انٹرویو: مشعل سیف
(مارچ ۲۰۱۲ء میں نارتھ کیرو لائنا، امریکہ کی ڈیوک یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی اسکالر مشعل سیف نے پاکستانی ریاست کے ساتھ مذہب کے تعلق، مذہبی طبقات کے کردار اور مذہبی نظام تعلیم کے حوالے سے اہم سوالات پر مبنی راقم الحروف کا ایک تفصیلی انٹرویو کیا جسے ترتیب وتدوین کے بعد یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔ عمار ناصر)
مشعل سیف: میرا نام مشعل سیف ہے۔ میں ڈیوک یونیورسٹی امریکا سے پی ایچ ڈی کر رہی ہوں۔ آپ ویسے تو ماشاء اللہ بہت مشہور ہیں، لیکن اگر اپنا مختصر تعارف کرا دیں اور اپنی تعلیم کے بارے میں بتا دیں کہ آپ نے کہاں کہاں سے سندیں حاصل کی ہیں تو مناسب ہوگا۔
عمار ناصر: ہمارا جو خاندانی پس منظر ہے، وہ ایک مذہبی گھرانے کا ہے۔ میرے دادا اور میرے والد کے حوالے سے ہمارے خاندان کو ایک معروف مذہبی گھرانے کے طور پر جانا جاتاہے۔ اپنی خاندانی روایت کے مطابق، میں نے بچپن میں حفظ قرآن کی تعلیم مکمل کی۔ اس کے بعد درس نظامی کا ایک آٹھ سالہ کورس ہوتا ہے جس میں ہمارے روایتی دینی علوم قرآن، حدیث، فقہ وغیرہ پڑھائے جاتے ہیں۔ اس کے ابتدائی درجات کی تعلیم میں نے مدرسہ انوار العلوم گوجرانوالہ میں حاصل کی، جبکہ اس کی تکمیل مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں کی جو ملک کے بڑے مدارس میں شمار ہوتا ہے۔ اس وقت ہمارے دادا مولانا محمد سرفراز خان صفدر بقید حیات تھے اور وہاں پڑھاتے تھے۔ دورۂ حدیث جس میں حدیث کی کتابیں صحاح ستہ وغیرہ پڑھائی جاتی ہیں، وہ میں نے وہاں پڑھا ہے۔ بس یہ مختصراً میری دینی تعلیم کا پس منظر ہے۔ اس کے بعد میں دس گیارہ سال تک اسی مدرسے میں پڑھاتا بھی رہا ہوں۔
مشعل سیف: آپ مدرسے میں کون سے مضامین پڑھاتے تھے؟
عمار ناصر: مختلف مضامین ہوتے تھے۔ مدارس میں جو تعلیم کا نصاب ہے، اس میں عربی زبان بنیادی چیز ہوتی ہے۔ کلاسیکی عربی لٹریچر ہوتا ہے۔ قرآن کی تفسیر، حدیث، فقہ اور پھر ان کے ساتھ اصول فقہ اور اصول حدیث، یہ سارے مضامین ہوتے ہیں اور میں تقریباً یہ ساری چیزیں پڑھاتا رہا ہوں۔ ۲۰۰۶ء کے بعد سے میں باقاعدہ کسی مدرسے میں نہیں پڑھا رہا۔ اس سے کچھ پہلے اور اس کے بعد سے میری زیادہ توجہ تحریر وتصنیف پر مرکوز ہے۔ بہت سے ایشوز ہیں جن پر میں لکھتا رہتا ہوں۔
مشعل سیف: آپ کی کچھ کتابوں کا مطالعہ میں نے کیا ہے۔ ’’براہین‘‘ آپ نے لکھی ہے اور کونسل آف اسلامک آئیڈیالوجی نے بھی ایک کتاب ’’حدود وتعزیرات‘‘ پر آپ کی چھاپی ہوئی ہے۔ ایک سوال جو بہت زیادہ اٹھتا ہے، وہ یہ ہے کہ آپ کا کون سے مسلک سے تعلق ہے؟ شاید آپ جانتے ہوں گے کہ یہ ایک controversy بھی ہے۔ بعض علما کہتے ہیں کہ آپ کہا تو کرتے ہیں کہ آپ دیوبندی ہیں، لیکن آپ کے جو افکار ہیں، وہ عموماً جو دیوبندیوں کے افکار ہوتے ہیں، ان سے ہٹ کر ہیں۔
عمار ناصر: میرا جو فیملی بیک گراؤنڈ ہے، وہ تو بالکل typical دیوبندی بیک گراؤنڈ ہے اور ظاہر ہے کہ جب آدمی نے ایک خاص ماحول میں تعلیم اور پرورش پائی ہو تو وہ اس کے اثرات سے بالکل باہر شاید نہیں جا سکتا۔ اس لیے آپ بڑی حد تک کہہ سکتے ہیں کہ جو دیوبندی مزاج ہے، چیزوں کو دیکھنے کا جو زاویہ ہے، اس کے اثرات یقیناًمجھ پر ہوں گے، لیکن جن معنوں میں دیوبندی اہل علم define کرتے ہیں کہ دیوبندی وہ ہے جو دینی مسائل کی تحقیق میں دیوبندی علماء اور دیوبندی اکابر کی مجموعی فکر سے باہر نہ جائے اور ان سے ہٹ کر کوئی بات نہ کہے تو اس معنی میں شاید آپ مجھے دیوبندی نہیں کہہ سکتے۔ میرے اپنے سوچنے کے انداز میں اور غور فکر کے طریقے میں جو developmentہوئی ہے، اس کے بعد میں نہیں سمجھتا کہ کسی ایک خاص اسکول آف تھاٹ کا پابند ہو کر رہنا، یہ علمی طور پر کوئی مثبت چیز ہے۔ میں نے مختلف فکری دھاروں سے چیزیں سیکھی ہیں۔ مولانا موددی سے بھی بہت کچھ سیکھا ہے۔ جاوید احمد غامدی صاحب میرے استاذ بھی ہیں، ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ علم جو ہے، اسلام اس میں تو کسی تعصب کی تعلیم نہیں دیتا۔ علم کی بات آپ کو جہاں سے بھی ملے، غیر مسلم سے بھی ملے، وہ لے لینی چاہیے۔ تو میرے خیال میں یہ جھگڑا ایسے ہی چلتا رہے گا۔ کچھ لوگ کہیں گے کہ یہ دیوبندی ہے، کچھ کہیں گے کہ نہیں ہے۔
مشعل سیف: آپ اپنے آپ کو کیسے تسلیم کرتے ہیں؟
عمار ناصر: میں دیوبندی تعبیر دین کو بڑا متوازن اور عوام کی سطح پر دینی ضروریات کے لیے بہت مفید سمجھتا ہوں۔ ان کے مزاج میں، ان کے فکر میں ، دوسرے اسکولز آف تھاٹ کی بہ نسبت خاصا توسع ہے، وسعت نظر ہے۔ چیزوں کو دیکھنے کا جو زاویہ نظر ہے، وہ خاصا positive ہے، لیکن یہ پابندی کہ جو دیوبندی علما ہیں، جو دیوبندی اکابر ہیں، ان کی رائے ہی ہر معاملے میں یقیناًدرست ہوگی اور ان سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا، اس کو میں نہیں مانتا۔
مشعل سیف: میں پڑھ رہی تھی، آپ نے اپنے ماہنامہ ’الشریعہ‘ میں ۲۰۰۹ء میں ایک مضمون میں یہ واضح کیا تھا کہ آپ دیوبندیت کو کس طرح تصور کرتے ہیں۔ آپ نے لکھا تھا کہ یہ بہت وسیع مکتب فکر ہے۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ کون ہے جو اکابر کے طریقے پر چل رہا ہے اور کون اکابر کی باتوں کو تسلیم نہیں کر رہا، کیونکہ دیوبندیت میں بہت diversity ہے۔
عمار ناصر: جی، میں ایسے ہی تصور کرتا ہوں کہ دیوبندی اکابر کی جو آرا ہیں، ان سے اگر آپ اختلاف رکھتے ہیں تو میرے خیال میں آپ کے دیوبندی ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یہ میرا اپنا نقطہ نظر ہے۔ لیکن بہرحال دیوبندی کون ہے اور کون نہیں ہے، یہ طے کرنے میں، میں کوئی اتھارٹی نہیں۔ یہ تو جو دیوبندی سمجھے جانے والے لوگ ہیں، مدارس ہیں، ادارے ہیں، وہی یہ حق رکھتے ہیں کہ اس کو متعین کریں۔ ان کے زاویہ نظر سے دیکھنا چاہیے۔ وہ اگر سمجھتے ہیں کہ فلاں آدمی ہمارے فریم ورک سے باہر جا رہا ہے اور وہ اسے دیوبندی تسلیم نہیں کرتے تو یہ ان کا حق ہے۔ یہ میرے لیے کوئی ایسا اہم مسئلہ نہیں ہے۔
مشعل سیف: لیکن آپ اپنے آپ کو دیوبندی کہیں گے، کسی حد تک؟
عمار ناصر: غالباً علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ہر معقول پسند مسلمان دیوبندی ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ ندوۃ العلماء کا حلقہ فکر بھی بحیثیت مجموعی دیوبندی ہی سمجھا جاتا ہے، اگرچہ ان کے ہاں ایک آزادانہ فکری روش بھی موجود ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ مولانا مناظر احسن گیلانی نے کوئی نصف صدی قبل تحریک دیوبند کی وسعت اور ہمہ گیر اثرات پر ایک مضمون لکھا تھا جس میں مولانا مودودی اور ان کی جماعت اسلامی کو بھی دیوبندی تحریک کی ایک شاخ قرار دیا تھا۔ سو اگر آپ اس مفہوم میں مجھے دیوبندی کہنا چاہیں تو میں انکار نہیں کروں گا، لیکن آپ نفی کرنا چاہیں تو میں اصرار بھی نہیں کروں گا۔
مشعل سیف: آپ نے جاوید احمد غامدی صاحب کا ذکر کیا۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ ان کے مسلک سے یا ان کے افکار سے کافی اتفاق کرتے ہیں۔ اس کے بارے میں کچھ بتانا چاہیں گے کہ آپ کا کب سے ان سے رابطہ ہے او ر کس طرح آپ ان کے اسٹوڈنٹ رہے ہیں؟
عمار ناصر: میرا ان سے تعارف تو غالباً ۱۹۹۰ء میں ان کے رسالے کے ذریعے سے ہوا تھا۔ ان کا رسالہ ہمارے پاس آتا تھا۔ میں ان کی لکھی ہوئی چیزیں پڑھتا رہا، لیکن ۲۰۰۱ء یا ۲۰۰۲ء تک زیادہ ملاقاتیں نہیں ہوئیں۔ اس دوران میں کوئی پانچ سات ملاقاتیں ہوئی ہوں گی۔ البتہ میں ان کے نتائج فکر پر خاصا غور کرتا رہا اور بہت سی باتوں نے مجھے اپیل بھی کیا۔ ۲۰۰۲ء کے بعد میں باقاعدہ ان کے ادارے کے ساتھ وابستہ ہوا اور ان کی جو علمی مجالس ہیں، ان میں شرکت کرتا رہا۔ ان کے ساتھ اور ان کے ادارے ’المورد‘ کے رفقا کے ساتھ میرا بہت اچھا اور بڑی محبت کا تعلق ہے۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ میرے فکر ونظر کی تربیت میں اور دین کو سمجھنے کا ایک زاویہ دینے میں جیسے میرے اپنے خاندانی ماحول کا اثر ہے اور جہاں عمومی مطالعے کے بہت سے اثرات ہیں، اسی طرح میں نے غامدی صاحب سے بھی بہت سیکھا ہے۔ باقی، آرا کا اختلاف یا اتفاق، یہ میری نظر میں زیادہ اہم چیز نہیں ہوتی۔ جاوید غامدی صاحب کی بہت سی آرا سے مجھے اتفاق بھی ہے اور بہت سی آرا سے اختلاف بھی ہے۔ آپ نے میری تحریروں میں دیکھا ہوگا، میں نے بہت سے اختلافات بیان بھی کیے ہیں۔ اصل میں آدمی کے سوچنے کا جو انداز ہے، وہ ساری زندگی develop ہوتا رہتا ہے۔ میں ان کو اپنے نہایت قابل احترام استاذ او راپنے معلم کا درجہ دیتا ہوں، لیکن کلی اتفاق کسی سے بھی ضروری نہیں۔ ان کی آرا سے بھی اختلاف ہو سکتا ہے، بلکہ میں نے اپنے اساتذہ میں علمی اختلاف کو جتنا encourage کرنے والا اور اپنے نقطہ نظر پر علمی تنقید کی دعوت دینے والا ان کو پایا ہے، کسی دوسرے کو نہیں پایا۔
مشعل سیف: آپ دیوبندیت کو اور طرح سے تصور کرتے ہیں۔ آپ کے خیال میں اس کے اندر لچک ہے اور آپ مختلف خیالات رکھتے ہوئے بھی دیوبندی ہو سکتے ہیں۔ آپ نے کہا کہ آپ کے خیال میں دیوبندی ہوتے ہوئے بھی آپ دیوبندی اکابر سے اختلاف کر سکتے ہیں، لیکن ساتھ ہی آپ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ آپ کسی کو دیوبندی کہنے یا نہ کہنے کا حق ان کو دیتے ہیں جو ان کے زیادہ ماننے والے ہیں؟
عمار ناصر: دیکھیں، سوسائٹی میں کوئی کمیونٹی ہوتی ہے تو اس کی ترجمانی کرنے والی جو شخصیات ہوتی ہیں یا ادارے ہوتے ہیں، فطری طور پر انھی کو یہ حق ہونا چاہیے۔ مثلاً دیکھیں، احمدی یہ کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور محمد رسول اللہ پر ایمان رکھتے ہیں۔ لیکن مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ احمدی ہم میں سے نہیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی جو پہلے سے ایک کمیونٹی موجود ہے، اس کو یہ حق ہے کہ وہ یہ طے کرے کہ وہ کس گروہ کو اپنے اندر میں سے شمار کرتے ہیں۔ سو احمدیوں کو خود سے الگ شمار کرنا یہ مسلمانوں کاحق ہے۔ اسی طرح دیوبندیت کی بطور مذہبی گروہ کے ایک Identity ہے۔ اس کی ترجمانی کرنے والی کمیونٹی موجود ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ فلاں نقطہ نظر یا فلاں رائے ہمارا جو انٹلکچول فریم ورک ہے، اس سے میل نہیں کھاتی اور اس سے باہر ہے تو اس کو یہ حق ہے کہ وہ یہ طے کرے کہ یہ ہم سے مختلف ہے۔ یہ ان کا حق ہے اور یہ جمہوریت کا تقاضا ہے۔ مجھے یا کسی بھی آدمی کو یہ نہیں کرنا چاہیے کہ ہم کسی حلقہ فکر کے فکری پیرا ڈائم یا اس کے مسلمات سے اختلاف بھی کریں اور پھر یہ خواہش بھی رکھیں کہ ہمیں ضرور اس کے اندر شمار کیا جائے۔ یہ رویہ تو اخلاقی جرات کے فقدان سے پیدا ہوتا ہے۔
مشعل سیف: مگر آپ کی سوچ مجھے interesting لگی کہ آپ خود کو اس طرح دیوبندی تصور کرتے ہیں کہ آپ کی پرورش ایک دیوبندی گھرانے میں ہوئی اور آپ کے افکار پر اس کا کافی حد تک Impact رہا ہے۔
عمار ناصر: ہاں، یہ ظاہر ہے۔ میں ’المورد‘ کے دوستوں میں اٹھتا بیٹھتا ہوں تو ان کا تاثر یہ ہے کہ میرے فکر یا زاویہ نظر پر دیوبندی اثرات زیادہ ہیں، سو وہ مجھے دیوبندی کہتے ہیں۔ یوں میں دو گھروں کا مہمان ہوں۔ دیوبندی میرے بارے میں یہ سمجھتے ہیں کہ یہ غامدی ہے اور المورد والے کہتے ہیں کہ یہ دیوبندی ہے۔
مشعل سیف: میں اپنے مقالے میں پاکستان کے علما پر تحقیق کر رہی ہوں۔ خاص طور پر یہ دیکھنا چاہ رہی ہوں کہ یہ لوگ کس طرح تصور کر رہے ہیں کہ آیا پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے یا نہیں۔ پاکستان کا آئین اس کو اسلامی جمہوریہ قرار دیتا ہے۔ اس موضوع پر آپ کا youtubeپر ایک لیکچر ہے جو آپ نے گجرات یونیورسٹی میں اقبال پر ہونے والے سیمینار میں دیا تھا۔ اس میں آپ نے اسلامی ریاست کے بارے میں بات کی تھی۔ اسی طرح آپ کی حدود وتعزیرات پرجو کتاب ہے، اس میں بھی آپ نے اس موضوع پر لکھا ہے۔ آپ نے بہت مختلف چیزیں کہی ہوئی ہیں۔ میں چاہ رہی تھی کہ آپ ان کو elaborate کر دیں۔ مجھے خاص طور سے جو سمجھ میں آیا ہے، وہ یہ ہے کہ آپ پاکستان کے بارے میں بات کرتے ہیں تو اس کو اسلامی ریاست کا درجہ دے کر بات کرتے ہیں۔ آپ نے اپنی کتاب ’’حدود وتعزیرات‘‘ میں بھی جو لکھا ہے تو اسلامی ریاست کہہ کر ہی اس کے بارے میں بات کی ہے۔ میں اور بھی بہت سے علما سے مل چکی ہوں۔ ان میں سے کافی ایسے ہیں جو پاکستان کو اسلامی ریاست تصور نہیں کرتے۔ تو آپ اس کی کچھ وضاحت کر دیجیے کہ آپ کے خیال میں اسلامی ریاست کیا ہے اور آیا پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے یا نہیں؟
عمار ناصر: اسلامی ریاست اور مسلم ریاست، یہ کافی کنفیوزنگ چیزیں ہیں۔ یہ جو فرق ہے کہ ایک اسلامی ریاست ہے اور ایک مسلم ریاست ہے، یہ بہت بعد میں پیدا ہوا ہے۔ اگر آپ شروع میں چلے جائیں تو ابتدائی دور میں اس طرح کا کوئی فرق فقہا کے ہاں نہیں ملتا۔ وہ یہی کہتے ہیں کہ وہ علاقہ جہاں مسلمانوں کی حکومت قائم ہو اور مسلمان اپنے قوانین کو نافذ کر سکتے ہوں تو وہ علاقہ دار الاسلام ہے، چاہے مسلمان عملاً کتنے ہی بدکردار ہوں، ان کے حکمران کتنے ہی بگڑے ہوئے ہوں، عملاً قانون شریعت کے مطابق فیصلے ہو رہے ہوں یا نہ ہو رہے ہوں۔ اگر کسی علاقے میں مسلمان رہتے ہیں اور وہ اسلام سے اپنی وابستگی کو قائم رکھتے ہیں اور ان کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ شریعت کونافذ کر سکتے ہیں تو ہماری کلاسیکی فقہی اصطلاح میں وہ علاقہ دار الاسلام ہے۔ یہ جو فرق ہے مسلم ریاست کا اور اسلامی ریاست کا، یہ اب دور جدید میں آکر اس تناظر میں پیدا ہوا ہے کہ ریاست کا ایک تصور مغرب سے ہمارے پاس آیا ہے جس میں آئیڈیل یہ ہے کہ مذہب کے معاملات سے ریاست کو کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ یہ مغربی تصور جمہوریت میں بنیادی چیز ہے۔ اب یہ تصور جب ہمارے ہاں آیا ہے تو مختلف مسلمان ملکوں میں اس تصور کو اسی طرح یا کچھ modify کر کے اختیار کرنے کی کوشش کی گئی، بلکہ ترکی میں تو مغرب سے بھی ایک ہاتھ آگے بڑھ کر اس کو اختیار کر لیا گیا۔ اس سے لوگوں کے دل میں یہ احساس پیدا ہوا کہ اسلام تو یہ چاہتا ہے کہ جو ریاست ہے، وہ مذہب کے معاملات میں بھی اپنی ذمہ داریاں قبول کرے اور اپنے فرائض کو ادا کرے، اس لیے جو جدید تصور ریاست ہے، وہ اسلامی ریاست کے تصور کے ساتھ compatible نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں فرق کرنا پڑے گا کہ کون سی ریاست ایک مسلم ریاست ہے او رکون سی ریاست اسلامی ریاست ہے۔
اس لحاظ سے لوگوں نے یہ سوال پیدا کیا ہے اور آپ دیکھیں کہ اس فرق کی ضرورت کا احساس پیدا ہونا، قابل فہم ہے۔ ایک ایسا عنصر شامل ہو گیا ہے کہ لوگ یہ فرق کرنا چاہتے ہیں اور اس کی ایک نظری بنیاد بھی موجود ہے کہ یہ فرق ہونا چاہیے۔ یعنی جب تک ریاست فی الواقع ان بنیادوں پر قائم نہ ہو جو ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن میں بیان ہوئی ہیں، حدیث میں بیان ہوئی ہیں تو اس وقت تک اس کو اسلامی ریاست نہیں کہنا چاہیے۔ بہت سے لوگ ایسا ہی سمجھتے ہیں اور ایک حد تک ان کی بات قابل فہم ہے۔ لیکن اس تصور کے حامل بہت سے لوگ اس سے آگے بڑھ کر یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ چونکہ یہ اسلامی ریاستیں نہیں ہیں، اس لیے ان ریاستوں میں جو نظام اطاعت قائم ہے، اس کی پابندی بھی مسلمانوں پر لازم نہیں جیسا کہ اسلامی ریاست کے قوانین کی پابندی لازم ہوتی ہے۔ چنانچہ اس طرح سوچنے والے بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ انقلاب کے ذریعے سے ہم نظام کو بدلیں۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ چونکہ یہ ایک اسلامی ریاست نہیں ہے، اس لیے یہاں پر جو ایک نظم قائم ہے اور جو بھی نظام بنا ہوا ہے حکومت کا، اس کی پابندی ہم پر لازم نہیں۔
یہ ایک قابل بحث بات ہے اور میرے خیال میں یہ نتیجہ درست نہیں۔ قرآن سے، سنت سے اور ہمارے فقہا کی جو تصریحات ہیں، ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ریاست یا حکومت کا نظام کتنا ہی بگڑا ہوا کیوں نہ ہو، قرآن وسنت سے عملاً ہٹا ہوا ہی کیوں نہ ہو، اگر وہ اس علاقے کے مسلمانوں کی رضامندی سے اور ان کے اپنے اختیار سے قائم کیا گیا ہے تو اس کو ایک عملی جواز حاصل ہوتا ہے اور اس میں اگر آپ رہ رہے ہیں تو اس پر چاہے آپ تنقید کریں، اس سے اختلاف کریں، اصلاح کی کوشش کریں، لیکن آپ کا ریاست کے ساتھ ایک معاہدہ ہے جس کی رو سے آپ اس نظام کی پابندی کرنے کے مکلف ہیں۔ شریعت پر قائم ہونا میرے خیال میں کسی نظام کی اطاعت کرنے یا نہ کرنے کا اور اس کے قوانین کی پابندی قبول کرنے یا نہ کرنے کا معیار نہیں ہے۔ آپ ایک خالص غیر مسلم ریاست میں رہ رہے ہیں جس کو ہماری کلاسیکی اصطلاح میں دار الحرب کہتے ہیں، یعنی ایسے کفار ہیں جو مسلمانوں کے ساتھ برسر جنگ ہیں، وہاں بھی اگر مستقل طو رپر رہ رہے ہیں تو قوانین کی پابندی لازم ہوگی۔ اسی طرح اگر آپ ایک معاہدے کے تحت گئے ہیں کہ آپ وہاں امن وامان کو نہیں چھیڑیں ہیں، وہاں کے قوانین کی پابندی کریں گے تو اس کی اطاعت بھی واجب ہے۔ اس معاہدے کی خلاف ورزی آپ نہیں کر سکتے۔ پر امن ممالک کے مقامی قوانین کی پابندی کرنا مزید اہم ہو جاتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید نے حضرت یوسف کے واقعے میں بیان کیا ہے کہ ان کے چھوٹے بھائی کو ان کے پاس مصر میں روکنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک خاص تدبیر فرمائی، کیونکہ وہ ملکی قانون (دین الملک) کے مطابق اسے اپنے پاس نہیں روک سکتے تھے۔
اسی اصول پر یہ دیکھنا چاہیے کہ اس وقت جو مسلم ریاستیں ہیں، ان کی شریعت سے وابستگی جتنی بھی ہو، جیسی بھی ہو، اس میں جو بھی نظری یا عملی مسائل ہوں، لیکن جب آپ وہاں رہ رہے ہیں تو وہاں کے قانون اور نظام کے پابند ہیں اور اس معاہدے کے تحت رہ رہے ہیں کہ ہم نظام کی پابندی کرتے ہوئے یہاں رہیں گے۔ معاہدے کو توڑنا جیسے ایک غیر مسلم ریاست میں جائز نہیں ہے، اسی طرح ایک مسلمان ریاست میں بھی جائز نہیں ہے۔ مثال کے طو رپر پاکستان ہے۔ یہاں آپ کو اسلامی شریعت کے مطابق ریاست قائم کرنی ہے تو اس کا طریقہ یہ ہرگز نہیں ہے کہ ایک گروہ اٹھے یا چند لوگ اٹھیں اور وہ کہیں کہ ہمارے ذہن میں اسلامی ریاست کا جو ماڈل ہے، وہ یہ ہے، اس لیے اس کو ہم بالجبر نافذ کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس کی اسلام میں اجازت نہیں ہے۔ یہاں پر حکومت کا نظام یہاں کے لوگوں نے جو اختیار کیا ہے، وہی ہوگا۔ لوگوں کی مرضی کے بغیر ہم ان پر کوئی نظام مسلط نہیں کر سکتے۔ ہاں، لوگوں کو اس پر قائل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں کہ جو نظام آپ نے اختیار کیا ہوا ہے، اس میں یہ خرابیاں ہیں، اس میں یہ خامیاں ہیں اور اس کا متبادل یہ ہے۔ آپ یہاں کی سیاسی جماعتوں کو آمادہ کریں کہ و ہ بہتر ماڈل کو اختیار کریں۔ آپ اپنی کوئی پولیٹیکل پارٹی بنائیں، لیکن اس نظام کے دائرے میں آپ کو جدوجہد کرنی ہے۔ اس سے باہر آپ جائیں گے تو اس سے بہت سے اصول شریعت کے بھی پامال ہوں گے اور اخلاقیات کے بھی پامال ہوں گے۔
میں اس معاملے کو ایسے دیکھتا ہوں۔ نظری سطح پر بحث رہے گی کہ اسلامی ریاست اور مسلم ریاست میں فرق ہے یا نہیں، لیکن عملاً ہمیں اس نظام کی پابندی کرنی ہے۔ اسلامی ریاست ہے، تب اس کی پابندی کرنی ہے اور اگر محض ایک مسلم ریاست ہے تو بھی ایک نظام بنا ہوا ہے، ہم یہاں کے شہری ہیں اور یہاں کے آئین کی پابندی ہم پر لازم ہے۔ ہمیں جو بھی جدوجہد کرنی ہے، اس کے دائرے میں کرنی ہے۔
مشعل سیف: آپ کے خیال میں ایک اسلامی ریاست کیا ہے؟ کس طرح تصور کریں گے اسلامی ریاست کو؟
عمار ۔ سادہ بات ہے۔ مسلمان فرد کے دو درجے ہیں۔ ایک ہے جس کو ہم قانونی درجہ کہتے ہیں کہ قانون کی نظر میں یہ آدمی مسلمان ہے۔ اس کے لیے تو اتنا کافی ہے کہ آدمی اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہو اور in principle یہ قبول کرتا ہو کہ میں اللہ کی دی ہوئی ہدایات کا پابند ہوں۔ یہ آدمی مسلمان ہو گیا۔ اب وہ عملاً جتنا بھی بدکردار ہے، عملاً وہ چاہے دین کے فرائض بھی پورے نہ کرتا ہو، وہ مسلمان ہے۔ البتہ جو ایک معیاری مسلمان کا درجہ ہے، وہ ظاہر ہے کہ یہ نہیں ہے۔ یہی معاملہ ریاست کا ہے۔ پاکستان کی ریاست اپنے عقیدے اور اپنے نظریے کو آئین میں واضح کر چکی ہے کہ یہ ایک اسلامی ریاست ہے جو شریعت کی پابندی کو قبول کرتی ہے۔ اس میں مختلف قسم کی gurantees دی گئی ہیں کہ قوانین کو اسلام کے مطابق بنایا جائے گا اور فلاں اور فلاں اقدامات کیے جائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست قانونی درجے میں مسلمان ہو گئی ہے۔ لیکن عملاً اس کے پورے اسٹرکچر کو بدل کر اس معیار پر لانا کہ یہ اسلامی ریاست کی جو ذمہ داریاں ہیں، ان کو پورا کرے، خدا کے لحاظ سے بھی، مسلمانوں کے لحاظ سے بھی اور دنیا میں غیر مسلموں کو دعوت پہنچانے کے لحاظ سے بھی، تو یقیناًیہ اس وقت اس حالت میں نہیں ہے اور اس میں بہت اصلاح کی ضرورت ہے۔
تو فرد کی مثال سے ریاست کا معاملہ سمجھنا چاہیے۔ جیسے ہم ایک فرد کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ مسلمان ہے، لیکن بدعمل ہے، اسی طرح ہماری جو اس وقت مسلمانوں کی ریاستیں ہیں، وہ اگر شریعت کی پابندی کو اصولی طو رپر قبول کرتی ہیں تو وہ مسلمان ریاستیں ہیں اور قانونی طور پر اسلامی ریاستیں بھی ہیں۔ اب ان کو اپنے آپ کو اس معیار پر لانا ہے کہ وہ ایک صحیح اسلامی ریاست کی ذمہ داریاں انجام دے سکیں۔ یہ ظاہر ہے کہ صرف حکومتوں کا کام نہیں ہے۔ اس میں پوری سوسائٹی کو اس نہج پر ڈھالنا ہوگا۔ جمہوری دور میں تو خاص طور پر حکومت کا عمل دخل بہت کم ہو جاتا ہے۔ سوسائٹی کے جو دوسرے ادارے ہیں، مختلف طبقات ہیں، ان کی ذمہ داری زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ وہ سوسائٹی کو اس رخ پر لے کر جائیں کہ صحیح اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے راہ ہموار ہو۔
مشعل سیف: آپ نے اپنے گجرات یونیورسٹی کے لیکچر میں ایک اور بڑی اہم بات کہی ہے کہ آج کے دور میں ہم اسلامی ریاست کا جو تصور رکھتے ہیں، وہ کافی مختلف ہے اس سے جو قدیم دور میں اسلامی ریاست ہوتی تھی۔ آپ نے اس کے مختلف پہلو بیان کیے ہیں کہ مثلاً حکمران کافی دیر تک حکومت کرتا رہتا تھا اور اس کو ہٹانے کا کوئی طریقہ نہیں تھا، جبکہ آج ہمارا ایک الیکشن سسٹم ہوتا ہے۔ پھر دار الحرب اور دار الاسلام میں دنیا تقسیم ہوتی تھی، جبکہ آج ایک بہت مختلف بین الاقوامی نظام ہے۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ جب یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان اصولی طور پر ایک اسلامی ریاست ہے تو پھر اس کو ہم اسلامی ریاست کے قدیم تصور کے مطابق کیسے اسلامی ریاست سمجھیں گے؟ جبکہ آپ نے خود بہت سے ایسے پہلو بیان کیے ہیں جو اسلامی ریاست کے قدیم اور جدید تصور میں باہم مختلف ہیں۔ اس نکتے کی کچھ وضاحت کر دیں۔
عمار ناصر: دو الگ الگ باتیں ہیں۔ اسلامی ریاست وہ ہے جو شریعت کے نفاذ کو اور خدا کے دیے ہوئے قانون کی پابندی کو اصولی طو رپر قبول کر لے۔ اس کے بعد دو چیزیں آتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ شریعت کے جو مختلف احکام ہیں، ان کی تعبیر وتشریح میں یقیناًفرق موجود ہے۔ ہماری جو کلاسیکی فقہ ہے، وہ بہت سی چیزوں کو اور طرح سے دیکھتی ہے۔ اب ہم آج اس وقت دنیا میں بیٹھے ہیں تو آج کے اہل علم اور فقہا ان چیزوں کو اور طرح سے دیکھتے ہیں۔ اب ایسا نہیں ہے کہ اگر ہماری interpretation پرانے فقہا سے بدل گئی ہے تو ہم شریعت کی بالادستی کے منکر ہو گئے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ یہ شریعت کی تعبیر کا اختلاف ہے نہ کہ شریعت کی بالادستی کے اصول کا۔ میں نے جتنی چیزیں بھی اپنے لیکچر میں گنوائی ہیں کہ یہاں یہاں فرق ہے، قدیم ریاست کا اسٹرکچر اور ہے، جدید ریاست کا اور ہے، ان میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اسلامی ریاست کا جو بنیادی تصور ہے، اس کے ساتھ Incompatible ہو۔ یہ وہ تبدیلیاں ہیں جن کا تعلق حالات کے ساتھ ہے۔ یہ جو فرق آیا ہے، میں اس کو اسلامی ریاست کے تصو رکے خلاف نہیں سمجھتا۔ مثلاً آج اگر ہم غیر مسلموں کو مسلمانوں کے برابر سیاسی حقوق دیتے ہیں تو یہ اسلام کے کسی غیر متبدل اصول کے خلاف نہیں، اگرچہ ہمارے کلاسیکی فقہا نے اس معاملے کو اور طرح سے دیکھا ہے۔ یا آج اگر ہم خواتین کو معاشرتی وسیاسی زندگی میں اس سے زیادہ حقوق اور مواقع دیتے ہیں جو پہلے زمانے میں ان کو حاصل تھے تو اس میں اسلام کے ساتھ کوئی ٹکراؤ نہیں ہے، اگرچہ کلاسیکی دور کے فقہا کا زاویہ نظر مختلف ہے۔
تو اس بات کو بالکل واضح کرنا چاہیے کہ ہم جدید دور میں اسلامی قانون کے بہت سے مسائل کو بالکل نئے زاویے سے اور اگر میں فقہی اصطلاح استعمال کروں تو یہ کہنا چاہیے کہ اجتہاد مطلق کی سطح سے دیکھ رہے ہیں۔ ریاست کا اسٹرکچر کیا ہونا چاہیے، اس کو ہم قدیم دور کے فقہا سے بے حد مختلف طریقے سے دیکھ رہے ہیں، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس لیے کہ تعبیر کے اختلافات پہلے دور میں بھی رہے ہیں جو اس دور کے علماء کے مابین تھے۔ آج ہم یہی اختلاف دور اور زمانے کے فرق کے تناظر میں کر رہے ہیں۔ تو ایک بات تو یہ ہے کہ بعض چیزوں کی تعبیر وتشریح میں اگر اختلاف ہے تو اس سے شریعت کی بالادستی کے اصول کی نفی نہیں ہوتی۔
دوسری چیز یہ ہے کہ آپ کے سامنے اچھے اسلامی معاشرے کا ایک آئیڈیل ہے۔ اس آئیڈیل تک پہنچنے کے لیے سوسائٹی کو تیار کرنا ہوگا اور اس میں وقت لگے گا، بلکہ ہم اس کی کوئی ضمانت بھی نہیں دے سکتے کہ وہ جو آئیڈیل ہے، وہ کبھی achieve بھی ہو سکے گا۔ اس معاملے میں ہمیں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو حکمت عملی نظر آتی ہے اور بعد کے ادوار میں بھی مسلمان جہاں جہاں گئے ہیں، وہاں اسی حکمت عملی کو اختیار کیا گیا ہے، ویہ ہے کہ آپ کے سامنے جو آئیڈیل ہے، جو قرآن وسنت میں ہمیں ایک معیاری مسلم معاشرے کا نقشہ دیا گیا ہے اور جس کا نمونہ ہمیں خلفائے راشدین کے دور میں ملتا ہے، اس کا ہر جگہ قابل حصول ہونا عملاً ممکن نہیں اور شاید مطلوب بھی نہیں۔ ہمیں کوشش کرنی ہے۔ جیسے فرد کی سطح پر ایک مسلمان کے سامنے نمونہ تو ہے کہ ایک بہترین مسلمان ایسا ہوتا ہے، لیکن یہ ضروری نہیں بلکہ ممکن بھی نہیں کہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی اکثریت ساری زندگی کی محنت کے باوجود اس مقام پر آ جائے۔ ہم سب گنہ گار ہیں اور جب لوگ دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو اللہ سے یہی دعا مانگتے ہیں کہ وہ ہمارے گناہوں کو بخش دے اور جیسے کیسے بھی اعمال ہیں، انھیں قبول کر لے۔ اسی پر معاشرے کو بھی قیاس کرنا چاہیے۔ ایک فرد جب ایک معیاری جگہ پر نہیں پہنچ سکتا، بڑا مشکل ہے اور ہم اللہ سے رحمت ہی کی امید رکھتے ہیں تو معاشرے تو کہیں زیادہ پیچیدہ ہوتے ہیں۔ ان میں زیادہ complexities ہوتی ہیں، اس لیے ان کے متعلق یہ تصور کرنا کہ لازماً کوئی معاشرہ اس مطلوبہ معیار پر پہنچ جائے، تبھی ہم اس کو ایک اسلامی معاشرے کا سرٹیفکیٹ دیں گے، یا ریاست جب اس معیار پر پہنچ جائے گی جس کا نمونہ خلافت راشدہ کے دور میں دکھائی دیتا ہے، تبھی ہم اسے اسلامی ریاست قرار دیں گے، یہ ایک بہت تصوراتی سی بات ہے۔ ہمیں کوشش کرنی ہے، اپنے آپ کو بھی اچھا مسلمان بنانے کی اور معاشرے کو بھی اچھا مسلمان بنانے کی۔ کوشش ہم کرتے رہیں گے۔ جتنا ہو جائے گا، ہو جائے گا۔ جو نہیں ہو سکے گا، اللہ سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ہماری کوتاہیوں کو معاف فرمائے گا۔
مشعل سیف: آپ نے کہا کہ کلاسیکی فقہا کا جس طرح کا اسلامی ریاست کا تصور ہے، آج کے زمانے میں ہم اس سے کافی ہٹ کر تصور رکھتے ہیں، کیونکہ ہم ایک بہت مختلف دور میں ہیں۔ آپ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ کلاسیکی فقہا سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور کلاسیکی فقہا کی اپنی ایک سوچ تھی، ان کا اپنا ایک زمانہ تھا۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا اور آج ہم اس سے ہٹ کر سوچ سکتے ہیں۔ لیکن بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اختلاف کرنے کو پسند نہیں کرتے اور کلاسیکی فقہا کے تصور کے مطابق ہی اسلامی ریاست کو دیکھتے ہیں۔ اب جب وہ پاکستان کا جائزہ لیتے ہیں تو اسی سانچے میں لیتے ہیں جو انھوں نے کتابوں میں پڑھا ہوتا ہے۔ آپ نے بھی اپنے لیکچر میں یہ کہا تھا جو بالکل اہم اور صحیح ہے۔ میں جب بہت سے علماء سے ملتی ہوں یا اس موضوع پر ان کے فتاویٰ دیکھتی ہوں تو حوالہ انھی چیزوں کا دیا جاتا ہے جو انھوں نے کتابوں میں پڑھی ہیں۔ ان کا ایک بالکل مختلف تصور ہوتا ہے اسلامی ریاست کا۔
عمار ناصر: بالکل درست ہے۔ فکر کی یہ دونوں رَویں موجودہیں۔ دیکھیں، جو مسلم معاشرے سعودی عرب یا ایران کی طرز کے ہیں، جہاں تعبیر شریعت کی حتمی اتھارٹی علماء کو دے دی گئی ہے، وہاں سردست اس طرح کے مسائل سطح پر نمایاں نہیں، لیکن ایسے مسلم معاشرے جہاں ہم نے اسلام کو اپنی بنیاد قرار دیتے ہوئے اس کے ساتھ جمہوریت کو بھی قبول کیا ہے، وہاں کشمکش بہت نمایاں ہے۔ اسلامی ریاست جو ہے، وہ دنیا میں ایک مجرد اور تصوراتی شکل میں نہیں رہی۔ اس کی اپنی ایک tradition ہے۔ مسلمانوں کے ریاستی نظام اور مسلم معاشرے کے جو مختلف ادارے ہیں، ان کی ذمہ داریوں کے حوالے سے پورا لٹریچر موجود ہے۔ اسلامی فقہ ہے جو آپ کو ایک پورا ماڈل دیتی ہے۔ جدید مسلم ریاستوں میں اس کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ریاست کے ان دو مختلف ماڈلوں کا ایک synthesis وجود میں لایا جائے۔ پاکستان اس کی بڑی اچھی مثال ہے۔ ہماری جو اوپر کی سطح کی مذہبی قیادت ہے، وہ بہت سمجھ دار بھی ہے اور معاملہ فہم اور حقیقت پسند بھی۔ اس نے اس کو قابل عمل سمجھتے ہوئے اس کی تائید بھی کی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہوا کہ نظری سطح پر synthesis تو بنا لیا گیا اور آئین کی سطح پر اس کو اختیار بھی کر لیا گیا، لیکن اس سارے اجتہادی عمل کا analysis نہیں ہوا کہ ہم نے یہ کیا کیا ہے اور کس بنیاد پر کیا ہے۔ اس پر کوئی intellectual debates نہیں ہوئیں۔ اس وجہ سے من حیث المجموع جو مذہبی طبقہ ہے، وہ کوئی بھی ہو، اس میں کسی مکتب فکر کا کوئی فرق نہیں رہ جاتا، اس کا جو بحیثیت مجموعی mindset ہے، وہ اصل میں یہی ہے کہ ہم نے یہ مجبوری کی حالت میں کیا ہے۔ اصل میں تو ہمیں کوشش یہی کرنی ہے کہ اس کو بدل کر اس پرانے ماڈل کے مطابق بنائیں۔
تو یہ کنفیوژن موجود ہے اور جب تک اس پر باقاعدہ گفتگو نہیں ہوگی، ایک intellectual debate نہیں ہوگی اور یہ بتایا نہیں جائے گا کہ صورت حال میں اتنا فرق واقع ہو چکا ہے اور ایک اجتہادی زاویہ نظر اختیار کرتے ہوئے ہم نے چیزوں کو نئے سرے سے دیکھنا ہے، اس وقت تک یہ کنفیوژن موجود رہے گا۔ یہاں علامہ اقبال نے جو بحث کی ہے، وہ ساری relevant ہو جاتی ہے۔ اقبال نے یہی بتایا ہے کہ ریاست، مذہب سے لاتعلق نہیں ہو سکتی۔ یہ اسلام کی جو nature ہے، اس کے خلاف ہے۔ لیکن ہمیں اسلام کے اجتماعی نظام کے حوالے سے پرانے دور میں جو ایک تعبیر ملتی ہے، اس پر بہت سے معاشروں کے اور تاریخی حالات وتجربات کے بڑے گہرے اثرات ہیں۔ ملوکیت نے بڑے گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ آپ کے ہاں خلافت بھی ابتدائی کچھ سالوں کو چھوڑ کر ملوکیت ہی تھی۔ اس کے بڑے اثرات ہیں۔ فقہ نے ایک خاص دور میں آ کر بالکل جمود کی شکل اختیار کر لی تھی۔ اس کے زیر اثر کچھ attitudes اور کچھ فکری مقدمات پیدا ہوئے ہیں۔ تو ہمیں تاریخی طور پر جو ایک tradition ملی ہے، اس کا ایک burden ہے جو آپ کو آسانی سے اپنے نیچے سے ہلنے نہیں دیتا۔ یہاں پر اجتہاد کی ضرورت ہے اور اجتہاد محدود اور جزوی معنوں میں نہیں، بلکہ اپنے اصل اور حقیقی معنوں میں۔ علماء اصل میں کہتے ہیں کہ اجتہاد تو ہم کر رہے ہیں۔ جو بھی مسئلہ سامنے آتا ہے جو کتابوں میں نہیں ملتا، ہم اس کا حل پیش کر دیتے ہیں۔ ٹھیک ہے، یہ بھی اجتہاد ہے، لیکن بہت جزوی سطح کا اجتہاد ہے۔ اجتہاد ایک بہت بڑے canvas پر مطلوب ہے، کیونکہ پوری دنیا کا نقشہ بدل گیا ہے۔ دنیا میں مسلمانوں کا رول کیا ہونا چاہیے، مسلمان ریاست کا نقشہ کیا ہونا چاہیے، اس میں جو مختلف طبقات ہیں جن کے interests مختلف ہیں، جن کے رجحانات مختلف ہیں، ان کوہم کیسے آپس میں harmonize کریں تاکہ یہ مل جل کر قوم کی اجتماعی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالیں اور اپنی توانائیاں باہمی کھینچا تانی میں صرف نہ کرتے رہیں۔ یہ سارے سوالات بڑی گہری اور بنیادی سطح پر اجتہادی زاویہ نظر کا تقاضا کرتے ہیں۔
دیکھیں، اس وقت کیا ہو رہا ہے؟ ہر مسلم معاشرے میں قدیم اور جدید کی ایک کشمکش ہے جو آگے نہیں بڑھنے دے رہی۔ سب کوشش کر رہے ہیں کہ معاشرے کو کھینچ کر اپنے رخ پر لے جائیں۔ فکر کا ایک سانچہ ہمیں ورثے میں ملا ہے۔ فکر کا دوسرا سانچہ وہ ہے جو ہمیں مغرب سے ملا ہے اور یہ دونوں سانچے قوم کو اپنی اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چونکہ دونوں powerful ہیں، اس لیے قوم دونوں کے درمیان پھنسی ہوئی ہے۔ نہ ادھر جا رہی ہے اور نہ ادھر جا رہی ہے۔ یہ کھینچا تانی ختم ہونی چاہیے اور وہ سیاسی انداز سے ختم نہیں ہو سکتی۔ اس کا کوئی امکان نہیں کہ کبھی وہ وقت آئے گا کہ قدیم مذہبی عنصر اتنا حاوی ہو جائے کہ وہ اپنی سیاسی طاقت کے ذریعے سے نظام ریاست کو اپنے تصور کے مطابق ڈھال لے۔ اسی طرح جو سیکولر فکر ہے، وہ بھی کبھی اتنی طاقت ور نہیں ہو سکتی کہ مذہب سے بالکل لاتعلق ہو کر ایک سیکولر ریاست بنانے میں کامیاب ہو جائے۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ لازماً اس کا حل یہ ہے کہ یہ طبقات آپس میں dialogue کریں اور چیزوں کو intellectual debate کے ساتھ حل کریں۔ اس کے سوا کوئی حل نہیں کہ درمیان کی راہ اختیار کی جائے اور ہم بحیثیت قوم اعتدال کے ساتھ، روایت سے بھی وابستہ رہیں اور جو مغرب کے پیش کردہ مفید تصورات وتجربات ہیں جو اسلام کے ساتھ ہم آہنگ ہیں، ان سے بھی استفادہ کریں اور ایک اعتدال پسندی کی راہ سامنے آئے جس کو سوسائٹی کا عمومی اعتماد حاصل ہو جائے۔ اس وقت تو دو انتہا پسندوں کے مابین سوسائٹی پھنسی ہوئی ہے۔
تو میرے خیال میں سارے مسئلے کی جڑ یہ ہے کہ ہم نے یہاں پاکستان میں جو اجتہاد کیا ہے اسلام اور مغرب کے جمہوری نظام کو ملا کر ایک مرکب بنانے کا، اس کے بارے میں کسی بھی سطح پر، کسی بھی طبقے میں جو مکالمہ اور ڈائیلاگ ہونا چاہیے تھا، وہ نہیں ہوا۔ لوگوں کو سمجھانا چاہیے تھا کہ بھئی، پرانا اسٹرکچر یہ تھا، اس کی bases یہ تھیں۔ اب یہ تبدیلیاں آ چکی ہیں، اب ہمارے پاس یہ بنیادیں ہیں فیصلہ کرنے کی۔ اب ہم فقہ اور شریعت کے بہت سے مسائل کو نئے سرے سے دیکھ رہے ہیں۔ اب ہم نئے سرے سے نصوص کو دیکھ رہے ہیں اور ایک نئی interpretation کر رہے ہیں۔ جب تک بالکل واضح طریقے سے آپ یہ بات لوگوں کو نہیں بتائیں گے، اس وقت تک یہ کنفیوژن دور نہیں ہوگا اور معاملات یونہی چلتے رہیں گے۔ جدید ریاستی نظام کے حوالے سے ہماری اعلیٰ سطحی مذہبی قیادت نے جن چیزوں پر صاد کیا ہے، وہ کسی بھی طرح اجتہاد مطلق سے کم نہیں ہے۔ نہایت بنیادی ایشوز پر کلاسیکی تصور ریاست سے اختلاف کیا گیا ہے جو ایک مثبت طرز فکرہے، لیکن تضاد یہاں سے پیدا ہوتا ہے کہ سب کچھ کرنے کے باوجود علماء بطور ایک طبقے کے جو اپنا فکری مقدمہ پیش کرتے ہیں، وہ کلاسیکی فقہ ہی کو Idealize کرتا ہے۔ وہ یہ کہنے کی جرات نہیں رکھتے کہ ہاں، اجتہاد مطلق ہو سکتا ہے اور ہم نے عملاً کیا ہے۔ اس سے شاید انھیں خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ پھر معاملہ ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا۔
مشعل سیف: آپ نے جو حل بتایا ہے کہ ہمیں نئے سرے سے اجتہاد کرنا چاہیے تو کیا آپ کے خیال میں اس سلسلے میں مدارس میں جو تعلیمی نظام ہے، اس میں بھی کچھ تبدیلیاں لانی چاہییں؟
عمار ناصر: وہ تو بنیادی چیزہے، اس لیے کہ آپ کا جو قدیم تصور ریاست ہے، وہ اس وقت آپ کو بتا کون رہا ہے؟ وہ تو دنیا میں کہیں پڑھایا نہیں جا رہا اور نہ کہیں موجود ہے۔ وہ یہ مدارس ہی ہیں جو قدیم فقہ کو پڑھاتے ہیں اور وہی لوگوں کو اس کے متعلق بتاتے ہیں، لیکن ساتھ یہ نہیں بتاتے کہ اب حالات بدل گئے ہیں۔ چنانچہ لوگ وہیں سے فکری طور پر ایک ماڈل اخذ کرتے ہیں اور پھر جب وہ اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں تو انھیں پورا معاشرہ ایسے لگتا ہے جیسے یہ کوئی اجنبی معاشرہ ہے۔ ان کے اور لوگوں کے مابین ایک اجنبیت کی دیوار کھڑی ہو جاتی ہے۔ رفتہ رفتہ وہ پورے سسٹم کے بارے میں نظریاتی بنیادوں پر تحفظات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد جب کچھ ا س طرح کی پالیسیاں سامنے آتی ہیں جیسے افغانستان کے معاملے میں پاکستان نے اپنائیں اور امریکی جنگ کا حصہ بن گیا تو اس سے ایک ری ایکشن پیدا ہوا۔ اس میں ہماری اپنی غلط قسم کی سیاسی پالیسیوں کا بھی پورا پورا کردار ہے۔ جب ہم لوگوں کو ہتھیار پکڑا دیں گے تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا، بلکہ نکل چکا ہے کہ پورا ایک علاقہ اس تصور کی بنیاد پر ہتھیار لے کر اٹھ کھڑا ہوا کہ یہ سرے سے ایک اسلامی ریاست ہی نہیں اور جمہوریت کا یہ سارا نظام کفر ہے اور ہمیں یہاں اس کی جگہ شریعت کو نافذ کرنا ہے۔ تو کچھ مذہبی آئیڈیالوجی، کچھ قدیم تصور ریاست اور کچھ آپ کی غلط پالیسیوں پر غصہ اور رد عمل، یہ ساری چیزیں مل کر ان کو اس جگہ پر لے آئی ہیں کہ انھوں نے ہتھیار اٹھا لیے ہیں۔
مشعل سیف: تو کیا آپ کے خیال میں کلاسیکی فقہ کو پڑھاناہی نہیں چاہیے؟ کیا کرنا چاہیے؟
عمار ناصر: نہیں، یہ مطلب ہرگز نہیں ہے۔ کلاسیکی فقہ کو پڑھائیں، لازماً پڑھائیں، لیکن وسیع تر فکری اور عملی تناظر میں پڑھائیں۔ ہمارے ہاں تو مدارس میں مسئلہ یہ ہے کہ جو کلاسیکی فقہ ہے، اس کی جس طرح سے development ہوئی ہے، وہ بھی نہیں پڑھائی جاتی۔ مثلاً برصغیر کے مدارس میں فقہ کی جو سب سے مفصل کتاب پڑھائی جاتی ہے، وہ ہدایہ ہے جو پانچویں صدی کے حنفی عالم مرغینانی نے لکھی تھی۔ پانچویں صدی تک فقہ حنفی جس حد تک develop ہو چکی تھی، وہ آپ کو اس میں نظر آئے گی۔ وہ آپ کو پڑھا دی جاتی ہے۔ اس کے بعد کیا کچھ ہوا، نہ وہ پڑھایا جاتا ہے اور وہاں تک فقہ کیسے پہنچی، پہلے پانچ سو سال کا ارتقا بھی نہیں پڑھایا جاتا۔ گویا آپ طالب علم کو فقہ کا ایک بالکل Static View دے رہے ہیں۔ اس کے لیے وہی حرف آخر ہے جو اس نے اس میں پڑھ لیا ہے۔ اس تصور کے ساتھ آپ کیا توقع رکھتے ہیں کہ وہ اتنی بڑی تبدیلی کو سمجھ سکے گا جو اب ہر سطح پر دنیا میں رونما ہو چکی ہے؟ تو مدارس کے بنیادی نظام، تعلیم کے بنیادی تصورات اور نصاب تعلیم کی اصلاح، یہ پوری اسکیم ہے اور یہ بنیادی چیز ہے۔ وہاں اگر آپ اصلاح نہیں کریں گے تو باقی جتنی چاہیں discussions کر لیں، ٹاک شوز کر لیں، اخبارات میں لکھ لیں، جب تک وہ مائنڈ سیٹ produce ہوتا رہے گا اور اس کی اصلاح کے لیے آپ جڑ سے نہیں پکڑیں گے، معاملہ حل نہیں ہوگا۔
مشعل سیف: اس پر کچھ مزید روشنی ڈالیے کہ کس طرح کی تبدیلیاں لے کر آنی چاہییں تعلیمی نصاب میں۔ کیونکہ آپ یہ نہیں کہہ رہے کہ ہمیں کلاسیکی فقہ نہیں پڑھانی چاہیے۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں اس کو ضرور پڑھانا چاہیے، مگر ساتھ یہ بھی پڑھائیں کہ تاریخ میں کس طرح اس میں تبدیلیاں آئی ہیں اور ہمیں یہ بھی بتانا چاہیے کہ آج کل دنیا میں جس طرح کا پولیٹیکل اسٹرکچر ہے، وہ بہت مختلف ہے اور اس کی بھی تعلیم دینی چاہیے۔ تو سوال یہ ہے کہ پھر کلاسیکی فقہ پڑھانے کا آخر فائدہ کیا ہوا؟ کیا یہ اس لیے ہے کہ یہ تاریخی طور پر ہمارا ورثہ ہے، اگرچہ آج کل کے حالات میں یہ ہماری زیادہ مدد نہیں کرتی؟
عمار ناصر: دیکھیں، ہم اپنی علمی Tradition کو تو نظر انداز نہیں کر سکتے، نہ دست بردار ہو سکتے ہیں۔ آپ مغرب کو دیکھیں۔ وہ اپنے ہاں جو بھی علوم پڑھاتے ہیں، ان میں افلاطون اور ارسطو سے لے کر اب تک کی جو بھی روایت ہے، وہ آپ کو پڑھائیں گے تاکہ آپ کو معلوم ہو کہ وہ کہاں کہاں سے گزر کر اور کون کون سے مراحل طے کر کے آج یہاں پہنچے ہیں۔ تو اپنی روایت سے ہم کیسے دست بردار ہو سکتے ہیں؟ ہمیں اس سے راہ نمائی لینی ہے۔ مذہب اور شریعت کو اپنا بنیادی سرچشمہ مان کر چیزوں کو دیکھنے کا جو زاویہ نظر ہے، ہمیں وہ اسی سے ملے گا۔ کلاسیکی فقہ کے جو applied نتائج ہیں، ان سے آج ہم یقیناًاختلاف کریں گے، لیکن جو ایک Thinking Process ہے، قرآن وسنت سے چیزیں اخذ کرنے کا جو منہج ہے، اس کے اچھے نمونے اور نظائر تو ہمیں وہیں سے ملیں گے۔ وہ تو آپ کو Anglo-Saxon Law نہیں دے گا۔ کلاسیکی فقہ ہمارا ایک غیر معمولی ورثہ ہے۔ ہمیں اس کو پڑھنا ہے، اس کو گہرائی میں جا کر سمجھنا ہے۔ اس سے ہمیں دست بردار نہیں ہونا، اس کو لینا ہے، اس سے سیکھنا ہے اور اس کو حاصل کرنا ہے۔ اس پراسس کو سمجھ کر پھر ہم نے آج نئے سرے سے اسے apply کرنا ہے۔ اس کو لازماً پڑھانا چاہیے۔اس کے بغیر تو ہم اپنی روایت سے بالکل کٹ جائیں گے۔
ہماری جو Tradition ہے، جو پوری روایت ہے، اس میں اصول فقہ ہے، اصول تفسیر ہے، اصول حدیث ہے، دوسرے دینی علوم ہیں، ان کو وسیع تناظر میں دینی علوم کے طلبہ کو پڑھانا چاہیے اور اس کے ساتھ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں آج کے مغربی فلسفے اور سماجی علوم کو بھی اپنے نصاب میں شامل کرنا چاہیے۔ یہ بھی ہماری روایت کا حصہ ہی ہوگا، کیونکہ ہم نے قدیم دور میں جو اس وقت کی Greek Philosophy تھی، اس کو اپنے تعلیمی نصاب میں شامل کیا تھا، بلکہ لوگ کہتے ہیں کہ اس کو ہم نے Islamize بھی کر لیا اور اس میں ہمارے مفکرین نے اپنے اضافے کیے۔ تو علم میں کوئی تعصب نہیں ہے۔ جیسے ہم نے یونانی فلسفے میں بعض غلط تصورات کی اصلاح کی، آج ہم مغرب کے علوم کے ساتھ بھی یہ کر سکتے ہیں۔ ان سے ان کا فلسفہ سمجھیں، ان کے نتائج فکر پڑھیں، ان کے تجربات لیں اور اس میں جہاں بھی محسوس کرتے ہیں کہ یہاں اسلام سے ہٹی ہوئی کوئی بات ہے، اس میں اپنا Contribution دیں کہ یہ اس حوالے سے ایک متبادل زاویہ نظر ہے۔ ہمارے ہاں بہت سے لوگ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ مغربی فلسفے کے ساتھ شاید یہ نہیں کیا جا سکتا کہ اس کے حاصلات کو مغرب کے لادینی رجحانات سے الگ کر کے ایک دوسرے نظری اور اسلامی فریم ورک میں ڈھال لیا جائے۔ میرے خیال میں اس نقطہ نظر میں زیادہ گہرائی نہیں ہے اور یہ زیادہ تر تاثراتی ہے جس میں مغرب کی لادینیت کے خلاف رد عمل زیادہ جھلکتا ہے۔
مشعل سیف: آپ نے مائنڈ سیٹ کی بات کی کہ مدارس میں ایک خاص طرح کا مائنڈ سیٹ بنا دیا جاتا ہے جس میں کلاسیکی فقہ کا اس طرح احترام کرنا ہوتا ہے کہ آپ اسی کو حتمی اور حرف آخر تسلیم کر لیں۔ مگر آپ کی خود بھی جو پرورش ہوئی اور آپ نے جو دینی تعلیم حاصل کی، وہ انھی مدارس سے کی ہے۔ تو آپ کے اندر یہ جو مختلف رجحان اور فکر آئی، یہ کہاں سے آئی؟
عمار ناصر: دیکھیں، مدارس کے سسٹم میں اس کا پورا اہتمام ہوتا ہے کہ آپ کا ذہن ایک خاص سوچ کے دائرے میں محدود ہو جائے، لیکن ایسا تو نہیں ہے کہ آپ کسی بند کنویں میں رہتے ہیں۔ رہتے تو آپ دنیا میں ہی ہیں اور دیکھتے سنتے ہیں کہ ارد گرد کیا ہو رہا ہے۔ ذاتی طور پر مجھے یہ خیال ہوتا ہے کہ میرے اپنے گھر کا جو ماحول ہے، وہ تھوڑا مختلف ہے۔ میرے والد کا جو انداز نظر ہے اور ان میں جو ایک وسعت فکر ہے، اس کا اس میں بڑا کردار ہے۔ انھوں نے جمعیۃ علماء اسلام میں مفتی محمود صاحب کے ساتھ سیاسی کام کیا ہے۔ اس دائرے میں کام کرنے کی وجہ سے ان کے اپنے زاویہ نظر میں بڑی وسعت آئی۔ ہر طرح کے اور ہر طبقہ خیال سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ساتھ ان کو میل جول کا موقع ملا، بلکہ ان کے اپنے نہایت گہرے ذاتی دوستوں میں ایسے لوگ شامل رہے ہیں جنھیں عام طور پر مذہب دشمن اور Leftist سمجھا جاتا ہے۔ تو والد صاحب کا اپنا زاویہ نظر بڑا وسیع ہے اور انھوں نے ہمارے یعنی بچوں کے معاملے میں بھی کبھی فکری جبر کی یا کوئی خاص نقطہ نظر ٹھونسنے کی کوشش نہیں کی۔
میں نے اپنے تعلیمی دور کا زیادہ تر حصہ اپنے والد کے پاس اور اپنے گھر سے متصل مدرسہ انوار العلوم میں گزارا ہے۔ عام طور پر کسی بھی مذہبی طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ اس کا اہتمام کرتے ہیں کہ اپنے بچوں کو ایک خاص نوعیت کے مسلکی رنگ میں رنگنے کی کوشش کریں، لیکن میرے ساتھ یہ نہیں ہوا۔ مجھے بچپن سے ہر طرح کی چیزیں پڑھنے کی آزادی حاصل تھی، حتیٰ کہ دس بارہ سال کی عمر میں مجھے بائبل کا مطالعہ کرنے کی بھی آزادی تھی۔ مجھے اس زمانے میں یہ معلوم کرنے میں دلچسپی پیدا ہوئی کہ یہودیت او رمسیحیت، یہ کیسے مذاہب ہیں اور بائبل میں کیا لکھا ہوا ہے۔ میں مسیحی لٹریچر منگوا کر پڑھتا تھا اور انار کلی لاہور میں مسیحی اشاعت خانہ جا کر وہاں سے کتابیں لے کر آتا تھا۔ اس میں مجھ پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی۔ اسی طرح ہمارے ہاں ہر طرح کی مذہبی اور سیاسی سوچ رکھنے والے لوگ اور مختلف مکاتب فکر کے رسائل وجرائد آتے تھے۔ اس طرح مجھے بچپن سے ہی اس کا موقع ملا کہ میں مختلف قسم کی چیزیں پڑھوں۔ میرے خیال میں اس ماحول کا کافی اثر ہوا۔
مشعل سیف: بہت سے علماء کا یہ کہنا ہے کہ نائن الیون کے بعد پاکستان اسلامی ریاست نہیں رہا، کیونکہ اس واقعے کے بعد جو فیصلہ کیا گیا، اس سے واضح ہو گیا ہے کہ ہماری حکومتی پالیسیاں پوری طرح امریکہ کے کنٹرول میں ہیں۔ آپ اس پر کچھ تبصرہ کریں گے؟
عمار ناصر: نائن الیون کا واقعہ خاصا اہم تھا، سیاسی لحاظ سے بھی اور تہذیبی اعتبار سے بھی۔ اس نے دو تہذیبوں کے باہمی تعلق کو ایک خاص شکل دے دی ہے۔ اس واقعے کے تناظر میں پاکستان نے جو فیصلہ کیا، ا س کو القاعدہ کے لوگ تو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ پاکستان نے ریاست کی سطح پر مسلمانوں کے خلاف امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا جو ایک اسلامی ریاست نہیں کر سکتی۔ میرے خیال میں یہ استدلال کافی سادہ ہے اور ہمیں صورت میں جو بہت سی پیچیدگیاں ہیں، ان کو بھی سامنے رکھنا پڑے گا۔ مثلاً ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ کسی ریاست کی جو نظریاتی حیثیت ہے، وہ ہم اس کے آئین اور اس کے دستور سے اخذ کریں گے یا ہماری حکومت یا فوج نے ایک مخصوص صورت حال میں جو پالیسی اختیار کی، اس سے طے کریں گے؟ یہ ایک بنیادی سوال ہے۔ میں تو پہلی بات کو ہی صحیح سمجھتا ہوں۔ ہم نے آئین کی صورت میں جو ایک قومی میثاق کیا ہے، جس پر پوری قوم نے اتفاق کیا ہے، وہ اصل معیار ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک مسلمان کلمہ پڑھ لیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں۔ اس کے بعد وہ کام ایسے کرتا ہے جو اسلام کے خلاف ہیں تو اس کو ہم کافر نہیں کہتے۔ یہی اصول میرے نزدیک ریاست پر بھی لاگو ہوگا۔ اگر ہمارا آئین یہ کہتا ہے اور ہماری قوم کا اجتماعی ضمیر بھی یہی کہتا ہے کہ جو فیصلہ کیا گیا، وہ غلط تھا تو اس کا ذمہ دار پالیسی ساز اداروں کو تصور کرنا چاہیے، نہ کہ ریاست کی نظریاتی حیثیت کی نفی کر دینی چاہیے۔
پھر ایک اور پہلو بھی بڑا اہم ہے۔ یہ جو مقدمہ پیش کیا جاتا ہے کہ فوج نے مسلمانوں کے خلاف امریکہ کا ساتھ دے کر ارتداد کا ارتکاب کیا ہے، یہ بالکل یک طرفہ اور یک رخی بات ہے۔ یہ دیکھنا چاہیے کہ فوج نے کن حالات میں یہ فیصلہ کیا اور اس میں بنیادی ذمہ داری میرے نزدیک پاکستانی فوج پر نہیں ، بلکہ خود القاعدہ پر عائد ہوتی ہے، اس لیے کہ وہ سچویشن جس میں یہ فیصلہ کیا گیا، وہ القاعدہ نے پیدا کی تھی۔ القاعدہ نے افغانستان میں بھی اسلامی شریعت کے اصولوں کو violate کیا۔ اسلامی شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی کہ آپ مسلمانوں کے کسی ملک میں مہمان کے طو رپر رہ رہے ہوں اور وہاں کی حکومت اور لوگوں کے ہاتھ میں ہو، لیکن فیصلے آپ کرنے لگیں کہ ہم نے یہاں بیٹھ کر فلاں ملک پر حملہ کرنا ہے۔ ملا عمر اگر یہ فیصلہ کرتے کہ ہم نے امریکہ کے ساتھ جنگ چھیڑنی ہے تو چلیں، نتیجہ کیسا بھی ہوتا، کم سے کم وہ اس لحاظ سے تو justified ہوتا کہ ایک ملک کی ایک با اختیار اتھارٹی نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ لیکن یہ کیا بات ہوئی کہ امیر تو وہاں کے ملا عمر ہیں اور جنگ کرنے کا فیصلہ بن لادن کر رہے ہیں؟ اسلام کی نظر میں یہ بالکل جائز نہیں ہے۔ پھر یہ لوگ وہاں سے بھاگ کر پاکستان میں آ جاتے ہیں، جبکہ پاکستان یہ طے کر چکا تھا کہ ہم اس جنگ میں طالبان کے ساتھ نہیں ہیں۔ اسی سے قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں اور فوجی آپریشن جیسے مخمصوں نے جنم لیا۔ تو یہ دراصل القاعدہ کی غلط سوچ اور غلط حکمت عملی ہے جس کا خمیازہ افغانستان کو اور پاکستان کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اس جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ غلط ہونے کے باوجود اس کی بنیادی ذمہ داری پاکستانی فوج پر نہیں، بلکہ القاعدہ پر عائد ہوتی ہے۔
مشعل سیف: آپ نے پاکستان کے بارے میں کہا کہ یہ اصولی طور پر اسلامی ریاست ہے۔ اس کے علاوہ عملی طور پر بھی کچھ اقدامات کیے گئے ہیں۔ مثلاً اسلامی نظریاتی کونسل ہے اور وفاقی شرعی عدالت ہے۔ اس حوالے سے کچھ بتائیں کہ ان اداروں سے کس حد تک مدد مل سکتی ہے پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے میں؟
عمار ناصر: آپ کو معلوم ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کو آئین میں کوئی اتھارٹی حاصل نہیں ہے۔ وہ ایک مشاورتی ادارہ ہے۔ وہ ریاست نے اپنی سہولت کے لیے بنایا ہے کہ اگر اس نے اسلامی قانون سازی کرنی ہے تو ظاہر بات ہے کہ اس کے لیے کافی کام کرنا پڑے گا۔ ہر عالم سے آپ رائے تو لے سکتے ہیں، لیکن آپ کو قانون کو ایک Codified شکل دینی ہے تو اس کے لیے ایک خاص طرح کی سمجھ بوجھ اور Expertise چاہیے۔ ایسے لوگ چاہییں جو قانون کو، اس کی زبان کو، اس کے مسائل کو سمجھتے ہوں۔ نظریاتی کونسل اس مقصد کے لیے بنائی گئی ہے کہ قانون کی drafting میں وہ مدد کرے۔ ظاہر ہے کہ اس کے لیے انھوں نے ایک Criterion بھی بنایا ہے کہ ایسے لوگ اس میں شامل ہوں گے جن کا عمومی قانون کا یا اسلامی قانون کا پس منظر ہو۔ اس کا ایک بہت محدود، limited دائرہ ہے۔ اس کے باوجود جو کام اس ادارے نے اب تک کیا ہے، وہ میرے خیال میں مفید ہی ہے۔ اس نے مروجہ قوانین کا جائزہ لے کر اسلامی قانون کی روشنی میں اس میں تبدیلیاں تجویز کر دی ہیں اور بیشتر قوانین کے متبادل مسودات بھی تیار کر دیے ہیں۔ اس کے بعد ان کی تنفیذ حکومت کا کام ہے۔
مشعل سیف: بہت سے لوگ اسلامی نظریاتی کونسل پر یہ تنقید کرتے ہیں کہ اس میں حکومت اپنی پسند کے علماء کو مقرر کرتی ہے تاکہ وہ ان کی ترجیحات کے مطابق رائے دیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں؟
عمار ناصر: اصل جو مسئلہ ہے، اس کو اس کی اصل جگہ سے پکڑنا چاہیے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس طرح کے جو ادارے بنائے جاتے ہیں، ان کی Composition کے بارے میں وقتاً فوقتاً سوالات اٹھتے رہتے ہیں کہ آیا اس میں Genuine اہل علم کو مقرر کیا گیا ہے یا یہ جانب دارانہ تقرریاں ہیں۔ وہ مسئلہ کیا ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان معاشروں میں بہت سے جدید تغیرات آ چکے ہیں، ریاست کی سطح پر بھی اورمعاشرت کی سطح پر بھی اور یوں سمجھیں کہ ہم اس وقت دنیا میں مغرب کے بنائے ہوئے سیاسی نظام اور معاشرتی اقدار کے تحت رہ رہے ہیں۔ اب ہمارا جو قدیم اسٹرکچر ہے فکر کا، وہ اس سے بہت زیادہ ٹکراتا ہے۔ اس تضاد کو ہم دانش کی سطح (Intellectual Level) پر حل کرنے کی کوشش نہیں کر رہے۔ جب نہیں کر رہے تو ظاہر ہے کہ تضادات تو موجود ہیں۔ ایک پورا طبقہ ہے جو یہ چاہتا ہے کہ جیسے قدیم دور میں تھا، آج بھی علماء ہی دین وشریعت کی تعبیر میں حرف آخر سمجھے جائیں۔ اگرچہ اسلام میں تھیا کریسی نہیں ہے، لیکن بہرحال یہ تو ہے کہ دین کی تشریح کسی اہلیت رکھنے والے صاحب علم کو ہی کرنی چاہیے۔ اس لحاظ سے جو اپنے وقت کے علماء ہوتے تھے، انھی کو عام طور پر مرجع مانا جاتا تھا۔ اب یہ Ideally بڑی اچھی بات ہے کہ دین کی تعبیر وتشریح اسی کو کرنی چاہیے جس کے پاس دین کا گہرا علم ہو، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس اس وقت جو طبقہ ہے دین کو سمجھنے والا یا دین کی تعبیر کرنے والا، اس کو حرف آخر ماننے کے لیے جدید ذہن تیار نہیں جو خود دور جدید کے تغیرات کا تو ادراک رکھتا ہے، لیکن اس کے پاس دین کا علم نہیں ہے۔ وہ اس پر مطمئن نہیں ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ آج کے دور کے جو مسائل ہیں اور جو تبدیلیاں آئی ہیں، علماء کے فہم دین میں ان کو صحیح جگہ نہیں دی جا رہی۔ گویا علماء بحیثیت طبقے کے دور جدید کے تغیرات کا ادراک نہیں کر رہے،جبکہ یہ دوسرا جو طبقہ ہے جس کا ریاست کے معاملات پر زیادہ کنٹرول ہے، وہ علماء کو یہ مقام دینے کے لیے تیار نہیں کہ ان کی بات حرف آخر ہو، اس لیے کہ وہ ان کے فہم پر مطمئن نہیں ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ علماء بالکل قدیم دور میں کھڑے ہیں، اجتہاد کا زاویہ نظر ان کے ہاں نہیں ہے اور یہ جو تعبیرات پیش کر رہے ہیں، وہ ہمارے آج کے حالات کے لحاظ سے قابل عمل نہیں ہیں۔
یہ جو ایک بد اعتمادی ہے مسلمانوں کے ان دو بڑے طبقات کے مابین، یہ اصل میں دانش ورانہ مکالمہ کے ذریعے سے دور ہونی چاہیے۔ علماء کو چاہیے کہ اپنے زاویہ نظر میں اتنی وسعت پیدا کریں، اتنا اجتہادی زاویہ نگاہ پیدا کریں کہ آج کے حالات کے تناظر میں مسائل کا ایسا حل پیش کریں کہ وہ آج کی دانش کو appeal کرے اور آج کا ذہن اس پر مطمئن ہو۔ اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے تو تعبیر دین میں ان کی بات کا وزن خود بخود تسلیم کر لیا جائے گا۔ یہ اختیار کسی فرد یا طبقے کو استحقاقی دعوے کی بنیاد پر نہیں ملا کرتا۔ جو چیزیں فکر سے متعلق ہوتی ہیں، دانش سے متعلق ہوتی ہیں، ان میں اصل میں آپ کا جو استدلال ہوتا ہے اور آپ کے نقطہ نظر کی جو علمی وعقلی مضبوطی ہوتی ہے ، وہی آپ کو ایک اتھارٹی کی جگہ دے دیتی ہے۔ قدیم دور میں بھی دیکھیں، ایسا تو نہیں ہوتا تھاکہ علماء کو یہ کہہ کر اس منصب پر appoint کیا جائے کہ آپ اتھارٹی ہیں۔ نہیں، بلکہ علماء اپنے طور پر دین پر غور کرتے تھے، اس میں محنت کرتے تھے، اس کا فہم پیدا کرتے تھے۔ اس سے ان کو لوگوں کی نظر میں اتھارٹی مل جاتی تھی کہ حکمران بھی ان کی رائے کے خلاف کوئی اقدام نہیں کر سکتے تھے۔ آج بھی یہ ہے کہ جن مسائل میں علماء کی رائے میں وزن محسوس کیا جاتا ہے اور سوسائٹی ان پر اعتماد کرتی ہے، حکومت سارا زور لگانے کے باوجود اس کے برخلاف کچھ نہیں کر سکتی۔
میری نظر میں جب تک ہم اس مخمصے سے نہیں نکلتے، یہی ہوتا رہے گا کہ اسلامی نظریاتی کونسل جیسے ادارے بنیں گے اور اس میں پرویز مشرف صاحب اقتدار میں آئیں گے تو وہ جدید ذہن کے نمائندوں کو لے آئیں گے اور ضیاء الحق صاحب آئیں گے تو وہ قدیم فکر کے نمائندوں کو اس میں مقرر کر دیں گے۔ اس طرح کے ادارے جو اس مقصد کے لیے بنائے گئے ہیں کہ وہاں قوم اپنے اجتماعی قانونی فہم کو بروئے کار لائے، جب وہ بھی بد اعتمادی کا شکار ہو جائیں تو اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ پیچھے اصل مسائل کیا ہیں۔ اصل مسئلہ قدیم اور جدید فکر کا تضاد اور ان کی کشمکش ہے۔ ان کے مابین کوئی مکالمہ نہیں ہے۔ قدیم فکر کے لوگ اپنے زاویہ نظر کو وسیع کرنے کے لیے تیار نہیں اور جدید ذہن کے بھی بعض مسائل ہیں۔ یہ ہماری جو روایت ہے، بعض دفعہ اس سے بالکل ہٹ کر ایسی باتیں کرتا ہے جو ہمارے فکری سانچے سے بالکل میل نہیں کھاتی۔ یہ دو الگ الگ دھارے ہیں جو الگ الگ سمتوں میں معاشرے کو لے جانا چاہتے ہیں۔ ایک Conflict ہے جس کا کوئی Intellectual حل نہیں نکالا جا رہا۔ اس کی وجہ سے بہت سے مصنوعی اقدامات کر کے ہم کام چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
میرے خیال میں یہاں بھی مسئلہ وہی ہے اور اس کے حل کا راستہ بھی وہی ہے۔ ہمارے جو ایشوز ہیں، ہم اپنی تاریخ کو، اپنی فقہ کو، آج کے جو تغیرات ہیں، ان کو ایک سنجیدہ علمی مکالمے کا موضوع بنائیں اور ابہامات کو واضح کرنے کی کوشش کریں۔ تب یکسوئی پیدا ہوگی، ورنہ ایسے ہی سلسلہ چلتا رہے گا۔
مشعل سیف: اسلامی نظریاتی کونسل نے آپ کی ایک کتاب چھاپی ہے۔ آپ کا اس ادارے سے کوئی رابطہ رہتا ہے؟
عمار ناصر: میرا ادارے کی سطح پر تو کوئی رابطہ نہیں ہے۔ میں صرف ایک موقع پر ایک علمی نشست میں شرکت کے لیے وہاں گیا تھا۔ کتاب کی اشاعت کا پس منظر یہ تھاکہ ۲۰۰۷ء میں اسلامی نظریاتی کونسل نے حدود وتعزیرات سے متعلق چند سفارشات پیش کی تھیں جن میں اہم پہلوؤں سے متعلق کلاسیکی فقہی موقف سے مختلف نقطہ نظر پیش کیا گیا تھا۔ یہ سفارشات سامنے آنے سے اس ضرورت کا احساس ہوا کہ ان پر ایک تبصرہ لکھ کر واضح کیا جائے کہ ان آرا کی علمی بنیاد کیا ہے تاکہ ان مسائل پر غور وفکر کے لیے اور علمی مباحثہ کے لیے کچھ پیش رفت ہو سکے۔ میں نے اپنا تبصرہ اس پہلو سے لکھا تھا اور سفارشات پر ناقدانہ نظر ڈالتے ہوئے اپنے فہم کے مطابق بعض چیزوں کی تائید کی اور بعض سے اختلاف کیا تھا۔ اصلاً یہ کونسل کے کہنے پر یا اس کے اہتمام میں نہیں لکھا گیا تھا، لیکن جب میں نے لکھ دیا تو کونسل نے اس کو مفید سمجھتے ہوئے شائع کر دیا۔
مشعل سیف: وفاقی شرعی عدالت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
عمار ناصر: میں چونکہ شرعی عدالت کے فیصلوں کو باقاعدہ follow نہیں کرتا، اس لیے میں اس کے متعلق کچھ کہہ نہیں سکتا کہ دور جدید میں اسلامی قانون کی تعبیر میں یا ایک اجتہادی زاویہ نظر سے مسائل کو دیکھنے میں اس کا اب تک کیا کردار رہا ہے۔ البتہ یہ ادارہ ایک لحاظ سے اہم ہے اور اگر اس کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا جائے تو وہ بڑا useful ثابت ہو سکتا ہے۔ وہ یہ کہ اسلامی قانون کے اصولوں کی re-application کا جو معاملہ ہے اور اس کو دور جدید کے حالات ومسائل کے تناظر میں اور بدلتی ہوئی معاشرتی ضروریات کے لحاظ سے reinterpret کرنے کی جو ضرورت ہے، وہ اس عدالت کے فیصلوں کے ذریعے سے پوری کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ یقیناًاس نوعیت کا کام ہوا ہوگا، لیکن میں فیصلوں پر نظر نہ ہونے کے سبب کچھ کہہ نہیں سکتا۔ اصل میں تو جو ہمارے دینی اداروں کے دار الافتاء اور مفتی صاحبان ہیں، ان کو بھی یہی کرنا چاہیے، لیکن وہاں جمود کی گرفت بہت مضبوط ہے۔ وہاں بنیادی فقہی اصولوں کی روشنی میں نئے اجتہاد کا تو کیا سوال، قدیم فقہی ذخیرے سے استفادے کے لیے بھی کڑی تکنیکی شرائط کی پابندی کو زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے بہ نسبت معروضی صورت حال کی رعایت کے۔ اس لیے وہاں سے تو اطلاق وانطباق کی سطح پر فقہ اسلامی کی تجدید کی کوئی توقع نہیں۔ البتہ شرعی عدالت کے ادارے کو میں اس پہلو سے ایک مفید ادارہ سمجھتا ہوں کہ اس کے ذریعے سے یہ مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔
میرے خیال میں شرعی عدالت کے فیصلوں سے استفادہ کا دائرہ اب تک بہت محدود رہا ہے، کیونکہ یہ صرف قانونی جریدے میں چھپتے ہیں۔ اس کا زیادہ فائدہ ہو سکتا ہے اگر اس ادارے میں پچھلے پچیس تیس سال میں جو اجتہادی عمل ہوا ہے، اس کا تجزیہ کیا جائے اور دیکھا جائے کہ ان میں کن ایشوز کو موضوع بنایا گیا ہے اور کس نوعیت کا اجتہادی زاویہ نظر اختیار کیا گیا ہے۔ ایسے فیصلوں کو عمومی علمی حلقوں کے سامنے لانا چاہیے۔ خاص طور پر جو روایتی علماء کا طبقہ ہے، ان تک انھیں پہنچایا جائے تاکہ انھیں اندازہ ہو کہ حقیقی فقہی فہم اصل میں نظری طور پر کتابی بحثیں پڑھنے سے حاصل نہیں ہوتا۔ عملی صورت حال میں کئی پیچیدگیاں involve ہوتی ہیں۔ عدالت کو ایک طرف شرعی نصوص کو دیکھنا ہوتا ہے اور دوسری طرف عملی مسائل کو بھی دیکھنا ہوتا ہے۔ اسے مقدمے کے فریقین اور ان کے پس منظر پر بھی نظر رکھنی ہوتی ہے۔ اس طریقے سے میرا خیال ہے کہ مذہبی لوگوں میں جو کسی مسئلے کو صرف فقہ کی پرانی کتابوں سے دیکھ کر اس کا حل ڈھونڈنے کا رجحان ہے، اس میں کچھ بہتری آ سکے گی اور انھیں اندازہ ہوگا کہ معاملے کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ کتاب میں لکھی ہوئی تشریح بھی ہوتی ہے اور وہ situation بھی ہوتی ہے جس میں بندہ کھڑا ہے۔ ان دونوں پہلوؤں کو آپ نے کیسے ملحوظ رکھ کر حل نکالنا ہے، اس کی تربیت ہوگی، اگر شرعی عدالت کے فیصلوں پر کچھ اس طرح کا کام کر لیا جائے۔
(جاری)