مشرق وسطیٰ کی سیاسی و مذہبی کشمکش

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مصر میں اخوان المسلمون کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے والے فوجی حکمرانوں کی سیاسی و اخلاقی تائید کے ساتھ ساتھ اربوں روپے کی صورت میں ان کی مالی امداد کر کے سعودی حکومت نے اپنے بارے میں بہت سے سوالات کھڑے کر لیے ہیں۔ اگرچہ یہ سوالات نئے نہیں ہیں لیکن آج کی نسل کے لیے ضرور نئے ہیں اور اپنے ماضی سے بے خبری کے باعث علم و دانش کا سطحی اور معروضی ماحول حیرت اورشش و پنج کی کیفیت سے دوچار ہے۔ 

سعودی حکومت اسلامی نظام کی عملداری اور قرآن و سنت کی حکمرانی کی علمبردار ہے اور اس نے اپنی مملکت کی حدود میں ایک حد تک اس کا اہتمام بھی کر رکھا ہے، جبکہ مصر میں اخوان المسلمون کا ایجنڈا بھی یہی ہے اور وہ گزشتہ پون صدی سے اس کے لیے مسلسل سرگرم عمل ہے۔ اخوان نے سول سوسائٹی اور رائے عامہ کی مدد سے حسنی مبارک کی جس حکومت بلکہ آمریت سے نجات حاصل کی ہے اور مصر کے عوام کو جبر کے جس تیس سالہ طویل دور سے نجات دلائی ہے، اس کا ایجنڈا سیکولر ازم، مغرب نوازی، اسرائیل دوستی اور جبر و تشدد کے ذریعہ حکمرانی کا رہا ہے۔ حسنی مبارک کا طویل دورِ حکمرانی اس کا شاہد ہے، اس لیے جب مصر کے عوام نے سڑکوں پر آ کر قربانی اور جدوجہد کے ذریعہ حسنی مبارک کے آہنی شکنجے کو توڑا اور محمد مرسی کو بھاری اکثریت کے ساتھ منتخب کر کے ایوانِ صدر میں پہنچایا تو نہ صرف مصر کے عوام نے اطمینان کا سانس لیا بلکہ عالم اسلام کی وہ دینی تحریکات بھی مطمئن ہوئیں جو پُر امن اور عدم تشدد پر مبنی سیاسی جدوجہد کے ذریعہ اپنے اپنے ملک میں نفاذِ اسلام کے لیے کوشاں ہیں۔ لیکن ہمیں خدشہ تھا کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ، عرب دنیا کی رولنگ کلاس اور مصر کے اردگرد کے ماحول کے لیے اخوان المسلمون کی یہ کامیابی ہضم ہونے والی چیز نہیں ہے۔ چنانچہ صدر مرسی کے اقتدار سنبھالنے کے ٹھیک ایک سال بعد فوجی مداخلت کے ذریعہ ان کی حکومت کا تختہ الٹ کر انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ اس موقع پر توقع کی جا رہی تھی کہ دنیا بھر کی پُر امن اسلامی تحریکیں اور اسلام کی حکمرانی پر یقین رکھنے والے حلقے اخوان کی آواز میں آواز ملائیں گے اور ان کی پشت پناہی کریں گے۔ لیکن سعودی عرب کی طرف سے مصر کے فوجی انقلاب کی حمایت اور فوجی حکمرانوں کی خطیر مالی امداد کا اچانک اعلان ایک ایسا بریکر ثابت ہوا جس نے توقعات اور امیدوں کا یہ سارا نظام تہہ و بالا کر کے رکھ دیا ہے۔ 

ہمارے ایک فاضل دوست اور ملک کے معروف عسکری تجزیہ نگار لیفٹیننٹ جنرل (ر) غلام جیلانی خان صاحب نے روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں شائع ہونے والے دو کالموں میں اس صورت حال پر تفصیل کے ساتھ اظہار خیال کیا ہے۔ انہیں یہ شکایت ہے کہ آج کی نسل کو اپنے ماضی بلکہ ماضی قریب کی بھی خبر نہیں ہے اور وہ خلافت عثمانیہ کے زوال میں عرب دنیا کے کردار، آل سعود کے سیاسی و تاریخی پس منظر، جنگ عظیم اول کے بعد نئی عرب ریاستوں کے ساتھ برطانیہ و امریکہ کے معاہدات اور موجودہ عالمی نیٹ ورک میں عرب ریاستوں کی حیثیت و مقام سے بالکل بے خبر ہیں، جس کی وجہ سے ہم نہ صرف یہ کہ معروضی حالات کے اصل تناظر اور زمینی حقائق سے آگاہی حاصل نہیں کر پاتے بلکہ کسی مسئلہ میں صحیح موقف اور طرز عمل اختیار کرنا بھی ہمارے لیے ممکن نہیں رہتا۔ 

ہمیں خان صاحب محترم کے اس ارشاد سے مکمل طور پر اتفاق ہے بلکہ ہم خود متعدد بار یہ عرض کر چکے ہیں کہ یہ ’’بے خبری‘‘ ہماری نئی نسل کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، لیکن اس سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ ’’بے خبری‘‘ محض اتفاقی اور صرف نئی نسل کی بے پروائی کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ ’’انجینئرڈ بے خبری‘‘ ہے جس کا ماحول پیدا کرنے کے لیے ہمارے متعلقہ سرکاری اور غیر سرکاری ادارے قیام پاکستان کے بعد سے مسلسل مصروف عمل ہیں۔ اس شعبہ میں ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ یونیورسٹیوں کے اساتذہ، دینی مدارس کے مدرسین، سیاسی جماعتوں کے راہ نماؤں اور ربع صدی سے زیادہ عرصہ تک خطابت و امامت کے فرائض سر انجام دینے والے علماء کرام سے یہ پوچھ لیں کہ خلافت عثمانیہ کا دائرہ کار کیا تھا اور اس کے زوال کے اسباب کیا تھے؟ یا اسرائیل کیسے وجود میں آیا اور اس میں کس کس نے کیا کیا کردار ادا کیا ہے؟ تو قوم کی سیاسی، دینی اور علمی قیادت کا مقام رکھنے والے ان چاروں طبقوں کی غالب اکثریت کے پاس بغلیں جھانکنے کے سوا اس سوال کا کوئی جواب موجود نہیں ہوگا۔ فیا أسفاہ و یا ویلاہ۔

خان صاحب محترم کو شکوہ ہے کہ مڈل ایسٹ میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان سنی شیعہ کشمکش کے حوالہ سے ’’پراکسی وار‘‘ چل رہی ہے اور پاکستان میں جاری فرقہ وارانہ کشیدگی اس کا حصہ ہے جس کو سعودی عرب ہوا دے رہا ہے۔ ہمیں ان کی اس بات سے بھی اختلاف نہیں ہے البتہ یہ ضرور عرض کریں گے کہ یہ یکطرفہ اور ادھوری بات ہے۔ 

یہ منظر اب ہر ایک کو نظر آرہا ہے کہ مڈل ایسٹ میں سنی شیعہ کشمکش دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اور اس نے مذہبی دائرے سے بڑھ کر سیاسی و عسکری دائروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور یہ بات بھی حقیقت ہے کہ اس کشمکش کے دائرے میں پاکستان بھی شامل ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس مذہبی کشمکش نے سیاسی اور عسکری رُخ کب سے اختیار کیا ہے؟ اس حقیقت کا اظہار کتنا ہی تلخ کیوں نہ ہو، مگر اس کے حقیقت ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایران کے مذہبی انقلاب کے بعد پاکستان میں اس کی نمائندگی کے عنوان سے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ وجود میں آئی اور اس کی طرف سے اپنے فرقہ وارانہ مطالبات کے لیے وفاقی سول سیکرٹریٹ کا گھیراؤ کیا گیا جس کے رد عمل کے طور پر سنی شدت پسند تحریکوں نے جنم لیا اور معاملات بڑھتے بڑھتے مذہبی خانہ جنگی کی افسوسناک صورت اختیار کر گئے۔ 

اسی طرح مڈل ایسٹ کی ریاستوں میں ایران کے مذہبی انقلاب کے اثرات نے پیش رفت شروع کی، اس عمل اور اس کے رد عمل نے مشرق وسطیٰ کی بہت سی ریاستوں کے داخلی ماحول کو لپیٹ میں لے لیا اور اب حالات یہ رُخ اختیار کرتے جا رہے ہیں کہ غلام جیلانی خان صاحب نے اپنے مضمون میں خلافت عباسیہ کے خاتمہ کے بعد قائم ہونے والی جس فاطمی حکومت کا تذکرہ کیا ہے، اگر کوئی مضبوط رکاوٹ نہ ہوئی تو وہ فاطمی حکومت ایک بار پھر خدانخواستہ مشرق وسطیٰ میں اپنا پرچم لہراتی ہوئی دکھائی دینے لگی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ یہ صورت حال پورے خطے کی سنی اکثریت کے لیے قابل قبول نہیں ہوگی اور وہ اس سے بچنے کے لیے کچھ نہ کچھ ہاتھ پاؤں تو ضرور مارے گی۔ 

ہماری خان صاحب محترم سے گزارش ہے کہ وہ اس صورت حال پر تشویش کا اظہار ضرور کریں، ہم بھی ان کے ساتھ اس تشویش میں شریک ہیں، لیکن تصویر کے صرف ایک رُخ پر اکتفا کرنے کی بجائے اس کا دوسرا رُخ بھی سامنے رکھیں اور دونوں پہلو سامنے رکھتے ہوئے اس مخمصہ سے نکلنے کے لیے قوم کی راہ نمائی کریں۔

خان صاحب محترم نے شکوہ کیا ہے کہ سعودی حکومت نے مصر کے فوجی انقلاب کی تو خطیر رقم کے ساتھ مالی امداد کی ہے لیکن پاکستان جس کو اس وقت مالی امداد کی سخت ترین ضرورت ہے اسے صرف ائمہ حرمین کے دوروں کی خوش خبری پر ٹرخایا جا رہا ہے۔

خان صاحب نے پاکستان کی مالی امداد کی طرف توجہ نہ دینے پر جو شکوہ کیا ہے، وہ بالکل بجا ہے اور سعودی حکومت سے ہمارا شکوہ بھی یہی ہے۔ لیکن انہوں نے ائمہ حرمین کے پاکستان کے دوروں کا اس کے تقابل میں جس انداز میں تذکرہ کیا ہے، وہ بہرحال محل نظر ہے۔ ائمہ حرمین شریفین کی پاکستان تشریف آوری ہمارے لیے ہمیشہ باعث برکت رہی ہے، وہ کبھی فرقہ وارانہ کشمکش کا حصہ نہیں بنے، حتیٰ کہ حرمین شریفین میں ان کے خطبات جمعہ و عیدین میں بھی فرقہ واریت کا مواد عام طور پر موجود نہیں ہوتا۔ جبکہ ائمہ حرمین بالخصوص فضلیۃ الشیخ السدیس حفظہ اللہ تعالیٰ اپنے خطبات میں وحدت امت اور مذہبی رواداری کے ساتھ ساتھ امت کے دینی، علمی، فکری اور معاشرتی مسائل کی طرف مسلمانوں کی جو راہ نمائی کرتے ہیں، وہ ریکارڈ کا حصہ ہے۔

ویسے بھی سعودی عرب کے علماء کرام کا اپنا ایک کردار ہے۔ سعودی حکومت کے مذہبی دائروں کو قائم رکھنے میں آل شیخ کا مسلسل کردار چلا آرہا ہے۔ سعودی نظام کی اصلاح کے لیے سعودی عرب کے سابق چیف جسٹس الشیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے اور فتاویٰ مسلم ممالک کی عدلیہ کے لیے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ خلیج عرب میں امریکی افواج کی آمد پر سعودی عرب کے چوٹی کے دو سو علماء کرام نے جو عرضداشت ’’مذکرۃ النصیحۃ‘‘ کے عنوان سے سعودی فرمانروا کو پیش کی تھی اور جس کے نتیجے میں بہت سے علماء کرام جیلوں میں گئے تھے اور بعض جلا وطن بھی ہوئے، وہ نفاذِ اسلام کی تحریکات کے لیے گائیڈ لائن کا درجہ رکھتی ہے۔ اس لیے ہماری درخواست ہے کہ سعودی حکومت کے سیاسی فیصلوں پر ضرور تنقید کی جائے اور ان سے اختلاف بلکہ احتجاج کا حق بھی استعمال کیا جائے، لیکن ائمہ حرمین شریفین اور سعودی عرب کے علماء کرام کو اس دائرے سے الگ رکھا جائے اور انہیں خواہ مخواہ اس کے ساتھ لپیٹنے سے احتراز کیا جائے، اس لیے کہ اُن کا اِن معاملات کی ذمہ داری میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ 

جہاں تک ’’آل سعود‘‘ کے تاریخی پس منظر اور سیاسی کردار کا تعلق ہے ہم نے کچھ عرصہ قبل ’’پاکستان‘‘ میں ہی اس کا مختصر تذکرہ کیا تھا اور سعودی عرب کے بانی شاہ عبد العزیز مرحوم اور لارڈ چیمسفورڈ کے درمیان ہونے والے اس تیرہ نکاتی معاہدے کا ذکر بھی کیا تھا جس میں برطانیہ عظمیٰ نے سعودی عرب میں آل سعود کے نسل در نسل حکمرانی کے حق کو تسلیم کیا تھا، جبکہ آل سعود کی طرف سے عالمی سطح پر برطانوی مفادات کے خلاف نہ جانے کا عہد کیا گیا تھا اور اس معاہدہ کے نتیجے میں سعودی عرب کی ریاست وجود میں آئی تھی۔ اس میں صرف یہ فرق آیا ہے کہ عالمی سطح پر برطانیہ کی جگہ امریکہ نے لے لی ہے جبکہ باقی معاملات جوں کے توں چل رہے ہیں۔ 

ہمارا خیال ہے کہ جس طرح ائمہ حرمین شریفین اور علماء سعودی عرب کو ’’آل سعود‘‘ کے سیاسی کردار کے ساتھ نتھی کرنا مناسب نہیں ہے اسی طرح ’’آل سعود‘‘ کے سیاسی کردار کو حرمین شریفین کے تقدس کی آڑ میں رکھنا بھی درست طرز عمل نہیں ہے بلکہ اس پر کھلے دل کے ساتھ بحث و مباحثہ کی ضرورت ہے۔ مگر ہم پہلے مرحلہ میں یہ چاہیں گے کہ غلام جیلانی خان صاحب محترم اپنے مخصوص انداز میں خلافت عثمانیہ کے عروج و زوال، اسرائیل کے قیام کے پس منظر، ہاشمی خاندان اور آل سعود کے تاریخی تناظر، پہلی جنگ عظیم کے بعد خلافت عثمانیہ کی شکست و ریخت کے نتیجے میں وجود میں آنے والی عرب ریاستوں کے ساتھ برطانیہ، فرانس اور امریکہ وغیرہ کے معاہدات اور مشرقی وسطیٰ کی موجودہ صورت حال کے ’’معاہداتی پس منظر‘‘ پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالیں۔ ان کے پاس معلومات کے ذرائع بھی زیادہ ہیں، وہ بات کو خوبصورت انداز میں کہنے اور پھر اسے اپنے لہجے میں ڈھالنے کا سلیقہ بھی رکھتے ہیں۔ اس لیے اس داستان کو نئی نسل کے سامنے پیش کرنے کا حق وہ زیادہ رکھتے ہیں، البتہ کہیں منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے ہمیں مداخلت کی ضرورت محسوس ہوئی تو ہم اس سے گریز نہیں کریں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

حالات و واقعات

(ستمبر ۲۰۱۳ء)

تلاش

Flag Counter