مکاتیب

ادارہ

(۱)

محترم مدیر الشریعہ زیدمجدکم

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 

خداکرے مزاج گرامی بعافیت ہو!

مئی کے شمارہ میں ڈاکٹرعرفان شہزاد کا مضمون بعنوان ’’جہادی بیانئے کی تشکیل میں روایتی مذہبی فکر کا کردار ‘‘پڑھنے کا موقع ملا، پڑھ کر یہی لگاکہ ڈاکٹر صاحب نے تحقیق کے نام پر ایک طرفہ مضمون لکھاہے ،یعنی ان کے ذہن ومزاج نے پہلے ہی طے کرلیاہے کہ مدارس اورنصاب کو عسکریت پسندی کا ذمہ دارٹھہراناہے تواسی لحاظ سے ثبوت وشواہد اکٹھے کئے۔ 

انہوں نے جس منطق سے مدارس کے نصاب کو موردالزا م ٹھہرایاہے، بعینہ اسی منطق سے قرآن وحدیث پر بھی یہ الزامات عائد کئے جاسکتے ہیں اور مختلف لوگ عائد کرتے ہی رہتے ہیں، کبھی یہ بات چلتی ہے کہ قرآن کی آیات جہاد نکال دی جائیں ،کبھی یہ موقف سامنے آتاہے کہ قرآن مسلمانوں کو غیرمسلموں سے بہتر تعلقات کے لیے روکتاہے ،تو کبھی یہ کہاجاتاہے کہ پوری دنیا میں شدت پسندی اور بم دھماکوں کے لیے قرآن ذمہ دارہے،ڈاکٹر صاحب اورایسے لوگوں کے موقف میں اصولی طورپر کوئی فرق نہیں ،بس اتنا ہے کہ انہوں نے براہ راست قرآن وحدیث کو موردالزام ٹھہرایا اور ڈاکٹر صاحب نے کرم کرتے ہوئے مدارس اوران کے نصاب پر نزلہ گرایا،کیاڈاکٹر شہزاد صاحب کے لیے یہ مناسب نہ تھاکہ وہ مدارس اوردیگر شخصیات کو بیچ میں لانے کے بجائے ڈائرکٹ قرآن وحدیث کو ہی اس کا ذمہ دار ٹھہراتے؟ آخر کو جہاد کا حکم قرآن میں ہے، تکرار کے ساتھ ہے، واضح الفاظ میں ہے، حدیث میں اس کے فضائل ومناقب بے شمار ہیں،جہاد سے جی چرانے والوں کے لیے وعیدیں ہیں۔

ڈاکٹر صاحب نے مختلف کتابوں سے جہاد کے حکم پر مشتمل تحریریں تو پیش کرکے اپناموقف ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مدارس اوراس کا نصاب جہادو عسکریت پسندی کے ذمہ دار ہیں ؛لیکن ان کی تحقیق کی خیانت اس سے واضح ہوتی ہے کہ انہوں نے ان تمام نصوص سے۔ جو فقہ وحدیث کی کتاب میں جہاد کی شرائط کے لیے مندرج ہیں۔ بالکلیہ صرف نظرکرلیاہے، جس شخص نے بھی کتب حدیث وفقہ اور قرآن کریم کی آیات جہاد کی تفسیریں پڑھی ہیں،وہ بخوبی جانتاہے کہ جہاد کی کچھ شرائط ہیں، کچھ پابندیاں ہیں، کچھ حدود وآداب ہیں، ان کی رعایت کے بغیر اگرکوئی جہاد کانام لے کر کسی قسم کی کارروائی کرتاہے تو وہ خود ملزم ہے نہ فقہ کی کوئی کتاب اورنہ کوئی مدرسہ،لیکن ڈاکٹرصاحب کی تحقیق دیکھ کر ایک مزاحیہ مصرعہ یاد آرہاہے۔

ہم طرفدارہیں غالب کے سخن فہم نہیں

یہ ایک عجیب وغریب طرز عمل ہے جوایک تسلسل سے جاری ہے اوردانشور حضرات ہروقت اس کی جگالی کرتے رہتے ہیں کہ معاشرے میں برائی بڑھ گئی ،علماء ذمہ دارہیں، ان کو اس کے حل کیلئے کوشش کرنی چاہئے،شدت پسندی بڑھ گئی ہے، علمائکو کوشش کرنی چاہئے،عسکریت پسندی بڑھ گئی ہے علماء اس کیلئے ذمہ دارہیں،معیشت کی حالت خستہ ہے تو علماء کا دقیانوسی سوچ کہ سود حرام ہے،اس کے لیے ذمہ دار ہے،غرضیکہ ہر مسئلہ کی جڑان کو مولوی اورعلماء میں نظر آتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب ہر مسئلہ کا حل علماء کی ذمہ داری ہے تو یہ پروفیسر،ڈاکٹر اوردانشور حضرات کس مرض کی دوا ہیں؟ کیاان کی زندگی کا مقصد پیٹ سے شروع ہوکر پیٹ پر ختم ہوجاتاہے؟کیا ان کی معاشرہ اورسماج کے حوالے سے کوئی ذمہ داری نہیں ہے؟اگرایسانہیں ہے تو وہ اپنے بھائی بندوں کو اس جانب متوجہ کیوں نہیں کرتے،کیاان کی ارشاد ونصیحت کا ساراپٹارہ مولویوں کے لیے مخصوص ہے؟

ایک عالم کی ہمارے معاشرے میں کیا حیثیت ہے؟اس سے ہرصاحب نگاہ ونظرواقف ہے،کچھ چند اور الاماشاء اللہ مثالیں چھوڑ کر علماء کی اکثریت کس مپرسی کا شکار ہے،قلیل تنخواہیں، کام کا بارگراں، فرصت کے لمحات نہایت کم ،اس کے بالمقابل ہمارے ڈاکٹر پروفیسر اوردانشور کہلانے والوں کاجائزہ لیجئے، تنخواہیں بھاری بھرکم ،کام کم،تعطیلات کی طویل فہرست،ہرقسم کی فارغ البالی اور ہرقسم کے وسائل سے لیس ،اس سب پرہرقسم کے معاشرتی اورسماجی مسائل کی ذمہ داری علماء کی ہے،دانشور حضرات بالکل فارغ البال ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ جو دانشور حضرات علماء کو مسائل کا ذمہ دار ٹھہراکر اس سے مسائل کے حل کی کوشش کے لیے فرمان جاری کرتے ہیں، وہ مولویوں کی بات کتنی مانتے ہیں؟مولوی کہتاہے کہ مذہب پر عمل کرو ،وہ کہتے ہیں کہ مذہب پرائیویٹ معاملہ ہے،مولوی کہتاہے کہ سود مت لو، وہ کہتے ہیں کہ سود معیشت کے لیے ضروری ہے،مولوی کہے گاکہ فحاشی وعریانیت ختم کی جائے ،وہ کہتے ہیں کہ یہ انسانی حقوق کی بات ہے ،ہرشخص کو اختیار ہے کہ وہ جتنا جسم دکھانا چاہے دکھائے، مولوی کہے گاکہ شرعی قوانین ملک میں نافذ کئے جائیں،وہ کہتے ہیں کہ وہ چودہ سوسال پرانی بات ہو چکی، مولوی کہے گاکہ ظاہری وضع قطع دینداروں کاسابناؤ، وہ کہتے ہیں کہ اسلام دل میں ہوتاہے،ڈاڑھی میں نہیں۔ غرضیکہ دانشور حضرات کا قبلہ مولویوں سے ایک سو اسی ڈگری الٹ ہوتاہے۔

پھربھی ان کو یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں

آپ پہلے مولویوں کی بات مانئے ،پھر مولویوں سے اس کا شکوہ کیجئے کہ وہ مسائل کے حل کے لیے قدم نہیں اٹھاتے۔ یہ طرفہ تماشابھی خوب ہے کہ مولویوں کی بات بھی نہیں مانتے اورمولویوں سے مسائل کے حل کے لیے کوشش کرنے کے لیے بھی کہاجائے۔

یہ عرض کرنابھی ضروری ہے کہ اس تحریرکے محرک ڈاکٹر شہزاد صاحب ضرور ہیں؛ لیکن تنہامخاطب نہیں ،اورمولاناعمار ناصر صاحب کا بھی شکریہ کہ انہوں نے میرے مضمون کو اپنے موقر رسالہ میں شائع کیا۔

عبیداختررحمانی
المعہد العالی الاسلامی،حیدر آباد

(۲)

مکرمی جناب۔۔۔۔۔السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

علم حدیث کے ایک اہم مسئلے کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا ہے؛علم حدیث میں"حدیث" کیا ہے اور کیا نہیں ہے؟

علم حدیث میں"حدیث" دو شرائط سے مشروط "اصطلاح" ہے، ان میں سے کوئی ایک شرط نہ ہو تو وہ "حدیث" نہیں ہوتی ہے۔ اولاً،متعین راوی کا قول ہو۔ ثانیاً ، وہ راوی اپنے اس قول میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا قول، عمل اور تقریر بیان کرے۔ وہ خبر، حکم اور عمل "حدیث" نہیں ہے جو مذکورہ بالا دونوں شرائط میں سے کسی ایک شرط سے خالی ہو۔

علم حدیث کا موضوع "حدیث" ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول و عمل علم حدیث کا موضوع ہے اور نہ متعین راوی کا ہر بیان اس علم کا موضوع ہے۔ وہ قول رسول "حدیث" نہیں ہے جس کا متعین راوی نہیں ہے اور متعین راوی کا وہ قول "حدیث" نہیں ہے جس میں رسول اللہ کا قول و عمل بیان نہیں ہے۔ ائمہ حدیث جب لفظ "حدیث" بطور اصطلاح استعمال کرتے ہیں یا علم حدیث کے موضوع کے طور پر بولتے ہیں تو ان کے پیش نظر "قول رسول" نہیں ہوتا، ان کی مراد متعین راوی کا وہ قول ہوتا ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول و عمل بیان ہو۔

مابعد کے تذکرہ نگاروں اور تذکرہ خوانوں نے بغیر سوچے سمجھے "حدیث" کو قول رسول اور "قول رسول" کو حدیث کہنا اور ماننا شروع کر دیا۔ ان کا کام علم حدیث کی مصطلحات رٹنے اور ان کی تعریف یاد کرنے کے سوا کچھ نہیں رہا ہے۔ وہ علم حدیث کے عالم تھے اور نہ اس عظیم الشان علم سے کوئی ذہنی مناسبت رکھتے تھے۔ نا اہل اخلاف کی نا اہلی نے ایک عظیم الشان علم اور علما کی بے مثال محنت نہ فقط ضائع کر دی، الٹا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اسے فرد جرم بنا دیا۔

والسلام علی من اتبع الہدی۔

ڈاکٹر خضریٰسین
C / 111o / جے ماڈل ٹاون لاہور

 

مکاتیب

(جون ۲۰۱۷ء)

جون ۲۰۱۷ء

جلد ۲۸ ۔ شمارہ ۶

تلاش

Flag Counter