’’پیغام پاکستان‘‘

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

۱۶ جنوری کو ایوانِ صدر اسلام آباد میں ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کے اجراء کی تقریب میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی اور اکابرین امت کے ارشادات سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔ کتاب ’’پیغام پاکستان‘‘ معروضی حالات میں اسلام، ریاست اور قوم کے حوالہ سے ایک اجتماعی قومی موقف کا اظہار ہے جو وقت کی اہم ضرورت تھا اور اس کے لیے جن اداروں، شخصیات اور حلقوں نے محنت کی ہے وہ تبریک و تشکر کے مستحق ہیں۔

ادارہ تحقیقاتِ اسلامی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے تیار کردہ تمام مکاتب فکر کے متفقہ ’’پیغامِ پاکستان‘‘ میں بنیادی اور اصولی باتیں تو وہی ہیں جن کا گزشتہ دو عشروں سے مسلسل اظہار کیا جا رہا ہے اور کم و بیش تمام طبقات اور حلقے ان پر متفق چلے آرہے ہیں۔ اس کا ذکر مذکورہ تقریب میں مولانا فضل الرحمان اور مولانا مفتی منیب الرحمان نے اپنے خطابات کے دوران تفصیل کے ساتھ کر دیا ہے کہ اسلامی ریاست کے خلاف عسکری محاذ آرائی، نفاذِ شریعت کے لیے مسلح جنگ، پرامن شہریوں کا قتل، دستور کی بالادستی کو چیلنج اور خودکش حملوں کے ناجائز ہونے کے بارے میں دینی حلقے اور ان کی قیادتیں اس افسوسناک عمل کے آغاز سے ہی لگاتار اپنے دوٹوک موقف کا اعلان کر رہی ہیں۔ تاہم اس کے باوجود وسیع تر دائرے میں اعلیٰ ترین سطح پر ریاستی اداروں کے اشتراکِ عمل کے ساتھ صدرِ اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب ممنون حسین کی قیادت میں اس نئے اور اجتماعی اظہار نے اسے متفقہ قومی موقف کی حیثیت دے دی ہے اور آج کے قومی اور عالمی حالات میں اس کی اہمیت و افادیت کو دوچند کر دیا ہے جس سے دنیا کو پاکستانی قوم کی طرف سے ایک واضح اور دوٹوک پیغام ملا ہے۔

البتہ ’’پیغامِ پاکستان‘‘ میں بظاہر ایک نئی بات فرقہ واریت کے حوالہ سے ضرور سامنے آئی ہے کہ کسی فرد یا طبقہ کی تکفیر اور اسے دائرہ اسلام سے خارج کرنے کے عمل کو ریاست و عدالت کے دائرہ اختیار میں محصور قرار دیا گیا ہے جو مختلف حلقوں کی وسیع تر باہمی تکفیری مہم اور اس میں مسلسل اضافے کے باعث ضروری ہوگیا تھا اور اس کا سنجیدہ حلقوں میں خیرمقدم کیا جائے گا۔ ویسے عملاً پہلے بھی ایسا ہی ہوا ہے کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے بارے میں تمام مکاتب فکر کے اجماعی فیصلے اور فتوے کے عملی نفاذ کے لیے پارلیمنٹ اور عدالتِ عظمیٰ کو ذریعہ بنایا گیا تھا اور انہی کے فیصلوں کو اس حوالہ سے بنیادی اور کلیدی مقام حاصل ہے۔ جبکہ ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کے ذریعے اس روایت کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے کہ کسی طبقہ یا فرد کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے کے لیے پارلیمنٹ اور عدالتِ عظمیٰ ہی مجاز ادارے ہیں اور تکفیری رجحانات سے معاشرہ میں پھیلنے والی انارکی کو کنٹرول کرنے کے لیے یہ ناگزیر ہے اور اسی سے فرقہ واریت کے عفریت کو قابو میں لایا جا سکتا ہے۔

’’پیغامِ پاکستان‘‘ کی تیاری اور ترتیب و تدوین کے دوران ہمیں کسی مرحلہ میں شریک ہونے کا موقع نہیں ملا، ورنہ اسے زیادہ مؤثر اور جامع بنانے کے لیے ایک دو تجویزیں ہمارے ذہن میں بھی تھیں جن کا اظہار اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ممکن ہے آئندہ کسی مرحلہ میں ان کی طرف توجہ مبذول ہو جائے۔

ایک یہ کہ یہ بات بالکل درست ہے کہ کسی مسلم ریاست کی جائز اور مسلمہ حکومت ہی جہاد کا اعلان کرنے کی مجاز ہے اور اس کے بغیر کسی شخص یا گروہ کو اس کا حق حاصل نہیں ہے لیکن کسی بھی اجتماعی فتویٰ میں عام طور پر مسئلہ کے تمام پہلوؤں کو سامنے رکھا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں یہ فتویٰ بار بار جاری کیے جانے اور درست ہونے کے باوجود اس سوال کے حوالہ سے تشنہ چلا آرہا ہے کہ اگر کسی مسلم ریاست میں غیر ملکی اور غیر مسلم طاقتوں کی مداخلت سے اس کا ریاستی ڈھانچہ اور حکومتی نظام ہی ’’ہیک‘‘ ہو جائے اور خود وہ حکومت غیر مسلم اور غیر ملکی مداخلت کے ہاتھوں کٹھ پتلی کی حیثیت اختیار کر لے تو پھر اس تسلط اور استعلاء کے خلاف مزاحمت اور جہاد کا اعلان کس کی ذمہ داری قرار پائے گا اور اس کی مجاز اتھارٹی کون سی ہوگی؟ مثلاً جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے دہلی کے مغل بادشاہ کو بے اختیار کر کے اسی کے نام پر مالیاتی، انتظامی اور عدالتی نظام کو اپنے کنٹرول میں لینے کا اعلان کیا تھا تو حکومتی اتھارٹی اس طرح ’’ہیک‘‘ ہو جانے پر حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ نے اس خطہ کو ’’دارالحرب‘‘ قرار دے کر جہاد کا اعلان کر دیا تھا اور اس اعلان کو دینی و علمی طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اگر اب خدانخواستہ ایسی صورتحال پیدا ہو جائے تو کسی کو مزاحمت اور جہاد کے اعلان کا اختیار حاصل ہوگا یا سارے معاملات کو ’’سرِ تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے‘‘ کہہ کر قبول کر لیا جائے گا؟

دوسری گزارش یہ ہے کہ نفاذِ شریعت کے لیے ہتھیار اٹھانے کو بجا طور پر شرعاً حرام قرار دینے کے ساتھ ساتھ شریعت کے نفاذ میں کوتاہی برتنے اور اسے نظرانداز کرتے چلے جانے والوں کے اس عمل کی شرعی حیثیت بھی اس ’’قومی فتوے‘‘ میں واضح ہونی چاہیے تھی۔ کیونکہ صرف اتنا کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ متعلقہ افراد اور اداروں کو نفاذ اسلام کے اقدامات کرنے چاہئیں بلکہ اس بات کا تعین بھی ضروری ہے کہ جو ادارے اور طبقات شرعی و دستوری دونوں حوالوں سے نفاذِ اسلام میں اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہے ان کی حیثیت کیا ہے اور کیا ان پر بھی کسی فتوے کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں؟

مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق سکندر، مولانا فضل الرحمان، مولانا مفتی منیب الرحمان، پروفیسر ساجد میر، مولانا عبد المالک، علامہ ریاض حسین نجفی اور دیگر اکابرین نے اپنے خطابات میں اس طرف توجہ دلائی ہے لیکن ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کا متن اس کے بارے میں خاموش ہے۔ اس کے ساتھ ہی مولانا عبد المالک کا یہ کہنا بھی قابل توجہ ہے کہ بغاوت کرنے والوں کے خلاف کاروائی اور آپریشن ضروری ہے مگر ان کو اپنے موقف سے رجوع کرنے اور محاذ آرائی سے دستبردار ہونے کا موقع بھی دیا جانا چاہیے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں حوالہ دیا ہے کہ جب حضرت ابوبکرؓ نے باغیوں کے خلاف کاروائی کے لیے فوجیں بھیجی تھیں تو پہلی ہدایت یہ تھی کہ انہیں اسلامی ریاست کے سامنے سپرانداز ہونے اور توبہ کرنے کی دعوت دیں، اگر وہ ایسا نہ کریں تو پھر پوری قوت کے ساتھ ان کے خلاف کاروائی کریں۔

بہرحال اب تک جو ہوا سو ہوا، کوئی بھی انسانی عمل کتنا ہی جامع اور مکمل ہو اس میں کوئی نہ کوئی کمی بہرحال رہ جاتی ہے اس لیے ان باتوں کو مستقبل پر چھوڑتے ہوئے ہم ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کا خیرمقدم کرتے ہیں اور اس کی مکمل حمایت و تائید کے ساتھ ہرممکن عمل و تعاون کا یقین دلاتے ہیں۔

جنرل باجوہ اپنے آبائی شہر کے باسیوں کے درمیان

آرمی چیف محترم جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ اتوار کو گوجرانوالہ کینٹ میں اپنے آبائی شہر گکھڑ کے چند سرکردہ شہریوں کے ساتھ محفل جمائی۔ گکھڑ سے تعلق اور اس سے بڑھ کر حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر? کا فرزند ہونے کے حوالہ سے مجھے بھی شریک محفل کیا گیا اور جنرل صاحب محترم نے عزت افزائی سے نوازا ، اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔ جنرل صاحب سے یہ میری پہلی ملاقات تھی اور ان کے بے ساختہ پن اور بے تکلفانہ انداز نے بہت متاثر کیا۔ انہوں نے بچپن کی بہت سی یادیں تازہ کیں اور گکھڑ کے پرانے بزرگوں کا محبت و احترام کے ساتھ ذکر کیا جس میں والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کا عقیدت سے بھرپور تذکرہ بھی شامل ہے۔

محفل میں شریک کم و بیش سبھی احباب نے جنرل صاحب کی شخصیت و مقام کو اپنے شہر اور علاقہ کے لیے باعث افتخار قرار دیا اور اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ انہوں نے اپنے آبائی شہر کے حضرات سے ملاقات اور علاقہ کے مسائل معلوم کرنے کے لیے اس نشست کا اہتمام کیا ہے۔ اس محفل کے توسط سے مجھے بھی بعض پرانے دوستوں اور بزرگوں سے ملاقات کا موقع مل گیا، مثلاً گکھڑ کے ایک پرانے بزرگ ریٹائرڈ کرنل نسیم صاحب بڑے تپاک سے ملے اور بتایا کہ انہوں نے میری والدہ مرحومہ و مغفورہ سے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کی تھی۔ ایک دوست حارث منظور بٹ گرمجوشی سے ملے اور کہا کہ آپ سے تئیس سال بعد ملاقات ہو رہی ہے، اس سے قبل امریکہ کے شہر اٹلانٹک سٹی میں ملاقات ہوئی تھی وغیر ذلک۔ غرضیکہ یہ محفل جنرل باجوہ صاحب محترم سے ملاقات کے ساتھ ساتھ بعض پرانے دوستوں کی باہمی ملاقات کا ذریعہ بھی بن گئی۔

گکھڑ میں اسٹیڈیم کے قیام کی بات ہوئی تو جنرل صاحب نے بتایا کہ ایک بڑے اسٹیڈیم کی تعمیر کا منصوبہ بن چکا ہے جس کا بہت جلد آغاز کیا جا رہا ہے۔ ٹریفک کے رش اور ہسپتال کی توسیع کے ساتھ ساتھ وزیرآباد کی کٹلری کی صنعت اور کار ڈیلر حضرات کے مسائل پر بھی گفتگو ہوئی اور جنرل صاحب نے مسائل کے حل کے لیے پوری توجہ کا وعدہ کیا۔ مجھے یہ انداز اچھا لگا کہ با اثر لوگ اگر اپنے اپنے علاقہ کے مسائل کے حل میں ترجیحات طے کرتے وقت عوام کی رائے بھی سن لیا کریں تو اس سے کام کی افادیت بڑھ جاتی ہے۔ بعض قومی مسائل بھی زیربحث آئے۔ ایک دوست نے کرپشن کی طرف توجہ دلائی تو جنرل صاحب موصوف نے خوبصورت بات کہی کہ اس کا حل تو آپ لوگوں کے پاس ہے کہ آپ الیکشن میں کرپٹ لوگوں کو منتخب نہ کریں۔ ملک کی سیاسی صورتحال پر ایک دوست نے گفتگو کرنا چاہی تو جنرل صاحب نے کہا کہ وہ اس حوالہ سے صرف ایک ہی بات کریں گے کہ آپ حضرات اپنے نمائندوں کا صحیح انتخاب کریں کیونکہ نظام تو منتخب لوگوں نے ہی چلانا ہے، آپ جس طرح کے لوگ منتخب کر کے بھیجیں گے، ملکی نظام انہی کے مطابق چلے گا۔ جنرل صاحب نے یہ بھی کہا کہ اگر انتخابات کے موقع پر عوام کی ترجیحات میں برادری ازم، تھانہ کچہری اور گلی محلہ کے مسائل کی بجائے اہلیت و دیانت اور قومی سوچ و جذبہ کو اولیت حاصل ہو جائے تو صورتحال بدل سکتی ہے، لیکن اس کے لیے مسلسل انتخابات کا منعقد ہوتے رہنا ضروری ہے۔

جنرل باجوہ نے دہشت گردی کے خاتمہ اور مذہبی فرقہ واریت پر کنٹرول کی بات تفصیل کے ساتھ کی، انہوں نے کہا کہ تعلیم کا سلسلہ آگے بڑھانا ہوگا کیونکہ ہمارے بیشتر مسائل کی وجہ تعلیم کی کمی اور تعلیمی نصاب کی یک رخی ہے۔ جن حضرات کے پاس دینی تعلیم ہے، وہ عصری تعلیم سے آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے ملکی نظام میں آگے نہیں بڑھ سکتے اور جو لوگ عصری تعلیم سے بہرہ ور ہیں، وہ دینی تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے صحیح فیصلے کرنے کی صلاحیت میں کمزور ہیں۔ ان دونوں کو اکٹھا کرنا ہوگا، دینی تعلیم کے ساتھ ضروری عصری تعلیم کو شامل کرنا ہوگا اور عصری تعلیم کے ساتھ ضروری دینی تعلیم کا اہتمام کرنا پڑے گا، اس کے بغیر ہم اپنے نظام کو صحیح نہیں کر سکیں گے۔ ہمیں دین کا علم بھی حاصل کرنا چاہیے اور جب ہم قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے ’’ذلک الکتاب لا ریب فیہ‘‘ پڑھتے ہیں تو ہمیں اس کا ترجمہ و مفہوم بھی معلوم ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس سازش کو سمجھنا چاہیے کہ دنیا بھر میں مسلمان کو مسلمان سے لڑایا جا رہا ہے جس سے فائدہ صرف دشمن کو ہوتا ہے، اس سازش کو سمجھ کر اسے ناکام بنانے کی فکر کرنی چاہیے۔

اس موقع پر متعدد حضرات نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ میں نے عرض کیا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی سرگرمیوں اور رجحانات کو میں بڑی توجہ سے دیکھ رہا ہوں اور مجھے ان کی یہ بات اچھی لگی ہے کہ وہ ملکی اور قومی معاملات میں توازن اور اعتدال کے رخ کو اجاگر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور بیلنس کی بات کرتے ہیں جس کی اس وقت سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ مذہبی فرقہ واریت کے بارے میں جنرل صاحب کی تشویش اور بے چینی کو درست قرار دیتے ہوئے میں نے عرض کیا کہ اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر فرقہ کے اعتدال پسند راہ نماؤں کی بات توجہ سے سنی جائے۔ ایسے لوگ ہر فرقہ میں موجود ہیں، کسی بھی فرقہ کے سب لوگ انتہا پسند اور شدت پسند نہیں ہوتے بلکہ اس قسم کے لوگ ہر مکتب فکر میں بہت کم ہوتے ہیں۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ اعتدال و توازن کی بات کرنے والوں کو توجہ کے ساتھ سنا جائے اور انہیں فرقہ وارانہ شدت پسندی اور انتہا پسندی کو کنٹرول کرنے کے لیے کردار ادا کرنے کا موقع دیا جائے۔

گکھڑ کی باجوہ فیملی سے میں ایک عرصہ سے متعارف ہوں بلکہ میرا بچپن اور نوجوانی انہی کے ماحول میں گزرے ہیں مگر جنرل صاحب کے ساتھ یہ پہلی ملاقات تھی جو خوشگوار ماحول میں ہوئی، دعا ہے کہ انہوں نے ملک و قوم کے لیے جن اچھے خیالات و جذبات کا اظہار کیا ہے اللہ تعالیٰ انہیں ان کے مطابق تادیر ملک و قوم کی خدمت کرتے رہنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

حکیم مختار احمد الحسینی ؒ اور قاری محمد رزین نقشبندیؒ کا انتقال

گزشتہ دنوں حضرت مولانا عبد اللطیف جہلمی قدس اللہ سرہ العزیز کے برادر خورد اور میرے پرانے بزرگ دوست مولانا حکیم مختار احمد الحسینی کا انتقال ہوگیا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ ایک دور میں متحرک فکری اور نظریاتی راہنماؤں میں شمار ہوتے تھے اور ان کے ساتھ میری پرجوش رفاقت رہی ہے۔ انہوں نے کچھ عرصہ جامعہ نصرۃ العلوم میں بھی تعلیم حاصل کی ہے۔ ان کا نام آج کے نوجوان علماء اور کارکنوں کے لیے اجنبی ہوگا مگر جن حضرات نے ۱۹۷۰ء کے انتخابات سے قبل اور بعد کے فکری اور نظریاتی معرکے اور محاذ آرائیاں دیکھی ہیں، وہ ان سے یقیناًناواقف نہیں ہیں۔ یہ ۱۹۶۷ء ، ۱۹۶۸ء کے لگ بھگ کا قصہ ہے کہ مولانا حکیم مختار احمد الحسینی نے اپنے برادر بزرگ مولانا حافظ خالد محمود کے ہمراہ لاہور میں ایک فکری اور نظریاتی مورچہ جمایا اور کافی عرصہ جمعیۃ علماء اسلام اور جماعت اسلامی کی باہمی معرکہ آرائی کا سرگرم کردار رہے۔

اس دور میں جماعت اسلامی کے ساتھ محاذ آرائی کے دو مورچے تھے۔ ایک یہ کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی بعض اعتقادی اور فقہی تعبیرات سے جمہور علماء اہل سنت کو اختلاف تھا اور دونوں طرف سے تنقید و جواب کا ماحول پوری شدت کے ساتھ گرم تھا جس میں حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ ، حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ اور حضرت مولانا عبد اللطیف جہلمیؒ پیش پیش تھے، جبکہ سیاسی و فکری تقسیم میں جماعت اسلامی اس وقت دائیں بازو کی جماعت شمار ہوتی تھی بلکہ دائیں بازو کی فکری قیادت کر رہی تھی۔ اس کے برعکس جمعیۃ علماء اسلام اپنے روایتی سامراج دشمن مزاج اور استعمار مخالف ایجنڈے کے باعث بائیں بازو کے قریب سمجھی جاتی تھی اور ڈاکٹر احمد حسین کمال کی فکری راہنمائی میں حکیم مختار احمد الحسینی اور دوسرے حضرات ’’عوامی فکری محاذ‘‘ کے نام سے اس کے لیے سرگرم تھے اور میں بھی اس وقت اس محاذ کا متحرک کردار تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ فکری محاذ آرائی ٹھنڈی پڑتی گئی حتیٰ کہ جہادِ افغانستان کے دوران دائیں بازو اور بائیں بازو کی یہ تقسیم ہی تحلیل ہو کر رہ گئی۔ اگر اس دور کی اس فکری اور نظریاتی معرکہ آرائی کی تاریخ مرتب کی جا سکے تو اس میں نئی نسل کے لیے راہنمائی کا بہت سامان موجود ہے۔ حکیم مختار احمد الحسینی اس نظریاتی اور فکری جنگ کا متحرک کردار تھے۔ میں نے ان کے فرزندان گرامی سے تعزیت کے دوران عرض کیا کہ اگر ان کے کاغذات اور یادداشتوں تک رسائی میسر آجائے تو اس حوالے سے کچھ خدمت میں بھی سر انجام دے سکتا ہوں۔

حکیم صاحب مرحوم کے ساتھ ہماری رشتہ داری بھی ہے کہ ان کے بھتیجے اور حضرت مولانا عبد اللطیف جہلمیؒ کے فرزند مولانا قاری خبیب احمد عمرؒ میرے بہنوئی تھے اور ان کی جگہ اب جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام جہلم کے مہتمم مولانا قاری ابوبکر صدیق میرے عزیز بھانجے ہیں۔ جہلم میں برادرم مولانا قاری صہیب احمد اور عزیزان قاری ابوبکر صدیق، حافظ محمد عمر فاروق اور حافظ محمد عمیر سے تعزیت کے بعد قاری ابوبکر صدیق کے ہمراہ حکیم صاحب مرحوم کے فرزندان گرامی کے پاس حاضری ہوئی جو سوہاوہ سے چکوال جاتے ہوئے سرگ ڈھن میں حکیم صاحب کے ڈیرہ اور مطب سنبھالے ہوئے ہیں۔ ان سے تعزیت و دعا کے ساتھ بہت سی پرانی یادیں تازہ کیں اور پھر ہم راولپنڈی روانہ ہوگئے۔

جامعہ اسلامیہ راولپنڈی صدر میں جمعیۃ علماء اسلام پنجاب کے امیر مولانا ڈاکٹر عتیق الرحمان سے ان کی والدہ محترمہ کی وفات پر تعزیت کی۔ ڈاکٹر صاحب کے والد محترم حضرت مولانا قاری سعید الرحمان جمعیۃ علماء اسلام کے بزرگ راہنماؤں میں سے تھے اور میرے محترم اور بزرگ دوست تھے۔ والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر نے انہیں نقشبندی سلسلہ میں خلافت عطا کی تھی اور وہ ہمارے ساتھ پاکستان شریعت کونسل کی سرگرمیوں میں شریک رہتے تھے۔ اس موقع پر تحریک خدام اہل سنت پاکستان کے امیر حضرت مولانا قاضی ظہور الحسین اظہر بھی جامعہ اسلامیہ میں مولانا حافظ زاہد حسین رشیدی کے ہمراہ تشریف لے آئے اور ہم اس تعزیت و دعا میں اکٹھے شریک ہوئے۔ مولانا قاضی ظہور الحسین اظہر بھی میرے بزرگ ساتھیوں میں سے ہیں اور ہم نے جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں کئی سال اکٹھے گزارے ہیں۔

وہاں سے ہم حضرت مولانا قاری محمد زرین نقشبندیؒ کی تعزیت کے لیے ان کے گھر حاضر ہوئے جن کا چند روز قبل انتقال ہوا ہے۔ وہ مجاہد ہزارہ حضرت مولانا عبد الحکیم ہزاروی کے داماد تھے اور جامعہ فرقانیہ راولپنڈی میں طویل عرصہ ان کے ساتھ رفیق کار رہے ہیں، خانقاہ سراجیہ کندیاں شریف سے تعلق تھا اور اپنی تعلیمی و انتظامی سرگرمیوں میں مگن ذاکر و شاغل بزرگ تھے۔ حضرت مولانا عبد الحکیم ہزاروی بھی ۱۹۷۰ء کے انتخابی معرکہ کا اہم عنوان رہے ہیں۔ وہ اپنے علاقہ کے سب سے بڑے خان اور سردار کو شکست دے کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے اور ۱۹۷۳ء کے دستور کی تدوین اور ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت میں پارلیمانی محاذ پر انہوں نے سرگرم کردار ادا کیا۔ درخواستی گروپ اور ہزاروی گروپ میں جمعیۃ علماء اسلام کی تقسیم سے قبل وہ جمعیۃ کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات تھے اور قومی اسمبلی کے بعد سینٹ کے ممبر بھی منتخب ہوئے تھے۔

اللہ تعالیٰ مرحومین کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کریں اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

تعارف و تبصرہ

(فروری ۲۰۱۸ء)

تلاش

Flag Counter