(’’نظریہ پاکستان اور قومی بیانیہ” کے پیش لفظ کے طور پر لکھا گیا)
نحمدہ تبارک وتعالی ٰ ونصلی ونسلم علی ٰ رسولہ الکریم وعلی ٰ آلہ واصحابہ واتباعہ اجمعین
۱۹۴۷ء میں اسلامی نظریہ اور مسلم تہذیب وثقافت کے تحفظ وفروغ کے عنوان سے جنوبی ایشیا میں ’’پاکستان” کے نام سے ایک نئی مملکت وجود میں آئی تو یہ تاریخی اعتبار سے ایک اعجوبہ سے کم نہیں تھی کہ اس خطے میں مسلم اقتدار کے خاتمہ کو ایک صدی گزر چکی تھی، جبکہ مغرب میں اسلام کے نام پر صدیوں سے چلی آنے والی خلافت عثمانیہ ربع صدی قبل اپنے وجود اور تشخص سے محروم ہو گئی تھی اور اقتدار اور حکومت وریاست کے حوالے سے مذہب کے کردار کی نفی اور خاتمہ کے دور نے ’’انقلاب فرانس” کے بعد ڈیڑھ صدی گزار لی تھی۔ اس ماحول میں اسلامی تہذیب کی بقا کے عنوان اور حکومت وریاست کے دائروں میں قرآن وسنت کی عمل داری کے عزم کے ساتھ ’’پاکستان ”دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا اور اس کی مغرب کی تعلیم گاہوں میں تعلیم حاصل کرنے والی قیادت نے اسلام اور مسلم امہ کی ترقی واستحکام کا نعرہ لگایا تو یہ بات آسانی کے ساتھ ہضم ہونے والی نہیں تھی اور بہت سے حلقو کو ابھی تک ہضم نہیں ہو رہی، مگر پاکستان نہ صرف وجود میں آیا بلکہ اس کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے ’’قرارداد مقاصد” منظور کر کے اس نئے ملک کے نظریاتی تشخص اور اسلامی تعارف کو ہمیشہ کے لیے اس کا جزو لا ینفک بنا دیا اور پھر دستور پاکستان میں اسے ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان” قرار دے کر اور ریاستی وحکومتی معاملات میں ’’قرآن وسنت” کی بالادستی کو اس کی اساس کی حیثیت دے کر لامذہبیت کی طرف اس کی واپسی کے تمام دروازے بند کر دیے جس پر بہت سے عالمی حلقے مسلسل پیچ وتاب کھا رہے ہیں، مگر پاکستان کے عوام کی اسلام کے ساتھ بے لچک محبت وعقیدت اور دینی قیادتوں کی مسلسل بیداری کے باعث پاکستان کے اس تعارف وتشخص کو مجروح کرنے کا کوئی حربہ کامیاب نہیں ہو رہا، البتہ پاکستان کے داخلی ماحول میں اسلامی احکام وقوانین کے عملی نفاذ کو روکنے اور ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان” کی حیثیت سے اس کی عملی پیش رفت میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کا کام بدستور جاری ہے اور یہ کشمکش ہر سطح پر بپا ہے جس میں ایک طرف پاکستان کے عوام اور ان کی نظریاتی قیادتیں ہیں اور دوسری طرف نوآبادیاتی دور سے ورثے میں ملنے والا سسٹم اور اس کے عالمی سرپرست ہیں جو اس گھسے پٹے نظام کو اس کی تمام تر خرابیوں اور ناکامیوں کے باوجود ہر صورت میں ملک پر مسلط رکھنے کے درپے ہیں کیونکہ اس کے سوا انھیں پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی جمہوریہ بننے سے روکنے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا۔
جہاں تک پاکستانی عوام کا تعلق ہے، وہ متعدد بار اپنے اس فیصلے کا جمہوری انداز میں اعلان کر چکے ہیں کہ وہ نوآبادیاتی نظام سے خلاصی چاہتے ہیں اور قرآن وسنت اور خلافت راشدہ کے اصولوں کے دائرے میں اپنے ملک کو ایک اسلامی، جمہوری اور رفاہی ریاست کی حیثیت دینا چاہتے ہیں، مگر ان کا یہ سیاسی، جمہوری اور عوامی فیصلہ تسلیم نہیں کیا جا رہا اور اسے سبوتاژ کرنے کی کارروائیاں کسی تعطل کے بغیر جاری ہیں۔ اس کشمکش کے بیسیوں فکری، علمی، تہذیبی، سیاسی اور عملی پہلو ہیں جن پر بحث وتمحیص کا میدان گذشتہ سات عشروں سے گرم ہے اور دن بدن اس کی شدت میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
راقم الحروف ۱۹۶۲ء کے دوران پاکستان کو اسلامی، جمہوری اور رفاہی ریاست کی منزل سے ہم کنار کرنے کی جدوجہد میں ایک شعوری کارکن کے طور پر شریک ہوا تھا اور اب تک بحمد اللہ تعالی ٰ اس کا حصہ ہوں اور اپنی بساط کی حد تک عملی کوششوں کے ساتھ ساتھ علمی اور فکری محاذ پر بھی متحرک ہوں اور اس محنت وسعی کے مختلف پہلووں پر مسلسل لکھتا آ رہا ہوں جو مختلف رسائل وجرائد اور اخبارات میں بحمد اللہ تعالی ٰ ہزاروں کی تعداد میں بکھرے ہوئے مضامین کی صورت میں ریکارڈ کا حصہ ہیں اور اس پر مختلف علمی ودینی راہ نماوں اور اہل دانش کی طرف سے تحسین اور حوصلہ افزائی یقینا میرے لیے اعزاز کی بات ہے اور وہ بلاشبہ میرا توشہ آخرت ہے۔
آج کی ضروریات اور تقاضوں کے حوالے سے ان مضامین کا ایک جامع انتخاب میرے فرزند عزیز ڈاکٹر حافظ محمد عمار خان ناصر سلمہ اور رفیق محترم مولانا محمد یونس قاسمی نے بڑی عرق ریزی اور حسن اسلوب کے ساتھ مرتب کیا ہے جو ’’نظریہ پاکستان اور قومی بیانیہ” کے عنوان سے زیر نظر کتاب کی صورت میں آپ کے سامنے ہے۔ میں خود ایک عرصے سے اس کی ضرورت محسوس کر رہا تھا، مگر مصروفیات کے ہجوم میں اس کی کوئی عملی صورت نہیں بن رہی تھی، اس لیے یہ میرے لیے بہت خوشی کی بات ہے اور میں اس پر دونوں عزیزوں کے شکریے کے ساتھ دعاگو ہوں کہ اللہ تعالی ٰ ان کی اس کاوش کو قبولیت سے نوازیں اور اسے ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان” کی نظریاتی وتہذیبی شناخت کے تحفظ اور اسے صحیح معنوں میں ’’اسلامی جمہوریہ” بنانے کی جدوجہد میں پیش رفت کا ذریعہ بنا دیں۔ آمین یا رب العالمین