مسئلہ ختم نبوت: حالیہ بحران کے چند اہم پہلو

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ملک کے انتخابی قوانین میں ترامیم کا بل پاس ہونے پر اس میں ختم نبوت سے متعلق مختلف دستوری و قانونی شقوں کے متاثر ہونے کی بحث چھڑی اور قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ دینی حلقوں اور سوشل میڈیا میں بھی خاصی گرما گرمی کا ماحول پیدا ہوگیا تو حکومت نے عقیدہ ختم نبوت کے حلف نامہ کو سابقہ پوزیشن میں بحال کرنے کا بل اسمبلی میں پاس کر لیا۔ مگر دفعہ ۷ بی اور ۷ سی کے بارے میں مطالبہ جاری ہے اور حکومتی حلقے یقین دلا رہے ہیں کہ ان کو بھی عوامی مطالبہ کے مطابق صحیح پوزیشن میں لایا جائے گا۔ اس حوالہ سے اپنے احساسات کو تین چار حوالوں سے عرض کروں گا:

ایک یہ کہ حلف نامہ کی عبارت میں ردوبدل طویل پارلیمانی پراسیس سے گزر کر ہوا اور اس دوران ایک آدھ دفعہ توجہ دلانے کے علاوہ کسی کو اندازہ نہیں ہوا کہ یہ کیا ہونے جا رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے صحیح کہا ہے کہ یہ ہم سب کی اجتماعی غفلت سے ہوا ہے، مگر یہ بات بہرحال توجہ طلب ہے کہ یہ سب کچھ آخر کیوں ہوا ہے اور ہمارے پارلیمانی ماحول میں حساس قومی و دینی معاملات کے حوالہ سے اس قدر بے پروائی کیوں پائی جاتی ہے۔ یہ تمام دینی جماعتوں اور پارلیمانی حلقوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

دوسری بات اس سے زیادہ سنگین ہے کہ شق ۷ بی اور ۷ سی کے بارے میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ وہ انتخابی قوانین کے حالیہ ترمیمی بل کے موقع پر نہیں بلکہ اس سے قبل ۲۰۰۲ء کے دوران جنرل پرویز مشرف کی نافذ کردہ ترامیم سے متاثر ہوئی تھیں اور گزشتہ پندرہ سال سے اسی کیفیت میں چلی آرہی ہیں۔ اگر یہ بات درست ہے تو یہ صرف لمحہ فکریہ نہیں بلکہ المیہ ہے کہ قادیانی مسئلہ کے حوالہ سے ان قانونی شقوں میں رد و بدل کا معاملہ پندرہ سال تک مسلسل ابہام میں رہا ہے اور ملک کی دینی، سیاسی اور پارلیمانی جماعتوں میں سے کسی کو احساس نہیں ہوا کہ یہ کیا کچھ ہوگیا ہے۔ میں خود تحریک ختم نبوت کے شعوری کارکنوں میں شمار ہوتا ہوں، لیکن میرے پاس اس حیرت اور افسوس کا کوئی جواب نہیں ہے کہ مسئلہ ختم نبوت کے ساتھ اس سنگین واردات کا مجھے بھی علم نہیں ہو سکا۔ فیا اسفاہ و یا ویلاہ۔

تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیرقانون کے ان ریمارکس نے سب کو پریشان کر دیا کہ قادیانی ہماری طرح نمازیں پڑھتے ہیں اور دیگر مذہبی معاملات میں بھی ہم جیسے ہیں، صرف ایک ختم نبوت کے عقیدہ کا فرق ہے۔ ہم صوبائی وزیرقانون کو جتنا بھی کوس لیں کم ہے، لیکن اس کے ساتھ اس معاملہ میں ہمیں اپنی کوتاہی کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ آج کے جدید تعلیم یافتہ ماحول کے عمومی تاثرات و محسوسات کم و بیش اسی طرح کے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم عقیدہ ختم نبوت اور قادیانیت کے بارے میں عوامی آگاہی اور بیداری کا وہ ماحول قائم رکھنے میں کامیاب نہیں رہے جو ۱۹۵۳ء، ۱۹۷۴ء اور ۱۹۴۸ء کی تحریکات تک دینی حلقوں کے ساتھ ساتھ دیگر قومی شعبوں میں بھی موجود تھا اور میرا خیال ہے کہ اس میں ہم سب قصور وار ہیں۔

جبکہ چوتھی بات اس مسئلہ کے حوالہ سے ان حلقوں کے بارے میں کرنا چاہتا ہوں جو ۱۹۷۴ء کے بعد سے مسلسل مسئلہ ختم نبوت کے دستوری اور قانونی معاملات کو سبوتاڑ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ یہ بین الاقوامی ادارے ہوں، عالمی سیکولر لابیاں ہوں یا ملک کے اندر قادیانیت نواز حلقے ہوں، جب یہ ان کے علم میں ہے اور انہیں اس بات کا پوری طرح اندازہ ہے کہ وہ اس مسئلہ پر پاکستان کی رائے عامہ، سول سوسائٹی اور منتخب اداروں میں سے کسی کا کھلے بندوں سامنا نہیں کر سکتے اور ہر بار انہیں درپردہ سازشوں کا ہی سہارا لینا پڑتا ہے تو وہ پاکستانی قوم کے اجتماعی فیصلے کو تسلیم کرنے اور زمینی حقائق کا اعتراف کر لینے سے مسلسل کیوں انکاری ہیں؟ یہ انصاف، جمہوریت، اصول پرستی اور حقیقت پسندی کی کون سی قسم ہے کہ پاکستانی قوم نے اجتماعی طور پر ایک فیصلہ کیا ہے اور وہ اس پر قائم رہنا چاہتی ہے تو اسے اس سے ہٹانے کے لیے دباؤ، سازش اور درپردہ کارروائیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اپنے اجماعی عقیدہ اور موقف سے ہٹنے پر بلاوجہ مجبور کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ ان بین الاقوامی اور اندرون ملک حلقوں کو ان کی اس غلط روی بلکہ دھاندلی کا احساس دلانے کی ضرورت ہے۔

حالات و واقعات

(دسمبر ۲۰۱۷ء)

تلاش

Flag Counter