10 ستمبر 2015ء کو بعد نماز مغرب جامعہ اشرفیہ الاہور میں ملی مجلس شرعی پاکستان کا ایک اہم اجلاس مولانا مفتی محمد خان قادری کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں مولانا حافظ فضل الرحیم، مولانا زاہد الراشدی، علامہ احمد علی قصوری، علامہ خلیل الرحمن قادری، مولانا عبد المالک محمد ڈاکٹر امین، مولانا حافظ محمد نعمان، جسٹس (ر) میاں نذیر اختر، جسٹس (ر) میاں سعید الرحمن فرخ، ڈاکٹر سید محمد مہدی، ڈاکٹر محمد توقیر، مولانا حافظ عبد الغفار روپڑی، مولانا سید عبد الوحید شاہ، حافظ عاکف سعید، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، قاری جمیل الرحمن اختر، مولانا محمد رمضان، مولانا اشرف علی، مرزا محمد ایوب بیگ، اور دیگر حضرات نے شرکت کی۔ اجلاس کے لیے سیکرٹری جنرل پروفیسر ڈاکٹر محمد امین کی طرف سے مندرجہ ذیل ایجنڈا شرکاء کو بھجوایا گیا تھا:
(۱) سپریم کورٹ کا مخدوش فیصلہ
آئینی ترامیم کے حق میں پاکستان کی عدالت عظمیٰ کے اکثریتی فیصلے نے پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کا لا محدود اختیار دے دیا ہے، سوائے تین امور کے جن میں اسلامی دفعات اور آئین کا اسلامی مزج اور ڈھانچہ شامل نہیں ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمنٹ جب چاہے آئین کی اسلامی دفعات ختم کر سکتی ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ ایک خطرناک صورت حال ہے جو اسلامی جماعتوں اور اداروں کے لیے کسی حالت میں بھی قابل قبول نہیں ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس فیصلے کو چیلنج کیا جائے اور فل کورٹ کے لیے ریویو پٹیشن داخل کی جائے اور علماء کرام و عوام کو متحرک کیاجائے کہ وہ اس تشویش ناک صورت حال کی سنجیدگی اور الم ناکی کو محسوس کریں۔
(۲) قانون توہین رسالت اور ممتاز قادری کیس
مجلس نے پچھلے اجلاس میں طے کیا تھا کہ ممتاز قادری کیس میں عدالت عظمیٰ کے ججوں کے رویے کے پیش نظر رائے عامہ کو متحرک کیا جائے۔ اس کے لیے علامہ احمد علی قصوری صاحب کی کنوینر شپ میں ایک کمیٹی قائم کی گئی تھی۔ وہ کمیٹی اپنی رپورٹ اور آئندہ کا لائحہ عمل پیش کرے گی۔ نیز جسٹس (ر) سعید الرحمن فرخ صاحب قانون توہین رسالت کی بقاء کے حوالے سے اپنی کوششوں کے بارے میں بتائیں گے۔
(۳) دینی مسالک اور علماء کرام کے لیے ضابطہ اخلاق
ملی مجلس شرعی کے بانی رکن اور جامعہ اشرفیہ کے نائب مہتمم مولانا حافظ فضل الرحیم نے (جو حکومت پنجاب کے قائم کردہ متحدہ علماء بورڈ کے صدر بھی ہیں) منافرت آمیز مواد کے خاتمے کے حوالے سے ایک تحریر تیار کی ہے جو انہوں نے مختلف علماء کو بھیجی۔ مجلس کے صدر مولانا مفتی محمد خان قادری صاحب نے اپنی ذاتی حیثیت میں اس مسودے کے بارے میں تجاویز دیں۔ دونوں کی فوٹو کاپیاں ارکان مجلس کی خدمت میں ارسال ہیں جنہیں وہ پڑھ کر تشریف لائیں تاکہ مجلس کی طرف سے ایک متحدہ موقف اختیار کیا جا سکے۔
(۴) مولانا زاہد الراشدی صاحب کا خط اور تجاویز
مجلس نے اپنے سابقہ اجلاس میں طے کیا تھا کہ جاوید احمد غامدی صاحب کے گمراہ کن افکار کے بارے میں علماء کرام کے متفقہ موقف کے لیے صدر و جنرل سیکرٹری ایک تحریر تیار کریں۔ اسی طرح قضیۂ یمن کے بارے میں طے ہوا تھا کہ متعلقہ ممالک کی حکومتوں کو صلح و جنگ کے قرآنی اصولوں کی طرف متوجہ کیا جائے تاکہ امت میں اختلاف و انتشار کا خاتمہ ہو۔ ان دونوں نکات پر عملدرآمد کے حوالے سے مولانا زاہد الراشدی نے مجلس کے جنرل سیکرٹری کو ایک خط لکھا جس کی فوٹو کاپی لف ہذا ہے ۔۔۔ تاکہ ارکان مجلس ان معاملات میں اپنی رائے دے سکیں۔
سیکرٹری جنرل کے نام مولانا زاہد الراشدی کا خط:
’’گزارش ہے کہ ملی مجلس شرعی کے 14 جون کے اجلاس کی کاروائی ’’البرہان‘‘ کے جون ہی کے شمارہ میں پڑھ لی تھی مگر ایک دو ضروری گزارشات پیش کرنے میں کچھ تاخیر ہوگئی۔
- جاوید احمد غامدی صاحب کے افکار کے حوالہ سے میری تجویز یہ ہے جو میں نے لاہور کے ایک بڑے مفتی صاحب محترم کے استفسار پر ان کی خدمت میں بھی عرض کی تھی کہ غامدی صاحب کی تحریرات کا بغور جائزہ لے کر ان کے بارے میں اشکالات مرتب کیے جائیں اور انہیں وضاحت کے لیے بھجوائے جائیں۔ اگر وہ وضاحت سے انکار کر دیں یا ان کی وضاحت قابل قبول نہ ہو تو اس کے بعد ایک متوازن اور ٹھوس رائے قائم کر کے اس پر مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام کے دستخط کرا لیے جائیں۔ اس لیے کہ جس شخص کے بارے میں ہم اپنی رائے کا اعلان کرنا چاہتے ہیں وہ اگر زندہ موجود ہے تو اسے وضاحت کا موقع دیے بغیر کسی حتمی رائے یا فتویٰ کا اعلان میرے خیال میں مناسب بات نہیں ہوگی۔
- قضیۂ یمن کے حوالہ سے مجلس کی رائے اصولی طور پر درست ہے مگر صرف موجودہ صورت حال کو بنیاد بنانے کی بجائے حالات کو یہاں تک پہنچانے کے اسباب و عوامل کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ میری تجویز ہے کہ ملی مجلس شرعی کو اس مسئلہ پر وسیع تر مکالمہ و مباحثہ کا اہتمام کرنا چاہیے اور اہل سنت و اہل تشیع کے سنجیدہ اہل دانش کو باہمی تبادلہ خیالات کا موقع فراہم کرنا چاہیے۔ کیونکہ جب تک اسباب و عوامل کا جائزہ لے کر ان کے بارے میں کوئی رائے قائم نہ کر لی جائے، صرف معروضی حالات کو کسی حکمت عملی کی بنیاد بنانا قرین انصاف نہیں ہوگا۔‘‘
جامعہ اشرفیہ میں منعقدہ اجلاس کی کاروائی
جامعہ اشرفیہ لاہور میں 10 ستمبر کو منعقدہ اجلاس میں سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کا جائزہ لیا گیا اور اس امر پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ فیصلے میں دستور کے ناقابل ترمیم حصوں کا ذکر کرتے ہوئے اسلامی دفعات اور قرارداد مقاصد کا معاملہ گول کر دیا گیا ہے۔ اس پر سپریم کورٹ سے نظر ثانی کے لیے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور طے پایا کہ جسٹس (ر) میاں نذیر اختر، جسٹس (ر) میاں سعید الرحمن فرخ اور پروفیسر ڈاکٹر محمد امین پر مشتمل کمیٹی دیگر حضرات سے مشاورت کے بعد عملی طریق کار طے کرے گی۔ جبکہ عید الاضحی کے بعد اجلاس میں اس کے بارے میں حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔
اجلاس میں ممتاز قادری کیس کے سلسلہ میں رائے عامہ کو منظم کرنے کے لیے علامہ احمد علی قصوری کی سربراہی میں قائم کمیٹی کو دوبارہ متحرک کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور مولانا قصوری نے تبایا کہ وہ جلد از جلد کمیٹی کا اجلاس بلا کر عملی پروگرام کی ترتیب طے کریں گے۔
اجلاس میں ’’تحریک انسداد سود‘‘ کی کارکردگی کا بھی جائزہ لیا گیا اور رابطہ کمیٹی کے کنوینر مولانا زاہد الراشدی نے بتایا کہ وہ عید الاضحی کے بعد رابطہ کمیٹی کا اجلاس طلب کریں گے جس میں مہم کو آگے بڑھانے کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
اجلاس میں متحدہ علماء بورڈ کا مختلف مذہبی مکاتب فکر کے لیے تجویز کردہ ضابطہ اخلاق زیر بحث آیا اور طے پایا کہ اس سلسلہ میں پیش کی جانے والی تجاویز کا جائزہ لے کر آئندہ اجلاس میں حتمی رپورٹ پیش کی جائے گی۔ جبکہ ان کا جائزہ لینے کے لیے مولانا مفتی محمد خان قادری، پروفیسر ڈاکٹر محمد امین اور علامہ خلیل الرحمن قادری پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی۔
اجلاس میں مولانا زاہد الراشدی کی اس تجویز سے اتفاق کیا گیا کہ جاوید احمد غامدی صاحب کے متنازعہ افکار کے حوالہ سے کسی مشترکہ موقف کے اعلان سے پہلے ان کے بارے میں اعتراضات و اشکالات مرتب کر کے انہیں بھجوائے جائیں اور ان کی طرف سے جواب موصول ہونے یا انکار کر دینے کے بعد کوئی مشترکہ رائے قائم کر کے اس کا اعلان کیا جائے۔
یمن کے قضیہ کے بارے میں غور و خوض کے بعد طے پایا کہ مولانا مفتی محمد خان قادری اور ڈاکٹر محمد امین یمن، سعودی عرب اور ایران کے سفارت خانوں سے رابطہ کر کے انہیں یمن کے تنازعہ کے بارے میں ملی مجلس شرعی کے جذبات سے آگاہ کریں گے اور ضرورت پڑنے پر باقاعدہ وفد کی صورت میں ان سفارت خانوں سے ملاقات و رابطہ کا اہتمام کریں گے۔ اس سلسلہ میں مولانا زاہد الراشدی کی اس رائے سے اجلاس میں اتفاق کیا گیا کہ صرف یمن کی بجائے مشرق وسطیٰ کی مجموعی صورت حال اور بڑھتی ہوئی سنی شیعہ کشیدگی کے اسباب و عوامل کا جائزہ لینے کے بعد اس کے بارے میں مشترکہ موقف پیش کیا جائے اور اس مقصد کے لیے سنجیدہ سنی اور شیعہ راہ نماؤں کے درمیان مشاورت اور تبادلۂ خیالات کا بھی اہتمام کیا جائے تاکہ کوئی متوازن موقف طے کیا جا سکے۔
اجلاس میں جسٹس (ر) میاں سعید الرحمن فرخ نے ناموس رسالتؐ کے تحفظ کے قانون کے حوالہ سے نفاذِ قانون کے پس منظر اور اس کے تقاضوں سے شرکاء کو آگاہ کیا۔ اور حاضرین نے اس عزم کا اظہار کیا کہ تحفظ ناموس رسالتؐ کے قانون کے خلاف سازشوں کا بھرپور مقابلہ کیا جائے گا۔