دینی مدارس میں عصری تعلیم کے تجربات و نتائج

مولانا حافظ عبد الغنی محمدی

۱۴ نومبر ۲۰۱۷ء کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ اور اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ اسلام آباد کے اشتراک سے مغل محل گوجرانوالہ میں ’’مدارس دینیہ میں عصری تعلیم کے تجربات و نتائج‘‘ کے عنوان پر ایک روزہ سیمینار منعقد ہوا جس میں پچاس کے قریب دینی مدارس کے سینئر اساتذہ اور منتظمین نے شرکت کی، جبکہ الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی کے علاوہ جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد کے شیخ الحدیث مولانا مفتی محمد زاہد اور دار العلوم کبیر والا کے استاذ الحدیث مولانا مفتی حامد حسن نے مختلف سیشنز کی صدارت کی۔ نقابت کے فرائض الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے جوائنٹ سیکرٹری حافظ محمد رشید اور اقبال انسٹی ٹیوٹ کے نمائندہ مولانا محمد یونس قاسمی نے انجام دیے۔ 

موضوع کی مناسبت سے راقم نے بعض نکات جو تحریری طور پر منتظمین کو پیش کیے گئے، حسب ذیل ہیں: 

  1. ہم کوئی بھی کام مجبوری کے حالات میں کرتے ہیں، سر سے پانی گزرنے سے قبل ہم منصوبہ بندی سے کسی بھی چیز کو اختیار نہیں کرتے۔ عصری تعلیم کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح ہے۔ ہم آج تک عصری تعلیم کے حوالے سے مختلف تجربات سے گزر رہے ہیں، کوئی حتمی منصوبہ بندی ہمارے پاس نہیں ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قیام پاکستا ن کے بعد ہم منصوبہ بندی سے کوئی جامع تعلیمی نظام وضع کرتے جس میں ہمارے فضلا ء دین، دنیا اور معیشت و مذہب دو نوں کو جمع کر سکتے، لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا۔ آج سے دس ، پندرہ سال قبل مجبوری کی حالت میں بعض مدارس نے دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کے تجربات کیے اور پھر رفتہ رفتہ ان کو دیگر مدارس بھی اختیار کرتے گئے اور اب ہم اس نظام تعلیم کو ہی اب ہم اپنا مستقل سمجھ بیٹھے ہیں اور اس میں ہی مزید پیوند کار ی کرتے جا رہے ہیں۔ میرے خیال میں اس طرح نظام چلانا بہت مشکل ہے۔ دونوں تعلیموں کے تقاضے بیک وقت نباہنا خاصا مشکل ہے۔ 
  2. اصل میں ہم کس قسم کے فضلاء پیدا کرنا چاہتے ہیں؟ اس حوالے سے کوئی منظم سوچ نہیں ہے۔جن مدارس میں عصری تعلیم ہے اور جن میں نہیں ہے، دونوں میں مقاصد کا کوئی واضح شعور نہیں ہے۔ فضلاء سے اگر نماز روزہ کے مسائل بتانے کا کام ہی لینا ہے تو کم از کم دنیا کی قیادت و سیادت کے خواب نہیں دیکھنے چاہییں۔ 
  3. وہ مدارس جن میں مشتر ک نظام تعلیم نہیں ہے، ان میں طلبہ کو ملک اور معاشرہ کے متعلق بنیادی چیزیں بھی نہیں پڑھائی جاتیں، حالانکہ ایک ذمہ دار شہری ہونے کی حیثیت سے ان چیزوں کا جاننا انتہائی ضروری ہے۔ پھر ان مدارس میں اگر کوئی طالب علم ذاتی شوق کے تحت فارغ اوقات میں خود سے عصری تعلیم حاصل کرنا چاہتاہو تو اس کو نہ صرف اجازت نہیں دی جاتی بلکہ مختلف اداروں میں کتابیں ضبط اور داخلہ کینسل کرنے کے قوانین بھی موجود ہیں۔ میرے خیال میں جو طلبہ خود سے ذاتی وقت میں ایسا کرنا چاہتے ہوں، ان کوصرف اس دلیل سے کہ ’’کھاتے مدرسے کا ہیں، تعلیم دوسری پڑھتے ہیں‘‘ روک دینا قوم کی امانت میں عظیم خیانت کا ارتکاب ہے۔ ان میں بہت سے طلبہ ایسے ہیں جنہوں نے اس طرح تعلیم حاصل کی اور پھر اچھے عہدوں پر فائز ہو کر پابندیاں عائد کر نے والوں کے لیے باعث فخر بن گئے۔
  4. مدارس میں عصری تعلیم دینے والے عام طور پر پوری طرح ماہر نہیں ہوتے۔ انگریزی کو عربی یا پنجابی میں پڑھا رہے ہوتے ہیں۔ مدارس میں عصری تعلیم کے لیے نہ صرف ماہر اساتذہ کا ہونا ضروری ہے، بلکہ اسکو ل و کالج والا ما حول جو کہ عصری تعلیم کے لیے ضروری ہے، وہ بھی ہونا چاہیے۔ مزید برآں مدارس میں عصری تعلیم دینے والوں کے ذہن میں عام طور ایک فرض کفایہ کی ادائیگی مقصود ہوتی ہے۔ ان کو نہ عصری تعلیم کی اہمیت کا پتہ ہوتا ہے اور نہ یہ اندازہ ہوتاہے کہ طلبہ کے مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ وہ اچھے گریڈ میں ڈگر ی حاصل کریں۔ اس لیے وہ طلبہ کو عصری تعلیم دینے کے باوجوو مطلوبہ مقام تک پہنچانے میں ان کی مدد نہیں کر رہے ہوتے۔ 
  5. عام طور پر مدارس میں طلبہ کو صرف میٹر ک، ایف اے کی تعلیم دی جاتی ہے اور ان طلبہ کی عصری تعلیم کی بنیاد مضبوط نہیں ہوتی۔ طلبہ کو ابتدائی اور اختتامی تعلیم نہ دینے کی وجہ سے طلبہ کی ابتداء ا ، بنیاد اور اختتام ہمارے ہاتھ میں نہیں ہوتے ہیں۔ 
  6. وہ طلبہ جو آگے کسی وجہ سے پڑھائی نہ جاری رکھ سکیں، اور مدرسے کی ڈگری ان کو آٹھ سال سے قبل کوئی فائدہ نہ دے، وہ اسکول کی چھوٹی موٹی ڈگریوں کی بنیاد پر کہیں ملازمت کے قابل ہو جاتے ہیں۔ 
  7. ہم طلبہ کو مخصو ص عصری تعلیم دیتے ہیں جوکہ صرف مخصوص اداروں میں ہی کام آسکتی ہے۔ اگر ان اداروں میں دین دار لوگوں کی ضرورت ہم محسوس کرتے ہیں تو دیگر اداروں میں بھی اتنی ہی ضرورت ہے۔ 
  8. ہم طلبہ کو عصری تعلیم دیتے وقت مسلکی ذہن بناتے ہیں اوریہ سمجھاتے ہیں کہ آپ نے اس تعلیم کے ذریعے مسلک کے تحفظ و اشاعت کی جنگ لڑنی ہے، جبکہ ہمارا مقصود علم کے میدان میں پیشرفت کی راہوں کو کھولنا ہونا چاہیے۔ ہمارا مقصود اسلام کے آفاقی پیغام کو لوگوں کی زبان و فہم کے مطابق ان تک پہنچانا ہونا چاہیے۔ ہمیں طلبہ کی ان تحقیقات تک رسائی کرانی چاہیے جو کہ دنیا میں کی جا رہی ہیں۔ ہمیں مسالک کی جنگ سے نکل کر مذہب اور اس کے دفاع اور اس کو لاحق خطرات کی پر مر کوز کرنی ہوگی۔ 
  9. ہمیں قوم کے وسیع تر مفاد کے لیے مدارس کی طرز پر فری اسکو ل، کالج اور یونیورسٹیز کھولنی چاہییں جن کو مدارس کی طرز پر اصحاب خیر کے تعاون سے چلایا جائے اور قوم کو باکردار اور باصلاحیت افراد مہیا کیے جا سکیں۔ 

تعلیم و تعلم / دینی مدارس

(دسمبر ۲۰۱۷ء)

تلاش

Flag Counter