محترم ومکرم عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم!
الشریعہ کے اپریل 2014ء کا شمارہ نظروں سے گزرا۔ اس شمارہ میں راقم کا مضمون ’’جمہوری و مزاحمتی جدوجہد۔ ایک تجزیاتی مطالعہ‘‘ شائع کیا گیا۔ یہ یقیناً آپ لوگوں کی روایتی اعلیٰ ظرفی ہے کہ باوجود اس کے کہ اس مضمون میں الشریعہ کے رئیس التحریر پر بدویانہ انداز میں تنقید کی گئی تھی، آپ لوگوں نے اسے شائع فرمایا۔ یقینا یہ حسن اخلاق اور اعلیٰ ظرفی ہمارے دینی و مذہبی حلقوں کے لیے ایک عمدہ معیار اور مثالی نمونہ ہے۔ اگر ہمارے مذہبی و دینی حلقے اس حسن اخلاق واعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرنے لگ جائیں تو اس لڑتی بھڑتی قوم کے لیے یہ بہت مبارک اور نیک شگون ہوگا۔ ایک اچھا نمونہ اور مثال بننے پر یہ عاجز الشریعہ کے منتظمین کو خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ اس لیے نہیں کہ آپ نے راقم کا اختلافی مضمون شائع کیا۔ یہ تو آپ کی روایت ہے۔ بلکہ یہ خراج تحسین اس بنا پر پیش کررہا ہوں کہ آپ نے اپنے نقطہ نظر کی شدت سے نفی کرنے والے ایک جاندار مدلل مضمون کو الشریعہ میں جگہ دی۔ مجھ سمیت کسی بھی تجزیہ نگار کی کوئی بھی رائے حرف آخر قطعاً نہیں۔ تاہم اگر مختلف آرا کی پشت پر موجود دلائل کا تبادلہ و مذاکرہ ہوتا رہے تو اتفاق واتحادکی منزل کو قریب کیا جا سکتا ہے۔
اے کاش! امت کا دین پسند اور مذہب کا علمبردار طبقہ اختلافی امور میں اعتدال کی راہ اپنانے اور اپنے اپنے اختلافات کو دلائل کی بنیاد پر پرکھنے کے ساتھ ساتھ ڈائیلاگ اور مکالمہ کی راہ اپنا لے اوردعوت ایمان، قیام عدل اورظلم کی مخالفت پر متحد و متفق ہوجائے تو اس امت کی ذلت و ضلالت کے طویل دورانیے پر کامیابی سے قابو پایا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو ایمان کی بہترین حالت میں زندہ رکھے اور ہردم حق بات کہنے اور سننے پر آمادہ رکھے۔ آمین۔
محمد رشید
abu_munzir1999@yahoo.com