قرآنِ کریم نے صراحتاً سودخوروں کے خلاف اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے اعلانِ جنگ کیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا محاصرہ کیا اور بعد میں وہاں کے لوگوں نے دار الاسلام کا حصہ بننے کے لیے شرائط رکھیں تو آپ نے ان کی ہر شرط قبول کی ، سواے اس شرط کے کہ وہ سودی لین دین برقرار رکھیں گے۔ اسی طرح اہلِ خیبر اور اہل ِ نجران کے لیے شرط رکھی تھی کہ وہ سودی لین دین نہیں کریں گے۔ اسی بنا پر فقہاے کرام نے قرار دیا ہے کہ دار الاسلام میں سودی لین دین کی اجازت کسی صورت نہیں دی جائے گی ، یہاں تک کہ غیر مسلموں کے ساتھ کیے گئے معاہدات میں بھی اس کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ امام سرخسی نے اس قاعدے کی تصریح کی ہے : الربا مستثنیً من کل عھد۔ چنانچہ کسی خطے کو دار الاسلام قرار دینے کی کم سے کم شرائط میں ایک یہ ہے کہ وہاں قانوناً سودی لین دین کی ممانعت ہو۔
وطنِ عزیز میں آبادی کی انتہائی غالب اکثریت مسلمانوں کی ہے ؛ اسلامی شریعت کو انفرادی اور اجتماعی زندگی میں نافذ کرنے کی کوشش خود کو مسلمان کہلوانے والوں کی ذمہ داری ہے ؛ اسی لیے پاکستان کے دستور کی دفعہ 227 میں واشگاف الفاظ میں یہ اعلان کیا ہے کہ پاکستان میں اسلامی قانون سے متصادم قانون نہیں بنایا جائے گا اور یہ کہ موجود تمام قوانین کو بھی اسلامی قانون سے ہم آہنگ کیا جائے گا۔ ان دستوری وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے دستور کی رو سے اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت کے ادارے قائم کیے گئے ہیں جن کی کاوشوں کے نتیجے میں کئی قوانین میں غیراسلامی دفعات کو ختم کیا گیا ہے۔ تاہم بعض غیر اسلامی قوانین اب بھی مختلف وجوہات کی بنا پر اس ملک میں رائج ہیں اور ان میں سب سے زیادہ سنگین مسئلہ ان قوانین کا ہے جو سود اور سودی نظام کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
مصورِ پاکستان علامہ محمد اقبال نے جب قائدِ اعظم محمد علی جناح کو انگلستان سے واپس آکر مسلمانوں کی قیادت سنبھالنے کے لیے خطوط لکھے تو ان میں خصوصاً اس بات کا ذکر کیا کہ مسلمانوں کی معیشت پر ہندوساہوکار نے سود کے ذریعے قبضہ کیا ہوا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد 1948ء میں جب قائدِ اعظم نے اسٹیٹ بینک کا افتتاح کیا تو اسلامی معاشی نظام کے لیے کام کرنے پر خصوصی زور دیا۔ اس کے باوجود پاکستان میں نہ صرف بینکوں کے ذریعے اور حکومتی سطح پر سود کا آسیب مسلط رہا ہے ، بلکہ انفرادی اور نجی سطح پر بھی قانونی طور پر سود وصول کرنے کی اجازت ہے۔ اس سلسلے میں ایک اہم قانون "مغربی پاکستان نجی سودی قرضوں کا آرڈی نینس" (West Pakistan Moneylenders Ordinance 1960) ہے جس کے ذریعے نجی قرضوں پر بھی ساڑھے سات فی صد سالانہ تک شرحِ سود جائز قرار دیا گیا ہے۔
نجی قرضوں پر سود کے امتناع کا قانون 2007ء
اگرچہ حکومتی یا بینکوں کے سود کو بھی عملی مشکلات کے لولے لنگڑے عذر کی بنا پر کسی طور پر جواز نہیں دیا جاسکتا ، لیکن نجی سودی کاروبار کی ممانعت کی راہ میں آخر کیا رکاوٹ ہے ؟ ہمیں اس کا اندازہ اس وقت ہوا جب 2005ء میں میرے والد گرامی جناب اکرام اللہ شاہد صاحب نے ، جو اس وقت صوبائی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر تھے ،اسمبلی میں نجی قرضوں پر سود کے خاتمے کے لیے ایک بل پیش کیا۔اس وقت صوبہ سرحد میں مذہبی سیاسی جماعتوں کے اتحاد ، متحدہ مجلسِ عمل ، کی حکومت تھی ؛ اس لیے توقع یہ تھی کہ یہ بل فوراً ہی قانون بن جائے گا لیکن مختلف حیلوں بہانوں سے اسے دو سال تک لٹکائے رکھا گیا اور یہ بل دو سال تک محکمہ قانون، محکمہ خزانہ اور محکمہ داخلہ کے پاس رہا لیکن ان دو سالوں میں ان محکموں کی جانب سے اسمبلی سیکرٹریٹ کو کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ بالآخر والد صاحب کی بھرپور کوششوں کے بعد جولائی 2007ء میں اسمبلی نے اسے بالاتفاق منظور کرلیا۔ اس قانون کی رو سے نہ صرف 1960ء کے اس قانون کو منسوخ کیا گیا جس کی رو سے نجی قرضوں پر سود کی اجازت دی گئی تھی ، بلکہ اس فعل کو قابلِ دست اندازیِ پولیس اور ناقابلِ ضمانت اور ناقابل ِ صلح جرم قرار دیا گیا۔ اسی نوعیت کا ایک قانون پنجاب اسمبلی نے بھی منظور کیا۔
سیاسی جماعتوں کا کردار
جیسا کہ عرض کیا گیا ، مذہبی سیاسی جماعتوں کے اتحاد کی حکومت کے باوجود اس قانون کی منظوری میں عدم دلچسپی کا یہ عالم رہا کہ اسے منظور ہونے میں دو سال کا عرصہ لگ گیا۔ اس قانون کی منظوری کے چند مہینے بعد اکتوبر 2007ء4 میں حکومت کی مدت پوری ہوگئی۔
2008ء میں عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت آگئی۔ بعض عوامل کی وجہ سے ، جن کا ذکر غیر ضروری ہے ، حکومت نے کبھی اس قانون کو عملاً نافذ کرنے کی کوشش نہیں کی جس کی وجہ سے قانونی طور پر جرم قرار دیے جانے کے بعد بھی سودی لین دین کا سلسلہ بلا روک ٹوک کے جاری رہا۔ 2012ء میں عدالتِ عالیہ پشاور کے بعض احکامات کی بنا پر ، جن کا ذکر آگے آئے گا ، حکومت کو اس قانون کے خاتمے کے لیے کوشش کرنے کا موقع ملا۔چنانچہ ایک مسودۂ قانون Khyber۔Pukhtunkwa Prohibition of Usurious Loans Bill 2013 اس مقصد کے لیے بنایا گیا اور اسے 7 مارچ 2013ء کو اسمبلی میں پیش بھی کیا گیا لیکن اس کی منظوری سے قبل ہی حکومت کی مدت پوری ہو گئی۔
پاکستان تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی کی نئی حکومت پر عدلیہ کی جانب سے دباؤ برقرار رہا۔ نومبر 2013ء میں اسلام آباد میں بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی نے مسلح تصادم اور اندرونی خلفشار کی صورتوں میں طبی سہولیات کے تحفظ کے لیے ایک سیمینار کا انعقاد کیا جس میں مختلف مکاتبِ فکر کے علماے کرام کو گفتگو کے لیے بلایا گیا۔ اس سیمینار میں ایک مقالہ میں نے بھی پیش کیا۔ اس سیمینار میں میری ملاقات جناب مولانا ڈاکٹر عطاء الرحمان صاحب سے ہوئی جن کا تعلق میرے ہی شہر مردان سے ہے۔ ڈاکٹر صاحب جماعتِ اسلامی سے تعلق رکھنے والے ممتاز عالم دین جناب مولانا گوہر رحمان کے فرزند ہیں اور مردان سے جماعتِ اسلامی کے ایم این اے بھی رہے ہیں۔ ایم ایم اے کی صوبائی حکومت کے دور میں وہ "نفاذِ شریعت کونسل " کے رکن بھی رہے اور سنجیدہ اور فہمیدہ اہلِ علم و سیاست میں شمار ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر عطاء الرحمان صاحب نے مجھے بتایا کہ نجی سودی قرضوں کی لعنت کے خاتمے کے لیے عدالتِ عالیہ پشاور نے سخت احکامات جاری کیے ہیں اور حکومت پر لازم کیا ہے کہ وہ اس قبیح فعل کو قانونی طور پر جرم قرار دے۔ ڈاکٹر صاحب اس ضمن میں مجھ سے مدد کے خواہاں تھے اور ان کا کہنا تھا کہ جناب سراج الحق صاحب نے انھیں اس سلسلے میں اہلِ علم سے رابطے کے لیے کہا ہے۔ مجھے اس پر بڑی حیرت ہوئی اور میں نے انھیں بتایا کہ جب اخبارات میں جناب چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ کے ریمارکس میں نے پڑھے تھے تو مجھے دھچکا لگا تھا کیونکہ صوبہ خیبر پختون خوا میں تو پہلے ہی سے یہ فعل قانوناً جرم ہے ؛ اور مجھے مزید حیرت آج اس لیے ہورہی ہے کہ آپ کو بھی اس کا علم نہیں ہے جبکہ آپ نفاذِ شریعت کونسل کے رکن تھے اور سراج صاحب کو بھی اس کا علم نہیں جبکہ وہ اس وقت بھی سینئر وزیر اور وزیرِ خزانہ تھے اور آج بھی ہیں ! ڈاکٹر صاحب کو بھی حیرت ہوئی اور کئی بار پوچھا کہ کیا واقعی یہ قانون ہے ؟ میں نے اسی وقت اپنا لیپ ٹاپ کھول کے اس قانون کا مسودہ ا نھیں یو ایس بی میں دے دیا۔
جنوری 2014 ء میں روزنامہ "ایکسپریس" کے کالم نگار جناب شاہد حمید کے کالم کے ذریعے معلوم ہوا کہ موجودہ صوبائی حکومت اسی مسودۂ قانون کو منظوری کے لیے پیش کرنے جارہی ہے جو عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت نے تیار کیا تھا اور جس کا مقصد نجی سودی لین دین کو ایک دفعہ پھر جواز دینا تھا۔ ڈاکٹر عطاء الرحمان اور سراج الحق صاحب کے متعلق حسنِ ظن کی بنا پر مجھے اس پر یقین نہیں آیا۔ اگلے کالم میں جناب شاہد حمید نے صوبائی حکومت کے ذمہ داران کے ایک خط کا ذکر کیا جس میں کہا گیا تھا کہ حکومت 2007 کے قانون کو مزید موثر بنانے کی کوشش کررہی ہے۔ مجھے بھی اس پر یقین کرنا پڑا تاآنکہ پچھلے ہفتے والد صاحب نے مجھے وہ مسودۂ قانون دے دیا جسے صوبائی سمبلی میں پیش کیا گیا ہے۔ اس مسودۂ قانون پر جناب سراج الحق صاحب کے دستخط بحیثیت منسٹر انچارج کے ثبت ہیں جو انھوں نے 14 اپریل 2014ء کو کیے ہیں ، یعنی جماعت اسلامی کے امیر کا حلف اٹھانے کے بعد پہلے ہفتے میں۔
یہ مسودۂ قانون وہی ہے جو 2013ء میں عوامی نیشنل پارٹی نے پیش کیا تھا؛ صرف 2013ء کو 2014 کردیا گیا ہے۔ یہ مسودۂ قانون نجی سودی لین دین پر پابندی کو موثر بنانے کے لیے نہیں ، بلکہ سودی کاروبار کے احیا کے لیے بنایا گیا ہے۔ اگر یہ قانون بنا تو صوبہ خیبر پختون خوا میں ایک دفعہ پھر نجی قرضوں پر سود کو قانونی طور پر جواز مل جائے گا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ 124 ارکان پر مشتمل صوبائی اسمبلی میں، جن میں جمعیت علماے اسلام کے 16 اور جماعت اسلامی کے 8 ارکان بھی ہیں، کسی ایک رکن کو بھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس کا ایک مرتبہ سرسری مطالعہ ہی کرلیتا۔ ہمارے علم کی حد تک کسی رکن اسمبلی نے آج تک اسمبلی سیکرٹریٹ میں بھی اس بل کی کسی شق پر کوئی اعتراض پیش نہیں کیا گیا۔
ذیل میں اس مجوزہ قانون کی بعض شقوں پر تبصرہ پیش کیا جارہا ہے لیکن اس سے پہلے ضروری ہے کہ اس ضمن میں عدالتِ عالیہ پشاور کے احکامات کا بھی جائزہ لیا جائے کیونکہ عدالتِ عالیہ کے احکامات کو ہی اس مجوزہ قانون کی بنیاد کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔
عدالتِ عالیہ پشاور کے احکامات
2012ء میں ایک از خود نوٹس کی سماعت کے دوران میں عدالتِ عالیہ پشاور کے اس وقت کے چیف جسٹس جناب جسٹس دوست محمد خان نے اس امر پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا کہ نجی قرضوں پر نہایت ظالمانہ انداز میں سود وصول کیا جارہا ہے اور اس کی روک تھام میں حکومت اپنا کردار ادا نہیں کررہی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومتی اور بینکوں کی سطح پر سود کے خاتمے کی راہ میں جو بھی رکاوٹیں ہوں ، نجی سودی کاروبار کا فوری خاتمہ ممکن ہے۔ جب اخبارات میں ان کے یہ ریمارکس آئے تو ابتدا میں مجھے یہی خیال آیا کہ شاید انھیں معلوم نہیں ہے اور نہ ہی انھیں ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا ہے کہ 2007ء میں نجی سودی کاروبار کو قانونی جرم قرار دیا گیا ہے۔ تاہم عدالتِ عالیہ کے متعلقہ آرڈر شیٹ نکال لینے کے بعد معلوم یہ ہوا کہ وہ اس قانون کو مزید موثر بنانا چاہتے تھے اور اسی مقصد سے انھوں نے حکومت کو احکامات جاری کیے تھے۔
تاہم چونکہ ان کے احکامات میں بار بار اس بات کا ذکر ہوا کہ نجی سود لینے والے لوگ بڑی ظالمانہ شرح سے سود وصول کررہے ہیں ، اس لیے بیوروکریسی نے ان احکامات کی تعبیر یہ کی کہ عدالتِ عالیہ چاہتی یہ ہے کہ نجی سودی کاروبار جاری رہے لیکن صرف "ظالمانہ شرحِ سود "ہی کو ممنوع قرار دیا جائے ! چنانچہ نیا مسودۂ قانون بنانے کے لیے مختلف محکموں کے سیکریٹریز کی جو میٹنگ ہوئی، اس کے منٹس میں یہی قرار دیا گیا ہے کہ 2007ء کا قانون اس لیے ختم کرنا چاہیے کہ اس نے "مناسب شرحِ سود" کو بھی ممنوع کردیا ہے؛ اور یہ کہ ایسا قانون ہونا چاہیے کہ مناسب شرحِ سود جائز ہو اور ظالمانہ شرحِ سود جرم ہو ! یہی "فلسفہ" اس مجوزہ قانون کے ایک ایک شق کی بنیاد ہے اور یہی اس مجوزہ قانون کی روح ہے۔
یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ اگر عدالتِ عالیہ کی مراد واقعتا وہی تھی جو بیوروکریسی نے سمجھی ہے تو عدالتِ عالیہ نے بھی نہ صرف اپنی دستوری ذمہ داری پوری کرنے سے گریز کیا ہے بلکہ اپنے دستوری اختیارات سے تجاوز بھی کیا ہے۔ دستور کی رو سے پاکستان میں شریعت سے متصادم قانون سازی نہیں کی جاسکتی۔ اس لیے عدالتِ عالیہ حکومت کو یہ حکم نہیں دے سکتی تھی۔ اگر عدالتِ عالیہ کا موقف یہ ہے کہ قرآن و سنت کی رو سے صرف ظالمانہ شرحِ سود ہی حرام ہے تو اس موقف کی صحت و عدم صحت کی بحث جائے بغیر ، بہ صد ادب گزارش کی جاتی ہے کہ موجودہ نظام میں قرآن و سنت کی تعبیر کا اختیار عدالتِ عالیہ کے پاس نہیں ، بلکہ وفاقی شرعی عدالت کے پاس ہے۔ اگر عدالتِ عالیہ یہ اختیار حاصل کرنا چاہتی ہے تو اس کے لیے اسے عدالتِ عظمی کے کئی نظائر کے تبدیل ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا۔
دوسری بات یہ ہے کہ دستور کی رو سے قانون سازی اسمبلی کا کام ہے ، نہ کہ عدالتِ عالیہ کا۔ ہاں ، جب اسمبلی قانون منظور کرے تو عدالتِ عالیہ اس کا جائزہ لے سکتی ہے کہ کہیں وہ دستور سے متصادم تو نہیں اور اس کے بعد وہ دستور سے تصادم کی حد تک اسے کالعدم بھی قرار دے سکتی ہے۔ عدالتِ عالیہ کسی موضوع پر قانون سازی کے لیے اسمبلی کو کہہ سکتی ہے لیکن عدالتِ عالیہ کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ قانون سازی کے خدوخال متعین کرکے اسمبلی کو ان کی پابندی پر مجبور کرے۔
مناسب یا ظالمانہ شرح سود
مجوزہ قانون کی اساس یہ مفروضہ ہے ، جیسا کہ اس کے دیباچے کے دوسرے پیرا میں تصریح کی گئی ہے ، کہ "مناسب شرحِ سود" کے ساتھ سودی لین دین جائز ہے اور قانوناً صرف "ظالمانہ شرحِ سود " کی ممانعت ہونی چاہیے۔
چنانچہ دفعہ 3 ( 1) کی رو سے " محض سود " نہیں بلکہ " ظالمانہ سود " کی وصولی کو ہی جرم قرار دیا گیا۔ اول الذکر کو interest اور ثانی الذکر کو usurious interest سے موسوم کیا گیا ہے۔ اس ظالمانہ سود کی تعریف دفعہ 2 (این) میں یہ پیش کی گئی ہے کہ وہ سود جو " بینک ریٹ " سے زائد کی شرح پر وصول کیا جائے۔ پھر دفعہ 2 (اے) میں Karachi Inter۔bank Offer Rate (KIBOR) سے تین فیصد زائد کو بینک ریٹ قرار دیا گیا ہے۔ آگے کئی دفعات میں " بینک ریٹ سے زائد " کی ترکیب استعمال کی گئی ہے ؛ جیسے دفعات 6 ، 7 اور 13۔ سوال یہ ہے کہ کیا دستخط کرنے سے پہلے ہمارے محترم وزیرِ خزانہ اور نو منتخب امیرِ جماعتِ اسلامی کی نظر ان دفعات پر نہیں پڑی تھی ؟
یہاں اس بات کی طرف بھی توجہ دلانی ہے کہ "مناسب " اور "ظالمانہ" شرحِ سود کے تصورات سرمایہ دارانہ نظام سے درآمد کیے گئے ہیں اور مسلمان و غیر مسلم اہل علم نے اس پر بہت کچھ لکھا ہے۔ مولانا مودودی نے بھی اپنی کتاب "سود" میں شرحِ سود کی "معقولیت " پر تفصیلی تنقید کی ہے اور مجھے یقین ہے کہ محترم نومنتخب امیرِ جماعتِ اسلامی نے وہ بحث ضرور پڑھی ہوگی۔ پاکستان میں "مناسب شرحِ سود " کے تعین کے لیے 1959ء میں ایک آرڈی نینس West Pakistan Usurious Loans Ordinance 1959 لایاگیا تھا جس کی رو سے عدالت کو اختیار دیا گیا تھا کہ اگر کسی مقدمے میں وہ محسوس کرے کہ شرح سود " ظالمانہ" ہے تو وہ اسے "مناسب" حد تک لے آئے اور اس ضمن میں مناسب حد کے تعین کے لیے بینک ریٹ کا حوالہ دیا گیا تھا۔ 1960ء میں نجی سودی قرضوں کے آرڈی نینس West Pakistan Moneylenders Ordinance 1960 نے اس چکر میں جانے سے روکنے کے لیے نجی قرضوں کے لیے شرح سود کی زیادہ سے زیادہ حد ساڑھے سات فیصد سالانہ تک مقرر کرلی۔ 2007ء کے قانون کے ذریعے یہ سود کلیتاً ممنوع قرار دیا گیا۔ اس نئے مجوزہ قانون کے ذریعے ایک بار پھر اس سود کو قانوناً زندہ کرنے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے۔
کیا عدالت راس المال کی ادائیگی معاف کرسکتی ہے؟
عدالتِ عالیہ پشاور نے اپنے ایک آرڈر میں قرار دیا تھا کہ نئے قانون میں عدالت کے پاس کا اختیار ہونا چاہیے کہ وہ بطورِ سزا راس المال کی ضبطی کے احکامات جاری کرسکے۔ مجوزہ قانون کا مسودہ بنانے والے اس سے بھی ایک قدم آگے گئے۔ چنانچہ مجوزہ قانون کی دفعہ 10 میں قرار دیا گیا ہے کہ عدالت کو اگر معلوم ہو کہ قرض خواہ مقروض کو تنگ کررہا ہے تو وہ بطورِ سزا یہ کرسکتی ہے کہ راس المال کو بحقِ سرکار ضبط کرلے ، یا مقروض کو باقی ماندہ راس المال کی ادائیگی معاف کردے !
سوال یہ ہے کہ شرعاً کیا عدالت راس المال ضبط کرسکتی ہے ؟ عدالتِ عالیہ کے پاس تعبیرِ شریعت کا اختیار کہاں سے آگیا؟ نیز عدالت کس قاعدے کے تحت مقروض کو راس المال کی ادائیگی معاف کرسکتی ہے ؟ فقہی لحاظ سے تو سودی معاہدہ " عقدِ فاسد" ہے جس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ رقم دینے والے کو اس کا اصل زر لوٹایا جائے گا ؛ مقروض کسی طور بھی اصل زر کی ادائیگی سے انکار نہیں کرسکتا ؛ نہ ہی عدالت کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ کسی اور کا حق معاف کرے۔ امام سرخسی نے اس قاعدے کی تصریح کی ہے : لیس للامام ولایۃ اسقاط حق العبد۔ قرآنِ کریم کی نصِ صریح ہے : و ان تبتم فلکم رؤوس اموالکم، لا تَظلمون و لا تْظلمون۔ (سورۃ البقرۃ ، آیت 279) اس آخری ٹکڑے پر نظر رہے : جس طرح قرض دینے والا اصل زر سے زائد کا مطالبہ کرکے ظلم کرتا ہے ، اسی طرح مقروض اصل زر روک کر ظلم کرے گا۔مسئلہ بس یہی ہے ، اور کچھ نہیں کہ لوگ اللہ تعالیٰ کے قانون سے گریز کرکے خود ہی ظلم اور عدل کا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔
دیگر قابلِ اعتراض دفعات
اس مجوزہ قانون کی دیگر کئی دفعات بھی شرعاً ناقابلِ قبول ہیں ، بالخصوص دفعہ 2 ( جی ) میں جس طرح " قرض " کی تعریف پیش کی گئی ہے ، یا نجی قرضہ دینے والے کی جو تعریف دفعہ 2 (آئی) میں دی گئی ہے اسے کسی طور بھی قبول نہیں کیا جاسکتا۔ اول الذکر کی رو سے بیعِ سلم ناجائز ہوجاتی ہے جبکہ "مناسب شرحِ سود " پر قرضہ جائز ہوجاتا ہے۔ ثانی الذکر کی رو سے صرف نجی قرضوں کا "کاروبار "کرنے والوں پر ہی اس قانون کا اطلاق ہوگا اور عام افراد اگر قرضہ دیں گے تو ان کو کھلی چھٹی ہوگی۔
خلاصہ بحث یہ ہے کہ یہ پورا مسودہ شریعت سے واضح طور پر متصادم ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ یہ مسودۂ قانون واپس لیا جائے اور 2007 کے قانون کو مزید موثر بنانے کے لیے ایک ایک نیا مسودہ لایا جائے تاکہ "ظالمانہ سودی قرضوں کے امتناع" کے نام پر ایک دفعہ پھر نجی قرضوں پر سود کو قانونی جواز نہ مل سکے۔
پس چہ باید کرد؟
اگر یہ قانون بن گیا تو پھر اس کا خاتمہ نہایت مشکل ہوجائے گا کیونکہ اس کے لیے یا تو اسمبلی سے پھر ایک نیا قانون منظور کروانا پڑے گا ؛ اور یا پھر اسے عدالتِ عالیہ کے ذریعے دستور کے ساتھ تصادم کی بنیاد پر ، اور یا وفاقی شرعی عدالت سے قرآن وسنت کے ساتھ تصادم کی بنیاد پر کالعدم قرار دینا پڑے گا۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں ہی راستے نہایت طویل اور دشوار گزار ہیں۔
اس لیے دینی حمیت رکھنے والے تمام افراد کی ذمہ داری ہے کہ جماعتی تعصبات سیبالاتر ہو کر اس مسود? قانون کو منظور ہونے سے روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ اسی جذبے کے تحت میں نے اپنے استادِ محترم پروفیسر عمران احسن خان نیازی کے ذریعے پاکستان تحریکِ انصاف کے ذمہ داران سے رابطہ کرکے ان کے سامنے اس مسودے کا شق وار جائزہ پیش کیا جس کے بعد انھوں نے وعدہ کیا کہ وہ یہ مسودہ ایک کمیٹی کے سامنے پیش کریں گے اور مجھے اس کمیٹی کے سامنے اپنے دلائل پیش کرنے کا موقع دیں گے۔ میں برادرم عمار خان ناصر کا بھی مشکور ہوں جنھوں نے "الشریعہ" کے فورم پر اس سنجیدہ اور فوری نوعیت کے مسئلے کو اہلِ علم کے سامنے پیش کرنے کا موقع فراہم کیا۔
کیا مذہبی سیاسی جماعتیں اور اہل علم اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری پوری کریں گے؟