6۔معیارات ِنقد حدیث
اہل تشیع و اہلسنت کے حدیثی ذخیرے کا ایک بڑا فرق معیارات ِنقد حدیث کا فرق ہے ،اہلسنت کے ہاں مصطلح الحدیث کا ایک منظم و مرتب فن موجود ہے ،جس میں نقد حدیث کے تفصیلی قواعد مذکور ہیں ،حدیث کی اقسام ،راوی کی جرح و تعدیل کے ضوابط ،حدیث سے استدلال کی شرائط ،راویوں کی انواع و اقسام سے متعلق تفصیلات ذکر ہیں ،چنانچہ معروف محقق ڈاکٹر نور الدین عتر نے مصطلح الحدیث کے جملہ فنون کو چھ انواع میں تقسیم کیا ہے:
1۔علوم رواۃ الحدیث یعنی وہ ضوابط جن کا تعلق رواۃ حدیث سے ہیں۔
2۔ علوم روایۃ الحدیث ،یعنی وہ فنون و علوم جو حدیث کے تحمل ،ادا وغیرہ سے متعلق ہیں۔
3۔علوم الحدیث من حیث القبول او الرد یعنی وہ علوم و ضوابط جو حدیث کے قبول و رد سے تعلق رکھتے ہیں۔
4۔علوم المتن یعنی وہ ضوابط جو حدیث کے متن سے متعلق ہیں۔
5۔علوم السند یعنی فنون و ضوابط جن کا تعلق حدیث کی سند سے ہیں۔
6۔العلوم المشترکہ بین السند و المتن یعنی وہ فنون جن کا تعلق متن و سند دونوں کے ساتھ ہیں۔1
ان علوم و فنون اور قواعد و ضوابط کے انطباق میں تو علمائے اہلسنت کا اختلاف رہا ہے کہ کونسی احادیث علوم الحدیث کی رو سے کس قسم میں داخل ہیں ؟جس کی وجہ سے حدیث کے ضعف و صحت ،ارسال و اتصال ،موقوف و مرفوع ،راوی کی عدالت و جرح ،توثیق و تضعیف ،کسی کتاب یا محدث کے معتمد و غیر معتمد ہونے میں بڑے پیمانے پر اختلاف رہا ہے ،لیکن حدیث کو جانچنے کے پیمانے کم و بیش جملہ محدثین کے ہاں یکساں رہے ہیں ۔ ان قواعد و ضوابط پر اہلسنت کے ذخیرہ حدیث کی ایک ایک روایت کو پرکھا جاچکا ہے ،ہزاروں رواۃ کی جرح و تعدیل کے حوالے سے ضخیم کتب لکھی جاچکی ہیں۔2
اس کے برخلاف جب ہم اہل تشیع کے معیارات ِنقد حدیث کو دیکھتے ہیں ، تو ان پر معیار کا اطلاق مشکل ہوجاتا ہے ،حدیث و رواۃ کو پرکھنے سے اہل تشیع روزِاول سے آج تک دو بڑے گروہوں میں تقسیم ہیں:
پہلا گروہ اخباریوں کا ہے ،جبکہ دوسرا گروہ اصولیوں کا ہے ،ہم نقد ِحدیث کے حوالے سے دونوں کا نقطہ نظر ذکر کرتے ہیں:
نقد ِحدیث کا اخباری منہج
اہل تشیع کا اخباری طبقہ ،جن میں اہل تشیع کے نامی گرامی اہل علم آتے ہیں ،ان کے نزدیک حدیثی ذخیرے کو کسی بھی معیار پر پرکھنا جائز نہیں ہے ، سار ا حدیثی ذخیرہ نہ صرف یقینی طور پر صحیح ہے ،بلکہ بعض اخباریوں کے نزدیک سارا ذخیرہ متواتر ہے ،معروف شیعہ محقق حیدر حب اللہ اخباری نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"ذھب فریق من الاخباریین الی القول بقطعیۃ الکتب الاربعۃ ،و تعدی بعضھم الی ما ھو ازید منھا"3
ترجمہ: اخباریوں کا ایک گروہ اس طرف گیا ہے کہ کتب اربعہ کی جملہ احادیث قطعی ہیں ،اور ان میں سے بعض اس سے بھی آگے کی طرف گئے ہیں ۔(یعنی انہوں نے تواتر کا قول اختیار کیا ہے )
اخباریوں کے نزدیک علوم مصطلح الحدیث سے احادیث کی جانچ پڑتا ل کرنا درست نہیں ہے ،کیونکہ یہ علوم اصلا اہلسنت کے علوم ہیں ،شیعی علوم نہیں ہیں ،حیدر حب اللہ لکھتے ہیں:
" رفض الإخباريون الترحيب بعلم الرجال والجرح والتعديل والحديث والدرايۃ بحجّۃ أنّ ھذہ العلوم علومٌ سنيّۃ وليست شيعيّۃ"4
ترجمہ: اخباریوں نے علم رجال ،جرح و تعدیل اور حدیث کو پرکھنے کے درایتی معیارات کو ترک کیا ہے ،کیونکہ اخباریوں کے نزدیک یہ علوم اہلسنت سے ماخوذ علوم ہیں ،شیعی علوم نہیں ہیں۔
اخباری مکتب کے نزدیک علوم مصطلح الحدیث پر اگر احادیث شیعہ کو پرکھیں گے ،تو اکثر یا سب کے سب احادیث ضعیف و موضوع نکلیں گی ،معروف اخباری عالم محمد بن حسن حر عاملی لکھتے ہیں:
أنہ يستلزم ضعف أكثر الأحاديث ، التي قد علم نقلھا من الأصول المجمع عليھا ، لأجل ضعف بعض رواتھا ، أو جھالتھم ، أو عدم توثيقھم ، فيكون تدوينھا عبثا ، بل محرّما ، وشھادتھم بصحتھا زورا وكذبا ويلزم بطلان الإجماع ، الذي علم دخول المعصوم فيہ ـ أيضا ـ كما تقدم .واللوازم باطلۃ ، وكذا الملزوم .بل يستلزم ضعف الأحاديث كلھا ، عند التحقيق ، لأن الصحيح ـ عندھم ـ : « ما رواہ العدل ، الإماميّ ، الضابط ، في جميع الطبقات . ولم ينصوا علی عدالۃ أحد من الرواۃ ، إلا نادراً ، وإنما نصوا علی التوثيق ، وھو لايستلزم العدالۃ ، قطعا5
ترجمہ : اصولی اصطلاح سے اکثر احادیث کا ضعف لازم آتا ہے ،جو معتبر مجمع علیہ کتب میں منقول ہیں ،کیونکہ بعض راوی ضعیف ،بعض مجہول اور بعض کی توثیق ثابت نہیں ہے ،تو ان احادیث کی تدوین نہ صرف عبث بلکہ حرام ہوگی ،اور ان احادیث کی صحت کی گواہی جھوٹ شمار ہوگی ،بلکہ اجماع ِشیعہ کا بطلان لازم آئے گا ،جن میں ائمہ معصومین بھی داخل ہیں ،یہ سارے لوازم باطل ہیں ،تو ملزوم یعنی اصولی اصطلاح سے احادیث کو پرکھنا بھی باطل ہوگا ۔بلکہ تحقیقی نگاہ سے دیکھیں ،تو ساری احادیث ِشیعہ کا ضعف لازم آئے گا ،کیونکہ صحیح کی تعریف یہ ہے کہ جو ایسے راوی سے مروی ہو ،جو عادل ہو ،امامی ہو ،جملہ طبقات میں ضابط ہو ،اور محدثین نے کسی راوی کی عدالت کی صراحت نہیں کی ہے ، محدثین نے صرف توثیق منقول ہے ،جو عدالت کو مستلزم نہیں۔
چونکہ شیعہ کتب حدیث کے نسخ و مخطوطات میں ناقابل ِحل اختلاف موجود ہے ،جیسا کہ ماقبل میں تفصیل سے گزر چکا ہے ،اس لئے یہ مسئلہ بھی اخباری مکتب کو کھٹکا ،لیکن اس کی توجیہ اخباری مکتب نے جو کی ہے ،وہ قارئین بھی سن لیں ،حر عاملی لکھتے ہیں:
" ان اختلاف النسخ المعتمدۃ نظير اختلاف القراءات في القرآن ، فما يقال ھُنا يُقالُ ھنا، 6
ترجمہ : ایک کتاب کے معتمد نسخوں کا اختلاف قرآن پاک کی مختلف قراءتوں کے اختلاف کی طرح ہے ،جو توجیہ وہاں کی جاتی ہے ،وہی توجیہ یہاں کی جائے گی ۔
بلکہ شیعہ محدث کے نزدیک شیعہ کتب کے نسخوں و مخطوطات کا اختلاف قرآن پاک کی قراءتوں سے بھی بڑھ کر معتمد ہے ،چنانچہ لکھتے ہیں :
علی إن اختلاف النسخ لايتغير بہ المعنی ، غالبا ، بخلاف اختلاف القراءآت . ومع ذلك فاختلاف النسخ ، والروايات، لايستلزم التناقض ، لجواز كونھما حديثين متعددين وقعا في مجلسين أو في مجلسٍ واحد ، لحكمۃ أخری ، من تقيۃ ونحوھا ، بخلاف اختلاف القراءآت۔7
ترجمہ:اختلاف نسخ سے معنی تبدیل نہیں ہوتا ،بخلاف اختلاف قراءت کے ،کہ اختلاف ِقراءت سے معنی مختلف ہوجاتا ہے ،نیز اختلاف نسخ و اختلاف روایات سے تناقض لازم نہیں آتا ،کیونکہ وہ دو متعدد احادیث ہیں ،جو دو یا ایک مجلس میں تقیہ یا کسی اور وجہ سے ائمہ سے صار ہوئی ہیں ،جبکہ اختلاف قراءت اس طرح نہیں ہے (یعنی اختلاف روایات و اختلاف نسخ سے تو تناقض لازم نہیں آتا جبکہ اختلاف ِقراءت سے بسا اوقات تناقض لازم آتا ہے ۔معاذ اللہ )
ان عبارات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اخباری مکتب کے ہاں شیعہ ذخیرہ حدیث کی صحت و قطعیت کس درجہ کی ہے ؟اخباری مکتب فکر نے احادیث کے حوالے سے جو نقطہ نظر اختیار کیا ہے ،وہ انتہائی غیر علمی ،غیر تحقیقی اور اندھے اعتقاد پر مبنی ہے ،علم و تحقیق کے میدان میں اسے محض خواہش اور دعوی بلا دلیل کہا جاسکتا ہے ،کیونکہ اس نقطہ نظر کا مطلب یہ ہے کہ کتب اربعہ کی چالیس ہزار احادیث ،ان احادیث کو روایت کرنے والے ہزاروں راوی ،ان کتب کو نسلا بعد نسل لکھنے والے ہزاروں نساخ سب کے سب ہی غلطی ،تسامح اور ہر قسم کی بھول چوک سے مکمل طور پر معصوم اور پاک ہیں ،اس لئے ان کی روایتوں کو کسی بھی پیمانے پر پرکھنا ناجائز ہے ۔علم و تحقیق کے میدان میں کسی ایک فرد کا اس طرح کا دعوی مضحکہ خیز ہے لیکن اگر سینکڑوں سال سے ایک پورا طبقہ نسل در نسل اس طرح کا غیر منطقی دعوی کرے ،تو اس کے لئے مضحکہ خیز سے آگے کوئی تعبیر ہوگی ۔
ایک اشکال اور اس کا جواب
اخباری مکتب فکر نے شیعہ حدیثی ذخیرے سے متعلق جو موقف اختیار کیا ہے ،چونکہ وہ نہایت غیر علمی ہے ،اس لئے اس کی شناعت کم کرنے کے لئے بعض شیعہ محققین نے اسی سے ملتے جلتے موقف کی نسبت اہلسنت کی طرف بھی کی ہے ،تاکہ بجواب آن غزل اہل سنت بھی اسی غیر منطقی دائرے میں آسکیں ،چناچہ شیخ حیدر حب اللہ لکھتے ہیں:
"لا تقتصر نزعۃ اليقين علی الوسط الشيعي الإمامي، بل ھي موجودۃ في الوسط السنّي أيضاً، فبعض أھل السنّۃ يذھبون إلی ما يشبہ مطابقۃ كلّ حرف من صحيحي مسلم والبخاري للواقع، ويرون أنھما أصحّ الكتب بعد القرآن الكريم"8
ترجمہ : ذخیرہ حدیث سے متعلق یقین کا موقف صرف امامی حلقوں کے ساتھ خاص نہیں ،بلکہ سنی حلقے میں اسی موقف کے حامل لوگ موجود ہیں ،چنانچہ بعض اہل سنت اسی قسم کے موقف کی طرف گئے ہیں کہ صحیح بخاری و مسلم کی ہر حدیث صحیح ہے ،اور واقع کے مطابق ہے ،نیز اہل سنت صحیحین کو اصح الکتب بعد کتاب اللہ کہتے ہیں ۔
یہ بہت بڑا مغالطہ ہے ،جو شیعہ محقق نے کمال ہوشیاری سے مکتب اخباری کے غیر منطقی دعوے کے اثرات کو کم کرنے کے لئے اٹھایا ہے ،اس مغالطے کی اصل حقیقت یہ ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اپنی مایہ ناز کتاب شرح نخبۃ الفکر میں صحیح احادیث کے درجات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
"و تفاوت رتبہ ای الصحیح بسبب تفاوت ھذہ الاوصاف المقتضیۃ للتصحیح فی القوۃ ،فانھا لما کانت مفیدۃ لغلبۃ الظن الذی علیہ مدار الصحۃ اقتضت ان یکون لھا درجات ،بعضھا فوق بعض ،بحسب الامور المقویۃ ،و اذا کان کذالک فما تکون رواتہ فی الدرجۃ العلیا من العدالۃ و الضبط و سائر الصفات التی توجب الترجیح کان اصح مما دونہ"9
ترجمہ :صحیح کے درجات میں صحیح کے مقتضی اوصاف میں فرق کی وجہ سے تفاوت ہے ،کیونکہ جب یہ صفات ،جن پر صحت کا مدار ہے ،جب غلبہ ظن کا فائدہ دیتی ہیں ، تو اس کا تقاضا ہے کہ ان امور تقویت کی وجہ سے بعض درجات بعض سے اوپر ہو ،لھذا جن احادیث کے رواۃ عدالت ،ضبط اور دیگر اوصاف صحت میں اعلی درجے کے ہوں ،تو وہ احادیث ان احادیث سے درجہ صحت میں اعلی درجہ پر فائز ہونگی ،جن کے رواۃ اس درجے کو نہیں پہنچتے ۔
اس کے بعد امام عسقلانی نے ان احادیث کی نشاندہی کی ہے ،جو اپنی رواۃ کی عدالت ،ضبط و دیگر اوصاف کی برتری کی وجہ سے دیگر احادیث سے صحت میں برتر ہیں ،ان میں سب سے اعلی درجہ صحیحین کا ہے ،کیونکہ صحیحین کے رواۃ کی عدالت ،ضبط ،اتصال وغیرہ بنسبت دیگر کتب کی رواۃ سے اعلی درجہ کی ہیں ،پھر خود صحیحین میں موازنہ کرتے ہوئے صحیح بخاری کو صحیح مسلم پر درجہ ذیل وجوہ سے فوقیت دی ہے:
- صحیح بخاری کی احادیث اتصال میں بنسبت صحیح مسلم کے زیادہ قوی ہیں ،کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے راوی و مروی عنہ میں معاصرت کی بجائے لقاء کی شرط لگائی ہے ۔
- صحیح بخاری کے رواۃ صحیح مسلم کے رواۃ سے عدالت و ضبط میں فائق ہیں ،کیونکہ صحیح بخاری میں متکلم فیہ رواۃ کی تعداد صحیح مسلم سے کم ہے۔
- صحیح بخاری کی احادیث عدم شذوز و عدم اعلال میں صحیح مسلم سے فائق ہیں ،کیونکہ صحیح بخاری کی قابل ِنقد احادیث صحیح مسلم کی احادیث سے کم ہیں۔10
مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ حافظ ابن حجر نے بقیہ کتب کی بنسبت صحیحین کی احادیث کی اولویت پھر صحیحین میں صحیح بخاری کے ارجح و اصح ہونے کی جو بات کی ہے ،وہ مکتب اخباری کی طرح محض اعتقاد اور دعوی بلا دلیل پر مبنی نہیں ہے ،بلکہ اس وجہ سے ہے کہ صحیحین کی احادیث مصطلح الحدیث کے قواعد و ضوابط پر پرکھنے کے بعد صحت میں بقیہ کتب سے فائق ثابت ہوئی ہیں ۔کسی کتاب کو محض اعتقادی بنیاد پر یقینی قرار دینا اور بات ہے ،جبکہ کسی کتاب کو قواعد و ضوابط پر پرکھنے کے بعد یقینی قرار دینا بالکل الگ بحث ہے ،چنانچہ حافظ بن حجر اس بحث کے اختتام پر کہتے ہیں:
"فالصفات التی تدور علیھا الصحۃ فی کتاب البخاری اتم منھا فی کتاب مسلم و اشد"11
ترجمہ: پس و ہ صفات ،جو حدیث کی صحت کے لئے معیار ہیں ،وہ صحیح بخاری میں بنسبت صحیح مسلم کے زیادہ اتم و اشد درجے میں پائی جاتی ہیں۔
خلاصہ یہ نکلا کہ اہلسنت کے ہاں صحیحین کی بقیہ کتب ِحدیث پر ارجحیت کا جو قول ہے ،وہ صحیحین کی احادیث میں شرائط ِصحت کے پائے جانے کی وجہ سے ہیں ،جبکہ اخباری مکتب نے کتب اربعہ کی صحت کا جو دعوی کیا ہے وہ کسی معیار پر پرکھنے ، شیعہ علوم الحدیث میں شرائط صحت پر جانچنے کے بغیر محض کتب اربعہ کے مصنفین سے حسن ظن و فرط اعتقاد کی بنیاد پر کیا ہے ۔ورنہ تو پیچھے حر عاملی کا قول گزر چکا ہے کہ اگر مصطلح الحدیث کے قواعد صحت پر کتب اربعہ کو پرکھا جائے ،تو اکثر یا تمام احادیث کو ضعیف کہنا پڑے گا ۔تحقیق کے بعد یقین کا قول اپنانا (جیسا کہ صحیحن کی احادیث کو قواعد پر پرکھنے کے بعد یقینی کہنا) اور بلا تحقیق یقین کا قول اختیار کرنے (جیسا کہ اخباری مکتب نے کتب اربعہ کے بارے میں کہا ہے) میں بعد المشرقین ہے ۔چنانچہ معروف شیعہ عالم مازندرانی شرح اصول کافی کے مقدمے میں لکھتے ہیں:
أكثر أحاديث الأصول في الكافي غير صحيحۃ الإسناد ومع ذلك أوردہ الكليني - رحمہ اللہ - معتمدا عليھا لاعتبار متونھا وموافقتھا للعقائد الحقۃ ولا ينظر في مثلھا إلی الإسناد12
ترجمہ :کافی کی اکثر احادیث باعتبار سند کے صحیح نہیں ہیں ،اس کے باوجود امام کلینی نے ان پر اعتماد کرتے ہوئے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے ،کیونکہ ان کے متون عقائد حقہ کے موافق ہونے کی بنا پر معتبر ہیں ،اور ان جیسی روایات میں اسناد کو نہیں دیکھا جاتا ۔
کیا علمائے اہلسنت نے صحیحین کے بارے میں اسی قسم کا دعوی کیا ہے ؟کہ اسناد صحیح نہ ہونے کے باوجود صحیحین کی احادیث صحیح شما رہونگی؟یا علمائے اہلسنت نے صحیحین کی ایک ایک حدیث اور ایک ایک راوی کو قواعد علوم الحدیث پر پرکھنے کے بعد ان کی صحت کا نظریہ اپنایا ہے؟
حواشی
1. دیکھیے :منہج النقد فی علوم الحدیث ،نور الدین عتر،دار الفکر ،دمشق
2. اس موقع پر اس کی وضاحت ضروری ہے کہ فقہاء جب حدیث پر بحث کرتے ہیں ،تو اس کے قابل ِعمل ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے بحث کرتے ہیں،ورنہ حدیث کے جانچنے کے معیارات فقہاء کے ہاں بھی مصطلح الحدیث کے قواعدو ضوابط ہیں ،یہی وجہ ہے فقہاء و مجتہدین کے مباحث ِ نقد ِ حدیث میں مصطلح الحدیث کے قواعد کا استعمال ہی نظر آتا ہے ۔
3. نظریۃ السنہ فی الفکر الامامی الشیعی،التکون و الصیرورۃ ،حیدر حب اللہ ،الانتشار العربی ،بیروت ،ص 225
4. المدخل الی درایۃ الحدیث ،حیدر حب اللہ ،ص 470
5. وسائل الشیعہ ،محمد بن حسن حر عاملی ،موسسۃ آل البیت ،قم ،ج 30،ص259
6. ایضا :ج30،ص،273
7. ایضا:ج30،ص273
8. المدخل الی موسوعۃ الحدیث ،حیدر حب اللہ ،ص314
9. شرح نخبۃ الفکر ،ابن حجر عسقلانی ،ص72
10. دیکھیے :ایضا :ص75
11. ایضا:ص75
12. شرح اصول کافی ،صالح مازندرانی ،ج1،ص10
(جاری)