دینی مدارس اور غیر حکومتی تنظیموں (NGOs) کے باہمی روابط کا معاملہ ان دنوں اعلیٰ سطحی دیوبندی قیادت کے ہاں زیر بحث ہے اور ماہنامہ ’’وفاق المدارس‘‘ کے گذشتہ شمارے میں صدر وفاق مولانا سلیم اللہ خان نے جبکہ ماہنامہ ’’البلاغ‘‘ کے حالیہ اداریے میں مولانا عزیز الرحمن نے اس ضمن میں اپنے خدشات وتحفظات کی تفصیلی وضاحت کی ہے۔ بحث کا فوری تناظر دو واقعات ہیں۔ ایک یہ کہ ایک دینی جامعہ میں کسی غیر ملکی تنظیم کے اشتراک سے ورک شاپ کا انعقاد کیا گیا جس میں مبینہ طور پر کچھ ایسی باتیں کہی گئیں جن سے دینی قیادت کے مسلمہ اعتقادی موقف پر زد پڑتی ہے۔ دوسرے یہ کہ اسلام آباد کی ایک غیر حکومتی تنظیم، ادارہ برائے امن وتعلیم (PEF) کی جانب سے، جس کے ساتھ گذشتہ کئی سال سے اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ پاکستان (ITMP) کی قیادت کا قریبی رابطہ ہے اور وہ مختلف سطحوں پر دینی مدارس کے اساتذہ وطلبہ کے لیے تربیتی ورک شاپس بھی منعقد کر رہی ہے، مرتب کردہ ایک رپورٹ منظر عام پر آئی ہے جس میں پاکستان کے تعلیمی اداروں میں رائج نصابی کتب کا اس حوالے سے تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے کہ ان میں مذہبی منافرت کو فروغ دینے والا مواد کس قدر اور کہاں کہاں پایا جاتا ہے۔ رپورٹ میں ایسے موادکی نشان دہی کے ساتھ ساتھ نصاب کی اصلاح کے لیے کچھ سفارشات بھی پیش کی گئی ہیں جن میں سے، مثال کے طور پر، ایک قابل اعتراض سفارش یہ ہے کہ نصابی کتابوں میں اسلام کو واحد سچے مذہب کی حیثیت سے پیش نہ کیا جائے۔
دینی مدارس کے تشخص اور کردار کی حفاظت کے حوالے سے دیوبندی قیادت کی حساسیت بدیہی طور پر قابل فہم ہے اور اگر کوئی ایسی پیش رفت ہو رہی ہے یا ہوئی ہے جس سے اس تشخص پر زد آنے کا خطرہ ہے تو اس پر قیادت کا فکر مند ہونا بالکل فطری ہے۔ بظاہر مذکورہ دونوں واقعات میں فریق ثانی کی طرف سے بھی اپنی پوزیشن کی وضاحت پیش کی گئی ہے۔ چنانچہ یہ کہا گیا ہے کہ متعلقہ دینی ادارے میں منعقد ہونے والے اجلاس میں کوئی ایسی بات سرے سے کہی نہیں گئی جو موجب اعتراض ہو (اور بظاہر یہی لگتا ہے کہ قیادت کے تحفظات کسی خاص نکتے کے حوالے سے نہیں، بلکہ فی نفسہ مدرسے کی چار دیواری میں کسی این جی او کے اشتراک سے اجلاس منعقد کرنے پر ہیں)، جبکہ ادارہ برائے امن وتعلیم کی جانب سے ایک تفصیلی وضاحت سوشل میڈیا پر جاری کی گئی ہے جس کے مطابق قابل اعتراضات سفارشات اس رپورٹ کا حصہ نہیں تھے جو ادارہ برائے امن وتعلیم نے مرتب کی تھی اور یہ کہ اس میں ان نکات کا اضافہ بعد میں اس بین الاقوامی ادارے نے اپنی طرف سے کیا ہے جس کے لیے مذکورہ رپورٹ کا مواد جمع کیا گیا تھا۔ مذکورہ وضاحت کے مطابق، PEF کی طرف سے اس پر متعلقہ ادارے سے احتجاج بھی کیا گیا ہے جس کے بعد اس ادارے نے معذرت کرتے ہوئے اپنی ویب سائٹ سے یہ رپورٹ ہٹا دینے کا فیصلہ کیا۔ یہ دونوں وضاحتیں ناظرین کے سامنے ہیں اور ان کو وزن دینے یا نہ دینے کا معاملہ بہرحال کسی بھی شخص کی اپنی رائے اور صواب دید پر منحصر ہے۔
اس فوری اور وقتی واقعاتی تناظر سے ہٹ کر، زیر نظر سطور میں ہمارے پیش نظر اس معاملے کے چند مستقل اور بنیادی پہلوؤں پر اپنی معروضات پیش کرنا ہے۔
صورت حال یہ ہے کہ نائن الیون کے واقعے نے پوری دنیا اور خاص طور پر مسلم معاشروں میں واقعاتی وفکری سطح پر جو شدید اضطراب پیدا کیا، اس نے دین کی تعبیر اور دور جدید میں اہل دین کے معاشرتی کردار کے حوالے سے درجنوں سوالات کھڑے کر دیے جن سے سنجیدہ اعتنا خود دینی قیادت کی ذمہ داری بنتی تھی، لیکن ہم نے دیکھا کہ حالات کے دباؤ کے تحت وقتاً فوقتاً سیاسی نوعیت کے بعض بیانات جاری کرنے کے علاوہ درپیش فکری سوالات پر سنجیدہ غور وفکر کی کوئی تحریک دینی قیادت نے اپنے ماحول میں پیدا نہیں کی۔ جمہوریت اور اسلام کا باہمی تعلق، جہاد اور دہشت گردی، خلافت کا تصور اور قومی ریاستیں، مذہبی ومسلکی فرقہ واریت، نجی سطح پر جہادی سرگرمیوں کی تنظیم، مسلم معاشرے میں اقلیتوں کے حقوق ومسائل، مسلم ریاستوں کے خلاف خروج، مسلمان طبقات کی گروہی واجتماعی تکفیر، مذہبی رواداری، بین المذاہب مکالمہ، دینی مدارس کا نصاب ونظام، قیام امن اور سماجی ہم آہنگی، خواتین کے حقوق ومسائل، توہین رسالت کے قانون کا غلط استعمال، غیر ذمہ دارانہ فتوے بازی کا رجحان، مذہبی مزاج میں شدت پسندی اور انتہا پسندی کا نفوذ، معاشرے کے مختلف طبقات کے مابین مکالمہ اور میل جیل، عسکری تحریکوں کا پیش کردہ مذہبی بیانیہ ۔۔ یہ وہ سب موضوعات ہیں جو پچھلے پندرہ سال کے عرصے میں سماج میں ہر سطح پر زیر بحث ہیں، لیکن چند استثنائی مثالوں کے علاوہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس پورے عرصے میں دینی قیادت نے خود اپنے فورمز پر اور اپنے ماحول میں ان موضوعات کو سنجیدہ غور وفکر کا موضوع بنانے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی۔
دینی قیادت کی فکری اور معاشرتی ترجیحات کے محدود اور یک رخا ہونے اور دینی ذمہ داری کے نہایت اہم دائروں کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے وہ خلا پیدا ہوتا ہے جس کو کچھ دوسرے فورم، ادارے اور تنظیمیں آگے بڑھ کر پر کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ چنانچہ گزشتہ عرصے میں، مذکورہ موضوعات پر سوچ بچار اور غور وخوض کی جو بھی کاوشیں ہوئی ہیں، ان کا محرک اصلاً دینی قیادت نہیں، بلکہ معاشرے کے کچھ دوسرے ادارے ہیں جو اس حوالے سے فکرمندی ظاہر کرتے ہوئے طبقہ علماء کو متوجہ کرنے اور اپنا کردار ادا کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کوئی ایسا نمائندہ فورم موجود نہیں جہاں درپیش فکری وعملی سوالات پر سنجیدہ غور وخوض کیا جاتا ہو اور اس کا قیام دینی قیادت کی دلچسپی سے یا اس کی تحریک پر عمل میں آیا ہو۔ ملی مجلس شرعی اور اس جیسے بعض دوسرے فورمز کے کار پردازان، دینی قیادت کی نمائندگی نہیں کرتے۔ ایسے سب فورمز دینی قیادت کے دائرے سے باہر کھڑے چند حضرات نے اس ضرورت کا احساس کر کے قائم کیے ہیں کہ بہت سے غور طلب مسائل موجود ہیں جن میں مذہبی ودینی موقف کا سامنے لایا جانا وقت کی ضرورت ہے۔
اس سلسلے میں گزشتہ چند سال میں درپیش فکری سوالات اور دینی قیادت کی متوقع ذمہ داری اور کردار کے حوالے سے نمایاں علمی وفکری سرگرمیوں کا ایک سرسری جائزہ لیا جائے تو یہ منظر سامنے آتا ہے:
- ۲۰۱۱ء میں اسلام آباد میں تمام مکاتب فکر کے نمائندہ علماء کرام کا ایک دو روزہ اجتماع ’’پر امن معاشرے کے قیام میں علماء کا کردار‘‘ کے عنوان پر منعقد ہوا۔ اس کے انعقاد کا اہتمام اسلام آباد کے ایک غیر حکومتی ادارے، پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز نے کیا اور ان مجالس کی انگریزی میں شائع ہونے والی روداد: The Role of Ulema in Promotion of Peace and Harmony in Society (۸۵ صفحات) ہمارے سامنے ہے۔
- ۲۰۱۲ء میں تکفیر اور خروج جیسے حساس اور اہم موضوع پر مختلف دینی رجحانات کے نمائندہ ممتاز اہل فکر پر مشتمل متعدد مجالس مذاکرہ کا انعقاد کیا گیا۔ ان مجالس کے انعقاد اور ’’مسئلہ تکفیر وخروج‘‘ (۲۴۷ صفحات) کے عنوان سے ان کی تفصیلی روداد کی اشاعت کا اہتمام بھی مذکورہ ادارے (PIPS)نے کیا ہے۔
- ۲۰۱۴ء میں اسی ادارے نے ’’اسلام، جمہوریت اور آئین پاکستان‘‘ کے موضوع پر اہل دانش کی مجالس مذاکرہ کا اہتمام کیا اور ان کی روداد مذکورہ عنوان ہی کے تحت ۱۴۴ صفحات پر مشتمل کتاب کی صورت میں شائع کی گئی ہے۔
- اکتوبر ۲۰۱۴ء میں ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد کے آڈیٹوریم میں "اسلام اور مغرب کے مابین افہام وتفہیم" کے موضوع پر دو روزہ کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کا اہتمام اسلامی نظریاتی کونسل اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے ذیلی ادارہ، اقبال مرکز برائے تحقیق ومکالمہ (IRD) نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔
- ۲۰۱۵ء میں PIPS نے مختلف مکاتب فکر اور مذاہب کے نوجوان علماء کے لیے سماجی ہم آہنگی کے موضوع پر تربیتی نشستوں کا اہتمام کیا اور ان کی روداد ’’سماجی ہم آہنگی کیسے ہو؟‘‘ (۲۰۴ صفحات) کے زیر عنوان شائع کی گئی ہے۔
- ۲۰۱۴ء میں ’’تعلیم امن اور اسلام‘‘ (۱۲۸ صفحات) کے عنوان سے تعلیمی اداروں، خاص طور پر دینی مدارس کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے اعلیٰ ثانوی درجات کے لیے ایک درسی کتاب منظر عام پر آئی ہے جسے تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء کی تائید اور نظر ثانی کے بعد شائع کیا گیا ہے۔ اس کی تیاری اور اشاعت کا بیڑہ ادارہ برائے امن وتعلیم اسلام آباد (PEF) نے اٹھایا ہے۔
- مارچ ۲۰۱۶ء میں فیصل آباد میں ’’قیام امن میں علماء، ائمہ اور خطباء کا کردار‘‘ کے عنوان پر دو روزہ تربیتی ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔ اس کا انتظام جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے شعبہ علوم اسلامیہ نے کیا تھا۔
- مارچ ۲۰۱۶ء میں ’’درس نظامی۔ وفاق المدارس العربیہ کے نصاب کا تنقیدی جائزہ۔ پس منظر، تجزیہ اور سفارشات‘‘ (۹۶ صفحات) کے عنوان سے ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس کی تیاری میں مولانا مفتی محمد زاہد، خورشید احمد ندیم اور راقم الحروف نے حصہ لیا۔ یہ رپورٹ بھی ایک اور غیر حکومتی ادارے پیس ایجوکیشن اینڈ ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن (PEAD) نے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف کے تعاون سے شائع کی ہے اور اپنی نوعیت کے پہلے باقاعدہ مطالعہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
- جولائی ۲۰۱۶ء میں مری میں مذہبی فرقہ واریت اور اس کے سدباب کے عنوان پر مختلف مکاتب فکر کے علماء کے لیے ایک پانچ روزہ ورک شاپ کا انعقاد کیا گیا جس میں ہونے والے تفصیلی بحث ومباحثہ کی روشنی میں فرقہ وارانہ بیانیے کے نمائندہ نکات مرتب کیے گئے۔ اس ورک شاپ کے انعقاد کا اہتمام اسلام آباد کے ادارہ برائے امن وتعلیم (PEF) نے اقبال مرکز برائے تحقیق ومکالمہ (IRD) کے اشتراک سے کیا۔
- ستمبر ۲۰۱۶ء میں گلگت میں ’’رواداری اور سماجی ہم آہنگی‘‘ کے موضوع پر دو روزہ ورکشاپ کا انعقاد عمل میں آیا جس کا اہتمام قراقرم انٹر نیشنل یونیورسٹی گلگت نے اقبال مرکز برائے تحقیق ومکالمہ، اسلام آباد کے اشتراک سے کیا۔
- حال ہی میں دینی مدارس کے اساتذہ کے لیے ایک راہ نما کتاب ’’تدریب المعلمین‘‘ (۳۰۸ صفحات) کے عنوان سے شائع ہوئی ہے جس کی تصنیف وتالیف مدارس کے اساتذہ اور دوسرے تعلیمی ماہرین نے مشترکہ طور پر کی ہے۔ اس اہم ضرورت کی طرف توجہ دینے کی سعادت بھی ایک غیر حکومتی ادارے، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد کو حاصل ہوئی ہے۔
دینی مدارس کے فضلاء، اساتذہ اور ائمہ وخطباء کے لیے مختلف سطحوں اور دائروں میں ایسے تربیتی پروگراموں کا انعقاد جن کا مقصد ان کو علمی وفکری ضروریات کا احساس دلانا، ان کے فکری افق کو وسیع کرنا، ان کے اور دوسرے معاشرتی طبقات کے مابین فاصلوں کو کم کرنا اور فضلائے مدارس کو نئے تعلیمی مواقع اور امکانات سے متعارف کروانا ہو، نہ صرف معاشرے کی بلکہ خود دینی مدارس کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے بھی ہمیں بنیادی طور پر وہی ادارے سرگرم نظر آتے ہیں جن کا مدارس کے روایتی دائرے سے تعلق نہیں۔ اس ضمن میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے ذیلی اداروں: دعوہ اکیڈمی، شریعہ اکیڈمی، اقبال مرکز برائے تحقیق ومکالمہ کے علاوہ بعض قومی جامعات کے شعبہ ہائے علوم اسلامیہ اور کچھ غیر حکومتی تنظیموں مثلاً انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی اسٹڈیز، ادارہ برائے امن وتعلیم اور پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔
اس کے بالمقابل اس سارے عرصے میں مختلف دینی اداروں کے نمائندہ مذہبی جرائد کی فائل اٹھا کر دیکھ لیجیے، آپ کو پوری دنیا میں اسلام کے خلاف ہونے والی ہر سازش اور مسلمانوں پر ہونے والے ہر ظلم کا ذکر ملے گا، لیکن جو سوالات مذہبی قیادت سے کسی جواب یا کردار کا تقاضا کرتے ہیں، ان کا بھولے سے بھی کوئی ذکر نظر نہیں آئے گا۔ مذہبی قیادت کا ذہنی رویہ، یہ ہے کہ چند سال قبل جب انٹر نیشنل ریڈ کراس کمیٹی کے زیر اہتمام بین الاقوامی قانون انسانیت اور اسلامی قوانین کے موضوع پر ایک علمی مجلس میں، جس میں شرکاء کی غالب تعداد علماء اور اسلامی قانون کے اساتذہ کی تھی، راقم نے بعض روایتی فقہی تعبیرات پر کچھ سوالات غور وفکر کے لیے پیش کیے تو صدر مجلس جناب مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی نے اپنے صدارتی کلمات میں اس پر باقاعدہ رد عمل ظاہر فرمایا اور کہا کہ اس طرح کے سوالات صرف اکابر علماء کی کسی محدود مجلس میں زیر غور لائے جا سکتے ہیں، اس طرح کھلی مجالس میں (یعنی دینی اداروں کی مستند چار دیواری سے باہر) ان پر گفتگو کرنا درست نہیں۔ اسی طرح چند ماہ قبل جب یہ اطلاع کسی ذریعے سے سوشل میڈیا پر پہنچ گئی کہ جامعہ دار العلوم کراچی کی تحریک پر یہ مسئلہ چند بڑے مراکز افتاء کے زیر غور ہے کہ کیا قربانی کے وجوب کے لیے فقہی نصاب کی تعیین میں چاندی کے بجائے سونے کو معیار قرار دیا جا سکتا ہے یا نہیں تو دار العلوم کے ذمہ داران نے اس پر ایک گونہ ناراضی کا اظہار کیا گیا کہ اہل افتاء کے کسی نتیجے تک پہنچ جانے سے پہلے اس بحث کی اطلاع عوام تک کیوں پہنچائی گئی۔ گویا یہ ایک علمی وفقہی مسئلہ نہیں بلکہ کوئی پر از خطر سیاسی قضیہ تھا جسے بیک ڈور ڈپلومیسی کے طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ ممتاز قادری کو پھانسی دیے جانے پر جناب مولانا محمد تقی عثمانی صاحب نے اپنے درس حدیث میں ایک سوال کے جواب میں ایسی بات ارشاد فرمائی جس سے سلمان تاثیر کے قتل کا ناجائز ہونا ثابت ہوتا ہے تو اس کی اطلاع سوشل میڈیا پر آ جانے پر بھی دار العلوم کے متعلقین نے خفگی کا اظہار کیا اور یہ کہا گیا کہ یہ بات میڈیا پر تشہیر کے لیے نہیں، صرف درس گاہ کے ماحول کو مد نظر رکھ کر کہی گئی تھی۔
دینی قیادت کا یہی ذہنی رویہ ہے جس کے زیر اثر وہ ماحول کے دباؤ کے تحت سیاسی ضرورتوں کی حد تک بالائی سطح پر تو بعض ایسے اقدامات کر لیتی ہیں جن سے مسلکی رواداری کا اظہار ہوتا ہو، لیکن اس چیز کو خود اپنی ترجیحات میں کوئی جگہ دینے یا اپنے داخلی ماحول میں ان موضوعات پر غور وفکر کو فروغ دینے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ مثلاً مختلف مکاتب فکر سے وابستہ تعلیمی وفاقوں کی قیادت بالائی سطح پر تو اتحاد واشتراک اور مسلکی رواداری کا اظہار کرتی ہے اور اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کے عنوان سے پانچوں وفاقوں کا ایک مشترکہ پلیٹ فارم بھی قائم کیا گیا ہے، لیکن رواداری، باہمی میل ملاپ اور مکالمہ کا ماحول زیریں سطح پر پیدا کرنے میں دینی قائدین نے اب تک کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ دینی قائدین خود تو ایک دوسرے کے ساتھ شخصی اور دوستانہ روابط بھی رکھیں اور تحفظ ودفاع کے مشترکہ مقصد کے لیے مل جل کر جدوجہد کرنے کا طریقہ بھی اختیار کریں، لیکن خود ان دینی اداروں کی چار دیواری کے اندر بین المسالک مکالمہ اور تبادلہ خیال کی گنجائش روا نہ رکھی جائے؟ اگر قائدین مل بیٹھ کر اپنے اپنے مسلک پر قائم رہتے ہوئے تبادلہ خیال کر سکتے ہیں اور سوسائٹی کے سامنے مسلکی رواداری کا پیغام پیش کرنے کو درست سمجھتے ہیں تو نچلی سطح پر مدارس کے اساتذہ وطلبہ کے لیے اسی قسم کا ماحول شجر ممنوع کیوں ہے؟
ہمارے نزدیک اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دینی قیادت اپنے حلقوں کا ایک روادارانہ چہرہ معاشرے کے سامنے پیش کرنے کو محض ایک عملی مجبوری یا ضرورت سمجھتی ہے اور اس درجے میں ان کے Constituent حلقے بھی ان کے مل بیٹھنے اور دنیا کے سامنے ایک مثبت تصویر پیش کرنے کو گوارا کر لیتے ہیں، لیکن اپنی داخلی نفسیات کے لحاظ سے ان سب حلقوں میں مسلکی اور گروہی سوچ بے حد پختہ ہے اور دوسرے مسالک کے لوگوں کے ساتھ اختلاط یا کھلے ماحول میں گفتگو اور مکالمہ کو مسلکی پختگی کے لیے خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔
اسی ذہنی رویے کا اظہار ہم اس پہلو سے بھی دیکھتے ہیں کہ دینی قیادت مختلف سماجی موضوعات (مثلاً خواتین کے حقوق، اقلیتوں کو درپیش مسائل، مذہبی رواداری، مکالمہ بین المذاہب وغیرہ) پر دوسرے اداروں اور تنظیموں کی طرف سے منعقد کردہ پروگراموں میں تو شریک ہوتی ہے اور اپنے زاویہ نظر سے ان مسائل پر اسلامی نقطہ نظر بھی پیش کرتی ہے، تاہم ایسے موضوعات پر خود اپنے اداروں میں سوچ بچار کو فروغ دینے یا کسی مکالماتی مجلس کے انعقاد میں کوئی دلچسپی محسوس نہیں کرتی، بلکہ یہ مسائل چونکہ عموماً معاشرے کے لبرل حلقوں کی طرف سے اٹھائے جاتے ہیں، اس لیے مدارس کے ماحول میں ان عنوانات پر زیادہ گفتگو کو بھی شک وشبہے کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر یہ مسائل واقعتا غور طلب ہیں اور ان میں کوئی کردار ادا کرنا دینی طبقے کی ذمہ داری بنتا ہے اور اس حوالے سے کسی دوسرے فورم کی طرف سے منعقدہ مجالس میں مختلف الخیال حضرات بلکہ دوسرے مذاہب کی نمائندگی کرنے والے قائدین کے ساتھ شرکت میں بھی کوئی مضائقہ نہیں تو ایسی کوئی مجلس کسی دینی مدرسے کے حدود میں کیوں منعقد نہیں ہو سکتی؟
مثلاً ناروے کی ایک تنظیم ورلڈ کونسل آف ریلیجنز کے اشتراک سے ۲۰۰۴ء میں اسلام آباد کے کنونشن سنٹر میں ایک بین المذاہب کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں مذہبی رواداری کے اظہار کے لیے ہال میں آویزاں بینرز پر قرآن مجید کے ساتھ ساتھ بائبل کی آیات بھی درج تھیں اور جہاں تک یاد پڑتا ہے، نشست کے آغاز میں قرآن مجید کے علاوہ بائبل کی آیات کی بھی تلاوت کی گئی تھی۔ اس مجلس میں پورے ملک سے نہ صرف دینی مدارس کے علماء وطلبہ کی ایک بڑی تعداد شریک ہوئی، بلکہ مولانا سلیم اللہ خان اور مولانا محمد تقی عثمانی سمیت اعلیٰ ترین دیوبندی قیادت نے بھی شرکت کی۔ (اس پر ایک مختصر تبصرہ برادرم میاں انعام الرحمن کے قلم سے الشریعہ کے اکتوبر ۲۰۰۴ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا)۔ سوال یہ ہے کہ اگر مذہبی رواداری کے اظہار کا یہ انداز درست اور وقت کی ضرورت ہے اور اس میں دینی قیادت کی شرکت ایک مثبت پیغام کا درجہ رکھتی ہے تو یہی نیک کام انھی التزامات کے ساتھ کسی دینی ادارے کی چار دیواری کے اندر کیوں نہیں کیا جا سکتا؟
آپ تجزیہ کر لیجیے، فرق کی کوئی وجہ اس کے سوا نہیں نکلے گی کہ دینی قیادت اس طرح کے معاملات کو اپنی اصولی ذمہ داری یا سماجی ضرورت کے نقطہ نظر سے نہیں، بلکہ صرف سیاسی مصلحت کے نقطہ نظر سے دیکھتی ہے جس کا تقاضا دوسری جگہوں پر جا کر میٹھی میٹھی باتیں کر دینا تو بنتا ہے، لیکن اپنے گھر میں دوسروں کو بلا کر ان کی کڑوی کڑوی باتیں سننا اور اپنے اساتذہ وطلبہ کے ذہنوں میں سوالات کی پیدائش کا خطرہ مول لینا ہرگز نہیں بنتا، کیونکہ انھیں ارادتاً ایک محدود فکری ماحول میں قید رکھنا دینی قیادت کی بنیادی ترجیح ہے۔
مدارس اور این جی اوز کے باہمی روابط کا مختلف پہلوؤں سے ایک معروضی جائزہ لینا بہت اہم ہے اور اس ضمن میں غیر مستحسن فکری اثرات (اگر کوئی ہوں) کے علاوہ اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ان روابط کے ساتھ وابستہ بعض مادی مفادات دینی طبقوں اور خاص طور پر ان کی نمائندہ قیادت پر کس طرح کے اثرات مرتب کر رہے ہیں، لیکن ہمارے نزدیک اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ مدارس کے داخلی ماحول میں معاشرے کے زندہ فکری وعملی مسائل پر غور وخوض اور دوسرے معاشرتی طبقات کے ساتھ مکالمہ اور تعامل کی فضا قائم کی جائے اور اس خلا کو پر کیا جائے جسے اس وقت دوسرے علمی وفکری ادارے یا بعض غیر حکومتی تنظیمیں پر کر رہی ہیں۔ جب تک دینی قیادت خود اس ضرورت کا ادراک اور اس کی تکمیل کا اہتمام نہیں کرتی، اس وقت تک ہمارے زاویہ نظر سے یہ ادارے اور تنظیمیں، طریق کار اور ترجیحات کے بہت سے پہلوؤں سے اختلاف کی گنجائش کے باوجود، ایک اہم معاشرتی ضرورت کو پورا کر رہی ہیں اور ان کی سرگرمیوں کا تنقیدی واصلاحی جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ ان کے کام کے مفید اور مثبت پہلوؤں کا بھی پورا اعتراف کیا جانا چاہیے۔ ان تنظیموں کی سرگرمیوں کے اگر کچھ مبینہ خطرات ومضرات ہیں تو اس پر ان کو موردِ الزام ٹھہرانے کے بجائے یہ ضروری ہے کہ دینی قیادت خود درپیش فکری سوالات پر مشاورت اور مکالمہ ومباحثہ کا اہتمام کرے۔ ظاہر ہے کہ جہاں خلا ہوگا، وہاں اس کو پر کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی طبقہ آگے بھی بڑھے گا۔ اگر دینی قیادت حقیقی مفہوم میں اور کھلے ذہن کے ساتھ اس ضرورت کی تکمیل کے لیے آمادہ ہو جائے تو کسی اور سے شکایت کا موقع ہی پیدا نہیں ہوگا۔