مکاتیب

ادارہ

(۱)

محترم مولانا زاہد الراشدی صاحب

السلام علیکم

امید ہے خیریت سے ہوں گے۔ پچھلے چند سالوں سے الشریعہ زیر مطالعہ ہے۔ تقلید جامد اور علمی وفکری جمود کے دور عروج میں آپ کا رسالہ تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند ہے۔ علمی وفکری موضوعات پرمختلف بلکہ متضاد آرا کا سامنے آنا اس دور میں بہت غنیمت ہے۔

فروری ۲۰۱۳ء کے شمارے میں کلمہ حق میں آپ کی تحریر ’’میڈیا کا محاذ اور ہماری ذمہ داریاں‘‘ نظر سے گزری۔ اس حوالے سے چند گزارشات/ سوالات پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں: 

’’حالت امن اور حالت جنگ کے قوانین میں فرق ہوتا ہے، بہت سی باتیں جو حالت امن میں درست نہیں ہوتیں مگر حالت جنگ میں انہیں مجبورًا اختیار کرنا پڑتا ہے۔ ایک شخص محاذ جنگ پر دشمن کے سامنے کھڑا ہے تو اسے یہ دیکھنا ہے کہ دشمن کے ہاتھ میں کون سا ہتھیار ہے اور وہ اس کے مقابلہ میں کون سا ہتھیار اختیار کر کے دشمن کو زیر کر سکتا ہے، اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ اس کی مثال عرض کروں گا کہ ایٹم بم کو اسلام کی جنگی اخلاقیات کی رو سے ایک جائز ہتھیار قرار نہیں دیا جا سکتا، اس لیے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ اور جہاد کے جو تقاضے اور دائرے بیان فرمائے ہیں کہ عورت کو قتل نہیں کرنا، بوڑھے کو قتل نہیں کرنا، غیر متعلقہ شخص کو قتل نہیں کرنا، بچے کو قتل نہیں کرنا اور دشمن کے اموال اور ملکیتوں کو بلا وجہ نقصان نہیں پہنچانا وغیرہ۔ ایٹم بم کے استعمال میں ان میں سے کسی بات کا لحاظ نہیں رکھا جا سکتا، اس لیے میری طالب علمانہ رائے میں اگر جنگ میں اسلامی اخلاقیات کا لحاظ رکھا جائے تو ایٹم بم ایک جائز ہتھیار نہیں ہے، لیکن ہم سب ایٹم بم کے بنانے پر زور دیتے ہیں اور ہم نے ایٹمی صلاحیت حاصل کی ہے اس لیے کہ جب دشمن کے پاس یہ ہتھیار موجود ہے تو ہمارے پاس اس کا موجود ہونا ضروری ہے ورنہ ہم دشمن سے مار کھا جائیں گے۔ اسے اضطراری حالت کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح حالتِ اضطرار میں جان بچانے کے لیے حرام کھانا جائز ہوجاتا ہے اسی طرح حالت جنگ میں جان بچانے کے لیے ایسے ہتھیار کا استعمال جائز بلکہ ضروری ہو جاتا ہے جو اسلامی اصولوں کی رو سے شاید جائز ہتھیار نہ ہو۔‘‘

اس تحریر کو پڑھ کر میرے جیسا ایک عامی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اگر دین اسلام کی بیان کردہ انتہائی ’فطری‘، ’صریح‘، ’بدیہی‘ اور ’دائمی‘ اخلاقی تعلیمات آج کے دور میں ناقابل عمل قرار پاتی ہیں اور حالت جنگ میں قطعی ممنوع قرار دی جانے والی حرکات ’اضطرار‘ کے نام پر نہ صرف جائز بلکہ ’ضروری‘ ٹھہرتی ہیں تو پھر دین کے وہ کون سے ممنوعات اور حرام کام ہیں جن کو اسی دلیل سے جائز اور ضروری قرار نہیں دیا جا سکتا؟

سیدھی سی بات ہے کہ اگر دین کی کچھ تعلیمات حالت جنگ کے لیے دی گئی ہیں، جیسے عورت کو قتل نہیں کرنا، بوڑھے کو قتل نہیں کرنا، غیر متعلقہ شخص کو قتل نہیں کرنا، بچے کو قتل نہیں کرنا اور دشمن کے اموال اور ملکیتوں کو بلاوجہ نقصان نہیں پہنچانا وغیرہ تو ان کو اس دلیل سے آخر کیسے اضطراری بلکہ ضروری ٹھہرایا جا سکتا ہے کہ ’حالت امن اور حالت جنگ میں فرق ہو تا ہے‘ اور ’بہت سی باتیں جو حالت امن میں درست نہیں ہوتیں، مگر حالت جنگ میں انھیں مجبوراً اختیار کرنا پڑتا ہے۔‘ جب یہ ہدایات اور قوانین دیے ہی حالت جنگ سے متعلق گئے ہیں تو ظاہر ہے ان پر عمل کا دائرہ ہے ہی حالت جنگ۔ اگر تو یہ ہدایات حالت امن میں عمل کرنے کی دی گئی ہوتیں تو پھر بھی کسی حیلے بہانے سے اضطرار کے نام پر حالت جنگ میں استثنا نکالنے کا جواز پیدا ہو سکتا تھا، مگر حالت جنگ ہی کے لیے دیے گئے احکام کو حالت جنگ ہی کے لیے دیے گئے احکام کو حالت جنگ ہی کے لیے کس طرح اضطراری ٹھہرایا جا سکتا ہے؟

پھر جب خود آپ کی طالب علمانہ رائے میں ’اگر جنگ میں اسلامی اخلاقیات کا لحاظ رکھا جائے تو ایٹم بم ایک جائز ہتھیار نہیں ہے‘ تو کیا اس ناجائز ہتھیار کو صرف ان دلائل سے جائز اور ضروری قرار دیا جا سکتا ہے کہ ’اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکے گا‘ اور ’ہم سب ایٹم بم بنانے پر زور دیتے ہیں‘ اور’ہم نے ایٹمی صلاحیت حاصل کی ہے‘ اور ’جب دشمن کے پاس یہ ہتھیار موجود ہے تو ہمارے پاس اس کاموجود ہونا ضروری ہے‘۔ اگر ان’’عقل عام‘‘ پر مبنی دلائل کی بنیاد پر ایٹم بم جیسے اسلامی اخلاقیات کی رو سے قطعی ناجائز ہتھیار کو جائز اور ضروری ٹھہرایا جا سکتا ہے تو پھر نہ صرف حالت جنگ بلکہ حالت امن میں بھی وہ کون سا عمل، ترکیب، چال اور مکر وفرویب ہے جن کو انھی یا ان جیسے دوسرے دلائل کی رو سے جائز اور قرار نہیں دیا جا سکتا؟ پھر تو ایٹم بم ہی کیا، خود کش دھماکے، بم دھماکے، اغوا برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ، اپنی رائے سے اختلاف کرنے والے ہر فرد کا قتل وغیرہ وغیرہ ہر چیز جائز اور ضروری قرار دی جا سکتی ہے، بلکہ آپ اور ہم جانتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جائز اور ضروری قرار بھی دی جا چکی ہیں اور ہم عملاً ’جہاد‘، ’دفاع‘ اور ’ردعمل‘ کے نام پر عرصے سے یہ سب کچھ دیکھ اور بھگت رہے ہیں۔

اگر دشمن کا کسی ہتھیار یا چال کو استعمال کرنا ہمارے لیے بھی اس کے استعمال کو جائز بلکہ ضروری ٹھہرا سکتا ہے تو کیا دشمن اگر جنگ کے موقع پر عورتوں کی اجتماعی عصمت دری کو ایک جنگی ہتھیار کے طورپر استعمال کرے، جیسا کہ جنگوں میں یہ ایک معمول رہا ہے، تو کیا ہمارے لیے بھی یہ عمل جائز اور ضروری قرار پا سکتا ہے؟ اگر دشمن اپنے فوجیوں کی ’رفع حاجت‘ کے لیے انھیں طوائفیں مہیا کرے، جیسا کہ معمول ہے، تو کیا ہمارے لیے بھی جائز اور ضروری ہو سکتا ہے کہ ہم بھی اپنے فوجیوں کے لیے ایسا ہی کریں؟ علیٰ ہذا القیاس۔

مزید برآں،آپ کا جو اصل موضوع تھا یعنی ’میڈیا کا محاذ‘ کیا اس میں ایسا ہوسکتا ہے کہ اگر دشمن اس محاذ کو جس طرح چاہے ، تمام اخلاقی تعلیمات اور حدود سے ماورا ہوکر استعمال کرے، جیسا کہ معمول ہے ، تو کیا ہم بھی ’اضطرار‘ کے نام پر جھوٹے پروپیگنڈے، فحاشی و عریانی ، لایعنی و منفی تفریح وغیرہ کے لیے جیسے چاہیں میڈیا کو استعمال کریں؟ یا ہمیں بہرحال دشمن سے بے نیاز ہوکر دین کی بتائی ہوئی تعلیمات اور حدود کا پابند رہنا ہوگا؟ میں انتہائی معذرت کے ساتھ اپنے آپ کو یہ کہنے پر مجبور پاتا ہوں کہ آپ کی اس تحریر سے مجھ جیسے ایک عامی کو یہ تاثر ملتا ہے کہ ہمارے دین کی بعض بنیادی تعلیمات بھی ایسی ہیں جو آج کہ دور میں قطعی ناقابل عمل ہیں اور اگر ان پر عمل کے لیے اصرار کیا جائے تو نہ صرف انفرادی سطح پر بلکہ اجتماعی اور قومی سطح پر بھی ہمارا زندہ رہنا مشکل ہے اور اگر ہم ان تعلیمات پر عمل کرنے لگیں تو دشمن سے مار کھا جائیں گے۔ آپ کی یہ تحریر صاف صاف اس بات کا اعلان ہے کہ ہم آج کے دور میں شریعت کی پابندیوں پر عمل نہیں کرسکتے۔

میرا احساس ہے کہ دو صحابہ کا غزوہ بدر میں صرف اس لیے شریک نہ ہونا کہ وہ کفار سے جنگ میں شریک نہ ہونے کاعہد کرچکے تھے یا ایک جنگ میں سیدنا اسامہ بن زیدؓ کے ہاتھوں غلط فہمی کی بنا پر ایک مقاتل کے ہتھیار ڈال دینے کے باوجود اس کو قتل کر دینے پررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا شدید اظہار ناراضی یا صرف زبانی معاہدے کی بنیادپر ابو جندلؓ کو کفار کے حوالے کرنے کا معاملہ ہو یاسیدنا معاویہؓ کا دشمن سے کیے گئے ایک معاہدے کی بظاہر خلاف ورزی کے صرف ارادہ کرنے پر ایک صحابی رسول سیدنا عمرو بن عنبسہؓ کی سخت تنبیہ اور سیدنا معاویہؓ کا اس ارادے سے رجوع اور اس طرح کے سیکڑوں ہزاروں واقعات جن میں ہمارے اسلاف نے عین ’حالت جنگ‘ میں دین کی بتائی ہوئی اخلاقی حدود و تعلیمات کا خیال رکھا،،، یہ سب واقعات اب محض وعظ اور درس میں سنانے اور سر دھننے کے لیے رہ گئے ہیں ، اور ہمارا عمل حقیقتاً’’جو تم کرو گے، وہ ہم کریں گے ‘‘ کے فلسفے کے مطابق رہ گیا ہے۔ 

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ’الشریعہ‘ ہی کے مارچ ۲۰۱۲ء کے شمارے سے مولانا محمد یحییٰ نعمانی کے مضمون سے کچھ سطور یہاں نقل کردی جائیں:

’’جہاد کے بارے میں ہمیں کسی قسم کا کوئی معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ جہادی تعلیم اسلام کا وہ باب ہے جو اس کی حقانیت کی روشن دلیلوں میں سے ہے۔ ایک طرف انسانیت کی ایک شدید ضرورت کو پورا کرنے کے مقصد کی بلندی ہے۔ دوسری طرف اللہ کی رضا کی نیت کی پاکیزگی ہے۔ اور تیسری طرف مجاہدانہ اخلاقیات کا حسنِ جہاں آراو جہاں زیب۔ نورُُ علی نور۔ یہ جہاد دنیا کو زیبائش و آرائش بخشنے کے لیے ہی فرض کیا گیا ہے۔ اس کو کیا نسبت اس فساد و فتنہ اور غدرودغا سے جس پر مغربی تہذیب کے زیر سایہ موجودہ بین الاقوامی سیاست کا نظام قائم ہے۔ ایک ریاست دوسری ریاست سے معاہدوں میں ہاتھ بھی ڈالتی ہے، سفارتی تعلقات بھی قائم کرتی ہے اور پھر اپنی ایجنسیوں کے ذریعہ قتل وخونریزی کے واقعات بھی کراتی ہے۔ انسانیت کو مغربی تہذیب نے جو الم ناک ’’تحفے‘‘ دیے ہیں ان میں یہ خفیہ ایجنسیوں کا نظام بھی ہے۔ مگر اس وقت کچھ نا سمجھ مسلم نوجوانوں کو جہاد کے نام پر معاہدات کی پامالی کا سبق دینے لگے ہیں، یہ ان میں ایسا اشتعال پیدا کرتے ہیں کہ شریعت تو ٹوٹتی ہے ہی، اللہ کے حدودتو پامال ہوتے ہیں ہی، ساتھ ہی اسلام اور مسلمانوں کے مفاد کو بھی شدید نقصان پہنچتا ہے ۔۔۔ افسوس ! یہ شرعی ’’حدود‘‘ (قوانین) جو اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی صریح غیر مشکوک سنت سے ثابت ہیں ان کا ہمارے یہاں مذاکرہ نہیں ہوتا اور نتیجتاً ہم عصر حاضر کی صورتِ احوال میں اس کی تطبیق نہیں کر پاتے ۔ اس سلسلے میں بہت سے لوگ نہایت غیر محتاط بلکہ شرعی ضابطوں کو توڑنے والی رایوں کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ اگر یہ غلطیاں صرف وہ نوجوان کر رہے ہوتے جنہوں نے اس دور کے ظالموں کی چیرہ دستیوں سے عاجز آکر ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کا مظاہرہ کیا ہے تو کوئی زیادہ تعجب نہ ہوتا۔ مگر جب علمی قسم کے اداروں اور رسائل و مجلات کی طرف سے یہ بے احتیاطیاں ہوتی ہیں تو حیرت ہی نہیں، افسوس اور قلق بھی ہوتا ہے ‘‘۔

ڈاکٹر عبدالباری عتیقی، کراچی

drbari_atiqi@yahoo.com


(۲)


Dear Moulana Ammar Khan Nasir Sahab,
Assalamu 'Alikum.
I am very thankful to you and the Al-Shariah team for sending me in a copy of your magazine. I read the note by Mufti Fazeel al-Rahman Uthmani sahab about "three talaq in one session ..." and your note on talaq and have some observations to make:
  1. Mufti sahab has relied mostly on the book 'Islami Qanoon' from India but that book is NOT a 'masdar-i-Asli'. The learned author should have mentioned that the opinion in Islami Qanoon is based on Fatawa Qadi Khan and that the opinion of Qadi Khan is most probably based on hadith-i-Rukanah; that why Qadi Khan has mentioned that the opinion of the husband is accepted 'diyanatan', i.e. as far as the matter between him and Allah is concerned but not 'qada'an'. The Question to be asked and answered or at least attempted in such a discussion is why should not the opinion of such a husband be accepted by the qadi (court)? In my humble opinion since the Prophet SAW was acting as a judge, therefore, the opinion of the husband should be accepted by the court as well (wallahu 'alam). I have explained this somewhere.
  2. Unfortunately, the learned author (Mufti sb) did not mention the relevant law in Pakistan, i.e. section 7 of the Muslim Family Law Ordinance 1961 and its analysis and Islamicity or otherwise. The learned author could have also mentioned the position of other Muslim countries on this point. I have explained this somewhere.
  3. The learned author (Mufti sb) could have also analysed that section 7 has so many problems; that it is law legislated by a Muslim government a whether Muslims in Pakistan should follow it or not and what do Muslim jurists say about such a law and situation. This would have been a very good discussion.
  4. In your short note the first observation in my humble opinion is: first, when a husband delegates the right of talaq to his wife (see section 18 of the Nikah nama in Pakistan) and she exercises that right, she will divorce herself with one revocable talaq and she does not have the right to pronounce three talaq on herself. The reason is that she was delegated the right of divorce in specific words used for talaq which amounts only to one and NOT three if exercised. (I have written on this long ago).
  5. Your last opinion (the issue of automatic talaq) on page 39 is problematic. First, from which source is this opinion derived? Secondly, it would be better to mention that this is a very old issue in the subcontinent and that the great Sheikh and Hakeemul Ummat Moulana Ashraf 'Ali Thanavi (Rahmatullahi 'alihi) had done his best to provide battered Muslim women some remedies in the shape of Dissolution of Muslim Marriages Act 1939. His classic book Al-Heelah is available for its background. A lot is written on this issue.

Best regards,
Dr. Muhammad Munir,
Chairman Department of Law,
IIU, Islamabad

(۳)

جناب مدیر صاحب ماہنامہ الشریعہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج گرامی؟

ماہنامہ الشریعہ فروری ۲۰۱۳ء کے شمارے میں خواجہ امتیاز احمد صاحب سابق رکن اسلامی جمعیت طلبہ گوجرانوالہ کا ایک مضمون ’’جماعت اسلامی کے ناقدین ومصلحین‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے جس کے آغاز میں اپنا تعارف کراتے ہوئے انھوں نے اپنے استاذ، میرے استاذ اور آپ کے بھی استاذ کے متعلق ایک جملہ لکھا ہے جو ہماری سمجھ میں نہیں آ سکا۔ لکھتے ہیں: ’’صوفی صاحبؒ ، مولانا عبد القیوم صاحب، مولانا محمد خان مبلغ ختم نبوت او رمولانا محمد حیات مرحوم جو نصرۃ العلوم میں تشریف لاتے تھے، میرے سوالات سے کچھ گھبرا جاتے تھے۔‘‘ (ص ۴۹) یہ جملہ مجھے اور دیگر کئی احباب کی سمجھ میں نہیں آ سکا کہ وہ کون سے سوالات تھے جن سے یہ جبال علم گھبرا جاتے تھے اور وہ بھی ایک نو آموز اور مبتدی طالب علم سے!! ہماری معلومات تو اول الذکر دونوں بزرگوں کے متعلق یہ ہیں کہ وہ اعلاء کلمۃ الحق کے لیے کبھی کسی جابر سلطان کے سامنے بھی حق کہنے سے نہیں گھبرائے، اس لیے ہم الشریعہ کی وساطت سے خواجہ صاحب موصوف کی خدمت میں مودبانہ درخواست پیش کریں گے کہ اگر ان کی یادداشت صحیح کام کر رہی ہو تو براہ کرم ان سوالات کی لسٹ الشریعہ میں طبع کرا دیں تاکہ ہماری معلومات میں بھی اضافہ ہو سکے۔ عین ممکن ہے کہ خواجہ صاحب موصوف کو علم ہی نہ ہو اور یہ حضرات اپنی تحریروں، تقریروں اور مواعظ میں ایسے سوالات کے جوابات دے چکے ہوں۔ یہ تو بہرحال ان کے سوالات سامنے آنے پر ہی واضح ہو سکے گا۔

محمد فیاض خان سواتی

مہتمم جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ

(مارچ ۲۰۱۳ء)

تلاش

Flag Counter