حضرت مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی کی وفات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

حضرت مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانیؒ گزشتہ ماہ طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کا تعلق تونسہ شریف کے قریب لتڑی جنوبی سے تھا لیکن ان کی زندگی کا بیشتر حصہ گوجرانوالہ میں گزرا۔ وہ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے ابتدائی فضلاء میں سے تھے جب نصرۃ العلوم کے شیخ الحدیث حضرت مولانا قاضی شمس الدینؒ تھے۔ بخاری شریف انہوں نے حضرت قاضی صاحبؒ سے پڑھی جبکہ دورۂ حدیث کے دیگر اسباق حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ ، حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ ، اور حضرت مولانا عبد القیوم ہزارویؒ سے پڑھے۔ حضرات شیخینؒ اور مدرسہ نصرۃ العلوم کے ساتھ گہرا تعلق رکھتے تھے اور ایک عرصہ تک نصرۃ العلوم کے دارالافتاء کے سربراہ رہے۔ ان کا شمار ملک کے معروف مفتیان کرام میں ہوتا تھا اور حضرت مولانا عبد الواحدؒ کی وفات کے بعد گوجرانوالہ کے علماء کرام اور اہل دین کا فتویٰ کے بارے میں عام طور پر رجوع انہی کی طرف رہتا تھا۔ 1975ء میں جب جمعیۃ علمائے اسلام کے تحت لوگوں کے تنازعات شریعت کے مطابق نمٹانے کے لیے پرائیویٹ سطح پر شرعی عدالتوں کے قیام کا اعلان کیا گیا تو وہ ضلع گوجرانوالہ کے نائب قاضی مقرر کیے گئے جبکہ ضلعی قاضی مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ تھے۔ کتاب اور تحقیق سے گہرا تعلق تھا، وہ میرے دورۂ حدیث سے فارغ ہو جانے کے بعد مدرسہ نصرۃ العلوم میں استاذ اور مفتی کے طور پر تشریف لائے جبکہ ہمارے دور میں استاذ محترم حضرت مولانا مفتی جمال احمد بنویؒ یہ ذمہ داری سر انجام دیتے تھے۔ 

مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانیؒ کے ساتھ زندگی بھر میرا ربط و تعلق رہا۔ ہمارے درمیان عام طور پر مختلف دینی مسائل کی تحقیق اور نادر کتابوں کے حوالہ سے گفتگو چلتی رہتی تھی۔ نوشہرہ سانسی کی مسجد توحیدی میں امامت و خطابت کے ساتھ ان کی رہائش تھی اور اسی علاقہ میں جامعہ فتاح العلوم کے نام سے ایک درسگاہ بھی انہوں نے قائم کر رکھی تھی جس میں اپنی صحت کے زمانہ میں افتاء کا کورس کراتے تھے۔ بہت سے فاضل علماء کرام نے ان سے استفادہ کیا اور فقہ و افتاء کی تربیت حاصل کی۔ جب بھی ملاقات ہوتی کسی نایاب کتاب یا کسی مسئلہ پر نئی تحقیق پر بات چیت ہوتی، کوئی نئی کتاب ان کے علم میں آتی یا مجھے معلوم ہوتی تو باہمی معلومات کا تبادلہ ہو جاتا اور مسائل پر گفتگو ہوتی۔ ملاقات میں زیادہ دیر ہو جاتی تو پیغام بھیجتے تھے کہ کسی روز آکر مل جاؤ، میں جاتا اور ان کی مسجد میں کسی نماز کے بعد درس دیتا، پھر کچھ دیر نشست رہتی، وہ مجھے کوئی کتاب ہدیہ کے طور پر مرحمت فرما دیتے۔ الشریعہ اکادمی میں بہت دفعہ تشریف لائے اور دعاؤں میں ہمیشہ یاد رکھتے۔ 

جمعہ سے قبل گیارہ بجے جامعہ فتاح العلوم کے قریب کھلے میدان میں ان کی نمازہ جنازہ برادر عزیز مولانا عبد القدوس قارن حفظہ اللہ تعالیٰ کی امامت میں ادا کی گئی جس میں حضرت مولانا فضل الرحمن درخواستی، حضرت مولانا سید جاوید حسین شاہ، اور حضرت مولانا محب النبی بھی شریک تھے جبکہ شہر کے علماء کرام اور دینی کارکنوں کی بڑی تعداد نے جنازہ میں شرکت کی اور اس کے بعد ان کی میت تونسہ شریف روانہ کر دی گئی۔ 

حضرت مفتی صاحب مرحوم کے اساتذہ میں حضرت مولانا مفتی محمودؒ بھی شامل تھے جن کا ذکر وہ اکثر کیا کرتے تھے جبکہ مولانا فضل الرحمانؒ مولانا مفتی محمد عیسیٰ خانؒ کے شاگرد ہیں اور انہوں نے صرف و نحو کی ابتدئی تعلیم ان سے حاصل کی ہے۔ مولانا مفتی عیسیٰ خانؒ مسائل کی تحقیق و تجزیہ کا ذوق رکھتے تھے اور مسئلہ کی تمام جزئیات تک رسائی کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ وسیع المطالعہ بزرگ تھے، نادر کتابوں اور نئی نئی تحقیقات کے حوالہ سے ان کے ساتھ میری اکثر گفتگو رہتی تھی۔ کوئی نئی تحقیق سامنے آتی تو مجھے ضرور آگاہ کرتے اور رائے بھی طلب کرتے تھے۔ حضرت مولانا عبد العزیز پرھارویؒ کی کچھ تصانیف میں نے طالب علمی کے دور میں دیکھ رکھی تھیں لیکن ان کے علوم و معارف اور فیوض و کمالات سے زیادہ تر واقفیت حضرت مفتی صاحبؒ کے ذریعہ ہوئی جو حضرت مرحوم کی تحقیقات اور نادر رسائل کی جستجو میں رہتے تھے اور مجھ سمیت بہت سے دوستوں کو اس سے باخبر رکھتے تھے۔ 

بعض فقہی مسائل میں وہ اپنی مستقل رائے رکھتے تھے اور اس کا بلاجھجھک اظہار بھی کرتے تھے لیکن دوسروں کی رائے کا احترام ان کے ہاں پوری طرح پایا جاتا تھا۔ وہ سنجیدہ اہل علم کی طرح اختلاف کرتے تھے مگر مخالفت کے ماحول سے گریز کرتے تھے۔ اپنے اساتذہ میں مولانا مفتی محمودؒ اور مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کا اکثر ذکر کرتے تھے اور ان کے علمی نکات بیان کیا کرتے تھے۔ افتاء و تدریس کی عمومی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ دورۂ تفسیر قرآن بھی ان کا خاص ذوق تھا۔ دارالعلوم مدنیہ رسول پارک لاہور میں حضرت مولانا محب النبی کے مدرسہ میں انہوں نے کئی سال تک مسلسل دورۂ تفسیر پڑھایا۔ قرآن کریم کے ترجمہ و تفسیر کا یہ ذوق انہوں نے شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ ، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور شیخ القرآن حضرت مولانا غلام اللہ خانؒ سے پایا تھا اور اپنے ان تین اساتذہ کے علمی نکات سے اپنے طلبہ کو بڑے ذوق کے ساتھ آگاہ کرتے تھے۔ 

مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانیؒ کے حوالہ سے میں ایک ذاتی واقعہ بھی ریکارڈ پر لانا چاہوں گا کہ ۱۹۹۰ء کے دوران میں نے اپنے معاشی حالات و مشکلات سے تنگ آکر ترک وطن کا فیصلہ کر لیا تھا۔ لندن میں میرا آنا جانا تو رہتا ہی تھا، میں نے اس دوران لندن جا کر وہیں رہنے کا فیصلہ کر لیا اور ساؤتھال کی ابوبکر مسجد کو اپنا ٹھکانہ بنا لیا۔ گوجرانوالہ کے بہت سے دوستوں سے میں نے کہہ دیا کہ اب میں یہاں شاید واپس نہ آسکوں گا۔ حضرت والد محترم قدس اللہ سرہ العزیز سے بھی اجازت لے لی تھی، وہ میرے حالات اور مجبوریوں سے آگاہ تھے، اس لیے انہوں نے خاموش سی اجازت دے دی تھی۔ میں لندن گیا تو کم و بیش چھ ماہ تک وہاں قیام کیا، جبکہ مستقل قیام کی تیاریاں کر رہا تھا کہ حضرت مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانیؒ کا ایک درد بھرا خط موصول ہوا جس کا لہجہ یہ تھا کہ اتنا بڑا مرکز (مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ) کس کے حوالے کر کے چلے گئے ہو؟ اس مرکز کی رونقوں اور آبادی کو اب کون بحال کرے گا؟ اس لہجے میں کم و بیش دو صفحے کے تفصیلی خط نے مجھے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کے لیے مجبور کر دیا اور چند روز کے تردد کے بعد بالآخر میں واپس آگیا۔ اس کے بعد کم و بیش بیس سال تک مسلسل لندن جاتا رہا ہوں، مگر وہاں مستقل رہنے کا خیال پھر کبھی نہیں آیا جس کے پیچھے مفتی صاحب مرحوم کے اس خلوص اور سوز کا یقیناًبڑا حصہ ہے۔ 

مفتی صاحب مرحوم کی وفات سے چند روز قبل ان کے فرزند مولانا حافظ احمد اللہ گورمانی نے فون پر کہا کہ اباجی یاد کر رہے ہیں، میں نے ڈائری دیکھ کر چند روز کے بعد حاضری کا وعدہ کر لیا کہ مغرب آپ کے پاس پڑھوں گا، درس بھی دوں گا اور حضرت مفتی صاحب کی زیارت بھی کروں گا۔ مگر اس سے کچھ دن قبل ہی حضرت مفتی صاحبؒ ہم سب کو سوگوار چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مفتی صاحب مرحوم کے فرزندان گرامی مولانا حافظ امداد اللہ (فاضل نصرۃ العلوم)، مولانا پروفیسر حافظ عنایت اللہ، مولانا حافظ احمد اللہ اور دیگر اہل خاندان نے مدرسہ کے اہتمام کے لیے مفتی صاحب کے بڑے فرزند مولانا حافظ امداد اللہ پر اتفاق کر لیا ہے جو ایک اچھا فیصلہ ہے اور شہر کے سرکردہ علماء کرام نے اس کی تائید کی ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت مفتی صاحبؒ کو جنت الفردوس میں جگہ دیں اور ان کے بیٹوں، اہل خاندان، اور تلامذہ و رفقاء کو ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔ 

اخبار و آثار

(جنوری ۲۰۱۷ء)

تلاش

Flag Counter