’’مستشرقین کے ایک بڑے طبقے کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ اسلامی شریعت ، مسلمانوں کی تاریخ اور تہذیب و تمدن میں کمزوریوں اور غلطیوں کی تلاش و جستجو میں وقت صرف کریں ، اور سیاسی و مذہبی اغراض کی خاطر رائی کا پربت بنائیں۔ اس سلسلے میں ان کا کردار بالکل اس شخص کا سا ہے جس کو ایک منظم و خوشنما اور خوش منظر شہر میں صرف سیو ریج، نالیاں ، گندگی اور گھورے نظر آئیں، جس طرح محکمہ صفائی کے انچارج کسی کارپوریشن اور میونسپلٹی میں منصبی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ اس طرح کی رپورٹ پیش کرے جس میں طبعی طور پر قارئین کو سوائے گندگیوں اور کوڑے کرکٹ کے تذکرے کے عام طور پر کچھ نہیں ملتا ۔‘‘
۱۹۸۲ء میں اسلام اور مستشرقین کے موضوع پر منعقدہ عالمی سیمی نار میں مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے پیش کردہ یہ کلمات نہ جانے کیوں ہمارے ذہن میں بار بار گردش کررہے تھے جب محترم کالم نگار جناب اوریا مقبول جان صاحب کے امام طبری ؒ پر مرکوز کالموں پر ہماری نظر پڑی تھی ۔ پھر ان پر ہمارے ایک وضاحتی مضمون(مطبوعہ ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ شمارہ ستمبر ۲۰۱۵ء) پر ان کا ردعمل مزید پریشانی کا باعث بنا۔ دنیا کی وسعتوں کو دیکھنے والے کالم نگار نے اس رد کے ذریعے ہماری معلومات میں اضافہ یا ان کی تصحیح کی ہے۔ممکن ہے اس کا سبب ہمارا فہم ناقص ہو، جس نے تازہ کالم سے ہماری معلومات میں اضافہ کا احساس نہ ہونے دیا ہو اور ہمیں اس میں حبیب جالب مرحوم کے مصرعے ’’میں نہیں مانتا ، میں نہیں جانتا‘‘کی گونج سنائی دی ہو ۔ ان کا جوابی کالم پڑھ کر ہمیں محسوس ہوا کہ فاضل دانشور نے ہمارے مضمون کو ٹھنڈے دل سے پڑھنے کی کوشش نہیں کی ہے ، بس پتہ نہیں موصوف نے یہ کیوں مان لیا کہ خود وہ حد سے گذر جائیں تو معاف ہے ، اگر وہ کسی خالص علمی اور فنی بحث کو عامۃ الناس میں لے جائیں تو اخلاص اور دانشمندی کی انتہا ہے۔جب وہ ایک امام وقت کے لیے ایسالب و لہجہ استعمال کریں جو اہل علم کا شیوہ نہیں تو درست ، لیکن جب کاٹ خود ان پر پڑے تو تلملا اٹھیں ۔اسے انصاف نہیں کہا جاسکتا!
ہم نے اپنے مضمون میں یہ بات کہی تھی کہ : ہماری بہت سی متعدد محترم شخصیات کے امام طبریؒ کے تئیں غلط فہمی پر مبنی موقف اختیار کرنے کا سبب یہ ہے کہ چونکہ یہ علمی شخصیات مغربی سامراج کے دور عروج میں ابھریں تھیں ، تو یہ لاکھ انکار کریں لیکن ان پر مستشرقین کے اسلوب نقد سے مرعوبیت جھلکتی ہے اور یہ فطری بات ہے کہ ان کے مخاطب یہی تو لوگ تھے۔ انھی کے اسلوب میں انھی کے اعتراضات کا توڑ پیش کرنا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ موصوف بھی کبھی کبھار مستشرقین کے اسالیب سے متاثر ہوجاتے ہیں ۔ علامہ شبلی ؒ نے سیرت النبی ؒ کے مقدمہ میں مستشرقین کے انداز تحقیق کے بارے میں لکھا ہے کہ :
’’سیرت نبویؐ کے واقعات جو قلم بند کئے گئے وہ تقریبا نبوت کے سو سال بعد قلم بند ہوئے ، اس لئے مصنّفین کا ماخذ کوئی کتاب نہ تھی ، بلکہ اکثر زبانی روایتیں تھیں ۔ اس قسم کا موقع جب دوسری قوموں کو پیش آتا ہے یعنی کسی زمانے کے حالات مدت کے بعد قلم بند کئے جاتے ہیں تو یہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے کہ ہر قسم کی بازاری افواہیں قلم بند کرلی جاتی ہیں ۔ جن کے راویوں کا نام و نشان تک معلوم نہیں ہوتا ۔ ان افواہوں میں سے وہ واقعات انتخاب کرلئے جاتے ہیں جو قرائن قیاسات کے مطابق ہوتے ہیں ۔ تھوڑی دیر کے بعد یہی خرافات ایک دلچسپ تاریخی کتاب بن جاتے ہیں ، یورپ کی تاریخی تصنیفات اسی اصول پر لکھی گئی ہیں۔ ‘‘
کیا یہ حقیقت نہیں کہ مستشرقین یورپ نے سیرت کو بھی اپنے اسی معیار پر رکھا، اور اپنے ہی معیارات کے مطابق سیرت پاک میں کیڑے نکالنے لگے؟ کالم نگار نے بھی انہی معیارات کو درست سمجھ کر جن مورخین سیرت نے امانت داری اور غیر جانب داری سے واقعات نقل کئے تھے ، انہیں مورد الزام ٹھیرا دیا حالانکہ ان کی نظر سے علامہ شبلی نعمانی ؒ کی یہ عبارت گزرنی چاہیے تھی کہ :
’’لیکن مسلمانوں نے اس فن سیرت کا جو معیار قائم کیا ، وہ اس سے بہت زیادہ بلند تھا۔ اس کا پہلا اصول یہ تھا کہ جو واقعہ بیا ن کیا جائے، اس شخص کی زبان سے بیان کیا جائے جو خود شریک واقعہ تھا۔ اگر خود شریک واقعہ نہ تھا تو شریک واقعہ تک تمام راویوں کا نام بہ ترتیب بتایا جائے ۔اس کے ساتھ یہ بھی تحقیق کی جائے کہ جو اشخاص سلسلہ روایت میں آئے ، کون لوگ تھے ؟ کیسے تھے ؟ کیا مشاغل تھے ؟ چال چلن کیسا تھا ؟ حافظہ کیسا تھا؟ سمجھ کیسی تھی ؟ ثقہ تھے یا غیرثقہ ؟سطحی الذہن تھے یا دقیقہ بیں ؟ عالم تھے یا جاہل ؟ان جزئی باتوں کا پتہ لگانا سخت مشکل بلکہ ناممکن تھا۔ سینکڑوں ہزاروں محدثین نے اپنی عمریں اسی کام میں صرف کردیں ، ایک ایک شہر میں گئے ، راویوں سے ملے ، ان کے متعلق ہر قسم کی معلومات بہم پہنچائے ، جو لوگ ان کے زمانے میں موجود نہ تھے، ان کے دیکھنے والوں سے حالات دریافت کیے، ان تحقیقات اسماء الرجال ( بائیوگرافی ) کا وہ عظیم الشان فن تیار ہوگیا ، جس کی بدولت آج کم از کم لاکھ اشخاص کے حالات معلوم ہوسکتے ہیں اور اگر ڈاکٹر اسپرنگر کے حسن ظن کا اعتبار کیا جائے تو یہ تعداد پانچ لاکھ تک پہنچتی ہے ‘‘۔
واضح رہے کہ ہم نے اپنے مضمون میں اس نکتے پر اپنی بحث مرکوز کی تھی کہ :’’امام طبری ؒ نے ایک ایسا دور پایا تھا، جب کہ آئندہ نسلوں کے لیے حدیث و روایات کے ورثے کی من و عن، بلا کم و کاست منتقلی پر زیادہ توجہ دی جاتی تھی۔ آپ کے دور کے آتے آتے صحابہ تابعین اور تبع تابعین کا دور ختم ہورہا تھا اور ڈر تھا کہ کہیں اس طبقے کے افرادکی آنکھیں بند ہوتے ہی، علم وروایت کے انمول ذخیرے بھی قبروں کی مٹی میں گھل نہ جائیں ، تو ان کی روایات اور آثار کی حفاظت پر توجہ زیادہ دی جانے لگی‘‘۔لہٰذا آپ کے زمانے میں اہل علم کا روایات جمع کرنے کا جو طریقہ رائج تھا، امانت داری کے ساتھ آپ نے اسے اپنا یا ہے اور روایت نقل کرتے وقت آپ کی حیثیت عدالت کے ایک جج کی نہیں بلکہ عدالتی پراسیکیوٹر کی ہے جو اپنے ہاتھ میں ملنے والے تمام دلیلوں اور شواہد کو سینت سینت کر محفوظ رکھتا ہے ، اور فیصلہ فاضل عدالت پر چھوڑ دیتا ہے ۔ ہمیں محترم اوریا صاحب کے اس بیان سے خوشی ہوئی کہ’’ وہ عربی زبان سے واقف ہیں‘‘۔ لیکن انہوں نے اپنے کالم میں یہ نہیں بتایا کہ تاریخ طبری کے عربی ایڈیشن میں یہ جو مصنف کا فرمان ہے کہ اذ لم نقصد بکتابنا ھذا الاحتجاج بذلک (تاریخ الطبری، اول، ص۷) کہ ہمارا ارادہ اس کتاب کے لکھنے سے یہ نہیں ہے کہ لوگ اس سے سند پکڑیں اور حجت لیں، یا یہ کہ والآثار التی انا مسندھا الی رواتھا ان آثار کو ہم نے ان کے راویوں تک سند کے ساتھ بیان کردیا ہے کہ آپ نے اپنے دور کی روایتوں کے نقل کرنے کے لئے رائج اصول کو امانت دار اور غیر جانب داری سے اپنایا ہے یا نہیں ؟
محترم کالم نگار کا یہ فرمان ہے کہ:
’’ میری حیرت کی اس وقت انتہا نہ رہی جب میرے سیکولر دوست تو میری اس وضاحت پر خاموش ہوگئے ، لیکن چند علمائے امت اپنی تلواریں سونت کر مجھ پر پل پڑے ۔۔۔ ان علماء نے طبری کا دفاع صرف اس لئے کیا کہ گزشتہ چند سو سالوں سے ان کے مدارس میں تفسیر جلالین پڑھائی جاتی ہے اور اس میں اس واقعہ غرانیق کا ذکر ہے جس کا ماخذ طبری کے سوا کوئی اور نہیں‘‘۔
ہماری نظر سے ابھی تک کالم نگار کے فرمان کے جائزے پر مبنی پاکستان کے اخبارات و رسائل میں کوئی مضمون نہیں گزرا ہے ۔ شاید فاصلوں کی وجہ سے ایسا ہوا ہو۔ رہی بات ’’حضرت زیدؓ کے نکاح کی روایت کی یا غرانیق کی‘‘ تو کوئی مسلمان اہل علم ایسا نہیں جو انہیں درست سمجھتا ہو ، لیکن یہ سمجھنا کہ امام طبری ؒ نے انہیں درست مان کر نقل کیا ہے، امام صاحب کے ساتھ سراسر سنگین زیادتی ہے ۔ کالم نگار کا یہ کہنا کہ ان کا ماخذ طبری ؒ کے سوا کوئی اور نہیں ہے، موصوف کی لاعلمی کی ایک اور دلیل ہے ۔ یہ موضوعات سیرت و تاریخ کے گھسے پٹے موضوعات ہیں ، ان پر عرصہ دراز قبل تحقیقی کام ہوچکا ہے ۔ ایک نظر شیخ محمد ناصر الدین الالبانی ؒ کے رسالہ نسف المجانیق لنسف قصۃ الغرانیق پر ڈال لیں ۔ اس سے پتہ چل جائے گا کہ یہ روایت طبریؒ کے علاوہ کن کن راستوں سے در آئی ہے ۔ یہ امام طبریؒ اور دوسرے ائمہ روایت کا احسان ہے کہ انہوں نے غلط اسانید کو من و عن پیش کردیا جس کی وجہ سے جن راستوں سے غلط روایات داخل ہوئیں ان کا علم ہوپایا ۔ اگر یہ ائمہ محمد بن سائب کلبی ، سیف بن عمر تمیمی ، اور ابو مخنف لوط بن یحییٰ وغیرہ کی روایات کو اسانید کے ذکر کے ساتھ نہ لاتے تو ان کے غیر ثقہ یا ضعیف راویوں کی کڑیاں کبھی نہ مل پاتیں ۔ ان ائمہ نے اسانید کے ساتھ روایات کو نقل کرکے مرض کی جڑ تک پہنچنا آسان کردیا ہے ، اب اس پر ان کی خدمت کا اعتراف کرنے کے بجائے انھی پر گُرز چلانے والوں کو دیکھ کر کبیر داس کا دوہا یاد آتا ہے کہ
رنگی کو نارنگی کہیں بنے دودھ کوکھویا
چلتی کو یہ گاڑی کہیں دیکھ کبیرا رویا
علم رجال بہت سے عالم فاضلوں کے لئے بھی بڑا خشک موضوع ہے ۔ اس کی فنی باریکیوں کو سہل زبان میں اس طرح پیش کرنا کہ متوسط سطح کا قاری آسانی سے سمجھ سکے، بہت مشکل کام ہے ۔یہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ جھوٹا بھی سچ بولتا ہے ، اور اگر وہ عینی گواہ ہوتو اس سے کسی واقعے کے بارے میں ایسی باریکیاں اور تفصیلات ملتی ہیں جو حقیقت تک پہنچنے میں ممد معاون ثابت ہوتی ہیں ۔ لہٰذا علمائے حدیث نے ضعیف اور غیر ثقہ راویوں کو جھوٹ کا پلندہ سمجھ کر چھوڑ نہیں دیا ہے بلکہ ان کی تحقیق اور ان روایات کا ثقہ روایات سے موازنہ کرکے ضعیف راویوں کی روایات میں اضافوں اور ان اضافوں کے علمی فوائد کا باریک بینی سے جائزہ لے کراہم علمی نکات نکالے ہیں ۔ اب مرویات ابی مخنف فی تاریخ الطبری (ضخامت:۵۲۴) تصنیف یحییٰ بن ابراہیم بن علی یحییٰ کو ہی لیجئے ۔ اس میں ابی مخنف کی تاریخ طبری میں روایت کردہ جملہ روایات کا تجزیہ کیا گیا ہے اور سند میں موجود ایک ایک راوی ، روایتوں میں ان کے اضافے اور صحیح روایات سے ان کی مطابقت کا جائزہ لیا گیا ۔
کالم نگار صاحب کی اس بات نے کہ: ’’میرے سیکولر دوست تو میری اس وضاحت پر خاموش ہوگئے‘‘ ہمیں حیرت میں ڈال دیا ہے۔ سیکولر طبقہ میں سے کوئی دینی روایات کے ورثے کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کر تا تو کون ان کی باتوں پر دھیان دیتا، جب کہ اوریا صاحب کا شمار تو خوگر حمد اصحاب میں ہوتا ہے ۔ مسلمانوں کے ایک ہمدرد کی حیثیت سے ان کے سطحی اور تباہ کن بیان کو درست سمجھنے والے مخلصین بھی موجود ہیں۔ سیکولر طبقہ کے ایسے بھاگ کہاں، ان کی دشمنی تو کھلی ہوئی ہے، لیکن میٹھے زہر کا تریاق کہاں سے لائیں ۔ آخر حرف شکایت وہ زبان پر کیوں لاتے ، ان کے دل کی بات تو کالم نگار کی زبان سے ادا ہوگئی ہے۔
یہ بات دینی و عربی کتابوں کا ادنیٰ قاری بھی جانتا ہے کہ تفسیر الطبری (جامع البیان عن تاویل آی القرآن) اور تاریخ الطبری (تاریخ الامم و الملوک) اہل سنت کے امام ابو جعفرمحمد بن جریر طبری ؒ ف ۳۱۰ھ کی تصنیف ہے ۔اگر کالم نگار کو اس میں بھی شک تھا تو پھر اس نے امام طبریؒ پر کالم سیاہ کرکے خودپر بڑا ظلم کیا ہے۔ جس کے سرہانے مستشرقین کی کتابیں پڑی رہتی ہیں، اسے کم از کم کارل بروکلمان کی کتاب : Geschichte der Arabischen Litteratur ہی کی جانکاری حاصل کرلینی چاہئے تھی ۔ اس عظیم مستشرق نے اپنی کتاب میں عہد جاہلیت سے ۱۹۳۹ء تک جتنی کتابیں عربی زبان میں لکھی گئی ہیں، ان کے مصنفین کون کون ہیں؟ ان کتابوں کی مصنفین کی طرف نسبت کن کن علمی حوالہ جات سے ثابت ہے؟ ان کے قلمی نسخے دنیا کے کن کن کتب خانوں میں موجود ہیں؟ یہ کب اور کہاں کہاں چھپی ہیں؟ ان کے حالات زندگی پر کون کون سی کتابوں اور مقالات میں تذکرہ ملتا ہے؟ ان سب باتوں کا اشاریہ دیا ہے ۔یا پھر ڈاکٹر فواد سزگین کی Geschichte des Arabischen Schrifttums دیکھ لیتے جس میں سزگین نے ۴۳۰ھ تک کے مصنفین کے تعلق سے بروکلمان کے پروجیکٹ کو آگے بڑھا یا ہے ، اور جس پر انہیں لٹریچر کا پہلا ’’شاہ فیصل ایوارڈ‘‘ ملا تھا۔ ان دونوں کتابوں کے جس حصے کا عربی ترجمہ تاریخ الادب العربی اور تاریخ التراث العربی کے عنوان سے ہوا ہے، اس میں طبری ؒ سے متعلق تفصیلات موجو د ہیں ۔حکمت بشیر یٰسین کا سزگین کی کتاب کا تکملہ استدارکات علی التاریخ التراث العربی بھی آٹھ جلدوں میں دستیاب ہے۔ اب کتابوں کے مصنفین کے بارے میں ان جیسی کتابوں ہی میں تو قابل اعتبار معلومات ملیں گی ، یہ تو نہیں ہوسکتا کے پنساری کی دکان پر حلوہ جلیبی ملا کرے۔
تحدیث نعمت کے طور پر یہ کہنے میں مضائقہ نہیں کہ عالمی قلمی کتابوں کی ایک لائبریری میں ہم کو دس سال تک مخطوطات کے تعارفی کارڈ تیار کرنے کی ذمہ داری نبھانے کا موقع ملا ہے۔ ان کارڈوں کی تیاری میں بنیادی کا م کتاب کی ابتدا ئی و اختتامی عبارت اور کتاب کی داخلی شہادتوں کی مطابقت کے ساتھ ساتھ مختلف مراجع ،کحالہ کی معجم المولفین ، زرکلی کی الاعلام ، حاجی خلیفہ کی کشف الظنون،اسماعیل باشا بابانی کی ایضاح المکنون اور ہدایۃ العارفین ، آقا بزرگ طہرانی کی الذریعہ الی تصانیف الشیعۃ۔ الفہرس الشامل للتراث العربی المخطوط جیسی انسائیکلوپیڈیائی ٹائپ کی کتابوں اور عالمی کتب خانوں کے کیٹلاگوں سے مراجعت کی ضرورت پیش آتی تھی ۔کوئی دن نہیں جاتا جب بروکلمان اور سزگین کی جرمنی زبان میں ترتیب دی گئی موسوعاتی کتابوں کی ورق گردانی کی ضرورت پیش نہیں آتی ۔ اس تجربے کی بنیاد پر یہ کہنے میں ہمیں کوئی مضائقہ محسوس نہیں ہوتا کہ کالم نگار نے بیان کرکے کہ: ’’کہیں بھی معلوم نہیں پڑتا کہ تصدیق کی جائے کہ کون سی کتب کس طبری کی لکھی ہوئی‘‘بڑے بھونڈے پن کا مظاہرہ کیا ہے۔
اوریا صاحب کی تحریریں ہم بڑی قدر و منزلت کے جذبے کے ساتھ پڑھتے آئے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ہزاروں لوگوں تک پہنچانے کی سعادت بھی حاصل کرتے رہے ہیں۔ چند سال قبل جب آپ دوبئی تشریف لائے تھے اور آپ کے لکچر میں شرکت کا ہمیں موقع نہ مل سکا تھا تو بڑا رنج اور افسوس ہوا تھا۔امام طبری کے حوالے سے ان تین کالموں کے بعد بھی آپ کے کالموں میں ہماری دلچسپی جون کی توں بر قرارہے ۔ خدا را آپ پر اعتماد کو مجروح کرنے کے اسباب پید ا نہ کیجئے ۔ علم و تحقیق پر اعتماد اور بھروسہ بڑے جتن کے بعد پیدا ہوتا ہے ۔ اسے پیدا کرنے کے لئے عرصہ تک پتاّ جلانا پڑتا ہے، لیکن اسے گنوانے کے لئے زیادہ محنت کرنی نہیں پڑتی۔ معمولی سی ہٹ سالہاسال کی محنت پر پانی پھیر دیتی ہے۔ آپ جیسے اہل قلم جنہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے دفاع میں رت جگا کیا ہے۔ ان پر سے اعتماد اٹھ جانا امت کے لئے بڑ ے خسارے کا باعث ہوگا ۔ خدارا ایسا رویہ تو اختیار نہ کریں کہ ایک بار نہیں بلکہ بار بار کہنا پڑے کہ ’’خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے ‘‘ ۔
ہم نے اپنے وضاحتی مضمون کا اختتام ابن جریر طبریؒ سے وابستہ کتابیات پر کیا تھا ، تاکہ پتہ چلے کے ابن جریر طبریؒ کی جلالت شان کے مطابق ان کی کتابوں پر تحقیقی کام ہوچکا ہے ، لہذا اب مزید کی ضرورت باقی نہیں رہی ہے، الا یہ کہ کوئی نیا نکتہ محققین کے سامنے آجائے ۔ اسکے باوجود کالم نگار یہ کہہ کر قاری کو حیرت و تعجب میں ڈال دیتے ہیں کہ: ’’طبری کی تفسیر کے رجال کا کام تو مصر کے محمود شاکر نے کیا ہے ، لیکن آج تک تاریخ طبری کے رجال اور راویوں پر مفصل کام نہیں کیا ‘‘۔ تو قند مکرر کے طور پر ہمارے گزشتہ کالم کا یہ پیراگراف دوبارہ پڑھنے میں حرج نہیں کہ:
’’امام طبری کی کتابوں کی تحقیق اور اس کی اسانید کی صحت پر علمی دنیا میں کافی تحقیقی کام ہوا ہے ۔ان میں سے جو کتابیں ہمارے آرکائیوز میں محفوظ ہیں، ان میں سے چند کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے:
۱۔تحقیق مواقف الصحابہ فی الفتنۃ من روایات الامام الطبری و المحدثین، تصنیف : ڈاکٹر امحزون، صفحات : ۶۹۴/ اس کتاب میں صحابہ کے مابین دور فتنہ سے متعلق امام طبری کی جملہ روایات کا دیگر محدثین کی نقل کردہ روایات سے موازنہ کرکے ایک ایک راوی اور واقعہ سے بحث کی گئی ہے۔
۲۔ مرویات ابی مخنف فی تاریخ الطبری، تصنیف : یحیی بن ابراہیم بن علی الیحیی،صفحات : ۲۵۸/اس میں طبری کے اہم ضعیف راوی ابی مخنف کی ایک ایک روایت کی تحقیق کی گئی ہے ۔
۳۔ رجال تفسیرا لطبری جرحا و تعدیلا، تصنیف : محمد صبحی بن حسن الحلاق،صفحات: ۶۰۸/ اس میں تفسیر طبری میں جن راویں سے روایتیں لی گئی ہیں ، ان کے بارے میں فردا فردا تحقیق کی گئی ہے۔ اور اس سلسلے میں دو عظیم علماء شیخ احمد شاکر اور محمود شاکر کی رائے بیان کی گئی ہے۔
۴۔ صحیح تاریخ الطبری و ضعیف تاریخ الطبری، تصنیف : محمد طاہر البرزنجیاشراف : محمد صبحی حسن حلاق،۱۳ جلدوں میں مطبوعہ اس کتاب میں طبری کی ایک ایک روایت کے بارے میں صحیح یا ضعیف ہونے کے تعلق سے تفصیلات فراہم کی گئی ہیں ۔‘‘
اس سلسلے میں مزید عرض کرنا یہ ہے کہ محمود محمد شاکر بنیادی طور پر ایک ادیب اور زبان دان تھے ، ان کے بھائی شیخ احمد محمد شاکر کا آخری دور کے عظیم محدثین میں شمار ہوتا ہے ۔ محمود محمدشاکر نے بیس پاروں کی تفسیر کی تحقیق مکمل کی ہے ، لیکن اس میں ان کی توجہ زیادہ تر مختلف قلمی نسخوں کا موازنہ کرنے اور متن کی درستی پر صرف ہوئی ۔ تفسیر طبری کی تخریج کا اہم اور وسیع کام اس کے چند سال بعد سامنے آیا ہے اور وہ ہے ڈاکٹر عبد اللہ عبد المحسن الترکی سکریٹری جنرل رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کے زیر نگرانی تحقیق شدہ تفسیر الطبری: جامع البیان عن تاویل آی القرآن لابی جعفر محمد بن جریر الطبری، ف ۳۱۰ھ کا نسخہ جسے مرکز البحوث و الدراسات العربیۃ و الاسلامیہ بدار ہجر نے ۲۶ جلدوں میں شائع کیا ہے ، اور اس کی ہر جلد تقریباً ۸۰۰ صفحات پر مشتمل ہے ۔ اس میں ہر ایک روایت اور راوی کے بارے میں چھان پھٹک کی گئی ہے ۔ اس ایڈیشن میں میں محمود شاکر کی تحقیقات کو بھی ضم کیا گیا ہے ۔
ایسا لگتا ہے کہ ہمارے محترم بھائی اوریا مقبول صاحب نے ڈاکٹر خالد طلال کبیر کی کسی تحریر کے رد عمل میں طبری ؒ پر یہ کالم لکھے ہیں۔ ہم نے بہت کوشش کی کے ان صاحب اور ان کی کتاب یا تحقیق کا پتہ لگائیں، لیکن ہمیں ہنوز اس سلسلے میں معلومات دستیاب نہیں ہو پارہی ہیں۔ اگر کوئی قاری اس سلسلے میں معلومات فراہم کرسکیں تو بڑی مہربانی ہوگی ۔ ویسے کالم نگار نے ڈاکٹر خالد سے حاصل شدہ جو معلومات دی ہیں، ان میں ہمارے لیے کچھ بھی نیا پن نہیں ہے۔
یہ بتانے میں شاید مضائقہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے گذشتہ چھتیس سال سے ہماری روزی روٹی کا انتظام کتابیں پڑھنے میں کر رکھا ہے ۔ ممکن ہے قارئین ہماری رائے سے اختلا ف کریں، لیکن ہمارا ذاتی مشاہدہ یہ ہے کہ ۱۹۷۰ء کے عشرے کے ختم ہوتے ہوتے گذشتہ ایک صدی تک اردو زبان میں لکھی جانے والی تاریخی و فکری تحقیقات کو عربی سمیت دیگر زبانوں کے لٹریچر پر فوقیت حاصل رہی۔ لیکن گذشتہ صدی میں اسّی کے عشرے کے شروع ہوتے ہوتے ان عبقری شخصیات کا دور برصغیر سے ختم ہونے لگا ۔ اسی دوران میں سنہ ساٹھ کے عشرے میں قائم ہونے والی مدینہ یونیورسٹی ، امام محمد بن سعود یونیورسٹی ، اور ام القری یونیورسٹی کے فارغین کے علمی کارناموں کا دور شروع ہوا ، سعودیہ کی ان یونیورسٹیوں میں عالم اسلام سے چنندہ دماغ بلائے گئے تھے جنہوں نے علم و تحقیق کا نیا ولولہ اور ذوق دیا۔ ان شخصیات میں شیخ محمد ناصر الدین الالبانی ، شیخ حماد الانصاری ، شیخ عبد الرحمن المعلمی ، شیخ عبد الفتاح ابو غدۃ جیسی عظیم شخصیات شامل تھیں، جنہوں نے علم الرجال میں ایک نئی روح پھونک دی۔ پھر اس کام کے بیڑے کو مدینہ یونیورسٹی کے عراقی محقق ڈاکٹر اکرم ضیاء العمری نے آگے بڑھایا ،جنہوں نے خود صحیح السیرۃ النبویۃ اور عصر الخلافۃ الراشدہ : محاولۃ لنقد الروایۃ التاریخیۃ جیسی معرکہ آرا کتابیں نہ صرف تصنیف کیں ، بلکہ جن موضوعات پر اب تک تحقیقات نہ ہونے کا محترم اوریا صاحب کر رہے، تقریباً ان سبھی موضوعات پر یونیورسٹیوں کے ہونہارطلبہ سے سالہاسال محنت شاقہ لے کر ڈاکٹریٹ اور یم فل کے مقالات تیار کروائے ۔ اپنے وقت میں علامہ شبلی ؒ کی سیرت النبی کا مقدمہ علم تاریخ میں ایک تجدیدی کارنامہ شمار ہوتا تھا، لیکن بر وقت اس کا عربی میں ترجمہ نہ ہونے کی وجہ سے بیسویں صدی کے اواخر میں منظر عام پر آنے والی علمی و تاریخی تحقیقات اس مقدمہ کو پیچھے چھوڑ گئیں۔
کالم نگار نے آخر میں مسعود احمد بی ایس سی کے لیے دعا کی ہے اور ان کی کتاب صحیح تاریخ الاسلام و المسلمین کو قرآن اور حدیث کی روایتوں پر مبنی قرار دیاہے ۔ ہم بھی آپ کی دعاؤں میں شریک ہیں ، لیکن ہمیں معلوم نہیں کہ مرحوم کو علم حدیث اور علم تخریج میں کہاں تک درک حاصل تھا اور کہاں تک علمی تحقیقی اصولوں سے تجاوز کرتے ہوئے اپنے میلان کو ترجیح دی ہے ۔ ۱۹۸۰ء کے اوائل میں مسعود صاحب کے چند رسائل ہمارے مطالعے سے گزرے تھے ۔ سنا ہے کہ مرحوم انہیں کراچی کے گلی کوچوں میں سائیکل پرلاد کر بانٹا کرتے تھے ۔ان رسائل کے ہاتھ آنے سے بہت پہلے ہم نے بھی تصوف پر مبنی لٹریچر ، خواجہ معین الدین اجمیریؒ ، خواجہ بختیار کعکی ؒ ، شرف الدین یحییٰ منیریؒ ، خواجہ فرید الدین شکر گنج ؒ اور خواجہ نظام الدین اولیا ء کے ملفوظات اور مجدد الف ثانی کے مکتوبات ، اور شیخ عبد الوہاب شعرانی ؒ کی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا تھا ۔ ان میں سے بہت سی باتیں ہمیں بھی عجیب سی لگتیں تھیں۔ پھر مسعود احمد صاحب کے رسائل ہاتھ لگے جن میں ان بزرگان دین کے ملفوظات کے اقتباسات کے عکس اور ان پر شدید نقد ہوتا تھا ۔ ناممکن تھا کہ انہیں پڑھنے کے بعد برصغیر میں امت مسلمہ کے ان محسنوں پر اعتقاد و اعتماد باقی رہے۔ کچھ عرصہ بعد ہمیں حضرت مولانا علی میاں ندوی ؒ کی وہ تقریر ملی جس کی عبارت سے آج اس مضمون کا آغاز کیا گیا ہے ۔ پھر ہم نے محسوس کیا کہ ہمارا معاشرہ شخصیت پرستی سے تعبیر ہے ۔ اگر محترم شخصیات کی خامیاں، مبالغہ آمیز جنگی لہجے میں ابھارنے میں قوم کے دانشور لگ جائیں گے، تو پھر یہ قوم یا تو مکمل طور پر اسلام کی ان تاریخی علامتوں سے باغی ہوجائے گی ، یا پھر عقیدت میں غلو کی وجہ سے اپنی خامیوں میں مزید پختہ ہوجائے گی ، اور یہ دونوں راہیں امت کی فلاح پر ختم نہیں ہوتیں۔ معلوم نہیں کہ کالم نگار نے مسعود احمد کی کتاب کی تعریف اسے پڑھ کر کی ہے یا پھر مصنف کا دعویٰ دیکھ کر۔ کالم نگار ہماری رہنمائی کریں کہ طبری ؒ کے بارے میں صحیح تاریخ الاسلام و المسلمین کی یہ عبارت پڑھنے کے بعد ان کے ممدوح کی یہ کتاب کے مزید اوراق کھولیں یا اسے بند کردیں کہ:
’’علامہ طبری نے بہت سی کتابیں تصنیف و تالیف کیں ، ان کی تمام کتابیں ہم تک نہیں پہنچیں ، البتہ ان کی ایک تفسیر اور ایک تاریخ ہم تک پہنچی ہے۔ محمد بن جریر محدث تھے ، لہذا انہوں نے تاریخ میں بھی محدثین کا طریقہ استعمال کیا ، یعنی تاریخ کی تدوین میں انہوں نے اسناد کا خاص خیال رکھا ۔۔۔ ان پر شیعیت کا بہتان بے بنیاد ہے ۔ وہ شیعہ ہرگز نہیں تھے۔‘‘