بنوں اور پھر ڈی آئی خان جیل کی مہمات کامیابی سے سر ہونے کے بعد اس حقیقت سے شاید ہی کوئی انکار کرسکے کہ پاکستانی طالبان غلبہ حاصل کرچکے ہیں اور جہاں چاہیں اپنی مرضی کی کارروائی کرسکتے ہیں۔
تحریک طالبان پاکستان مافوق الفطرت انسانوں پر مشتمل نہیں‘ نہ ہی اس کے پاس ہتھیاروں کی کوئی ایسی قسم ہے جو حکومت پاکستان کے لیے انوکھی ہو۔ اس کے غلبے اور حکومت پاکستان کی مسلسل ناکامیوں کے اسباب وہی ہیں جو دنیا میں ہمیشہ سے چلے آرہے ہیں۔ خدا کی سنت وہی ہے جو بیان کردہ اصولوں کے مطابق کچھ کو تفوق اور کچھ کو زیردستی سے ہم کنار کرتی ہے۔ اگر خدا کی سنت کے بجائے کچھ لوگ تاریخ کے پروسیس کا نام لیتے ہیں تو اس سے حقیقت حال تبدیل نہیں ہوتی! اس کالم نگار کے تجزیہ کے مطابق طالبان کی بالادستی کے پانچ اسباب ہیں۔
اول۔ وہ اپنے نصب العین اور نظریات کے بارے میں کسی ابہام یا ذہنی کشمکش کا شکار نہیں۔ ہم انہیں غلط سمجھیں یا صحیح، یہ اور بات ہے۔ مگر وہ جس بات کو درست گردانتے ہیں، اس پر مجتمع ہیں اور اس پر انہیں شرحِ صدرحاصل ہے۔ یہ ذہنی یکسوئی ان کی مادی قوت کو زیادہ موثر کردیتی ہے۔ جس راستے کو وہ جنت کا راستہ سمجھ رہے ہیں، اس پر چلنا ان کے لیے آسان ہے اس لیے کہ ان کا اپنے نظریات پر پختہ یقین ہے۔ اس کے مقابلے میں حکومت پاکستان کو معلوم ہی نہیں کہ وہ کیا کرنا چاہتی ہے۔ جس طرح پورے ملک میں بہت سے لوگ طالبان کے حامی ہیں، اسی تناسب سے ان کے ہمدرد سارے شعبوں میں بھی موجود ہیں۔ کوئی بھی اپنے مقاصد کے بارے میں واضح نہیں۔ چار افراد طالبان کو غلط سمجھتے ہیں تو دو صحیح کہتے ہیں۔ طالبان کا مقابلہ کرنے والے خبروں میں سنتے ہیں کہ کچھ طالبان اچھے ہیں اور کچھ برے ہیں۔ کبھی انہیں معلوم ہوتا ہے کہ حکومت طالبان سے گفت وشنید کرنے کی تیاریاں کررہی ہے آپ اس کا مقابلہ پاکستان اور بھارت کی جنگ سے کرلیں۔ قوم کے ہرفرد کو معلوم ہوتا ہے کہ بھارت دشمن ہے اور بقا اس میں ہے کہ اس کا مقابلہ کیا جائے اور فتح حاصل کی جائے۔ یہ یقین، یہ برہنہ تلوار جیسا ایمان طالبان کا مقابلہ کرنے والوں کے دلوں میں مفقود ہے۔(اس کا سبب آگے چل کر بتایا جائے گا )۔
دوم۔ جنگ میں فتح حاصل کرنے کے لیے لازم ہے کہ احکام کا منبع ایک ہو۔ اسے Unity of Command کہتے ہیں۔ طالبان کو یہ یونٹی آف کمانڈ پوری طرح حاصل ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ پالیسی کہاں طے ہورہی ہے اور حملے کا فیصلہ کس نے کرنا ہے۔ اس کے مقابلے میں حکومت کو خودمعلوم نہیں کہ فیصلہ کس نے کرنا ہے اور پالیسی کس نے بنانا ہے۔ ڈی آئی خان کاواقعہ دیکھ لیجیے۔ متعلقہ اداروں کو معلوم ہی نہیں کہ وہ کس اتھارٹی کو متنبہ کریں۔ چنانچہ انہوں نے متعلقہ وزیر، پولیس کے اعلیٰ افسر، انتظامیہ کے انچارج‘ سب کو اطلاعات فراہم کیں۔ لیکن کوئی ایک اتھارٹی ایسی تھی ہی نہیں جو معاملے کو اپنے ہاتھ میں لیتی اور فیصلے صادر کرکے احکام نافذ کرتی۔ اس کنفیوڑن کے مارے لوگ طالبان کا مقابلہ کسی صورت میں نہیں کرسکتے۔
سوم۔طالبان کی بالا دستی کی سب سے بڑی وجہ پاکستان کے سرکاری محکموں کی نااہلی، کرپشن اور بددیانتی ہے۔ جنگ صرف فوج اور پولیس نہیں لڑتی ، حکومت کا ہر شعبہ حصہ لیتا ہے اور اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ ہرشعبہ اپنا کام سوفی صد درست کرے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ افریقہ اور لاطینی امریکہ کے چند ملکوں کو چھوڑکر حکومت پاکستان کی نااہلی کرپشن اور بدیانتی کی کوئی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی۔ بارڈرز پر جولوگ متعین ہیں، وہ چند سکوں کی خاطر سب کچھ کررہے ہیں۔ لاکھوں شناختی گارڈ اور پاسپورٹ رشوت لے کر ان لوگوں کو جاری کیے گئے اور کیے جارہے ہیں جن کا ان دستاویزات پر کوئی حق نہیں۔ جعلی ڈومی سائل سرٹیفکیٹ لینے کے لیے آپ نے کچہری کے کسی بدنیت اہلکار کو چند سرسراتے نوٹ دکھانے ہیں اور بس۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ کچہریوں میں ننانوے فی صد معاملات رشوت سے طے ہورہے ہیں اور یہ سچائی سب کے علم میں ہے۔ پولیس اور جیل کے وہ اہلکار طالبان جیسی تازہ دم قوت کا مقابلہ کس طرح کرسکتے ہیں جن کی تعیناتی، بھرتیاں، تبادلے اور ترقیاں سفارش اور رشوت سے طے ہوتی ہیں۔ جس ملک کی پولیس اغواکاروں اور بھتہ خوروں کو اطلاعات فروخت کرے، وہ کسی حملہ آور کا مقابلہ کرنے کا سوچ ہی نہیں سکتی۔
آپ نااہلی کی انتہا دیکھیے کہ پولیس کے جس سربراہ کو اس رسواکن شکست پر مستعفی ہونا چاہیے تھا، وہ خوش مذاقی کے موڈ میں ہے اور اس کا یہ دلچسپ بیان میڈیا میں چھپا ہے کہ طالبان اور پولیس کا تعلق بیٹنگ اور باؤلنگ کا ہے اور یہ کہ کبھی ہم چھکا لگاتے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ ایسی مہمل اور مضحکہ خیز باتیں کرنے والے لوگ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال سکتے ہیں ؟ اور ان لوگوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں جو پھٹے ہوئے کپڑے پہن کر زمین پر سوتے ہیں ؟ کیا پولیس کا یہ سربراہ قوم کو بتائے گا کہ اس کی، اس کے محل کی اور اس کے اہل خانہ کی حفاظت پر کتنے اہلکار متعین ہیں ؟ ان کے پاس کتنا اسلحہ ہے اور اس پر حکومت کا کتنا روپیہ خرچ ہورہا ہے ؟ کیا طالبان کو نہیں معلوم کہ یہ شہزادے میدان کے شیر نہیں، محض سرکاری شیر ہیں اور سرکاری شیر کاغذی شیروں سے بھی زیادہ کمزور ہوتے ہیں ؟ جس حکومت کے افسر اور اہلکار کسی واضح پالیسی کے بغیر، ہرچند ماہ کے بعد تبدیل کردیئے جائیں اور انہیں اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کا علم ہو نہ یہ معلوم ہوکہ ان کے اہل خانہ سر کہاں چھپائیں گے ، وہ کسی برتے پر اپنے سینے گولیوں کے سامنے رکھیں گے ؟ اس وقت نااہلی اور بددیانتی اس درجہ ہے کہ اگر کسی دفتر کو فوٹو کاپی مشین مہیا کرنی ہوتو اس میں مہینے لگ جاتے ہیں۔
آپ نااہلی کی ایک اور مثال دیکھیے۔ چودھری نثار علی خان وزیر داخلہ بنے تو انہوں نے دعویٰ کیا کہ دارالحکومت کا ٹریفک کا نظام درست کردیا جائے گا۔ مہینے گزر چکے ہیں دارالحکومت کی بڑی شاہراہ پر‘ جوکنونشن سنٹر اور لیک ویو پارک کے درمیان ہے، آوارہ مویشیوں کے‘ گَلّوں کے گَلّے چہل قدمی کررہے ہیں۔ یہیں سے ن لیگ کے قائداور ملک کے وزیراعظم اکثر وبیشتر مری جانے کے لیے گزرتے ہیں۔ جس ملک کے دارالحکومت کی بڑی شاہراہوں پر آوارہ ڈھور ڈنگر کھلے عام پھررہے ہوں، اس ملک کے سرکاری اہلکار طالبان کا کیا مقابلہ کریں گے !
خودکش حملوں کے بارے میں حکومت کا موقف یہ ہے کہ ایک ایک شخص کی تلاشی ممکن نہیں۔ یہ ایک لغو دلیل ہے۔ آخر امریکہ برطانیہ اور یورپ کے دوسرے ملکوں میں دہشت گردوں کی کارروائی کو کس طرح روکا گیا ہے ؟آخر حکومت صدر، وزیراعظم اور وزراء اعلیٰ کی حفاظت کامیابی سے کیسے کرلیتی ہے ؟آخر خودکش حملہ آور ان بڑے لوگوں تک کیوں نہیں پہنچ پاتے ؟اس کا جواب آسان ہے۔ امریکہ اور برطانیہ جیسے ملکوں میں ہر شہری کی حفاظت اس طرح کی جاتی ہے جیسے ہمارے ہاں نام نہاد وی آئی پی کی‘ کی جاتی ہے۔ آج اگر وہ انتظامات جو ایک شہر میں حکمرانوں کی حفاظت کے لیے کیے جارہے ہیں، پورے شہر کے لیے کیے جائیں تو حکمرانوں کے لیے الگ انتظامات کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔
ہم طالبان کی بالادستی کے اسباب کی طرف واپس آتے ہیں۔ آپ طالبان کی چستی اور حاضر دماغی دیکھیے! ڈی آئی خان میں انہوں نے جو جنگی چالیں چلیں، پولیس ان کا خواب میں بھی نہیں سوچ سکتی۔ انہوں نے اپنی تیرہ گاڑیاں جیل سے دور ٹاؤن ہال کے پاس پارک کیں تاکہ ان پر حملہ نہ ہوسکے۔ ان کا ہراول دستہ جواٹھارہ افراد پر مشتمل تھا، پولیس کی وردی میں آیا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ کسی نے انہیں شہر میں روکا نہ جیل کے اندر جانے سے۔ انہوں نے جیل کی بجلی کاٹ دی جس سے مکمل بدانتظامی پھیل گئی جب کہ خود طالبان کے پاس تاریکی میں دیکھنے والی عینکیں تھیں۔ پولیس کے افراد وائرلیس پر جوگفتگو کرتے تھے وہ طالبان سن سکتے تھے۔ انہوں نے کنفیوڑن پھیلانے کے لیے وائرلیس پر کچھ اس طرح کی گفتگو کی کہ ان کا اگلا نشانہ فوجی چھاؤنی ہے۔ یہ اس لیے تھا کہ فوجی چھاؤنی والے جیل کا رخ کرنے کے بجائے اپنی حفاظت کی فکر کرنے لگ جائیں۔ طالبان کو معلوم تھا کہ یہ کرکٹ کا میچ نہیں، جنگ ہے جب کہ پولیس کے افسروں کا خیال یہ تھا کہ یہ تو باؤلنگ اور بیٹنگ کا مسئلہ ہے جو بہت سادہ اور آسان ہے !
طالبان کے غلبے کی چوتھی وجہ یہ ہے کہ پاکستانیوں کی کثیر تعداد انہیں نجات دہندہ سمجھتی ہے۔ طالبان کے حامیوں کی ایک قسم وہ ہے جو نظریاتی حوالے سے انہیں اپنے قریب سمجھتی ہے لیکن ایسے حامیوں کی تعداد بھی کم نہیں جنہیں طالبان کے نظریات اور طرز حکومت سے کوئی دلچسپی نہیں مگر پاکستانی ریاست، پاکستانی حکومتوں اور بالائی طبقے کے ظلم و ستم سے وہ اس قدر عاجز آچکے ہیں کہ بالآخر انہیں طالبان جیسا نجات دہندہ بھی قبول ہے۔ پٹواری، تھانیدار، واپڈا اہلکار، سوئی گیس کے راشی ملازم، ملاوٹ کرنے والے بددیانت تاجر، تجاوزات کے ذریعے ماحول کو گندا کرنے والے دکاندار، راہگیروں کو کچلنے والے بدمست ڈرائیور، فرعونیت کے لہجے میں بات کرنے والے سرکاری عّمال، اقربا پروری ا ور دوست نوازی کرنے والے عوامی نمائندے ان عوام کو کمّی کمین سمجھتے ہیں۔ ایک ایک گلی پکی کرانے ا ور ایک ایک کنکشن لینے کے لیے شرفا کو برسوں پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ کوئی سیاسی جماعت، کوئی حکومت، کوئی مارشل لاء4 ، عوام کے دکھوں کا مداوا نہیں کرسکا۔ ہر نیا سال نئے ظلم لاتا ہے۔ مخصوص گروہوں کے کام کرانے والا ایک ٹولہ پارلیمنٹ سے نکلتا ہے تو دوسرا ٹولہ آ کر دوسرے گروہوں کے کام کرانا شروع کر دیتا ہے۔
پاکستانی عوام اس اشرافیہ سے عاجز آچکے ہیں جس پر قانون کا اطلاق نہیں ہوتا، جس کی گاڑیوں کے شیشے کالے ہی رہتے ہیں اور جو اسلحہ کی نوک پر سارے غلط کام آسانی سے کروا لیتی ہے۔ پاکستانی عوام نوکر شاہی کے ان گماشتوں سے خدا کی پناہ مانگ رہے ہیں جن سے ملاقات کرنا تو کجا، ٹیلیفون پر بات کرنا بھی ناممکن ہے اور جن کے دربان اور پی اے سائلوں کو نہ صرف دھتکارتے ہیں بلکہ موقع ملے تو ٹھڈے بھی مارتے ہیں۔ پاکستانی عوام ان حکمرانوں کو ہاتھ اٹھا اٹھا کر بددعائیں دے رہے ہیں جو خود تو چھینک آنے پر بھی اپنی تین تین بیگمات کے ساتھ لندن کا رخ کرتے ہیں لیکن کسی گاؤں میں عام آدمی کے لیے ڈسپنسری قائم کرنی ہو تو بیس لاکھ روپے پر بھی سانپ بن کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ظلم اور ناانصافی کے ڈسے ہوئے یہ مظلوم بے کس اور بے بس عوام جب سنتے ہیں کہ طالبان اپنی عدالتیں لگا کر مجرموں کو سزائیں دیتے ہیں اور مظلوموں کو انصاف بہم پہنچاتے ہیں تو ان کے دلوں میں طالبان سے ہمدردی پیدا ہوتی ہے۔ طالبان کا مقابلہ کرنے والے سرکاری اہلکاروں سے آخر عوام کو کیا ہمدردی ہوسکتی ہے؟ یہی اہلکار اور ان کے افسر ہی تو ہیں جنہوں نے ان کی زندگیوں کو جہنم بنا رکھا ہے۔ عوام خواب دیکھ رہے ہیں کہ کیا عجب کل طالبان کو مکمل غلبہ حاصل ہوجائے تو وہ بددیانت راشی سرکاری ملازموں کو درختوں سے لٹکا کر پھانسیاں دیں۔ بجلی اور گیس سے عوام کو محروم کرنے والوں کو درّے ماریں۔ خوراک‘ ادویات اور معصوم بچوں کے دودھ میں ملاوٹ کرنے والے ’’حاجیوں‘‘ کو جلتے تنوروں میں پھینکیں۔ فساد معاشرے میں جس طرح پھیل چکا ہے اس کا علاج باریاں بدلنے والے کھرب پتی سیاستدانوں کے بس کی بات نہیں، نہ ہیان کی نیت ہے۔
یہ ظلم طالبان جیسے جنونی اور سودائی ہی ختم کر سکتے ہیں۔پانچواں سبب یہ ہے کہ طالبان کو پاکستانیوں کی ایک اچھی خاصی تعداد نظریاتی کمک پہنچا رہی ہے۔ اس کا سبب اسلام کی ایک خاص تعبیر ہے جو پاکستان اور افغانستان سے باہر دنیائے اسلام میں شاید ہی کہیں نظر آئے۔ اسلام کی اس خاص تعبیر میں افغانستان اور پاکستان کی مقامی ثقافتوں کا عمل دخل ہے اور مقامی ثقافت کے ان مظاہر کو بھی اسلام کا لبادہ پہنا دیا گیا ہے جو افغانستان اور پاکستان کے باہر کے مسلمانوں کے لیے اجنبی ہیں۔ پھر بدقسمتی سے اس مذہبی گروہ کا ہیڈکوارٹر بھی پاکستان میں ہے جو دین کو صرف ظاہری ہیئت کے حوالے سے دیکھتا ہے، حقوق العباد سے مکمل روگردانی کرتا ہے۔ایک خاص کتاب کو [ معاذاللہ] سب کچھ سمجھتا ہے۔ لوگوں کو تلقین کرتا ہے کہ بس اسی کتاب کو پڑھیں ، سنیں اور سنائیں۔ یہ گروہ لوگوں کو یہ تک کہتا ہے کہقران کو سمجھ کر پڑھنا صرف علما کا کام ہے۔ان تمام عوامل کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عوام کی کثیر تعداد اسلام کو محض عبادات کا مجموعہ سمجھنے لگی ہے۔ عملی زندگی سے اسلام کا عمل دخل ختم ہوچکا ہے۔ نمازیں پڑھنے، روزے رکھنے اور حج کرنے کے باوجود اکثریت اکل حلال اور صدق مقال سے محروم ہے۔ وعدہ خلافی اور جھوٹ کو برائی سمجھا ہی نہیں جارہا۔ ملاوٹ، ٹیکس چوری، ناروا تجاوزات اور نقص چھپا کر مال فروخت کرنا ان لوگوں کا معمول ہے جو ظاہری لحاظ سے مذہبی نظر آتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کے بالائی طبقات میں بھی طالبان کے حامی موجود ہیں۔ سید منور حسن، جنرل حمید گل ،جنرل مرزا اسلم بیگ، عمران خان اورلال مسجد کے با اثر خطیب مولانا عبدالعزیز جیسے طاقتور افراد طالبان کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔ نہیں معلوم اگر طالبان کو اقتدار مل گیا تو یہ سابق جرنیل ا پنی ظاہری وضع قطع میں ان کی پیروی کریں گے یا نہیں اور اپنا وہ معیار زندگی ترک کریں گے یا نہیں جس کا پاکستانی عوام کی اکثریت خواب میں بھی تصور نہیں کرسکتی مگر بہرطور یہ حضرات طالبان کے نظریاتی حامی ہیں اور یہ اکیلے نہیں، ان کے لاکھوں ہم خیال، پیروکار اور معتقدین ہیں۔ طالبان کے ہمدرد لامحالہ تمام اداروں میں بھی ہوں گے۔ جب کسی تحریک کے حامی پیدا ہوتے ہیں تو وہ صرف ایک خاص علاقے تک محدود نہیں ہوتے نہ کسی خاص انکم گروپ سے تعلق رکھتے ہیں نہ کوئی خاص زبان بولتے ہیں۔ یہ حامی تمام طبقات اور تمام علاقوں میں موجود ہوتے ہیں۔
ہم میں سے جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ طالبان دنیا اور دنیا کے حالات سے بے خبر ہیں، غیر تعلیم یافتہ ہیں اور معاشرتی حرکیات (DYNAMICS) سے ناآشنا ہیں، غلطی پر ہیں۔ ان کی پیش قدمی سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف پاکستان کے ظاہری بلکہ غیر ظاہری حالات سے بھی آگاہی رکھتے ہیں۔