(اپریل ۲۱۰۲ء میں ادارہ تحقیقاتِ اسلامی اسلام آباد نے اپنے یومِ تاسیس کے حوالے سے یہ ایک تقریب کا انعقاد کیا جس میں اس طالب علم کو کلیدی خطبہ عرض کرنے کے لئے کہا گیا۔ خیال تھا کہ اس خطبے میں اجمالاً آنے والے نکات کو تفصیل سے بیان کرکے ایک مکمل مقالے کی شکل دے دی جائے۔ بوجوہ ایسا نہ ہوسکنے کی وجہ سے تقریباً اسی حالت میں پیشِ خدمت ہے۔ زاہد)
سب سے پہلے تو میں ادارہ تحقیقاتِ اسلامی کے ذمہ داران ، کار پردازان اور جملہ کارکنان کو اس عظیم علمی و تحقیقی سفر کی باون منازل طے کرنے پر دل کی گہرائی سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ اسی کے ساتھ ادارے کے ذمہ داران بالخصوص اس کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر خالد مسعود صاحب کا تہِ دل سے شکر گذار ہوں کہ اس پْر مسرت موقع پر اتنی بڑی تعداد میں اہلِ علم وتجربہ کے درمیان حاضر ہوکر نہ صرف استفادے کا موقع عطا فرمایا بلکہ کچھ عرض کرنے کا اعزاز بھی بخشا۔ایسے موقع پر کچھ گذارشات پیش کرنا جہاں مجھ جیسے طالب علم کے لئے ایک اعزاز اور سعادت ہے وہیں ایک بڑا امتحان بھی۔’’ حکمت بلقمان آموختن‘‘ والا محاورہ تو بار ہا سنا ہے ، لیکن جہاں بیک وقت اتنے سارے لقمان موجود ہوں وہاں یہ جسارت کئی آتشہ ہوجاتی ہے۔
انیسویں صدی کے نصف یا اس کے اواخر تک کا دور مسلمانوں کے تنزل کی طرف مسلسل سفر کا دور ہے۔ یہ دور مسلمانوں کے زیاں ہی کا نہیں علمی وفکری سطح پر احساسِ زیاں کے فقدان کا بھی ہے۔ سیاسی اور عسکری انحطاط کا کم از کم احساس مسلمانوں میں ضرور موجود تھا لیکن علمی اور فکری تحدیات کا ادراک بہت کم تھا۔ دنیا بہت بدل چکی تھی اور تیز رفتاری سے بدل رہی تھی ، خواہی نخواہی ان تبدیلیوں کے اثرات باقی دنیا کے علاوہ عالمِ اسلام پر بھی مرتب ہورہے تھے اور ہونے جارہے تھے۔ لیکن اس دور پر ایک عمومی نظر دوڑائیں تو مسلمانوں کے علمی وفکری حلقوں میں ان تبدیلیوں ، ان کے اسباب اور مضمرات کو سنجیدگی سے سمجھنے کی باستثنائے چند کوئی قابلِ ذکر کوشش نظر نہیں آتی۔ اسلام کے اصول اور اس کی بنیادی تعلیمات تو ابدی اور ناقابلِ تغیر ہیں ، لیکن یہ سوال کہ کیا پہلے سے موجود مواد ، ڈھانچا اور طور طریقے جو انسانی کاوشوں کا نتیجہ ہونے کے ناطے زمان ومکان اور حالات کے اسیر ہیں ، اس تبدیل شدہ اورمسلسل تبدیل ہوتی دنیا میں اس قابل ہوں گے کہ محض انہی کے سہارے اسلامی تعلیمات کو مسلمانوں کی اجتماعی اور انفرادی زندگی میں رو بہ عمل لایا جائے‘ اس سوال کے جواب کو عموماً ایک عرصے تک قابلِ اعتنا ہی نہیں سمجھا گیا۔ یہ صورتِ حال صرف علمی حلقوں کی ہی نہیں تھی بلکہ آخری دور میں مسلمانوں کے اقتدارِ اعلی کی جو اہم کرسیاں موجود تھیں ان میں بھی بدلتی دنیا کو سمجھنے سے گریز کا انداز ہی غالب رہا۔ مغرب کی طاقت کے گہرے سائے ہندوستان تک پہنچ چکے تھے لیکن یہاں کی مغلیہ سلطنت سمیت طاقت کے بیش تر سرچشموں کواس چیز کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی کہ اس خطرے کے مضمرات اور اس طاقت کے راز کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کروایا جائے ، اس کی بجائے وقت پاس کرنے کے لئے آہستہ آہستہ مقامی طاقتیں سمجھوتوں پر سمجھوتے کرتے اس ابھرتی طاقت کے قدموں کی طرف سرک رہیں تھیں۔ اسی صورتِ حال کی ایک مثال کے طور پر یہ بات بھی پیش کی جاسکتی ہے کہ مغربی دنیا میِں دستور پسندی کا رجحان بہت حد تک نمایاں ہو چکا تھا اور یہ بات بہت موٹے حروف میں نہ سہی بہر حال نوشتہ دیوار تھی کہ باقی دنیا کو بھی آہستہ آہستہ کسی نہ کسی شکل میں ادھر ہی آنا ہوگا۔ اگر اس نوشتہ دیوار کو مناسب وقت پر سنجیدگی سے پڑھ لیا جاتا اور خلافت کو شخصی کی بجائے ایک دستوری ادارہ بنانے کی تجاویز اور کوششوں کا وہ حشر نہ ہوتا جو ہوا تو شاید مسلمانوں کے سیاسی اقتدارِ اعلی کو وہ دھچکے برداشت نہ کرتے پڑتے جن کا سامنا انہیں کرنا پڑا۔اس کی وجہ غالباً طویل عرصے تک مسلمانوں کا سیاسی غلبہ تھا، جس کی وجہ سے وہ اپنے قابلِ شکست ہونے کے تصور کے لئے بھی ذہنا آمادہ نہیں تھے، اس لئے کہ اپنے ماضی کی عظمتوں کی اسیر قوموں کے لئے نئی حقیقتوں کو تسلیم کرنا خاصا مشکل ہوتا ہے (اس ابتلا کا سامنا اقوامِ مغرب کو بھی کرنا پڑ سکتا ہے)۔
بہر حال سیاسی طور پر تو عالمِ اسلام کے ساتھ جو کچھ ہوا سو ہوا ، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جس زمانے سے سیاسی طور پر مسلمانوں کا انحطاط ان کے باقاعدہ دورِ غلامی میں تبدیل ہونا شروع ہوا تقریباً وہیں سے ان میں علمی اور فکری بیداری کا دور بھی شروع ہوتا ہے۔ اس نئے دور کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ نکتہ بھی بڑا اہم ہے کہ جن حقیقتوں کو بر وقت سنجیدگی سے نہیں سمجھا گیا اور ان کا طوطی سر پر چڑھ کے بولنے لگا تو اس کے نتیجے میں جو ذہنی روییّ مسلمانوں میں وجود میں آئے ان میں ایک چیز یہ بھی تھی کہ اس دور میں مسلمانوں نے عمومی طور پر فاعلی اور مؤثرانہ کردار (active role ) کی بجائے انفعالی اور مؤثرانہ کردار (passive role ) کو قبول کرلیااور انہوں نے یہ باور کرلیا کہ ہم وہ نہیں جو کچھ کرتے ہیں بلکہ وہ ہیں جن کے ساتھ کچھ ہوتاہے۔ سوال یہ نہیں کہ ہم نے کیا کیا یا کیا کر رہے ہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ ہمارے ساتھ کیا ہوا یا ہورہا ہے۔ اگر کوئی بہتری کی امید کی بات بھی ہے تو اس کا بیان یہ نہیں کہ ہم یہ کریں گے یا کرسکتے ہیں ، بلکہ یہ کہ کیسے اور کون نجات دہندہ بن کر آئے گا اور ہمیں بچائے گا اور آگے لے جائے گا۔ اس طالب علم کے خیال میں مسلمانوں کے ذہنی رویّوں میں اس پہلو کاتفصیلی مطالعہ خاصی دلچسپی کا حامل ہوسکتاہے۔ شاید اسی پہلو کا ایک فکری مظہر یہ بھی ہے کہ مثلا بر صغیر ہی میں آزادی کے حوالے سے یا مستعمرین کے ساتھ تعلق کے حوالے سے جو لٹریچر زیادہ مقبول عام ہوا وہ دو طرح کا تھا، ایک وہ جس میں حکم ران قوم سے بناکر رکھنے کی ترغیب تھی، دوسرے وہ جو اس کے بالکل برعکس سوچ کا عکاس تھا۔ اول الذکر کے بارے میں تو یہ بات عام طور پر کہی ہی جاتی ہے کہ وہ مرعوب ذہنیت کا شاخسانہ تھا۔ اسی کے ساتھ یہ سوال بھی تحقیق سے وابستہ لوگوں کے قابلِ توجہ ہے کہ موخر الذکر نوعیت کا جو لٹریچر اور فکری مواد وجود میں آیا، خاص طور تحریکِ خلافت اور تحریکِ ترکِ موالات جیسی بڑی تحریکوں کی کوکھ سے جس لٹریچر نے جنم لیا کیا یہ سب کچھ مستقل بالذات تھایا اس کا بھی کچھ تعلق یورپ ہی کی ان طاقتوں سے تھا جو انگریزوں کے مدّ مقابل تھیں اور انہیں ہندوستان میں ناکام دیکھنے کی خواہش مند تھیں۔ یعنی کہیں ایسے تو نہیں تھا کہ دونوں قسم کا جوفکری مواد اور لٹریچر وجود میں آرہا تھا یا عملی سیاست کے میدان میں جو کچھ ہورہا تھاوہ بھی در حقیقت ہمارے آپس کے مباحثے سے زیادہ یورپ کی بڑی طاقتوں کی جنگ ہی ہم شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنی سرزمین پر لڑ رہے تھے۔ اگر ایسا ہی تھا تو اس سے مزید سمجھا جاسکتا ہے کہ ہم فاعلی (active) کی بجائے کتنے انفعالی (passive) تھے۔
یہاں تو یہ بات ضمناً آگئی ، اصل مقصود یہ عرض کرنا تھا کہ مسلمانوں کی سیاسی مغلوبیت بلکہ سیاسی غلامی کے دور سے نئے سوالات زیرِ بحث آئے جنہوں نے نئی فکری تحریکوں اور رجحانات کو جنم دیا اور اسلامی ادبیات کو ماضی کے ذخیرے کی جگالی اور متون وشروح میں انحصارسے نکال کر اس میں نئی جہات کا اضافہ کیا۔ اس حوالے سے چند میدان یا موضوعات یہاں خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ ان میں سرِ فہرست تو مغرب کے علوم و افکار کے حوالے سے یہ طویل بحث ہے کہ مسلمانوں کو ان کے ساتھ کیا رویہ اور انداز اختیار کرنا چاہئے، یہ بحث گذشتہ صدی ڈیڑھ صدی کا ہمارا اہم فکری ورثہ اور سرمایہ ہے۔ ان حالات کے نتیجے میں دوسری نوعیت کا اہم مواد وہ ہے جو دنیا کے بڑے مذاہب بالخصوص اسلام اور عیسائیت یا اسلامی تہذیب اور دیگر تہذیبوں کے تقابلی مطالعے کے حوالے سے وجود میں آیا۔ تیسرا اور شاید سب سے اہم میدان جس پر مسلمانوں کے اعلی ترین دماغوں کی توجہ مرکوز رہی وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ تھی۔ اس لئے کہ مسلمان اپنی پسماندگی کو تو دیکھ اور بھگت سکتے تھے لیکن کسی بھی طرح اس کا کوئی ادنی سا دھبہ یا اس کی ادنیٰ سی ذمہ داری بھی اپنے نبی کی ذاتِ مبارکہ پریا ان کی تعلیم پر گوارا نہیں کرسکتے تھے۔ اس لئے مسلمان مفکرین نے سیرتِ طیبہ کونئے انداز سے موضوعِ بحث بنایا۔ پچھلی صدی ڈیڑھ صدی میں سیرت پر ایسا وقیع کام سامنے آیا ہے جو شاید اس سے پہلے کے ہزار سال کے کام پر حاوی ہو۔ چوتھا میدان مطالعہ قرآن تھا۔ اس دورِ غلامی و پسماندگی نے مطالعہ قرآن کو بھی نئی جہتیں بخشیں اور تفسیرنگاری کے کئی نئے رجحانات متعارف ہوئے۔پانچواں میدان قانون ، معیشت ، سیاست وغیرہ پر مغربی علوم وتجربات کا مطالعہ کرکے ان پہلووؤں پر اسلامی نقطہ نظر کی وضاحت تھی۔ اس پانچویں میدان میں زیادہ کام شاید مابعد استعمار کے دور میں ہوا اور اس میں مسلمان ملکوں کے ریاستی سرپرستی میں قائم اداروں کا نمایاں حصہ رہا۔ اس کامطلب یہ ہوا کہ اس دور میں مسلمانوں کی نفسیات میں جہاں passiveness کا عنصر موجود تھا وہیں اس وقت کی صورتِ حال میں ایک اضطرابی کیفیت بھی موجود تھی، جو کہ مکمل غلامی نے ان میں پیدا کردی تھی، اور مذکورہ بالا پانچ میدانوں میں جو کام ہوا وہ اسی اضطراب اور بے چینی کی کیفیت کا اچھا ثمر تھا، جس کا یہ مطلب بھی لیا جاسکتا ہے کہ یہ غلامی کا بالواسطہ طور پر ثمر تھا اور یہ کہ غلامی نے مسلمانوں میں خاص قسم کی فکری بیداری پیدا کی اور انہوں نے ان سے بھی سیکھا جنہیں وہ اپنا حریف سمجھتے تھے۔
تراث کا احیا ، اس کی عصری انداز سے پیش کاری ، اس کی توضیح وتنقیح اور اس کے تجزیہ وتحلیل جیسے کاموں کو چھوڑ کر اس دورمیں ہونے والی تحقیقی اور فکری کاوشوں کے جو مقاصد رہے انہیں تین بنیادی نکتوں میں بیان کیا جاسکتاہے۔ سب سے پہلے تو اسلامی تعلیمات کی مغرب پر برتری کو ثابت کرنا، خواہ وہ جارحانہ اور پیش قدمی کے انداز سے ہو یا معذرت خواہانہ۔ اس لئے کہ معذرتی منہج کا مقصد بھی مغرب کو یہ باور کرانا تھا کہ جو کچھ تم کہہ رہے ہو اسلام بھی وہی کہہ رہا ہے اور بہت پہلے سے کہہ رہا ہے، اس لئے اسلام کو تم پرسبقت کا شرف حاصل ہے۔دوسرا مقصد اس سوال کا جائزہ لینا رہا کہ بدلتی ہوئی دنیا میں زندگی کے مختلف شعبوں میں اسلامی تعلیمات پر عمل کو کیسے ممکن بنایا جائے۔ تیسرے امت مسلمہ جس نے صدیوں تک دنیا کی قیادت کی ہے اسے یہ مقام دوبارہ کیسے حاصل ہو۔
مذکورہ بالا مقاصد کے تحت اوپر ذکر کردہ ہر میدان میں متنوّع رجحانات سامنے آتے رہے ، جن میں سے بعض تو ایک دوسرے سے بالکل الٹی سمت پر چلتے ہوئے نظر آتے تھے۔ لیکن یہ سب مل جل کر مجموعی طور پر ایک ہی بڑے عمل کا جزو لا ینفک ہیں۔ بات در اصل یہ ہے کہ پہلی مرتبہ جب اسلام سربلند ہورہاتھا اس کی بنیاد بھی علم تھی ، جیسا کہ غارِ حرا میں نازل ہونے والی پہلی وحی سے واضح ہے۔ لیکن اس دور کی اہم خصوصیت یہ تھی کہ پالیسی کے جزوی معاملات میں بھی اللہ کے نبی کی قیادت سے مسلمان براہِ راست سرفراز تھے جنہیں یا تو جزوی معاملات میں بھی اللہ کی طرف سے وحی کی راہ نمائی حاصل ہوتی تھی یا کم از کم فراستِ نبوت ضرور شاملِ حال ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ اللہ کی طرف سے عمومی وعدہ? نصرت کے ساتھ بعض جزوی مواقع پر بھی نصرت کا خاص وعدہ شامل حال ہوتا تھا (جیسا کہ غزوہ بدر میں ہوا) جس کی وجہ سے اس عمل کی رفتار غیر معمولی حد تک تیز تھی۔ اب اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی بنیاد بھی علم پر ہی ہوگی۔لیکن ختمِ نبوت کے نتیجے میں نئی صورتِ حال کے مطابق سارا کام اس امت ہی کو کرنا ہے، اور اس دنیا کو دار الاسباب سمجھ کر کرناہے ، اس لئے کہ جس نوعیت کا وعدۂ نصرت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا اْس خاص نوعیت کا بعد میں کوئی دعویٰ نہیں کرسکتا۔ اسلام اور امتِ مسلمہ کی سربلندی ایک واقعہ یا event نہیں ہوگا بلکہ ایک پروسس ہوگا۔ ایسا نہیں ہوگا کہ کوئی آئے اور چھا جائے ، پہلے امت کے حالات کو درست کرے پھر باقی دنیا کو۔ بلکہ ختمِ نبوت کا ایک لازمی تقاضا ہے کہ ذمہ داری پوری امت پر عائد کی گئی ہے۔ اس لئے سارے پروسس میں امت کی بحیثیت امت شرکت ضروری ہوگی، جس کے لئے یہ ایک لازمی امرہے کہ مذکورہ بالا مقاصد کے لئے امت کا ہر طبقہ اپنی صلاحیتیں بروئے کار لائے۔اس کے لئے بحث وفکر اور ڈسکشن کا ایک عرصہ درمیان میں آنا ضروری لازمی ہے اور یہ بھی لازمی ہے کہ اس ڈسکشن میں امت کے مختلف طبقات شریک ہوں۔ انیسویں صدی سے جب سے احساسِ زیاں اجاگر ہوا ہے تب سے اب تک امت ڈسکشن کے اسی مرحلے سے گذر رہی ہے۔ یہ مرحلہ مزید دراز ہوگا ، لیکن یہ عرصہ تنزل کی طرف سفر کے عرصے سے یقیناًکم ہوگا۔ یہ ایک مثبت پہلو ہے کہ امت اگر اقوامِ عالم میں اپنا مقام بنائے گی تو کسی خاص طبقے کی برتری کے ذریعے نہیں بلکہ ایک طویل ڈسکشن کے نتیجے اور امت کے اجتماعی ضمیر کے ثمرے کے طورپر۔ یعنی بظاہر ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا کہ کوئی خاص طبقہ آئے اور چھا جائیبلکہ جو راہ بھی ہوگی وہ امت اپنیاجتماعی تجربات اور اجتماعی دانش کی روشنی میں طے کرے گی یا کسی راہ کو قبول کرے گی، ظاہرہے اس عمل میں وقت لگنا فطری امر ہے۔بہر حال کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس دور کی طوالت یا متضاد آوازوں کی وجہ سے بظاہر محسوس ہونے والی پراگندگی سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، بلکہ یہ سب کچھ ایک ارتقائی عمل کا لازمی حصہ ہے۔ اس ڈسکشن میں صرف متنوع ہی نہیں متضادات رجحانات کو ایک گھڑی کے کل پرزوں کی طرح سمجھا جاسکتاہے۔ ایک گھڑی کو اگر کھول کر دیکھیں تو اس کے مختلف گول گول پرزے ایک دوسرے سے الٹ سمت میں حرکت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن ان سب کی حرکت کا آخری نتیجہ ایک ہی نکل رہا ہوتا ہے اور وہ ہے وقت کی نشان دہی۔
دورِ آزادی میں
جنگِ عظیم دوم کے بعد نئے عالمی حالات کے تحت دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ مسلمان ملکوں کو بھی ایک ایک کرکے آزادی ملنے کا سلسلہ شروع ہوا تو متعدد ملکوں میں تحقیقی کام کے لئے ریاستی سطح پر بھی ادارے وجود میں آنے لگے۔ یہاں ہم صرف پاکستان کے تناظر تک بات کو محدود رکھنے کی کوشش کریں گے، جن میں دور ادارے خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں، ایک اسلامی نظریاتی کونسل اور دوسرے ادارہ تحقیقاتِ اسلامی۔ اس لئے کہ ان دونوں کو دستوری بنیاد حاصل رہی ہے ، موخر الذکر کو ۱۹۶۲ء کے دستور میں ، اور اول الذکر کو اب بھی حاصل ہے۔ یہاں ان اداروں یا ان جیسے اداروں کی کار کردگی کا تفصیلی جائزہ لینا مقصود نہیں ہے ، بلکہ ان کے کام کے چند عمومی خد وخال اور آئندہ کے کام کے لئے چند تجاویز پیش کرناہے۔آج جبکہ ہم ادارہ تحقیقات اسلامی جیسے وقیع ادارے کی باون منازلِ عمر کی تکمیل پر خوشی کا اظہار کررہے اور اس کے کارناموں کا جائزہ لے رہے ہیں تو اس موقع پر اس طرح کے اداروں میں نئی زندگی پیدا کرنے کے لئے مناسب ہوگا کہ وقت کی نبض اور رجحانات و امکانات کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی تحقیق میں نئی جہتیں دریافت کرنے کی کوشش کریں۔ خصوصا وہ جہتیں جو result oriented ہوں۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہاں دوقسم کے کاموں میں فرق پیشِ نظر رہنا چاہئے۔ ایک وہ کام ہے جو کیا تو کسی فرد یا چند افراد نے ہوتا ہے البتہ کسی ادارے نے انہیں اس کام کے لئے درکار سہولتیں اور وسائل فراہم کئے ہوتے ہیں یا کسی فرد نے اس ادارے کا حصہ ہونے کے دوران اور اس حیثیت میں کام کیا ہوتاہے یا اس ادارے نے اس کام کی طباعت واشاعت کا فریضہ انجام دیا ہوتاہے۔ دوسری قسم کا کام وہ ہے جو باقاعدہ ایک ٹیم ورک اور اجتماعی کاوش کا نتیجہ ہوتاہے۔ تعبیر میں سہولت کے لئے آنے والی سطور میں ہم پہلی قسم کے کام کو اداروں کا کام اور دوسری قسم کے کام کو ادارہ جاتی کام کہیں گے۔ دونوں نوعیت کے کاموں میں سے کسی کی بھی نہ تو اہمیت سے انکار کیا جاسکتاہے اور نہ ہی اس کام کو کسی ادارے کی حسنِ کار کردگی میں داخل کرنے سے۔ تاہم کام کے موضوعات اور میدانوں کے انتخاب میں یہ امر مدِ نظر رکھنا اہم ہے۔ اس لئے کہ بعض کام ایسے ہیں جو صرف موخر الذکر انداز سے ہی انجام پاسکتے ہیں، اس لئے بڑے بڑے اداروں سے بجا طور پر یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ ان کاموں اور منصوبوں کو اہمیت دیں جن کے لئے دوسری نوعیت کی کاوشیں زیادہ فائدہ مند ہوتی ہیں۔
اگر یہ سوال کیا جائے کہ کون سے موضوعات اور میدان ہائے تحقیق ہمارے تحقیقی اداروں کی توجہ کا زیادہ مرکز رہے ہیں ، بالخصوص بات اداروں کے کام کے حوالے سے نہ کی جائے بلکہ ادراہ جاتی کاموں کے حوالے سے کی جائے تو پہلی بات تو یہ سامنے آتی ہے کہ اس تحقیقی کام کا زیادہ تر محور ریاست رہی ہے۔ یعنی یہ سوال رہا ہے کہ ریاست کے کرنے کے کام کیا ہیں اور وہ اپنی ان ذمہ داریوں کو کیسے پورا کرے۔ ان کاوشوں کا بھی شاید سب بڑا محور قانون اور دوسرے نمبر معیشت رہی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے تو مینڈیٹ میں ہی بنیادی بات یہ تھی۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے بارے میں دستور کی دفعہ ۲۳۰ کی شق (۱) کی ذیلی شق a میں اگرچہ کونسل کا ایک کام یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ ایسی تجاویز تیار کرے جن کے ذریعے مسلمانانِ پاکستان کو اس قابل بنایا جاسکے کہ وہ اپنی اجتماعی اور انفرادی زندگیوں کو اسلامی ہدایات اور تصورات کے مطابق ڈھال سکیں۔ اس طرح سے اس دفعہ کا یہ حصہ محض قانون کی بجائے بحیثیتِ مجموعی زندگی کو موضوعِ بحث بناتا ہوا نظر آتا ہے ، لیکن اسی شق میں ان تجاویز کا مخاطب مقننہ کو بنایا گیا ہے نہ کہ منتظمہ کو اور یہ کہا گیا ہے کہ کونسل اپنی یہ تجاویز پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلیوں کو پیش کریں گی جن کا بنیادی وظیفہ قانون سازی ہے، اس طرح سے معاملہ پھر قانونی نوعیت اختیار کر جاتاہے۔ بہر حال اسلامی نظریاتی کونسل اپنے مینڈیٹ کے مطابق اپنے فرائض انجام دیتی چلی آرہی ہے۔ اصل بات جو کہنا مقصود ہے کہ وہ یہ ہے کہ اگرچہ قرادادِ مقاصد ، مختلف آئینی دفعات اور متعدد اہم دستاویزات میں زندگی کو اسلامی ڈھانچے میں ڈھالنے کی بات تو کی گئی لیکن یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ پاکستان بننے کے بعد کی کئی دہائیاں بڑی حد تک اس مفروضے پر لگ گئیں کہ قانون ٹھیک ہوجانے سے سب کچھ ٹھیک ہوجاتاہے۔ اس طرح سے زندگی بحیثیت مجموعی ہمارے محققین بالخصوص تحقیقی اداروں کی اتنی زیادہ توجہ حاصل نہ کرسکی جتنی قانون نے حاصل کی۔ پھر قانون خود بھی لوگوں تک انصاف پہنچانے کے نظام کا محض ایک حصہ ہے ، جبکہ فراہمی عدل کے عمل کے اور بھی کئی اجزا اور عناصر ہوتے ہیں ، یہ اجزا اور عناصر بھی شاید اتنی توجہ حاصل نہیں کرسکے جتنی خود قانون نے حاصل کی ہے۔
اوپر تحقیق کے جو بنیادی مقاصد ذکر کئے گئے ہیں ان میں ایک مقصد اس سوال پر غور ہے کہ موجودہ دور میں انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو کس طرح اسلامی تعلیمات کے مطابق بنایا جائے۔ اس سوال کے اعتبار سے اب تک کے کام کا زیادہ تر نقطہ ارتکاز ریاست رہی ہے جبکہ ریاست زندگی پر اثر انداز ہونے والا ایک اہم عنصر ضرور ہے اور شاید جدید دور میں ریگولائزیشن کے کردار کی وجہ سے اس کی اہمیت گھٹنے کی بجائے بڑھ رہی ہے تاہم زندگی پر اثر انداز ہونے والا یہ واحد عنصر نہیں، اور بھی کئی عناصر موجود ہیں۔ بالخصوص حالیہ دور میں کئی ایک نے کافی زیادہ اہمیت حاصل کرلی ہے۔ یہاں یہ عرض کرنا ہے کہ محض ریاست کے کردار کی بھی بات کی جائے تو اس کے زندگی پر اثر انداز ہونے کے دو رخ ہیں۔ ایک یہ کہ ریاست کے پاس جبر کی طاقت موجود ہوتی ہے ، اپنے اس اختیار کے ذریعے سے وہ لوگوں کو خاص کام کرنے یا نہ کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ قانون کوئی بھی ہو اور کتناہی اچھا ہو بہر حال ہوتا ایک جبرہی ہے۔ ریاست کے زندگی پر اثر انداز ہونے کا دوسرا رخ ریاستی پالیسی ہے۔اس زاویے سے ریاست براہِ راست لوگوں کو مجبور کرنے کی بجائے عمومی پالیسی ایسی بناتی ہے جس سے خاص ماحول وجود میں آتا ہے اور لوگ خاص رخ پر چلنے لگتے ہیں۔ اب تک ایک طرف تو کام کی زیادہ ترکیز ریاست پر رہی ہے ، دوسرے ریاستی کردار میں بھی پہلے رخ کو زیادہ توجہ ملی ہے۔ دوسرے رخ کو خاص توجہ نہیں مل سکی۔
آگے بڑھنے سے پہلے یہاں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کرنا مناسب معلوم ہوتاہے کہ آج کا دور اعداد وشمار، سرویز اور میدانی تحقیق کا دور ہے جس کے ذریعے ایک طرف توعملی حقائق کو ریاضیاتی اور سائنسی انداز سے معلوم کیا جاتا ہے دوسری طرف کسی بھی اختیار کی جانے والی پالیسی یا اقدام کے ممکنہ اثرات و نتائج کو جانچ کر اس کے بارے میں کافی حد تک درست اندازے لگانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آج ہر کامیاب پالیسی کے پیچھے شماریات اور میدانی تحقیق کی طاقت موجود ہوتی ہے۔ صرف حکومتیں ہی نہیں کاروباری اور غیر کاروباری ادارے بھی کوئی نیا قدم اٹھانے سے پہلے اس طرح کی سہولتیں مہیا کرنے والے اداروں سے رجوع کرتے ہیں۔ وقت گذرنے کے سا تھ ساتھ اس رجحان میں اضافہ ہورہا ہے اور لوگوں میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ شماریاتی تحقیق پر مبنی منصوبہ بندی زیادہ کامیاب ہوتی ہے۔ لیکن اسلامی تحقیق شاید اس رجحان سے خاطر خواہ متعارف اور اس سے استفادے کی طرف ابھی مائل نہیں ہوپائی۔صرف قانونی تحقیق ہی کی بات ہو تو اس میں بھی اس ذریعے کو استعمال کرکے زیادہ ثمر آور نتائجِ تحقیق حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ اس لئے کہ یہ بات تو فقہائے اسلام کے ہاں بھی مسلمہ ہے کہ فقیہ کو امرِ واقعہ سے واقف ہونا چاہئے۔ پورے معاشرے کی سطح پر امرِ واقعہ کا ادراک کیسے ہوگا ، میڈیا کی نمایاں سرخیوں اور ہیڈ لائنز سے ، بعض مفاداتی گروہوں کے پروپیگنڈے سے یا شماریاتی ریاضیاتی اور سائنسی طریقہ کار اس کے لئے بہتر ہوگا۔
بہر حال اسلامی تحقیق کے سلسلے میں ادارہ جاتی سطح پر اب تک جو کام ہوا ہے اس کی قدر وقیمت اور اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کام کو آگے بڑھانے کے لئے ایک تو تحقیقی کاموں بالخصوص ادارہ جاتی تحقیق کی ترکیز صرف ریاست یا قانون سے پھیلا کر پوری زندگی کو موضوعِ بحث بنائے جانے کی ضرورت ہے۔ بالخصوص ہمارے معاشرے اور سماج کو۔ کسی چیز کو قانون بناکر نافذ کردینا بہت آسان ہوتا ہے ، لیکن اگر یہ سوال ہو کہ اسی چیز کو کسی سماج کے لئے قابلِ قبول کیسے بنا یا جائے ، یا نظریاتی اور اصولی طور پر جو چیز اس معاشرے میں قابلِ قبول ہے کے روبہ عمل آنے میں حائل رکاوٹوں کو سمجھ کر انہیں دور کیسے کیا جائے تو یہ کام محض قانون سازی کے مقابلے میں خاصا محنت طلب اور وقت طلب کام ہے۔ اس عمل میں کئی نزاکتوں اور سماجی حقائق کو مد نظر رکھنا ہوتاہے۔
اس حوالے سے یہاں عہد نبوی سے دو مثالیں ذکر کرنے پر اکتفا کروں گا۔ ایک مثال تو یہ ہے کہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ سے مروی ایک روایت کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خواہش تھی کہ فتحِ مکہ کے بعد بیت اللہ کی از سرِ نو تعمیر کی جائے اور یہ کہ اس مرتبہ کی تعمیر‘ زمانہ قبل از بعثت کی قریشی تعمیر کی بجائے اصل ابراہیمی بنیادوں اور نقشے (قواعد ابراہیم) پرہو۔ لیکن نبی کریم کو اندازہ تھا کہ اس کام کے ماحول اور معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، ان کے پیشِ نظر آپ نے اس ارادے پر عمل نہیں فرمایا۔ دوسری مثال یہ ہے کہ خاندانی ماحول اور رسم و رواج میں قریش اور انصار کے درمیان بہت سے فرق موجود تھے۔ ہجرت کے بعد جب دونوں طرف کے خاندانوں کا میل ملاپ شروع ہوا ، بلکہ ایک دوسرے کے ہاں شادیاں بھی ہوئیں تو پہلے سے موجود ان فروق کی وجہ سے کئی مسائل پیدا ہوئے ، ان مسائل ومعاملات کو حضور اقدس نے کیسے ہینڈل کیا، یہ مطالعہ حدیث وسیرت کا ایک مستقل موضوع ہے۔ یہاں مثال کے طور پر یہ بات عرض کرنا ہے کہ عربوں کے ہاں گھریلو ڈسپلن قائم رکھنے کے لئے عورتوں کومارنا ایک عام سی بات تھی۔ خصوصاً قریش میں انصار کے مقابلے میں یہ چیز زیادہ تھی۔ جبکہ انصار میں مردوں کی عورتوں پر اتھارٹی کم تھی۔
اسلام کا اصل مزاج تو یہ ہے کہ کسی جانور کو بھی بلا وجہ نہیں مارنا چاہئے ، اپنے غلاموں اور باندیوں تک کو مارنے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت وعیدیں ارشاد فرمائیں۔ ایک موقع پر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو مسعود انصاری کو دیکھا کہ وہ اپنے ایک غلام کو مار رہے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ ابو مسعود! یہ ذہن میں رکھو کہ جتنا بس تمہارا اس غلام پر چلتاہے اس سے زیادہ قدرت اللہ تعالی کو تم پر حاصل ہے۔ یہ بات سن کر ابومسعود انصاری نے اس غلام کو فوراً آزاد کردیا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم ایسا نہ کرتے تو تمہیں دوزخ کی آگ میں جھلسنا پڑتا۔ حالانکہ ابو مسعود بدری صحابی ہیں، اور بدر میں شرکت ایسی نیکی ہے جس کی وجہ سے اللہ کی طرف عام مغفرت کا وعدہ ہے۔ جب ایک زر خرید غلام یا باندی کو مارنے کے بارے میں اسلام کا مزاج یہ ہے کہ تو شریکِ حیات کے بارے میں اس کی تعلیم کیا ہوسکتی ہے‘ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
غلاموں کو مارنے پر پابندی کا اطلاق تو بہت آسانی سے ہوگیالیکن جب عورتوں کا معاملہ آیا تو کچھ پیچیدگیوں کا بھی سامنا ہوا۔ ابتدا میں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حتمی طور پر اس سے منع فرمادیا۔ لیکن اس پر بعض لوگوں کی طرف سے یہ شکایت سامنے آئی کہ اب تک چونکہ جو ڈسپلن چلا آرہا تھا اس میں مار پر پابندی نہ ہونے کا بھی دخل تھا،اب یک دم پابندی لگنے سے معاملات درست نہیں رہے۔ روایات کے لفظ ہیں کہ عورتیں جری اور بے باک ہوگئی ہیں۔ آ ں حضرت نے عارضی طور پر یہ پابندی اٹھالی۔ اس پر ان عورتوں کی طرف سے شکایات کا تانتا بندھ گیا جو زمانہ جاہلیت سے اگرچہ مار سہتی چلی آرہی تھیں، اب چنددن انہوں نے اس مار پر پابندی کا مزا چکھ لیا تھا۔ اس موقع پر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ عورتوں کی طرف سے اپنے مردوں کے خلاف اس طرح کی شکایات بکثرت آرہی ہیں، جن مردوں کے بارے میں اس طرح کی شکایتیں آرہی ہیں وہ کوئی اچھے لوگ نہیں ہیں۔ گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محسوس فرمایا کہ مقصود اگرچہ بڑا ہے، لیکن اس کے حصول کے لئے اخلاقی راستہ اختیار کرنا زیادہ بہتر ہوگا۔
یہاں بذاتِ خود اس مسئلے پر بات کرنا مقصود نہیں ہے، بلکہ یہ عرض کرنا ہے کہ اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی موثر ہستی موجود ہو اور صحابہ جیسے اطاعت شعار لوگ موجود ہوں وہاں بھی سماجی اور معاشرتی حقیقتیں اپنا اثر کس طرح دکھاتی ہیں اور کسی تبدیلی کے لئے کس طرح سے تدریجی طریقہ اختیار کرنا پڑتاہے۔سماج کا سدھار اول تو ہماری توجہ کا مستحق بنتاہی کم ہے ، اگر بن جائے تو اسے کسی تحقیقی کاوش کا محتاج سمجھنے کی بجائے محض واعظانہ کام سمجھ لیا جاتا ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات پر عمل درآمد کے سلسلے میں جب ہم سماج کو موضوعِ تحقیق بنائیں گے وہاں خاصا کام کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اس لئے کہ بحیثیت مجموعی انسانی معاشرے کی حرکیات اور رویے ہوتے ہیں۔ کسی چیز کو کوئی معاشرہ اپنے اندر کیسے جذب کرتا ہے، اپنی اختیار کردہ قدروں ، رسم رواج یا عادات کو کب کیوں ہر قیمت پر سینے سے لگانے کی کوشش کرتاہے اور کب اپنی اختیار کردہ چیزوں ہی کو dispose off کردیتاہے، نئی چیزوں کو کب کیسے اور کیوں قبول کرنے کے لئے لپکتا ہے اور کب کیسے اور کیوں کسی نئی چیزکے بارے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔ یہ سب باتیں وہ ہیں جنہیں سمجھنا سماج پر مبنی اسلامی تحقیق کے لئے اسی طرح ضروری ہے جس طرح متعدد شعبوں میں فقہ اسلامی سے واقفیت کے ساتھ موجودہ قوانین جاننے کو ضروری سمجھا جاتا رہاہے۔ پھر ہر ماحول اور سماج کا اپنا الگ مخصوص مزاج اور رنگ ہوتاہے اس کا مطالعہ بھی ناگزیر ہے۔
سماجی سطح پراسلامی نقطہ نظر سے جو بھی کام ہوگا اس کا محورمعروف اور منکر کے تصورات ہوں گے۔ ایسے کام کے کئی زاویے ہوسکتے ہیں۔ اطلاقی اور عملی تحقیق سے پہلے کچھ اصولی سوالات پر کام اہم ہوگا۔ مثلا معروف اور منکر کا معیار کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سب سے اہم معیار تو نص ہے۔ لیکن اس کے علاوہ معروف اصول ما رآہ المسلمون حسنا فھو عند اللہ حسن کے مطابق خود مسلمان معاشرے کو اس کے طے کرنے میں ایک کردار دیا گیا ہے ، اس کی حدود کیا ہیں۔ پھر عملی اور اطلاقی پہلو سے کئی چیزیں دیکھنے کی ہیں۔ مثلاً ایک یہ کہ وہ کون سے معروف ہیں جنہیں کسی خاص اور متعین ماحول میں قابلِ قبول قدر کا درجہ حاصل ہونا چاہئے تھا لیکن حاصل نہیں ہے ، یا کون سا منکر ہے جس کے منکر ہونے کا احساس ایک خاص ماحول میں موجود نہیں ہے۔ اس کے اسباب کیا ہیں۔اور اس کے تدارک کے لئے کیا کیا تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں۔
دوسرے یہ کہ وہ کون سے معروف ہیں جو کسی ماحول میں سمجھے تو معروف ہی جاتے ہیں یعنی نظریاتی طور پر ایک اچھی قدر کے طور پر متعارف ہیں ، لیکن اس کے عملی اثرات نظر نہیں آتے ، یا کسی منکر کو نظریاتی طور پر منکر تو سمجھا جاتا ہے لیکن عملاً اس ماحول یا معاشرے میں اس کا وجود عام نظر آتا ہے۔ اس کے اسباب کی کھوج لگانا ، کہ ایک کام کو اچھا سمجھتے ہوئے لوگ اسے کیوں نہیں کر پارہے یا برا سمجھتے ہوئے اس سے کیوں نہیں بچ پارہے۔ اسباب کی کھوج لگانے کے بعد اس کے تدارک کے ذرائع سوچنا۔
تیسرے یہ کہ معاشروں کے ایک دوسرے سا تھ میل ملاپ اور دیگر محرکات کے نتیجے میں ان کے طرزِ زندگی بلکہ طرزِ فکر میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ کبھی یہ تبدیلیاں خود آرہی ہوتی ہیں اور کبھی پیدا کی جارہی ہو تی ہیں۔ ان پر نظر رکھنا اور ان کے بارے میں مناسب پالیسی طے کرنا۔ یہ کام اتنے سادہ نہیں ہیں کہ انہیں یا تو وعظ ونصیحت کے شعبے پر چھوڑ دیا جائے یا چند لٹھ بردار گروہوں کے رحم پر۔ یا پھر ایسے گروہوں کی مذمت کو کافی سمجھ لیا جائے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ کام اداروں کی سطح پر ٹیم ورک کے طور پر سائنسی بنیادوں پر کرنے کے ہیں۔ اس میں جہاں شماریاتی اورمیدانی تحقیق سے کام لینے کی ضرورت ہے وہیں انسانی رویوں کے علوم (Behavioural Sciences ) سے بھی گہرے استفادے کی ضرورت ہے۔ اس سے بھی پہلے اسلامی مصادر بالخصوص سیرت طیبہ کی روشنی میں سماجیات پر اثر انداز ہونے یا ان کے ساتھ کوئی رویہ روا رکھنے کے طور طریقوں کے بارے میں بنیادی اصول منقح کرناہوں گے۔پھر سارے تحقیقی کاموں کو بنیاد بناکر ریاستی ادارے ، میڈیا ، تعلیمی اداروں ، تفریح سازوں ، ادبا وغیرہ زندگی پر اثر انداز ہونے والے تمام طبقات کے لئے آسان گائیڈ لائن تیار کرنا ہوگی۔
یہ سوال اسلامی تحقیق کاروں کے لئے بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے معاشرتی ریشے اور بافتے صرف کمزور ہی نہیں ہورہے ، ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں ہم آدھا تیتر آدھا بٹیر بننے کی بجائے تیتر نہ بٹیر والی صورتِ حال کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ معاشرے میں کیا قدریں مروج ہونی چاہئیں، کیا چیز سماجی طور پر قابلِ قبول ہونی چاہئیں کیا نہیں اس حوالے سے کہیں خلا تو پیدا نہیں ہورہا کہ یہ کام کسی منصوبے ، سوچ بچار ، مباحثے وغیرہ پر مبنی ہونے کی بجائے ان چیزوں کو چند سوشل پلیئرز مثلاً میڈیا، یا میڈیا کے بھی ایک حصے اشتہاراتی صنعت کے حوالے کردیا ہو، وہ چاہے تو کچھ عرصے میں معاشرے کے لئے ایسی چیزوں کو بھی قابلِ قبول بنادے جو کچھ عرصہ قبل ناقابلِ قبول تھیں۔
ہمارے ہاں یہ شکایت بکثرت کی جاتی ہے کہ مغرب یا فلاں فلاں طاقتیں یا لابیاں ہمارے معاشرے میں فلاں فلاں غلط چیزوں کو بڑی منصوبہ بندی سے فروغ دے رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایک کام ایک انسانی گروہ کرسکتا ہے تو دوسرا کیوں نہیں کرسکتا۔ اگر انسانی معاشرے ، اس کے رویوں اور اس کی سوچ میں غلط تخم کاشت ہوسکتاہے تو اچھا تخم کیوں کاشت نہیں ہوسکتا۔ مذہب اور سماجیات کے باہم ملاپ پر مبنی تحقیق کی روایت غالبا مغر میں موجود نہیں ہوگی ، اس لئے کہ وہاں مذہب صرف نمائشی رہ گیا ہے لیکن کیا ہمارے مغربی نمونے کے بغیر کوئی نئی تحقیقی روایت قائم کرنا ممنوع ہے؟بات شاید وہی ہے کہ ہم بحیثیت مجموعی اپنے لئے فاعلی کردار کی بجائے انفعالی کردار (passive role ) قبول کرچکے ہیں۔ اگر اس سے نکلتے بھی ہیں تو active یا proactive ہونے کی بجائے reactive ہوجاتے ہیں۔
یہ باتیں تو بطور مثال عرض کی جارہی ہیں۔ اصل مقصود یہ کہنا ہے کہ اسلامی تحقیق کے ایک اہم مقصد اسلامی تعلیمات کو آج کی زندگی میں روبہ عمل لانے کے سلسلے میں اب تک جو کام ہوا ہے اس کے دائرہ کار میں وسعت کی بہت زیادہ گنجائش موجود ہے۔
اس ضمن میں ایک اور چیز کی طرف اشارہ کرنا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے مقاصد میں ایک چیز تزکیہ بھی ذکر کی ہے۔خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکارمِ اخلاق کی تکمیل کو اپنی بعثت کا مقصد قرار دیا ہے۔ جس کا حاصل صوفیہ کرام کے مطابق اخلاقِ رذیلہ کی اصلاح اور اخلاقِ فاضلہ کو انسان میں راسخ کرناہے۔ یہ کام یقیناًہماری خانقاہوں اور مشائخ نے انجام دیاہے اور اب بھی کسی حد تک چل رہاہے۔ لیکن کیا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا یہ مقصد صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو خود کو کسی خانقاہ سے وابستہ کرتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے اور یقیناًنہیں ہے ، بلکہ دین کی اساس ہونے کے ناطے یہ پورے مسلم معاشرے کی ضرورت ہے تو پھر ظاہر ہے کہ اس کام کو خانقاہوں ، تصوف کے سلاسل اور وعظ ونصیحت کی مجالس تک محدود کرنے کی بجائے اس مقصد کے لئے عام زندگی پر اثر انداز ہونے والے تمام عناصر کو استعمال کرنا ہوگا۔ یہ کام کیسے ہوسکتاہے ، اس کے لئے بھی مذکورہ بالا نوعیت کے تحقیقی کام کی ضرورت ہے ، جو صرف لائبریری تحقیق تک محدود نہ ہو بلکہ عملی ، میدانی اورشماریاتی تحقیق پر مبنی ہو اور اس میں رویوں کے علوم (Behavioural Sciences ) کی راہ نمائی بھی مفید ہوسکتی ہے۔ صوفیہ کرام افراد کی اصلاح کرتے ہوئے جب کسی رذیلے کی علامت اپنے کسی مرید میں دیکھتے تھے تو یہ جاننے کی کوشش کرتے تھے کہ اس کا منشا اور سبب کیا ہے ، اسے دریافت کرکے علاج کیا کرتے تھے۔ آج یہی کام بحیثیت مجموعی پورے معاشرے پر بھی ہوسکتاہے۔ مثال کے طور پر ہم اگر دیکھتے ہیں کہ لوگوں میں غصہ کنٹرول کرنے اور ضبط وتحمل سے کام لینے کی صلاحیت کم ہے تو ہم اس حوالے سے متعلقہ مہارت رکھنے والے اداروں کے تعاون سے شماریاتی ڈیٹا جمع کرسکتے ہیں کہ عموماً کن کن مواقع پر لوگ جلدی سے ایک دوسرے سے الجھ پڑتے ہیں ، اس معاملے میں جنس ، عمر، تعلیم ، معاشرتی طبقات وغیرہ کے حوالے سے کیا کیا فرق پائے جاتے ہیں۔ کس کس طرح کے لوگوں میں کن مواقع پر یہ چیز زیادہ دیکھنے میں آتی ہے۔ اس کی وجوہات کیا ہوتی ہیں۔ کون کون کس طرح سے اپنے جذبات پر نسبتاً بہتر کنٹرول کرلیتاہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کا ڈیٹا اگر موجود ہو اور اسے استعمال کرنے کا سلیقہ بھی موجود ہو تو عام زندگی کو بھی ایک خانقاہ بنایا جاسکتاہے۔ حاصل یہ کہ معاشرے کو سمجھنے کے لئے میدانی معلومات ، شماریاتی تحقیق اور انسانی رویوں اور سماجیات سے بحث کرنے والے علوم کی مدد سے پورے معاشرے کی تربیت کے بڑے بڑے منصوبے بنائے جاسکتے ہیں۔
اگر خالصتاً ریاست کے حوالے بھی بات کی جائے تب بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بارے میں عموماً دو رجحان پائے جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ ریاست کو اس طرح کے معاملات میں بالکل غیر جانب دار رہنا چاہئے ، دوسرا رجحان یہ ہے کہ اس مقصد کے لئے ریاست کو اپنا اختیارِ جبر بھر پور انداز سے استعمال کرنا چاہئے اور حسبہ بل جیسے قوانین لاگو ہونے چاہئیں۔ جبکہ ایک تیسرا راستہ بھی ہوسکتا ہے کہ ریاست اپنے جبر نہیں اپنی پالیسی کے ذریعے یہ کام کرے۔ یہ کام اگرچہ زندگی پر اثر انداز ہونے والی ہر طاقت کرسکتی ہے لیکن ظاہر ہے کہ ریاست کے پاس زندگی پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت سب سے زیادہ نہیں تو کافی زیادہ ہوتی ہے۔
بہر حال یہ ایک خوشی کا موقع ہے ادارہ تحقیقاتِ اسلامی جیسا وقیع ادارہ اپنی عمر کے باون سال پورے کررہا ہے۔ اس موقع بس یہ حقیر سی طالب علمانہ خواہش پیش کرنا مقصود ہے کہ پاکستان کے تحقیق اداروں میں اب تک ہونے والے کاموں کے جائزے کے ساتھ نئے تحقیقی راستوں کی تلاش بھی جاری رہنی چاہئے۔