تصوف و سلوک اور ماضی قریب کے اجتہادات

سراج الدین امجد

دور حاضر میں تصوف و سلوک کی طرف شعوری رجحان اور عمومی ذوق خوش آئند ہے گو اس کی وجوہات گوناگوں ہیں۔ کچھ کے نزدیک تصوف انسان دوستی اور لبرل اقدار کا ہم نوا مذہب کا ایک جمالیاتی رخ ہے۔ کچھ لوگ اسے طالبانی خارجیت اور داعشی بربریت کا تریاق سمجھتے ہیں۔ کہیں روایتی تصوف کے علمبردار مشہور خانوادوں کے خوش فکر نوجوان نئے اسالیب میں اشغالِ تصوف کی ترویج کے لیے کوشاں ہیں تو کہیں تصوف فی الواقع روایت دینی کی پر کیف و جمال افروز فکری و نظری جولانگاہ کا حامل ہے۔ تاہم یہ المیہ بھی کچھ کم نہیں کہ بالعموم مروجہ سلوک میں چند رسوم کی بجاآوری ہی طرز ادا ٹھہری ہے یا پھر بعض اذہانِ رسا کی خوش اعتقادی پر مبنی حرف و صوت کی کارگزاری کشش کا سامان پیدا کر رہی ہے۔ وطن عزیز پاکستان میں پروفیسر احمد رفیق اختر، سید سرفراز شاہ صاحب ، بابا جی عرفان الحق اورعبد اللہ بھٹی صاحب وغیرہ موخر الذکر اسلوبِ تصوف کی عمدہ مثالیں ہیں۔ 

دورِ جدید کے ذہن کے لیے، جو تشکیک و ارتیاب کے ایمان شکن مظاہر سے نبرد آزما ہے، لاریب انٹلکچول تصوف کی قد رو قیمت بھی کچھ کم نہیں ۔ تاہم چمنستانِ تصوف کے سنجیدہ طبع اور سلیم الفطرت ریزہ چینوں کو عجمی تصوف کی خرابیوں کو ہمہ وقت پیش نظر رکھنا چاہیے۔ نیز یہ بھی ملحوظِ خاطر رہے کہ عملی تصوف فی الاصل تزکیہ نفس اور اصلاحِ باطن کا میدان ہے، باقی چیزیں ثانوی ہیں۔ اس باب میں اتباعِ شریعت اور استقامت ہی مدار نجات اور فوزِ عظیم ہے، لہٰذا آج بھی متبعِ سنت بزرگوں کی تعلیمات اور افکارِ عالیہ میں بڑا فیض ہے، لہٰذا اسی کی تلاش اور جستجو کرنی چاہیے۔ سردست موضوع سخن چونکہ بر صغیر پاک و ہند کے صوفیہ کرام کی اجتہادی کاوشوں کے ایک اجمالی جائزہ سے متعلق ہے، لہٰذا اسی تناظر میں بات کی جائے گی۔

امامِ ربانی حضرت مجدد الف ثانی ؒ تصوف و سلوک کی وضاحت میں مکتوب نمبر ۱۳ دفتر اول حصہ اول بنام شیخ نظام الدین تھانیسری (یہ بزرگ سلسلہ چشتیہ صابریہ کے بڑے مشائخ میں سے تھے جیساکہ حاجی امداداللہ مہاجر مکیؒ کے شجرہ سے ظاہر ہوتا ہے ) میں فرماتے ہیں : ’’تامعرفت اجمالی تفصیلی گردد واستدلال کشفی شود ‘‘، یعنی جن چیزوں کو اجمالاً جانتا ہے، ان کو تفصیلی جان لے اور جن باتوں کو بحث و استدلال سے سمجھتا ہے، ان کو کشف سے جان لے۔ تو گویا ان کے نزدیک یہ سلوک کا خلاصہ ہوا۔ ویسے بھی سلوک و احسان آیہ کریمہ ’’یزکیھم‘‘ کی تعبیر اور ’’حدیث احسان‘‘ کی تفصیل ہی ہے۔ تاہم اصل مسئلہ دور جدید میں اس کے حصول کا ہے۔سچ پوچھیے تو اس حوالے سے روایتی تصوف کے ہاں اب کچھ نہیں رہا ، الا ماشاء اللہ۔ فقط مجددانہ ایقان اور مجتہدانہ بصیرت کے حامل شیوخ ہی اس تشنہ کامی کا مداوا کرسکتے ہیں۔ اب اگر اس تناظر میں بات آگے بڑھائیں تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ تصوف و سلوک میں اجتہادی کاوشیں بالعموم کم نظر آتی ہیں۔ گزشتہ دو تین صدیوں میں حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ اور حکیم الامت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ جیسی شخصیات ہی ملتی ہیں جنہوں نے مجتہدانہ بصیرت سے دامن تصوف کو مالامال کیا۔ اسی طرح ماضی قریب میں بھی چند شخصیات ہی ایسی نظر آتی ہیں جنہوں نے اچھوتے افکار اور اجتہادی آراء سے منتسبینِ تصوف کے لیے کشش کا بڑا سامان پیدا کیا۔ 

فی الحال اس حوالے سے بحث کو بیسویں صدی تک ہی محدود رکھنا چاہتا ہوں۔ دور آخر میں مشائخ دیوبند خصوصاً حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب (متوفی ۱۹۴۳ء) کا تصوف پر وقیع کام ہے۔امورِ تصوف و سلوک پر لکھنے کے علاوہ وہ سالہا سال خانقاہ امدادیہ تھانہ بھون میں مسترشدین کی باقاعدہ تربیت کرتے رہے۔ یہ تربیت کس درجہ کی تھی، اس طرز و اسلوب اورنظم خانقاہ کی معرفت کے لیے مولانا عبد الماجد دریابادی کی کتاب "حکیم الامت" کا مطالعہ بصیرت افروز ہوگا۔ مزید تھانوی صاحب کی اپنی کتب مثلاً التکشف عن مہمات التصوف،بوادر النوادر، تجدید تصوف و سلوک ( مرتبہ عبد الباری ندوی) وغیرہ تصوف سے متعلق بہت سے شکوک و شبہات کے ازالہ کے لیے کافی ہیں۔ نیز ان کے سیکڑوں مواعظ بھی سالکین راہ کے لیے کم مفید نہیں۔ تھانوی صاحب چشتی صابری سلسلہ سے تعلق کے باوجود سلوک و احسان کے باب میں شریعت پر استقامت کو ہی اصل اور مقصود جانتے ہیں اور لطائف و واردات کو غیر مقصود سمجھتے ہیں جبکہ مجددی سلوک میں کشف و مشاہدہ کی بہر طور اپنی اہمیت ہے، بلکہ ان مشائخ کے نزدیک عبادات و طاعات کے ثمرہ کے طور پر حاصل ہونے والے احوال اور کیفیات ہی تو روحانی حالت کی صحیح تمیز اور کشوف کا باعث ہوا کرتی ہیں۔ سر دست تھانوی صاحب کی آراء پر تبصرہ یا محاکمہ مقصود نہیں بلکہ حالت باطنی اور واردات کی کسی درجہ میں ہی سہی، اہمیت دکھلانا پیش نظر ہے 

اس حوالے سے بحث کو آگے بڑھایا جائے تو پچھلی صدی میں تھانوی صاحب کے علاوہ تین شخصیات کے ہاں اجتہادی رنگ نظر آتا ہے۔ ایک سلسلہ اویسیہ کے مولانا اللہ یار خان ؒ چکڑالوی ( فاضل مدرسہ امینیہ دہلی ) جنہوں نے تصوف پر اپنی وقیع تصنیف ’’ دلائل السلوک‘‘ میں کشف و مشاہدہ کی اہمیت اور روحی فیض کی افادیت پر کتاب و سنت اور اقوال فقہاء سے مربوط استدلال فراہم کرنے کی کوشش کی ہے اور باقاعدہ بیعت و تربیت سے بہت سے لوگوں کی راہنمائی کی۔ یوں پڑھے لکھے حلقوں میں سلوک و احسان کی طلب پیدا ہوئی اور بے شمار لوگوں کو ذاکر شاغل بنایا، اگرچہ بعد میں اس درجہ کا کام اور لوگ سامنے نہ آسکے جتنا شروع میں سمجھا گیا۔ 

دوسری شخصیت حضرت خواجہ محمد عمر بیر بلوی (متوفی ۱۹۶۸ ء) کی ہے۔ یہ پنجاب کے ضلع سرگودھا کی ایک مشہور نقشبندی مجددی خانقاہ بیر بل شریف کے سجادہ نشین تھے۔ آپ نے بھی مدرسہ امینیہ دہلی سے علوم دینیہ کی تکمیل کی۔ بعد میں خانقاہ بیر بل شریف کے سجادہ نشین بنے۔ منصب سجادگی اور حلقہ مریدین کے باوصف روحانی کمی کا خیال دامن گیر رہتا، تا آنکہ سلوک و احسان اپنے دور کے نہایت سریع التاثیر اور قوی النسبت نقشبندی بزرگ حضرت میاں شیر محمد شرقپوری سے سیکھا اور خلافت پائی۔ حضرت بیربلوی صاحبِ مشاہدہ ،وسیع المطالعہ اور بہت زیرک انسان تھے۔ ایک تو آپ نے مروجہ سلوک اور تفصیلی اسباق و مراقبات کے حوالے سے تقلیدی روش ترک کی، بلکہ تعلق باللہ کے لیے متقدمین کی روش پر تلاوت قرآن، احکام شریعت کی پابندی اور صحبت و معیتِ صادقہ سے باطنی رذائل کے دور کرنے پر زور دیا ہے۔ آپ کے افکار عالیہ ’’انقلاب الحقیقت‘‘، ’’قرآنی حقائق‘‘ اور دیگر کتب میں بکھرے پڑے ہیں تاہم نہ صرف مربوط سلوکی تربیتی نظام کے متقاضی ہیں بلکہ ایسی شخصیت کے متلاشی ہیں جو اپنے پیشرووں کے افکار اپنے مشاہدہ باطنی اور کشفی بصیرت سے مزید نکھار سکے اور آج کے مصروف انسان کے لیے سلوک و تربیت کا ایک جامع نظام وضع کر سکے۔ 

تیسری بڑی شخصیت سلسلہ قادریہ کے بزرگ حضرت فقیر نور محمد سروری قادری ( متوفی ۱۹۶۰ء) کی ہے جنہوں نے نہ صرف سلطان العارفین حضرت سلطان باہو کی تعلیمات کو از سر نو مرتب کر کے پیش کیا بلکہ اپنی معرکۃ الآرا تصنیف موسوم بہ ’’عرفان‘‘ میں دورِ حاضر کے معروف بلکہ مغربی دنیا تک میں مقبول روحیت و سِرّیت، سپرچولزم اورحاضراتِ ارواح کے تصورات کا بھی ناقدانہ جائزہ پیش کیا اور بتایا کہ کیسے عالم غرب ابھی ناسوت کی تنگنائیوں میں بھٹک رہا ہے۔ مزید یہ کہ آپ نے اولیا ء کرام کے مزارات سے حصولِ فیض کے لیے ’’دعوتِ قبور‘‘ ایسے بیش قیمت اور سریع التاثیر عمل کو بڑی صراحت سے پیش کیا۔ اصلاً یہ ایصالِ ثواب کی ہی ایک شکل تھی، لیکن سلطان باہو کی تعلیمات کی روشنی میں بڑی عمدگی سے اسے فیض قبور کا وسیلہ بنا دیا۔ اس حوالے سے حضرت کی فکر مولانا اللہ یار خان کی پیشرو اور نقشِ اولیں محسوس ہوتی ہے۔ 

آج کے دور میں دیوبندی حلقوں میں حضرت پیر ذوالفقار نقشبندی کے مریدین اور سنیوں میں سیفی سلسلہ (مسترشدین اخوندزادہ پیر سیف الرحمن ارچی) کے لوگ سب کے سامنے ہیں۔تھوڑا بہت اثر بھی ہے، اتباع شریعت کا رنگ ڈھنگ بھی ہے اور انٹلیکچول تصوف کے منتسبین کی نسبت اتباعِ سنت اور شریعت غرا کی پیروی میں ممتاز ہیں، تاہم سلوک و احسان کا مطلوب انسان ابھی بھی نظر نہیں آتا۔ کچھ لوگوں نے چند انفرادی کاوشیں کی ہیں جیسے کچھ مشائخِ نقشبند یہ مجددیہ نے ذکر قلبی اور ذکر خفی کے برعکس ذکر جہر بھی شروع کیا لیکن نہ تو اس حوالے سے وجوہ ترجیح کی عمدہ تنقیح پیش کرسکے نہ ہی اپنے مسترشدین پر اس کے اثرات کا معروضی جائزہ لیا گیا۔ اسی طرح خود مجددی سلوک کے اسباق اور ان پر عمل پیرا لوگوں کے احوال دیکھ کر تو تعجب ہوتا ہے کہ یہ کیسا سلوک ہے کہ اسباق بھی طے ہیں، مراقبات بھی ہو چکے تاہم نفس کی شر انگیزیاں ہیں کہ جوں کی توں برقرار ہیں۔ ساری فکر دنیا کی ہے، آخرت ابھی تک ترجیح نہیں بن سکی۔ 

اس میں ذرا شک نہیں کہ دور حاضر کے تقاضوں کو مد نظر رکھ کرسلوک پر چلانا ہی اصل ہمت کا کام ہے جو واقعتا کسی تجدیدی شان کے بزرگ کی کرشمہ سازیوں کا منتظر ہے۔ ایک بات تو طے ہے کہ سلوک و احسان کے تفصیلی اسباق و اشغال مخصوص صاحبان استعداد کے لیے ہی ہیں، ورنہ اکثریت کے لیے متقدمین کے طرز پر اخلاقی تربیت اور شریعت کے احکام پر کاربند ہونا ہی نجات کے لیے کافی ہوگا۔ یہی فکر علمائے دیوبند کے ہاں بھی ہے بلکہ مولانا منظور نعمانی جیسے جید عالم اور حضرت رائے پوری کے خلیفہ نے اپنے ایک خوش ذوق دوست کو کہا تھا: ’’مولانا ! عوام کی فلاح تو شیخ ابن تیمیہ کی پیروی میں ہے، گو خواص کی منفعت شیخ عبد الحق محدث دہلوی ایسے بزرگوں کی طرز میں ہو۔‘‘ نیز مولانا شاہ احمد رضا خاں فاضل بریلوی نے بھی ایک جگہ لکھا کہ’’انجام کار رستگاری کے واسطے آقاو مولا جنابِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مرشد جاننا بس ہے ۔‘‘پس یہ نتیجہ اخذ کرنا بے جا نہ ہوگا کہ عوام کو مبادیاتِ شریعت میں خوب پختہ کیا جائے، پھر ان میں جو عمدہ ذوق کے لوگ ہوں اور سلوک و احسان کے لیے فطری ملکہ رکھتے ہوں، انہیں ذوقی مناسبت دیکھتے ہوئے کسی کامل شیخ سے تعلق استوار کرکے سلوک کو آگے بڑھانا چاہیے۔ جب تک کسی کو کامل شیخ نہیں ملتا توتزکیہ نفس کے لیے امام غزالی کی کتاب ’’کیمیائے سعادت‘‘ ایک راہنما اور راہبر سے کم نہیں ۔ یا پھر مکتوبات مجددی کا کوئی اچھا سا انتخاب دیکھ لیا جائے۔ اسی طرح شاہ ولی اللہ کی ’’ ہمعات‘‘، ’’الطاف القدس‘‘ اور ’’انفاس العارفین‘‘ بہت عمدہ ہیں۔نیز متذکر ہ بالا کتب مثلاً ’’ دلائل السلوک‘‘، ’’تجدید تصوف و سلوک‘‘، ’’ انقلاب الحقیقت‘‘ اور ’’عرفان‘‘ بھی قابل مطالعہ، مرشد روحانی کا عکس اور عملی سلو ک و تصوف کے لیے بڑی راہنما ہیں۔ 

فقہ / اصول فقہ

(فروری ۲۰۱۸ء)

تلاش

Flag Counter