(اقبال مرکز برائے تحقیق ومکالمہ اور الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام دو روزہ ورکشاپ کی روداد۔)
الشریعہ اکادمی میں 5، 6 دسمبر 2016ء کو اقبال بین الاقوامی ادارہ برائے تحقیق و مکالمہ کے اشتراک سے ایک دو روزہ قومی ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا جس کا عنوان تھا : علوم اسلامیہ میں تحقیق: عصری تناظر ۔ اس ورکشاپ کا مقصد نوجوان محققین کو مختلف سطحوں پر علوم اسلامیہ میں ہونے والے تحقیقی کام کی جہات اور معاصر رجحانات سے روشناس کرانا تھا۔ ورکشاپ میں متنوع موضوعات پر گفتگو ہوئی اور مقررین نے جہاں ملک میں تحقیق اور تحقیقی اداروں کی موجودہ صورتحال پر بات کی، وہیں تحقیق کے ضروری اور نئے میدانوں کی طرف بھی توجہ دلائی تاکہ طلبہ تحقیق اپنی تحقیقی سمت کا درست انداز سے تعین کر سکیں۔ شرکاء میں مدارس کے مدرسین ، کالج اور یونیورسٹی کا اساتذہ اور ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبہ شامل تھے جنہوں نے دو دن ہونے والی گفتگو کو بڑے غور اور انہماک سے سنا۔
مولانا محمد عمار خان ناصر
مولانا محمد عمار خان ناصر نے ابتدائی کلمات میں کہا کہ:
علوم اسلامیہ میں تحقیق ایک ایسا دائرہ ہے جس میں حسن اتفاق سے اور کئی عوامل کے اشتراک سے شاید پہلی مرتبہ یہ موقع و امکان پیدا ہو رہا ہے کہ روایتی دینی تعلیم کے اداروں سے فیض یاب ہونے والوں اور جدید عصری تعلیمی ادارو ں میں اسلامیات پر غورو فکر اور تحقیق کی روایت سے استفادہ کرنے والوں کے آپس میں اختلاط و اشتراک اور تبادلہ خیالات کا موقع پیدا ہو رہا ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسی تناظر میں جامعات اور دیگر تعلیمی اداروں میں وقتاً فوقتاً ایسی تقریبات اور نشستوں کا اہتمام کیا جاتا ہے جن میں دونوں رَووں (streams) سے تعلق رکھنے والے لوگ شریک ہوں اور ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کریں ۔ یہ نشست بنیادی طور پر انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی کے ذیلی ادارہ اقبال مرکز برائے تحقیق و مطالعہ کا ترتیب دیا ہوا پروگرام ہے اور ہمیں ان سے تعاون کی سعادت حاصل ہو رہی ہے۔ اس کے شرکاء دینی مدارس، کالجز اور یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے وہ احباب ہیں جو یا تو وہاں کے اساتذہ ہیں اور یا پھر ایم فل اور پی ایچ ڈی پروگرامات میں زیر تعلیم ہیں اور تحقیق کر رہے ہیں۔ مقررین میں جن حضرات کو دعوت دی گئی ہے، وہ بھی انھی اداروں سے تعلق رکھنے والے تجربہ کار اور کہنہ مشق افراد ہیں ۔میں آج کی نشست میں اپنے مہمانان گرامی اور شرکاء کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ جس مقصد کے لیے ہم ان نشستوں کا انعقاد کر رہے ہیں، وہ کامیابی کے ساتھ حاصل ہو گا ان شاء اللہ۔
اس کے بعد IRDکے اسسٹنٹ دائریکٹر جناب محمد اسماعیل صاحب نے خیر مقدمی کلمات کہے اور اپنے ادارے اور اس کی سرگرمیوں کا مختصر تعارف کروایا۔
ورکشاپ میں دیگر مقررین کی طرف سے پیش کی جانے والی گفتگو کا خلاصہ حسب ذیل ہے :
ڈاکٹر تنویر احمد
ڈاکٹر تنویر احمد (اسسٹنٹ پروفیسر ادارہ تحقیقات اسلامی ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد) نے ’’علوم اسلامیہ کے اہم انگریزی تحقیقی جرائد کا تعارف‘‘ کے عنوان پر گفتگو کی اور کہا:
سب سے پہلے میں شکر گزار ہوں ادارہ اقبال مرکز برائے تحقیق و مکالمہ اور الشریعہ اکادمی کا کہ انہوں نے ہمیں یہ موقع عطا کیا کہ ہم علوم اسلامیہ میں تحقیق پر اپنے خیالات کا اظہار کریں کہ وہ کیسے کرنی ہے اور اس کی بنیادی معلومات کیا ہیں۔ میں آپ کو ان تحقیقی مجلات کا تعارف کرواؤں گا جن کی حیثیت انگریزی میں ہونے والی تحقیق کے حوالے سے اہم اوربنیادی ماخذ کی ہے۔ اس سے اہم بات یہ ہے کہ جو مضامین ان مجلات میں چھپتے ہیں، وہ کس طرح ہمارے ہاں اردو دنیا میں چھپنے والے مجلات کے مضامین سے مختلف ہیں اور ان سے سیکھنے کی چیزیں کیا ہیں۔
انگریزی دنیا میں یونیورسٹی کی سطح پر ہونے والی Academicتحقیق کا ظہور تین صورتوں میں ہوتا ہے۔ پی ایچ ڈی کی سطح پر لکھے جانے والے تحقیق مجلات کی شکل میں، مختلف پروجیکٹس کی صورت میں جو کتابی شکل میں شائع ہوتے ہیں، اور انھیں آکسفورڈ اور کیمبرج جیسی پبلشنگ کمپنیز چھاپتی ہیں ۔ یہ کمپنیز جو کتابیں چھاپتی ہیں، ان کا دنیا بھر میں ایک خاص مقام ہوتا ہے۔ اور تیسری قسم آرٹیکلز یا بحوث ہیں جو تحقیقی مجلات میں چھپتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم آرٹیکلز ہی ہوتے ہیں جو کسی علمی طور پر مضبوط مجلے میں چھپیں، کیونکہ ان میں تحقیق و جستجو کے معیارات کا زیادہ خیال رکھا جاتا ہے۔ کوئی بھی مقالہ اس وقت تک شائع نہیں کیا جاتا جب تک کہ دو یا تین لوگ اس کا peer review نہ کریں۔ ریویو کرنے والوں کے پاس لکھنے والوں کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہوتیں، وہ آزادی سے اس کا تجزیہ کرتے ہیں۔ اس کے بعد اس کی ایڈیٹنگ کے لیے پور اعملہ ہوتا ہے جو اس کی نوک پلک سنوارتا ہے اور نقائص کو دور کرتا ہے۔
اسی سے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کوئی مجلہ کس طرح استنادی حیثیت حاصل کرتا ہے، اس کی بین الاقوامی رینکنگ کیسے بنتی ہے؟ اس کا ایک معیار تو یہ ہے کہ اس میں چھپے ہوئے مقالات کتنی دفعہ بطور مصدر حوالے کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔ اس کو جانچنے کا ایک پورا سسٹم ہے جسے citation system کہا جاتا ہے۔ مثلاً ایک مقالہ لکھا گیا ہے، وہ دیکھیں گے کہ اس موضوع پر لکھے جانے والے مقالات میں اس کا حوالہ کتنی مرتبہ آیا ہے۔ اس سے اس کا impact factor بڑھتا ہے اور اسی سے اس کی رینکنگ طے ہوتی ہے۔
پچھلے تین چار سال سے ایک مجلے کی ادارت میرے پاس ہے، اس لیے میں تجربے کی بنیاد پر کچھ چیزیں یہاں شئیر کرنا چاہتا ہوں۔ جب آپ کوئی مقالہ لکھتے ہیں تو اس بات کا خیال رکھیں کہ ایک رپورٹ اورریسرچ پیپر کا فرق باقی رہے۔ رپورٹ کہتے ہیں کہ کسی چیز کے بارے میں آپ نے کچھ حقائق جمع کیے، ان میں آپ نے حک و اضافہ کیا اور ان کو ترتیب دے دیا۔ یہ بہت اچھی معلومات تو ہو سکتی ہیں، لیکن کوئی ریسرچ پیپر نہیں ہو سکتا۔ ریسرچ participation ہے، recordingنہیں ہے۔ اسی طرح کسی کتاب کا خلاصہ یا کسی بڑے مقالے کا خلاصہ بھی research paper نہیں ہوتا۔ وہsummary ہوتی ہے ۔اسی طرح ہمارے ہاں ایک رواج ترتیب کا بھی ہے۔ لوگ آیات، احادیث اور اقتباسات کو ترتیب دے دیتے ہیں اور بہت خوبصورتی سے ترتیب دیتے ہیں، لیکن سوال وہی ہوتا ہے کہ اس میں آپ کی اپنی بات کیا ہے ؟ یہ ایک بہت عمدہ چیز تو ہو سکتی ہے، لیکن ریسرچ پیپر نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح اکثر اوقات مضامین میں ایسے جملے لکھے جاتے ہیں ، کہ ’’اس پر تو اتفاق ہوتا آیا ہے‘‘، ’’ یہ چیز سب کے ہاں متفق ہے‘‘ ، ’’ اس چیز میں تو دو رائے ہو ہی نہیں سکتیں‘‘، حالانکہ اس میں دو رائے ہوتی ہیں۔ اس طرح کے بے دلیل جملے اگر لکھے ہوں تو بھی ہم اس کو ریسرچ پیپر نہیں سمجھتے۔ اچھا ریسرچ پیپر لکھنے کے لیے اس کو سیکھنا پڑتا ہے کہ کیسے اچھا ریسرچ پیپر لکھا جائے، اس کے لیے آسان اور عملی طریقہ یہ ہے کہ ابتدا میں آپ کسی اچھی کتاب کا ریویو لکھیں۔ اس سے آپ کو ریسرچ سیکھنے میں بہت مدد ملے گی ۔
ڈاکٹر تنویر احمد نے انگریزی دنیا کے قدیم و جدید اور بہت اہم مجلات کا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ انگریزی دنیا میں اسلامیات کا وہ تصور نہیں ہے جو ہمارے ہاں ہے۔ ان کے ہاں Islamic Studies میں قرآن و حدیث تو ہے ہی، اس کے ساتھ مسلم سوسائٹی اور اس کے مسائل بھی آتے ہیں، مسلم ممالک کے قوانین بھی آتے ہیں خواہ وہ اسلامی ہوں یا سیکولر۔ وہاں کا تاریخی پس منظر اور معاشی و معاشرتی حالات و نظریات بھی اسی میں شامل سمجھے جاتے ہیں۔ مثلاً دہشت گردی کا مسئلہ اس وقت ان کے ہاں بڑا اہم سمجھ کر پڑھا اور پڑھایا جا رہا ہے۔ اسی طرح مختلف ممالک میں اقلیتیں اور ان کے حقوق، خواہ وہ غیر مسلم اقلیتیں ہوں یا مسلم اقلیتیں، ان پر بھی اسلامیات کے عنوان سے ہی گفتگو ہوتی ہے ۔
مولانا سید متین احمد شاہ
مولانا سید متین احمد شاہ (نائب مدیر مجلہ ’’فکر ونظر‘‘، ادارۂ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد) نے ’’ عصری یونیورسٹیز میں عمرانی علوم اور تصور تحقیق‘‘ کے عنوان پر گفتگو کی۔ انھوں نے کہا کہ:
مجلات تو پوری دنیا میں کثیر تعداد میں شائع ہو رہے ہیں، ان میں سے سب کا تعارف کروانا تو ممکن نہیں ، انتخاب ہی کیا جا سکتا ہے ، اس لیے میں کچھ منتخب مجلات کا تعارف آپ حضرات کے سامنے پیش کروں گا۔ ان کو میں نے موضوعاتی طرز پر تیار کیا ہے۔ سب سے پہلے علوم اسلامیہ میں برصغیر کے کچھ تحقیقی مجلات ہیں، پھر ایچ ای سی سے منظور شدہ اردو اور عربی کے کچھ مجلات ہیں۔ مخصوص تخصصات میں کون کون سے تحقیقی مجلات معاون ہو سکتے ہیں، ان میں قرآنیات سے لے کر تبصرہ کتب تک معاون مجلات شامل ہیں ۔
تحقیق کے بارے میں آپ پڑھتے ہیں کہ یہ دو قسم کی ہوتی ہے، مکینیکل ریسرچ اور اوریجنل ریسرچ۔ اوریجنل ریسرچ کو ہی حقیقی ریسرچ کہا جا تا ہے۔ یہ علم کو پیدا کرنے کا عمل ہوتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی تقسیم ہے کہ دنیا میں ایسے وجود نادر ہی ہوتے ہیں جو علم کو نئے سرے سے پیدا کرتے ہیں۔ جب بھی کوئی فرد کسی حوالے سے اپنی تحقیق پیش کرتا ہے تو وہ تحقیق آرٹیکلز کی شکل میں ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر تہذیبوں کے تصادم کی اصطلاح ہم بہت سنتے ہیں جو سموئیل پی ہنٹنگن کی طرف یہ منسوب ہے۔ اس فکر کو اس نے ابتدائی طور پر پچیس تیس صفحات کے آرٹیکل کی شکل میں پیش کیا تھا ۔ اسی طرح آئن سٹائن کا نظریہ اضافیت جس نے نیوٹن کی سائنس کو گرا کر نئے سائنسی نظریہ کو وجود دیا، یہ بھی ابتدا میں ایک تحقیقی آرٹیکل کی شکل میں ہی پیش کیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب میں یک موضوعاتی مقالات کو مدون کر کے شائع کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے اور اسی کے اثر سے عربی و اردو دنیا میں اس رجحان کو تقویت مل رہی ہے۔ کتابوں میں بہت سی باتیں تکرار محض کی قبیل سے ہوتی ہیں۔ نپولین کا وظیفہ پڑھنا لکھنا تھا، وہ اپنے پاس بہت سی کتابیں جمع کر لیتا اور جلد ہی ان کو فارغ کر کے واپس کر دیتا۔ کسی نے پوچھا کہ آپ اتنی جلدی کیسے ان کو پڑھ لیتے ہیں؟ تو اس نے کہا کہ ان کتابوں کے بنیادی نظریات میں نے کسی دوسری جگہ پڑھے ہوتے ہیں، اس لیے ان کو دوبارہ پڑھنا تحصیل حاصل ہوتا ہے، اس لیے میں جلدی ان کو اپنی نظر سے گزار لیتا ہوں۔ گویا کتاب کا پیٹ بھرنے کے لیے بہت سی دہرائی ہوئی باتیں اس میں شامل کر دی جاتی ہیں، لیکن ریسرچ آرٹیکل میں آپ کو یہ چیز نہیں ملے گی۔ اگر واقعی کسی خلاق ذہن نے آرٹیکل لکھا ہے تو آپ کو شروع سے آخر تک اس میں ایسے نظریات اور خیالات ملیں گے جو اس سے پہلے سامنے نہیں آئے ہوتے۔ یہ ریسرچ آرٹیکلز کی بڑی غیر معمولی قدر و قیمت ہے جس کی وجہ سے بڑے محققین مقالات اور کتابوں کو پڑھنے کی بجائے ریسرچ آرٹیکلز کو پڑھنے کی تلقین کرتے ہیں تاکہ ریسرچ سیکھنے میں معاونت ہو سکے اور اس کی بہترین صورت مجموعہ ہائے مقالات ہیں جو علمی دنیا میں مرتب ہو رہے ہیں۔
ہماری علمی دنیا میں بھی اس کی بہت اہمیت ہے۔ شنید ہے کہ ایچ ای سی نے اب یہ لازم کر دیا ہے کہ آپ کا پی ایچ ڈی کا مقالہ اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک کہ اسی موضوع سے متعلق آپ کے دو آرٹیکلز کسی ایسے مجلے میں چھپے ہوئے نہ ہوں جس کو ایچ ای سی اپنے ہاں معتبر تسلیم کرتا ہے۔ اسی لیے مجلات اپنی غیر معمولی اہمیت کے پیش نظر بہت قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔ عطاء الحق قاسمی کے بیٹے ہیں، علی عثمان قاسمی۔ ان کی ایک کتاب Questioning the athority of the past کے نام سے آکسفورڈ سے چھپی ہے۔ اس کے مقدمے میں انہوں نے لکھا ہے کہ گوجرانوالہ کے ایک صاحب ہیں، ان کے پاس انیسویں صدی سے لے کر آج تک کے تمام مجلات کا ذخیرہ محفوظ ہے اور اس نے مجھے اپنی تحقیق میں غیر معمولی مدد فراہم کی ہے۔ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس ذخیرے میں کیا کچھ محفوظ اور چھپا ہوا ہو گا جس کو سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ یونیورسٹیز میں بھی اس کی طرف توجہ ہو رہی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے دار المصنفین کے مجلہ معارف میں 1916ء سے لے کر آج تک تحریک استشراق پر جتنے بھی مقالات چھپے ہیں، ان کومحض موضوعاتی ترتیب سے مرتب کیا ہے اور اس پر پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی ہے۔ اسی طرح بعض یونیورسٹیز ان مجلات کی اشاریہ سازی پر بھی ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں جاری کرتی ہیں۔
اس کے بعد انہوں نے برصغیر کے قدیم و جدید علمی مجلات کا بہت اچھا تعارف کروایاجس کی پوری پریزینٹیشن ان سے بذریعہ ای میل حاصل کی جا سکتی ہے۔ اپنی گفتگو کے دوران انہوں نے ایچ ای سی سے منظور شدہ مجلات کے حوالے سے بڑی عمدہ معلومات فراہم کیں جو ریسرچ کے ان طلبہ کے لیے انتہائی مفید ہیں جو اپنی تحقیقات ایچ ای سی سے منظورشدہ مجلات میں چھپوانا چاہتے ہیں۔ مثلاً انہوں نے بتایا کہ ایچ ای سی نے مجلات کی درجہ بندی کی ہوئی ہے۔ اردو اور عربی میں چھپنے والے مجلات میں سے کوئی بھی ابھی تکY کیٹگری سے اوپر نہیں جا سکا۔ فکر و نظر کے حوالے سے کوشش ہو رہی ہے کہ وہ Xکیٹیگری میں چلاجائے۔ طلبہ تحقیق کو چاہیے کہ اپنے مضامین Y کیٹگری میں شامل مجلات میں اشاعت کے لیے بھیجیں کیونکہ Zکیٹگری میں شامل مجلات کی وہ اہمیت نہیں سمجھی جاتی اور ہو سکتا ہے کہ اس درجہ کو ختم ہی کر دیا جائے۔
مولانا مفتی محمد زاہد
مولانا مفتی محمد زاہد (شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ امدادیہ ، فیصل آباد) کی گفتگو کا عنوان ’’علوم اسلامیہ میں تحقیق، توجہ طلب پہلو ‘‘ تھا۔ انھوں نے کہا کہ:
اس سے پہلے دو حضرات کی گفتگو سے تحقیق کے نئے پہلو اور تحقیق کے نمونے کہاں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس حوالے سے ہمیں بڑی اچھی راہنمائی حاصل ہوئی۔ اس گفتگو کے دوران جو چیز مجھے محسوس ہوئی، وہ یہ کہ ہو سکتا ہے کہ انگریزی زبان میں کوئی بہت اچھی تحقیق چھپی ہو، لیکن میرے جیسے لوگ جن کی انگریزی اتنی اچھی نہیں ہے، وہ اس سے واقف نہ ہوں۔ اسی طرح یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عربی میں کوئی اچھی تحقیق چھپی ہو، لیکن کچھ لوگ عربی چیزوں کا زیادہ مطالعہ نہ کرتے ہوں۔ یہی معاملہ اردو کا بھی ہے۔ مجھے ان تازہ چیزوں کے ترجمے کی کوئی مضبوط روایت نظر نہیں آتی۔ اگر کوئی ادارہ ان چیزوں کے معیاری ترجمے کی ذمہ داری بھی اپنے ذمہ لے لے تو ان تحقیقات کا فائدہ اور دائرہ کافی وسیع ہو جائے گا۔ سید متین شاہ صاحب کی گفتگو سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ برصغیر میں علمی تحقیق کی روایت کتنی زندہ، کس قدر تازہ ، بھر پور اور کس درجے اپ ڈیٹ رہی ہے اور اس میں علماء کا کتنا سر گرم کردار رہا ہے ۔ ان مجلات کی فہرست پر ایک نظر ڈالنے سے ہی اس کا پتہ چل جاتا ہے۔
ایچ ای سی کی بات آئی تو پتہ چلا کہ بعض مجلات بہت معیاری ہیں، لیکن ایچ ای سی کی لسٹ میں نہیں ہیں یا وہاں سے Approvedنہیں ہیں ۔ایچ ای سی کو یہ تجویز جانی چاہیے کہ کچھ مجلات تو ایسے ہیں جو ایچ ای سی سے اس حوالے سے خود رابطہ کرتے ہیں کہ ان کو اس فہرست میں شامل کیا جائے یا ان کی کیٹگری بڑھائی جائے، لیکن بہت سے مجلات ایسے ہیں جو اس کی ضرورت محسوس نہیں کریں گے، مثلاً بین الاقوامی مجلات اس کی ضرورت محسوس نہیں کریں گے لیکن وہ بہت معیاری ہوں گے۔ انڈیا کے کچھ مجلات کی مثال دی جا سکتی ہے۔ تو جس طرح ادارے اور مجلات اپنے آپ کو ایچ ای سی کے سامنے پیش کرتے ہیں اور ایچ ای سی ان کو اپنی فہرست میں شامل کر لیتا ہے، اسی طرح ایچ ای سی کو خود بھی یہ چیزیں ڈھونڈنی چاہییں اور مارکیٹ میں جا کر دیکھنا چاہیے کہ کون کون سی چیزیں اور مجلات ہیں جو ان کے معیار پر پورا اترتے ہیں، لیکن انہوں نے اپنے آپ کو پیش نہیں کیا۔ ان کو بھی وہ اپنی فہرست میں لائیں، اس سے تحقیقی دنیا کا بھی فائدہ ہو گا اور ملازمت کی دنیا کے لوگوں کو بھی اس میں بہت ساری آسانیاں مل جائیں گی۔
میرا موضوع علوم اسلامیہ کے وہ دائرے ہیں جن میں تحقیق کی ضرورت ہے اور ان میں تحقیق ہو سکتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایم فل کے طلبہ میں سے چند ایک ہی ایسے ہوتے ہیں جن سے ہم بہت ہی اوریجنل ریسرچ کی توقع کر سکتے ہیں۔ اکثر کم عمری اور ناقص تجربہ کی بنیاد پر محض معلومات اکٹھی کرنے یا مواد جمع کرنے کا کام ہی کر سکتے ہیں۔ ان کی صلاحیتوں کو اگر ہم کسی طرح منظم کر لیں اور پروجیکٹس کی شکل میں ان سے مواد جمع کرنے کا کوئی ایسا کام کروا لیں جو کسی اچھے تحقیقی کام کی بنیاد بن سکے تو یہ بہت مفید ہو گا۔ مثلاً امام ابوبکر الجصاص ؒ فقہائے احناف میں بہت بڑا نام ہیں۔ وہ بہت بڑے فقیہ اور اصولی ہیں لیکن بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ وہ بہت بڑے محدث بھی ہیں۔ وہ اپنی کتابوں میں اپنی سند کے ساتھ احادیث ذکر کرتے ہیں۔ اب مسند الجصاص کے نام سے کوئی یونیورسٹی ایک پروجیکٹ لے لے اور ان کی سند سے ساری احادیث جمع کر لی جائیں۔ لیکن اس ساری جمع بندی میں پیش نظر اس سے اگلا مرحلہ ہو، یعنی یہ دیکھنا ہو کہ اس صدی کے محدثین احناف کس طرح حدیث لے رہے تھے اور حدیث سے استدلال اور اس کے رد و قبول میں ان کا انداز کیا تھا۔ جب یہ مقصد پہلے سے پیش نظر ہو گا تو پھر جمع مواد کا منہج میں بھی یہ طالب علم کے ذمے ہو گا کہ اس حدیث کی سند اور اس سے استدلال کا تھوڑا سا خلاصہ بھی اس کے ساتھ ذکر کرے ۔ اس طرح یہ کوئی اتنا اوریجنل کام تو نہیں ہو گا، لیکن ایک اچھے تحقیقی کام کی بنیاد فراہم کر دے گا ۔
اس طرح کا ایک کام مجمع الزوائد کے رجال پر کسی یونیورسٹی نے کروایا ہے ، میرے علم میں نہیں کہ یہ کس نوعیت اور درجے کا کام ہے، لیکن اگر اس کو اسی طرز پر کروایا جائے کہ اس کام سے ان کے حدیث پر حکم لگانے کے اصول مستنبط ہو سکیں تو یہ بہت مفید ہوگا، جیسے کہا جاتا ہے کہ فلاں محدث متساہل ہیں، فلاں متشدد ہیں وغیرہ۔ اس سے ہمیں بحیثیت مجموعی جمع مواد کی بنیاد پر حدیث پر حکم لگانے میں مدد ملے گی۔ اس سلسلے میں کمپیوٹر سائنس کے ماہرین کی صلاحیت سے بھی استفادہ کی راہیں تلاش کرنی چاہییں کہ وہ حدیث کے اس علم میں ہماری کس حد تک مدد کر سکتے ہیں، اور اگر ان سے مدد لینی ہے تو ہمیں ابتدا ہی سے اس کام کا منہج یہ رکھنا چاہیے کہ اس کے لیے سہولت ہو۔ وہ ہمیں بتا سکتا ہے کہ آپ اس کام کو اس طرز پر کریں گے تو زیادہ مفید اور کمپیوٹنگ میں زیادہ آسان ہو گا۔ اسی طرح کا کام اسی دور کے دیگر محدثین کے حوالے سے کیا جا سکتا ہے جو حدیث پر حکم لگاتے ہیں۔ ان پر اسی طرز کا کام کر کے ہم اس دور کے حدیث پر حکم لگانے کے مناہج کو جاننے کے قابل ہو سکتے ہیں۔
ہمارے ہاں یہ تاثر ہے اور ایک حد تک درست ہے کہ اسلامی دور کی ابتدائی چار پانچ صدیاں تو علمی عروج کی صدیاں ہیں، تخلیق علم کی صدیاں ہیں، تحقیق و جستجو کا دور ہیں، لیکن اس کے بعد کا زمانہ جمود اور تکرار کا زمانہ ہے ،Repeatition ہے، ان میں کوئی نیا کام نہیں ہو سکا ۔ یہ تاثر ایک حد تک درست ہے اور اس کی وجوہات بھی ہیں کہ ضرورت باقی نہیں رہی تھی کیونکہ زندگی ایک جگہ پر رک گئی تھی تو اس کے نتیجے میں ظاہر ہے کہ تحقیق نے بھی رکنا تھا۔ آپ شروحات دیکھ لیں، ان میں ایک ہی جیسی عبارتیں ہوتی ہیں اور ایک ہی طرح سے نقل ہو رہی ہوتی ہیں۔اس اعتبار سے یہ کہنا درست ہے کہ اسلامی دور کے قرون وسطیٰ اس طرح علمی عروج اور حرکت کا دور نہیں تھا۔ لیکن انھی ادوار کے اندر ہی بہت سے ایسے مفکر بھی پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے نئی چیزیں پیش کی ہیں جن میں سے کچھ بہت مشہور ہوئے، جیسے ابن تیمیہ ؒ کی مثال دی جا سکتی ہے ۔ ان ادوار میں بھی اس تلاش کی ضرورت ہے کہ کس کس نے کون کون سی نئی چیزیں متعارف کروائی ہیں ۔ آپ ان ادوار کو صدیوں میں تقسیم کر لیں یا مرحلوں میں تقسیم کر لیں، ان ادوار میں ہماری تراث میں آرٹیکلز کے مترادف رسائل کے عنوان سے بہت سی چیزیں ملتی ہیں اور اس دور کے مفکرین کی اصل فکر بھی انہیں رسائل میں مل سکتی ہیں۔ اس ضمن میں رسائل ابن نجیم، رسائل ابن عابدین ہیں، رسائل عبد الحئی لکھنوی ہیں وغیرہ ۔ اس کام کے لیے بھی بہت اوریجنل تحقیق کی ضرورت نہیں ہے۔
تیسری چیز جس سے اسلامی معاشرے کو فرار نہیں ہو سکتا، وہ دو چیزیں ہیں ۔ ایک فتویٰ کا شعبہ اور دوسرا دینی مقتدائیت کا شعبہ۔ اگر لوگ چاہیں بھی تو ان سے چھٹکارہ نہیں پا سکتے۔ ان کو بہتر بنانے کی بھی گنجائش موجود ہے۔ ہمارے ہاں فقہ کی کتابوں میں کتاب الحظر و الاباحۃ کا باب ہوتا ہے، کتاب الکراہیۃ ہوتا ہے، اس کے بہت سے مسائل کا تعلق ہماری روز مرہ کی سماجی زندگی کے ساتھ ہوتا ہے، مثلاً حجاب کا مسئلہ اور مرد و زن کے اختلاط کا مسئلہ ہے، انفرادی طور پر ان پر بہت کام ہو سکتا ہے ۔میں جو چیز عرض کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں اوامر و نواہی تھے کہ یہ کرنا ہے اور یہ نہیں کرنا، درجہ بندی نہیں تھی ۔اور ابتدا میں صحابہ کرامؓ کے سامنے بس یہ ہوتا تھا کہ اللہ اور رسول نے کہہ دیا کرنا ہے تو بس کرنا ہے اور اللہ و رسول نے کہہ دیا کہ نہیں کرنا تو نہیں کرنا ۔لیکن جب زندگی آگے بڑھی تو یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ کسی کام کے بارے میں شریعت کہتی ہے کہ کرنا ہے، لیکن معاشرے میں بہت سے لوگ نہیں کریں گے اور کچھ کاموں کے بارے میں ہدایت ہے کہ وہ نہیں کرنے، لیکن سماج میں بہت سے لوگ ہوں گے جن کو یہ کرنا پڑے گا۔ اب یہاں آ کر احکام کی درجہ بندی کی گئی کہ یہ فرض ہے، یہ واجب ہے، یہ سنت ہے، یہ مستحب ہے وغیرہ۔ یہ درجہ بندی تو نفس حکم کے اعتبار سے کی گئی، لیکن یہاں مولانا مناظر احسن گیلانی ؒ نے ’’مقدمہ تدوین فقہ‘‘ میں مخاطبین کے اعتبار سے درجہ بندی کی بات کی ہے جسے وہ فقہ العامۃ اور فقہ الخاصۃ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ ان مسائل پر ہمیں کچھ دائرے کھینچنے ہوں گے کہ یہ گرین ہے، یہ وائٹ ہے، یہ گرے ہے ، یہ بلیک ہے اور یہ ریڈ ہے۔ امام احمد ابن حنبل ؒ کے پاس ایک آدمی آیا اور ایک مسئلہ دریافت کیا۔کوئی ایسا حلال و حرام کا مسئلہ نہیں تھا ، انہوں نے پوچھا کہ کس نے بھیجا ہے ؟ اگر بشر حافی نے بھیجا ہے تو اس کو جا کر بتا دو کہ یہ حرام ہے۔ یہ مخاطب کے اعتبار سے انہوں نے درجہ بندی کی۔ ایک صاحب نے ایک عالم سے پوچھا کہ آپ فلاں یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں، وہاں تو مخلوط تعلیم ہوتی ہے، وہاں آپ نظر کی حفاظت کیسے کرتے ہوں گے؟ یہ تو ممکن ہی نہیں۔ تو میں نے ان سے کہا کہ آپ نے کبھی اپنے علماء سے پوچھا کہ آپ اسمبلی میں جاتے ہیں، بلکہ خواتین کو بھی منتخب کراتے ہیں ، وہاں بھی تو مخلوط ماحول ہوتا ہے بلکہ پچھلی حکومت میں تو میڈم سپیکر سامنے بیٹھی ہوتی تھیں، اور اس کو میڈم اسپیکر کہہ کر مخاطب بھی کرتے تھے۔ اب ایسا ہوتا تو ہے، اب یہ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کے لیے گرین لائن سے نیچے آنا مناسب نہ ہو اور ایک کو اس کے مخصوص حالات کے پیش نظر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تم نے ریڈ لائن میں نہیں آنا، اس سے پیچھے تم رہ سکتے ہو۔ ہماری سماجی زندگی کے اس طرح کے مسائل میں از سر نو غور وفکر اور دائرہ بندی کرنا بھی ایک میدان ہے جس میں کام کی ضرورت ہے جو ہماری بہت ساری عملی الجھنوں کو دور کرے گا اور خاص طور پر اہل فتویٰ اور دینی مقتدا حضرات اس سے استفادہ کر سکیں گے ۔
ڈاکٹر سمیع اللہ فراز
ڈاکٹر سمیع اللہ فراز (خطیب ڈی ایچ اے لاہور) نے ’’اسلامی تحریکات : مغربی زاویہ نگاہ ‘‘ کے موضوع پر گفتگو کی جس کا خلاصہ یہ ہے:
آج کی یہ ورکشاپ طلبہ تحقیق کو اسلا می تحقیق کے مختلف تناظر اور پہلوؤں سے روشناس کرانے اور ان کے ذہنی کینوس کو وسیع کرنے کی کوشش ہے۔ میں اپنے موضوع پر چار حوالوں سے مختصراً گفتگو کروں گا۔
پہلی چیز کہ اسلامی تحریک کسے کہتے ہیں اور جس کو ہم مغرب کہتے ہیں، اس سے کیا مراد ہے؟
دوسری چیز یہ کہ اسلامی تحریکوں کے ساتھ عسکریت پسندی، تشدد پسندی کے جو ٹائٹل جڑ چکے ہیں، اس کے اسباب کیا ہیں؟
تیسری چیز یہ کہ اسلامی تحریکوں کے حوالے سے مغربی دانش کے دیکھنے، سوچنے اور پالیسی بنانے کا انداز کیا ہے؟
چوتھا یہ کہ طلبہ تحقیق کے لیے اس حوالے سے کون سے پہلو قابل توجہ ہیں؟
اس ذہنی وسعت کے دور میں مغرب سے مراد وہ لوگ یا وہ دانش ہے جو غیر مسلم دانش کہلاتی ہے۔ مغرب کو کسی جغرافیائی حد بندی میں قید نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً اسرائیل مشرق وسطیٰ کا ملک ہے، جغرافیائی طور پر مغرب میں نہیں ہے، لیکن اس سے اٹھنے والے فکر کو بھی ہم مغربی فکر سے تعبیر کرتے ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ مغرب کے لفظ کو انگریزی میں west ہی لکھیں گے، لیکن اس سے مراد امریکہ، برطانیہ یا کینیڈا وغیرہ نہیں ہیں، بلکہ اس سے مراد غیر مسلم دانش ہے۔ اس دانش میں شدت پسند دانش بھی ملے گی اور معتدل دانش بھی۔
مغربی دانش میں ہر لڑنے والا اور ہر کوشش کرنے والا گروہ تحریک نہیں کہلاتا۔ مغرب کے ہاں اسلامی تحریک وہ تحریک کہلائی گی جو مسلم معاشرے میں گہری جڑیں رکھتی ہو، اس کے وجود کا سبب کوئی مقامی مسئلہ نہ ہو بلکہ اس کی تشکیل کا مقصد اسلامی احیاء ہو، اور اس تحریک سے وابستہ لوگ دعوت اسلامی کے طریق سے منسلک ہوں، یعنی اگر اس تحریک کے مقاصد میں اسلامی قانون کو نافذ کرنا ہے تو اس کو اسلامی تحریک کہا جا سکتا ہے، وگرنہ نہیں ۔اس طرح اسلام کے اوائل کی قابل ذکر تحریکیں یہ ہو سکتی ہیں: حضرت عثمانؓ کے خلاف بغاوت کی تحریک، خوارج، مختار ثقفی کی تحریک، عباسی انقلاب اور اسماعیلی اور فاطمی تحریکات وغیرہ۔ گزشتہ تین سو سال میں مسلم دنیا میں جو تحریکات اٹھیں اور جن کے مطالعہ سے مغرب نے اپنی پالیسیوں کو ترتیب دیا ، ہم ان پر بات کریں گے۔ ان میں محمد بن عبد الوہاب کی تحریک تھی جو عرب علاقوں میں اٹھی اور اسی کے زیر اثر 1932ء میں سعودی عرب وجود میں آیا۔ اسی طرح ہندوستان میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی تحریک، سید احمد شہید ؒ کی جہاد موومنٹ،افریقہ کی سنوسی موومنٹ، ایران کا شیعہ انقلاب ۔ ان تحریکات کو وہ اہمیت دیتے ہیں اور ان کا مطالعہ کر کے آئندہ کی پالیسیوں کو ترتیب دیتے ہیں۔
ان تحریکوں کا مزاج وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا رہا ۔ خاص طور پر ایشیا میں، مثلاً برصغیر میں پہلے پہل صوفیا کی تحریک مؤثر رہی، پھر شاہ ولی اللہ کے دور میں تعلیمی و علمی تحریک بن گئی اور تیسرے مرحلے میں یہ انقلاب پسندی کا روپ دھار لیتی ہے، جس کا مظہر سید احمد شہید کی تحریک ہے۔ اور چوتھے مرحلے میں یہ سیاسی پس منظر اور سیاسی فکر کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔عرب علاقوں کی تین تحریکوں کو مغرب اہمیت دیتا ہے۔ پہلی محمد بن عبد الوہاب کی تحریک جو اس وقت سلفی تحریک کی شکل میں موجود ہے۔ دوسری تحریک اخوان المسلمون ہے جس کی فکر سے ہم آہنگ جماعت اسلامی اور روسی ریاستوں میں حزب التحریر ہے۔ اسی فکر کی حامل مسلح تحریکوں میں حماس کا نام سب سے نمایاں ہے ۔ تیسری تحریک شیعہ انقلاب ہے۔ لبنان اور اس سے ملحقہ علاقوں میں موجود شیعہ مسلح تحریکوں کو وہ انقلاب ایران سے ہی متعلق سمجھتے ہیں ۔
ڈاکٹر سمیع اللہ فراز نے اسلامی تحریکوں میں روایت پسندی سے شدت پسندی کے ارتقا کو بیان کرتے ہوئے ان مختلف اصطلاحات پر بات کی جو مغرب میں اسلامی تحریکوں کے حوالے سے مستعمل و متداو ل ہیں۔ مثلاً روایت پسندی (Traditionalism)، بنیاد پرستی (Fundametalism)، انتہا پسندی (Extremism)، انقلاب پسندی (Radicalism)وغیرہ ۔ اور جو لفظ کثرت سے استعمال ہوا، وہ انقلاب پسندی یا Radicalism ہے ۔مغرب کے نزدیک Radicals وہ لوگ ہیں جو مغرب کی بالا دستی کو مکمل طور پر رد کرتے ہیں اور کسی بھی درجے میں مغرب کے نظریات کو اپنے ہاں جگہ دینے کے لیے تیار نہیں ۔اسلامی تحریکوں کے حوالے سے ریسرچ کا ایک موضوع یہ ہو سکتا ہے کہ روایت پسند اسلامی تحریکوں میں شدت پسندی در آنے کے داخلی و خارجی اسباب کیا ہیں ۔
اسلامی تحریکوں سے متعلق مغربی طرز مطالعہ پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مغرب کسی بھی تحریک کا مطالعہ کرنے کے لیے تقسیمی طریقہ کار اپناتے ہیں۔ تحریک کوتاریخی ، فکری اور اس کے اہداف کے حوالے سے مختلف ادوار میں تقسیم کرتے ہیں اور ہر دور کو اس کے پس منظر میں رکھ کر مطالعہ کرتے اور نتائج اخذ کرتے ہیں۔ ان کے ہاں تین بڑی کلاسیفی کیشنز نظر آتی ہیں جن کو مغربی دانش میں قبول عام حاصل ہوا ہے۔ پہلی ہرئیر ڈیک میجا کی، دوسری برنارڈ لیوس کی اور تیسری رینڈ کارپوریشن کی۔ رینڈ کارپوریشن کی رپورٹ میں مذہبی تقسیم کی گئی ہے جو اس وقت عملی طور پر ان کے ہاں ہر پالیسی کی بنیاد ہے۔ دوسری تقسیم سیاسی ہے ، جو ہرئیر ڈیک میجا اور برنارڈ لیوس نے کی ہے۔ مغرب کے اس تقسیمی طرز مطالعہ پر مستقل حوالے سے تحقیقی کام ہو سکتا ہے۔ اسی طرح برنارڈ لیوس کی کتابیں اور آرٹیکلز بھی تحقیق کا موضوع ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح ایک شخص جان لوئس اسپوزیٹو ہے جو کہ اسلامی تحریکوں کے حوالوں سے ایک معتدل نام ہے۔ وہ کہتا ہے کہ موجودہ مسلح تحریکیں اسلام کی نمائندہ نہیں ہیں، اسلام کی نمائندگی اس کے اوائل دور کی تحریکیں کرتی ہیں اور انھی کو اسلام کا موقف سمجھنے کے لیے مطالعہ کرنا چاہیے۔اس کے نظریات پر بھی کام ہو سکتا ہے ۔اسی طرح مغربی فکر کے نقائص کی نشاندہی بھی تحقیق کا موضوع ہو سکتا ہے۔ اسی طرح تحریکات کا ہدف ریاست ہو یا معاشرہ ، یہ بھی تحقیق کا موضوع ہے ۔ اسی طرح ایک اہم موضوع اسلامی تحریکات کا فکری تقارب ہے ۔ یہ لفظ علامہ یوسف القرضاوی نے استعمال کیا ۔ وہ کہتے ہیں کہ میں وحدت کا لفظ استعما ل نہیں کرتا اور نہ یہ کہتا ہوں کہ ساری دنیا کی اسلامی تحریکیں ایک ہو جائیں۔ یہ فطری و جغرافیائی لحاظ سے ناممکن ہے، لیکن فکری اعتبار سے یہ قریب تو ہو سکتی ہیں ۔ اس بات پر تحقیق کرنے کی ضرورت ہے کہ اس فکری تقارب کا فقدان کیوں ہے اور اس کے اثرات کیا مرتب ہو رہے ہیں ۔
جناب آصف افتخار
جناب آصف افتخار (LUMSیونیورسٹی ، لاہور) کی گفتگو کا عنوان تھا ’’مغرب میں مطالعہ اسلام ، معاصر تناظر اور موضوعات ‘‘۔ انھوں نے کہا کہ:
میں نے آٹھ سال اس ماحول میں گزارے ہیں جس کو آپ مغرب کہتے ہیں اور بہت سے ان بڑے اساتذہ سے براہ راست پڑھنے کا موقع ملا جن کا ڈاکٹر سمیع اللہ فراز صاحب نے تذکرہ کیا اور شاید اسی لیے عمار ناصر صاحب نے مناسب سمجھا کہ میں اس موضوع پر گفتگو کروں ۔ عام طورپر ان موضوعات پر لوگ کتابی مطالعہ کی بنیاد پر بات کرتے ہیں۔ وہ بھی ٹھیک ہے، لیکن میں کیونکہ ایک عرصہ ان لوگوں کے درمیان رہا ہوں اور ان سے براہ راست پڑھنے اور گفتگو کرنے کا موقع ملا ہے، اس لیے میں اسی تناظر میں بات کرنا چاہتا ہوں۔ بزنس کی زبان میں ایک ٹرم ہوتی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جو کتاب میں نہیں لکھا ہوتا، وہ بھی بڑا اہم ہوتاہے اور اس کو بھی شیئر کرنا ضروری ہے۔ کرنے کو تو کافی باتیں ہیں لیکن میں چند باتیں کروں گا۔ ایک تو مغرب کا تقسیمی مطالعہ کا طریقہ کار ہے۔ بنیادی باتیں سمیع اللہ فراز صاحب نے کردی ہیں، میں ان پر کچھ اضافے اور کچھ مؤدبانہ اختلافات کروں گا ۔دوسرا ان کا منہج تحقیق کیسے ہم سے مختلف ہے اور اس کے استعمال سے تحقیق میں کیسے جوہری فرق پیدا ہوتا ہے۔اور تیسری اور آخری بات، وہ چیزیں جو مجسم نہیں ہوتیں لیکن ان کا اثر ہوتا ہے ، جیسے تحقیق کے پیچھے جو روح ہے ، جو مقصد اور پلاننگ ہے ، وہ کیا ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ان کے درمیان رہنے اور تھوڑا سا فارمل مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مغربی فکر کوئی حجر واحد نہیں ہے جو ہر رخ اور ہر سمت سے ایک جیسا ہو، بلکہ اس کو ایک فکر کہنا بھی مناسب نہیں۔ یہ ایک مغالطہ ہے۔ بہت سے منتشر افکار ہیں جن میں اختلافات بھی ہیں اور تضادات بھی ہیں ۔ جو چیز ان کو ایک پلیٹ پر جمع کردیتی ہے، وہ تصورات ہیں جو حقیقی بھی ہوتے ہیں اور مصنوعی بھی اور محض تصورات ہی نہیں ہوتے، کچھ مفادات بھی ہوتے ہیں۔ اس مجموعے کے ظاہر کو ہم مغربی فکر کہہ دیتے ہیں۔یورپ بالکل ایک الگ دنیا ہے، اس کے اندر جرمن فکر بالکل الگ ہے، فرانسیسی فکر بالکل اور ہے، برطانیہ جس کو انگلش فلاسفی کہا جاتا ہے، وہ اور زاویہ سے چیزوں کو دیکھتی ہے۔ امریکہ میں خاص طور پر Pragmatism کے بعد جو دور آیا، اس کے اپنے Focal points ہیں ، ان میں کچھ مشترک عناصر بھی ہیں۔ میری یہ خوش نصیبی تھی کہ میں نے کینیڈا میں وقت گزارا۔ یہ ایک پل ہے یورپی اور امریکی فلسفے کے درمیان، اس پر انگلش افکار کا بڑا اثر ہے۔ افکار میں اسی لیے کہہ رہا ہوں اور دانستہ اس کے لیے صیغہ واحد استعمال نہیں کرنا چاہ رہا تاکہ وہاں کے تمام تر تنوع اور اختلافات سمیت ذہن میں تصور آئے کہ وہ ایک فکر نہیں ہے۔اس طرح کینیڈا میں آپ کو دونوں traditions کا بہت اچھا امتزاج مل جاتا ہے ۔ جن مشترک اقدار و مفادات پر وہ اکٹھے ہوتے ہیں، ان میں سے ایک قدر کہ جس کو وہ خود ایک قدر کہتے اور مانتے ہیں اور جس کے بارے میں ہم پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ ہمارے ہاں نہیں ہے ، وہ Freedom of thought اور freedom of expression یعنی سوچ اور اظہار کی آزادی ہے ، جس کو وہ ایک انفرادی و امتیازی چیز سمجھتے ہیں اور جس پر جمع ہو جاتے ہیں۔
مغرب کی تقسیم ان کے ہاں تھوڑی سی مختلف ہے۔ وہ اس کو Hellenic culture اور Semitic Culture کہتے ہیں۔ یعنی یونانی اور رومی تہذیب سے جو چیزیں آئی ہیں، وہ مغرب ہیں اور prophetic cultureیعنی بنی اسماعیل و بنی اسرائیل سے جو چیزیں آئی ہیں، وہ مشرق ہیں۔اس اعتبار سے وہ جس چیز کو اپنا ورثہ legacyکہتے ہیں، وہ سوچ اور اظہار کی آزادی ہے۔
دوسری اہم بات ان کی وہ تقسیم ہے جو وہ ہمارے حوالے سے کرتے ہیں۔ ان کا اپنے بارے میں یہ زعم ہے اور ہمارا بھی ان کے بارے میں یہی خیال ہے کہ ان کے اصول تحقیق اور مناہج ہم سے بہتر ہیں، زیادہ دقت نظر سے تجزیاتی انداز میں وہ چیزوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔ یہ بات تحقیق کے طلبہ کے ذہن میں رہنی چاہیے کہ ان کے ہاں اس بات کا کوئی ٹھوس تصور نہیں ہے کہ جو Traditionalist ہے، وہ Modernist نہیں ہوسکتا اور نہ صرف یہ تصور ٹھوس شکل میں نہیں ہے بلکہ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ ان کے ہاں خلط مبحث بھی بہت ہوتا ہے۔ جو سیاسی تقسیم ہوتی ہے جیسے کہ رینڈ رپورٹ کی تقسیم، اس کو علمی حلقوں میں رد کر دیا جاتا ہے، اس کو مضحکہ خیز سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً Extremistکا لفظ Academia میں نہیں بولا جاتا۔ جب آپ یونیورسٹیز میں جاتے ہیں تو تقسیم میں بہت زیادہ complexity پائی جاتی ہے ۔اس لیے صحافیانہ لٹریچر کو Academic literatureسے جدا رکھنا چاہیے ۔ان کے ہاں Typology مسلسل تبدیل ہو رہی ہے۔ مثلاً کسی چیز میں ان کی دلچسپی ماہیئت و نوعیت یا اس کی ظاہری حالت کے اعتبار سے نہیں ہوگی ، بلکہ ان کی دلچسپی اپسٹمالوجی سے ہے کہ یہ بندہ سوچتا کیسے ہے ۔ مثلا مجھے وہ مجھے کہتے ہیں کہ آپ جینز پہنتے ہیں، لیکن آپ بڑے fundamentalist ہیں۔ گویا ان کی دلچسپی سوچ و فکر سے ہوتی ہے، ظاہری ہیئت سے نہیں۔ خاص طور پر جو چیز ان کے ہاں بہت زیادہ اہمیت اختیار کر چکی ہے، وہ ہے hermeneutics، چیزوں کو دیکھا کیسے جاتا ہے ، ان کی تعبیر و تشریح کیسے کی جاتی ہے۔ مثلاً تاج محل کو ایک آدمی دیکھتا ہے تو کہتا ہے کہ یہ محبت کی علامت ہے، اور دوسرا کہتا ہے کہ :
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
کس چیز نے ان کو ایک ہی شے کے بارے میں مختلف کر دیا ، یہ بات ان کے ہاں انتہائی اہم ہے۔ ان کے ہاں یہ بات اہم ہے کہ ان میں کتنے لوگ ایسے ہیں جو ان تصورات کو آخری اور حتمی مانتے ہیں جو روایت میں موجود ہیں، اصول کے حوالے سے ہوں یا فتاویٰ کے حوالے سے۔ اور وہ ان کی Truth valueکو چیلنج کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اگر ہم اپنی اصطلاح میں بات کریں تو اس کا مطلب بنے گا کہ روایت میں موجود اجماع کو جو چیلنج نہیں کرتا، وہ ان کے ہاں Traditionalist ہے۔ اسی سے آپ Modernism کو سمجھ لیں۔ ان کے ہاں جو Academiaکے لوگ ہیں، وہ بڑی اچھی طرح جانتے ہیں کہ Modernism کا bent ان کے ہاں جدید پڑھے لکھے لوگوں کے ذریعے سے بہت کم درجے میں آیا ہے، یہ مدارس کے ان فضلاء کی کاوشوں سے زیادہ آیا ہے جن کو آپ عام اصطلاح میں Traditionalist کہہ دیں گے۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر فضل الرحمن شکاگو یونیورسٹی والے جن کے شاگردوں سے پڑھنے کا مجھے موقع ملا ، وہ اپنی methodology پر جس کو ڈبل ہرمنیوٹکس کہتے ہیں، بہت بات کرتے ہیں اور جب وہ اس منہج کی ابتدا کرتے ہیں تو شاہ ولی اللہ ؒ کی الفوز الکبیر سے کرتے ہیں ۔وہ Historical cotextualisation کے لیے شاہ عبد العزیز ؒ کے دار الحرب اور دار الکفر کے متعلق دیے جانے والے فتاویٰ کو استعمال کرتے ہیں۔ اس اعتبار سے ان کے ہاں ابو الاعلیٰ مودودی ؒ اتنے ہی Modernistہیں جتنے کہ ڈاکٹر فضل الرحمن ہیں حالانکہ ان کے درمیان کئی حوالوں سے اختلافات رہے ہیں ۔ان کے ہاں یہ لوگ نیا اسلام لے کر آئے ہیں۔
تیسری اہم چیزان کا منہج تحقیق ہے، اس حوالے سے بھی ان کے ہاں مختلف طریقہ ہائے کار ہیں، کوئی ایک طریقہ نہیں ہے۔ کچھ چیزیں سائنسی طریقہ کار سے لی گئی ہیں، عمرانی علوم میں انہوں نے بہت کام کیا ، اس کو انہوں نے شامل کیا ہوا ہے ، یہ سروے وغیرہ ان کے ہاں کم تر سائنس ہے، کیوں کہ ان پر سوالات بہت زیادہ ہوتے ہیں کہ یہ سروے کیسے کیا، کن سے کیا، کس علاقے میں کیا وغیرہ ۔ ان کے ہاں جو منہج ہے، وہ مواد جمع کرنا ، اس کا آزادانہ تجزیہ کرنا، rethinking، پھر اسے باہر نکل کر دوبارہ out of the boxسوچنا ، یہ ان کا طریقہ ہے۔ اسی طریقے سے ان کے ہاں Modernism آیا ، پھر Post Modernismآیا۔ان کے اس منہج کا اثر ان لوگوں پر بھی ہوا جو مغرب میں جا کر پڑھتے ہیں اور پھر ان کے طریقہ کار سے اپنی چیزوں کو دیکھتے ہیں ، جیسے علی شریعتی، ڈاکٹر فضل الرحمن وغیرہ۔ان چیزوں نے ہمارے لوگوں کو بہت متاثر کیا اور اب مدارس کے وہ لوگ بھی اس کو استعمال کر رہے ہیں جو یونیورسٹیز میں ایم فل اور پی ایچ ڈی میں پڑھ رہے ہیں۔ وہ بھی اب انھی کی اصطلاحات بول رہے ہیں اور ان کے طریقہ کار کے مطابق چیزوں کی وضاحت کرنا چاہ رہے ہیں۔ اس میں کچھ خدشات بھی ہیں کہ اس Freethinking کو کس حد تک جانے دیا جائے اور اس کے کیا اثرات نکلیں گے ۔ کچھ اثرات نکل بھی رہے ہیں جیسے Feminismوغیرہ ۔
میں اپنے طالب علموں کو یہ بات کہا کرتا ہوں کہ میرے مشہور و معروف استاد ہیں وائل حلاق، انہوں نے ایک بات بالکل ٹھیک لکھی ہے کہ ایسے لوگوں کا اثر ابھی بھی مدارس کے علماء کے مقابلے میں مسلم دنیا میں بہت کم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں کی علمی credibilityاور ان کے طور طریقہ کی credibility مسلم معاشروں میں مدارس کے پرانے علماء کی علمی و عملی وثاقت کا مقابلہ نہیں کر سکی اور میرا ذاتی خیال ہے کہ کر بھی نہیں سکے گی۔صرف زبان اور فلسفہ کی کچھ رکاوٹیں ہیں ، وگرنہ واقعی یہ لوگ اس میدان میں ان علماء کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے ۔اگر کوئی بھی تبدیلی آئی ہے جس کی مغرب کے مسلم و غیر مسلم سکالرز بھی تعریف کرتے ہیں، وہ بھی مدارس کے اندر سے ہی آئی ہے۔ان کے نزدیک بھی مسلم معاشروں میں حقیقی Modernismمدارس کے علماء نے زیادہ create کیا ہے اور ان کی credibility بھی ان سے زیادہ ہے جو باہر سے آئے تھے۔
اس سارے علمی رعب کے حوالے سے آخری بات بہت اہم ہے۔ وہاں علم کا مقصد اور خاص طور پر دینی علوم کا مقصد یہ نہیں ہے کہ وہ آپ کو خدا سے متعارف کروائے اور اس کے قریب کرے۔ وہاں علم طاقت کے لیے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ ان کا Bentہے ۔ ان کا مسئلہ حق نہیں ہے، ان کا مسئلہ Truthہے تاکہ ان کو طاقت حاصل ہو۔ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے۔ ہمارے ہاں علم کا مقصد خدا کا تقرب ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں برصغیر میں درس نظامی کے بانی ملا نظام الدین ؒ کے طلبہ پر یہ پابندی ہوتی تھی کہ وہ ہفتے میں پانچ گھنٹے شیخ عبد الرزاق بانسوی ؒ کے ساتھ گزاریں جو بالکل ان پڑھ آدمی تھے، جس طرح سید احمد ؒ پڑھ نہیں سکتے تھے ۔طلبہ کو ان کے پاس بیٹھانا تعلق باللہ کے لیے تھا۔ علم برائے طاقت کا اثر اب مغرب سے ہمارے ہاں بھی آ رہا ہے اور کئی وجوہات کی بنا پر ہمارے طالب علم کے لیے بھی پر کشش بن رہا ہے۔میں یہ کہا کرتا ہوں کہ ہمیں ان سے بہت کچھ لینا ہے ، منہج تحقیق وغیرہ ، کیونکہ الحکمۃ ضالۃ المؤمن۔لیکن مدرسہ میں اپنی فنون میں مہارت کی بنیاد اور تعلق باللہ والی بنیاد کو کسی قیمت پر نہیں چھوڑنا چاہیے۔یہ دونوں چیزیں ان کے ہاں نہیں پائی جاتیں اور یہی ہمارا سرمایہ ہیں ۔
اس کے بعد آصف افتخار صاحب کے ساتھ سوال و جواب کی بہت عمدہ نشست ہوئی جس میں مغرب کے حوالے سے بہت سے تفصیل طلب امور زیر بحث آئے اور بہت سی الجھنیں دور ہوئی ۔
مولانا سمیع اللہ سعدی
مولانا سمیع اللہ سعدی (سابق مدرس جامعہ فریدیہ ، اسلام آباد) نے ’’اسلامی علوم میں تحقیق کی اہم جہات اور اس کے ذرائع ‘‘ پر گفتگو کی۔ انھوں نے کہا کہ:
میرے موضوع کے دو جز ہیں۔ ایک، علوم اسلامیہ میں تحقیق کی جہات اور دوسرا، اس کے ذرائع۔ ذرائع کو آپ لوازمات تحقیق بھی کہہ سکتے ہیں۔ پہلے میں ذرائع تحقیق ذکر کروں گا۔
اس حوالے سے پہلی چیز علوم اسلامیہ کے قدیم ذخیرہ کی اشاریہ سازی اور اس کی مفصل تاریخ کی ترتیب ہے۔ یہ معاجم کی شکل میں ہوں یا زمانی، موضوعاتی یا حروف تہجی کی ترتیب سے۔ اس کی ایک مثال ڈاکٹر مظہر یاسین صدیقی صاحب کی کتاب ’’ مصادرسیرت‘‘ ہے ۔ اس طرز پر قدیم ذخیرہ کی اشاریہ سازی یا معاجم تیار ہونے چاہییں۔ اسی طرح تاریخ میں ہر علم کا ارتقا بھی ہمارے پیش نظر ہو۔ دوسری چیز اس علم میں ہونے والے کام کی درجہ بندی ہے۔آج کے دور کا دور زوال ہونا ایک حقیقت ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ اسی دور میں امت نے بڑے بڑے عبقری علماء پیدا کیے ہیں، ان کے کام کی درجہ بندی ہونی چاہیے ۔ تیسری چیز مخطوطات کی اشاعت ہے۔ بیروت کے ایک محقق ڈاکٹر یوسف المراشلی نے اپنی کتاب ’’اصول البحث العلمی وتحقیق المخطوطات‘‘ میں لکھا ہے کہ اس وقت بھی یورپ اور امریکہ کی لائبریریوں میں ایک لاکھ سے زیادہ اسلامی مخطوطات اشاعت کے منتظر پڑے ہوئے ہیں ۔ ان کی یہ کتاب 2003ء میں شائع ہوئی ہے۔ انہوں نے ترکی کی سات لائبریریوں کے مخطوطات کی تعداد ستر ہزار لکھی ہے۔
چوتھی چیز لائبریریز کا قیام ہے ، اس سے معاشرے میں تحقیق کا ذہن بنتا ہے اور تحقیق پروان پاتی ہے۔ پانچویں بات تخصصات کا رواج ہے ۔ اس حوالے سے معاصر جامعات میں کام ہوا ہے، لیکن مدارس میں ابھی تک بہت گنجائش باقی ہے ۔ ہمارے حلقے میں ابھی تک جب تخصص کا لفظ آتا ہے تو اس سے مراد تخصص فی الافتاء مراد لیا جاتا ہے ۔ یہ ایک المیہ ہے، مختلف میادین میں تخصصات کا رواج ہونا چاہیے ۔ چھٹی چیز جو ضروری ہے، وہ نصاب کی تدوین نو ہے۔ ہمارے ہاں مدارس اور یونیورسٹیز میں پڑھایا جانے والا اسلامیات کا نصاب طلبہ میں علم کی بنیادی صلاحیت پیدا کرنے سے قاصر ہے اور بنیادی صلاحیت کے بغیر تحقیق ممکن نہیں، اس لیے نصاب کی تدوین نو بھی انتہائی ضروری ہے۔ ساتویں چیز قدیم ذخیرہ کی تسہیل اور کمپیوٹرائزیشن ہے۔ قدیم ذخیرہ کی جدید اشاعت کا کام بہت حد تک ہو چکا ہے لیکن معاصر زبان و بیان کے اعتبار سے اس کی تسہیلات بھی انتہائی ضروری ہیں۔
جہات کے ضمن میں پہلی چیز علوم اسلامیہ کی تطہیر و تنقیح ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہر علم میں بہت ساری ایسی چیزیں شامل ہو چکی ہیں جو اس علم کا حصہ نہیں ہیں۔ ان چیزوں سے علم کی تطہیر یا تنقیح کرنا اس علم سے حقیقی استفادے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔دوسری جہت علوم اسلامیہ کی تشکیل جدید، یعنی عصر حاضر کے اسلوب اور چیلنجز کے مطابق ان میں حک و اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ دو علموں میں تجدید کی اشد ضرورت ہے۔ ایک علم الکلام، آج کے سوالات و حالات کے تناظر میں علم الکلام کی تجدید بہت ضروری ہے اور جب ہم اس حوالے سے اس کو دیکھیں گے تو علم الکلام ماضی سے بالکل مختلف شکل میں سامنے آئے گا ، کیوں کہ یہ ایک دفاعی علم ہے۔ جیسے سوالات ہوں گے، ویسے ہی اس کی صورت گری ہو جائے گی ۔دوسرا علم الفقہ ہے ۔اس میں جب ہم عصر حاضر کے حوالے سے غور و فکر کریں گے تو ہمیں امت کو آسانی بھی فراہم کرنی ہو گی اور اس کو اباحیت سے بھی بچانا ہو گا۔یہ ایک پل صراط ہے ، اور محقق کی ذمہ داری ہے کہ وہ تیسیر اور اباحیت کے درمیان رہتے ہوئے جدید مسائل کا حل تلاش کر کے امت کی صحیح راہنمائی کرے ۔تیسری جہت علوم اسلامیہ کا دفاع ہے ۔ اس پر گزشتہ دو تین صدیوں میں مستشرقین کے جوابات کے ضمن میں بہت کام ہوا ہے ، اس لیے یہ ایک پائمال موضوع ہے۔ چوتھی جہت اسلامی و مغربی علوم کا تقابلی مطالعہ ہے ۔ اسلامی اور مغربی علوم میں رد و قبول کا تعلق، تطبیق و ترجیح کا تعلق وغیرہ ، ان پر بات کرنے کی ضرورت ہے ۔پانچویں جہت اسلامی علوم کے مخفی گوشوں کی توضیح ہے ۔ ہر علم میں بہت سارے گوشے مخفی ہوتے ہیں جو مرور زمانے کے ساتھ بقدر ضرورت واضح ہوتے جاتے ہیں، ان گوشوں کو واضح کرنا بہت ضروری ہے ۔اس ضمن میں ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی صاحب کے کام کو دیکھا جا سکتا ہے۔ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معاشی زندگی، عرب کے پیشوں اور رسم و رواج پر بات کی ہے جس سے سیرت کے بہت سے پہلو واضح ہوئے ہیں جو پہلے واضح نہیں تھے۔ اسی طرح دیگر علوم میں بھی کئی گوشے ابھی تک مخفی ہیں، ان کی توضیح کی ضرورت ہے ۔
مولانا حافظ محمد بلال فاروقی
مولانا حافظ محمد بلال فاروقی (لیکچرار یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب، لاہور) نے ’’استعمار کے خلاف مزاحمت : امیر عبد القادر الجزائری بطور مثالی نمونہ‘‘ کے موضوع پر گفتگو کی۔ انہوں نے بتایا کہ اٹھارویں صدی میں فرانس نے الجزائر پر مختلف وجوہات کی بنا پر حملہ کیااور وہاں اپنی حکومت قائم کی۔ اس وقت الجزائر کی کوئی باقاعدہ فوج نہیں تھی، اس لیے قبائل نے مزاحمت کی ابتدا کی۔ امیر عبد القادر الجزائری کے والد ایک قبیلے کے سربراہ تھے۔ مختلف قبائل مل کر ان کے پاس آئے او ران سے جہاد کی قیادت سنبھالنے کی درخواست کی ۔ کبر سنی کی وجہ سے انہوں نے خود تو قیادت کی ذمہ داری نہ لی، لیکن اپنے بیٹے امیر عبد القادر کو پیش کیا جن پر اتفاق ہوا اور قبائل نے فرانس کے خلاف گوریلا مزاحمت شروع کر دی۔ الجزائری نے فوج کو منظم کیا، اسلحہ سازی کے کارخانے لگائے اور وہاں کام کرنے کے لیے جرمنی، ہسپانیہ اور دیگر ممالک سے ماہرین بلوائے۔ فوج کے لیے قوانین مرتب کیے جو آج بھی طبع شدہ مل جاتے ہیں۔ یہ گوریلا جنگ تھی کیوں کہ ان کی فوج کا اور فرانس کی فوج کے تناسب میں بہت فرق تھا۔ یہ دشمن پر حملہ کرتے اور چھپ جاتے تھے۔ اسی وجہ سے جوابی حملوں سے حفاظت کے لیے الجزائری نے اپنے زیر نگیں قبائل کو ایک متحرک شہر کی صورت میں منظم کیا جو خیموں پر مشتمل ہوتا تھا اور مسلسل نقل مکانی کرتا رہتا تھا۔ انہوں نے دیگر ممالک سے معاہدات بھی کیے اور اپنے مختصر عرصہ جدوجہد میں خود کو فرانس سے الجزائر کے دو تہائی حصے کا حاکم تسلیم کروا لیا۔ اپنی جدوجہد کے لیے سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لیے اس وقت کی ہر قابل ذکر طاقت سے رابطہ کیا اور بات چیت کی۔انہوں نے ایک مجلس شوریٰ قائم کی جو حکومت کے ہر قسم کے معاملات کا فیصلہ کرتی تھی۔ عدلیہ کا محکمہ قائم کیا۔ تعلیمی نظام پر بہت زیادہ توجہ دی، مساجد کے ساتھ مکاتب قائم کیے، اپنے ملک میں دو بڑی یونیورسٹیز بنائیں اور اپنے تیس طلبہ کو وظائف دے کر فرانس میں بھیجا تاکہ وہ وہاں تعلیم حاصل کر سکیں اور پھر ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کیا جائے۔
امیر عبد القادر نے انسانی کی جان کی اہمیت وحفاظت کو اپنے طرز جدوجہد میں بنیادی اہمیت دی۔ انہوں اپنے فوجیوں کی جان بچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ جب بھی موقع ملا، معاہدات کے ذریعے لڑائی روکنے کی کوشش کی۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنی فوج میں یہ اعلان کر رکھا تھا کہ اگر کوئی شخص کسی فرانسیسی فوجی کو زندہ پکڑ کر لائے گا تو اس کو زیادہ انعام دیا جائے گا۔اسلامی جنگی اخلاقیات پر عمل کے اعتبار سے ان کا کردار بہت روشن ہے۔ جنگی قیدیوں کے بارے میں انہوں نے یہ اعلان کر رکھا تھا کہ قیدی کو جس کے پاس رکھا جائے، اگر اس کی قیدی کوئی شکایت کرے گا تو اس کا روزینہ بھی بند کر دیا جائے گا اور اس کو ملنے والے انعاما ت بھی واپس لے لیے جائیں گے۔ان کے معاصر غیر مسلم افراد اور حکومتوں کے ساتھ بڑے اچھے تعلقات تھے ۔ ان کی ریاست میں غیر مسلموں کو دوسرے درجے کا شہری نہیں سمجھا جاتا تھا، بلکہ امیر کے کئی سفیر غیر مسلم تھے ۔اسی طرح مذاکرات میں بھی وہ کسی نہ کسی غیر مسلم کو شریک رکھتے تھے ۔
حافظ محمد سلیمان اسدی
حافظ محمد سلیمان اسدی (لیکچرار، گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ اسلامیہ کالج ، گوجرانوالہ) کی گفتگو کا عنوان ’’فقہائے احناف کے حدیث کے رد و قبول کے معیارات ‘‘ تھا۔ انھوں نے کہا کہ:
روایات کی تحقیق کے حوالے سے قرآن کریم کی تعلیمات بالکل واضح ہیں۔ اسی طرح احادیث میں بھی تحقیق روایت کے بارے میں واضح تعلیمات دی گئی ہیں، جیسے حجۃ الوداع کے موقع پر حضرت علیؓ یمن سے اونٹ لینے گئے۔ جب واپس آئے تو گھر میں دیکھا کہ حضرت فاطمہؓ نے احرام کھولا ہوا ہے، جبکہ دوسرے افراد نے ابھی احرام نہیں کھولا تھا۔ حضرت علیؓ کو کچھ ناگواری محسوس ہوئی تو حضرت فاطمہؓ نے ان کو بتایا کہ میرے والد گرامی نے اسی طرح حکم دیا ہے۔ حضرت علیؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے توآپ نے حضرت فاطمہؓ کی بات کی توثیق کی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی تردد پیش آتا تو صحابہ کرامؓ براہ راست حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تصدیق کر لیتے اور یہ بات ان کے لیے اطمینان کا باعث ہوتی اور تشفی ہو جاتی ۔اسی طرح حضرت ابو موسی ٰ اشعری ؒ ، حضرت عمرؓ کے بلانے پر ان کے گھر گئے اور اجازت نہ ملنے پر واپس آگئے تو حضرت عمرؓ نے اس بات کی ان سے دلیل بھی مانگی اور اس دلیل کے بارے میں گواہ بھی مانگے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد دو علاقے صحابہ کرامؓ کے علمی مراکز تھے، مدینہ منورہ اور عراق میں کوفہ۔ مستقبل میں انھ دو مراکز سے مسلمانوں کی علمی راہنمائی ہوتی رہی۔ اسی سے فقہاء کے دو گروہ بنے ، اہل حجاز اور اہل عراق۔ اہل عراق کو بعد میں فقہائے احناف کا نام دیا گیا ۔ان کے احادیث کو رد و قبول کرنے کے معیارات میں سے ایک معیار یہ تھا کہ وہ روایت نقل کرنے والے صحابہ کرامؓ کے درجات کا خیال رکھتے تھے، یعنی صحابہ کرامؓ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ طول صحبت، یا کبر سنی یا فہم فراست اور رتبے میں بلندی کو ملحوظ رکھتے تھے اور درجہ صحابیت میں اعلیٰ فرد کی روایات کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ قابل اعتماد سمجھتے تھے۔
مولانا محمد عمار خان ناصر
مولانا محمد عمار خان ناصر (ڈپٹی ڈائریکٹر الشریعہ اکادمی ، گوجرانوالہ) نے ’’فکری وتہذیبی سوالات اور اسلامی تحقیق کا باہمی ربط ‘‘ کے عنوان پر گفتگو کرتے ہوئے کہا:
جامعات میں جب تحقیق ہوتی ہے تو دو طرح کے رجحانات کے درمیان کشمکش ہوتی ہے۔ ایک رجحان یہ ہوتا ہے کہ تحقیق کے لیے ایسے موضوعات کا انتخاب کیا جائے جو ہماری رویات اور تراث سے متعلق ہوں۔ کسی کتاب پر، کسی علمی شخصیت پر یا کسی علم و فن کے کسی پہلو پر تحقیق کی جائے۔ جبکہ اسلامیات کے علاوہ یونیورسٹی کے دیگر شعبہ جات کے افراد کا خیال یہ ہوتا ہے کہ کوئی ایسا موضوع لیا جائے جو عصر جدید سے متعلق ہو ، موجودہ دور کا کوئی مسئلہ ہو جس کا حل تلاش کیا جائے، آج کے کسی سوال کا جواب ہو ۔ کوئی ایسا موضوع ہو جس کا موجودہ زمانے میں معاشرے کو کوئی فائدہ ہو۔ ان دونوں رجحانات کے ملاپ اور امتزاج سے ہی ایسی تحقیق وجود میں آ سکتی ہے جس کا ہماری روایت کے ساتھ بھی تعلق ہو اور موجودہ دور کے سوالات کا جواب بھی دے سکتی ہو۔
مختصر وقت میں کچھ ایسے عنوانات ذکر کروں گا جن سے ایک نمونہ ہمارے سامنے آئے گا کہ کیسے ہم اپنے روایتی ذخیرے سے بھی ایسے موضوعات نکال سکتے ہیں جن کا مطالعہ ہمیں اپنی روایت کی گہرائیوں کو سمجھنے اور ان تک رسائی میں بھی مدد دے اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارے آج کے فکری تناظر کے ساتھ بھی متعلق ہو ۔ ایسے ہی موضوعات کو تدریجی طور پر رواج دینے کی ضرورت ہے ۔
آج ہم جس ماحول میں، جس دنیا میں کھڑے ہیں، ظاہر بات ہے کہ وہ آج سے ڈیڑھ، دو سو سال کے ماحول سے مختلف ہے۔ آج کی سیاسی صورتحال بھی مختلف ہے، تہذیبی صورت حال بھی مختلف ہے۔ آج کے دور کے علمی و عقلی سوالات بھی ان سوالات سے مختلف ہیں جو آج سے دو سو سال پہلے لوگوں کے سامنے تھے۔مسلمان معاشروں کی اندرونی توڑ پھوڑ کی جو صورتحال آج ہے، وہ دو سو سال پہلے نہیں تھی ۔اس طرح ہر دور اپنے تناظر بھی بدلتا ہے، حالات بھی بدلتا ہے اور اسی کی مناسبت سے موضوعات کی نوعیت و اہمیت بھی بدلتی ہے ۔ جو عنوانات میں ذکر کرنے والا ہوں، ان میں سے کچھ عنوانات ہم نے گفٹ یونیورسٹی میں طلبہ کو دیے بھی ہیں اور کچھ میرے ذہن میں ہیں۔ ان کو ذکر کرنے کا مقصد اس بات کی طرف توجہ دلانا ہے کہ ہماری روایت کے جو نظری اور کتابی قسم کے موضوعات ہیں، ان کی بھی بڑی اہمیت ہے اور ان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور ایسے موضوعات کو بھی پوری اہمیت دینی چاہیے جن میں دونوں پہلو شامل ہوں۔ روایت کا مطالعہ بھی ہو اور معاصر تناظر کے سوالات بھی ان میں شامل ہوں۔
ابھی ہمارے دو دوستوں نے اپنے مقالات کا خلاصہ پیش کیا ہے، ان میں آپ یہ دونوں پہلو دیکھ سکتے ہیں۔ روایات کے رد و قبول کے حنفی معیارات، یہ بالکل ایک روایتی سا موضوع ہے جس میں اب بھی تحقیق کی کافی گنجائش ہے۔ امیر عبد القادر الجزائری والا موضوع دوسرے دائرے کی چیز ہے۔ اس میں تاریخ کا مطالعہ بھی ہے اور اس سے آج کے دور کی جدوجہد میں کچھ اہم چیزیں ہم سیکھ سکتے ہیں۔
ایک عنوان ہم نے ایک طالب علم کو دیا ہے، تکفیر کے مسئلہ میں امام غزالی ؒ کا نقطہ نظر۔ اس سوال سے بہت ابتدا میں مسلمان اہل علم کو سابقہ پیش آ گیا تھا کہ اسلام کے دائرے میں میں مختلف ایسے افراد اور گروہ بھی شامل ہو رہے ہیں جو دنیا کی بعض دوسری فکری اور مذہبی روایتوں کے زیر اثر خالص اسلامی عقائد ونظریات کے حامل نہیں، بلکہ ان سے منحرف ہیں۔ سوال یہ تھا کہ ہم کس مقام پر یہ فیصلہ کر یں گے کہ یہ فرد یا گروہ اسلام کے دائرے کے اندر نہیں رہا اور اب یہ اسلام کے دائرے سے باہر چلا گیا ہے۔ امام غزالی ؒ تقریباً پانچ سو سال کی علمی روایت کے وارث ہوئے اور انہوں نے ایک رسالے میں اس بحث کا مفصل محاکمہ پیش کیا ہے۔ یوں اس مطالعے میں تکفیر کے حوالے سے روایتی ذخیرے کی بھی تفہیم ہوگی اور آج مسلمان معاشروں کو بھی درپیش اسی سوال پر غور کرنے کی مختلف جہتیں سامنے آئیں گی۔
تکثیری معاشرہ آج کی ایک مقبول اصطلاح ہے، یعنی ایسا معاشرہ جس میں مختلف اور متنوع ثقافتیں اور تہذیبیں رہ رہے ہوں، ان سب کو قبولیت بھی حاصل ہو اور ان سب کے لیے مواقع بھی یکساں موجود ہوں۔ ابتدائی اسلامی تاریخ میں جب فتوحات کا زمانہ آیا اور اسلامی سلطنت پھیلی تو صحابہ کرامؓ کو بھی اسی طرح کے معاشروں سے واسطہ پیش آیا تھا۔ اب اگر اس دور کی تاریخ کا اس زاویے سے مطالعہ کیا جائے تو اس سے یہ راہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے کہ آج کے تکثیری معاشرے کے چیلنجز کا ہم کس طرح سامنا کریں۔
اسی طرح سیرت نبوی سے متعلق ہمارے مصادر ومآخذ میں مدنی دور کا مطالعہ زیادہ وسعت و گہرائی سے کیا جاتا ہے، اس کا زیادہ مواد ملتا ہے، جبکہ مکی دور کا مطالعہ اس طرح وسعت کے ساتھ نہیں کیا جا تا، حالانکہ اس کی بھی بڑی اہمیت ہے، خود مطالعہ سیرت کے حوالے سے بھی اور اس پہلو سے بھی کہ آج مسلمانوں کو مختلف علاقوں میں کئی طرح کے حالات کا سامنا ہے اور ان میں سے بعض حالات میں مکی دور کا اسوہ زیادہ راہنمائی دیتا ہے۔ اس پر ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی صاحب نے کچھ کام کیا بھی ہے اور ایک اچھی کتاب لکھی ہے، لیکن اب بھی کئی پہلو ایسے ہیں جن پر تحقیق کی ضرورت ہے۔
امام ذہبیؒ کی ایک کتاب ہے ’’سیر اعلام النبلاء‘‘، یہ بظاہر رجال و تذکرہ کی کتاب ہے، لیکن اس میں خوبی یہ ہے کہ انہوں نے کلامی تقسیمات سے اٹھ کر تمام مسالک و گروہوں کی شخصیات کا ذکر کیا ہے اور جس شخصیت کا علم و فضل کے لحاظ سے جو حق بنتا ہے، اس کا بھی اعتراف کیا ہے۔ اس کے ، ساتھ ساتھ مسلمانوں کے آپس کے اختلافات کے حوالے سے بھی بہت اہم چیزیں بیان کی ہیں، تاریخی واقعات کے انداز میں بھی اور اپنے تبصروں کی صورت میں بھی ۔ہمارے ایک طالب علم اس پر کام کر رہے ہیں کہ ہم اس پورے مواد کا مطالعہ کریں اور اس سے یہ سمجھیں کہ ہر طرح کے اختلاف کے باوجود اسلامی معاشرے میں تنوع، قبولیت اور رواداری کی کیا روایت رہی ہے۔
اسلامی تہذیب کی دوسری تہذیبوں سے اخذ و استفادہ کی کیا نوعیت رہی ہے، اس میں رد و قبول اور اخذ و استفادہ کے کیا معیارات مقرر کیے گئے، کس طرح کی چیزیں لے کر ان کو اپنے نظام میں ڈھالا گیا، اور کس طرح کی چیزیں قبول نہیں کی گئیں، اس موضوع کا بھی مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ روایت و تاریخ کا مطالعہ بھی ہو گا اور آج ہمیں پھر اسی صورتحال کا سامنا ہے۔ ہمیں دوسرے نظام ہائے فکر اور تہذیبوں سے واسطہ ہے، اس میں بھی راہنمائی ملے گی۔
ایک اور موضوع بھی بہت اہم ہے اور میں اس میں خاصی دلچسپی محسوس کرتا ہوں، وہ یہ کہ حنفی فقہی فکر آج کئی حوالوں سے از سر نو مطالعہ کا موضوع بن رہی ہے۔ مثال کے طور پر اس حوالے سے اس کا مطالعہ بہت اہم ہو گا کہ امام ابو حنیفہ ؒ اور ان کے تلامذہ اپنے دور میں جو تہذیبی تبدیلی دیکھ رہے تھے،اس کو انھوں نے اپنے نظام فکر میں کیسے جگہ دی۔ ان کے ہاں جو اصول ان کے نظام فکر پر اثر انداز ہوئے، وہ سارے نظری قسم کے نہیں تھے۔ وہ معاشرتی تبدیلیوں کو ، بدلتے ہوئے حالات و ضروریات کو دیکھ رہے تھے اور نئے نئے معاشرے جو اپنا اپنا پس منظر لے کر اسلام میں آ رہے تھے، ان پر اسلامی قانون کے نفاذ میں جو پیچیدگیاں تھیں، اس کا بھی بہت گہرا ادراک ان کے ہاں ملتا ہے۔ اس حوالے سے اگر ان کے اجتہادات کا دوبارہ مطالعہ کریں تو عصر حاضر کے اعتبار سے ہمیں بڑی روشنی اور راہنمائی ملے گی۔
ایک موضوع یہ ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ میں سیاسی و حکومتی معاہدات اور ان کے تہذیبی اثرات کا جائزہ لیا جائے۔ اسلامی تہذیب ایک اخلاقی تصور رکھتی تھی جس میں معاہدات کی پاسداری بڑی اہم اخلاقی ذمہ داری سمجھی جاتی تھی۔ اسلامی سلطنت کے پھیلنے میں ان اخلاقی اصولوں کا بڑا غیر معمولی اثر ہے۔ ہمارے دور عروج میں دنیا میں عمومی تاثر یہ تھا کہ مسلمان جب معاہدہ کرتے ہیں تو اس کی پاسداری کرتے ہیں۔ اس پہلو کا بھی تاریخی مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔
ایک دلچسپ عنوان یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تاتاری جب اسلامی ممالک پر حملہ آور ہوئے اور آخر کار انہوں نے اسلام قبول کر لیااور اسلام کے سپاہی بن گئے تو یہ transformation کیسے ہوئی؟ وہ کیا عوامل تھے اور مسلمانوں نے کیا حکمت عملی اپنائی کہ اسلام کو مٹانے والے، اسلام کا حصہ بن گئے۔
ڈاکٹر عبد اللہ صالح صاحب
ڈاکٹر عبد اللہ صالح صاحب ( ایسوسی ایٹ پروفیسر، شیخ زاید اسلامک سنٹر ، جامعہ پنجاب ، لاہور) نے ’’علو م اسلامیہ میں تحقیق: چیلنجز اور امکانات ‘‘ کے عنوان پر گفتگو کی۔ انھوں نے کہا:
مجھے یہاں آ کر سب سے پہلے تو اس بات کی خوشی ہے کہ کوئی ایسا فورم، کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو علوم اسلامیہ کے بارے میں سو چ بچار اور غورو فکر کرتے ہیں، مسائل پر گفتگو کرتے ہیں اور ان کا حل تلاش کرتے ہیں ۔یہ فورم اور ایسے لوگ آج کے دور میں غنیمت ہیں۔جہاں تک علوم اسلامیہ میں تحقیق ہے، اس حوالے سے نہ ہی کوئی خوش فہمی ہے کہ ہم کسی آئیڈیل پوزیشن پر کھڑے ہیں اور نہ ہی کوئی مایوسی کی بات ہے کہ ہم سر پکڑ کر بیٹھ جائیں کہ ہمارے ادارے اور محققین کوئی تحقیقی کام نہیں کر رہے۔علوم اسلامیہ میں اگر سو مقالات لکھے جاتے ہیں ان میں سے پانچ بھی اگر کام کے نکل آئیں تو میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا سفر جاری ہے اور ہم جمود کا شکار نہیں ہیں۔پاکستان میں ہندوستان سے مختلف اسکالرز اور علماء آتے رہتے ہیں۔ میں جہاں بھی موقع ملے، ان سے یہ سوال ضرور پوچھتا ہوں کہ ہمارے ہاں اور آپ کے ہاں ہونے والی تحقیق میں کیا فرق ہے؟یہ سوال میں نے علامہ نور الحسن راشد کاندھلوی، ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی اور ڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی صاحب سے کیا جو پچھلے دنوں تشریف لائے ہوئے تھی اور الحمد للہ انہوں نے پاکستان کے حوالے سے مایوسی کا اظہار نہیں کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بات بجا ہے کہ ہمارے ہاں کوئی سیاسی مسائل نہیں ہیں، لیکن پاکستان میں بھی تحقیقی کام ہو رہا ہے ، ادارے بھی کر رہے ہیں اور افراد بھی۔یہی علماء اکثر اوقات پی ایچ ڈی کے مقالات کے ممتحن بھی ہوتے ہیں اور بہت سے مقالات کے بارے میں ان کی رائے ہوتی ہے کہ یہ معیاری ہیں، اس لیے ان کو شائع کیا جائے ۔اس سے ایک گونہ اطمینان ہوتا ہے کہ ہم بالکل اندھیرے میں نہیں بیٹھے، کچھ نہ کچھ کام ہو رہا ہے اور ہم آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
تحقیق کے ضمن میں ایک اچھی پیش رفت پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹیز کا قیام بھی ہے۔ پہلے صرف پبلک سیکٹر یونیورسٹیز اعلیٰ تحقیق کرواتی تھیں اور اس میں داخلہ بہت کم لوگوں کو ملا کرتا تھا۔ اب پرائیویٹ یونیورسٹیز کی وجہ سے طلبہ کے لیے اعلیٰ تحقیق کے زیادہ مواقع ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ ٹھیک ہے کہ طلبہ کی اکثر تعداد ان مفادات کے حصول کے لیے آتی ہے جو ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری کی وجہ سے حاصل ہوتے ہیں، لیکن بہت سے ایسے افراد بھی ہیں جو محض علمی پیاس بجھانے اور پڑھنے کے لیے آتے ہیں۔ان پرائیویٹ یونیورسٹیز میں پیسہ کمانے کے لیے پیدا ہونے والا ایک رجحان کوئی اچھا اور مثالی رجحان نہیں ہے۔ اب یہ یونیورسٹیز طلبہ کو یہ آپشن بھی دیتی ہیں کہ وہ مقالہ لکھنے کی بجائے اگر اضافہ کورس پڑھ لیں تو ان کو ڈگری جاری کر دی جائے گی۔ علوم اسلامیہ میں تحقیق کے حوالے سے یہ کوئی اچھا رجحان نہیں ہے ۔ایم فل کی ڈگری ریسرچ اور تحقیق کی ڈگری ہے، اس لیے اس میں طالب علم کے لیے مقالہ لکھنا لازمی ہونا چاہیے۔
یونیورسٹیز میں اعلیٰ تعلیم کے لیے آنے والے دو قسم کے طلبہ ہوتے ہیں۔ ایک درس نظامی پڑھے ہوئے مدارس کے فضلاء اور دوسرے عام عصری اداروں کے ذریعے ایم اے کی ڈگری کے حاملین ۔ ان میں مدارس کے فضلاء کو بنیادی ماخذسے براہ راست استفادے کی صلاحیت کے پیش نظر سبقت حاصل ہوتی ہے اور یہی اس نظام کے اصل شناور ہیں، لیکن ان کو عصری علوم اور معاصر زبانوں سے تعلق پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔
جامعات میں ایک مسئلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ تحقیق کے لیے موضوعات کون دے۔ جامعات میں کوشش یہ ہوتی ہے کہ موضوع طالب علم خود دے، کیوں کہ وہی تحقیق مؤثر ہوتی ہے جو طالب علم کے اندر سے نکلے اور وہ خود اس کا انتخاب کرے۔ لیکن اکثر طلبہ ایسا نہیں کرسکتے، اس کی مختلف وجوہات ہیں ۔ ایک وجہ تو ہمارے ادارے ہیں کہ انہوں نے کوئی ترجیحات متعین نہیں کی ہوتی قومی یا بین الاقوامی طور پر کہ جس پر ہمیں تحقیق کرنے کی اور راہنمائی کی ضرورت ہے ۔ اس وجہ سے موضوع تلاش کرنا پڑتا ہے اور ظاہری طور پر موضوعات کی کمی کا سامنا نظر آتا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کام کرنے والوں کے لیے موضوعات کی کمی نہیں ہوتی۔ یہ موضوعات کا قحط وہیں نظر آتا ہے جہاں استاد و طالب علم میں مطالعہ کی کمی اور نقص ہوتا ہے ۔اب کتنے ایسے اساتذہ ہیں جو اچھے مقالات لکھتے ہیں، اچھی کتابیں لکھتے ہیں اور مختلف میدانوں میں اپنے مطالعہ کو وسعت دینے کی طرف توجہ دیتے ہیں۔ بہت سے موضوعات جامعات میں اس لیے بھی نہیں دیے جاتے کہ اس موضوع پر تحقیق کروانے والے اساتذہ ہی نہیں ملتے، اس لیے دانستہ ایسا موضوع طالب علم کو نہیں دیا جاتا۔
ایک سوال تحقیق کی نوعیت کا ہے۔ ہماری زیادہ تر تحقیق کتابی قسم کی ہو رہی ہے جو لائبریریوں میں ہی پڑی رہ جاتی ہے۔ تحقیق ایسی ہونی چاہیے جو معاشرے، قومی و بین الاقوامی مسائل اور متحرک زندگی کے ساتھ تعلق بھی رکھتی ہو۔ جامعات میں دینی مدارس کے جو فضلاء آ رہے ہیں، وہ بنیادی مہارتوں کے اعتبار سے تو بہت اچھے ہوتے ہیں لیکن ان کی تقریباً ساری توجہ عبارتی موشگافیوں اور عبارت کی ترکیب وغیرہ کی طرف ہوتی ہے۔ مثلاً اگر ان کو ہدایہ کی کوئی عبارت دی جائے تو وہ اس کی ترکیب تو بہت اچھی کر دیں گے، لیکن اگر ان سے یہ پوچھا جائے کہ اس عبارت میں جو لکھا ہے، اس کے بارے میں دیگر علماء کا کیا موقف ہے، امام شافعی ؒ ، امام مالک ؒ وغیرہ کا تو وہ کچھ نہیں بتا پاتے، حتیٰ کہ جس کتاب کو انہوں نے بالاستیعاب پڑھا اور سمجھا ہوتا ہے، بسا اوقات وہ اس کے مصنف کا نام اور اس کے حالات سے بھی ناواقف ہوتے ہیں۔ یہ میرا تقریباً پندرہ سال کا تجربہ ہے۔ دینی اداروں کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ اس کمی کو ختم کیا جاسکے۔اسی طرح ان کا نصوص کا مطالعہ تو بہت اچھا ہوتا ہے، لیکن حالات حاضرہ سے اکثر اوقات وہ بالکل نابلد ہوتے ہیں۔ اگر ان سے پوچھ لیا جائے کہ اس وقت فلسطین کا یا عراق کا کیا مسئلہ ہے تو وہ نہیں بتا سکتے۔
ایک پہلو یہ بھی ہے کہ علوم اسلامیہ کے حوالے سے تو ان کی صورتحال کسی حد تک قابل اطمینان ہوتی ہے، لیکن دیگر علوم مثلاً سوشل سائنسز کے حوالے سے وہ کچھ نہیں جانتے ہوتے۔ اس بات کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ علوم اسلامیہ کو سیاسیات کے نئے رجحانات، اقتصادیات کے نئے پہلوؤں اور اسی طرح دیگر معاشرتی علوم کے ساتھ Interlinkکیا جائے ۔ اسی لیے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ درسیات یا کتابی علوم سے متعلق ہی ان کو کام دیا جائے ۔ اگر مدارس کے فضلاء ان چیزوں پر کچھ توجہ مرکوز کر لیں تو ان کو آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔ ہمارا ماضی اس بات پر گواہ ہے اور ابھی بھی مدارس کے فضلاء جو ان باتوں کا خیال رکھتے ہیں، ان کی تحقیق میں جو گہرائی ہوتی ہے، وہ مروجہ جامعات کے فاضلین کی تحقیق سے کئی حوالوں سے زیادہ ہوتی ہے۔
ہمارے ملک میں ایسے ادارے کی اشد ضرورت ہے جو مستقبل کے حالات و امکانات کے حوالے سے ملک میں ہونے والی تحقیق کی سمت متعین کر ے۔ ایچ ای سی نے کچھ اصول تو دیے ہیں لیکن اس کے ساتھ کچھ ایسے اقداما ت بھی کیے ہیں جس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تحقیق کا معیار بلند ہونے کی بجائے مزید گر گیا ہے ۔ اس چیز کی بھی ضرورت ہے کہ ملک میں یونیورسٹیز کے اندر اصول تحقیق اور معیار تحقیق میں یکسانیت ہو۔ اس وقت ہر یونیورسٹی کا اپنا اپنا معیار اور اصول تحقیق ہیں، اسی وجہ سے تکرار تو عام ہو گیا ہے حالانکہ اب ITکے شعبہ میں ترقی کی وجہ سے وسائل بھی آ گئے ہیں کہ کسی موضوع پر دیکھا جائے کہ آیا کسی یونیورسٹی نے اس پر پہلے کام تو نہیں کروا دیا، لیکن عام طور پر اس بات کا اہتمام نہیں کیا جاتا اور اگر کیا بھی جاتا ہے تو بہت سرسری سا ہوتا ہے۔یہ چند معروضات ہیں جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
مولانا زاہد الراشدی
مولانا زاہد الراشدی (ڈائریکٹر الشریعہ اکادمی، گوجرانوالہ) نے اختتامی کلمات میں کہا کہ:
میں آپ سب حضرات کا اور بالخصوص ڈاکٹر عبد اللہ صالح صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ تشریف لائے اور اچھے موضوعات پر اچھی محفل دو دن جمتی رہی۔ میں اس بات پر بھی اطمینا ن کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ الشریعہ اکادمی کا جن عزائم اور جن مقاصد کے تحت ہم نے آغاز کیا تھا، الحمد للہ مجھے وہ مقاصد اب پورے ہوتے نظر آ رہے ہیں اور یہ نظم اصل ٹریک پر چڑھتا ہوا نظر آ رہا ہے الحمد للہ۔ میرے ذہن میں ایک خواب تھا جو اللہ تعالیٰ اپنی مہربانی سے پورا فرما رہے ہیں۔ اس کے ساتھ میں حصہ ڈالنے کے لیے ایک بات عرض کرنا چاہوں گا ۔ ڈاکٹر صاحب نے جن چیزوں کا ذکر کیا ہے، ان میں سے اکثر خدشات میرے ذہن میں بھی ہیں۔ موجودہ صورتحال کے حوالے سے ایک بات میں بھی کہنا چاہتا ہوں۔
پچھلے دنوں وزارت مذہبی امور نے ایک قومی علماء ومشائخ کونسل بنائی جس کا میں بھی ممبر ہوں۔ اس کونسل نے ایک قومی نصاب کمیٹی برائے دینی مدارس تشکیل دی ہے جس کی دو تین میٹنگز ہو چکی ہیں۔ میں نے ایک میٹنگ میں سوال کیاکہ کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم قومی سطح پر تعلیم کی عمومی صورتحال کا جائزہ لے کے ایک رپورٹ پیش کر دیں کہ اس وقت ملک میں تعلیم کی کیا صورتحال ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ نہیں، ہم نے صرف یہ دیکھنا ہے کہ دینی مدارس کے نصاب سے فرقہ وارانہ مواد کیسے خارج کرنا ہے۔ آپ اپنے کام سے کام رکھیں اور اس پر فوکس کریں۔ یہ ضمناً ایک بات ہے۔
میں تحقیق کے نتائج کے حوالے سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تحقیق کر چکنے کے بعداس کے نتائج کو پیش کرتے ہوئے ماحول کا لحاظ کرنا بھی ضروری ہے۔ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ معاشرے پر اس کے اثرات کیا ہوں گے؟ بخاری کی روایت ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا۔ آپ نے حضرت عائشہؓ کو ایک روز بتایا کہ مجھے پتہ چل گیا ہے، فرشتوں نے بتایا ہے کہ مجھ پر جادو ہوا ہے، فلاں چیز پر کیا گیا ہے اور فلاں نے کیا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تحقیق کی، وہ کنواں بھی مل گیا جہاں جادو کیا گیا تھا، وہ چیز بھی برآمد ہو گئی اور جس نے کیا تھا، اس کا بھی پتہ چل گیا ۔آج کی اصطلاح میں یہ کہیں کہ کیس بھی ثابت ہو گیا اور آلہ واردات بھی مل گیا۔ اس سب کچھ کے بعد حضرت عائشہؓ نے فرمایا: ھلا نشرتہ؟ یارسول اللہ ! مسجد میں جا کر اعلان فرمائیں، آپ نے اعلان کیوں نہیں کیا ؟ یہ بات دو چار بندوں تک ہی محدود کیوں ہے ؟آپ نے جواب دیا کہ اللہ نے مجھے بتا دیا ہے اور میرا مسئلہ حل ہو گیا ہے، اب میں لوگوں میں شر کیوں پیدا کروں؟
اس واقعے سے میں اس بات کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ تحقیق کرنا تو ٹھیک ہے، لیکن کیا ہر تحقیق کا نشر کرنا بھی ضروری ہے؟ یا اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اس کے اثرات کیا ہوں گے، مثبت ہوں گے یا منفی ؟ میرے خیال میں اس بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔
ایک بات میں ڈاکٹر صاحب کی تائید میں کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے ہاں ہر ادارہ ایڈ ہاک ازم پر چل رہا ہے، جامعات بھی، ادارے بھی ، اور افراد بھی ۔ ہمیں چاہیے کہ قومی پالیسی طے کریں، تقسیم کار کریں اور سمت طے کریں ۔ جو کام ہو رہا ہے، اگر یہی کام پلاننگ کے تحت ہو تو اس کی افادیت دو گنا نہیں بلکہ کئی گنا بڑھ جائے گی ۔
ورکشاپ کے اختتام پر مقررین کو اقبال بین الاقوامی ادارہ برائے تحقیق و مکالمہ او رالشریعہ اکادمی کی طرف سے شیلڈز دی گئی اور شرکاء کو شرکت کی اسناد پیش کی گئیں ۔
آئی آر ڈی کے احباب (محمد اسماعیل صاحب، محمد فرقان اور محمد یونس قاسمی) کے ساتھ الشریعہ اکادمی کی ٹیم (مولانا محمد عثمان، حافظ محمد رشید، مولانا محمد طبیب، مولانا محمد عبد اللہ راتھر، مولانا عبد الوہاب، حافظ شفقت اللہ) نے مل جل کر اس دو روزہ ورکشاپ کے انتظامات کیے اور بحمد اللہ حسن وخوبی سے دو دنوں میں تین نشستوں کا کامیاب انعقاد کیا گیا۔
مجلس یادگار شیخ الاسلام کے زیر اہتمام مولانا سندھیؒ پر سیمینار
گزشتہ نومبر کے دوران میں لاہور کی قدیمی دینی درسگاہ جامعہ مدنیہ ، کریم پارک میں "مجلس یادگار شیخ الاسلام " کے زیر اہتمام مولانا عبید اللہ سندھی کی شخصیت اور افکار کے حوالے سے ایک سیمینار منعقد کیاگیا۔ عشاء کی نماز کے بعد سیمینار کا تلاوت قرآن کریم سے باقاعدہ آغاز ہوا ۔
پہلا مقالہ پروفیسر امجد علی شاکر کا تھا۔ انہوں نے "مولانا عبید اللہ سندھی بطور صوفی " کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا اور قبول اسلام کے بعد ان کی مختلف بزرگوں اور مختلف خانقاہوں کے ساتھ وابستگی کو تفصیل سے بیان کیا ۔ ان کے مقالے کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ حضرت سندھی نے علم حاصل کرنے سے پہلے تصوف کے مراحل طے کیے۔ انہوں نے حضرت سندھی کا ایک واقعہ سنایا کہ کیسے انہوں نے دہلی کا ایک سفر بغیر زاد راہ کے کیا اور کیسے اللہ تعالیٰ نے دوران سفر ان کی دستگیری فرمائی۔ انہوں نے اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ حضرت سندھی اپنی ذاتی زندگی میں تیسرے گروہ کے صحابہ کرام کے مزاج کے حامل تھے جو اس بات کے قائل تھے کہ اگلے دن کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں، اس لیے سونے سے پہلے تمام مال اللہ کی راہ میں خرچ کردیتے تھے۔ (پروگرام کے بعد ہماری اس حوالے سے گفتگو ہوئی تو ایک دوست نے کہا کہ یہ واقعہ حضرت سندھی کی مجموعی فکر سے میل نہیں کھاتا۔ کیونکہ حضرت سندھی اپنے نصائح میں متعلقین کو نہ صرف معاشی ذرائع اختیار کرنے کی ترغیب دیتے ہیں بلکہ معاشی طور پر تفوق کے حصول کے داعی ہیں اور اس کو اس زمانے میں اسلام کی سر بلندی کا ایک اہم ذریعہ سمجھتے ہیں۔) بہر حال مجموعی طورپر انہوں نے حضرت سندھی کے سفر تصوف و علم کو بہت عمدگی سے بیان کیا۔
دوسرا خطاب استاد گرامی مولانا زاہد الراشدی کا تھا ۔ استاد گرامی نے فرمایا کہ ہمارے ہاں یہ عمومی مزاج بنتا جا رہا ہے کہ اکابر میں سے کسی بزرگ کے بارے میں بات کرتے ہیں تو وہ گفتگو چند باتوں تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔ کوئی بھی بڑا شخص جب مسائل پر اظہار خیال کرتا ہے یا ان کے لیے عملی کوشش کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ دو چار باتیں ایسی ضرور ہوتی ہیں جن میں انفرادیت ہوتی ہے اور وہ عام روٹین اور روایت سے ہٹ کر ہوتی ہیں۔ ایسی باتیں ناقدین کے ہاں تو موضوع بحث بنتی ہی ہیں مگر ہم نوا حلقے بھی انہی کے دفاع میں مصروف ہو جاتے ہیں اور پھر اس شخصیت کے بارے میں سارا تذکرہ انہی باتوں کے گرد گھومتا رہتا ہے جس سے شخصیت کے مثبت ارشادات و اعمال نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ ایسے طرز عمل سے بہت سی بڑی شخصیات اعتراضات و جوابات کے گرد ہی گھوم کر رہ جاتی ہیں۔ چنانچہ ہمیں اپنے بزرگوں سے صحیح استفادہ کے لیے اس نفسیات اور مزاج کے ماحول سے نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اکابر کی زندگیوں کے ان پہلوؤں کو سامنے لانا چاہیے جن کا تعلق امت کی اجتماعی راہنمائی سے ہے اور جن سے نئی نسل کو اس کی تربیت و اصلاح کے لیے آگاہ کرنا زیادہ ضروری ہے۔
اس کے بعد استاد گرامی نے حضرت سندھی کے حوالے سے تحقیقی کام کے مختلف پہلوؤں کا ذکر کیا۔ (ان کی گفتگو کا خلاصہ ’الشریعہ‘ کے گزشتہ شمارے میں شائع کیا جا چکا ہے)۔ آخر میں کہا کہ آج کے علماء کرام اور دانش وروں کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ تہذیبوں کے تصادم اور ثقافتوں کے اس ٹکراؤ کو سمجھنے کی کوشش کریں، آج کے عصر کا ادراک حاصل کریں، اور اس سولائزیشن وار میں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں امت مسلمہ بلکہ نوع انسانی کی راہنمائی کا فریضہ سر انجام دیں جس کے لیے ولی اللہی فکر و فلسفہ کی روشنی آج بھی ہمارے پاس موجود ہے۔ میرے نزدیک آج کی نسل کے لیے مولانا عبید اللہ سندھی کا پیغام یہی ہے۔
استاد گرامی کے خطاب کے بعدسینیٹر حافظ حمداللہ کا خطاب تھا، لیکن بعض وجوہ کی بنا پر اس میں شرکت نہ ہو سکی۔ ان کے بعد قاری تنویر احمد شریفی صاحب نے گفتگو کی، لیکن وقت کی قلت کے باعث انہوں نے انڈیا سے مولانا ارشد مدنی صاحب کا بیان پڑھ کر سنانے پر اکتفا کی۔
ان کے بعد شیخ ابوبکر صاحب نے گفتگو کی اور مولانا سندھی کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو بطریق احسن نمایاں کیا اور اس بات پر زور دیا کہ حضرت سندھی کے اصل افکار ان کے وطن واپسی کے بعد کے ہیں، اس لیے ان کو زیادہ اہمیت کے ساتھ بحث و تحقیق کا موضوع ہونا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں جس عبید اللہ سندھی کو پڑھ کر شعوری طور پر مسلمان ہوا ہوں، وہ ہجرت کے بعد کے عبید اللہ سندھی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جدید دور میں جو اشکالات پیدا ہو رہے ہیں، ان کے جوابات اور تسلی بخش جوابات تلاش کرنے کے لیے ہمیں حضرت سندھی کو پڑھنا پڑے گا۔ انہوں نے آج سے 75 سال پہلے جن خیالات کا اظہار کیا تھا، وہ آج بھی اسی طرح تازہ ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے عصر حاضر کا کوئی دانش ور اپنے دور کی الجھی ہوئی گتھیاں سلجھا رہا ہے۔ اس کی ایک مثال ان کے وہ نصائح ہیں جو انہوں نے مولانا عبید اللہ انور کو ان کے دورہ حدیث کے سال کی تھیں ۔
جس سال مولانا عبید اللہ سندھی وطن پہنچے، وہ سال مولانا عبید اللہ انور کا دورہ حدیث کا سال تھا۔ مولانا عبید اللہ انور ان سے ملنے گئے تو انہوں نے جو نصائح فرمائے، ان میں سے چند کچھ اس طرح ہیں: فرمایا کہ تمہیں چاہیے کہ حضرت مدنی سے لطیفہ قلبی سیکھو، یعنی ذکر اللہ سیکھو۔ اس کے ساتھ انگریزی زبان سیکھو اور اسے سیکھنے میں ڈائریکٹ میتھڈ استعمال کرو۔ جب تم کوئی کام کرنے لگو تو اس کو عقل و خرد کے ترازو میں تولو، اور جب کسی کام کا فیصلہ کر لو تو اس وقت تک ڈٹے رہو جب تک تمہیں اس بات کا یقین نہ ہو جائے کہ اب تم کامیاب نہیں ہو سکتے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ یہ جو تم نے گھروندے بنا رکھے ہیں، وہ نہیں بچیں گے ، یعنی زمانے کی رفتار کا ساتھ نہیں دے سکیں گے۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایسا ہی ہو رہا ہے۔
ان کے خطاب کے بعد وقت کی کمی کی وجہ سے مولانا عبد الوحید اشرفی کو ان کے اصرار پر ایک منٹ کے لیے گفتگو کا وقت دیا گیا جس میں انہوں نے حضرت سندھی پر ہونے والے اعتراضات کے صحیح تناظر کو واضح کرنے کی کوشش کی ، لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے وہ اپنی بات مکمل نہ کر سکے۔
آخر میں ڈاکٹر اویس شاہد صاحب، جو کہ صدر مجلس بھی تھے، کی دعا پر سیمینار کا اختتام ہوا۔
مولانا عبید اللہ سندھی پر سیمینار کا انعقاد ایسا مبارک کام ہے کہ ساری کمزوریوں کے باوجود یہ کاوش انتہائی مستحسن ہے۔ اس سیمینار کو مولانا عبید اللہ سندھی اور ان کی فکر کی طرف توجہ کا آغاز کہا جا سکتا ہے جس کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے، لیکن عصر حاضر میں سیمینار کے عنوان سے منعقد کیے جانے والے پروگرامات کے کچھ لوازمات ہیں جو ایسے پروگرامات کو بارآور کرنے میں انتہائی معاون ہوتے ہیں ، مثلاً عام جلسے اور سیمینار میں فرق ہونا چاہیے۔ سیمینار میں شرکاء کی زیادہ تعدا دنہ بھی شریک ہو تو کوئی مضائقہ نہیں، تعداد کی بجائے معیار پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سیمینار میں سوال و جواب کی نشست بات کی درست تفہیم کے لیے انتہائی ضروری ہے، اس کے بغیر اس کا کما حقہ فائدہ وصول نہیں کیا جا سکتا۔ سیمینار کا ایک اور لوازمہ غیر رسمی نشستیں ہوتی ہیں جس میں شرکاء ایک دوسرے سے متعارف ہوتے ہیں اور زیر بحث موضوع پر بے لاگ تبصرے اور خیالات کا اظہار کرتے ہیں جس سے موضوع کے پوشیدہ پہلو بھی سامنے آجاتے ہیں اور مستقبل میں اس حوالے سے کام کی راہیں واضح ہوتی ہیں۔ سیمینار میں صدر مجلس کی ذمہ داری محض بیٹھ کر سننا ہی نہیں ہوتا بلکہ مقررین کی گفتگو کے کمزور پہلوؤں کی نشاندہی اور مضبوط پہلوؤں کی تحسین بھی ان کے فرائض میں شامل ہوتا ہے تاکہ اگر کسی بات سے سامعین میں کوئی غلط فہمی پیدا ہونے کا اندیشہ ہو تو اس کو دور کیا جا سکے اور مقصود پر توجہ مرکوز رکھنے کی تاکید کی جا سکے۔ وقت کی پابندی آج کل کے پروگرامات کا خاصہ سمجھی جاتی ہے، اس کا بھی اہتمام ہونا چاہیے۔
بہر حال حضرت سندھی کے حوالے سے اس سیمینار کے انعقاد پر مجلس یاد گار شیخ الاسلام پاکستان کے ذمہ داران ہمارے شکریہ کے مستحق ہیں۔ دعا ہے کہ اس موضوع پر یہ سیمینار بارش کے پہلے قطرے کی حیثیت حاصل کر لے اور حضرت سندھی کی فکر کے فروغ کا سبب بنے۔