(۱)
۲ ذی الحجہ ۱۴۳۶ھ ۱۷ ستمبر ۲۰۱۵ء
بخدمت محترم و مکرم مولانا زاہد الراشدی زید لطفہم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ آپ کے رسالۂ’’ غامدی صاحب کا تصورِ حدیث و سنت‘‘ کا اشتہار الشریعہ میں نظر پڑا تو میری خواہش پراس کی ایک کاپی میاں عمار صاحب نے مجھے بھیجدی ہے۔میں شکر گزار ہوں کہ مستفید ہونے کا موقع ملا۔اللہ آپ کے افادات کو قائم و دائم رکھے۔مگر استفادہ کیلئے شکر گزاری کے ساتھ ایک شکوہ گزاری کی بھی اجازت ہو۔
آپ کی تحریر بتارہی ہے کہ آپ غامدی صاحب کے موقف کو بالکل غلط سمجھ رہے ہیں یہاں تک کہ ’’وَمَن یُّشاقِقُ الرَّسولَ اور وَیَتَّبِع سَبیلَ غیرالمؤ مِنِین کی حدوں کو چھوتا ہوا۔مگر ان کے لئے آپ کے احترام اور برادرانہ مودّت پر اس کا ادنی ٰاثر نہیں دیکھنے میں آتا۔جو آدمی وَمَن یُّشاقِقُ الرَّسول کی حدوں کو چھورہا ہے اس کے لئے بھی برادرانہ مودت و احترام کی گنجائش!
یہ آپ کی جون ۲۰۰۸ کی تحریر ہوئی۔اس پر محترم غامدی صاحب کے شاگرد آپ کو جواب دیتے ہیں جس پر آپ خود محترم ہی کی طرف سے وضاحت کے لئے’’ درخواست‘‘ گزار ہوتے ہیں۔محترم آپ کی’’ گزارش‘‘کو قبول کرتے ہوئے اپنے ماہنامہ’’اشراق‘‘مارچ ۲۰۰۹ء میں وضاحت فرماتے ہیں۔اور اپنے اور علماء کے اختلاف کو محض اصطلاحات کا فرق بتاتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’میرے ناقدین اگر میری کتاب’’میزان‘‘ کا مطالعہ دقتِ نظر کے ساتھ کرتے تو اس چیز کو سمجھ لیتے ۔اور انھیں کوئی غلط فہمی نہ ہوتی۔یہ توقع اب بھی نہیں ۔دین کے سنجیدہ طالب علم البتہ مستحق ہیں کہ اپنے نقطۂ نظرکی وضاحت کے لئے چند معروضات ان کی خدمت میں پیش کر دی جائیں۔‘‘
اس ارشاد کے مطابق ہمارے محترم مولانا زاہد الراشدی اپنے محترم جناب غامدی کی نگاہ میں ’’دین کے (ایک) سنجیدہ طالب علم‘‘سے زیادہ کے خانے میں نہیں آتے۔مگر ہمارے مولانا کا ظرف کہ آگے گفتگو غامدی صاحب کے لئے اس احترام سے بہرحال محروم نہیں ہوئی ہے جو چلا آرہا تھا۔یہاں مجھے اپنے تایا صاحب ؒ کا ایک لطیفہ یاد آرہا ہے۔ طبیعت میں لطافت تھی اور شرک و بدعت کے بارے میں بالکل مولانا اسمٰعیل شہیدؒ کا ذہن رکھتے تھے۔ دوسری طرف محلہ میں شرک وبدعت کی دکانیں بھی چل رہی تھیں۔ اپنا مکان ایسی جگہ واقع تھا کہ سارے محلہ کی گزرگاہ۔تایا صاحب ایسے لوگوں کو نظر میں رکھتے تھے جن کی ان دکانوں میں آمد و رفت ہوتی اورکسی کو مناسب سمجھتے تو حال چال پوچھنے کو بلالیا کرتے۔ایک صاحب سے ان کے مولانا صاحب کاحال پوچھا جو بیمار چل رہے تھے۔ بیچارے سیدھے سے تھے۔بولے کہ بڑے مولی صاب نے جب سے مسجد کی زمین بیچ لخ، تب سے نہیں چار پائی سے اُٹھ پائے۔تایا صاحب نے لطف لیا اور فرمایا:مگر رہے پھر بھی بڑے مولی صاب ہی!
خیریہ تو لطیفہ تھا کہ ذرا دیر کو فضا بدل جائے۔ عرض یہ کرنا تھا کہ غامدی صاحب کے کلام میں جو ادّعائیت ہے یعنی یہ طرزِ کلام کہ
’’ہمارے علماء ان تینوں کے لئے ایک ہی لفظ ’’سنت ‘‘ استعمال کرتے ہیں۔میں اسے موزوں نہیں سمجھتا۔میرے نزدیک پہلی چیزکے لئے ’’سنت‘‘ دوسری کے لئے’’‘تفہیم و تبیین‘‘ اورتیسری کے لئے’’اسوۂ حسنہ‘‘کی اصطلاح استعمال ہونی چاہئے۔‘‘
تو ’’ہمارے علماء‘‘ کے مقابلہ میں یہ ’’میں ان کی اصطلاح کو موزوں نہیں سمجھتا‘‘ اور ’’میرے نزدیک یہ ہونا چاہئے، وہ ہونا چاہئے‘‘۔ کیا اس ہفت آسمانی طرزِ کلام والے ’’کےَ آمدی و کےَ پیر شدی‘‘ لوگوں کے ساتھ یہ سراپا احترام طرزِ گفتگو دینی نقطۂ نظر سے مناسب ہے؟ ان کی اِدعائیت ان کے بطلان کی طرف سے اطمینان کی سب سے بڑی دلیل ہے۔اور صاحبِ مقام علماء کی طرف سے یہ سراپا احترام طرز گفتگو اس پر پردہ ڈالنے والا ہے۔ مجھے یہ عرض کرنے میں معاف رکھئے کہ محترم کے سلسلہ میں الشریعہ کے رئیس التحریر کی یہ حد سے بڑھی کریمانہ روش ایک مدعی کو قابلِ لحاظ بننے میں مددگار ہوئی ہے۔ نہ کیجئے حافظ صلاح الدین یوسف صاحب کے لہجہ میں گفتگو مگراس کا بالکل عکس، یہ تو آپ کے منصب نہیں کہی جا سکتی۔ والسلام
گستاخی کے لئے عفو خواہ،
عتیق الرحمن سنبھلی
(۲)
1989ء میں قائد اعظم یونیورسٹی میں الیکٹرانکس میں داخلہ ہوا تو شروع شروع کے دنوں میں جن کلاس فیلوز سے قریبی تعلق ہوگیا ان میں کراچی کا ایک دوست (نام حنیف فرض کر لیجیے) بہت محنتی اور ملنسار تھا اور پڑھائی اور اسائنمنٹس مکمل کرنے میں بہت ساتھ دینے والا۔ ہم لوگ رات گئے تک پڑھتے۔ ہم کلاس فیلوز سارے پاکستان سے دور دور سے آئے تھے اور ہمارے کچھ کلاس فیلو اردن، شام، فلسطین، سعودیہ، مصر وغیرہ کے بھی تھے۔
حنیف کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ ہر ایک کے کام آنے کی کوشش کرتا۔ کبھی اس کے کمرے میں گئے تو معلوم ہوا کہ فلاں دوست کے ساتھ ڈسپنسری گیا ہوا ہے یا فلاں کی دوا لینے کے لیے آبپارہ مارکیٹ گیا ہوا ہے۔ کوئی گھر سے آ رہا ہے اور اس کا سامان زیادہ ہے تو اسے لینے سٹیشن گیا ہوا ہے (اس دور میں ریل سے سفر ہوتا تھا)۔ ایک مرتبہ ایک اردنی کلاس فیلو کو لے کر سفارت خانے جاتا پایا گیا۔ ایک دن میں لیٹ ہو رہا تھا تو مجھے کہنے لگا کہ مولوی تو باتھ روم میں گھس، میں تیرے کپڑے استری کرکے تجھے وہیں پکڑا دیتا ہوں۔ رات کو کنٹین بند ہوجاتی تو اس وقت جاگ کر پڑھنے والے الوؤں کے لیے اس کے کمرے میں کچھ نہ کچھ کھاجہ ضرور مل جاتا۔ ان الوؤں کو نائٹ رائیڈرز کہا جاتا تھا جو ان دنوں ٹی وی پر چلنے والی ایک امریکی سیریل Knight Rider کی نقلِ صوتی تھی۔
ابھی دو ماہ بھی نہ گزرے تھے اور ہم لوگوں کو ابھی تک ہوم سکنیس بھی ہوا کرتی تھی کہ حنیف نے سارا اسلام آباد اور اس کے بیشتر دفاتر چھان مارے اور ہر جگہ اس کا تعلق بن گیا۔
ایک دن یہ انکشاف ہوا کہ حنیف مرزائی ہے۔ سب لوگوں کی نظریں بدل گئیں۔
یہ انکشاف میرے لیے بھی بہت صدمے کا باعث تھا۔ اب میں دوراہے پر تھا۔ مجھے یہ فیصلہ کرنے میں ایک آدھ منٹ لگا کہ میں حنیف کو خود سے کاٹ دوں یا اسے ساتھ لیے رکھوں۔ میں نے دوسرے والا فیصلہ کر لیا تھا۔
اس رات بھی ہم پڑھنے کے لیے بیٹھے۔ اپریل کا آغاز تھا اور موسم ابھی خاصا خنک تھا۔ میں نے حنیف کو یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ مجھ تک یہ خبر پہنچ چکی ہے۔ رات بھر بیٹھے پڑھتے رہے۔ میں کوشش کرتا تھا کہ اگر پڑھتے پڑھتے رات کے تین بج جائیں تو فجر خراب نہ کروں بلکہ کسی طرح فجر کا وقت داخل ہوتے ہی نماز پڑھ کر پھر سوؤں۔ اس رات بھی فجر کی اذان ہونے تک جاگے۔ میں نے بڑے بھولپن سے اسے کہا کہ یار آج مسجد میں چل کر نماز پڑھتے ہیں۔ اس نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ مولوی تو مجھے مروائے گا۔ میں نے کہا کہ میں ساتھ ہوں۔ کچھ نہیں ہوگا۔ اسے یقین ہوگیا تھا کہ مجھے کیمپس میں چلنے والی اس خبر کا کچھ پتہ نہیں ہے۔
ہم فجر کے لیے گئے۔ نماز ختم ہوتے ہی کئی لوگوں نے اسے کچا کھا جانے والی نظروں سے گھور گھور کر دیکھنا شروع کر دیا۔ دعا ہوئی اور ہم فوراً مسجد سے نکلے۔ قاری عطاء الرحمٰن صاحب کو اللہ خوش رکھے، وہ جلدی سے میری طرف کو بڑھے۔ میں نے انھیں عرض کیا کہ میں رات بھر نہیں سویا ہوں اس لیے دوپہر کو ملیں گے۔ انھوں نے یہ عذر قبول کر لیا۔
کمرے میں پہنچتے ساتھ ہی حنیف نے کہا کہ مولوی تو نے بڑی بے عزتی کرائی ہے میری۔ میں انجان بنا رہا۔ کہنے لگا کہ کل سے میرے بارے میں یہ بات پھیلائی جا رہی ہے کہ میں مرزائی ہوں۔ اور تو بدھو ہے کہ تجھے معلوم ہی نہیں، اور مجھے مسجد میں گھسیٹ لے گیا ہے۔ میں نے تاسف کا اظہار کیا اور سونے کے لیے اپنے کمرے میں چلا آیا۔
یہ دوپہر اور شام بہت اہم (critical) تھی۔ حنیف کا ایک طرح سے سوشل بائیکاٹ ہوگیا تھا۔ لیکن میں معمول کے مطابق اس کے کمرے میں گیا اور اس موضوع پر بالکل کوئی بات نہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہا۔ چند دن میں حالات معمول پر آگئے لیکن اس کا فاصلہ بیشتر لوگوں سے بڑھ گیا تھا اگرچہ میرے ساتھ ٹھیک رہا۔
میں کبھی سہ روزے پر جاتا تو وہ مقامِ تشکیل پر مجھے ملنے ضرور آتا۔ میں نے یونیورسٹی میں پورا باقی عرصہ اس سے کوئی مذہبی بحث نہیں کی بلکہ ان موضوعات کو سختی سے سوئچ آف کیے رکھا۔
اس وقت نہ موبائل فون تھا اور نہ ای میل۔ یونیورسٹی سے فراغت ہوئی اور نوکریاں شروع ہوئیں تو ایک دن اس کا فون آیا۔ کہنے لگا کہ میرا سکالرشپ ہوگیا ہے اور میں چائنہ جا رہا ہوں، تو مجھ سے ایک بار کہیں مل لے۔ ہم لاہور میں ملے۔ حنیف نے کہا کہ ’’میں خاندانی مرزائی ہوں ورنہ میں مرزے پہ ۔۔۔ بھیجتا ہوں۔ میں مسلمانوں کے درمیان رہتا ہوں اور نماز روزہ کرتا ہوں لیکن جہاں میرا خاندانی تعلق سامنے آتا ہے، سب مجھے الگ کر دیتے ہیں۔ میں ان حالات سے سکول کے زمانے سے گزر رہا ہوں۔ یار مولوی، تو گواہ رہنا کہ میں مسلمان ہوں۔ میرا باپ اس وقت فوت ہوا تھا جب میں دس سال کا تھا اور میری مجھ سے چھوٹی چار بہنیں ہیں۔ ہم اس لیے مرزائی ہیں کہ میری اور میری بہنوں کی شادی اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک ہم مرزائی نہ ہوں۔ آج میرا ملک سے باہر جانے کا سلسلہ بن گیا ہے۔ اب میں مڑ کے پاکستان کبھی نہیں آؤں گا۔ میں اپنی ماں اور بہنوں کو وہیں بلاؤں گا اور وہیں بہنوں کی شادیاں کروں گا۔ بس تو صرف یہ کرنا کہ ہر چھے مہینے بعد چین آنے والی کسی جماعت کو میرا اور میری یونیورسٹی کا نام لکھ کے دے دیا کرنا۔‘‘ یہ 1994 کی بات ہے۔
میں نے اس کا نام رائے ونڈ کے کچھ متعلقہ لوگوں کو دیا۔ لیکن اس وقت چین جانے والی جماعتیں نہ ہونے کے برابر ہوتی تھیں، اور نہ کوئی چین سے جماعت میں آتا تھا۔ یہ وہ وقت تھا کہ ابھی ڈیڑھ سال کی جماعتیں بھی چلتی تھیں۔ پورے سال میں سو سوا سو جماعتیں بمشکل رائے ونڈ سے نکلتی تھیں۔
اکا دکا جماعتیں بھی حنیف سے ملیں۔ میرا رابطہ پھر نہیں ہوا۔ میں بھی مصروف تر ہوتا چلا گیا اور حنیف بھی زمانے کی گرد میں کھو گیا۔
پچھلے سال رمضان میں حنیف نے مجھے گوگل کرکے اور لنکڈ اِن سے دریافت کیا۔ آج وہ ایک بڑے یورپی ملک میں ایک بڑی کمپنی کا کنڑی منیجر ہے۔ اس نے اپنے بارے میں جو باتیں بتائیں ان کا خلاصہ یہاں لکھتا ہوں:
’’میں چائنہ جانے سے پہلے یہ طے کر چکا تھا کہ مجھے اپنی ماں اور بہنوں کو کسی کافر ملک میں سیٹل کرنا ہے۔ پی ایچ ڈی مکمل کرکے میں پاکستان نہیں آیا بلکہ برطانیہ جا سیٹل ہوا۔ ماں اور بہنیں آگئیں۔ میں نے شادی ایک کورین عیسائن سے کی۔ چاروں بہنوں کی شادیاں چار یورپی ملکوں میں غیر پاکستانی اور غیر ہندوستانیوں سے کیں۔ پاکستان اور سارے اسلامی ممالک میں ہم لوگ آؤٹ کاسٹ تھے، ان ملکوں میں ہم ان ممالک کے شہری ہیں۔ پاکستان میں ہم پانچ مرلے کے مشترکہ گھر میں رہتے تھے اور محلے کے کئی مسلمان دکاندار ہمیں سودا بھی نہیں دیتے تھے۔ یہاں آکر میرے اور میری بہنوں کے اپنے اپنے گھر ہیں۔ ہمیں اپنی پچھلی کسی شناخت کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے بچوں اور بھانجے بھانجیوں میں سے کسی کو ہم نے اردو نہیں سکھائی اور وہ اپنے اپنے باپوں کی زبانیں بولتے ہیں۔ اردو نہ سکھانے کا فیصلہ اس لیے کیا کہ ہمیں اس ثقافت سے کچھ واسطہ نہیں رکھنا جہاں ہمیں کافر بنایا گیا ہے۔ اب ہم انٹرنیشنل شہری ہیں اور مختلف عالمی زبانیں بولتے ہیں۔
میری بیوی ابھی تک عیسائی ہے لیکن اس نے میرے تین بیٹوں کو حافظ بنایا ہے اور ان میں سے دو کو عالم۔ میرے تینوں بچے ڈیوزبری کے مدرسے سے پڑھے ہیں۔ یہ تینوں بھائی ابھی عملی زندگی میں داخل ہو رہے ہیں۔ ان کی شادیاں بھی میں نان انڈین لڑکیوں سے کروں گا۔ میں اپنے بھانجوں بھانجیوں کی شادیاں بھی نان انڈین سے کروں گا تاکہ پاکستان یا اسلامی ممالک کی کوئی شناخت ہمارے ساتھ نہ لگی رہے۔ ہم کبھی پاکستان نہیں آئیں گے۔
میں کچھ سال بعد تبلیغی اجتماع وغیرہ پر آتا ہوں لیکن کسی کے گھر نہیں جاتا اور نہ کسی کو بتاتا ہوں۔ میں نے ڈاڑھی بھی اس لیے نہیں بڑھائی کہ متشدد نہ لگوں اور نہ میں نے عربی لباس اختیار کیا ہے. میں نے چار مہینے بھی اس لیے نہیں لگائے تھے کہ اس کے لیے پاکستان اور ہندوستان آنا پڑتا ہے۔ میں صرف چلہ لگانے پر راضی ہوں تاکہ پاکستان نہ آنا پڑے۔
ہم صرف مرزائی خاندان ہونے کی وجہ سے مرزائی ہیں لیکن ہمیں ہر موقع پر ذلیل کیا گیا ہے۔ ہم نماز روزہ کرنے کے باوجود کافر کہے جاتے تھے۔ ان کافر ملکوں میں رہنے اور پاکستانی شناخت ختم کر لینے کی وجہ سے اب ہم کافر نہیں کہے جاتے۔ پاکستانی شناخت ختم کرنے میں مجھے پورے پچیس سال لگے ہیں اور اگلے پچیس سال اپنی اگلی نسل کی یہ شناخت ختم کرنے میں لگیں گے۔
مولوی! تیرا شکریہ کہ تو نے مجھے پہلے دن سے مسلمان سمجھا۔ میری اور میرے خاندان کی جتنی نیکیاں ہیں وہ تیرے کھاتے میں ہیں۔ اگر اس دن تو مجھے فجر کی نماز پڑھوانے نہ لے جاتا اور مجھ سے قطع تعلق کر لیتا تو میں فیصلہ کر چکا تھا کہ گھر جا کر ماں اور بہنوں کو قتل کرکے خود کشی کرلوں گا۔‘‘
میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے۔ چند سال پہلے جناب محمد اظہار الحق نے یہ مسئلہ چھیڑا تھا کہ کئی لوگ صرف خاندان ہونے کی وجہ سے مرزائی ہیں۔ میں اس وقت خاموش رہا تھا۔ اب بھائی مولوی عمار خان ناصر نے امت کی ان کھوئی ہوئی بھیڑوں کی واپسی کے لیے اپنے عظیم والد مولانا زاہد الراشدی مدظلہ کی نگرانی میں حرکت شروع کی ہے تو میں نے ٹوٹی پھوٹی زبان میں یہ واقعہ لکھنے کا حوصلہ پکڑا ہے۔
ہمارے سخت گیر رویوں کی وجہ سے کتنے ہی لوگ کفر پر جمے ہوئے ہیں اور کتنے ہی مسلمان کفر پر مرے ہیں۔ کاش امت داعیانہ مزاج پر آئے۔ دینِ اسلام دعوت سے پھیلا ہے، مسلمانوں کی بقا بھی داعیانہ ترتیب پر چلنے میں ہے۔ اللہ سمجھ دے۔
(بعض نام اور ضروری مقامات تبدیل کیے گئے ہیں اور کچھ معلومات میں دانستہ ابہام ڈالا گیا ہے)
حافظ صفوان محمد چوہان