کورونا وائرس کی حالیہ عالمی وبا کے تناظر میں مذہبی نوعیت کے بعض اہم سوالات بھی قومی سطح پر زیر بحث آئے اور مختلف حلقے ان پر اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کر رہے ہیں۔ مثلا کیا اس وبا کی نوعیت اللہ کی طرف سے ایک تنبیہ یا سرزنش کی ہے یا یہ محض طبیعی وحیاتیاتی قوانین کے تحت رونما ہونے والا ایک واقعہ ہے؟ کیا وبائے عام کی صورت حال میں مساجد میں باجماعت نماز کا نظام عارضی طور پر معطل یا محدود کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ اس نوعیت کے فیصلوں میں بنیادی اہمیت ارباب حل وعقد یا طبی ماہرین یا علما وفقہا میں کس کی رائے کو دی جانی چاہیے؟ پاکستان میں بطور ایک طبقے کے علماء اور اہل مذہب کا موقف عالم اسلام کے دیگر ممالک اور ہندوستان کے علماء سے بالکل مختلف ہونے کے اسباب کیا ہیں؟ وغیرہ
آئندہ سطور میں ہم مذکورہ سوالات کے حوالے سے اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کریں گے۔
آفات، بیماریاں اور مشکلات انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا ایک لازمی حصہ ہیں اور ان کے حوالے سے بساط بھر تدابیر اختیار کرنے کے علاوہ ان کی تفہیم کے حوالے سے کوئی زاویہ نظر متعین کرنا بھی انسانی شعور کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔ آفات اور تکالیف کی تفہیم کا سوال حیات وکائنات کی مجموعی معنویت کے بڑے سوال سے جڑا ہوا ہے، اس لیے انسان کا ذہنی رویہ اس کے مذہبی عقیدے کے زیر اثر ہی طے ہوتا ہے۔ انسانی فکر اگر حیات وکائنات کے ظہور کو ناقابل توجیہ اتفاقات کا نتیجہ تسلیم کر لے تو انسانی زندگی اور اس کے تمام مظاہر میں بھی معنویت یا مقصدیت کا سوال بے معنی ہو جاتا ہے، لیکن مذہبی عقیدے کے زیر اثر اگر انسانی زندگی کو ایک شعوری اور بامقصد تخلیقی عمل کا حصہ مانا جائے تو پھر زندگی کے مختلف احوال کی تفہیم وتوجیہ کے سوال کو بھی مذہبی تصورات اور عقائد سے الگ کرنا ممکن نہیں رہتا۔ اس وجہ سے آفات ومصائب کی مابعد الطبیعی تفہیم کا زاویہ نظر مذہب بیزار یا مذہب گریز ذہن کو کتنا ہی غیر منطقی محسوس ہوتا ہو، مذہبی ذہن کے لیے وہ اس کے شعوری مسلمات کا ناگزیر تقاضا ہے اور مذہب کا مطالبہ بھی انسان سے یہی ہے کہ وہ زندگی کے روز مرہ اور معمول کے احوال میں عموما اور غیر معمولی اور ہنگامی نوعیت کے حالات میں خصوصا عبرت اور سبق آموزی کے ان پہلووں کی طرف اپنی توجہ مرکوز رکھے جو اسے زندگی اور مقصد زندگی سے متعلق بڑے حقائق کی یاددہانی کرانے میں مددگار ہو سکتے ہیں۔ مذہب کی اسی تعلیم کی روشنی میں اہل مذہب اجتماعی آفات کے موقع پر ، ضروری تدابیر اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ، توبہ واستغفار اور دعا ومناجات کی طرف بھی لوگوں کو متوجہ کرتے ہیں اور یہ مذہبی تصور حیات سے ہم آہنگ ایک عین عقلی اور منطقی رویہ ہے۔
جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ کیا وبائے عام کی صورت حال میں ارباب حل وعقد مسجد میں باجماعت نماز کے سلسلے کو وقتی طور پر معطل یا محدود کرنے کا حکم دے سکتے ہیں یا نہیں تو ہمارے نزدیک اس ضمن میں سوال کی تصحیح ضروری ہے۔ یہ سوال بنیادی طور پر باجماعت نماز سے لوگوں کو روکنے کے اختیار کا نہیں، وبا کے پھیلاو کو روکنے کے لیے لوگوں کی نقل وحرکت اور اجتماع کو روکنے کے اختیار کا ہے جس کا ایک نتیجہ، بہت سے دیگر معاشرتی نتائج کے ساتھ، یہ بھی مرتب ہوتا ہے کہ لوگ باجماعت نماز کے لیے مسجد میں جمع نہیں ہو سکتے۔ اس کو مسجد یا باجماعت نماز سے روکنے کے حق سے تعبیر کرنا صورت حال کی درست ترجمانی نہیں ہے۔ مثلا وبا ہی کی صورت حال میں حکومت نے لوگوں کو عام علاج معالجے کے لیے اسپتال جانے سے روک دیا گیا تاکہ بغیر شدید ضرورت کے، لوگوں کا ہجوم نہ ہو اور طبی سہولیات زیادہ سنگین نوعیت کے مریضوں کے لیے دستیاب رہیں۔ اب اس کو اگر یوں تعبیر کیا جائے کہ کیا حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ لوگوں کو اسپتال جانے یا علاج معالجہ سے روک دے تو ظاہر ہے، سوال کا یہ زاویہ درست نہیں ہوگا، کیونکہ یہاں سوال دراصل کسی کو علاج سے روکنے یا باجماعت نماز پڑھنے سے روکنے کا نہیں، وبا کے شیوع کو روکنے کے لیے لوگوں کی معمول کی نقل وحرکت کو محدود کرنے کا ہے۔
اس ضروری تصحیح کے بعد اگلا سوال یہ سامنے آتا ہے کہ ارباب حل وعقد کو اجتماعی مصلحت کے لیے لوگوں کی نقل وحرکت اور اجتماع کو محدود کرنے کا جو اختیار حاصل ہے، کیا اس کے استعمال میں مساجد کا معاملہ دیگر مقامات سے مختلف ہے، یعنی کیا اس دائرے میں حکومتی اختیار کو بروئے کار لانے پر کچھ زیادہ سخت شرطیں عائد ہوتی ہیں؟ بعض اہل علم کی رائے یہ ہے کہ مساجد کا معاملہ روز مرہ سرگرمیوں کے دیگر مراکز سے مختلف ہے، اور مساجد میں آنے جانے کے لیے ضروری احتیاطی تدابیر کا پابند بنانے سے آگے بڑھ کر حکومت باجماعت نماز کے سلسلے کو علی الاطلاق محدود نہیں کر سکتی، البتہ وہ مخصوص افراد کو مسجد میں جانے سے روک سکتی ہے اور اسی طرح کسی خاص جگہ پر وبا کے اثرات کا پایا جانا متحقق ہو جائے تو بھی احتیاطا اس مخصوص علاقے میں مساجد میں باجماعت نماز کے سلسلے کو وقتی طور پر معطل یا محدود کر سکتی ہے۔ ہماری رائے میں یہ تفریق زیادہ مضبوط استدلال پر مبنی نہیں۔ حکومت کے لیے لوگوں کی نقل وحرکت یا اجتماع پر پابندی کے اختیار کی بنیاد ، ایک اجتماعی مصلحت کے تحت، وبا کے پھیلاو کو روکنے کی ذمہ داری پر ہے۔ اس ذمہ داری کو ادا کرتے ہوئے اگر حکومت وبا کے پھیلنے کے امکان کے پیش نظر ، لوگوں کو باقی جگہوں پر جمع ہونے سے روک سکتی ہے، چاہے ان مقامات پر اثرات کا پایا جانا یقینی نہ ہو، تو مسجد میں جمع ہونے سے بھی روک سکتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں، وبا کے یقینی یا امکانی ہونے کی بنیاد پر مسجد اور عام مقامات میں فرق نہیں کیا جا سکتا، یعنی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ باقی جگہوں پر تو امکان کے پیش نظر بھی جمع ہونے پر پابندی لگائی جا سکتی ہے، لیکن مسجد میں پابندی لگانا صرف تب جائز ہوگا جب یقینی طور پر مسجد کے ارد گرد کے علاقے میں وبا کا پایا جانا متحقق ہو چکا ہو۔
یہی نوعیت اس نکتے کی بھی ہے کہ آیا حکومت مخصوص افراد یا مخصوص علاقوں کے علاوہ عمومی طور پر پورے ملک کی مساجد کے حوالے سے کوئی حکم جاری کر سکتی ہے یا نہیں۔ ظاہر بات ہے کہ یہاں اصل مسئلہ لوگوں کو اجتماعی عبادت سے روکنے یا نہ روکنے کا نہیں، وبا کے شیوع کو محدود رکھنے کا ہے، چنانچہ احتیاطی تدبیر کے جس اصول پر مخصوص افراد کو یا مخصوص علاقوں کی مساجد کو باجماعت نماز کے عام معمول سے روکا جا سکتا ہے، اسی اصول پر پورے ملک کی مساجد کو بھی اس کا پابند کیا جا سکتا ہے۔ بنیادی اہمیت اس کی ہے کہ حکومت کے پاس وبا سے متعلق کیا معلومات ہیں اور اس کے پھیلاو کو روکنے کے لیے وہ کس سطح کے اقدامات کو ضروری یا مناسب خیال کرتی ہے۔ معلومات اور صورت حال کے تجزیے میں یقینا اختلاف کیا جا سکتا ہے، لیکن اصولی طور پر اس تفریق کی کوئی مضبوط بنیاد موجود نہیں کہ حکومت عام مقامات پر تو اجتماع پر عمومی پابندی لگا سکتی ہے، لیکن مساجد میں اس کا اطلاق صرف ضرورت یا استثناء کے دائرے میں کر سکتی ہے۔ باجماعت نماز اور جمعہ کی ادائیگی کی شرعی اہمیت مسلم ہے، لیکن ان فرائض کی ادائیگی میں دیگر شرعی مصالح کی رعایت بھی ضروری ہے اور خاص طورپر جمعہ وجماعت کی ادائیگی کو اگر مسجد کے مستقل عملے تک محدود کر لیا جائے تو اس میں دینی شعائر کے تسلسل اور احتیاطی تدبیر، دونوں کی پوری رعایت پائی جاتی ہے۔
اس وضاحت سے اس سوال کا جواب بھی مل جاتا ہے کہ ایسے معاملات میں فیصلے کی اتھارٹی کون ہے اور وبائی امراض کے ماہرین یا علماء میں سے کس کی رائے کو زیادہ اہمیت حاصل ہونی چاہیے۔ فقہ اسلامی کے اصول اس حوالے سے بالکل واضح ہیں۔ ایسے معاملات جن میں شرعی وفقہی اصول نظری طور پر واضح ہو اور اصل سوال صورت واقعہ کی صحیح تعیین کرنا ہو، ان میں بدیہی طور پر متعلقہ شعبے کے ماہرین کی رائے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، جبکہ فیصلے کا حتمی اختیار ارباب حل وعقد کو حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر فقہی وشرعی حکم کی تعیین میں علماء کی یا صورت حال کے تجزیے میں متعلقہ شعبے کے ماہرین کی آرا مختلف ہوں تو بھی فیصلے کا حتمی اختیار حکومت کے پاس ہوتا ہے۔ زیر بحث مسئلے میں طبی ماہرین کی رائے تو کم وبیش اجماع کے درجے میں یہ رہی ہے کہ ہر طرح کے اختلاط کو سختی سے روکا جائے، جبکہ مسئلے کی شرعی نوعیت کے حوالے سے واضح شرعی اصولوں کے علاوہ عالم اسلام کے علماء کی اکثریت اور خود پاکستان کے بہت سے معتمد اہل علم کی رائے یہ ہے کہ ان حالات میں مساجد کے عام معمولات کو موقوف کیا جا سکتا ہے ۔ طبی ماہرین کے اندازوں یا حکومتی ذمہ داران کے تجزیوں پر عملی شواہد کی بنیاد پر یقینا سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں اور اس پر ایک مسلسل بحث چل رہی ہے، لیکن بطور شرعی اصول کے اس میں کوئی ابہام نہیں ہے کہ یہ ایک اجتہادی بحث ہے جس میں حتمی فیصلے کا اختیار حکومت کو حاصل ہے اور اس سے نظری اختلاف رکھتے ہوئے بھی عملا حکومتی فیصلے کی پابندی ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن علماء نے حکومت کی طرف سے لاک ڈاون سے پہلے واضح طور پر اپنی رائے دی تھی، حکومتی فیصلے کے بعد انھوں نے بھی عملا اس کی پابندی کی اور لوگوں سے بھی یہی کہا کہ وہ فیصلے کی پابندی کریں۔
اب ہم اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ پاکستان میں مذہبی طبقے اور علماء کا موقف عمومی طور پر عالم اسلام کے دیگر ممالک کے اہل علم سے مختلف کیوں ہے۔ اس سوال کے جواب میں یہ سمجھنا اہم ہے کہ مذہبی مواقف کی تعیین میں صرف فقہی وشرعی اصول کارفرما نہیں ہوتے، بلکہ معاشرتی وسیاسی عوامل بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں شناخت پر مبنی سیاست اور حکومت اور مذہبی علماء کے مابین مذہبی معاملات میں اتھارٹی کا سوال، دو ایسے سیاسی عوامل ہیں جو بدیہی طور پر زیربحث اجتہاد پر اثر انداز ہوئے ہیں۔ ایک خاص تاریخی پس منظر میں ریاست اور مذہبی طبقات کے تعلقات میں باہمی اعتماد کا عنصر مفقود ہے اور خاص طور پر مساجد اور مدارس کے نظام میں حکومتی مداخلت کو مذہبی طبقے اپنے دینی کردار کے لیے ایک خطرہ تصور کرتے ہیں۔ موجودہ صورت حال میں یہ حساسیت اس وجہ سے مزید بڑھ گئی کہ علماء کو اس مسئلے سے اچانک اور کسی تیاری کے بغیر دوچار ہونا پڑا اور معمول کے حالات میں ایک سوچا سمجھا موقف طے کرنے کا جو موقع ہوتا ہے، وہ انھیں نہیں مل سکا۔ ہوا یوں کہ ابھی ملکی سطح پر صورت حال پوری طرح واضح نہیں ہوئی تھی کہ پوری دنیا میں مسلم حکومتوں کی طرف سے وہاں کے علماء کی تائید سے لاک ڈاون کا اقدام کر دیا گیا۔ وبا کی خوف ناکی اور عالم اسلام کے عمومی رجحان کے زیر اثر ہمارے ہاں بھی سوشل میڈیا پر فوری طور پر اس موقف نے عمومی شیوع حاصل کر لیا کہ مساجد کے معمولات معطل کر دینے چاہییں۔
سوئے اتفاق سے اس موقف کی ترجمانی عموما ایسے حلقوں کی طرف سے اور ایسے اسلوب میں کی گئی کہ علماء صورت حال کے تجزیے کا پورا موقع ملنے سے پہلے ہی ایک طرح سے کٹہرے میں کھڑے کر دیے گئے اور یہ تاثر بن گیا کہ کچھ حلقے جو ویسے ہی مذہب اور مذہبی طبقے سے متنفر یا مذہبی طبقے کے کردار کے ناقد ہیں، اس موقع کو مساجد اور علماء پر دباو ڈالنے اور انھیں کارنر کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ حکومت ویسے ہی سیاسی وانتظامی معاملات میں الجھی ہوئی تھی، اس لیے بروقت علماء سے رابطہ کر کے انھیں اعتماد میں نہیں لے سکی۔ جب کوشش کی بھی تو اس وقت جب کشاکش کا ماحول بن چکا تھا اور اس میں بھی اپنے تئیں بات کا وزن بڑھانے کے لیے ازہر سے فتوی منگوا کر علماء کو قائل کرنا چاہا جو ایک طرح سے ان پر عدم اعتماد کا اظہار تھا۔ یوں چند در چند پہلووں سے علماء کی نظر میں مسئلے کی شرعی وفقہی حیثیت سے زیادہ اس کا سیاسی پہلو اہمیت اختیار کر گیا اور نتیجتا ایک سیاسی انداز ہی کی پوزیشن لینے کی سوچ غالب آ گئی۔ اسی نکتے نے دراصل معاملے کو وہ رخ دے دیا جو ابھی تک قائم ہے۔
اللہ تعالی ٰ سے دعا ہے کہ وہ ان مشکل حالات سے عافیت کے ساتھ نکلنے میں ہماری مدد فرمائے اور ہمارے ارباب حل وعقد اور تمام طبقات حکمت اور تدبر، باہمی ہمدردی اور قومی جذبے کے ساتھ دین، ملک وقوم اور انسانیت کے حق میں درست فیصلے کر سکیں۔ آمین
قومی اقلیتی کمیشن میں احمدیوں کی شمولیت
قومی اقلیتی کمیشن میں بطور غیر مسلم اقلیت، احمدیوں کی شمولیت کے حالیہ حکومتی فیصلے کے تناظر میں احمدیوں کی آئینی حیثیت کا سوال ایک دفعہ پھر سوشل میڈیا پر موضوع بحث بن گیا ہے۔ معروف مذہبی اسکالر علامہ خلیل الرحمن قادری صاحب نے اس حوالے سے مذہبی حلقوں کے خدشات وتحفظات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
’’اقلیتوں کے کمیشن میں قادیانی کی شمولیت کے فیصلہ میں بظاہر کوئی حرج نہیں کیونکہ ریاست کی طرف سے آئین کے تتبع میں ایک بار پھر انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا ہے، لیکن عملاً اس سے کئی قباحتیں جنم لیں گی، کیونکہ قادیانیوں نے کبھی بھی خود کو غیر مسلم اقلیت تسلیم نہیں کیا ۔ ان کے اور اہل اسلام کے مابین بہت سی باتیں مشترک ہیں، مثلاً وہ عبادت کی جگہ کو مسجد ہی کہتے ہیں ، نماز ، اذان اور قرآن حکیم کی تلاوت وغیرہ سبھی کچھ اہل اسلام سے مشابہ ہے ۔ اگر چہ ان پر شعائر اسلام کو اپنانے کے حوالے سے قانونی قدغن موجود ہے، لیکن اس کے باوجود وہ ڈھکے چھپے انداز میں یہ سب کچھ کرتے رہتے ہیں ۔ اگر کوئی قانون کی گرفت میں آ جائے تو وہ مغربی ممالک کا چہیتا بن جاتا ہے اور جلد ( ضمانت پر ) یا مقررہ سزا کاٹنے کے بعد اسے قادیانی کمیونٹی ہیرو سمجھتی ہے۔
ہماری روایتی مذہبی سوچ انہیں زندیق سمجھتی ہے کیونکہ وہ غیر مسلم ہونے کے باوجود خود کو مسلمان سمجھتے ، کہتے اور کہلواتے ہیں بلکہ اہل اسلام اور غیر مسلموں کو اپنے مسلمان ہونے کا فریب دیتے ہیں ۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر از روئے شرع ان کا یہ عمل زندیقیت ہے تو اس کی سزا صرف تین سال قید اور جرمانہ کیوں ہے ؟
دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ وہ اپنی تحریر و تقریر کے ذریعے جب تعزیرات پاکستان کی دفعات 298 اے اور بی کی خلاف ورزی کریں گے تو کیا ان کے خلاف موثر قانونی کارروائی عمل میں لائی جا سکے گی اور کیا اس قانونی کارروائی پر وہ اقلیتوں پر مظالم کی دہائیاں نہیں دیں گے ؟
تیسرا سوال یہ ہے کہ اقلیتوں کا کمیشن دوسرے اقلیتی مذاہب کی طرح انہیں اپنے مذہب کی تبلیغ سے کیسے روک سکے گا ؟ اگر ان کے سالانہ جلسے ہوں گے اور وہ اپنے مذہب کے بانی کی یاد منائیں گے تو اہل اسلام اسے کیسے قبول کر پائیں گے ؟
الحاصل قادیانیوں کا معاملہ دیگر اقلیتوں سے یکسر مختلف ہے اور عملی نتائج کے اعتبار سے ان کی اقلیتوں کے کمیشن میں شرکت سے کبھی بھی بہتر نتائج برآمد نہیں ہو سکتے ۔ یہی وجہ ہے کہ صدر اول میں جھوٹے مدعیان نبوت کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا گیا تھا ۔ اس فیصلے سے یہ بات تو مکرر ثابت ہو گئی کہ ریاست انہیں غیر مسلم اقلیت ہی سمجھتی ہے، لیکن یہ واضح نہیں ہو سکا کہ ریاست ان کے اور دیگر غیر مسلم اقلیتوں کے مابین خط امتیاز کیسے کھینچ پائے گی اور ان کے مذہبی حقوق کی پاسداری کیسے کر سکے گی جس سے اسلامیان پاکستان بھی مطمئن ہوں اور قادیانی بھی اپنی حدود سے تجاوز نہ کر پائیں ۔“
ہماری رائے میں علامہ صاحب نے مسئلے کی اصل الجھن کو درست طور پر واضح کیا ہے۔ البتہ ہماری گزارش یہ ہے کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا فیصلہ ریاست نے ازخود نہیں، بلکہ علماء کے مطالبے پر اور ان کی تحریک کے نتیجے میں کیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ فیصلے کے ان مضمرات پر کیا علماء نے خود بھی غور کیا تھا یا نہیں؟ اور ان کے پاس اس الجھن کا کیا حل ہے؟ بظاہر صورت حال یہ معلوم ہوتی ہے کہ آئینی فیصلے کو نہ احمدیوں نے تسلیم کیا ہے اور نہ آئینی مفہوم میں خود علماء نے، کیونکہ اس فیصلے کے بعد آئینی طور پر احمدیوں کو جو حقوق ملنے چاہییں، علماء وہ انھیں نہیں دینا چاہتے۔ اس کے لیے آئین کو تسلیم نہ کرنے اور غداری کے جس نکتے کو علماء بنیاد بناتے ہیں، وہ آئینی وقانونی طور پر بنیاد نہیں بنتا، کیونکہ قانون کی عملا پابندی ضروری ہوتی ہے، اس کو درست تسلیم کرنا ضروری نہیں ہوتا۔ آئین کی بعض شقوں اور بہت سے قوانین کو علماء بھی درست تسلیم نہیں کرتے، لیکن اس عدم تسلیم کو آئین شکنی یا غداری نہیں کہا جاتا۔ پس گیند دراصل ریاست کی کورٹ میں نہیں، بلکہ علماء کی کورٹ میں ہے۔ ریاست کی تو آئینی ذمہ داری بھی ہے اور بین الاقوامی قوانین کا بھی اس سے تقاضا ہے کہ وہ آئین کے مطابق احمدیوں کو اقلیتوں کے حقوق دلوائے۔ ہاں، تکفیر کے فیصلے کو کالعدم کرنے کا مطالبہ، ظاہر ہے، نہیں مانا جا سکتا اور نہ ریاست کم سے کم اس وقت اسے مان رہی ہے۔
علماء کو اس مشکل سوال پر سنجیدہ غور کرنا ہوگا کہ آیا احمدیوں کی شرعی حیثیت کی تعیین کے سوال پر ازسرنو غور ہونا چاہیے یا آئینی فیصلے کو اس کی روح کے مطابق مان کر آگے بڑھنا چاہیے؟ ریاست کو اب زیادہ دیر تک چکی کے دو پاٹوں کے درمیان نہیں رکھا جا سکتا۔ اسے اپنا کام کرنا ہے۔