پروفیسر صبغۃ اللہ مجددیؒ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

گزشتہ روز ایک قومی اخبار کے آخری صفحہ پر مختصر سی خبر نظر سے گزری کہ افغانستان کے سابق صدر پروفیسر صبغۃ اللہ مجددیؒ ۹۳ برس کی عمر میں کابل میں انتقال کر گئے ہیں، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اس خبر نے ذہن میں ماضی کے بہت سے یادگار مناظر ایک ایک کر کے تازہ کر دیے اور دل سے بے ساختہ مجددی صاحب مرحوم کے لیے مغفرت اور بلندیٔ درجات کی دعا نکلی، اللہ تعالیٰ انہیں جوار رحمت میں جگہ دیں اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

پروفیسر صاحب مرحوم کا تعلق کابل کے معروف روحانی خانوادہ سے تھا اور وہ سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کی بزرگ شخصیات میں سے تھے۔ سوویت یونین کے خلاف افغان عوام کے جہاد آزادی میں مجاہدین کے ایک مستقل گروہ کے سربراہ تھے اور جہاد افغانستان کے دوران ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مسلسل متحرک رہے۔ میری ان سے ذاتی نیازمندی تھی اور باہمی رابطہ و تعلق بھی رہا۔ وہ ایک بار ہماری دعوت پر گوجرانوالہ تشریف لائے، مرکزی جامع مسجد میں جمعۃ المبارک کے اجتماع سے خطاب کیا اور ایک میڈیکل کلینک کا افتتاح کرنے کے علاوہ اپنے اعزاز میں دیے گئے بھرپور استقبالیہ میں جہاد افغانستان کے مقاصد اور مجاہدین کی سرگرمیوں کے حوالہ سے تفصیلی گفتگو کی۔ 

یہ ایک بزرگ شخصیت کے طور پر پروفیسر صبغۃ اللہ مجددیؒ کا اعزاز تھا کہ افغانستان سے سوویت یونین کے انخلا کے بعد ملک کا نظم و نسق چلانے کے لیے جو عبوری حکومت متفقہ طور پر قائم ہوئی اس کا سربراہ انہیں چنا گیا اور انہوں نے صدر کی حیثیت سے افغانستان کا اقتدار سنبھالا۔ یہ عبوری حکومت چھ ماہ کے لیے ایک معاہدہ کے تحت قائم ہوئی تھی، اس دوران کچھ حضرات نے ان کے ذہن میں یہ بات ڈالنے کی کوشش کی کہ وہ ایک اسلامی ریاست کے امیر منتخب ہوگئے ہیں اس لیے انہیں اب اس منصب پر فائز رہنا چاہیے اور مدت گزرنے کے بعد اقتدار کسی اور کے حوالے نہیں کرنا چاہیے۔ اس موقع پر انہوں نے پاکستان سے اپنے دوست اور بہی خواہ سرکردہ علماء کرام کو مشاورت کے لیے کابل بلایا جن میں راقم الحروف بھی شامل تھا، ایوان صدر میں ان کی زیر صدارت طویل مشاورتی اجلاس ہوا جس میں ان سے یہ کہا گیا کہ امیر زندگی بھر کے لیے ہوتا ہے اس لیے وہ خود کو چھ ماہ کی مدت تک محدود نہ رکھیں۔ جبکہ ہم چند دوستوں نے یہ عرض کیا کہ انہیں معاہدہ کی پابندی کرنی چاہیے اور مدت پوری ہوتے ہی اقتدار اس حکومت کے لیے چھوڑ دینا چاہیے جو باہمی اتفاق سے قائم ہو جائے۔ میں نے اس مجلس میں ان سے گزارش کی کہ ایک بزرگ اور محترم شخصیت کے طور پر ان کے لیے تاریخ میں یہ اعزاز کچھ کم نہیں ہے کہ سوویت یونین کی فوجوں کے انخلا کے بعد متفقہ آزاد حکومت کا سربراہ انہیں چنا گیا ہے اور انہیں اپنے اعزاز کو متنازعہ نہیں بنانا چاہیے۔ انہوں نے ہمارے اس مشورہ کو قبول فرمایا اور مدت گزرتے ہی اقتدار نئے فیصلے کے مطابق پروفیسر برہان الدین ربانیؒ کے حوالے کر دیا۔ 

پروفیسر صاحب مرحوم کی دعوت پر کابل کے اس دورہ میں دیگر بہت سے سرکردہ علماء کرام کے علاوہ پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمان درخواستی بھی شامل تھے اور ہم دونوں نے اس وقت کے وزیر دفاع احمد شاہ مسعود شہیدؒ کی فرمائش پر چند دن کابل میں رکنے کا پروگرام بنا لیا۔ اس دوران ہماری ملاقاتیں حرکت انقلاب اسلامی کے سربراہ مولانا محمد نبی محمدیؒ کے علاوہ مولانا نصر اللہ منصور شہیدؒ سے بھی رہیں جو میرے ذاتی دوستوں میں سے تھے۔ احمد شاہ مسعود مرحوم کا کہنا تھا کہ وہ حافظ الحدیث مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ کے شاگرد ہیں اور اپنے استاذ زادہ مولانا فداء الرحمان درخواستی کی میزبانی کرنا چاہتے ہیں۔ بہرحال یہ دورہ ہم نے پروفیسر صبغۃ اللہ مجددیؒ کی دعوت پر کیا تھا اور ان کے ساتھ ایک یادگار مشاورت ہوئی تھی۔ مجددی صاحب ایک باوقار اور محترم بزرگ تھے جن کے سب خیالات اور پالیسیوں سے اتفاق ضروری نہیں مگر افغانستان کی ایک بزرگ شخصیت کی وفات ہم سب کے لیے صدمہ کا باعث بنی ہے، اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔


اخبار و آثار

(مارچ ۲۰۱۸ء)

مارچ ۲۰۱۸ء

جلد ۳۰ ۔ شمارہ ۳

تلاش

Flag Counter