مغربی فکر سے متعلق ہمارے یہاں کے علمی حلقوں میں بالعموم دو رویے پائے جاتے ہیں۔ایک یہ کہ مغربی فکر معیارِ حق ہے،اس کے حاصلات کو نہ صرف یہ کہ رد نہیں کرنا چاہیے بلکہ نعمتِ غیر مترقبہ سمجھتے ہوئے قبول کر لینا چاہیے۔اس رویے کے حامل مذہبی عقائد و نظریات کے مغربی نتائجِ فکر سے تطابق کومعراجِ علم خیال کرتے ہیں۔ان کے نزدیک مذہب کی اس دور میں سب سے بڑی خدمت اس کے ذریعے یہ ثابت کر دینا ہے کہ اے مغرب:مستند ہے’’تیرا‘‘ فرمایا ہوا۔ یہاں تک کہ وہ اس کوشش میں مسلمات و بدیہیاتِ دین کو بھی تاویل کی سان پر چڑھا دیتے ہیں۔ دوسرا رویہ یہ ہے کہ مغربی فکر اور اس کے حاصلات لغو،لایعنی اورباطلِ محض ہیں۔یہ اہلِ اسلام کے لیے شجرِ ممنوعہ کا حکم رکھتے ہیں۔مغرب کی کسی بھی چیز کو اپنالینا یا اسے درست سمجھنا نادانی اور دین سے عدمِ واقفیت کی دلیل ہے۔اس رویے کے حامل مغرب کے ہر تصورو نظریہ کے ردکو دین کی بہت بڑی خدمت سمجھتے ہیں ۔ راقم الحروف کے نزدیک یہ دونوں رویے افراط و تفریط اوردو انتہاوں سے عبارت ہیں۔ اول الذکر سے متعلق ہمارے ہاں بہت کچھ لکھا گیا ہے اور ایک تسلسل کے ساتھ لکھا جا رہا ہے ۔(۱)لیکن ثانی الذکر سے متعلق کوئی قابلِ ذکر تنقید سامنے نہیں آئی ۔شاید اس وجہ سے کہ یہ رویہ اور اس کے فکری اثرات نسبتاً محدود ہیں۔تاہم گذشتہ کچھ عرصے سے اس رویے کے حاملین کے مختلف رسائل و جرائد میں کثرت اور تکرار کے ساتھ مضامین شائع ہو رہے ہیں۔بلکہ بعض ایسے رسائل بھی سامنے آ چکے ہیں جو باقاعدہ اس رویے کے ترجمان ہیں ۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس کو سنجیدہ بحث و تجزیے کا موضوع بنایا جائے۔ ہماری یہ گزارشات اسی ضمن میں ایک کوشش ہیں۔ہم ان دانشوروں کے افکار ونظریات کے اہم اور نمایاں نکات ذکر کر کے ان کا جائزہ لیتے ہیں۔
سائنس و ٹیکنالوجی اور مذہب :یہ دانشور اپنی تنقیدِ مغرب میں جو نتائج سامنے لاتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ مغربی سائنس وٹیکنالوجی مغرب اور نظامِ سرمایہ داری کا ایک جال ہے جواس نے دنیا کو اپنے دام میں پھنسانے کے لیے بچھا رکھا ہے۔سا ئنس مذہب کی دشمن ہے۔اس کی اپنی مخصوص اقدار ہیں ،جو مذہبی اقدار سے متصادم ہیں ۔چنانچہ سائنس مذہبی جوش و جذبے کو تباہ کرتی اور آدمی کو مذہب بیزار بناتی ہے۔یہ سمجھنا کہ اسلام یا اسلامی فکر و تہذیب کا موجودہ سائنس کی ترقی میں کوئی کردار ہے ،ایک بے سند مفروضہ ہے۔سائنس مقاصدِ اسلام کے حصول میں مدد گار کیا ہوگی وہ توالٹا اس کے مقاصد میں سدِّ راہ ہے۔مسلمان اگر واقعی اسلامی معاشرہ تشکیل دینے کے خواہاں ہیں تو انہیں موجودہ سائنس وٹیکنالوجی اور اس کے مظاہر کورد کرنا ہو گا۔اس کے ساتھ ساتھ ان لو گوں کا کہنا یہ بھی ہے کہ سائنسی تحقیقات کی بنیاد پر کسی اخلاقی قدرکا اثبات نہیں ہو سکتا۔اس لیے کہ سائنسی تجربات کا دائرہ ’کیاہے‘ اور’ کس طرح ‘ہے سے عبارت ہے، جبکہ اخلاقیات کا’کیا بہتر ہے‘اور ’کیا ہونا چاہیے ‘ہے۔ لہٰذا اخلاقیات میں سائنس کا حوالہ محض جہالت و نادانی ہے۔
سائنس وٹیکنالوجی اور مذہب کے حوالے سے ہمارے ممدوح دانشوروں کے یہ خیالات اپنی کلیت میں بدیہی اسلامی تعلیمات اور نصوصِ شرعیہ سے متصادم ہیں اور ان میں صریح تضاد و تناقض پایا جاتا ہے ۔ان کے نصوصِ شرعیہ کی روشنی میں محاکمے سے پہلے ان کے اند موجود تضاد وتخالف پر ایک نظر ڈال لینا مناسب ہوگا۔ان حضرات کا ایک طرف موقف یہ ہے کہ سائنس کو غیر اقداری سمجھنا غلط ہے،اس کی اپنی مخصوص اقدار ہیں۔یہ اپنی ان اقدار کی بقا چاہتی اور اس کے لیے مسلسل کار فرما رہتی ہے۔ لیکن دوسری طرف کہتے ہیں کہ سائنس کا اقدار سے کچھ علاقہ ہی نہیں ۔’کیا اچھا ہے‘،’ کیوں ہے‘،’کیا ہونا چاہیے‘ اس کے دائرہ کار سے باہر کی چیزیں ہیں ،اسے محض ’کیا ہے‘ اور ’کس طرح ہے‘سے بحث ہے۔ یہ واضح تضاد و تناقض ہے ۔ہم ان حضرات سے عرض کرتے ہیں کی جناب آپ کے خیالات سے تین باتیں نکل سکتی ہیں؛ ایک یہ کہ آپ کے خیال میں سائنس فی نفسہ اقداری ہے؛ دوسری یہ کہ سائنس نفس الامر میں غیر اقدای ہے؛اور تیسری یہ کہ سائنس خود تو غیر اقداری ہے، البتہ مرورِ ایام سے کچھ لوگوں یا کسی خاص قوم نے اس میں کچھ مخصوص اقدار داخل کردی ہیں۔اگر آپ پہلی بات کے قائل ہیں تو آپ اس استدلال میں حق بجانب نہیں کہ اقدار واخلاقیات سائنس کے دائرے کی باتیں نہیں۔(واضح رہے کہ بات صرف اقدار کی موجودگی کے قائل ہونے کی ہو رہی ہے ،یہ بحث غیر متعلق ہوگی کہ سائنسی اقدار مذہب کی اقدار سے مختلف ہیں)اور اگر آپ دوسری یاتیسری بات کو درست سمجھتے ہیں توآپ کی یہ ساری بحث لا یعنی ہو جاتی ہے کہ سائنس اقداری ہے۔تیسری بات کی صورت میںآپ کے لیے بحث کا میدان صرف سائنس میں اقدار کا دخول یا اس کے جسمِ ناتواں پر ایک نامناسب بوجھ لادنے کا ذمہ دار طبقہ رہ جاتا ہے کہ اس نے اس بے چاری کو کیوں تکلیفِ مالا یطاق دی ہے۔اقدار کے حوالے سے ہمارے کے نزدیک سائنس کی حیثیت کیاہے؟اس کا تعین ہماری اگلی بحث سے خود بخود ہو جائے گا۔
سائنس وٹیکنالوجی کے مذہب دشمن اور مذہب بیزاری کا ذریعہ ہونے کا نظریہ فی الواقع مغرب کے نشأۃ ثانیہ سے پہلے کے مسیحی اہلِ مذہب کے علم وسائنس دشمن رویے کا تسلسل ہے، اہلِ اسلام کو یہ کسی صورت زیب نہیں دیتا۔علمی تحقیقات اور سائنس و ٹیکنالوجی سے متعلق اپروچ اور رویے کے باب میں مسیحیت اور اسلام میں قطعاً مغائرت ہے۔ہمارے سائنس مخالف دانشور اس بدیہی حقیقت کو ماننے سے نہ صرف اعراض کرتے بلکہ اس کے خلاف طول طویل لا یعنی دلائل پیش کرتے ہیں ،جسے خود عام مغربی اہلِ علم ہی نہیں اہلِ سائنس واضح طور پر محسوس کرتے ہیں۔مغربی اہلِ سائنس تسلیم کرتے ہیں کہ مغرب کے مذہب مخالف مادہ پرست سائنسدان مذہب و سائنس پر گفتگو کرتے ہوئے یہودیت و عیسائیت ہی کو سامنے رکھتے ہیں اور یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ کوئی مذہب ایسا بھی ہو سکتا ہے جس کا سائنس سے متعلق رویہ یہودیت و عیسائیت سے مختلف ہو۔ اسلام سے متعلق غیرصحیح معلومات نے ان کو اس مذہب کے خلاف مذکورہ مذاہب سے بھی زیادہ متعصب بنادیا ہے۔بہ الفاظِ دیگر ان کے خیال میں اسلام یہودیت و عیسائیت سے بڑھ کر اوہام و خرافات پر مبنی، غیر صحیح اور سائنس سے متصادم ہے۔(۲) کیا اس حقیقت کی روشنی میں اسلام اور سائنس کے باب میں مغرب کے ملحدین اورہمارے زیر نظر حامیانِ اسلام دونوں کے نتائج فکر یکساں قرار نہیں پاتے ؟کیا دونوں ہی کی رائے یہ نہیں بنتی کہ اسلام اور سائنس کا باہم کوئی ناتا نہیں،ایک دوسرے کا دشمن اور اس کی راہ میں رکاوٹ ہے؟بایں ہمہ ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ مغرب کے ملحد اسلام دشمن ہیں اورہمارے دانشور اسلام کے تنہا خیر خواہ !یعنی:
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو مرے نامۂ سیاہ میں تھی
ہماری رائے میں زیر بحث تناظر میں مغرب کے مذہب دشمن ملحدین اور اہلِ سائنس،سائنس کے حق اور مذہب کے خلاف تعصب میں مبتلامسلم مقلدینِ مغرب اور مذہب کے حق اور سائنس کے خلاف تعصب کا شکار مسلم اہلِ قلم تینوں ایک ہی زمرے میں شمار کیے جانے کے لائق ہیں ۔اس لیے کے تینوں میں یہ قدر مشترک ہے کہ مذہب اور سائنس باہم مغائر و مخالف ہیں۔اگر اس بات کے ثبوت فراہم ہو جائیں کہ مذہب اور سائنس یا(مغرب میں یہودیت و مسیحیت ہی کے مذہب کے نمائندہ ہو نے کی غلطی فہمی کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے کہنا چاہیے کہ )اسلام اور سائنس میں کوئی دشمنی نہیں تو تینوں کے تصورات کا بیک وقت ابطال ہو جاتا ہے ۔اور اس کے ثبوت نہایت بدیہی ہیں ۔چند ایک مختصراً ملاحظہ فرمائیے:
سائنس کسے کہتے ہیں؟
اس سوال کے ماہرین کی طرف سے دیے گئے چند جوابات یہ ہیں: یہ طبیعی کائنات کاغیر جانبدارانہ مشاہدہ اور اس سے متعلق بنیادی حقائق کا مطالعہ ہے۔(۳)اس کے معنی جاننے اور سیکھنے کے ہیں۔ (۴)اس کامطلب علم ہے۔(۵) یہ مشاہدے سے دریافت ہونے والے نتائج یا علمی حقائق کو مرتب اور منظم کر نے کا نام ہے۔(۶) یہ تجرباتی علوم و حکمت یا فطری و طبیعی مظہر کا باقاعدہ علم یا ایسی سچائی ہے، جو مشاہدہ، تجربہ یا استقرائی منطق سے معلوم کی گئی ہو،یا طبیعی حقائق کو وہ علم ہے، جو مشاہدے اور تجربے سے حاصل ہو۔(۷) اس کے معنی غیر جانبداری سے حقیقت کے کسی پہلو کا باقاعدہ مطالعہ کرنا ہیں۔(۸)خلاصہ یہ کہ سائنس عبارت ہے علم ،معلومات ،مشاہدے وتجربے ،حقائق کے غیر جانبدارانہ مطالعے ،استقرائی منطق سے حقیقتِ واقعہ تک رسائی سے ۔اب دیکھیے مذہب کو بھی ان چیزوں سے کوئی سروکار ہے یا نہیں۔
قرآن کا مطالعہ کرنے والا ایک عام قاری بھی محسوس کر سکتا ہے کہ قرآن جگہ جگہ ان چیزوں پر زور دیتا ہے۔وہ اپنے قاری سے کثرت اور تکرارکے ساتھ علم،مشاہدے ،تدبر وتفکر اورحقائق کے غیر جانبدارانہ مطالعے کامطالبہ کرتا ہے ۔ جاننے ،سیکھنے اور علم حاصل کرنے کے حوالے سے قرآن کے مثبت رویے کا اندازہ اس سے لگائیے کہ اس کے مطابق انسان کو اس کی تخلیق کے بعد سب سے پہلے علم الاشیا دیا گیا اوراسی بنا پر اسے فرشتوں پر فضیلت بخشی گئی ۔(البقرہ۲:۳۰۔۳۳)قرآن نے سب سے پہلے علم و تعلم کی اہمیت اجاگر کی۔ اس کے نزول کی ابتدا ہی علم و تعلیم سے متعلق آیات سے ہوئی ۔(العلق ۹۶:۱۔۵)اس نے واضح کیا کہ علم والے اور بے علم برابر نہیں ہو سکتے۔ ( الزمر۳۹:۹)علم والے اللہ کے ہاں صاحبانِ فضل و کمال ہیں۔(المجادلہ۵۸:۱۱)اللہ تعالی سے وہی لوگ ڈرتے ہیں جو اہل علم ہیں۔(الفاطر۳۵:۲۸) اہلِ علم ہی اللہ کی پیش فرمودہ مثالوں کو سمجھتے ہیں ۔(ا لعنکبوت۲۹:۴۳) نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا ایک اہم اور بنیادی مقصدہی تعلیم دینا ہے۔( الجمعہ۶۲:۲)چنانچہ اس نے تعلیم دی کہ پروردگارِ عالم سے اپنے علم میں پیہم اضافے کی استدعا کرتے رہو۔(طہ۲۰:۱۱۴)جہاں تک مشاہدے، تجربے ، تدبر فی الخلق کے ذریعے حقیقت تک رسائی کا تعلق ہے توقرآن حکیم نے اس پر اس قدر زور دیا ہے کہ اس کے مقدس اوراق میں سے کم ہی اس سے خالی ہوں گے ۔قرآن کے نقطۂ نظر سے ذکرِ خداوندی کی ترجیحی اہمیت محتاجِ دلیل نہیں، لیکن اس کے نزدیک اس کے ساتھ بھی تدبر لازم ہے۔وہ اصل اہلِ ذکر انہی کو مانتا ہے جو ذکرِ الٰہی کے ساتھ ساتھ تخلیقِ ارض و سما میں غور وفکرجاری رکھتے ہیں۔ (آل عمران۳:۱۹۱)ایک عام آدمی بھی جانتا ہے کہ سائنسدان جانووں، زمین و آسمان اور پہاڑوں وغیرہ کی ساخت پر اور ان سے متعلق دیگر امور پر تحقیقات پیش کرتے ہیں۔قرآن پکا ر پکار کا کہہ رہا ہے کہ ان چیزوں میں بلا شبہ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں اور انسانوں کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ اس سلسلہ میں مشاہدہ اور تفکر و تدبر سے کام لیں۔(الغاشیہ۸۸:۱۸۔۲۰؛ قٓ ۵۰:۶) مشاہدہ اور تدبرفی الخلق کی اہمیت کے پیش نظر قرآن نے ان لوگوں کو حیوانوں سے بھی بدتر اور جہنمی قرار دیا ہے، جو اپنے قوائے حسی کو مشاہدۂ فطرت اور ذہنوں کو تفکر و تدبر کے لیے استعمال نہیں کرتے۔(ا لاعراف ۷:۱۷۹)
قرآن کی دعوتِ فکر وتدبر کے ضمن میں یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قرآن کریم نے کسی مظہرِ فطرت کو دیکھ کر اس پر غور و فکر کیے بغیر آگے گزر جانے کو نافرمانوں کی نشانی بتایا ہے (وَ کَاَیِّنْ مِّنْ اٰیَۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ یَمُرُّوْنَ عَلَیْھَا وَ ھُمْ عَنْھَا مُعْرِضُوْنَ۔ یوسف ۱۲:۱۰۵)اور اہلِ علم کے مطابق کسی مظہرِ قدرت یا ایۃ اللّٰہ پر غور و فکر ترک کر دینا ،اس سے پہلے کہ اس کی حقیقت پوری طرح منکشف ہو ، اس سے اعراض کے زمرے میں آتا ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ مسلمان کو یہ حکم ہے کہ جب موجوداتِ قدرت میں سے کوئی چیز اس کے نوٹس میں آئے تو اسے نظر انداز نہ کرے، بلکہ اس کے مشاہدے اور مطالعے کا حق ادا کرے ، اس کی حقیقت اور اصلیت کو پوری طرح سمجھے، اور خدا کی حکمتیں ،جو اس کے اندر پوشیدہ ہیں ،ان سے پوری طرح واقف ہونے کی کوشش کرے ۔ گویا جب تک کسی چیز کی حقیقت پوری طرح واضح نہ ہو جائے، مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ اپنی تحقیق و تجسس کو جاری رکھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے امت کو سکھائی گئی یہ دعا بھی اس مطلب کی تائید کرتی ہے: اللّٰہم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ اللّٰہم ارنا الاشیاء کماہی۔’’ اے خدا! ہم کو صداقت بطور صداقت کے دکھا دے اور اس کی پیروی کرنے کی توفیق دے اور جھوٹ بطور جھوٹ کے دکھادے اور اس سے بچنے کی توفیق عطا فرما۔ اے خدا! ہمیں اشیا کواس طرح سے دکھا دے جیسی وہ درحقیقت ہیں۔ ‘‘نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا گویا سائنسی طریقِ تحقیق کی حمایت کرتی ہے ،کیونکہ سائنسی طریقِ تحقیق ،جو اس بات پر زور دیتا ہے کہ مشاہدہ کے نتائج کو کامل احتیاط سے اخذ کیا جائے اور انتہائی طور پر درست کرنے کی کوشش کی جائے ،اس کا مقصد یہی ہے کہ اشیا ایسی ہی نظر آئیں جیسی کہ وہ درحقیقت ہیں۔(۹)
اشیا کو ان کی اصلی حالت میں دیکھنے اور مشاہدے کے نتائج میں غلطی سے بچنے کے لیے قرآن بہ تکرار صحیفۂ فطرت کے مطالعہ کی دعوت دیتا ہے۔مثلاً ایک جگہ ارشاد ہے: الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا مَا تَرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ فَارْجِعْ الْبَصَرَ ہَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍ ۔ ثُمَّ ارْجِعِ لْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِءًا وَّہُوَ حَسِیْرٌ۔(الملک ۶۷:۳۔۴ )یہاں قرآن بار بار نگاہ ڈالنے اور غو رو فکر کرنے پر زور دے رہا ہے۔ سائنسی زبان میں یہی چیز مشاہدہ (Observation)اور تجربہ (Experiment)کہلاتی ہے ۔کسی چیز کا بار بار مشاہدہ کرنے اور حالات بدل بدل کریعنی تجربہ کر کے مطالعہ کرنے اور غورو فکر کر کے گہرے نتائج اخذ کرنے کو سائنسی تحقیق (Scientific Research)کہا جاتا ہے۔
تجربہ او رمشاہدہ کی انتہائی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ پر ایمان مضبوط ہوتا اور اطمینانِ قلب نصیب ہوتا ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کے اپنے خاص بندوں کو،ان کے اطمینانِ قلب کی خاطر کرائے گئے مشاہدات مذکور ہیں۔مثلاًیک واقعہ حضرت ابراہیم سے متعلق ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی مردوں کو زندہ کرنے کی قدرتِ کاملہ پر ایمان تھا تا ہم انہوں نے اطمینانِ قلب کے لیے مشاہدہ کرنا چاہا تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے چار پرندے لے کر انہیں سدھایا اور پھر ان کو ذبح کر کے ان کا گوشت باہم ملا کر چار پہاڑوں کی چوٹیوں پر رکھ دیا۔ پھر ان کو ایک ایک کر کے آواز دی تو وہ ان کی نگاہوں کے سامنے زندہ ہو گئے۔(البقرہ ۲:۲۶۰)دوسرا واقعہ حضرت عزیر علیہ السلام سے متعلق ہے۔انہیں بھی اللہ کی قدرتِ کاملہ پر یقین تھاِ تاہم جب انہوں نے ایک بستی کو عجیب و غریب حالت میں تباہ شدہ دیکھا تو یہ جاننا چاہا کہ اللہ تعالیٰ اس بستی کو کس کیفیت سے زندہ کرے گا ؟تو اللہ تعالیٰ نے انہیں مشاہدہ کرانے کے لیے سو برس تک مردہ رکھا۔ پھر ان کو زندہ کر کے پوچھا کتنی مدت تک اس حالت میں رہے ہو؟ وہ بولے: دن یا آدھا دن۔ اللہ نے فرمایا: نہیں ،بلکہ سو برس تک اس حالت میں رہے ہو۔ کھانے کو دیکھو وہ بالکل نہیں گلا سٹرا اور دیکھو گدھے کی ہڈیوں کو ہم کیسے ترکیب دیتے ہیں؟ اور تمہارے دیکھتے ہی دیکھتے ان پر گوشت چڑھاتے ہیں۔ یہ سب کچھ ہوتا دیکھ کر حضرت عزیز علیہ السلام کو اللہ کی قدرتِ کاملہ پر اطمینانِ قلبی حاصل ہو گیا۔(البقرہ۲ :۲۵۹)ان واقعات سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاں مشاہدہ اور مطالعہ کائنات پر زور دیا اور بھرپور طریقے سے اس کی دعوت و ترغیب دی وہاں اپنے بندوں کو مشاہدات بھی کرائے۔ چنانچہ مشاہدہ تجربہ اور تدبرفی الخلق کے اعتبار سے بھی قرآن اور سائنس میں ایک واضح تعلق نظر آتا ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ قرآن سائنس کی کتاب نہیں،اس کا اصل اور بنیادی کام انسان کی ہدایت ہے۔(۱۰)تاہم وہ جہاں انسان کو اللہ کی معرفت کا درس دیتا ہے، وہاں اللہ کی کبریائی، خلاقیت اور علم و قدرت وغیرہ کے اظہار کے لیے اور اپنے دعوؤں کی حقانیت کے ثبوت میں کائنات اور اس میں کار فرما قوانینِ طبیعی سے تعرض کرتے ہوئے ان کے کسی نہ کسی پہلو کو بطورِدلیل پیش کرتا ہے، اور ساتھ ہی ساتھ کائنات اور اس کے مظاہر کے مشاہدے اور مطالعے کی دعوت دیتا ہے ۔گویا حقیقت تک رسائی کے لیے جن چیزوں پر سائنس کا انحصار ہے قرآ ن بھی سچائی تک پہنچنے کی غرض سے انہی چیزوں کو ذریعہ بنانے کو کہتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ فلاسفہ ، علماے دین اور اہلِ سائنس کے نمایاں اور بڑے بڑے افراد نے مذہب اور سائنس کے تصادم کے تصورکارد کیااوران کی قربت کا اثبات کیا ہے۔مثلاً معرکہ آرا سائنسی نظریہ ’اضافیت‘ (Relativity)پیش کرنے والا ،بیسویں صدی کا سب سے بڑا سائنسدان آئن سٹائن کہتا ہے:’’سائنسی تحقیق آدمی میں ایک خاص قسم کے مذہبی احساسات پیدا کرتی ہے،یہ ایک طرح کی عبادت ہے ۔(۱۱) میرے لیے راسخ ایمان کے بغیر اصلی سائنسدان کا تصور محال ہے۔‘‘(۱۲) معروف فرانسیسی سائنسدان، فزیشن،ماہرِ امراضِ قلب اور فرانس کی میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق صدرڈاکٹر موریس بکائی لکھتے ہیں:
"It comes as no surprise, Therefore, to learn that religion and science have always been considered to be twin sisters by Islam and that today, at a time when science has taken such great strides, they still continue to be associated. " (13)
’’اس میں کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ اسلام نے مذہب اور سائنس کو ہمیشہ جڑواں بہنیں تصور کیا ہے۔آج بھی، جب کہ سائنس ترقی کی انتہاؤں کو چھو رہی ہے،وہ ایک دوسرے کے قدم بقدم ہیں ۔‘‘
سائنس کے تناظر میں اسلام کی حقانیت پر بات کرنے میں موریس بکائی چونکہ بہت مشہور ہیں اور ان کا عام حوالہ دیا جاتا ہے اس لیے میرے بعض سائنس مخالف دوست اسے ہنسی میں اڑانے کی کوشش کرتے ہیں کہ آپ لوگوں کے پاس آ جا کہ یہی حوالہ ہے،میں ان دوستوں کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ان کا یہ خیال قلتِ مطالعہ یا سائنس سے تعصب کا نتیجہ ہے۔ اگر وہ تحقیق کی تھوڑی سی زحمت بھی گوارا کریں اور تعصب کی عینک اتار کر دیکھیں تو انہیں معلوم ہوگا کہ مذہب اور سائنس کی قربت کا قائل صر ف بکائی نہیں دنیا کے اکثر سائنسدان ہیں۔حتی کہ آپ کو شائد ہی کوئی ایسا معتبر سائنسدان ملے جو مذہبی ذہن نہ رکھتا ہو۔آئزک نیوٹن جسے دنیائے سائنس کا سب سے بڑا نام سمجھا جاتا ہے ،دہریت کی مخالفت اور مذہب کے دفاع میں زوردار مضامین لکھتا رہا ہے۔(۱۴) اس نے اپنی متعدد تحریروں میں ببانگ دہل اقرار کیا ہے کہ یہ کائنات اللہ کے وجود کی ناطق شہادت ہے ۔(۱۵)فرانسس بیکن،جو سائنسی طریقِ تحقیق کے بانیوں میں سے ہے، سائنس اور مطالعہ فطرت کو کلامِ خدا کے بعد ایمان کا سب سے ثقہ ثبوت قرار دیتا ہے۔(۱۶)مشاہدۂ فلک کے لیے پہلے پہل ٹیلی سکوپ استعمال کرنے والامشہور سائنسدان گلیلیو کہتا ہے کہ یہ کائنات اور اس کے سارے حقائق خدا کے تخلیق کردہ ہیں ،کائنات اللہ کی تحریر کردہ دوسری کتاب ہے ،لہذا سائنس اورعقیدہ و مذہب کبھی ایک دوسرے سے متصادم نہیں ہو سکتے۔(۱۷)جدید علم فلکیا ت کا بانی کیپلرسائنس کی طرف آیا ہی اپنے مذہبی رجحانات کی بنا پر تھا ،اس نے واضح کیا ہے کہ اس نے اپنی سائنسی دریافتوں سے خدا کو پایا ہے۔(۱۸)
یہ تو سائنسدانوں کے خیالات تھے ۔جہاں تک علمائے اسلام کا تعلق ہے ان کے حوالے اس سے بھی زیادہ پیش کیے جا سکتے ہیں لیکن مضمون کی شکایتِ تنگئ داماں کو ملحوظ رکھتے ہوئے میں صرف دو حوالوں پر اکتفا کروں گا؛ایک علامہ اقبا ل کا، جو فلسفہ اور علم دین دونوں میں مسلمہ حیثیت رکھتے ہیں اور جدید مغربی تہذیب کے بہت بڑے ناقد ہیں اور دوسرا مولانا مودودی کا،جو بیسویں صدی کے دوران مسلمانانِ برصغیر میں مغربی تہذیب واقدار کے مقابلہ میں اسلامی تہذیب اقدار پر اعتمادپیدا کرنے اور احیاے اسلام کے حوالے سے ایک اہم اور نمایاں مصنف اور جانے پہچانے عالمِ دین ہیں۔موخر الذکر رقمطراز ہیں:’’حقیقت یہ ہے کہ سائنس کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جو انسانوں کے دل میں ایمان کو گہری جڑوں سے رائج کرنے والا نہ ہو۔ فزکس، کیمسٹری، بیالوجی، اناٹومی، اسٹرانومی غرض جس علم کو بھی دیکھیں اس میں ایسے حقائق سامنے آتے ہیں جو انسان کو پکا اور سچا مومن بنا دینے کے لیے کافی ہیں۔ سائنس کے حقائق سے بڑھ کر آدمی کے دل میں ایمان پیدا کرنے والی کوئی دوسری چیز نہیں ہے۔ یہی تو وہ آیاتِ الٰہی ہیں جن کی طرف قرآن بار بار توجہ دلاتا ہے۔‘‘ (۱۹)مقدم الذکر کہتے ہیں:
"The truth is that the religious and scientific processes, though involving different methods, are identical in their final aim at reaching the most real." (20)
’’واقعہ یہ ہے کہ مذہب اور سائنس،مختلف طریقِ کار اپنانے کے باوجود، اس اعتبار سے بالکل ایک ہیں کہ دونوں کا مطمأ نظر حقیقتِ واقعہ تک رسائی ہے۔‘‘
جب یہ بات واضح ہوگئی کہ قرآن کی دعوتِ مطالعۂ فطرت اور انفس وآفاق سائنس کی ترقی میں بنیادی اور اہم کردار ادا کرنے والی چیزیں ہیں؛مذہب سائنس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بلکہ اس کو مہمیز لگاتا ہے اور اس حقیقت کا اعتراف دنیا کے عظیم سائنسدانوں اور مفکرین نے واضح الفاظ میں کیا ہے تو اس خیال کی بھی آپ سے آپ تردید ہو گئی کہ اسلامی فکر وتہذیب کا سائنس کی ترقی میں کوئی کردار نہیں ۔لہذا اس پر مزید تفصیلی دلائل کی حاجت نہیں۔البتہ اس تصور کا بودا پن متحقق کرنے کی غرض سے اس پر بطورِ خاص چند سطور صرف کر نا ضروری معلوم ہوتا ہے:
یہ حقیقت مسلم اور غیر مسلم محققین نے عام تسلیم کر لی ہے کہ قرونِ وسطی کے مسلمانوں کی سائنسی ترقی قرآن و حدیث کے مشاہداتی و تجرباتی اندازِ نظر کو اپنانے پر زور دینے کی بنا پر تھی،(۲۱)اور متعددسائنسی دریافتیں مختلف شرعی احکام اور تقاضوں کا نتیجہ تھیں؛مثلاً الجبرا کواسلامی قانونِ وراثت اور فلکیات،جغرافیہ،جیومیٹری اور ٹرگنومیٹری کوسمتِ قبلہ اور اوقاتِ نمازمعلوم کرنے کی اسلامی تقاضوں کے تحت ترقی ملی۔(۲۲)ابن النفیس نے بخاری کی حدیث ’’اللہ نے کوئی مرض ایسا پیدا نہیں کیا جس کی دوا پیدا نہ کی ہو۔‘‘کو اپنی عظیم سائنسی دریافتوں کی بنیاد بنایا تھا۔اس نے خون کی دل سے پھیپھروں کی طرف حرکت(Pulmonary Circulation )کو دریافت کیا اور اپنی اس تحقیق کو حشرِ اجساد کے روایتی اسلامی تصور کی تائید میں پیش کیا۔(۲۳)مسلم کیمیا گری ،کیمسٹری اور علم نجوم کے محرکات بھی مذہبی تھے۔ (۲۴)قرآن وحدیث کے ساتھ ساتھ ان اسلامی ذرائع علم کے مستند ماہرین(علماے دینیات) کے افکار و تحریرات نے بھی مختلف سائنسی علوم کی تحریک پیدا کی۔ مثال کے طور پرطبِ اسلامی میں سرجری اورعلمِ تشریح الاعضا پر امام غزالی کی تصنیفات کے اثرات ہیں،جنہوں نے ان علوم کوتخلیقاتِ خداوندی کے ادراک کے لیے استعمال کرنے پر زور دیا۔ (۲۵)پندرہویں صدی کے مسلم ماہرِکونیات علی القوشجی نے ارسطاطالیسی تصورِ سکونِ زمین کو غزالی وغیرہ ایسے عظیم مسلم ماہرینِ علومِ دین کی تنقیدِارسطو سے تحریک پاکر رد کیا تھا۔(۲۶)امام غزالی نے خود ارسطو کے تصور کائنات کو رد کرتے ہوئے تعددِ عوالم کا تصور پیش کیا۔(۲۷)اسلام ،اسلامی تہذیب اور اہلِ اسلام کے دنیائے سائنس میں غیر معمولی کردار کو مغربی اہل علم وقلم۔جو بالعموم اسے ماننے میں تعصب میں مبتلا ہوتے ہیں۔ نے بھی نہایت واضح لفظوں میں تسلیم کیا ہے۔ مثلارابرٹ بریفالٹ لکھتا ہے: مسلمانوں نے یونانیوں سے کہیں بڑھ کر تجربات پر زور دیا۔(۲۸)ول ڈیوراں اقرار کرتا ہے کہ مسلم کیمیا دان علمِ کیمسٹری کے بانی ہیں۔(۲۹)یورپ کو سائنسی طریقِ تحقیق سے متعارف کرانے والا مشہور مغربی سائنسدان راجر بیکن بھی مسلم سائنسدانوں سے متاثر تھا ۔(۳۰)یہ اور اس نوع کے دیگر لاتعداد واضح شواہد کی ہوتے ہوئے سائنسی ترقی میں اسلامی فکر وتہذیب کے کردار کا انکار حق کا منہ چڑانے کے مترادف ہے۔
حوالہ جات و حواشی
۱۔ میں خود اس رویے اور اس کے حاملین کا سخت ناقد ہوں۔اس ضمن میں مختلف رسائل و جرائد میں راقم کے متعدد مضامین بھی شائع ہو چکے ہیں۔مثال کے طور پر ’’ تحقیقاتِ اسلامی ‘‘علی گڑھ ، انڈیا، شمارہ جنوری۔مارچ ۲۰۱۱ء میں پرویز کی قرآ نی فکر اور ’’الشریعہ‘‘دسمبر۲۰۱۱، فروری۲۰۱۲ء میں دنیائے اسلام پر استشراقی و مغربی فکر کے اثرات پر شائع ہونے والے راقم کے تفصیلی مضامین ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔
2. See for details: Maurice Bucaille,The Bible, The Quran and Science,trans. ALastair D. Pannel and Author (ND),102.
3. United States of America, Encyclopaedia Britannica ( U.S.A: Fifteenth Edition, 1986) 10/552; Gould.J.Kolb, A Dictionary of Social Sciences( London:Tavistock Publications, 1964),620.
4. Thomas Arnold,The legacy of Islam (London: Oxford University Press, 1983) ,11.
۵۔ ڈاکٹرعبدالقادر، تاریخ سائنس(لاہور:ادارہ تالیف و ترجمہ، پنجاب یونیورسٹی ،۱۹۸۳ء) ، ۱۔
۶۔ ڈاکٹررفیع الدین، اسلام اور سائنس) لاہور:اقبال اکادمی ،میکلورڈ روڈ،۱۹۸۲ء(،۱۔
۷۔ ڈاکٹرفضل کریم، قرآن اور جدید سائنس(لاہور:فیروز سنز ، ۱۹۹۹ء)،۳۵۔
۸۔ پروفیسرمحمود انور، جدید طبیعات کا تعارف( لاہور :مجلس ترقی ادب ،۲کلب روڈ ، ۱۹۶۵ء)،۱۔
۹۔ ڈاکٹررفیع الدین، اسلام اور سائنس، ۱۷۔
۱۰۔ جو لوگ سائنس کی حمایت میں غلو کر کے قرآن سے خواہ مخواہ اس کی جزئیات نکالنے اور ہر کچے پکے سائنسی تصور کو قرآن سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ ہمارے نزدیک اسی طرح قابلِ گرفت ہیں جیسے اس وقت زیرِ تنقیدعلما و دانشور۔ایک مسلمان کو نہ سائنس کے ہر نظریے و فرضیے سے مرعوب ہوکر قرآن کو اس کے مطابق کرنے کی فکر چاہیے اور نہ ہی اس کے ہرتصور کو بلاوجہ اسلام مخالف سمجھ لینا چاہیے۔گویا اسیخَیْرُ الْاُمُوْرِ اَوْسَطُھَا کے پیش نظر معتدل رویہ اپنانا چاہیے ۔راقم نے اس سلسلے میں اپنے ایک مضمون میں تفصیلی بحث کی ہے۔دیکھیے: ڈاکٹر محمد شہباز منج،’’مذہب اور سائنس۔باہمی تعلق کی صحیح نوعیت۔‘‘القلم۱۶،شمارہ۔۲ (۲۰۱۱ء):۱۶۱۔۱۸۴۔
11. http://www.einsteinandreligion.com/religioncomments.html
12. http://scienceandthemedia.weebly.com/uploads/6/9/6/2/6962884/ei nstein_science_philosophy_and_religion
13. Maurice Bucaille, The Quran and Modern Science, (Karachi: Ashraf Publication,ND),3.
14. Henry M. Morris, Men of Sciencs Men of God(U.S.A: Master Books, 2012),31-32.
15. See for example: Sir Isaac Newton, Mathematical Principles of Natural Philosophy, trans. Andrew Motte, (Chicago:William Benton, 1952),273-7
16. http://www.christianity.co.nz/ science4.htm
17. http://home.columbus.rr.com/ sciences/enlightened_belief_ history.htm
18. J.H. Tiner, Johannes Kepler-Giant of Faith and Science ( Michigan: Mott Media, 1977),197.
۱۹۔ مولانا بوالاعلی مودودی، ترجمان القرآن( لاہور:پاکستان پرنٹنگ پریس، ۱۹۶۵ء)،۲۸۵۔۲۸۶۔
20. Dr Allama Muhammad Iqbal, The Reconstruction of Religious Thought in Islam (Lahore: Hafeez Press,1965),195-96.
21. See: Laurence Bettany, "Ibn al-Haytham: an answer to multicultural science teaching.", Physics Education 30, no.4 (1995): 247150252;I. A. Ahmad, "The impact of the Qur'anic conception of astronomical phenomena on Islamic civilization", Vistas in Astronomy 39,no. 4 (1995): 395150403
22 . Owen Gingerich, "Islamic astronomy." Scientific American 254 ,no.10 (April 1986):74;Solomon Gandz, "The Algebra of Inheritance: A Rehabilitation of Al-Khuwarizmi." Osiris 5, (1938): 319150391
23. Nahyan A. G.Fancy, "Pulmonary Transit and Bodily Resurrection: The Interaction of Medicine, Philosophy and Religion in the Works of Ibn al-Nafis (d. 1288)."( Electronic Theses and Dissertations ,University of Notre Dame,2006), 2321503
24. George Saliba, A History of Arabic Astronomy: Planetary Theories During the Golden Age of Islam (New York: New York University Press,1994),60, 6715069
25. Emilie Savage-Smith, "Attitudes Toward Dissection in Medieval Islam." Journal of the History of Medicine and Allied Sciences 50, no.1:(1995): 67150110.
26 F. Jamil Ragep, "Tusi and Copernicus: The Earth's Motion in Context." Science in Context 14, no.11502(2001):145150163
27. Taneli Kukkonen, "Possible Worlds in the Tahafut al-Falasifa: Al-Ghazali on Creation and Contingency." Journal of the History of Philosophy 38,no.4 (2000): 479150502 .
28. Robert Briffault,The Making of Humanity (London:G. Allen & Unwin,1928), 190-202.
29. Will Durant, The Age of Faith (New York: Simon & Schuster,1980),4/162-86.
30. David C.Lindberg, "Alhazen's Theory of Vision and Its Reception in the West." Isis 58, no.3 (1967): 321150341 .
(جاری)