۱۶ جنوری بروز بدھ کی صبح مولانا سید واضح رشید ندوی اپنے رفیق اعلی ٰ سے جا ملے۔ مولانا واضح رشید ندوی ۱۹۳۲ میں تکیہ کلاں، رائے بریلی (اتر پردیش، ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والدمحترم سید رشید حسنیؒ درویش منش انسان تھے اور والدہ محترمہ سیدہ امۃ العزیز، خدا ترس خاتون تھیں اور شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاؒ سے بیعت تھیں۔ مولانا واضح، مولانا ابو الحسن علی ندویؒ کے حقیقی بھانجے تھے۔ آپ کو بچپن سے ہی مولانا علی میاں ندوی کے زیر تربیت رہنے اور کئی علمی ودعوتی سفروں میں رفاقت کا شرف حاصل ہوا۔
آپ نے دینی تعلیم دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو سے حاصل کی اور تقریبا بیس برس کی عمر میں فارغ التحصیل ہوئے۔ اس کے بعد مسلم یونیورسٹی علی گڑھ گئے جہاں انگریزی زبان وادب میں گریجویشن کیا۔ یوں قدیم دینی روایتی نظام تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید نظام تعلیم کے مزاج، ماحول اور ترجیحات کودیکھنے کا موقع ملا۔
آپ نے عملی زندگی کا آغاز آل انڈیا ریڈیو اسٹیشن دہلی میں براڈ کاسٹر اور مترجم کی حیثیت سے کیا۔ یہاں آپ کا کام مقامی وبین الاقوامی انگریزی اور عربی مجلات واخبارات کا ترجمہ ہوتا تھا۔ یہ آپ کی عملی زندگی کا ابتدائی مگر نہایت اہم دور تھا، کیونکہ اس سے آپ کو عالمی منظر نامے سے واقفیت حاصل ہوئی۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی نمائندہ سیاسی وسماجی شخصیات کو دیکھنے سننے کا موقع ملا جس سے آپ کی سوچ کا کینوس مزید وسیع ہو گیا۔ ریڈیو اسٹیشن میں ملازمت کا یہ عرصہ تقریبا بیس سال کو محیط ہے۔ اس کے بعد آپ مولانا ابو الحسن علی ندوی کے ایما پر عربی زبان وادب کے استاد کی حیثیت سے اپنی مادر علمی ندوۃ العلماء لکھنو آ گئے اور آخر وقت تک یہیں خدمات سرانجام دیتے رہے۔ آپ عربی زبان وادب کے ماہر، کہنہ مشق صحافی، مشفق اور محنتی استاد تھے۔
مولانا ہمہ جہت شخصیت تھے، لیکن عربی زبان وادب اور صحافت سے آپ کو خاص شغف تھا اور عربی انشا پر غیر معمولی قدرت حاصل تھی۔ آپ کی تحریریں، بالخصوص عربی تحریریں علمیت وادبیت کا شاہکار ہیں۔ ندوہ کے فضلاء میں عربی نویسی اور انشاء پردازی کا ذوق اور ممارست پیدا کرنے میں آپ کا بہت حصہ ہے۔ آپ ندوہ سے جاری ہونے والے دو عربی مجلات ’’الرائد”اور ’’البعث الاسلامی” کے مدیر تھے۔
مولانا کی کتابوں، مضامین اور بیانات سے استفادہ کرنے کے بعد ان کے مزاج، فکر اور دینی دعوت کی بڑی جامع اور متوازن تصویر سامنے آتی ہے۔ مولانا ہماری دینی روایت کے نمائندہ تھے۔ ندوہ کے زریں اصول الجمع بین القدیم الصالح والجدید النافع کا مصداق تھے۔ ذہانت، وسعت مطالعہ اور وسیع تجربہ ومشاہدہ کے باوجود آپ کی گفتگو اور تحریروں میں ادعائیت کا نام ونشان نہیں ہے۔ مولانا نے گوشہ خمول میں رہ کر درس وتدریس اور تصنیف وتالیف کی خدمات سرانجام دی ہیں۔
مولانا کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ ان کی کتابوں اور مضامین میں جابجا سلف صالحین اور اکابر کی کتابوں سے اقتباسات ملتے ہیں۔ یوں پڑھنے والوں کو دینی علم کی روایت سے واقفیت حاصل ہوتی ہے اور اس پر اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ مفتی محمد شفیعؒ نے تفسیر معارف القرآن میں سورۃ الفاتحہ کی آیت صراط الذین انعمت علیھم کی تشریح میں بڑا ایمان افروز اور فکر انگیز نکتہ بیان کیا ہے کہ رشد وہدایت کے دو سلسلے ہیں۔ ایک کتاب اللہ اور دوسرا رجال اللہ (علماء وصالحین)۔ پھر مفتی صاحبؒ نے لسان العصر اکبر الہ آبادی کا شعر نقل کیا ہے
کورس تو لفظ ہی سکھاتے ہیں
آدمی آدمی بناتے ہیں
مولانا واضح ندویؒ تصوف وسلوک (تزکیہ واحسان) کی روایت پر عامل اور کاربند تھے۔ اپنے برادر اکبر مولانا سید محمد رابع حسن ندویؒ (جو بحمد اللہ بقید حیات ہیں) سے بیعت تھے اور ان کے خلیفہ مجاز بھی تھے۔ مولانا نے تصوف کی صحیح تصویر پیش کی اور اس چشمہ صافی کو گدلا ہونے سے بچانے کے لیے جدوجہد کی۔ تصوف واہل تصوف کے موضوع سے دلچسپی رکھنے والے حضرات مولانا کی عربی کتاب ادب اھل القلوب کا مطالعہ کریں۔
مولانا کی دینی دعوت وافکار میں تزکیہ نفس، تعلق مع اللہ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ومحبت، فکر آخرت، عبدیت کاملہ اور حسن معاشرت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ آپ امت مسلمہ کی زبوں حالی اور افتراق وانتشار پر بہت کڑھتے تھے اور وحدت فکر وعمل کی دعوت دیتے تھے۔ آپ کے نزدیک امت کے زوال کی بنیادی وجہ خدا کے دین سے بے اعتنائی اور باہمی افتراق وانتشار ہے۔ آپ کی دینی فکر میں مقاصد اور وسائل کے تعین کے فرق کو خوب ملحوظ رکھا گیا ہے۔
عالمی صحافت پر بھی مولانا کی بڑی گہری اور حکیمانہ نظر تھی۔ ایک بالغ نظر صحافی ہونے کے ناتے سے عالمی سیاسی، معاشی حالات اور رجحانات پر ناقدانہ نظر رکھتے تھے۔ غالب مغربی تہذیب وثقافت، سرمایہ دارانہ نظام، استعمار، استشراق، شدت پسند اسلامی تحریکات کی حکمت عملی، صہیونیت اور سامراج آپ کی صحافیانہ تحریروں کے مرکزی موضوعات تھے جنھیں پڑھ کر مولانا کی دینی بصیرت اور حکیمانہ تجزیہ وتحلیل کی صلاحیتیں سامنے آتی ہیں۔ مولانا اپنی تحریروں کے ذریعے سے اسلامی تہذیب کی بالادستی اور اسلامی نظام زندگی کی معقولیت، حقانیت اور حجیت کو بڑے دل نشیں اور عصری اسلوب میں پیش کرتے تھے۔ تفصیل کے لیے مولانا کی کتاب الی نظام عالمی جدید دیکھی جا سکتی ہے جو اصلا مولانا کے مضامین کا مجموعہ ہے جو الرائد اور البعث الاسلامی میں شائع ہوتے رہے۔
مولانا کی دینی فکر کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ انھوں نے انتہا پسندی اور اباحیت پسندی کی دو انتہاوں کے مابین اعتدال کی راہ اپنائی اور تحریک ندوہ کے راہ نما اصول التصلب فی الاصول والغایات والتوسع فی الفروع والآلات کو ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھا۔
مولانا کی عربی کتابوں میں اعلام الادب العربی فی العصر الحدیث، مصادر الادب العربی، ادب الصحوۃ الاسلامیۃ، ادب اھل القلوب، تاریخ الثقافۃ الاسلامیۃ، الدعوۃ الاسلامیۃ ومناھجھا فی الھند، الامام احمد بن عرفان الشھید، الشیخ ابو الحسن علی الندوی قائدا حکیما، المسحۃ الادبیۃ فی کتابات الشیخ ابی الحسن علی الندوی، حرکۃ التعلیم الاسلامی فی الھند وتطور المنھج، منھج علماء الھند فی التربیۃ الاسلامیۃ، لمحات من السیرۃ النبویۃ والادب النبوی، مختصر الشمائل النبوی، الرحلات الحجازیۃ، حرکۃ رسالۃ انسانیۃ ودورھا فی مکافحۃ الطائفیۃ والعنف اور من صناعۃ الموت الی صناعۃ القرارات جبکہ اردو کتابوں میں اسلام مکمل نظام زندگی، محسن انسانیت، نظام تعلیم: اندیشے، تقاضے اور حل، ندوۃ العلماء: ایک راہ نما تعلیمی مرکز اور تحریک دعوت واصلاح، مسئلہ فلسطین، سامراج اور عالم اسلام، سلطان ٹیپو: ایک تاریخ ساز قائد شخصیت شامل ہیں۔
مولانا کے ویسے تو سیکڑوں شاگرد ہیں، لیکن راقم جن کی تحریروں سے ابھی تک استفادہ کر سکا ہے، ان میں ڈاکٹر محمد اکرم ندوی، ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی، مولانا وثیق ندوی او رمولانا جعفر مسعود ندوی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
مولانا کی نماز جنازہ مولانا سعید الرحمن اعظمی نے پڑھائی اور تدفین آبائی گاوں دائرہ شاہ علم اللہ، تکیہ کلاں، رائے بریلی میں ہوئی۔
اللہ تعالی مولانا کی مغفرت فرمائے، درجات بلند فرمائے اور جنت میں اعلی ٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین