۷ ستمبر کو وزیر اعظم ہاؤس اسلام آباد میں وطن عزیز کی اعلیٰ سیاسی ودفاعی قیادت کا دینی مدارس کی پانچ تنظیمات کے قائدین کے ساتھ ایک اہم اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں وزیر اعظم جناب محمد نواز شریف، مسلح افواج کے سپہ سالار جناب جنرل راحیل شریف، وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی جنرل رضوان اختر، وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف اور وزیر تعلیم بلیغ الرحمن کے علاوہ اہم وزارتوں کے اعلیٰ افسران شریک ہوئے۔ دینی مدارس کی تنظیمات کے قائدین کے اسماء گرامی میڈیا پر آ چکے ہیں۔ اندر کا ماحول خوشگوار تھا۔ باہمی اعتماد اور احترام کی فضا تھی۔ کوئی تناؤ نہیں تھا اور اگر اس میں طے شدہ امور پر لفظاً ومعنیً عمل ہوا تو ان شاء اللہ العزیز اس کے یقیناًمثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ لیکن پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے مہربان دوستوں نے اپنی خواہشات کو خبر بنا کر آتش بداماں سرخیاں لگائیں اور بحث مباحثے کی مجالس ٹیلی ویژن اسکرین پر برپا ہو گئیں۔ پیر زادہ قاسم صدیقی نے کہا ہے:
شہر کرے طلب اگر تم سے علاج تیرگی
صاحب اختیار ہو، آگ لگا دیا کرو
اجلاس کے بعد وزیر داخلہ جناب چوہدری نثار علی خاں کی پریس کانفرنس متوازن تھی، لیکن اگر شروح وحواشی کے ساتھ خبر میں مصالحہ ڈال کر تڑکا نہ لگایا جائے تو بات نہیں بنتی۔ ہمارے ایک مہربان صاحب قلم جو گہرائی تک جاتے ہیں اور بین السطور کا بھی مطالعہ کرتے ہیں، انھوں نے اس اجلاس کو مایوس کن قرار دیا اور اسے ریاست کی کمزوری قرار دیا۔ ریاست کی کموری پر الگ سے بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے، مگر پھر کبھی۔ میڈیا کے دوستوں نے یہ تاثر دیا کہ گویا چیف آف آرمی اسٹاف اہل مدارس کی مشکیں کسنے اور انھیں بیڑیوں میں جکڑنے کے لیے آئے تھے۔ غالب نے کہا ہے:
تھی خبر گرم غالب کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا
ہماری مسلح افواج کے سپہ سالار جناب جنرل راحیل شریف ایک مشکل اور پیچیدہ جنگ کی قیادت کر رہے ہیں۔ یہ ملک کی سرحدوں کے اندر ریاست سے برسرپیکار مفسدین کے خلاف جنگ ہے اور بیک وقت شہروں اور دشوار گزار قبائلی علاقوں میں برپا ہے۔ نریندر مودی انتہائی جارحانہ انداز اختیار کیے ہوئے ہے۔ افغانستان کو تو وہ العیا ذباللہ پاکستان کی شکست وریخت کے لیے پہلے ہی مرکز بنائے ہوئے تھے، لیکن متحدہ عرب امارات میں ہمارے مہربان دوستوں نے اپنی تمام تر روایا ت کے برعکس مودی کے لیے جلسہ عام کا اہتمام کیا جس میں صر ف پاکستان کو مخاطب کیا گیا ہے۔ اس سے پاکستان کو یہ پیغام دینا مقصود ہے کہ گوادر چائنا اقتصادی شاہراہ انھیں کسی طور پر گوارا نہیں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب اور ایران کے مابین اپنے دائرۂ اثر کے پھیلاؤ کے لیے سرد جنگ جاری ہے اور یمن میں تو گرم جنگ بھی بپا ہے اور متحدہ عرب امارات سعودی عرب کی ’’خلیج تعاون کونسل‘‘ کا سب سے اہم شراکت دار ہے، لیکن اسے مودی کی جادوگری کہیے کہ بیک وقت اس کی قربتیں ایران اور سعودی عرب ومتحدہ عرب امارات کے ساتھ قائم ہیں، یعنی اپنے مفاد میں اس نے آگ او رپانی کا ملاپ کر رکھا ہے۔ واضح رہے کہ انڈیا گوادر ایئر پورٹ کو غیر موثر بنانے کے لیے ایران کی بندرگاہ چاہ بہار کو ترقی دینے کے لیے اپنے خزانے کی تجوریاں پہلے ہی کھول چکا ہے۔
ان حقائق کے باوجود ہمارے میڈیا کے مہربان کیا یہ چاہتے ہیں کہ ملک کے اندر نئے نئے محاذ کھلیں اور ہماری مسلح افواج چومکھی لڑائی میں پھنس جائیں اور اصل ہدف کو سانس لینے اور اپنی حکمت عملی ازسرنو ترتیب دینے کا موقع مل جائے؟ ہماری رائے میں حب الوطنی کا تقاضا یہ ہے کہ جنگ کے سپہ سالار کو اپنی حکمت عملی اور ترجیحات خود طے کرنے کا موقع دیا جائے اور قوم کے تمام تر طبقات ان کی غیر مشروط حمایت کریں، ان کی پشت پر کھڑے ہوں تاکہ پتا چلے کہ یہ قومی جنگ ہے اور قوم پورے عزم کے ساتھ اسے کامیابی کی منزل تک پہنچانے کے لیے یک سو ہے۔ سندھ میں کرپشن کے خلاف کارروائی سے بعض سیاسی عناصر پہلے ہی مضطرب اور سیخ پا ہیں، اس لیے حکمت اور ٹھہراؤ کے ساتھ معاملات سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔
میں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ ہمیں طویل تقاریر کی بجائے اصل مسئلے پر گفتگو کرنی چاہیے اور وہ یہ ہے کہ ریاست کو ہم سے کیا چاہیے اور ہم ریاست سے کیا چاہتے ہیں؟ گزشتہ ڈیڑھ عشرے سے تواتر کے ساتھ جو اصطلاحات ہم سنتے چلے آ رہے ہیں اور ہمیں ازبر ہو چکی ہیں، وہ یہ ہیں: فرقہ وارانہ منافرت، فرقہ وارانہ تصادم، شدت پسندی، انتہا پسندی اور سابق صدر جناب جنرل پرویز مشرف کے تحائف میں سے آزاد خیالی ، روشن خیال اعتدال پسندی شامل ہیں۔ جہاں تک مسالک کی خلافیات کے بارے میں علمی ابحاث کا تعلق ہے، وہ اکیڈمک ہیں اور ان کا تعلق کلاس روم اور درس گاہ سے ہے۔ ان کا عوامی اجتماعات سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ دینی لٹریچر قرون اولیٰ سے چلا آ رہا ہے اور دنیا کی تمام یونیورسٹیوں اور درس گاہوں میں موجود ہے۔ اس نے ماضی میں کبھی بھی ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے کے لیے مسلح جتھے پیدا نہیں کیے اور نہ ہی مذہب ومسلک کی بنیاد پر قتل وغارت کا بازار گرم رہا ہے۔ یہ رجحان کب پیدا ہوا، کیوں پیدا ہوا، اس کے قومی اور بین الاقوامی محرکات کیا تھے، یہ لوگ کہاں پائے جاتے ہیں، ان کے تیکنیکی اور مالیاتی ذرائع کہاں ہیں؟ ان امور کو ریاستی ادارے ہم سے بہتر جانتے ہیں۔ ریاست ان کے خلاف جو بھی کارروائی کرے گی، ہم ریاست کے ساتھ کھڑے ہوں گے، ان کے حمایتی نہیں ہوں گے۔
ہم پانچوں تنظیمات کی طرف سے یہ متفقہ تحریر دے چکے ہیں کہ اگر ریاستی اداروں کے پاس شواہد ہیں کہ کوئی ادارہ یا مدارس سے متعلق بعض افراد کسی بھی ملک دشمن سرگرمی میں ملوث ہیں تو ان کے خلاف شواہد کی روشنی میں جو بھی کارروائی کی جائے گی، ہم ان کا کوئی دفاع نہیں کریں گے اور ریاست کے ساتھ کھڑے ہوں گے، لیکن حال ہی میں ہمارے اعلیٰ شہرت کے حامل عصری تعلیمی اداروں کے بعض طلبہ کو دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے پر گرفتار کیا گیا ہے اور ایسی بہت سی اور مثالیں بھی ہیں تو کیا اس کی بنیاد پر ان اداروں کو دہشت گرد قرار دے دیا جائے گا؟ اب تو مغربی تعلیمی اداروں سے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں داعش اور القاعدہ میں آ کر شامل ہو رہے ہیں اور ان میں سے بعض یمن، عراق وشام اور وزیرستان میں ڈرون حملوں کا نشانہ بھی بن چکے ہیں۔ سو یہ ایک ذہنی سوچ اور فکری رویہ ہے جو ذہنوں میں جنم لے رہا ہے اور اس کے من جملہ محرکات میں ذہن سازوں کی مہارت کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر نا انصافیاں اور جدید آئی ٹی دور میں مظالم کی داستانوں کی سوشل میڈیا پر تشہیر بھی ہے۔
میں نے یہ بھی تجویز پیش کی کہ الیکٹرانک میڈیا پر مسلی خلافیات کے بارے میں مناظرانہ بحث مباحثے پر پابندی لگائی جائے۔ یہ اکیڈمک مباحث ہیں اور انھیں کلاس روم تک محدود رہنا چاہیے۔ اسی طرح عام اجتماعات میں نفرت انگیز خطابات پر پابندی لگا کر اسے قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے اور گلی کوچوں ومحلوں میں ہر قسم کے جلسوں پر وقت کی پابندی کا اطلاق کیا جائے۔ ساری رات لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے دور دور تک لوگوں کو پریشان کرنا، نیند سے محروم کرنا، مطالعے میں مصروف طلبہ یا مریضوں کو بے چین کیے رکھنا شرعاً درست نہیں ہے اور اسے قانون کے دائرے میں لانا ضروری ہے۔ لہٰذا ہر مذہبی یا سیاسی جلسے کی اجازت انتہائے وقت کے تعین کے ساتھ مشروط ہونی چاہیے۔
ہمارے بعض دوستوں کی یہ خواہش ضرور ہے کہ کشتوں کے پشتے لگیں، پورے منظر کو تہ وبالا کر دیا جائے، مگر انھیں احساس ہونا چاہیے کہ ملک کسی انقلابی عمل سے نہیں گزر رہا۔ داخلی فساد اور مفسدین کے خلاف جنگ او رکرپشن کی تطہیر کی مساعی نظام کے اندر رہ کر ہو رہی ہیں اور نظام کی محدودیت کا ہر ایک کو ادراک ہونا چاہیے۔ فوجی عدالتوں کے لیے بھی نظام کے اندر گنجائش پیدا کی گئی ہے۔ ہمارے ایک مہربان دوست نے لکھا کہ مدارس کا معاملہ پھر نامعلوم شروعات کی بھول بھلیوں میں دفن کر دیا گیا ہے، حالانکہ ۲۰۱۰ء کا معاہدہ معقول تھا اور اسی کو آگے بڑھانا چاہیے۔ اس سے قطع نظر کہ اس وقت یہ معاہدہ ہمارے میڈیا کے پرجوش دوستوں کو ایک آنکھ نہیں بھایا تھا، مگر آج اس کی پسندیدگی پر ہم تہ دل سے ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور انھیں یقین دلاتے ہیں کہ معاملہ وہیں سے آگے بڑھے گا جہاں پر رکا تھا۔ یہ ریاست اور ہم سب کے مفاد میں ہے۔ باقی امور پر پھر گفتگو ہوگی۔ ہمارے ایک مہربان دوست تکرار کے ساتھ یہ کہتے رہتے ہیں کہ ان چند لوگوں کے ساتھ ہی بات کیوں کی جاتی ہے۔ گویا ’’ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں‘‘۔ ہمیں ان کی بھاری جسامت اور وزن کا احساس ہے، لیکن تلخ حقائق کو قبول کرنے ہی میں عافیت ہے۔ ملک کا نظام چلانے والے، حساس معاملات پر نظر رکھنے والے اور پاکستان کے دینی مدارس کے غم میں گھلنے والی بیرونی قوتیں خوب جانتی ہیں کہ ملک کے اٹھانوے فی صد مدارس کا نظم ان ہی پانچ تنظیمات کے ساتھ مربوط ہے۔ لہٰذا جب بھی سنجیدہ مکالمے کی نوبت آئے گی، انھی ’’بے وزن‘‘ لوگوں کے ساتھ بات کرنی پڑے گی۔ یہ ان کی ترجیح نہیں بلکہ ضرورت ہے۔ اور اگر کوئی ہمارے ان دوستوں کے ساتھ مکالمہ کر کے نظم میں کوئی بہتری لا سکتا ہے تو بصد شوق ایسا کرے، ہمیں کوئی شکایت نہیں ہوگی۔
(بشکریہ روزنامہ دنیا، لاہور)