سنی شیعہ اختلافات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مشرق وسطیٰ ہو یا پاکستان، ہم کسی بھی جگہ سنی شیعہ کشیدگی میں اضافہ اور اس کے فروغ کے حق میں نہیں ہیں اور پہلے کی طرح اب بھی دل سے چاہتے ہیں کہ اس کی شدت اور سنگینی میں کمی لائی جائے اور اس ماحول کو بحال کرنے کی کوشش کی جائے جو سنی شیعہ کشیدگی کے باقاعدہ خانہ جنگی کی صورت اختیار کرنے سے قبل موجود تھا کہ باہمی اختلافات کے باوجود مشترکہ قومی مسائل میں ایک دوسرے سے تعاون کیا جاتا تھا، اختلافات کو دلیل اور مناظرہ کے دائرے میں محدود رکھا جاتا تھا، ایک دوسرے کے عقیدہ و موقف پر شدید تنقید بھی کچھ حدود کا لحاظ رکھتی تھی، اور باہمی قتل و قتال اور تصادم سے ہر ممکن گریز کیا جاتا تھا۔ ہم نے پاکستان کے قیام کی تحریک سے لے کر تحریک ختم نبوتؐ، تحریک نظام مصطفیؐ، تحریک تحفظ ناموس رسالتؐ اور دیگر دینی و قومی تحریکات میں مشترکہ کردار ادا کیا ہے۔ اور ان تمام تر اختلافات کے باوجود کیا ہے جنہوں نے اب ہمیں ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا رکھا ہے۔ اور سنی شیعہ اختلافات کا جملہ زبان پر آتے ہی دل و دماغ میں عجیب سے ہیجان بپا ہونے لگتا ہے۔ 

جہاں تک اختلافات کی بات ہے وہ تو صدیوں سے چلے آرہے ہیں اور قیامت تک رہیں گے۔ انہیں ختم نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی دونوں میں سے کوئی گروہ دوسرے کو ختم یا مغلوب کر سکتا ہے۔ یہ اختلاف عقیدہ میں بھی ہے، شخصیات میں بھی ہے، فقہ و شریعت میں بھی ہے، اور رسوم و عبادات میں بھی ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ یہ اختلافات کسی طرح ختم کیے جا سکتے ہیں تو وہ انسانی فطرت، معاشرتی نفسیات اور تاریخی پس منظر و عوامل سے بے خبری کا اظہار کرتا ہے۔ البتہ ان اختلافات کا ایسا اظہار اور ان کی بنیاد پر ایسا باہمی رویہ ضرور غور طلب ہے جو کشیدگی میں اضافے کا باعث بنتا ہے اور باہمی تصادم کی راہ ہموار کرتا ہے۔ اس کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ہم اس پر غور و خوض کی اہل فکر و دانش کو وقتاً فوقتاً دعوت دیتے رہتے ہیں اور اسے اپنی دینی و قومی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ 

در اصل ہمارے ہاں یہ سوچ مسلسل پروان چڑھ رہی ہے کہ کسی مسئلہ کو ’’کیمو فلاج‘‘ کر دینے سے شاید اس کے حل کی کوئی صورت نکل آتی ہے۔ یعنی مسئلہ کے وجود سے انکار کر دیا جائے، اس پر بحث و تمحیص سے گریز کیا جائے، اور اسے نظر انداز کیا جاتا رہے تو وقتی طور پر وہ آنکھوں سے ضرور اوجھل ہو جاتا ہے لیکن اس کی سطح سمندر جیسی خاموشی کی تہہ میں جو طوفان کروٹیں لے رہے ہوتے ہیں ان میں ایک بھی ابھر آئے تو سب کچھ تہہ و بالا ہو کر رہ جاتا ہے۔ اور پھر جو کچھ کیا جا سکتا ہے وہ بھی نہیں ہو پاتا۔ 

پاکستان کا داخلی ماحول ہو یا مشرق وسطیٰ کا وسیع تناظر ہو، ہم ہر جگہ اور ہر حوالہ سے اس بات پر زور دیتے آرہے ہیں کہ کشیدگی کی موجودگی کو محسوس کیا جائے، اس کے معروضی تناظر کو کھلی آنکھوں سے دیکھا جائے، اس کے اسباب و عوامل کی نشاندہی کی جائے، ان پر فریقین کے سنجیدہ اور ارباب دانش کے درمیان مکالمہ کا اہتمام کیا جائے، ان اسباب و عوامل کو کم کرنے کے امکانات کا جائزہ لیاجائے، ایک دوسرے کے وجود اور جائز حقوق کا احترام کیا جائے، اور ایک دوسرے کی شکایات و تحفظات کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ یہ کام یک طرفہ نہیں بلکہ دو طرفہ بنیادوں پر ہونا چاہیے اور ایسے مؤثر افراد و طبقات کو سامنے آنا چاہیے جو عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے دونوں فریقوں سے بات کر سکیں، دونوں کو ایک میز پر لا سکیں، حقیقت پسندانہ توازن قائم کر سکیں اور معاملات کو سلجھانے یا کم از کم مزید بگڑنے سے روکنے کے لیے کوئی کردار ادا کر سکیں۔ 

ہمارے خیال میں مسئلہ کا اصل حل یہی ہے اور اس کے لیے مشرق وسطیٰ کے ماحول میں اسلامی سربراہ کانفرنس کی تنظیم، جبکہ پاکستان کے اندر عدالت عظمیٰ یا ریٹائرڈ جسٹس صاحبان کا کوئی فورم اس کام کو بطریق احسن سر انجام دے سکتا ہے۔ اگر حکومتی سطح پر یا فریقین کی طرف سے اس کی پذیرائی نہ ہو تو بھی غیر جانبدار دانش وروں کا کوئی فورم اپنے طور پر یہ ذمہ داری قبول کر کے آزادانہ انکوائری اور تحقیقات کے ذریعہ سنی شیعہ کشیدگی میں مسلسل اضافہ کے اسباب و عوامل کی نشاندہی کر کے اس میں کمی لانے کے لیے تجاویز اور سفارشات ملکی اور عالمی رائے عامہ کے سامنے پیش کر سکتا ہے۔ اس سے لوگوں کو اصل صورت حال سمجھنے میں مدد ملے گی اور رائے عامہ کی راہ نمائی ہو جائے گی۔ اور یہ طرز عمل کوئی نئی اور انہونی بات نہیں ہوگی کیونکہ قومی اور عالمی سطح پر تنازعات میں ایسا ہوتا آرہا ہے اور اس کی افادیت اور تاثیر سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ 

مثلاً مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورت حال کو سعودی عرب اور ایران کے درمیان پراکسی وار سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ اور ظاہری تناظر بھی یہی ہے کہ مشرق وسطیٰ کے نصف درجن کے لگ بھگ ممالک میں یہ کشیدگی آگے بڑھ رہی ہے اور اس کے فروغ کی پشت پر ایران اور سعودی عرب کی موجودگی ہر ایک کو نظر آرہی ہے۔ ظاہر ہے کہ ان میں سے ہر ایک کا موقف یہی ہوگا کہ وہ یہ سب کچھ اپنے دفاع میں کر رہا ہے اور اپنے ہم خیال لوگوں کے تحفظ کے ساتھ ساتھ اپنی سلامتی اور بقا کی خاطر اسے ایسا کرنا پڑ رہا ہے۔ لیکن کیا ان دعوؤں کا زمینی حقائق کی بنیاد پر جائزہ لینا ضروری نہیں ہے؟ سوال یہ ہے کہ زمینی حقائق کیا ہیں، واقعات کی ترتیب کیا ہے، اور ایک دوسرے کے حوالہ سے اقدامات اور پالیسیوں میں توازن و تناسب کیا ہے؟ جب تک ان امور کا جائزہ نہیں لیا جائے گا اور معروضی صورت حال کی پشت پر کار فرما حقائق و اسباب کو سامنے نہیں لایا جائے گا، نہ تو اس کشیدگی بلکہ تصادم کو روکنا ممکن ہوگا اور نہ ہی انصاف کے تقاضے پورے کیے جا سکیں گے۔ 

دونوں میں سے کسی کو یہ سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس کشیدگی اور تصادم کا فائدہ صرف امریکہ، اسرائیل اور ان عالمی قوتوں کو ہے جو عالم اسلام کو بکھری ہوئی حالت میں رکھنا چاہتی ہیں، جنہیں عالم اسلام میں دینی بیداری اور مذہبی رجحانات کا فروغ برداشت نہیں ہے، جن کا مفاد اسرائیل کے تحفظ و استحکام اور اس کے ذریعہ مشرق وسطیٰ کے وسائل اور دولت پر اپنی گرفت قائم رکھنے میں ہے، اور جو عالم اسلام کو اس کے اپنے وسائل کے کنٹرول اور استعمال سے محروم رکھنے میں اپنی عافیت سمجھ رہی ہیں۔ 

لیکن اس کے لیے سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ ہم حالات کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیں، اسباب و عوامل کا تعین کریں اور انہیں دور کرنے کے لیے باہمی مکالمہ و مشاورت کے ساتھ راستہ نکالیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم سب نے مسائل کے حل کے لیے امریکہ کی طرف دیکھنے کی روش کو عادت بنا لیا ہے۔ ہماری اپنی پالیسیوں کا تعین بھی واشنگٹن کا موڈ دیکھ کر ہوتا ہے۔ اور اسے دولت و طاقت کا کرشمہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ بہادر بیک وقت حریف بھی ہے، فریق بھی ہے، ریفری بھی ہے، قابض بھی ہے، جج بھی ہے، گواہ بھی ہے، وکیل بھی ہے، اور فیصلہ صادر کرنے کے بعد سزا دینے کی اتھارٹی بھی وہی رکھتا ہے۔ کیا عالم اسلام کی مثال آپریشن تھیٹر کے اس مریض کی تو نہیں جسے سرجن نے بے ہوش کر کے اس کے پورے جسم کی چیر پھاڑ شروع کر رکھی ہے؟ بات آپریشن کی حد تک رہتی تو کسی حد تک قابل فہم تھی مگر اب تو یہ آپریشن ’’پوسٹ مارٹم‘‘ کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے، اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔ 

گزشتہ دنوں دو بظاہر چھوٹی سی خبریں نظر سے گزریں جن کو کسی تبصرہ کے بغیر قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ ہو سکتا ہے دوستوں کو ہماری گزارشات کا مقصد سمجھنے میں اس سے کچھ سہولت ہو جائے۔ 

ایک خبر رونامہ ’’جنگ‘‘ کے ملتان ایڈیشن میں 5 ستمبر کو شائع ہوئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ:

’’ایران کے قونصلیٹ جنرل نے حال ہی میں حکومت پنجاب کی اعلیٰ شخصیات سے ملاقات کر کے انہیں پیش کش کی تھی کہ پنجاب پولیس اور ایران پولیس ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں تاکہ دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے پولیس کو جدید خطوط پر تربیت دی جا سکے۔ ذرائع کے مطابق حکومت پنجاب نے یہ پیش کش قبول کر لی ہے اور فیصلہ کیا ہے کہ سیکرٹری داخلہ پنجاب، آئی جی پولیس پنجاب اور ایڈیشنل آئی جی اسپیشل برانچ پر مشتمل ایک وفد تین روزہ دورے پر ایران جائے گا اور ایران کے پولیس سسٹم کا جائزہ لے گا۔‘‘

جبکہ ودسری خبر روزنامہ ’’دنیا‘‘ کے گوجرانوالہ ایڈیشن نے 8 ستمبر کو شائع کی ہے جس کا متن یہ ہے کہ:

’’امریکی اخبار ’’واشنگٹن ٹائمز‘‘ نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ یمن، شام، لبنان اور غزہ کی پٹی میں ایران اپنے حامی جنگجوؤں کو سالانہ اربوں ڈالر کی امداد مہیا کرتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایران وزارت دفاع کا سالانہ بجٹ 14 سے 30 ارب ڈالر کے درمیان ہے جس کا ایک بڑا حصہ بیرون ملک مسلح دہشت گرد گروپوں بالخصوص مشرق وسطیٰ میں سرگرم تنظیموں کو پہنچایا جاتا ہے۔ شام میں بشار الاسد کی حمایت میں لڑنے والے اجرتی قاتلوں کو ماہانہ 500 سے ایک ہزار ڈالر اجرت ایران کی طرف سے ادا کی جاتی ہے۔ ان میں سے بیشتر جنگجوؤں کا تعلق افغانستان اور دوسرے ملکوں سے ہے، پہلے ان کی ایران ہی میں عسکری تربیت کی جاتی ہے۔‘‘

حالات و واقعات

(اکتوبر ۲۰۱۵ء)

اکتوبر ۲۰۱۵ء

جلد ۲۶ ۔ شمارہ ۱۰

ملی مجلس شرعی کے اجلاس کے اہم فیصلے
ادارہ

سنی شیعہ اختلافات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

فقہی مسالک کے درمیان جمع و تطبیق
مولانا سید سلمان الحسینی الندوی

پاکستان کے اسلامی تحقیقی ادارے : جائزہ و تجاویز
مولانا مفتی محمد زاہد

مدارس کی اصلاح: ایک اور کمیٹی!
خورشید احمد ندیم

وزیر اعظم ہاؤس میں اجلاس
مولانا مفتی منیب الرحمن

امام ابن جریر طبریؒ کی جلالت ۔ چند مزید باتیں
مولانا عبد المتین منیری

میری صحافتی زندگی
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مکاتیب
ادارہ

’’ذخیرۃ الجنان فی فہم القرآن‘‘
مولانا وقار احمد

تلاش

Flag Counter