نسخ القرآن بالسنة کے حوالے سے جمہور اصولیین کا موقف
امام شافعی کے موقف کا محوری نکتہ یہ تھا کہ سنت کا وظیفہ چونکہ قرآن مجید کی تبیین ہے اور اس کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی راہ نمائی میسر تھی، اس لیے مراد الٰہی کے فہم میں سنت میں وارد توضیحات نہ صرف حتمی اور فیصلہ کن ہیں، بلکہ قرآن اور سنت کی دلالت میں کسی ظاہری تفاوت کی صور ت میں انھیں قرآن کی تبیین ہی تصور کرنا ضروری ہے، یعنی انھیں اصل حکم میں تغییر یا اس کا نسخ نہیں مانا جائے گا، بلکہ قرآن کی ظاہری دلالت کو اسی مفہوم پر محمول کرنا ضروری ہوگا جو احادیث میں بیان کی گئی تفصیل وتوضیح سے ہم آہنگ ہو۔
حنفی اصولیین نے اس پر یہ تنقید کی کہ اس نقطہ نظر میں قرآن کے ظاہراً واضح اور غیر محتمل احکام میں اور محتمل وقابل تفصیل احکام میں فرق ملحوظ نہیں رکھا گیا اور دونوں طرح کے احکام کو ایک ہی درجے میں رکھ کر، سنت میں وارد تخصیص کو ’بیان‘ شمار کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں قرآن کی اپنی دلالت ثانوی، غیر اہم اور مطلقاً خارجی توضیح وتشریح پر منحصر قرار پاتی ہے۔ چنانچہ حنفی اصولیین نے بیان کی مختلف صورتوں، تخصیص اور نسخ کا مفہوم اور ان کا باہمی امتیاز واضح کرنے پر بطور خاص توجہ دی اور اس اس بنیادی موقف کو محکم بنانے کی کوشش کی کہ خود قرآن کے اپنے متن کی داخلی قطعیت اور وضوح یا ظنیت واحتمال کو نظر انداز کرتے ہوئے مطلقاً ہر طرح کے عمومات کو ’محتمل البیان‘ قرار دینا درست نہیں اور یہ کہ احادیث میں وارد تمام تخصیصات کوبھی سادہ طور پر محض ’بیان‘ اور ’وضاحت‘ قرار دینا علمی وعقلی طور پر ایک کمزور بات ہے۔
امام طحاوی اور ابن حزم کے نقطہ نظر کے مطالعہ کے ضمن میں ہم نے دیکھا کہ قرآن وسنت کے باہمی تعلق کی بحث اپنی نوعیت کے لحاظ سے اتنی سادہ نہیں ہے کہ امام شافعی اور حنفی اصولیین میں سے کسی ایک کے رجحان کے مقابلے میں دوسرے رجحان کو فیصلہ کن اور قطعی انداز میں ترجیح دی جا سکے۔ دونوں زاویوں میں ایک منطقی وزن موجود ہے جو علمی وعقلی طور پر متاثر کرتا ہے اور بحث کو سنجیدگی اور گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کرنے والے اکابر اہل علم دونوں کے وزن کو محسوس کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے امام طحاو ی اور ابن حزم، دونوں نے امام شافعی کے اصولی نقطہ نظر سے ہمدردی رکھتے ہوئے بھی، ان کے اس موقف کی کمزوری کو محسوس کیا کہ حدیث کو قرآن کا ’بیان‘ قرار دے کر قرآن کے ظاہری مفہوم کو ہر ہر مثال میں حدیث میں وارد حکم پر محمول کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے متعدد مثالوں میں امام شافعی کے اس زاویہ نظر سے اختلاف کیا اور اس کے بجائے قرآن کی ظاہری دلالت کو برقرار رکھتے ہوئے ایک مختلف توجیہ کے ذریعے سے حدیث کو قرآن کے ساتھ متعلق کرنے کی کوشش کی۔ اسی طرح ابن حزم نے سنت کے ذریعے سے قرآن کے نسخ کے جواز کے حوالے سے احناف سے اتفاق کرتے ہوئے امام شافعی کے موقف پر سخت تنقید کی اور حنفی اصولیین کے اس استدلال کا وزن تسلیم کیا کہ نصوص کے باہمی تعلق میں زمانی تقدم یا تاخر کے سوال کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور کسی نص میں مذکور حکم پر زیادت یا اس میں تخصیص کو ’بیان‘ قرار دینے کے لیے اس کا زمانی لحاظ سے اصل حکم کے مقارن ہونا ضروری ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر ابن حزم کے ہاں اس الجھن کا بھی واضح احساس دکھائی دیتا ہے کہ دونوں نصوص کے زمانی طور پر مقارن ہونے کی صورت میں حکم کا ایک حصہ وحی متلو میں اور دوسرا غیر متلو میں نازل کرنے کی کوئی معقول توجیہ نہیں کی جا سکتی۔
دونوں طرف کے زاویہ نظر اور استدلال میں وزن محسوس کرنے کا یہی رجحان ہمیں بعض شافعی اہل علم کے ہاں بھی دکھائی دیتا ہے جس کی کچھ توضیح ان سطور میں پیش کی جا رہی ہے۔
احناف کا استدلال یہ تھا کہ قرآن کے جن بیانات کی اپنی دلالت قطعی اور حتمی نہیں، بلکہ وہ توضیح وتفصیل کا احتمال رکھتے ہیں، ان سے متعلق تو سنت میں وارد توضیح کو تبیین قرار دیا جا سکتا ہے، لیکن جو احکام اپنے مفہوم اور دلالت میں بالکل واضح ہیں اور مزید کسی تشریح وتبیین کا احتمال نہیں رکھتے اور بظاہر کوئی ایسا قرینہ بھی موجود نہیں جو ان کے ظاہری مفہوم کے مراد نہ ہونے پر دلالت کرتا ہو تو ان سے متعلق سنت میں وارد تفصیلات کو علی الاطلاق تبیین نہیں کہا جا سکتا۔ ایسی صورت میں ضروری ہوگا کہ متعلقہ احادیث کے، زمانی لحاظ سے قرآن میں نازل ہونے والے حکم کے مقارن ہونے یا نہ ہونے کی تحقیق کی جائے اور اگر دلائل وقرائن سے دونوں حکموں کا مقارن ہونا ثابت ہو جائے تو درست، ورنہ اسے لامحالہ “تغییر” اور “نسخ” قرار دیا جائے گا اورایسی احادیث کو اسی صورت میں قبول کیا جائے گا جب وہ شہرت واستفاضہ سے ثابت ہوں یا انھیں امت کے اہل علم کے ہاں تلقی بالقبول حاصل ہو۔ تبیین اور تغییر میں فرق کے لیے اصل حکم اور تخصیص کے مقارن ہونے کی بحث اس نکتے پر مبنی تھی کہ آیا تاخیر البیان من وقت الحاجة جائز ہے یا نہیں؟ حنفی اصولیین کا موقف یہ تھا کہ کلام میں اگر کوئی استثناءیا تخصیص متکلم کی مراد ہے تو اسے اصل کلام کے ساتھ ہی بیان ہونا چاہیے، کیونکہ پورا مدعا اس کے ساتھ ہی واضح ہوتا ہے۔ چنانچہ مدعا کے کچھ حصے کی وضاحت کو موخر کر دینا عقلاً درست نہیں۔ اگر متکلم ایسا کرے تو موخر کلام کے ذریعے سے بیان کیے جانے والے استثناءیا تخصیص کی نوعیت بیان کی نہیں، بلکہ تغییر اور نسخ کی ہوگی۔
جمہور اصولیین نے اس کے جواب میں یہ استدلال پیش کیا کہ کلام میں جو استثناءیا تخصیص متکلم کی مراد ہے، اسے وقت حاجت سے موخر کرنا تو درست نہیں، لیکن ضروری نہیں کہ اسے لازماً اصل کلام میں ہی بیان کیا جائے۔ اس کے بجائے اگر اس وضاحت کو اس وقت تک موخر کیا جائے جب حکم پر عمل کرنے کی ضرورت پیش آئے تو اس میں عقلاً کوئی مانع نہیں۔ جمہور اصولیین نے کہا کہ بعض دفعہ حکمت کا تقاضا یہ ہو سکتا ہے کہ کسی حکم کو اصولی اور عمومی انداز میں ہی بیان کیا جائے اور متکلم کا مقصود ہی یہ ہو کہ سننے والے اسے صرف اصولی طور پر ذہن نشین کر لیں، کیونکہ اس سے متعلق تفصیلات کو پہلے مرحلے پربیان کرنا خلاف مصلحت ہو سکتا ہے۔ (الجوینی، البرہان، ص ۱۶۷)
ابن حزم لکھتے ہیں کہ شریعت میں اس کی کئی نمایاں مثالیں موجود ہیں کہ ایک وقت تک کسی حکم کے اصولی بیان پر اکتفا کی گئی اور پھر حسب مصلحت مناسب اوقات میں اس کی جزئیات وتفصیلات بیان کی جاتی رہیں۔ مثلاً شراب سے متعلق ابتداءاً قرآن میں ناپسندیدگی کے اشارات نازل کیے گئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے کہا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اشارے کو سمجھیں اور جس کے پاس شراب ہو، وہ اسے بیچ دے۔ پھر جب وہ وقت آیا جس میں شراب سے کلی اجتناب کا حکم دینا مقصود تھا تو اصل حکم بیان کر دیا گیا۔ اسی طرح حج کی فرضیت کا حکم بہت پہلے نازل کر دیا گیا تھا، لیکن اس کے مناسک کی حتمی تفصیل وتوضیح کو موخر رکھا گیا تاآنکہ حجة الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول وعمل سے اس کی وضاحت فرما دی۔ (الاحکام فی اصول الاحکام ۱/۸۹، ۹٠)
جمہور اصولیین نے یہ بھی کہا کہ ایک مسئلے کی جملہ تفصیلات کو ایک ہی نص میں بیان کرنا عقلاً لازم نہیں۔ حکم کے مختلف پہلوو¶ں اور جزئیات وتفصیلات کو حسب ضرورت مختلف مواقع پر بیان کیا جا سکتا ہے، اس لیے اگر متاخر اورمنفصل کلام کے ذریعے سے کسی حکم کی بعض قیود وشرائط یا استثناءوتخصیص کو واضح کیا جائے تو اس سے بیان کی حقیقت پر کوئی زد نہیں پڑتی اور اسے نسخ سے تعبیر کرنا غیر ضروری ہے۔ امام الحرمین الجوینی اس نوعیت کی تخصیصات کے حوالے سے سنت کے عمومی اسلوب کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
انا علی اضطرار من عقولنا نعلم ان الاحکام التی اقتضتھا الصیغ مطلقۃ ثم فصلتھا سنن الرسول صلی اللہ علیہ وسلم علی ممر الزمان عند اعتقاب الوقائع کثیرۃ، ومن انکر ذلک وادعی انہ لم یرد خطاب مقتضاہ عموم فی الکتاب الا فصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی اثر موردہ فقد ادعی امرا منکرا وقال بھتانا وزورا، ومما نضربہ مثالا آیۃ السرقۃ، فانھا اذ وردت لم یبتدر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تفصیل احکامھا فی الاقدار والاحراز ونصاب المسروق فی مجلس واحد، بل کان لا یعتنی بالاکباب علی البیان اعتناءہ بوظائف النقل فضلا عن المفترضات، وکان اذا وقعت واقعۃ روجع فیھا فیبین قدر الغرض ویقتصد، وجاحد ذلک مباھت معاند (البرہان، ص ۴٠۵، ۴٠۶)
“ہم بدیہی طور پر جانتے ہیں کہ ایسے احکام جن کا (قرآن میں) صرف اصولی طور پر ذکر کیا گیا اور پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف واقعات پیش آنے پر ان کی تفصیلات بیان کیں، بہت سے ہیں۔ جو شخص اس کا انکار کرتا ہے اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ قرآن میں کوئی ایسا حکم وارد نہیں ہوا جو (بظاہر) عموم کا مقتضی ہو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے وارد ہونے کے فوراً بعد اس (میں موجود تخصیصات کی) وضاحت نہ کی ہو تو اس کا دعویٰ بہت ہی عجیب ہے اور وہ ایک بالکل جھوٹی اور بے بنیاد بات کہتا ہے۔ اس کی مثال کے طور پر ہم آیت سرقہ کا ذکر کر سکتے ہیں۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال مسروقہ کی مقدار، حرز اور نصاب وغیرہ کی تفصیلات اس کے نزول کے متصل بعد ایک ہی مجلس میں بیان نہیں فرما دیں۔ آپ جتنی توجہ (احکام شرعیہ کو امت تک) منتقل کرنے پر دیتے تھے، اتنی توجہ ان کی (جزئیات وتفصیلات) وضاحت پر نہیں دیتے تھے، چہ جائیکہ فرضی تفصیلات کے درپے ہوں، بلکہ جب کوئی واقعہ پیش آتا جس میں آپ سے رجوع کیا جاتا تو آپ بقدر ضرورت اس کی مناسب وضاحت فرما دیتے تھے۔ اس کا انکار کرنے والا کوئی ضدی اور معاند ہی ہو سکتا ہے۔”
دوسرے مقام پر مزید مثالوں کے حوالے سے لکھتے ہیں:
ان الرب تعالیٰ ذکر الرقبۃ مطلقۃ وذکر الطعام والکسوۃ علی الاطلاق، ولم یتعرض لتفصیلھا وانما استاقھا استیاقا لا یشتمل علی التزام البیان والتفصیل، کما جری ذلک فی قولہ تعالی ”والسارق والسارقۃ“ وقولہ تعالیٰ ”الزانیۃ والزانی“ وقولہ تعالی ”فاقتلوا المشرکین“، فھذہ الآی لتاصیل الاصول ولا یمتنع ان یقع البیان فی التفاصیل بعد استفادۃ التاصیل (البرہان، ص ۴۳۸)
“اللہ تعالیٰ نے (قسم کے کفارے میں) غلام کا اور اسی طرح (مسکینوں کو) کھانا کھلانے اور کپڑے پہنانے کا ذکر مطلقاً فرمایا ہے اور تفصیلات سے تعرض نہیں کیا، کیونکہ یہ حکم اللہ تعالیٰ نے ذکر ہی ایسے زاویے سے کیا ہے جس میں تفصیلات اور جزئیات کا بیان ضروری نہیں۔ یہی اسلوب اللہ تعالیٰ کے ارشاد ’والسارق والسارقة‘ اور ’الزانیة والزانی‘ اور ’فاقتلوا المشرکین‘ میں بھی اختیار کیا گیا ہے۔ یہ آیات ایک اصولی حکم کے بیان کے لیے ہیں اور اصول کے واضح ہو جانے کے بعد تفصیلات کی وضاحت (اگلے مرحلے پر کیے جانے) میں کوئی رکاوٹ نہیں۔”
تاہم شافعی فقہاءاور اصولیین کے ہاں اس نکتے کا بھی گہرا ادراک دکھائی دیتا ہے کہ اصولی حکم کے بیان پر اکتفا اور جزوی تفصیلات سے عدم تعرض کے مذکورہ ضابطے کا اطلاق بعض مثالوں میں (جیسا کہ سرقہ کی مقدار، حرز اور نصاب وغیرہ کی بحث میں) اگرچہ بہت معقول اور موثر دکھائی دیتا ہے، لیکن بہت سی دیگر مثالوں کی توجیہ اس اصول کی روشنی میں نہیں کی جا سکتی۔ اس حوالے سے خاص طور پر حسب ذیل تین مثالوں کا مطالعہ مفید ہوگا:
۱۔ سورة النساءکی آیت ۴۲ میں اللہ تعالیٰ نے نکاح کے لیے حرام خواتین کی ایک فہرست ذکر کرنے کے بعد آخر میں وَاحِلَّ لَکُم مَّا وَرَاءَ ذَلِکُم سے باقی تمام خواتین کے ساتھ نکاح کی اباحت بیان فرمائی ہے، جبکہ احادیث میں جمع بین الاختین کے علاوہ پھوپھی اور خالہ کے ساتھ بھتیجی اور بھانجی کو بھی ایک آدمی کے نکاح میں جمع کرنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔ امام شافعی نے یہاں یہ استدلال پیش کیا کہ کسی نص میں اگر کسی امر کی اباحت بیان کی گئی ہو تو وہ عقلاً اس شرط کے ساتھ مشروط ہوتی ہے کہ شارع نے دوسری نصوص میں اس اباحت پر جو قدغنیں عائد کی ہیں، وہ بھی مراد ہیں اور انھیں ملحوظ رکھتے ہوئے ہی حکم کی تعبیر کی جائے گی۔ مثلاً زیر بحث اباحت چار بیویوں کی تحدید کے ساتھ مشروط ہے جو یہاں مذکور نہیں، بلکہ دوسری نصوص میں بیان کی گئی ہے۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ حدیث میں پھوپھی کے ساتھ بھتیجی اور خالہ کے ساتھ بھانجی کو ایک آدمی کے نکاح میں بیک وقت جمع کرنے کی جو ممانعت بیان کی گئی ہے، اس کی نوعیت بھی یہی ہے اور گویا وَاحِلَّ لَکُم مَّا وَرَاءَ ذَلِکُم میں ہی اصولی طور پر یہ مضمر ہے کہ یہ صورت بھی محرمات نکاح میں داخل ہے ۔ (الام ۱/۸۸، ۱٠٠، ۶/۱۲، ۳۹٠)
اس استدلال میں بہت بنیادی نوعیت کی کمزوری پائی جاتی ہے۔ امام صاحب یہاں یہ نظر انداز کر رہے ہیں کہ کسی بھی نص میں حکم کے ایک خاص پہلو کا بیان اصلاً مقصود ہوتا ہے جسے علمائے اصول ’ما سیق لہ الکلام‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ حکم کے کچھ دوسرے پہلو دیگر نصوص کا موضوع ہو سکتے ہیں، لیکن وہ خاص پہلو جس کا بیان کسی نص میں مقصود ہے، اسے مکمل اور غیر محتمل ہونا چاہیے، چاہے دوسرے پہلووں کا سرے سے ذکر ہی نہ کیا جائے۔ مثلاً زیربحث آیت کا اصل موضوع ان رشتوں کی وضاحت ہے جن کے ساتھ نکاح حرام ہے۔ آیت میں اس کی ایک پوری فہرست ذکر کر کے آخر میں کہا گیا ہے کہ ان عورتوں کے علاوہ باقی سب عورتیں تمھارے لیے حلال ہیں۔ اگر یہ فہرست مکمل نہیں اور اس قید کے ساتھ مقید ہے کہ ان کے علاوہ کچھ مزید رشتے بھی محرمات کی فہرست میں شامل ہو سکتے ہیں جن کا ذکر دیگر نصوص میں تلاش کرنا چاہیے تو سرے سے وَاحِلَّ لَکُم مَّا وَرَاءَ ذَلِکُم کی تصریح کی کوئی معنویت ہی نہیں باقی رہتی۔ امام صاحب نے اس اجازت کے چار بیویوں کی تحدید سے مشروط ہونے کی جو مثال پیش کی ہے، وہ بالکل غیر متعلق ہے، کیونکہ بیویوں کی تعداد ایک الگ اور مستقل مسئلہ ہے جو اس آیت میں سرے سے زیر بحث ہی نہیں۔ اس لیے اس کے یہاں مذکور نہ ہونے سے یہ اخذ کرنا منطقی طور پر درست نہیں کہ اسلوب کلام اپنی ظاہری دلالت کے لحاظ سے محرمات کی مذکورہ فہرست میں بھی کسی اضافے سے مانع نہیں۔
امام شافعی کا پیدا کردہ یہ خلط مبحث شافعی اصولیین پر مخفی نہیں رہ سکا، چنانچہ امام الکیا الہراسی کو اس بحث میں یہ تسلیم کرنا پڑا کہ پھوپھی اور خالہ کے ساتھ بھتیجی اور بھانجی کو جمع کرنے کی حرمت اگر اس آیت سے موخر ہے تو اسے نسخ پر ہی محمول کرنا ممکن ہے، اسے تخصیص نہیں کہا جا سکتا۔ لکھتے ہیں:
واعلم ان المنصوص علی تحریمہ فی کتاب اللہ تعالیٰ ھو الجمع بین الاختین، وقد وردت آثار متواترۃ فی النھی عن الجمع بین المراۃ وعمتھا او خالتھا .... والاخبار فی تحریم الجمع بین العمتین والخالتین ان کانت مقرونۃ فی بیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ببیان الآیۃ فتخصیص، وان تقدم الخبر فقولہ ”واحل لکم ما وراءذلکم“ منزل علی موجب الخصوص، وان تراخی فنسخ وللناس فی الکتاب باخبار الآحاد کلام والصحیح جوازہ (احکام القرآن ۱/۴۰۴، ۴٠۵)
“جان لو کہ کتاب اللہ میں نصاً جس بات کی تحریم آئی ہے، وہ دو بہنوں کو ایک آدمی کے نکاح میں جمع کرنا ہے، تاہم متواتر احادیث میں پھوپھی اور خالہ کے ساتھ بھتیجی اور بھانجی کو بھی ایک آدمی کے نکاح میں جمع کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اگر تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان احادیث میں کتاب اللہ کی آیت کے ساتھ متصلاً اس حرمت کو بیان کر دیا گیا ہو تو یہ تخصیص ہوگی، لیکن اگر احادیث اس آیت سے مقدم ہوں تو پھر ’واحل لکم ماوراءذلکم‘ کی اباحت اس سابقہ ممانعت پر مبنی ہوگی (یعنی یہ ممانعت اس اباحت سے مستثنیٰ سمجھی جائے گی)۔ اسی طرح اگر یہ احادیث اس آیت سے موخر ہوں تو پھر یہ نسخ ہوگا۔ اہل علم کا اخبار آحاد کے ذریعے سے کتاب اللہ کے نسخ میں کافی اختلاف ہے، لیکن درست بات یہ ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے۔”
۲۔ سورة النور میں زانی مرد اور عورت دونوں کو سو سو کوڑے لگانے کا حکم دیا گیا ہے۔ (النور ۲:۲۴) امام شافعی فرماتے ہیں کہ یہاں بظاہر اگرچہ عموم کا اسلوب ہے جو ہر طرح کے زانیوں کو شامل ہے، تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں سو کوڑوں کی سزا جن زانیوں کے لیے بیان کی گئی ہے، اس سے مراد صرف غیر شادی شدہ زانی ہیں۔ (الام ۱/۳٠، ۵۶)
اس مثال میں بھی امام شافعی کے طرز استدلال پر، ان کے اصولی نقطہ نظر سے ہمدردی یا اتفاق رکھنے والے بہت سے اہل علم نے اطمینان محسوس نہیں کیا۔ چنانچہ ابن حزم نے اس رائے پر سخت تنقید کی اور لکھا کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں زانی کے شادی شدہ یا غیر شادی ہونے کی کوئی تخصیص بیان نہیں کی، اس لیے یہ حکم تمام زانیوں کے لیے عام ہے اور شادی شدہ زانی بھی کوڑوں کی سزا کے حق دار ہیں۔ (احکام الاحکام ۴/۱۱۲)
جلیل القدر شافعی فقیہ امام الکیا الہراسی نے بھی آیت نور کے دائرہ اطلاق کو غیر شادی شدہ تک محدود ماننے کی توجیہ پر سخت تنقید کی ہے۔ الہراسی لکھتے ہیں کہ کسی حکم کے ظاہری عموم میں بعض جزوی اور استثنائی صورتوں کو شامل نہ سمجھنا تو درست ہو سکتا ہے اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ نص دراصل انھی صورتوں سے تعرض کرتی ہے جو عموما ً پیش آتی ہیں، چنانچہ کسی استثنائی اور نادر صورت کا حکم اگر اس سے مختلف ہو تو اس کا ذکر نہ کرنے سے نص کی دلالت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ لیکن اگر کسی مسئلے کی عام الوقوع اور عمومی صورتیں ایک سے زیادہ اور مختلف ہوں اور ان میں سے صرف ایک صورت کا حکم بیان کرنا مقصود ہو تو پھر نص میں اس کی تصریح ضروری ہے۔ اگر ایسا نہ ہو اور حکم، کسی توضیح کے بغیر، عموم کے اسلوب میں بیان کیا گیا ہو تو اس صورت میں عدم تعرض کی مذکورہ توجیہ کارگر نہیں ہو سکتی، اس لیے کہ وہ صرف استثنائی اور نادر صورتوں سے متعلق درست ہو سکتی ہے۔ الہراسی لکھتے ہیں کہ زانی جیسے کنوارے ہو سکتے ہیں، اسی طرح شادی شدہ بھی ہو سکتے ہیں، بلکہ شادی شدہ لوگوں میں زنا کے ارتکاب کی مثالیں زیادہ پیش آتی ہیں، اس لیے یہ بات معقول نہیں ہو سکتی کہ الزانیۃ والزانی سے مراد تو صرف کنوارے زانی ہوں، لیکن حکم کو عموم کے اسلوب میں بیان کر دیا جائے۔ اس ساری بحث سے الکیا الہراسی یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ مذکورہ آیت میں لازماً ہر طرح کے زانی مراد ہیں اور اگر احادیث میں شادی شدہ زانی کے لیے اس سے مختلف کوئی حکم بیان ہوا ہے تو اسے تخصیص یعنی آیت کا بیان قرار دینا ممکن نہیں اور یہ کہ نسخ کے اصول کے علاوہ اس کی کوئی توجیہ نہیں کی جا سکتی۔ (احکام القرآن، ۲/۲۹٠، ۲۹۱)
۳۔ قرآن مجید میں حرام جانوروں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے حرمت کو صرف چار چیزوں یعنی مردار، دم مسفوح، خنزیر اور غیر اللہ کے نام پر ذبح کیے جانے والے جانور میں محصور قرار دیا گیا ہے۔ (البقرة ۱۷۳:۲؛ الانعام ۱۴۵) تاہم احادیث میں ان چار کے علاوہ بھی بہت سے جانوروں کی حرمت کا حکم بیان ہوا ہے۔
اس کی توجیہ میں فقہاءکے ایک گروہ کی طرف سے یہ استدلال پیش کیا گیا ہے کہ حدیث میں بیان ہونے والے احکام کو قرآن کے حکم کی تنسیخ یا اس میں ترمیم نہیں کہا جا سکتا، اس لیے کہ شریعت کے ورود سے قبل تمام اشیا اباحت اصلیہ کے اصول پر حلال تھیں۔ قرآن مجید نے ان میں سے چار چیزوں کو تو حرام قرار دیا ہے، لیکن باقی چیزوں کے بارے میں نفیاً یا اثباتاً کچھ نہیں فرمایا۔ گویا باقی اشیا مسکوت عنہ تھیں اور اباحت اصلیہ کے اصول پر ان سے استمتاع جائز تھا۔ پھر احادیث میں اسی اباحت اصلیہ کے دائرے میں آنے والے بعض جانوروں کو حرام قرار دیا گیا۔ چونکہ قرآن ان کے بارے میں خاموش تھا، اس لیے حدیث کے احکام کو قرآن کے حکم کی تنسیخ یا ترمیم نہیں کہا جا سکتا۔
امام رازی اس استدلال پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
انہ لما ثبت بمقتضی ھاتین الآیتین حصر المحرمات فی ھذہ الاربعۃ کان ھذا اعترافا بحل ما سواھا، فالقول بتحریم شیء خامس یکون نسخا (تفسیر الرازی ۱۳/۲۳۳)
“جب ان دو آیتوں سے ثابت ہو گیا کہ حرام چیزیں صرف یہی چار ہیں تو یہ اس بات کا بھی اعتراف ہے کہ ان کے علاوہ باقی چیزیں حلال ہیں، اس لیے چار کے علاوہ کسی پانچویں چیز کو حرام قرار دینا لازماً نسخ ہے۔”
اسی طرح بعض فقہاءنے حدیث میں وارد محرمات کو تخصیص کے اصول پر قرآن کے حکم کے ساتھ ملحق کرنے کی کوشش کی ہے۔ امام رازی نے اس استدلال کی کمزوری بھی واضح کی ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:
نقول : لیس ھذا من باب التخصیص بل ھو صریح النسخ لان قولہ تعالی ”قل لا اجد فی ما اوحی الی محرما علی طاعم یطعمہ“ مبالغۃ فی انہ لا یحرم سوی ھذہ الاربعۃ .... فالقول بانہ لیس الامر کذلک یکون دفعا لھذا الذی ثبت بمقتضی ھاتین الآیتین (ایضاً، ۱۳/۲۳۳)
“ہم کہتے ہیں کہ یہ تخصیص کی قبیل سے نہیں ہے بلکہ صریح نسخ ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ”قل لا اجد فی ما اوحی الی محرما علی طاعم یطعمہ“ نہایت موکد اسلوب میں یہ بیان کر رہا ہے کہ ان چار چیزوں کے علاوہ کوئی چیز حرام نہیں، اس لیے یہ کہناکہ ایسا نہیں ہے (اور ان کے علاوہ اور چیزیں بھی حرام ہیں) ان دونوں آیتوں سے ثابت ہونے والے حکم کو رد کرنا ہے۔”
اس نوعیت کی مشکلات کے تناظر میں جمہور اصولیین، جن کی اکثریت فقہ شافعی کی طرف انتساب رکھتی ہے، نسخ کی بحث میں بتدریج اس نقطہ نظر سے متفق ہوتے چلے گئے کہ سنت کے ذریعے جیسے قرآن کے احکام کی تبیین وتخصیص کی جا سکتی ہے، اسی طرح حکم کا نسخ بھی ثابت ہو سکتا ہے اور یہ کہ تخصیص وزیادت کی تمام صورتوں کو تکلفاً تبیین پر محمول کرنے کے بجائے مسئلے کی نوعیت کے لحاظ سے بعض صورتوں کو نسخ بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔
امام الحرمین اس بحث کا محاکمہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ امام شافعی نے تو حتمی طور پر یہ موقف اختیار کیا ہے کہ سنت کے ذریعے سے قرآن کا حکم منسوخ نہیں کیا جا سکتا، لیکن متکلمین نے یہ قرار دیا ہے کہ اس میں کوئی مانع نہیں اور یہی بات واضح طور پر درست ہے۔ امام الحرمین کہتے ہیں کہ اصل نکتہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیے گئے کسی حکم کو پیغمبر ازخود منسوخ نہیں کر سکتا اور نسخ کے لیے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے دوسرا حکم آئے، لیکن نئے حکم کا ابلاغ ضروری نہیں کہ قرآن ہی میں کیا جائے، بلکہ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے تحت کسی بھی صورت میں اس کا ابلاغ فرما سکتے ہیں۔ (البرہان ۲/۷۰۳۱) امام الحرمین کے بعد جمہور متکلمین کے طریقے پر لکھی گئی اصول فقہ کی امہات میں بالعموم یہی موقف اختیار کیا گیا ہے اور آمدی، غزالی، رازی اور زرکشی جیسے محققین نے بھی اسی کی تصویب کی ہے۔ (الاحکام فی اصول الاحکام ۳/۱۹۷-۱۸۵؛ المستصفی من علم الاصول ۲/۱٠۷، ۱٠۸؛ المحصول فی علم اصول الفقہ ۳/۴۵۳-۴۳۷؛ البحر المحیط ۴/۱٠۹، ۱۱٠)*
حواشی
* زرکشی نے اس بحث میں تفصیل سے اس اختلاف کو بھی واضح کیا ہے جو امام شافعی کے موقف کی توضیح وتعیین کے حوالے سے شافعی فقہاءکے مابین پایا جاتا ہے۔ ایک گروہ کے نزدیک امام شافعی فی الواقع سنت کے ذریعے سے قرآن کے نسخ کے جواز کے قائل نہیں، جبکہ دوسرے گروہ کے نزدیک امام شافعی کے نقطہ نظر کو اس کے درست سیاق وسباق میں سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے۔ (دیکھیے البحر المحیط ۴/۱۱٠-۱۱۶)