قانون کا بنتا ہے، کیونکہ اس کے وجود میں آنے کا اصل محرک اندھی طاقت اور اس کا اظہار ہوتا ہے اور طاقت کے نشے کو طاقت کے تریاق سے ہی توڑا جا سکتا ہے۔ تاہم باقی تین صورتوں میں معاشرتی سانچوں، عمومی ذہنی رویوں، مذہبی وغیر مذہبی فکری بیانیوں، نفسی واخلاقی تربیت کے معاشرتی انتظامات اور خاص طور پر سرمایہ دارانہ نظام معیشت کی اخلاقیات کو زیربحث لائے بغیر آوارہ کتوں کی افزائش نسل پر قدغن لگانے کی کوئی بامعنی حکمت عملی نہیں سوچی جا سکتی۔

سب سے پہلے عمومی ذہنی رویوں اور نفسی واخلاقی تربیت کے انتظامات پر نظر ڈالیے۔

مرد کا جارحانہ جنسی جبلت کا حامل ہونا ایک حیاتیاتی حقیقت ہے اور اسے مسئلے کی اساس کی حیثیت حاصل ہے۔ ظاہر ہے، اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا، البتہ اسے حدود کا پابند بنانے کی تدبیر کی جا سکتی ہے۔ تدبیر کے دو پہلو ہیں اور دونوں ہی اہم ہیں۔ ایک، شعور اور اخلاق کی تربیت کے ذریعے سے افراد میں انسانی ہمدردی اور خاص طور پر صنف بہتر کے احترام کے جذبات کی آبیاری کرنا اور انھیں معاشرتی اقدار کے طور پر رائج کرنا، اور دوسرا، حدود سے تجاوز پر محاسبہ اور سزا کے خوف کو موثر بنانا۔ اس میں کلیدی اہمیت صنف بہتر کے بارے میں مردوں کے نفسیاتی احساسات کو حاصل ہے اور ان کی تشکیل میں فیصلہ کن کردار معاشرتی سانچوں اور فکری بیانیوں کا ہوتا ہے۔

ایک امر واقعہ کے طور پر ہم جانتے ہیں کہ آبرو ریزی کا، ایک کثیر الوقوع جرم  کی صورت اختیار کرنا جدید طرز معاشرت کے مظاہر میں سے ایک مظہر ہے اور اس کا براہ راست تعلق خواتین کے لیے ’’محفوظ “ روایتی طرز معاشرت میں تبدیلیوں سے ہے۔ جدید طرز معاشرت نے خواتین کے لیے گھر کے ماحول سے باہر مختلف شعبہ ہائے زندگی میں حصہ لینے کے مواقع پیدا کیے ہیں اور اس کے نتیجے میں اختلاط پر مبنی ایک ایسی معاشرت تشکیل پذیر ہے جس میں ایسے حفاظتی انتظامات سردست مستحکم نہیں ہیں جو گھر کے ماحول میں میسر حفاظت کا متبادل بن سکیں۔ معاشرت کے ایک سانچے سے دوسرے سانچے کی طرف انتقال کے مرحلے میں بنے ہوئے ذہنی رویوں کے لیے نئی صورت حال کے روبرو اپنا ردعمل طے کرنا ایک بہت مشکل اور کافی تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔ ہمارا صدیوں سے بنا ہوا نفسیاتی سانچہ عورت کے عزت اور احترام کو گھر کی چاردیواری سے الگ نہیں دیکھ سکتا، اور اختلاط کے ماحول میں کام کرنے والی خواتین کے لیے ’’عزت واحترام“ کا زاویہ نظر ہماری اس نفسیاتی تشکیل میں قابل قبول نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں، ہمارے روایتی معاشرت سے تشکیل پانے والے ذہنی رویوں اور جدید طرز معاشرت میں ایک dissonance (مغایرت) ہے جو صرف غیرشعوری نہیں ہے، بلکہ ہمارے ہاں رائج مختلف فکری بیانیوں میں اس کا باقاعدہ اظہار ہوتا ہے۔

ہمارا اجتماعی نفسیاتی سانچہ، مخلوط ماحول میں کام کرنے والی خواتین کے ساتھ عزت واحترام کے تصور کو وابستہ کرنے میں شدید دقت محسوس کرتا ہے، اس میں ایک تنقیح بات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔ ایسا نہیں کہ گھر سے باہر یا مخلوط ماحول میں عورت کی موجودگی فی نفسہ اس نفسیاتی سانچے میں قابل قبول نہیں یا عورت کے احترام کے احساس کو زائل کر دیتی ہے۔ تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق اس سے ہے کہ عورت کس ’’حیثیت “سے مخلوط ماحول میں موجود ہے۔ ایک گھریلو خاتون کی حیثیت سے عورت کو اب بھی پبلک مقامات پر احترام دیا جاتا ہے اور اس کے مظاہر ہم دفاتر، بنکوں، پبلک ٹرانسپورٹ، اسپتالوں وغیرہ میں ہر جگہ دیکھ سکتے ہیں۔ اس لیے معاشرے کا مسئلہ خواتین کے لیے عزت واحترام کے تصور کے فقدان کا نہیں، بلکہ اس کے معیارات کا ہے۔ عورت کے باکردار اور مستحق احترام ہونے کا تصور ہمارے نفسیاتی سانچے میں گھریلو خاتون کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور اس حیثیت میں ہم ایک معاشرتی قدر کے طور پر خواتین کو ہر جگہ احترام دیتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی خواتین کو ’’ورکنگ ویمن“ کی حیثیت میں یا اس کی اہلیت پیدا کرنے کی سعی کرتے ہوئے (مثلا تعلیمی اداروں میں) تصور کیا جاتا ہے تو ہمارا نفسیاتی سانچہ ایسی خواتین کو بنظر احترام دیکھنے پر خود کو آمادہ نہیں پاتا۔ ہمارا reflexive reaction ایسی خواتین کے کردار کو منفی زاویے سے اور، حسب موقع، نظربازی یا جنسی پیش قدمی کے ایک ممکنہ ہدف کے طور پر دیکھنے کا ہوتا ہے۔

اس غیرشعوری نفسیاتی احساس کو فکری جواز اور تائید فراہم کرنے کا کام وہ بیانیے کرتے ہیں جو جدید طرز معاشرت میں اختلاط کے مواقع کو فی نفسہ ایک برائی کے طور پر پیش کرتے ہیں اور ان بیانیوں میں سب سے زیادہ بلند آہنگ بیانیہ، مذہبی طبقوں کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے۔ مذہبی طبقوں کا بنیادی ترین مسئلہ چونکہ جدید معاشرت میں اپنی شناخت کا تحفظ ہے، اس لیے ایک مخصوص برقع پوش معاشرت کو دینی واخلاقی اقدار کے معیاری نمونے کے طور پر پیش کرتے ہوئے انھیں یہ احساس ہی نہیں ہو پاتا کہ وہ جدید طرز معاشرت میں خواتین کے ایک بہت بڑے طبقے کے لیے، جو تدریجا اکثریت میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے، کس نوعیت کے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ بجائے اس کے کہ جدید تمدن کے اوضاع کے لحاظ سے، خواتین کی عزت واحترام کا ایک مذہبی بیانیہ تشکیل دیا جاتا جس سے نئی طرز معاشرت میں اجتماعی نفسیاتی احساسات میں مطلوبہ تبدیلیاں پیدا کرنے میں مدد ملتی، مذہبی بیانیوں نے ہر اہم معاملے کی طرح اس معاملے میں بھی معاشرے میں تقسیم اور منافرت پیدا کرنے کو اپنی شناخت کے تحفظ کا ناگزیر ذریعہ سمجھنے کو ترجیح دی ہے۔

مخلوط ماحول  میں خواتین کی سماجی سرگرمیوں پر مذہبی یا معاشرتی اقدار   کے لحاظ سے  منفی حکم لگانے والے بیانیوں   کے ذکر کا مطلب یہ نہیں کہ  وہ براہ راست جنسی ہراسانی  یا جنسی  درندگی جیسے   رجحانات کے ذمہ دار ہیں۔ اسی طرح بدیہی طور پر اس تجزیے سے یہ نتیجہ اخذ کرنا بھی درست نہیں ہوگا کہ    ان رویوں کا نشانہ صرف  مخلوط ماحول میں کام کرنے والی خواتین بنتی ہیں۔     زیربحث بیانیوں کا کردار ان رویوں کے فروغ میں بالواسطہ ہے،  یعنی  مخلوط ماحول میں کام کرنے والی خواتین  کے بارے میں   یہ بیانیے ایسی  سماجی نفسیات  کو تقویت پہنچاتے ہیں  جس میں  انھیں  احترام اور تقدس کی نظر سے دیکھنے کے بجائے جنسی تلذذ کا  ذریعہ  سمجھا جاتا ہے۔   یہ چیز پھر دیگر کئی عوامل کے ساتھ مل کر  جنسی درندگی جیسے مجرمانہ رجحانات کی  صورت اختیار کر لیتی ہے  اور  چونکہ  یہ رجحانات شعوری نہیں ہوتے، یعنی   ایسا نہیں   ہوتا کہ مجرم باقاعدہ سوچ سمجھ کر   مخلوط ماحول میں کام کرنے والی خواتین کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کریں،  بلکہ دراصل      کئی نفسیاتی عوامل کے اشتراک سے ایسے  افراد میں فی نفسہ خواتین  کے تقدس اور احترام کا  جذبہ  ختم ہو جاتا ہے ، اس لیے نتیجے کے طور پر ان مجرمانہ حملوں کا ہدف صرف مخلوط ماحول کا حصہ بننے والی خواتین نہیں رہتیں، بلکہ ہر طرح کی خواتین ان کی زد میں آ جاتی ہیں۔

جہاں تک ان عوامل کا تعلق ہے جنھیں براہ راست  جنسی درندگی یا جنسی ہراسانی جیسے مظاہر  کا ذمہ دار قرار دیا جا سکتا ہے  تو وہ بنیادی طور پر دو ہیں:

سب سے پہلا اور بنیادی  عامل، سرمایہ دارانہ معیشت کی اخلاقیات ہے جو  نسوانی حسن اور جنسی جذبات کی انگیخت کو ایک باقاعدہ فروختنی چیز تصور کرتی  اور ان کی مارکیٹنگ کے لیے مذہب واخلاق اور انسانی معاشرے کی صلاح وفلاح کو  بالکل بالائے طاق رکھتے ہوئے ہر قسم کے کاروباری طریقے اختیار کرنے کو     جائز قرار دیتی ہے۔  اس کی بد ترین شکل عریاں فلموں کی صنعت کی صورت میں سامنے آتی ہے  جس سے بڑھ کر نسوانی تذلیل اور توہین کی کوئی شکل انسانی تاریخ نے نہیں دیکھی ہوگی، لیکن مغربی معاشروں میں اسے باقاعدہ قانونی تحفظ حاصل ہے۔    تاہم  اس سے نچلی سطحوں پر نیم عریانی  سمیت  جنسی جذبات کو بے قید کرنے  کے جو متنوع طریقے اختیار کیے جاتے ہیں اور جنھیں  بتدریج مشرقی معاشروں میں بھی قبولیت حاصل ہوتی جا رہی ہے، ان کا کردار     خواتین کے متعلق مجرمانہ جنسی نفسیات پیدا کرنے میں  کسی طرح بھی  نظر انداز کرنے کے قابل نہیں ہے۔

دوسرا بنیادی عامل،  اختلاط کے ماحول میں   ان آداب وحدود کی پابندی کو  اہمیت نہ دینے بلکہ آزادی نسواں  کے عنوان سے  ان کی پامالی کا پرزور دفاع کرنے کا رویہ ہے  جن کی  تعلیم نہ صرف مذہب اور اخلاق دیتے ہیں، بلکہ انسانی نفسیات  کے  آزمودہ اصول بھی  ان کی تائید کرتے ہیں۔  مذہب واخلاق، خواتین کے تحفظ کے مسئلے کو حیا اور پاک دامنی کی قدروں  سے الگ کر کے نہیں دیکھتے اور یک طرفہ طور پر صرف مردوں کو ’’احترام خواتین“ کا پابند نہیں کرتے، بلکہ خواتین کو بھی ان اخلاقی حدود وآداب کا پابند بنانا چاہتے ہیں جن کا نتیجہ خواتین کے تحفظ کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس کے برعکس حقوق نسواں کا عصری فلسفہ اس معاملے میں عورت کی انفرادیت اور آزادی کو تو اہمیت دیتا ہے جس کی رو سے عورت کو پورا حق ہے کہ وہ جیسا چاہے، لباس پہنے اور اپنے نسوانی حسن کی داد یا صنف مخالف کی توجہ حاصل کرنے کے لیے جو انداز چاہے، اختیار کرے، لیکن  اس کے نتیجے میں مخالف صنف میں جس طرح کے جنسی رجحانات اور رویوں کا  فروغ پانا     لازم ہے، ان سے کلی طور پر صرف نظر  کر لیا جاتا ہے۔

گفتگو کو سمیٹتے ہوئے،   بنیادی نکتے کو  نمایاں کرنے کے لیے  ایک سابقہ تحریر کا اقتباس نقل کرنا یہاں  مناسب ہوگا:

’’جنسی ہراسانی کا تعلق صرف مرد کی جارحیت سے نہیں ہے، اس کو تقویت دینے والے اسباب میں بنیادی کردار عورت سے متعلق اس عمومی ذہنی واخلاقی تصور کا ہے جو کسی معاشرے میں پایا جاتا ہے۔  اگر عمومی معاشرتی ماحول اور اس میں ذہنی واخلاقی تربیت کے ذرائع عورت کے متعلق احترام، ہمدردی اور تحفظ کا رویہ پیدا کریں گے (جس کے لیے مرد وزن کے اختلاط اور نسوانی حسن کی نمائش کے حدود وآداب کی اہمیت بنیادی ہے) تو اس کے نتائج اور ہوں گے، لیکن اس پہلو کو نظر انداز کیا جائے گا تو ایسے ماحول میں جنسی ہراسانی اور خواتین کے عدم تحفظ جیسے مسائل مستقل طور پر حل طلب رہیں گے۔  

مرد وزن کے اختلاط کے حوالے سے عمومی اخلاقی تربیت اور رویہ سازی میں اس  نکتے کو بنیادی اہمیت دی جانی چاہیے کہ مخلوط ماحول میں کام کرنے والی خواتین کے لیے عزت واحترام، ہمدردی اور ترحم کے جذبات بیدار کیے جائیں۔  جدید طرز معاشرت نے خواتین کو بھی معاشی ذمہ داریوں میں  شریک کر دیا ہے اور  انھیں اپنے خاندان کا سہارا بننے کے لیے کئی طرح کی پر مشقت معاشی سرگرمیوں میں  حصہ لینا پڑتا ہے۔ ایسے ماحول میں انھیں جنسی تلذذ کا ذریعہ تصور کرنے والی نفسیات  سے خواتین کی صورت حال کا یہ پہلو اوجھل ہوتا ہے اور وہ اس جبر کو محسوس کیے بغیر جس کا خواتین کو سامنا ہے، خود غرضی اور نفس پرستی کی کیفیت میں  انھیں صرف صنف مخالف کی نظر سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ چنانچہ بار بار کی تذکیر سے لوگوں کی اخلاقی حس کو بیدار کرنے کا اہتمام کرنے اور خواتین کے حوالے سے کلچرل زاویہ نظر  کی تشکیل میں احترام، ترحم اور ہمدردی جیسے جذبات کو بنیادی عناصر کے طور پر شامل کرنے کی ضرورت ہے۔“

موجودہ گفتگو کے تناظر میں، اس میں یہ اضافہ کر لیا جائے کہ  جنسی درندگی  کے رجحان کے سدباب کے لیے  جہاں معاشرے میں خواتین کی توقیر واحترام  کو بطور قدر  فروغ دینے اور   بے توقیری  کا رویہ پیدا کرنے والے جملہ اسباب کی سخت حوصلہ شکنی  کی ضرورت ہے،  وہاں  تعلیم وتربیت کے  تمام ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے   انتہائی ترجیحی بنیادوں پر افراد کی نفسی واخلاقی تربیت کو بھی  ایک  مہم کی صورت میں جاری کرنا  ضروری ہے۔  اس ضمن میں ذہنی رویوں کی تطہیر کے لیے مذہبی  وعظ ونصیحت اور  انسانی ونسوانی ہمدردی کی تلقین وتعلیم کے پہلو بہ پہلو  علم نفسیات کی مدد سے لوگوں میں  یہ آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ  ماحول میں  موجود جنسی ترغیبات  کس طرح ان کے  معمول کے ذہنی رویوں  پر اثر انداز ہوتی  اور ان کی شخصیت  کو آلودہ وپراگندہ کرنے کا موجب بنتی ہیں اور  یہ کہ کن مختلف تدابیر سے کام لیتے ہوئے  وہ  ان کے مضر اثرات سے خود کو   زیادہ سے زیادہ  محفوظ بنا سکتے ہیں۔  نفسیاتی علاج معالجے کی سہولت جو ہمارے معاشرے میں اب تک انفرادی سطح پر   اور بہت محدود  دائرے میں دستیاب ہے، اسے  ذرائع ابلاغ کے ذریعے سے تعلیم عامہ کے پروگراموں میں بدلنے کی ضرورت ہے ۔ جدید طرز معاشرت نے انسانوں کو جن ان گنت نفسیاتی  عوارض سے دوچار کر دیا ہے،  ان کا موثر علاج   نفسی واخلاقی تربیت   کے ایک عمومی ماحول  سے ہی ممکن ہے۔  ریاست اور قانون اس باب میں ایک خاص حد تک ہی  مددگار ہو سکتے ہیں، ان سے اس سے زیادہ کی توقع کرنا  غیر حقیقت پسندانہ  انداز فکر ہوگا۔

ہذا ما عندی واللہ اعلم


حالات و واقعات

(اکتوبر ۲۰۲۰ء)

تلاش

Flag Counter