حصول علم کا جذبہ اور ہمارے اسلاف

مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی

(کچھ عرصہ قبل بھارت کے نامور محقق اور مورخ مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی الشریعہ اکادمی میں تشریف لائے اور اہل علم کی ایک نشست سے خطاب کیا جس کی صدارت استاذ العلماء حضرت مولانا محمد عیسیٰ خان گورمانی نے کی۔ مولانا کی گفتگو کا نقل شدہ مسودہ کاغذات میں دب جانے کے باعث نظروں سے اوجھل ہو گیا تھا۔ اب دوبارہ ملنے پر اسے افادۂ عام کے لیے شائع کیا جا رہا ہے۔ مدیر)


نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم۔ اما بعد!

حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب دامت برکاتہم اور حضرت مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان صاحب مدظلہ العالی۔

میں یقیناًاس لائق نہیں ہوں جس طرح کے کلمات خیر سے ازراہِ محبت ذکر کیا گیا ہے، لیکن چونکہ یہ بڑے حضرات ہیں، اکابر حضرات ہیں، اس لیے دعا و تمنا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کے خیالات کو حقیقت میں بدل دے اور ان کے یہ کلمات ہمارے لیے ایسی دعا ثابت ہوں جو حقیقت ہو جائیں۔ یہ بات میرے لیے بڑی خوش نصیبی اور سعادت کی ہے کہ اس مبارک مدرسہ میں حاضری ہوئی۔ میں جب پڑھتا تھا، اس وقت میں نے حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ کی کتاب ’’راہ سنت‘‘ پڑھی تھی اور پھر تو بار بار پڑھنے کا موقع ملا۔ مولانا کی جتنی کتابیں ہیں، میرے خیال میں تقریباً ساری ہی ایک ایک کر کے پڑھیں۔ حضرت مولانا سواتی صاحب کی بیشتر کتابیں بھی دیکھنے اور ہمارے اندر تھوڑی بہت جتنی لیاقت تھی، اس کے مطابق ان کو سمجھنے اور ان سے استفادہ کی توفیق نصیب ہوئی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی جو بے شمار عنایات اور انعامات ہیں، ان میں سے ایک بڑا انعام اور فضل و کرم یہ ہے کہ آج اس مبارک مدرسے اور ان حضرات کے زیر سایہ حاضر ہونے کی توفیق ملی اور آپ سے ملاقات ہوئی۔ 

یہ بھی بڑی سعادت ہے اور یہ بھی بڑی خوشی کی بات ہے کہ آج یہاں مدرسے کی لائبریری کا افتتاح ہو رہا ہے۔ یہ بات بڑی تعجب کی ہوگی کہ لائبریری کے افتتاح کے لیے ایک ایسے آدمی کو طلب فرمایا گیا جو بہت ہی ادنیٰ درجہ کا طالب علم ہے اور اس کا اہل بھی نہیں ہے، لیکن بعض اوقات آپ حضرات جانتے ہیں کہ حکم کے بعد گنجائش کم رہتی ہے۔ تو حکم ہوا تو میں حاضر ہوگیا۔ لائبریری کا قائم کرنا بہت مبارک ہے اور بے حد ضروری بھی ہے۔ مدارس کا اصل ورثہ علم ہی تھا۔ ہمارا دین جو یہاں تک پہنچا، یہ جو علم ہے، وہ اصل میں ہمارے اسلاف کی محنت کا نتیجہ ہے۔ ان حضرات نے علم اور کتاب دونوں کو مفاد سے بالاتر ہو رکھا۔ کسی کام کو نہ اپنی ذات کے لیے کیا اور نہ کسی دنیا کے مفاد کے لیے کیا۔ ہر بات میں وہ دو چیزوں کی رعایت رکھتے تھے۔ ایک اللہ تعالیٰ کی رضا اور دوسرا علم کی خدمت۔ اسی لیے ہمارے علماء نے ایسے ایسے کام کیے ہیں کہ آج بڑی بڑی اکیڈمیاں اور ادارے کروڑوں روپے کے بجٹ سے وہ کام نہیں کر سکتے جو ان میں سے ایک ایک نے کر دیے ہیں۔ 

ابھی پچھلے مہینے ہمارے ہاں ایک کتاب شائع ہوئی ہے ’’فتاویٰ تاتار خانیہ‘‘۔ اس کے مصنف آٹھویں صدی کے عالم ہیں، ۷۸۶ھ میں ان کی وفات ہے۔ ان کی کتاب کو قاضی سجاد صاحب نے مرتب کرنا شروع کیا تھا، لیکن اجل نے ان کو مہلت نہیں دی اور ان کی وفات ہوگئی۔ اب ہمارے ہاں ایک اور عالم مفتی شبیر صاحب نے اس کو مرتب کر کے شائع کیا ہے جو ۲۳ جلدوں میں ہے۔ یہ ایک فرد کا کام ہے۔ آپ کہیں گے کہ اس وقت بادشاہ سرپرستی کرتے تھے۔ آپ حضرات نے سنا ہوگا کہ ٹونک کے ایک عالم تھے، مولانا محمود حسن صاحب۔ انہوں نے ان علماء کے جو عربی میں صاحب تصنیف ہیں، جنہوں نے عربی میں کوئی قابل ذکر کتاب لکھی ہے، صرف ان کے حالات جمع کیے ہیں۔ یہ ’’معجم المصنفین‘‘ کے نام سے ۸۰ جلدوں میں ہے اور اس کتاب کے مؤلف کوئی پرانی صدی کے آدمی نہیں ہیں۔ غالباً ابھی ۱۳۷۰ھ یا اس کے بعد ان کی وفات ہوئی ہے۔ 

ایک بات اور یاد آئی۔ ہمارے شبیر میواتی صاحب کو اچھی طرح معلوم ہوگی۔ ہمارے ہاں ایک ہندو راجہ تھا، راجندر لاؤ۔ اردو کا بڑا دلدادہ تھا۔ اس نے اردو کا ایک لغت مرتب کیا جس کا ایک نسخہ دستیاب ہوگیا ہے جو پچاس جلدوں میں ہے۔ اردو کا لغت پچاس جلدوں میں اور ہندو لکھ رہا ہے۔ جن لوگوں کو آپ نے بہت قریب سے دیکھا ہے، ان میں ہمارے مولانا ادریس صاحب کاندھلوی ہیں۔ ان کی شرح بخاری شریف۳۰ جلدوں میں ہے اور شرح بیضاوی ۳۰ جلدوں میں ہے۔ مشکوۃ شریف کی شرح التعلیق الصبیح ۸ جلدوں میں ہے۔ ان کی تفسیر معارف القرآن دیکھی ہوگی اور ان کی سیرت پر جو کتاب ہے، مجھے یہ کہنا چاہیے کہ پورے برصغیر میں غالباً علامہ شبلی کی کتاب کے بعد سب سے بڑی مرجع ہے۔ بتائیے مولانا ادریس صاحب کو کس کا تعاون تھا؟ وہ کس سے تنخواہ لیتے تھے؟ کہاں سے وظیفہ ملتا تھا؟ وہ ایک فرد تھے، ارادہ رکھتے تھے، خدا کے لیے کام کرتے تھے، خدا کی طرف سے مدد ہوتی تھی۔ ہم لوگ اول تو کام کرنا نہیں چاہتے، اگر کرنا چاہتے ہیں تو ہماری ترتیب الٹی ہوتی ہے۔ ہمارے بزرگوں نے مدرسوں کے بارے میں بھی یہ کیا اور علم کے بارے میں بھی یہ کیا کہ وہ پہلے کام کرتے تھے، وسائل بعد میں خود بخود آتے تھے۔ ہم پہلے وسائل ڈھونڈتے ہیں اور کام کچھ نہیں ہوتا۔ اس لیے کام شروع کر دینا چاہیے۔ میں نے ابھی دیکھا تو نہیں، لیکن سنا ہے کہ مولانا موسیٰ خانؒ روحانی بازی کی ایک تقریر ہے بیضاوی کی جو شاید ۶۰ جلدوں میں ہے اور اب اس کی طباعت کا اہتمام ہو رہا ہے۔اس طرح کی بہت ساری باتیں ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ آدمی کرنا چاہے تو بہت کچھ کر سکتا ہے۔ 

حضرت مولانا ادریس کو آپ نے دیکھا ہوگا۔ مولانا کی صفات کیا تھیں؟ مولانا کی صفت یہ تھی کہ مولانا نے پوری زندگی کبھی انگریزی قلم کو ہاتھ میں نہیں لیا۔ بازار سے آنے والی روشنائی سے نہیں لکھا۔ وہ کہتے تھے کہ یہ روشنائی ناپاک ہے، میں اس سے حدیث کس طرح لکھوں؟ خدا کو کیا جواب دوں گا؟ تب ان کے کام میں برکت ہوتی تھی۔ مولانا ہمیشہ تاحیات سرکنڈے کے قلم سے لکھتے تھے، خود بناتے تھے۔ اسی طرح سے اور بھی سب حضرات اس طرح کام کرتے تھے۔ حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب کو ہم نے خود دیکھا، زمین پر بوریا بچھا کر بیٹھتے تھے۔ آپ کے ہاں تو ہم جانتے نہیں کیا کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو ۵، ۷ روپے کا آتا ہے بوریا اور وہاں قربانی کا گوشت رکھنے کے کام آتا ہے۔ شیخ الحدیث صاحب اس پر بیٹھتے تھے، اسی پر بیٹھ کر سارے کام کیے ہیں۔ وہیں بیٹھ کر اوجز المسالک لکھی گئی ہے، وہاں اس کمرے میں نہ بجلی ہے، نہ دنیاوی شوکت ہے اور نہ ہی کوئی پنکھا ہے۔ وہاں بیٹھے رہتے تھے۔ چاروں طرف کتابوں کا ہجوم ہوتا تھا۔ ترتیب سے کتابیں لگی ہوتی تھیں اور جب کوئی ضرورت پڑتی تو ان کے پاس جو طلبہ تھے، مولانا یوسف صاحب تھے یا دوسرے حضرات، ان کو کہتے تھے کہ کتاب اٹھاؤ۔ کتاب دیکھی، پھر رکھ دی۔ شیخ نے اپنے اس کمرے میں پوری زندگی نہ بجلی لگنے دی، نہ پنکھا لگنے دیا۔ حافظ صاحب اور شیخ صاحب لنگی باندھتے تھے اور وہ لنگی پسینے سے تر ہو جاتی تھی۔ جب دیکھتے کہ پسینہ بنیان میں سے ٹپکنے لگا تو اس کو بدل کر دھوپ میں ڈال دیا، لیکن کام میں نہیں فرق پڑتا تھا۔ ہمارے ہاں سہولیات تو بہت ہیں، لیکن وہ لگن نہیں، وہ تڑپ نہیں، وہ جذبہ نہیں۔ 

علم تو اس امت کا خاصہ ہے۔ اس امت نے جس طرح علم کو آگے بڑھایا اور جتنے علم کے پہلو ایجاد کیے، پوری دنیا اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ یورپ نے آپ کے پاس جو معلومات تھیں، ان کو نکھارا سنوارا اور آگے بڑھایا۔ ہمارے ہاں ایک بہت بڑے مغربی اسکالر ہیں اور ان کی دنیا میں بڑی شہرت ہے اس بات میں کہ انہوں نے اہرام مصر میں اور دوسری جو عمارتیں ہیں، ان کے کتبات اور مہروں کو پڑھا ہے اور دنیا میں ان کو سند سمجھا جاتا ہے۔ چار، پانچ سال پہلے ایک کتاب چھپی تو پتہ چلا کہ آٹھویں صدی کے ایک عالم تھے، وہ سارے کتبے حل کر چکے تھے۔ اس بندۂ خدا کے وہ کتاب ہاتھ لگ گئی اور اس نے وہ ساری چیزیں اپنی طرف منسوب کرلیں۔ تو اس طرح سے ہوتا ہے۔ 

ہم نے وہ راستہ چھوڑ دیا ہے۔ ہمارے اندر سے وہ لگن ختم ہوگئی۔ ہمارے اندر سے وہ جذبہ چلا گیا، ہمارے اندر سے وہ تڑپ جاتی رہی۔ اب کام نہیں ہوتا۔ یہ جو ادارہ قائم کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ مبارک کرے۔ مزید ترقیات سے نوازے اور بڑے ادارے قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ساتھ ساتھ کچھ افراد بھی تیار کریں اور افراد کون ہوں؟افراد وہ ہوں جوبالکل کشتیاں جلا کر کام کریں۔ دنیا کے کسی مفاد کو سامنے نہ رکھیں اور بالکل سراپا علم کے اندر ڈوب جائیں۔ پھربات بنتی ہے۔ جب تک یہ بات نہ ہو تو بات نہیں بنتی۔ آج کل آپ دیکھیں کہ اتنی کتابیں چھپ رہی ہیں کہ پہلے کبھی نہیں چھپتی تھیں۔ لیکن شاید دو سو چار سو کتابوں میں سے کوئی دو چار کتابیں ایسی ہوں کہ آدمی پڑھ کر یہ سمجھے کہ اس کو پڑھ کر کوئی فائدہ حاصل کیا۔پہلے لوگوں کی کتابیں ایسی ہیں مثلاً مولانا محمد قاسم صاحب،ؒ مولانا اشرف علی تھانویؒ ، ان کے بعد مولانا ادریس صاحب کو بھی، ان کی کتابوں کو آپ جتنی مرتبہ پڑھیں گے تو ہر مرتبہ کوئی نہ کوئی نیا فائدہ حاصل ہوگا اور آپ سوچیں گے کہ یہ بات تو میں نے پڑھی ہی نہیں۔ میرا ذہن اس طرف گیا ہی نہیں۔ بعض فقرے ایسے ہیں ان کی کتاب میں کہ ایک فقرے کی شرح میں پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ یہ ان کے علم کی گہرائی، ان کی جامعیت تھی کہ انہوں نے یہ فقرات لکھے۔ ہمارے اندر یہ بات نہیں۔ ہم کبھی کسی کتاب کے دو سو تین سو صفحے پڑھتے ہیں، پڑھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ کیوں وقت ضائع کیا ۔ ان میں سے دو صفحے بھی ایسے نہیں نکلتے کہ جن کو پڑھ کر آدمی کچھ فائدہ حاصل کرے۔ 

اب یہ ہے کہ آپ حضرات کے ہاں وسائل بھی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ یہاں طلبہ کی توجہ بھی ہے، اور کسی چیز کی کسی طرح کی دقت نہیں ہے۔ یہاں ایسا ادارہ قائم ہو جو ہمارے اسلاف خاص طور پر حضرت شاہ ولی اللہ سے اب تک کے حضرات پر کام ہو۔ ان پر تحقیق ہو، ان پر تنقیح ہو۔ حضرت شاہ ولی اللہ کی جملہ تصانیف، مجھے معلوم ہے کہ اس برصغیر میں کسی مقام پر بھی ایک جگہ موجود نہیں ہیں۔ اگر ہوں تو میری راہنمائی فرمائیں۔ ان کی کتابیں موجود ہیں، لیکن کسی کے اندر وہ جذبہ نہیں۔ میں ایک ناچیز سا طالب علم ہوں، ایک چھوٹے سے قصبے میں رہتا ہوں، اور میرے پاس شاہ صاحب اور مولانا قاسم کی سو فیصد کتابیں موجود ہیں۔ میرے پاس حضرت شاہ ولی اللہ کی سو فیصد کتابیں موجود ہیں۔ مطبوعہ بھی اور غیر مطبوعہ بھی، ہاتھ سے لکھی ہوئی بھی۔ اسی طر ح حضرت مولانا قاسم نانوتوی کی سو فیصد کتابیں میرے پاس ہیں۔ الحمد للہ اس وقت ہمارے ذخیرے میں ۱۶ سو تو مخطوطے ہیں اور ۱۲،۱۴ ہزار کتابیں ہیں اور استفادے کے لیے پوری دنیا سے لوگ آتے ہیں۔ اگر یہاں لوگ اس طرح کی کوشش کریں تو اس کو کامیابی کیوں حاصل نہ ہو۔ اس لیے کوئی ایسا ادارہ ہو جہاں ان تمام حضرات کی چیزیں جمع کی جائیں اور طلبہ کو ان پر کام کرنے کا موقع دیا جائے۔ مثلاً حضرت شاہ صاحب ہیں، ان کی اپنی اصطلاحات ہیں جن کو وہ مختلف جگہ پر استعمال کرتے ہیں اور مختلف مطلب لیتے ہی۔ اب اگر ایسی لغت مرتب کی جائے کہ اس بات کو شاہ صاحب فلاں جگہ فرمائیں تو یہ مطلب ہے، فلاں جگہ فرمائیں تو یہ مطلب ہے تو ان کی کتابوں سے استفادہ کرنا بہت آسان ہو جائے گا اور یہ جو بات کی جاتی ہے کہ صاحب ! شاہ صاحب کے ہاں اختلاف بہت ہے، اس کا جواب ہو جائے۔ اسی طرح شاہ صاحب اجتہاد و تقلید پر خوب لکھتے ہیں، ان کی ساری چیزوں کو جمع کیا جائے تو وہ مفہوم ہرگز نہ ہو جو آج لیا جا رہا ہے۔ ان پر حضرت مولانا عبید اللہ سندھی نے کام کیا تھا، لیکن ان کی کتابیں اس وقت چھپنی شروع ہوئی ہیں جب ان کے پڑھنے والے چلے گئے۔

ہمارے ہاں یہ بات بہت مشہور ہے کہ حضرت علامہ کشمیری نے فرمایا کہ مولانا گنگوہی تفقہ میں شامی سے بڑھے ہوئے ہیں، لیکن اس کا کوئی دستاویزی ثبوت بھی چاہیے۔ حضرت کشمیری نے فرمایا، بہت اچھا ہے لیکن یہ ثابت کیسے ہو؟ اس کی صورت یہ ہے کہ ان کے فتاویٰ کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے اور اس بات کو ثابت کیا جائے۔

پہلے علماء یہ کیا کرتے تھے کہ آدمی ہزار صفحے پڑھے، پھر دس صفحے لکھے۔ اب کام الٹ ہوگیا ہے کہ پہلے سو صفحے لکھے، پھر پڑھنا شروع کرتے ہیں۔ اس کے لیے طلبہ کو تیار کرنا ہوگا۔ اسی طرح ہمارے دیگر حضرات کے ملفوظات میں بھی بہت سارے نوادر موجود ہیں۔ ہمارے قریب کے بزرگ ہیں حضرت شاہ عبد القادر رائے پوری، ان کے ہاں غیر معمولی باتیں ہیں۔ حضرت شاہ یعقوب کے ہاں بھی اسی طرح چیزیں ہیں۔ اس کے لیے طلبہ کو تیار کرنے کی ضرورت ہے اور طلبہ اس وقت تیار ہوتے ہیں کہ جب استاد ان سے ان چیزوں میں فائق ہو۔ ان کی ہر موقع پر راہنمائی کر سکتا ہو۔ اس کے لیے ضرورت ہے کہ ہر جگہ باقاعدہ طلبہ ہوں، ذہین طلبہ رکھے جائیں، ان کو معقول وظیفے دیے جائیں، ان کے لیے تمام علمی مواد جمع کر دیا جائے۔ علم کا تو معاملہ یہ ہے کہ آدمی جب اس میں لگ جاتا ہے تو یہ خود بخود آپ کو ترقی دیتا ہے۔ ہم نے اور چیزوں کو مقصد بنا لیا ہے، علم کو چھوڑ دیا ہے۔ 

لین پول یونیورسٹی ہے برطانیہ میں جو آکسفورڈ اور کیمبرج کے بعد سب سے بڑی سمجھی جاتی ہے۔ اس کے شعبہ علوم اسلامیہ کے جو صدر ہیں، وہ ہمارے ہاں آئے تھے۔ یہ صاحب وزیر اعظم برطانیہ کے اسلامی ممالک کے لیے مشیر ہیں۔ مجھے اس بات پر تعجب ہوا کہ وہ کیوں آئے تھے؟ اس بات پر ریسرچ کرنے کے لیے کہ یہ ہندوستان کے جو مدارس ہیں، ان کے مقاصد کیا ہیں؟ اور کیا یہ اپنے مقاصد پورے کر رہے ہیں؟ اور اب ان کا نقطۂ نظر کیا ہے؟ اتنا بڑا آدمی جس کی حیثیت برطانیہ کے ایک وزیر کی ہے، وہ صوفے پر نہیں بیٹھا، دری پر بیٹھا اور وہیں پر سویا۔ وہ کہتا تھا کہ طالب علم کو ان باتوں سے کیا تعلق۔ ہم نے کہا تو کہنے لگا کہ نہیں نہیں، جہاں تم بیٹھو گے، وہیں بیٹھوں گا۔ جو کھلاؤ گے، کھاؤں گا۔ مقصد تو باتیں کرنا ہے اور وہ دیر تک، رات دو بجے تک سوالات پوچھتا رہا اور ایسے ایسے سوالات کہ ہمارے بڑے بڑے اچھے حضرات کا ذہن بھی اس طرف نہیں جا سکتا کہ مدرسوں کے مزاج میں فرق کیوں ہے؟ ان کے نصاب میں فرق کیوں ہے؟ فلاں آدمی فلاں آدمی کے طریقہ تعلیم میں کیوں فرق ہے؟ فلاں فلاں کے پاس بیٹھنے والے طلبہ کے مزاج میں کیوں فرق ہے؟ اور ایسے سوالات کے انبار تھے کہ بس۔ بہرحال جو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی، وہ ہم نے عرض کیا۔ 

بہرحال ضرورت اس بات کی ہے کہ کچھ افراد تیار کیے جائیں۔ یہاں مولانا زاہد الراشدی صاحب کی زیر سرپرستی اور مولانا عمار صاحب کی زیر نگرانی بہت سا کام ہو سکتا ہے۔ اللہ اس ادارے کو ترقی دے اور اس کو ہم جیسے لوگوں کے لیے مرجع بنائے۔ ان شاء اللہ اس سلسلے میں جو خدمت مجھ سے ہو سکے گی، میں حاضر ہوں۔

مدارس و جامعات / تعلیم و تعلم

(جون ۲۰۱۴ء)

تلاش

Flag Counter