امام ابو حنیفہ کی اجتہادی فکر سے چند راہنما اصول

محمد عمار خان ناصر

(۱۹ جنوری ۲۰۱۷ء کو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ فکر اسلامی کے زیر اہتمام ’’خطبات اسلام آباد‘‘ کے زیر عنوان لیکچر سیریز میں کی گئی گفتگو کے بنیادی نکات۔)

۱۔ اجتہاد کا بنیادی مقصد زندگی اور اس کے معاملات کو قرآن وسنت کے مقرر کردہ حدود میں اور ان کی منشا کے مطابق استوار کرنا ہے۔ اس ضمن میں شارع کے منشا کو عملی حالات پر منطبق کرنے اور بدلتے ہوئے حالات اور ارتقا پذیر انسانی سماج کا رشتہ قرآن وسنت کی ہدایت کے ساتھ قائم رکھنے کا وظیفہ بنیادی طور پر انسانی فہم ہی انجام دیتا ہے اور ایک طرف قرآن وسنت کی منشا اور دوسری طرف پیش آمدہ مخصوص صورت حال یا مسئلے کی نوعیت کو سمجھنے اور ان دونوں کے باہمی تعلق کو متعین کر کے ایک مخصوص قانونی حکم لاگو کرنے کی اسی علمی وفکری کاوش کو اصطلاح میں ’اجتہاد‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

۲۔ دوسری صدی ہجری میں امت میں جو مختلف فقہی مکاتب فکر وجود میں آئے، ان میں سے بعض تو علمی وتحقیقی طور پر کتابی بحثوں تک محدود رہ گئے، جبکہ بعض کو بعد کے ادوار میں بہت سے علمی، سیاسی اور سماجی عوامل کے تحت امت میں قبول عام حاصل ہوا اور عالم اسلام کے مختلف حصوں میں ان میں سے کسی نہ کسی فقہی مکتب فکر کو عمومی سطح پر پذیرائی بخشی گئی۔ امت میں وسیع پیمانے پر قبول عام حاصل کرنے والے ان فقہی مکاتب فکر میں فقہ حنفی سب سے نمایاں ہے جسے نہ صرف علمی سطح پر امت کے بہت سے نامور اہل علم اور فقہا ومحدثین کی وابستگی میسر ہوئی، بلکہ اسلامی تاریخ کی تین عظیم سلطنتوں یعنی خلافت عباسیہ، خلافت عثمانیہ اور برصغیر میں مغل سلطنت کی سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہوئی۔ 

۳۔ علامہ محمد اقبال نے ’’تشکیل جدید الہیات اسلامیہ‘‘ کے چھٹے خطبے میں اجتہاد کے مسئلے پر اظہار خیال کرتے ہوئے احادیث سے متعلق امام ابوحنیفہ کے زاویہ نگاہ کا ذکر تے ہوئے لکھا ہے:

’’شاید اسی نقطہ نظر سے امام ابوحنیفہ نے، جو اسلام کے عالمگیر کردار کے بارے میں گہری بصیرت رکھتے تھے، عملی طور پر ان احادیث کو استعمال نہ کیا۔ انھوں نے استحسان، یعنی فقیہانہ ترجیح کے اصول کو متعارف کرایا جو قانونی فکر میں حقیقی یا اصلی صورت حال کے محتاط مطالعے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔ یہ حقیقت ان محرکات پر مزید روشنی ڈالتی ہے جنھوں نے اسلامی فقہ کے اس ماخذ (یعنی احادیث) کے بارے میں امام ابوحنیفہ کے رویے کا تعین کیا۔‘‘ (’’تجدید فکریات اسلام‘‘، ترجمہ: ڈاکٹر وحید عشرت، اقبال اکادمی، پاکستان، طبع اول، ۲۰۰۲ء، ص ۲۰۴، ۲۰۵)

۴۔ اقبال کے مذکورہ بیان کا ایک حصہ تو امام ابوحنیفہ کے نقطہ نظر کی درست ترجمانی نہیں کرتا، یعنی یہ کہ امام ابوحنیفہ نے عملی طور پر اپنے اجتہادات میں احادیث کو استعمال نہیں کیا، اس لیے کہ احادیث وآثار کی اہمیت کے ضمن میں امام ابوحنیفہ اور دیگر ائمہ مجتہدین کے نقطہ نظرمیں اصولی طور پرکوئی فرق نہیں اور امام ابوحنیفہ بھی روایات وآثار کو اجتہاد واستنباط کا بنیادی ماخذ تسلیم کرتے ہیں، چنانچہ امام ابوحنیفہ کے براہ راست تلامذہ کی تصنیف کردہ کتب میں استدلال واستنباط کی اصل بنیاداحادیث وآثار ہی پررکھی گئی ہے۔ تاہم اقبال کا یہ تجزیہ بہت اہم ہے کہ امام ابوحنیفہ اسلامی قانون کے عالمگیر کردار (Universal Character) کے بارے میں گہری بصیرت رکھتے تھے اور یہ کہ نصوص یعنی آیات واحادیث کے ساتھ ساتھ حقیقی یا واقعی صورت حال (جس میں قانون کا عملی اطلاق کیا جانا ہے) کے گہرے اور محتاط مطالعے کو بھی حنفی منہج اجتہاد میں بہت بنیادی اہمیت دی گئی ہے۔ 

۵۔ اسلامی قانون کے عالمگیر کردار یعنی اس کی آفاقیت کو محفوظ اور برقرار رکھنے یا دوسرے لفظوں میں ہر طرح کی صورت حال میں اس کی عملی معنویت (relevance) کو قائم رکھنے کے لیے امام ابوحنیفہ نے احادیث کی تعبیر وتشریح اور ان سے استنباطِ احکام کا ایک بہت واضح اور منضبط علمی وعقلی منہج اختیار کیا جس کی اہم خصوصیات کو ان نکات کی صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے:

الف۔ امام ابوحنیفہ احادیث کے ظاہری مفہوم تک محدود رہنے کے بجائے ان کی تعبیر وتشریح میں کتاب وسنت کے دیگر نصوص اور شریعت کے مجموعی مزاج ونظام سے بھی استفادہ کرتے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصل منشا ومراد کی تعیین کے لیے متنوع علمی وعقلی اصولوں کو بروئے کار لاتے ہیں۔وہ ایک طرف حدیث کے ظاہری الفاظ اور ان کی دلالتوں کو مد نظر رکھتے ہیں اور دوسری طرف ان علمی وعقلی قرائن کو بھی پورا وزن دیتے ہیں جو متعلقہ نص سے ہٹ کر دیگر خارجی دلائل پر غور کرنے سے ان کے سامنے آتے ہیں اور جنھیں ان کی اہمیت کے باعث حکم کا محل اور اس کا دائرۂ اطلاق متعین کرتے ہوئے نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ 

ب۔ کسی بھی حکم کے اطلاق اور نفاذ یا دوسرے لفظوں میں اس کی بنیاد پر عملی قانون سازی کے لیے دیگر عقلی واخلاقی اصولوں اور عملی مصالح کی روشنی میں بہت سی قیود و شرائط کا اضافہ اور مختلف صورتوں میں حکم کے اطلاق ونفاذ کی نوعیت میں فرق کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ دین کے کسی حکم یا اصول کے تحت کسی دوسرے حکم کی تخصیص کرنے، استثنائی صورتوں پر عمومی حکم کا اطلاق نہ کرنے، مقاصد ومصالح اور عملی حالات کی رعایت سے کسی مباح کو واجب یا سد ذریعہ کے طور پر ممنوع قرار دینے، کسی اخلاقی ذمہ داری کو قانونی پابندی میں تبدیل کرنے، کسی اختیار کے سوء استعمال کو روکنے کے لیے اس پر قدغن لگانے اور اس نوعیت کی دیگر تحدیدات وتصرفات کی مثالیں احادیث، آثار صحابہ اور ائمۂ مجتہدین کی فقہی آرا میں موجود ہیں اور امام ابوحنیفہ نے بھی اپنے اجتہادات میں اس اصول سے بکثرت فائدہ اٹھایا ہے۔ 

ج۔ احادیث نبویہ کی تعبیر وتشریح میں فقہائے احناف نے جن علمی وعقلی اصولوں کو ملحوظ رکھا ہے، ان میں سے ایک نہایت اہم اصول یہ ہے کہ ان احکامات میں جن کی پابندی آپ نے بطور دین امت پر لازم فرمائی اور ان ہدایات میں جن کی بنیاد وقتی نوعیت کی انتظامی مصلحتوں پر ہے، فرق ملحوظ رکھا جائے۔ پہلی صورت میں آپ کے احکام کی اتباع لازم ہے اور اس میں کسی فرد بشر کو تبدیلی کا کوئی اختیار نہیں، لیکن جن معاملات سے متعلق قرآن میں کوئی متعین حکم نہیں دیا گیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سنت کی حیثیت سے کسی عمل یا طریقے کو جاری نہیں فرمایا، وہاں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے یا نافذ کردہ فیصلے کو مختلف امکانی طریقوں میں سے ایک طریقہ سمجھنے اور ان کے علاوہ دیگر مختلف امکانات کا راستہ کھلا رکھنے کی پوری گنجایش رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ریاست مدینہ کے حاکم تھے اور آپ نے بہت سے فیصلے، اپنی اس حیثیت میں، اس وقت کے انتظامی مصالح کو سامنے رکھتے ہوئے کیے۔ چونکہ اس طرح کے مصالح ہر زمانے کے لیے حتمی طور پر ایک جیسے نہیں ہوتے، اس لیے احناف ایسے فیصلوں پر ہر حال میں عمل کرنے کو لازم نہیں سمجھتے بلکہ ان میں اصل فیصلہ کن حیثیت حاکم وقت کی صواب دید کو قرار دیتے ہیں۔ 

د۔ فقہائے احناف کے منہج ا جتہاد کی نہایت بنیادی خصوصیت اور سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ وہ احادیث میں وارد ہدایات کو شریعت کے عمومی ضابطے کا درجہ دینے میں ازحد احتیاط سے کام لیتے ہیں اور متنوع علمی وعقلی اصولوں کی روشنی میں مختلف پہلوؤں سے بہت باریک بینی سے کسی بھی حکم پر غور کرنے کے بعد یہ طے کرتے ہیں کہ آیا شارع کو اس کی پابندی ہر طرح کی صورت حال میں مطلوب ہے یا اس نے وہ حکم کسی مخصوص تناظر میں بیان کیا ہے جو اپنی شرائط وقیود کے لحاظ سے عمومی قانون سازی کی بنیاد نہیں بن سکتا۔ چنانچہ احکام شرعیہ کے استنباط کے ضمن میں احناف نے اس پہلو پر بطور خاص توجہ دی ہے کہ کسی بھی معاملے میں شریعت کے اصل اور عمومی حکم کی حیثیت اسی بات کو دی جائے جو دین کے عام مزاج، اصول عامہ اور قواعد کلیہ سے مناسبت رکھتی ہو اور اگر کسی حدیث میں اس سے مختلف کوئی بات منقول ہو تو اس کی بنیاد پر قواعد کلیہ کو ترک کر دینے کے بجائے خود ان روایات کی کوئی مناسب توجیہ کی جائے جس سے اپنے خاص محل میں وہ بھی قابل فہم بن جائیں اور شریعت کے عمومی اصول بھی مجروح نہ ہوں۔ 

۶۔ امام ابوحنیفہ کی اجتہادی فکر کا مطالعہ اس حوالے سے بھی بہت اہم ہے کہ وہ اور ان کے تلامذہ اپنے دور میں جو تہذیبی تبدیلی دیکھ رہے تھے،اس کو انھوں نے اپنے نظام فکر میں کیسے جگہ دی۔ جو عوامل ان کے نظام فکر پر اثر انداز ہوئے، وہ سارے نظری قسم کے نہیں تھے، بلکہ وہ معاشرتی تبدیلیوں اور بدلتے ہوئے حالات و ضروریات پر بھی نظر رکھے ہوئے تھے اور ان کے ہاں اس بات کا بھی بہت گہرا ادراک ملتا ہے کہ غیر مسلم معاشرے جو اپنا اپنا پس منظر لے کر اسلام میں آ رہے تھے، ان پر اسلامی قانون کے نفاذ میں کیا عملی پیچیدگیاں ہو سکتی ہیں۔ ائمہ احناف کے بہت سے اجتہادات کا اگر اس تناظر میں دوبارہ مطالعہ کیا جائے تو عصر حاضر کے اعتبار سے اس میں بڑی روشنی اور راہنمائی کا سامان مل سکتا ہے۔ 

جمہوری اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کی شرعی حیثیت

کسی طبقے کو معاشرے میں کیا حیثیت حاصل ہے اور اس کے شہری وسیاسی حقوق کیا ہیں، اس کے تعین میں مجموعی معاشرتی رویوں کے ساتھ ساتھ آئینی وقانونی تصورات کو بھی بہت اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ مسلم اکثریتی معاشروں میں بسنے والی غیر مسلم آبادی کے متعلق کلاسیکی اسلامی تصور یہ تھا کہ وہ ’’اہل ذمہ‘‘ ہیں جن کی حیثیت ایسے شہریوں کی ہے جن کی جان ومال اور مذہب کو ازروئے معاہدہ تحفظ حاصل ہے، لیکن وہ شہری وسیاسی حقوق میں اکثریت کے برابر شمار نہیں ہوتی۔ جدید جمہوری ریاستوں میں شہریت کا تصور اس سے بالکل مختلف ہے۔ یہاں شہریوں میں ایسی کوئی تفریق نہیں کی جا سکتی اور نتیجتاً سیاسی وقانونی حقوق میں کسی مذہبی امتیاز کے بغیر تمام شہری یکساں حیثیت رکھتے ہیں۔

اس حوالے سے ہماری سیاسی قیادت کے تصورات تو روز اول سے واضح رہے ہیں، جیسا کہ قائد اعظم اور دیگر سیاسی قائدین کے بیانات وتصریحات سے عیاں ہے۔ البتہ مذہبی سیاسی قائدین اور خاص طور پر مذہبی علماء کو اس تغیر کو سمجھنے اور اسے قبول کرنے میں وقت لگا ہے اور شاید مزید لگے گا۔ دوسرے بہت سے امور کی طرح، اس معاملے میں بھی مولانا مودودی ہمارے ہاں کے شاید پہلے مذہبی مفکر تھے جنھوں نے اجتہادی بصیرت سے کام لیتے ہوئے اس تغیر کو باقاعدہ علمی توجیہ کا موضوع بنایا اور یہ واضح کیا کہ پاکستان میں غیر مسلموں کی حیثیت اہل ذمہ کی نہیں ہے، اس لیے ان پر کلاسیکی فقہی احکام کے مطابق جزیہ وغیرہ عائد نہیں کیا جا سکتا۔ اہم بات یہ ہے کہ مولانا نے صرف حکم بیان کرنے پر اکتفا نہیں کی، بلکہ اصل سوال کو بھی موضوع بنایا ہے، یعنی یہ کہ کلاسیکی فقہ میں بیان کیا جانے والا حکم آج کس بنیاد پر قابل اطلاق نہیں ہے۔ یہ سوال وجواب ’’رسائل ومسائل‘‘ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ (اس ضمن میں یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ مسئلہ جہاد کی طرح اسلامی ریاست سے متعلق دیگر اہم سوالات کے حوالے سے مولانا کی فکر میں ارتقا پایا جاتا ہے۔ غیر مسلم شہریوں کے قانونی اسٹیٹس سے متعلق بھی مولانا کے زاویہ نظر میں یہ ارتقا موجود ہے۔)

تاہم روایتی مذہبی علماء کے ہاں معاملات کو قدیم فقہی پیرا ڈائم میں ہی دیکھنے کا رجحان غالب رہا ہے اور ان کی تحریروں اور فتاویٰ جات میں انھی قدیم اصطلاحات وتصورات کی روشنی میں صورت حال کو دیکھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر اسراراحمد صاحب مرحوم کے ہاں بھی ’’نظریاتی ریاست‘‘ کا وہی تصور ملتا ہے جس میں اقلیتیں بہرحال دوسرے درجے کی شہری ہوں گی۔ تحریک طالبان وغیرہ گروہوں کا تصور ریاست بھی یہی ہے۔ بہت سے معاصر اہل علم بھی، جو بنیادی طور پر پاکستانی آئین کو پوائنٹ آف ریفرنس کے طور پر قبول کرتے ہیں، اقلیتوں کے حقوق اور آزادیوں کی عملی تفصیلات کے لیے کلاسیکی فقہ سے ہی رجوع کرتے اور فقہی تصریحات کو جمہوری ریاست کے باشندوں پر منطبق کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

اس تناظر میں، ہمارے خیال میں، مفتی منیب الرحمن صاحب کا اپنے ایک حالیہ کالم میں یہ ارشاد ایک اعتبار سے بہت اہمیت کا حامل ہے کہ ’’ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ ہماری قانونی و سیاسی اصطلاحات اور روز مرہ محاورے میں لفظ اقلیت کے استعمال کو ترک کر دیا جائے اور تمام غیر مسلموں کو مساوی درجے کا پاکستانی تسلیم کیا جائے۔‘‘ یہ جمہوری قومی ریاست کے تصور کا ایک ناگزیر تقاضا ہے اور ایک مستند روایتی عالم دین کے قلم سے یہ بات پڑھ کر امید بندھتی ہے کہ روایتی مذہبی فکر اور معاصر تاریخی سیاق کے مابین فاصلہ کچھ کچھ سمٹ رہا ہے۔ بس روایتی اہل علم سے ہماری گزارش یہ ہوگی کہ وہ اپنے موجودہ موقف کو کلاسیکی فقہی موقف کے ساتھ گڈمڈ نہ کریں اور نہ اسے اس کا تسلسل دکھانے کی غیر علمی روش اختیار کریں۔ انھیں یہ حقیقت واضح طور پر تسلیم کرنی چاہیے کہ ’’دار الاسلام‘‘ کا روایتی فقہی تصور اور جدید جمہوری مسلم ریاست کا تصور، ہم معنی نہیں ہیں اور دونوں کے درمیان بنیادی فروق پائے جاتے ہیں۔ اس کی روشنی میں انھیں اپنی فقہی واجتہادی بصیرت کو اس سوال کا علمی جواب طے کرنے میں بروئے کار لانے کی ضرورت ہے کہ علمی وفقہی روایت سے وابستہ ہوتے ہوئے معاصر تغیرات کو قبول کرنے کی گنجائش کیسے پیدا ہوتی ہے۔ یہ ایک علمی قرض ہے جو پاکستان میں ’’جمہوری اسلامی ریاست‘‘ کو مذہبی جواز فراہم کرنے والے تمام اہل علم کے ذمے ہے اور اسی میں ان ابہامات کا ازالہ بھی پوشیدہ ہے جو تحریک طالبان جیسے گروہوں کی فکری گمراہی کے بہت بڑی حد تک ذمہ دار ہیں۔

فکری مباحثہ: جارحیت اور پسپائی میں توازن کی ضرورت

رد عمل کا شکار ہو کر فکری وکلامی مخالفین کو کلی طور پر discredit کرنے (یعنی ناقابل اعتماد ثابت کرنے) کی کوشش کرنا ایک عام انسانی کمزوری ہے۔ مخلص، نیک اور متقی لوگ بھی اس سے محفوظ نہیں رہ پاتے۔ ہماری علمی تاریخ میں اس کا ایک مظہر محدثین کا رویہ ہے جو امام احمد بن حنبل پر ہونے والے تشدد پر بحیثیت جماعت رد عمل کا شکار ہو گئے اور خلق قرآن کے مسئلے میں معتزلہ سے محض لفظی یا جزوی مشابہت رکھنے والے حضرات کو بھی discredit کرنے کا طریقہ اختیار کر لیا (جس کی مشہور ترین مثال امام بخاری کا اپنے استاذ امام ذہلی کی طرف سے discredit کیا جانا ہے)، حالانکہ یہ حضرات راویان حدیث کی جرح وتعدیل کی نہایت نازک ذمہ داری انجام دے رہے تھے جہاں لاگ، تعصب اور ذاتی وگروہی رنجشوں کی دینی واخلاقی طور پر کوئی گنجائش نہیں بنتی۔ (یہ مسئلہ محدثین کی مجموعی نفسیات پر کس طرح اثر انداز ہوا اور جرح وتعدیل جیسے انتہائی ذمہ داری کے کام کو اس نے کیسے منفی طور پر متاثر کیا، اس کی تفصیلات ماضی قریب کے معروف عرب محدث الشیخ عبد الفتاح ابو غدۃ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’مسالۃ خلق القرآن واثرھا فی صفوف وکتب الجرح والتعدیل‘ میں بیان کی ہیں)۔ ہمارے اپنے ماحول میں اس کی ایک مثال مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ اور جماعت اسلامی ہیں۔ مولانا کی مذہبی فکر تمام تر، روایتی مذہبی تعبیرات کی تنقید پر مبنی تھی جس پر انھیں روایتی مذہبی حلقوں کی طرف سے شدید ترین الفاظ میں discredit کیے جانے کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ رد عمل سامنے آنا ناگزیر تھا، کیونکہ اقتدار میں کسی نئے اسٹیک ہولڈر کی شرکت کسی بھی طبقے کے لیے آسانی سے قابل قبول نہیں ہوتی۔ 

اس صورت حال میں جماعت کی عمومی اور سوچی سمجھی پالیسی یہ رہی ہے کہ اس کے جواب میں پبلک میں کسی مخالفانہ مہم کا طریقہ اختیار نہ کیا جائے جو اس لحاظ سے قابل تحسین ہے کہ مسلمان معاشرے کسی مزید گروہ بندی کی آزمائش کے متحمل نہیں ہیں، اور پہلے سے موجود تقسیمات نے ہی معاشرتی وحدت کو پارہ پارہ کر رکھا ہے۔ البتہ مولانا کے بعد جماعت، بحیثیت جماعت اس تجدیدی مذہبی فکر سے بھی بتدریج دست بردار ہوتی چلی گئی جو مولانا مودودی کا اصل کارنامہ تھا (اور یہاں تحسین سے مقصود ہرگز اس فکر کے تمام تر یا بنیادی نتائج سے اتفاق نہیں ہے)، اس لیے کہ روایتی مذہبی فکر کی تنقید اور اصل مصادر سے دین کو سمجھنے کی روایت کا احیاء اس امت کی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ جماعت کو، یا کسی بھی ایسے نئے حلقہ فکر کو، جارحیت اور پسپائی کے مابین توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے، جارحیت بایں معنی کہ مذہبی فکر کی تنقید کو اس طرح عوامی بحث ومباحثہ کا موضوع بنایا جائے کہ ایک نئی گروہی تقسیم پیدا ہو جائے، اور پسپائی یوں کہ سرے سے فکری جدلیاتی عمل میں کوئی حصہ ڈالنے سے ہی دست برداری اختیار کر لی جائے۔

قومی امراض اور ان کی ظاہری علامتیں

درد، پھنسی پھوڑے اور خارش وغیرہ اصل مرض نہیں، بلکہ مرض کی علامات ہوتی ہیں اور علامتیں اس لحاظ سے نعمت ہوتی ہیں کہ وہ مرض کی موجودگی اور اس کی تشخیص میں مدد دیتی ہیں۔ پچھلے سالوں میں ہمارے قومی امراض کا ظہور جن علامات کی صورت میں ہوا ہے، ان پر ہاہا کار مچانے کے بجائے اصل مرض کو سمجھنے میں ان سے مدد لینی چاہیے۔ یہ ’’علامات’’ ہماری راہ نمائی کرتی ہیں کہ:

۱۔ ’’فرقہ واریت‘‘ صرف مذہبی طبقوں کا نہیں، بلا استثناء تمام طبقوں کا مسئلہ ہے۔

۲۔ انتہا پسندی اور عدم برداشت صرف مذہبی تعلیمی اداروں کے ساتھ خاص نہیں، جدید اور اعلیٰ ترین تعلیمی ادارے بھی اس کی آماج گاہ ہیں۔

۳۔ ریاست کی رٹ کو بزور بازو چیلنج کرنا اور اس کی کمزوریوں کا تماشا دکھانا صرف ’’باغیوں‘‘ کا نہیں، قومی دھارے میں شامل سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا بھی من پسند مشغلہ ہے۔

۴۔ انصاف، مساوات اور میرٹ کو دیوانے کا خواب سمجھنا پورے معاشرے کی اساسی قدر ہے۔

۵۔ بحث ومباحثہ اور جمہوری جدوجہد کے لیے level playing field پر یقین نہ ہونا اور معیارات کا تعین اپنے طبقے کی پوزیشن اور مفاد کے لحاظ سے کرنا کسی گروہ کا ’’خاصہ‘‘ نہیں، بلکہ قومی ’’عرض عام‘‘ ہے۔

۶۔ سماج کی تعمیر اور قوم کی اخلاقی تربیت کسی بھی ’’قیادت‘‘ کی ترجیح نہیں، ساری قیادتیں صرف حصول اقتدار کی خواہش رکھتی ہیں اور اقتدار ہی کو قومی فلاح کا واحد ذریعہ باور کرانے پر متفق ہیں۔

۷۔ قوم کے بگاڑ میں دوسرے طبقوں کی ذمہ داری کو اونچے آہنگ سے بیان کرنا جبکہ اپنے طبقے کی نا اہلی کے ذکر کو پرائیویسی میں خلل انداز ہونے کے مترادف سمجھنا ایک مشترکہ مائنڈ سیٹ ہے۔

علامتیں چلا چلا کر مرض کا پتہ بتا رہی ہیں، اور سننے والے کانوں کی توجہ مانگتی ہیں۔ لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ علامتیں دیکھ کر مایوس ہونے کی نہیں، بلکہ مرض کی سنگینی کا ادراک اور اپنی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنے کی ضرورت ہے۔

آراء و افکار

(جون ۲۰۱۷ء)

جون ۲۰۱۷ء

جلد ۲۸ ۔ شمارہ ۶

تلاش

Flag Counter