ہم نام و ہم لقب علماء

مفتی شاد محمد شاد

علم الرجال اور تراجم پر کئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں،جن میں مختلف علاقوں اور زمانوں کی شخصیات اور علماء کا مختصر اور تفصیلی تعارف پیش کیا گیا ہے۔ان کے علاوہ دیگر کتابوں میں جب کسی شخصیت یا عالم کا تذکرہ کرنا مقصود ہوتا ہے تو مصنف عموما مکمل نام ذکر کرنے کے بجائے صرف کنیت،نسبت یا لقب لکھنے پر اکتفاء کیا جاتا ہے،لیکن بسااوقات ایک  کنیت،نسبت یا لقب سے ایک سے زیادہ علماء وشخصیات مشہور ہوتی ہیں،بلکہ اس سے بڑھ کر ایک نام سے بھی کئی شخصیات مشہور ہیں، تو ایسی صورتحال میں اگر مصنف محض کنیت،یا نسبت یا لقب ذکر کرتا ہے تو قاری کو تشویش ہوجاتی ہے کہ اس سے کونسی شخصیت مراد ہے۔ہم نے اس مضمون میں  مختلف کتب سے ایسے ہی چند ہم نام وہم لقب علماء وشخصیات کا مختصر تعارف اور ان کے درمیان فرق کو واضح  کیا ہے۔اگرچہ ان علماء کے علاوہ دیگر بھی کئی شخصیات کے نام اس طرح متشابہ اور ایک جیسے ہوسکتے ہیں،لیکن زیادہ مشہور شخصیات یہی ہیں۔اس مضمون کے لیے زیادہ تر علامہ زرکلی ؒ کی "الاعلام" اور دیگر طبقات کی کتب سے استفادہ کیا گیا ہے۔

ابن عربی اور ابن اعرابی:

یہ دو الگ الگ کنیات ہیں،اور ہر کنیت کے ساتھ دو ،دو شخصیات مشہور ہیں:

ابن عربی:

1۔ابوبکر ابن عربی، محمد بن عبد اللہ المعافری،اشبیلی، مالکیؒ (468ھ، 543ھ)۔آپ قاضی اور حفاظ ِ حدیث میں سے تھے۔اشبیلیہ میں قاضی بھی رہے ۔آپ نے حدیث، فقہ،اصول،تفسیر،ادب اور تاریخ میں کئی کتابیں لکھی ہیں۔آپ کی مشہور کتابوں میں "العواصم من القواصم" ، "عارضۃ الاحوذی فی شرح الترمذی" ، "احكام القرآن" ، "القبس فی شرح موطا ابن انس" ، "الانصاف فی مسائل الخلاف" ، "قانون التاويل" وغیرہ شامل ہیں۔

2۔محی الدین ابن عربی، ابوبکر،محمد بن علی بن عربی،حاتمی ،طائی،اندلسی (560ھ، 638ھ)آپ مرسیہ ، اندلس میں پیدا ہوئے اور پھر اشبیلیہ منتقل ہوئے۔آپ عظیم متکلم اور فلسفی تھے۔آپ کے بعض تفردات پر علماء نے سخت رد کیا ہے،بلکہ بعض علماء نے آپ پر کفر کا فتوی لگاکر مباح الدم قرار دیا تھا۔آپ نے چار سو سے زائد کتابیں لکھی ہیں۔ان میں سے چند مشہور یہ ہیں: "الفتوحات المكيۃ" ، "محاضرة الابرار ومسامرة الاخيار"، "مفاتيح الغيب" ، "انشاء الدوائر" وغیرہ۔

ابن الاعرابی:

1۔ابوعبد اللہ،محمد بن زیاد،المعروف بابن الاعرابی (150ھ،231ھ)مؤرخ،ادیب اور لغت کے بڑے عالم تھے۔آپ احول(بھینگے)تھے۔آپ کی مشہور کتابوں میں "تاريخ القبائل" ، "تفسير الامثال"  اور  "الفاضل" وغیرہ شامل ہیں۔

2۔ابوسعید ابن الاعرابی، احمد بن محمد بن زیادؒ (246ھ، 340ھ) آپ مشہور مؤرخ اور حدیث کے عالم تھے۔شیخ جنید بغدادیؒ کی صحبت میں بھی رہے ہیں اور حرم مکہ کے شیخ  بھی،اور مکہ میں ہی آپ کی وفات ہوئی ۔آپ کی کتابوں میں "المعجم" ، "طبقات النساك"، "الاخلاص ومعانی علم الباطن" وغیرہ شامل ہیں۔

ابن رشد: دادا ،اور پوتا:

ابن رشد کی کنیت سے دو شخصیات مشہور ہیں،ایک دادا ہے اور دوسرا اس کا پوتا،ذیل میں دونوں کا مختصر تعارف پیش کیا جاتا ہے:

1۔ابو الولید، محمد بن احمد بن رشدؒ (450ھ، 520ھ)۔آپ کی پیدائش اور وفات قرطبہ  میں ہوئی۔ آپ فقہاء مالکیہ کے بڑے علماء میں سے تھے۔آپ کے پوتے بھی اسی کنیت سے مشہور ہے،اس لیے آپ کو ابن رشد الجد یا ابن رشد الاکبر  یا ابن رشد الفقیہ کے لقب کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔ مالکیہ کی  کتابوں میں  جہاں "ابن رشد" لکھا جاتا ہے ،اس سے عموما یہی مراد ہوتے ہیں۔آپ کی کتابوں میں  "المقدمات الممہدات" ، "البیان والتحصیل" ، "مختصر شرح معانی الآثار للطحاوی"، "الفتاوی" ، "اختصار المبسوطۃ" اور  "المسائل"شامل ہیں۔

2۔ابو الولید، ابن رشد اندلسی،محمد بن احمدؒ (520ھ،595ھ)۔آپ بھی مالکی فقیہ اور عظیم فلسفی تھے۔آپ نے ارسطو کی کتابوں کو عربی میں منتقل کیا اور اس پر بہت کچھ اضافہ بھی کردیا۔آپ کو اپنے  دادا سے ممتاز کرنے کے لیے"الحفید" کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔آپ نے پچاس سے زائد کتابیں لکھیں۔ان میں سے چند مشہور یہ ہیں: "منہاج الأدلۃ" ، "تهافت التہافت" ، "بدايۃ المجتہد ونہايۃ المقتصد" ، "فصل المقال فيما بين الحكمۃ والشريعۃمن الاتصال" ، "فلسفۃ ابن رشد"  اور  "التحصيل" وغیرہ۔

ابن ابی شیبہ: تین شخصیات:

ابو شیبہ کے دو بیٹے بڑے علماء اور عظیم محدثین میں  شمار ہوتے ہیں،اور دونوں "ابن ابی شیبہ" کی کنیت سے مشہور ہیں۔ان کے علاوہ ابوشیبہ کے ایک پوتے بھی اسی کنیت سے مشہور ہیں۔تینوں کا مختصر تعارف ذیل میں دیا جاتا ہے:

1۔ابوبکر، عبد اللہ بن محمد بن ابی شیبہ، عبسی،کوفی (159ھ، 235ھ)۔آپ حافظ الحدیث تھے اور حدیث میں آپ نے کئی  کتابیں لکھی ہیں، مثلا "المسند"، "الایمان"، "الزکوۃ" وغیرہ، لیکن آپ کی سب سے مشہور کتاب "المصنف فی الاحاديث والآثار" ہے جو مصنف ابن ابی شیبہ کے نام سے مشہور ہے۔

2۔ابوالحسن، عثمان بن محمد بن ابی شیبہ، عبسی،کوفی ؒ (156ھ، 239ھ)۔آپ ابوبکر بن ابی شیبہ کے بڑے  بھائی ہیں۔آپ بھی حافظ الحدیث  تھے۔محدثین نے آپ کو حدیث کے باب میں ثقہ اور مامون لکھا ہے۔آپ کی کتابوں میں  "المسند"  اور "التفسیر" شامل ہے۔

3۔ابوجعفر، محمد بن عثمان بن محمد بن ابی شیبہ، عبسی، کوفی ؒ (متوفی 297ھ)۔آپ ابوالحسن،عثمان بن محمد بن ابی شیبہ کے بیٹے اور ابوبکر بن  ابی شیبہ کے بھتیجے ہیں۔آپ علم الرجال اور تاریخ کے بڑے علماء میں سے تھے۔آپ کی کتابوں میں "التاریخ الکبیر" کا نام ملتا ہے اور بعض علماء نے "مسائل بن ابی شیبہ" کا تذکرہ بھی کیا ہے۔

شیخین/شیخان: فقہ میں:

عموما کتابوں میں  اسماء کے بجائے "شیخین" یا "شیخان" کا لقب استعمال ہوتا ہے،حدیث سے متعلق کتابوں میں اس لقب سے امام بخاریؒ اور امام مسلم ؒ مراد ہوتے ہیں،جبکہ فقہی کتب میں ہر مسلک کی کتابوں میں یہ لقب الگ الگ شخصیات کے لیے استعمال ہوتا ہے:

فقہ حنفی:

فقہاء حنفیہ جب اپنی کتابوں میں یہ لقب استعمال کرتے ہیں تو اس سے امام ابوحنیفہ،نعمان بن ثابت(80ھ،150ھ)اور امام ابویوسف،یعقوب بن ابراہیم (113ھ، 182ھ)مراد ہوتے ہیں۔

فقہ مالکی:

مالکیہ کی کتابوں میں اس لقب سے  امام قیروانی،عبداللہ بن ابی زید(386ھ)اور امام ابن القابسی،علی بن محمد بن خلف (324ھ، 403ھ)مراد ہوتے ہیں۔

البتہ بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ مالکیہ کی کتابوں میں اس لقب سے امام قیروانی اور ابوبکر الابہری،محمد بن عبداللہ بن محمد(289ھ 375ھ)کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔

فقہ شافعی:

فقہاء شافعیہ کی کتابوں میں یہ لقب شیخ رافعی،ابو القاسم،عبدالکریم بن محمد قزوینی (557ھ،623ھ) اور امام نووی،ابوزکریا،یحیٰ بن شرف بن مری،محی الدین (631ھ،676ھ) مراد ہوتے ہیں۔اگر "شیوخ" کا لقب استعمال کیا جائے تو ان دونوں حضرات کے ساتھ  شیخ ابونصر، تاج الدین سبکی، عبدالوہاب بن علی (727ھ، 771ھ)بھی شامل ہوجاتے ہیں۔

فقہ حنبلی:

فقہ حنبلی کی کتابوں میں اس لقب سے"المحرر" کے مصنف  شیخ مجد الدین،ابن تیمیہ،  عبد السلام بن عبداللہ (590ھ 652ھ) اور شیخ موفق الدین،ابن قدامہ عبد اللہ بن محمد المقدسی (541ھ620ھ)کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔

الفالی اور القالی:

یہ دو مختلف شخصیات کے الگ الگ القاب ہے۔پہلا لقب "فاء "کے ساتھ ہے اور دوسرا "قاف" کے ساتھ۔

الفالی:

اس سےقطب الدین،ابو الفتح، محمد بن مسعود بن محمود الفالی،الشقار،السیرافی(684ھ، 712ھ) مراد ہے۔آپ سیرافی کے لقب سے بھی یاد کیے جاتے ہیں۔بڑے مفسر اور نحو کے عالم گزرے ہیں۔علامہ اسفرائینی کی "اللباب فی علم الاعراب" کی شرح آپ نے لکھی ہے ،اس کے علاوہ  تفسیر"الکشاف" کی تلخیص بنام "تقریب التفسیر" بھی آپ کی لکھی ہوئی ہے۔

القالی:

یہ لقب ابو علی ، اسماعیل بن قاسم بن عیذون (288ھ، 356ھ)  کا ہے۔آپ لغت،شعر و ادب کے حافظ سمجھے جاتے تھے۔آپ بغداد میں پیدا ہوئےاور ابتدائی تعلیم کے بعدمغربی ممالک  کی طرف سفر کرکے قرطبہ میں انتقال کرگئے۔آپ کی کتابوں میں  شعر وادب میں "النوادر" جوامالی القالی کے نام سے مشہور ہے ،اور لغت میں "البارع" مشہور ہے۔

قاضی :مسالک اربعہ میں:

کئی علماء ایسے گزرے ہیں جن کو قاضی کا لقب دیا گیا،بلکہ مسالک اربعہ کی کتابوں میں ان  شخصیات کے نام کے بجائےصرف قاضی لکھ لیا جاتا ہے۔ایسے علماء جو اس لقب سے مشہور ہوئے ہیں،درج ذیل ہیں:

(1)۔حنفیہ کی کتابوں میں جب "قاضی" لکھا جاتا ہے تو اس سے امام ابویوسف رحمہ اللہ(113ھ،182ھ) مراد ہوتے ہیں۔آپ کا مکمل نام یعقوب بن ابراہیم بن حبیب انصاری،کوفی،بغدادی ہے۔

(2)۔مالکیہ کی کتابوں میں  لفظِ "قاضی" سے قاضی عبد الوہابؒ (362ھ، 422ھ)مراد ہوتے ہیں۔آپ کا مکمل نام ابو محمد،عبدالوہاب بن علی بن نصر ثعلبی بغدادی ہے۔

(3)۔شافعیہ کی کتابوں میں قاضی کے لقب سے قاضی شیخ المروذیؒ  (462ھ)مراد ہوتے ہیں۔آپ کا مکمل نام حسین بن محمد بن احمد المروذی ہے۔

(4)۔حنابلہ کی کتابوں میں اس لقب سے قاضی ابویعلی الفراء ؒ (380ھ، 458ھ) کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ آپ کا مکمل نام محمدبن حسین بن محمد بن خلف بن الفراء ہے۔

طبری لقب سے متصف  شخصیات:

"طبری"لقب سے کئی علماء متصف ہیں۔بعض علماء "طبرستان" نامی علاقے کی طرف منسوب ہے،جبکہ بعض علماء کی طرف یہ نسبت ان کےآباء واجداد میں سے کسی کے اس لقب سے متصف ہونے کی وجہ سے کی جاتی ہے۔ان میں سے چند مشہور علماء درج ذیل ہیں:

(1)۔ابن جریر طبری (ولادت:224ھ، وفات:310ھ)اس لقب سے سب سے مشہور شخصیت یہی ہے۔آپ کا مکمل نام ابوجعفر، محمد بن جریر بن یزید طبری ہے۔مشہور مؤرخ ومفسر گزرے ہیں۔ طبرستان کے علاقے آمل میں پیدا ہوئے اور پھر بغداد منتقل ہوکر وہی پر وفات پائی۔آپ ثقہ مؤرخین میں سے ہیں۔ابن اثیر فرماتے ہیں کہ نقل تاریخ میں ابوجعفر اوثق تھے اور آپ کی تفسیر میں گہرا علم اور تحقیق نظر آتی ہے۔آپ کی مشہور کتابوں میں "اخبار الرسل والملوک" جو تاریخ طبری کے نام سے مشہور ہے،"جامع البیان فی تفسیر القرآن" جو تفسیر طبری کے نام سے مشہو رہے،"اختلاف الفقہاء"، "المسترشد"،"جزء فی الاعتقاد"، "القراءات"وغیرہ شامل ہے۔

 (2)۔ ابن قاسم طبری (ولادت:263ھ، وفات:350ھ)آپ کا نام ابو علی،حسین بن قاسم ہے۔آپ شافعی فقیہ تھے۔آپ کی پیدائش طبرستان میں ہوئی اور وفات بغداد میں ۔آپ ابن ابی ہریرۃ کے شاگرد رہے ہیں۔فقہ،اصول فقہ اور علم کلام میں خاص مہارت رکھتے تھے۔ابن کثیر فرماتے ہیں کہ آپ نے سب سے پہلے علم خلاف میں کتاب لکھی ہے۔آپ کی کتابوں میں "المحرر"،"الایضاح" اور "العدۃ"شامل ہے۔

(3)۔ابو طیب طبری (ولادت:348ھ،وفات:450ھ )آپ کا نام طاہر بن عبد اللہ طبری ہے۔فقہاء شافعیہ میں سے تھے ۔طبرستان کے علاقے آمل میں پیدا ہوئے اور پھر بغداد آئے، وفات بھی وہی ہوئی۔کرخ کے علاقے میں قاضی بھی رہے ہیں۔ آپ کی کتابوں میں  فقہ شافعی کی "شرح مختصر المزنی" گیارہ جلدوں میں،"جواب فی السماع والغناء" اور فروع فقہ شافعی میں "التعلیقۃ الکبری"شامل ہے۔

(4)۔رضی الدین طبری۔(ولادت:636ھ،وفات:722ھ)آپ کا پورا نام ابو احمد ،ابراہیم بن محمد ہے۔اپنے زمانے میں مکہ کے بڑے شیوخ میں سے تھے اور شافعی تھے۔علامہ ذہبی ؒ نے لکھا ہے کہ آپ  پچاس سال سے زیادہ عرصہ تک حدیث پڑھاتے رہے ہیں۔آپ کی کتابوں میں "المنتخب فی علم الحدیث"،"تساعیات" اور "اختصار شرح السنۃ للبغوی"شامل ہے۔

(5)۔محب الدین طبری (ولادت:615ھ، وفات:694ھ)آپ کا نام ابو العباس،احمد بن عبد اللہ طبری ہے۔آپ حافظ الحدیث اور شافعی فقیہ تھے۔آپ کی پیدائش اور وفات مکہ میں ہوئی اور آپ شیخ الحرم رہے ہیں۔آپ کی کتابوں میں "السمط الثمین فی مناقب امھات المؤمنین"،"الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ"،"القری لقاصد ام القری"،"ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی" اور "الاحکام"شامل ہے۔

 (6)۔ابن المحب طبری (ولادت:1100ھ، وفات 1173ھ)آپ کا پورا نام محمد بن علی ابن المحب  ہے۔آپ حسینی شافعی تھے۔مؤرخ تھے اور "الجمال الاخیر"کے لقب سے متصف تھے۔پیدائش اور انتقال مکہ میں ہوئی۔آپ کی  کتابوں میں "عقود الجمان فی سلطنۃ آل عثمان"،"إتحاف فضلاء الزمن بتاريخ ولايۃ بنی الحسن"، "الحجۃ  الناهضۃ فی إبطال مذهب الرافضۃ"، "إمتاع البصر والقلب والسمع فی شرح المعلقات السبع" شامل ہے۔

سرخسی لقب سے متصف علماء:

اس لقب کے ساتھ کئی شخصیات متصف ہیں،ان میں سرفہرست صاحبِ مبسوط ہیں۔یہاں ایسے علماء کا مختصر تعارف مقصود ہے۔لیکن اس سے پہلے لفظ"سرخس"کے تلفظ کے بارے کچھ وضاحت مقصود ہے۔الجواہر المضیہ میں اس لفظ کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ "سین" اور "راء"کے فتح اور "خا"کے سکون کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔یہی زیادہ مشہور ہے،البتہ بعض نے "راء"کے سکون اور "خا"کے فتح کے ساتھ بھی پڑھا ہے اور کہا ہے کہ یہ لفظ عربی میں منتقل ہوکر اسی طرح  استعمال ہوتا ہے،جبکہ  فارسی میں  "راء"پر فتح اور "خا"کے سکون کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔

(1)۔شمس الائمہ،قاضی ابوبکر سرخسی۔(متوفی483ھ)آپ کا پورا نام محمد بن احمد بن سہل ہے۔خراسان کے علاقے"سرخس" میں پیدا ہوئے ۔آپ کا شمار فقہاء حنفیہ کی عظیم شخصیات اور مجتہدین میں ہوتا ہے۔آپ کی سب سے مشہور کتاب "المبسوط" ہے جو تیس جلدوں پر مشتمل ہے،یہ کتاب آپ نے اوزجند کے جیل  سے شاگردوں کو املاء کروائی ہے۔دیگر کتابوں میں "شرح الجامع الکبیر" ، "شرح السیر الکبیر" ، "شرح مختصر الطحاوی"اور اصول فقہ میں "الاصول" شامل ہے۔

(2)۔ابو العباس ابن طیب سرخسی۔(متوفی 286ھ)آپ کا مکمل نام احمد بن محمد بن مروان بن طیب ہے۔آپ کو فلسفہ میں خاص مہارت حاصل تھی،اس کے علاوہ تاریخ،سیاست،ادب اور فنون کے بھی عالم تھے۔آپ کی پیدائش بھی "سرخس"میں ہوئی ۔آپ مشہور فلسفی کندی  کے شاگرد رہے ہیں اور خلیفہ عباسی معتضد باللہ کے استاد رہے ہیں۔آپ کتابوں میں "کتاب السیاسۃ"، "المدخل الی صناعۃ النجوم"، "کتاب الموسیقی"، "المسالک والممالک" ،"الجلساء والمجالسۃ" اور کتاب النفس، کتاب الشطرنج، وغیرہ کا تذکرہ ملتا ہے۔

(3)۔اسماعیل بن ابراہیم بن محمد سرخسی۔(متوفی 414ھ)۔آپ حافظ اسحاق القراب کے بھائی تھے۔فقیہ اور ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ مشہور قاری اور قراءات میں امام تھے۔آپ نے مناقب امام شافعیؒ میں ایک کتاب بھی لکھی ہے۔

(4)۔ابوبکر،عبدالرحمن بن محمد سرخسی۔(متوفی 439ھ) آپ حنفی فقیہ تھے۔آپ کی پیدائش بھی سرخس میں ہوئی اور بعد میں خوزستان منتقل ہوگئے۔بصرہ میں دو بار قاضی مقرر ہوئے ۔آپ کی کتابوں میں مشہور کتاب "تکملۃ التجرید للکرمانی" ہے۔

(5)۔عبید اللہ سرخسی۔(متوفی 241)آپ کا پورا نام عبید اللہ بن سعید بن یحیٰ ہے۔آپ حفاظِ حدیث میں سے تھے۔امام بخاریؒ نے بھی آپ سے روایات لی ہیں۔

(6)۔رضی الدین سرخسی (متوفی 571ھ)آپ کا نام محمد بن محمد ہے۔عظیم حنفی فقیہ تھے۔حلب میں رہتے تھے اور پھر دمشق منتقل ہوئے،وہیں پر وفات پائی۔آپ کی کتابوں میں "المحیط الرضوی" ، "المحیط" ،"الطریقۃ الرضویۃ"، "الوسیط" اور "الوجیز" شامل ہے۔

زیلعی: چارشخصیات کا لقب:

علماء میں کئی شخصیات "زیلعی"کے لقب سے منسوب ہیں۔درج ذیل چار  میں سے  پہلےدو علماء اس لقب سے زیادہ مشہور ہیں:

(1)۔فخرالدین زیلعی(متوفی743ھ)۔آپ کا پورا نام ابوعمرو،عثمان بن علی بن محجن البارعی ہے۔آپ زیلع کی طرف منسوب ہے جو آج کل صومالیہ میں واقع ہے۔عظیم فقیہ اور مفتی تھے۔705ہجری میں قاہرہ گئے اور وہی پر وفات بھی ہوئی۔آپ کی مشہور کتابوں میں چند یہ ہیں: تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، ترکۃ الکلام علی احادیث الاحکام اور شرح الجامع الکبیر۔

(2)۔جمال الدین زیلعی(ولادت:وفات:762ھ)آپ کا مکمل نام ابومحمد،عبداللہ بن یوسف بن محمد ہے۔آپ فخرالدین زیلعی کے شاگرد ہیں۔آپ بھی فقیہ اور محدث تھے۔آپ کی مشہور کتابوں میں نصب الرایہ فی تخریج احادیث الہدایہ  اور تخریج احادیث الکشاف شامل ہے۔

(3)۔زیلعی عقیلی (متوفی 707ھ)آپ کا نام احمد بن عمر ہے۔عقیل بن ابی طالب کی اولاد میں سے ہیں۔آپ فقیہ اور صوفی تھے۔آپ کا انتقال لُحیہ نامی علاقے میں ہوا۔آپ نے تصوف میں ایک کتاب بنام ثمرۃ الحقیقۃ ومرشد السالکین الی اوضح طریقۃ لکھی ہے۔

(4)۔زیلعی جبرتی (متوفی 1188ھ)ان کا نام حسین بن ابراہیم بن حسن جبرتی عقیلی حنفی ہے۔آپ فقیہ بھی تھے،لیکن علم فلکیات میں آپ زیادہ ماہر تھے۔آپ کے چند رسائل کا تذکرہ ملتا ہے جیسے حوض کے پانی سے متعلق ایک رسالہ " رفع الاشکال"اور اوقات ِ نماز سے متعلق ایک رسالہ "حقائق الدقائق" اور "العقد الثمین فیما یتعلق بالموازین"وغیرہ۔

ابن کثیر: دو شخصیات کی کنیت:

علامہ ابن کثیر ایک معروف شخصیت اور بڑے مفسر گزرے ہیں،لیکن یہ کنیت ان کے علاوہ ایک اور شخصیت کے لیے بھی استعمال کی جاتی ہے۔ذیل میں دونوں کا مختصر تعارف پیش کیا جاتا ہے:

(1)۔۔۔ابن کثیر المُقری۔(ولادت:45ھ، وفات:120ھ)آپ کا پورا نام ابومعبد عبداللہ بن کثیر بن عمرو ہے۔آپ کی نسبت کنانی،داری ،مکی ہے۔آپ کو "عطار"بھی کہاجاتا تھا،کیونکہ آپ عطر وخوشبو کا کاروبار کرتے تھے۔آپ کی پیدائش اور وفات مکہ میں ہوئی۔آپ بڑے عالم تھے اور سات مشہور قاریوں(قراء سبعہ)میں آپ کا نام بھی شامل ہے۔

(2)۔۔۔ابن کثیر مفسر۔(ولادت:701ھ، وفات:774ھ)آپ کا پورا نام حافظ عماد الدین ،ابوالفداء،اسماعیل بن عمر بن کثیر،قرشی بصروی،دمشقی شافعی ہے۔آپ کی پیدائش شام میں ہوئی ،لیکن دو سال کی عمر میں والد کی وفات ہوئی اور آپ گھر والوں کے ساتھ دمشق منتقل ہوگئے اور وفات  بھی دمشق ہی میں ہوئی۔آپ حافظ الحدیث،مؤرخ اور عظیم مفسر ہیں۔آپ کی کتابوں میں چند مشہور یہ ہیں:تاریخ میں  "البدایہ والنہایہ"، تفسیر میں "تفسیر القرآن العظیم" جو تفسیر ابن کثیر کے نام سے مشہور ہے۔"طبقات الفقہاء الشافعیین"، "الاجتہاد فی طلب الجہاد"،  "جامع المسانید" ، "اختصار علوم الحدیث" ، "الفصول فی اختصار سیرۃ الرسول" اور "التکمیل فی معرفۃ الثقات والضعفاء والمجاہیل"۔

ابن حجر:  دو شخصیات کی کنیت:

ابن حجر کی کنیت سے حدیث کا کوئی طالب علم ناواقف نہ ہوگا،لیکن اس کنیت سے دو بڑی شخصیات مشہور ہیں:

(1)۔حافظ ابن حجرعسقلانی شافعی۔(متوفی 852ھ)آپ کا اصل نام ابوالفضل  شہاب الدین احمدبن علی بن محمد کنانی ہے۔آپ کو حافظ الاسلام کا لقب بھی دیا گیا ہے۔ابن حجر آپ کے آباء واجداد میں کسی کا لقب تھا،اسی سے آپ بھی مشہور ہوگئے۔آپ کی پیدائش اور وفات قاہرہ  میں ہوئی۔آپ پہلے پہل تاریخ،عربی ادب واشعار میں مشغول تھے پھر علم حدیث کی طرف متوجہ ہوئے اور اس میں ایسی مہارت حاصل کی کہ حافظ الحدیث کہلائے۔ علامہ شوکانی ؒ فرماتے ہیں کہ اگر "حافظ"کو مطلقا بولاجائے تو اس سے بالاجماع آپ ہی مراد ہوتے ہیں۔ آپ کئی بار مصر میں قاضی بنے۔علامہ سخاویؒ لکھتے ہیں کہ آپ کی تصنیفات ایک سو پچاس سے زائد ہیں۔آپ کی مشہور کتابوں میں بخاری کی معرکۃ الآراء شرح"فتح الباری" ، "الدرر الكامنۃ فی اعيان المائۃالثامنۃ " ،   " لسان الميزان " ، " الاحكام لبيان ما فی القرآن من الاحكام"  ، " الكافی الشاف فی تخريج احاديث الكشاف" ، " تقريب التهذيب"  ، " الاصابۃ فی تمييز اسماء الصحابۃ" ،  " تہذيب التہذيب" ، " بلوغ المرام من ادلۃ الاحكام" ، " نزہۃ النظر فی توضيح نخبۃ الفكر" ، " التلخيص الحبير فی تخريج احاديث الرافعی الكبير" وغیرہ شامل ہے۔

(2)  ابن حجر سعدی ہیتمی۔(متوفی 974ھ) اصل نام شہاب الدین ابوالعباس احمد بن محمدانصاری ہے۔ شافعی ہیں اور آپ کا شمار بڑے فقہاء میں ہوتا ہے۔مصر کی ایک بستی ہیتم کی طرف آپ کی نسبت کی جاتی ہے جہاں پر آپ کی پیدائش ہوئی ۔آپ کی وفات مکہ میں ہوئی۔آپ کی مشہور کتابوں میں  " مبلغ الارب فی فضائل العرب" ، " الصواعق المحرقۃ على اهل البدع والضلال والزندقۃ" ،  " تحفۃ المحتاج لشرح المنهاج" ، " الخيرات الحسان فی مناقب ابی حنيفۃ النعمان" ، " الفتاوی الهيتميۃ" ، " الزواجر عن اقتراف الكبائر" وغیرہ شامل ہیں۔

ہیتمی اور ہیثمی:

بعض دوستوں کو"ہیتمی" اور "ہیثمی"میں شبہ ہوتا ہے،بعض اسے ایک سمجھتے ہیں اور بعض سمجھتے ہیں کہ ہیتمی کے بجائے ہیثمی ٹھیک نسبت ہے،لیکن یہ دونوں الگ الگ شخصیات ہیں۔

ہیتمی(تاءکے ساتھ)ابن حجر سعدی ہے،جن کا تذکرہ اوپر ہوچکا،اور ہیثمی (ثاء کے ساتھ)سےدو شخصیات مشہور ہیں:

(1)۔ نورالدین مصری ہیثمی۔آپ کا مکمل نام  ابوالحسن علی بن ابی بکر بن سلیمان  ہے۔ ۔آپ کی ولادت 735ھ میں ہوئی  اور وفات  807ھ میں ہوئی۔آپ عظیم محدث تھے۔آپ کی تصانیف میں "مجمع الزوائد ومنبع الفوائد"، "ترتیب الثقات " ، "تقریب البغیۃ فی ترتیب احادیث الحلیۃ"،"مجمع البحرین فی زوائد المعجمین"، " المقصد العلى، فی زوائد ابی يعلى الموصلی " ، " زوائد ابن ماجۃ على الكتب الخمسۃ "، " موارد الظمآن الى زوائد ابن حبان"، " غايۃ المقصد فی زوائد احمد "۔

(2)۔محمد بن ہیثم ہیثمی(متوفی 351ھ)آپ فقیہ تھے اوریمن کے بادشاہ رہے ہیں۔یمن میں بنی الہیثم کی امارت آپ ہی سے شروع ہوئی تھی جو 85سال تک جاری رہی۔(الاعلام للزرکلی)

النسفی: تین شخصیات کا لقب:

نسفی تین بڑے علماء کا لقب ہے اور تینوں فقہاء حنفیہ میں سے ہیں:

(1)۔ابوالمعین نسفی حنفی، جن کا اصل نام میمون بن محمد بن محمد ہے۔(متوفی 508ھ )اصول دین اور علم کلام کے بڑے عالم تھے۔سمرقند اور بخارا میں رہے ہیں۔آپ کی کتابوں میں مشہور یہ ہیں: "بحر الکلام"،"تبصرۃ الادلہ"،"التمهيد لقواعد التوحيد" ،  " العمدة فی اصول الدين " ،  " العالم والمتعلم " ،  " ايضاح المحجۃ لكون العقل حجۃ " ،  " شرح الجامع الكبير للشيبانی "  ،  " مناهج الائمۃ " ۔

(2)۔ابوحفص،نجم الدین نسفی۔(متوفی 537ھ)آپ کا اصل نام عمربن محمد بن احمد ہے۔آپ فقہاء حنفیہ میں سے ہیں اور  تفسیر،عربی ادب اور تاریخ کے عالم تھے۔آپ کو "مفتی ثقلین"کہتے ہیں۔نسف میں پیدا ہوئے اور سمرقند میں وفات پائی۔کہتے ہیں کہ آپ نے تقریبا سو(100)کتابیں لکھی ہیں۔ان میں سے چند یہ ہیں: "الاكمل الاطوال"، " التيسير فی التفسير " ، " المواقيت " ، " تعداد شيوخ عمر " ، " الاشعار بالمختار من الاشعار " ، " نظم الجامع الصغير " ، " قيد الاوابد " ، " منظومۃ الخلافيات " ، " القند فی علماء سمرقند " ، " تاريخ بخارى " ، " طلبۃ الطلبۃ " ، " العقائد "۔

(3)۔ابوالبرکات،حافظ الدین نسفی۔آپ کا نام عبداللہ بن احمد بن محمود ہے۔(متوفی 710ھ)ازبکستان کے شہر نسف میں پیدا ہوئے۔تفسیر،فقہ اور اصول فقہ میں خاص مہارت رکھتے تھے۔تینوں شخصیات میں سب سے مشہور"نسفی"یہی ہیں۔آپ کی مشہور کتابوں میں  تفسیر" مدارك التنزيل وحقائق التاويل  " ،  فقہ میں  "کنز الدقائق"   اصول فقہ میں "المنار"(نورالانوار کا متن) اور منار کی شرح"کشف الاسرار"، فروعات میں "الوافی"اور "الکافی" ،جبکہ  عقائد میں "عمدۃ العقائد"مشہور ہے۔ابوحفص نسفی کی کتاب "منظومۃ الخلاف"کی شرح بھی آپ نے "المصفی"کے نام سے لکھی ہے۔

کمال، ابن کمال اور اکمل:

یہ تین القاب ہیں جو فقہی کتب میں سامنے آتے ہیں۔بعض دوستوں کو ان میں شبہ ہوجاتا ہے کہ کس لقب سے کون سی شخصیت مراد ہیں۔یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ یہ تینوں الگ الگ شخصیات کے القاب ہیں:

(1)۔کمال: اس سے علامہ ابن الہمام مراد ہوتے ہیں۔جن کا اصل نام کمال الدین محمد بن عبدالواحد سیواسی اسکندری (متوفی 861ھ)ہے۔نویں صدی کے مشہور حنفی فقیہ ہیں اور فقہ واصول میں خاص مہارت رکھتے تھے۔ان کی مشہور کتاب"فتح القدیر"ہے جو ہدایہ کی تفصیلی شرح ہےاور اصول فقہ میں ان کی معرکۃ الآراء کتاب "التحریر"ہے۔

(2)۔ابن کمال: اس سے قاضی شمس الدین احمد بن سلیمان بن کمال پاشاؒ (متوفی 940ھ)مراد ہوتے ہیں۔مشہور حنفی فقیہ اور محدث ہیں۔آپ کی مشہور کتابوں میں طبقات الفقہاء، طبقات المجتہدین، الاصلاح والایضاح اور تغییر التنقیح(اصول فقہ کا متن)شامل ہے۔

(3)۔اکمل یا  الاکمل: اس سے علامہ اکمل الدین محمد بن محمدرومی بابرتیؒ (متوفی 786ھ)مراد ہوتے ہیں۔آٹھویں صدی کے بلند پایہ حنفی فقیہ ہیں۔آپ کی مشہور کتابوں میں ہدایہ کی بہترین شرح "عنایہ"ہے،اس کے علاوہآپ کی چند کتابیں یہ ہیں: شرح مشارق الانوار، التقریر علی اصول البزدوی، شرح المنار اور الارشاد فی شرح فقہ الاکبر  وغیرہ۔

دو ابن نجیمؒ:

فقہاء حنفیہ میں "ابن نجیم" کے نام سے شاید ہی کوئی واقف نہ ہو،لیکن اس کنیت سے دو شخصیتیں مشہور ہیں،دونوں  بھائی ہیں اور ان کا شمار بڑے فقہاء میں  ہوتا ہے:

(1)۔علامہ زین الدین بن ابراہیم مصری رحمہ اللہ(متوفی 970ھ)۔مشہور فقیہ ہیں۔ابن نجیم مصری اور زین بن نجیم  کی کنیت سے مشہور ہیں۔ان کی کتابوں میں "البحر الرائق" مشہور ہے جو "کنز الدقائق"کی مفصل شرح ہے،البتہ اس کی تکمیل نہ کرسکے، انہوں نے "باب الاجارۃ الفاسدۃ"تک ہی لکھی تھی ۔اس کا تکملہ شیخ محمد بن حسین طوری نے لکھا ہے۔اس کے علاوہ آپ کی مشہور کتابو ں میں  الاشباہ والنظائر، فتاوی زینیہ، اور مجموعہ رسائل زینیہ وغیرہ شامل ہیں۔  جب مطلق ابن نجیم بولا جاتا ہے تو اس سے یہی مراد ہوتے ہیں۔

(2)۔علامہ عمر بن ابراہیم سراج الدین ابن نجیم مصری رحمہ اللہ(متوفی 1005)۔یہ زین الدین بن نجیم کے چھوٹے بھائی ہیں۔عمربن نجیم کے نام سے مشہور ہیں۔آپ نے کنز الدقائق کی ایک شرح لکھی ہے جس کا نام "النہر الفائق "ہے۔یہ بھی مکمل نہیں ہے،بلکہ انہوں نے کتاب القضاء تک ہی لکھی تھی۔ان کی فقہ میں ایک اور کتاب کا ذکر بھی ملتا ہے جس کا نام"اجابۃ السائل باختصار انفع الوسائل"ہے۔

مشاہدات و تاثرات

(مارچ ۲۰۱۸ء)

مارچ ۲۰۱۸ء

جلد ۳۰ ۔ شمارہ ۳

تلاش

Flag Counter