نابالغی کا نکاح اور سیدہ عائشہؓ کی عمر ۔ چند نئے زاویے (۱)

مولانا محمد عبد اللہ شارق

معاصر مفکرین ومحققین کے نزدیک حضرت عائشہؓ کی عمر کا مسئلہ کچھ زیادہ ہی اہمیت اختیارکرتا چلا جارہا ہے۔ ہماری نظر میں ام المؤمنین سیدہ عائشہؓ کی عمر کو موضوعِ بحث بنانے کے تین مقاصد ہوسکتے ہیں:

1۔ کم سنی اور نابالغی کے نکاح کی شرعی حیثیت متعین کرنا۔

2۔ حضرت عائشہؓ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح کو غیر اخلاقی ثابت کرکے آپ کی شخصیت کو داغ دار کرنا اور آپ کی حیثیت کو چیلنج کرنا۔

3۔ اس نکاح کو اخلاقی ثابت کرکے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرنا۔

نابالغی کے نکاح کا شرعی تصور/ (پہلا مقصد):

جہاں تک کم سنی اور نابالغی کے نکاح کی شرعی حیثیت کا تعلق ہے تو اس سلسلہ میں دینی تعلیمات دیگر ذرائع ووقائع اور آثار واخبار سے بھی معلوم کی جاسکتی ہیں۔ نیز امت کی اجماعی روایات اور دین کی مطلق اخلاقی وروحانی تعلیمات سے بھی اس سلسلہ میں مدد لی جاسکتی ہے جبکہ مختلف معاشرتی وسماجی عوامل او رخارجی احوال کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کم عمری اور نابالغی کے نکاح کا شرعی حکم مقاصدِ شریعت کی روشنی میں مختلف مواقع او رعلاقوں کے لیے مختلف بھی ہوسکتا ہے۔ نابالغی کے نکاح کی شرعی حیثیت متعین کرنے کے لیے حضرت عائشہؓ کی عمر کا معاملہ ہمارے لیے راہ نمائی کا واحد ریعہ نہیں ہے کہ اسے ہی آراء وابحاث کی معرکہ اندازی کا میدان بنایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں امام بخاریؒ نے صحیح البخار ی میں نکاحِ عائشہ کی روایت کا ذکر کرکے اس سے استدلال کیا ہے کہ نابالغی کا نکاح درست ہے اور یہ کہ نابالغہ کا نکاح بالغ سے ہوسکتا ہے تو شارحینِ بخاری نے اس پر یہ تعریض کی کہ اس استدلال میں کوئی خاص فائدہ نہیں کیونکہ یہ مسئلہ اجماعی اور اتفاقی ہے۔ (فتح الباری جلد نمبر ۹‘ صفحہ نمبر ۱۵۴) فقہاء کا اجماع اس سلسلہ میں کوئی بھی رائے قائم کرنے کے لیے ہماری مدد کرتاہے۔

نیز نکاحِ عائشہ کے علاوہ کم از کم ایسے دو اور واقعات ہماری نظر سے گزرے ہیں جن میں واضح طور پر قرنِ اول کے اندر ہونے والے نابالغی کے نکاح کا ذکر ہے ۔ دیکھیے:

1۔ حضرت قدامہ بن مظعون صحابی نے حضرت زبیر کی نومولود لڑکی سے اسی دن نکاح پڑھایا جس دن وہ پیداہوئیں۔ (مرقاۃ ‘ ملا علی قاری‘ جلد ۳ ‘ صفحہ ۴۱۷)

2۔ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ام سلمہؓ کے کم سن لڑکے سلمہؓ کانکاح حضرت حمزہؓ کی نابالغ لڑکی سے کیا۔ (احکام القرآن‘ امامِ جصاص‘ جلد ۲‘ صفحہ ۵۵)

(بحوالہ:سیرتِ عائشہ معہ ضمیمہ’’ تحقیقِ عمرِ عائشہ‘‘ سید سلیمان ندویؒ ‘ صفحہ۳۰۱ )

یہی وجہ ہے کہ امام شافعی لکھتے ہیں:

’’وزوج غیرواحد من أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابنتہ صغیرۃ‘‘ [کتاب الأم‘ باب النکاح‘ جلد۸‘ صفحہ ۳۶۵]
یعنی ’’متعدد صحابہ کرام سے اپنی اولاد کا نابالغی میں نکاح کرنا ثابت ہے۔‘‘ 

کئی مفسرین نے تو اس سے بھی بڑھ کر یہ دعوی کیا کہ نابالغی کے نکاح کا اصولی جواز صرف روایات یا اجماعِ امت سے ہی نہیں ‘ بلکہ قرآنِ مجید سے ثابت ہے۔امام ابوبکراحمد الرازی الجصاص بہت شدومد سے اس کے قائل ہیں۔ ان کا استدلال سورۃ النساء کی آیت نمبر۱۲۷ سے ہے جو یہ ہے: ’’وان خفتم الا تقسطوا فی الیتامی فانکحوا ما طاب لکم من النساء مثنی۔۔۔‘‘اپنے استدلال کی بنیاد انہوں نے حضرت عائشہؓ اور حضرت ابنِ عباسؓ کے تفسیری اقوال پررکھی ہے اور اپنی تفسیر میں باقاعدہ اس کے لیے ’’باب تزویج الصغار‘‘ یعنی’’ نابالغوں کے نکاح‘‘ کا عنوان قائم کیا ہے۔ چار صفحوں پر محیط یہ تفصیلی گفتگوان کی تفسیر ’’احکام القرآن‘‘جلد۲ میں صفحہ ۷۵ سے ۸۰تک ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔

مقصود یہ عرض کرنا ہے کہ نابالغی کے نکاح کی شرعی حیثیت متعین کرنے کے لیے ہمارے پاس نکاحِ سیدہ کا معاملہ راہ نمائی کا کوئی واحد ذریعہ نہیں ‘بلکہ اس سلسلہ میں دیگر کئی ذرائع بھی ہماری مدد اور راہ نمائی کے لیے موجود ہیں اور اس سلسلہ میں کسی ایک متعین فیصلہ تک پہنچنے کے لیے نکاحِ سیدہ کے علاوہ مسئلہ کے ان دیگر تمام متعلقات کو بھی سامنے رکھنا ہوگا۔چنانچہ اگر بالفرض نکاح کے وقت حضرت عائشہؓ کی بلوغت ثابت ہوجائے تو اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ کم عمری میں کیا گیا نکاح بالکل درست نہیں‘ اور اگر نکاح کے وقت ان کی کم سنی والی روایات ہی درست ہوں تو ضروری نہیں کہ دنیا کے ہر معاشرے اور سماج کے لیے کم سنی کے نکاح کا علی الاطلاق شرعی جواز اس سے ثابت ہوجائے۔

نابالغی کے نکاح کے بارہ میں فقہاء کی آراء کا خلاصہ یہ ہے کہ سلف وخلف اور بلادِ اسلامیہ کے جمیع فقہاء کے نزدیک یہ فی الجملہ جائز ہے(احکام القرآن‘ جصاص‘ جلد۲‘ صفحہ ۸۰۔۔فتح الباری جلد نمبر ۹‘ صفحہ نمبر ۱۵۴)مگر واضح رہے کہ یہ اجماع اجمالی حکم کی حدتک ہے اور فقہاء کا اجماع اکثروبیشتر بس اسی حدتک ہی ہوتا ہے‘ ذیلی جزئیات وتفصیلات سے اس کا تعلق نہیں ہوتا۔مثلاً نماز کو لیجئے‘ یہ بلاشبہ فرض ہے اور اس پر امت کا اجماع ہے‘ مگر کون سی نماز ‘ کب اور کس ہیئت و کیفیت کے ساتھ کس معنی میں فرض ہے۔ اس میں فقہاء کے ہاں آراء کا جو تنوع او رتوسع پایا جاتا ہے‘ وہ کسی سے مخفی نہیں۔ اسی طرح تصویر کے معاملہ کو لیجئے! اس میں شک نہیں کہ یہ حرام ہے اور اس میں بھی کسی فقیہ کا اختلاف نہیں‘ مگر کیا ہر قسم کی تصویر ہر موقع پر حرام ہے؟ظاہر ہے کہ نہیں! تقریباً ہر مجتہد اور فقیہ کے ہاں اس میں کچھ مستثنیات پائی جاتی ہیں جو تصویر ہونے کے باوجود جائز ہیں۔’’ الشریعہ‘‘ کے لیے لکھے گئے اپنے ایک مضمون’’دھڑکَٹی تصویراور فقہِ حنفی‘‘(شمارہ جون 2011ء ) میں بھی ہم اس پہلو پر بات کر چکے ہیں۔اب نابالغی کے نکاح کی شرعی حیثیت کا معاملہ بھی ایسے ہی ہے۔ اگر چہ سب فقہاء کے ہاں یہ اصولی طور پر جائز ہے ‘ مگر ایسا نہیں کہ ہر سماج ‘ ہر خاندان‘ ہر فرد‘ ہرزمانہ اور ہر علاقہ کے لیے ہر فقیہ کے نزدیک کم سنی کے نکاح کا یہی حکم ہو۔ تقریباً ہر فقیہ نے کم سنی میں کیے جانے والے نکاح کو کئی طرح کی شرائط او رجکڑبندیوں کا پابند بنایا ہے اور اس کے علی الاطلاق شرعی جواز پر اجماع تو کجا ‘ شاید کوئی ایک فقیہ بھی اس کا قائل نہیں ہے۔ ان شرائط اور قیودات کا ایک نمونہ ذیل میں ملاحظہ کیجئے: 

1۔ امام مالکؒ اور احمد بن جنبلؒ کے نزدیک نابالغ کا نکاح سوائے باپ کے کسی کے لیے کرانا جائز نہیں۔ کوئی اور کرادے تو وہ کالعدم تصور ہوگا۔

2۔ امام شافعی ؒ کے نزدیک اگرچہ دادا کو بھی اس کا اختیار حاصل ہے‘ لیکن اگر نابالغ کا چچا ‘ بڑا بھائی یا کوئی اور ایسا کرنا چاہے تو اسے اس کی اجازت نہیں ہوگی۔

3۔ احناف کے نزدیک نابالغی کے کسی بھی نکاح میں دیکھا جائے گا کہ آیا ہر لحا ظ اور ہر پہلو سے نابالغ کے مصالح اور مفادات کو تحفظ دیا گیا ہے یا نہیں؟نکاح کرانے والا سرپرست اگر اپنی حماقت ‘ بدتدبیری ‘ کسی خارجی دباؤ‘ ذاتی مفاد یا کسی اور وجہ سے نابالغ کے مصالح اور مفادات کا تحفظ کرنے میں کوتاہی برت رہا ہے تو یہ نکاح شرعاً غیر نافذ ہوگا‘ خواہ وہ سرپرست باپ یا دادا ہی کیوں نہ ہو۔ان کے ہاں بنیادی ضابطہ یہ ہے : الولایۃ مقیدۃ بشرط النظر والشفقۃ۔

4۔ اگر نابالغ کے مصالح کا لحاظ کیا گیا‘ مگر نابالغ خود اس نکاح سے غیر مطمئن اور ناخوش ہے تو بالغ ہونے پر اسے حق حاصل ہے کہ اس نکاح کو فسخ کردے‘ اسے ’’خیارِ بلوغ‘‘ کہتے ہیں۔

5۔ نیز احناف کے نزدیک اگر سرپرست خوفِ خدا نہ رکھتا ہو‘ آخرت سے غافل ہواور معاصی کا ارتکاب بے باکی سے کرتا ہوتو ایسے سرپرست کو بھی نابالغ کے نکاح کرانے کا حق نہیں۔

6۔لڑکی کے ساتھ مباشرت اس وقت تک نہ کی جائے جب تک کہ اس میں مباشرت کی قابلیت پیدا نہ ہوجائے۔ یہ قابلیت ہر علاقہ کے موسم‘ اخلاق واقدار ‘ گفتار اور طرزِ بودوباش کے اعتبار سے مختلف اوقات میں پیدا ہوتی ہے۔ حضرت عائشہؓ کے ایک ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑکی نو سال کی عمر میں اس قابل ہوجاتی ہے۔ (ترمذی۔۱۱۰۹)ان کا یہ فرمان غالباً اپنے زمانہ ‘ علاقہ اوراہلِ علاقہ کے تجربات کی بنیاد پر ہوگا۔(مذکورہ تمام شرائط متعلقہ فقہی کتابوں میں بآسانی تلاش کی جاسکتی ہیں)

7۔ اگر سرپرست غیر مسلم ہو تو خواہ وہ باپ ہی کیوں نہ ہو‘ فقہاء کا اتفاق ہے کہ اسے نابالغ اولاد کے نکاح کا حق نہیں۔ (احکام القرآن‘ جصاص‘ جلد۲‘ صفحہ ۷۸)

فقہاء کی طرف سے نابالغی کے نکاح پر عائد کی گئی مختلف اجتہادی شرائط کا یہ ایک ہلکا سانمونہ ہے۔ یہ چند شرائط اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ کم سنی کا نکاح فقہاء کے نزدیک علی الاطلاق جائز کبھی نہیں رہا ۔

فقہِ حنفی کی مایہ ناز کتاب ’’الہدایہ‘‘ میں ان اختلافی امور اور شرائط پر جتنی گفتگو کی گئی ہے ‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ احناف کے ساتھ ساتھ غیر حنفی فقہاء کا مطمحِ نظر بھی یہی ہے کہ بچے کے حقوق اور مستقبل کا تحفظ کسی طرح یقینی بنایا جائے۔انہوں نے واضح طور پر لکھا ہے کہ نابالغی کے نکاح کا فی الجملہ شرعی جواز بھی دراصل بچہ کے ساتھ شریعت کی شفقت کی وجہ سے ہے۔اس کی تفصیل انہوں نے یوں بیان کی ہے کہ نکاح کے بہت سے مصالح عمدہ اور اچھے رشتہ کے ساتھ مربوط ہوتے ہیں‘ جبکہ یہ رشتہ ہر وقت دستیاب نہیں ہوتا۔ سرپرست کو نابالغ کے نکاح کا اختیار اس لیے دیا گیا ہے کہ اگر نابالغی میں کوئی اچھا اور جوڑ کار شتہ مل رہا ہے تو اسے حاصل کرکے نابالغ کے مصالح کا بروقت تحفظ کیا جائے۔ ’الہدایہ ‘‘ کی اصل عبارت یہ ہے جس کا ایک ایک لفظ غور سے پڑھنے کے قابل ہے: ’’ہو موافق للقیاس‘ لان النکاح یتضمن المصالح‘ ولا تتوفر الا بین المتکافئین عادۃ‘ ولایتفق الکفؤ فی کل زمان‘ فاثبتنا الولایۃ فی حالۃ الصغر احراز اللکفؤ‘‘ (الہدایہ‘ جلد۳‘ صفحہ ۳۳)’’یعنی سرپرست کو نابالغ کے نکاح کا اختیار دینا عقل اور مصلحت کے عین مطابق ہے‘کیونکہ نکاح اپنے اندر کئی مصالح اور مقاصد رکھتا ہے۔ ان مصالح کی کماحقہ دستیابی اسی صورت میں ممکن ہوسکتی ہے کہ عقدِنکاح دو جوڑکے رشتوں میں ہو‘ مگر یہ جوڑ کا رشتہ ہر وقت ملتا نہیں۔سرپرست کو مذکورہ اختیار اس لیے دیا گیا کہ اگر نابالغ کے بچپن میں ایسا کوئی جوڑ کا رشتہ مل رہا ہے تو اسے محفوظ کر لیا جائے ۔ ‘‘

سرپرست کو نابالغ کے نکاح کا اختیار دینے میں یہی حکمت ‘ مصلحت اور ’’علۃ‘ ‘ مضمر ہے جس کی وجہ سے احناف نے اس ’’اختیار‘‘ اور ’’ولایت‘‘ کو ان بہت سی شرائط کا پابند بنایا ہے جن میں سے اکثر کا گذشتہ سطور میں ذکر ہوا ہے۔ ان شرائط کا سوائے اس کے کوئی فائدہ نہیں کہ نابالغ کے ساتھ شفقت کے تمام تقاضے پورے ہوں۔ کیونکہ سرپرست کو نابالغ کے نکاح کرانے کا اختیار محض اس لیے دیا گیا ہے کہ نابالغ کے مصالحِ شفقت کو یقینی بنایا جائے۔ اب اگر یہی اختیار کسی خاص ماحول‘ معاشرہ یا صورتِ حال میں اس کی حق تلفی کا ذریعہ بن جائے تو سرے سے اس اختیار کی وجہِ جواز ہی ختم ہوجاتی ہے۔ نابالغی کے نکاح کی یہ مذکورہ توجیہ تسلیم کر لی جائے تو نابالغی کے نکاح کا شرعی جواز دراصل اہلِ قرابت اور رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک کرنے کے قرآنی حکم کا حصہ قرار پائے گا اور اس میں نابالغ کی حق تلفی کا کوئی شیبہ بھی باقی نہیں رہے گا۔ جصاصؒ نے امام ابنِ شبرمہؒ (تابعی) اور حاتم اصمؒ (حنفی فقیہ‘ صوفی بزرگ) سے نقل کیا ہے کہ وہ فقہاء کے تمام تر اجماع کے باوجود باپ اور دادا کو بھی نابالغ کے نکاح کرانے کا اختیار نہیں دیتے ‘ شایدان کی یہ رائے ان کے ایسے ہی کسی مشاہدہ یا تجربہ کی بنیاد پر ہوگی کہ ان کے زما نہ وعلاقہ کے لوگ اس طرز کے نکاح میں نابالغ کے مصالح کی رعایت نہیں کرتے اور قرابت داروں کے ساتھ احسان کرنے کے قرآنی حکم کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں‘ ورنہ ان دو جلیل القدر بزرگوں کی طرف سے اس اجماعی معاملہ کی مخالفت کی کوئی وجہِ جواز نظر نہیں آتی۔ واللہ اعلم! 

اگر روایات کے برخلاف حضرت عائشہؓ کی عمر بڑھانے پر اس لیے قوتیں صرف کی جارہی ہیں کہ نابالغی کے نکاح کو ناجائز ثابت کیا جائے یا ان کی عمر گھٹانے پر اس لیے اصرار کیا جارہا ہے کہ یوں نابالغی کے نکاح کا جواز ثابت کیا جائے تو ہماری نظر میں یہ کوئی بہت مفید کوشش نہیں۔ اس کا اصولی جواز تو امت کے اجماع‘ عملی روایت اور دیگر آثار وروایات سے ہی ثابت ہے‘جبکہ ہمارے حنفی فقہاء نے نابالغوں کے نکاح سے متعلق امت کی اجماعی روایت کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے جواز کو جن متوازن اور متناسب شرائط کا پابند بنایا ہے ‘ ان کے بعد نہ تو نابالغوں کی حق تلفی کا کوئی خدشہ باقی رہتا ہے اور نہ ہی اس مسئلہ پر زیروپوائنٹ سے غور وفکر شروع کرنے کی ضرورت باقی رہتی ہے۔ ہم ثابت یہ کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ کم سنی اورنابالغی کے نکاح کی شرعی حیثیت متعین کرنے کے لیے حضرت عائشہؓ کے نکاح کا معاملہ ہماری راہ نمائی کے لیے کوئی حتمی ‘ قطعی اور واحد ویکتا ذریعہ نہیں ہے‘ بلکہ اس کے لیے شریعت کے دیگر مآخذ‘ بنیادی اصول وضوابط‘ امت کی اجماعی روایت ‘ جملہ آثاروروایات اور مقاصدِ شریعت کے ساتھ ساتھ ہر علاقہ ‘زمانہ اور معاشرہ کے مخصوص عرف ‘ تعامل ‘ تمدن اور نفسیات سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں اور دشواریوں کو بھی سامنے رکھنا ہوگااور فقہاءِ کرام کی اجتہادی مساعی سے بھی اس سلسلہ میں استفادہ کرنا ہوگا۔ تب ہی روحِ شریعت کے مطابق اس کے جواز یا عدمِ جواز کا کوئی درست نتیجہ اخذ کیا جاسکے گا۔

دوسرا مقصد:

یہ مقصد کسی غیر مسلم مستشرق کا ہوسکتا ہے جو نکاح ورخصتی کے وقت حضرت عائشہؓ کی کم عمری کو موضوع بنا کر اسے ایک غیر مہذب اورغیر اخلاقی فعل ثابت کرنا چاہتا ہے اور یوں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو داغ دار کرکے آپ کی نبوت ورسالت پر سوالیہ نشان کھڑے کرنا چاہتا ہے۔تاہم یہ مذموم مقصد کسی بھی مسلمان صاحبِ علم کا نہیں ہوسکتا۔

سیدہ عائشہؓ کے نکاح کی اخلاقی حیثیت(تیسرا مقصد):

جن مسلمان اور معاصر اہلِ علم کی نظر میں یہ مسئلہ اہمیت رکھتا ہے اور وہ اس پردادِ تحقیق دے رہے ہیں تو بالعموم ان کا مقصد شاید یہی رہا ہے کہ مستشرقین کے اعتراضات کے جوابات دے کر حضرت عائشہؓ کے نکاح ورخصتی کے معاملہ کو ہر لحاظ اور ہر پہلو سے ایک مہذب اور اخلاقی معاملہ ثابت کیا جائے۔ تاہم اس سلسلہ میں ان مسلمان اہلِ علم نے اپنی اپنی افتادِ طبع اور فکری رجحان کے تحت دو مختلف راستے اختیار کیے ہیں۔

بعض حضرات نے غیرمسلم مفکرین اور معترضین کے اس بنیادی مقدمہ کو تسلیم کیا ہے کہ چھ سال کی عمر میں نکاح اور نو سال کی عمر میں رخصتی واقعی ایک غیر اخلاقی فعل ہے ‘ مگر پھر انہوں نے دعوی کیا ہے کہ حضرت عائشہؓ کی عمر نہ تو نکاح کے وقت چھ سال تھی اور نہ ہی رخصتی کے وقت نوسال‘ بلکہ بعض تاریخی روایات کی کڑیاں جوڑ کر انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ نکاح کے وقت ان کی عمر تقریباً پندرہ اور رخصتی کے وقت تقریباً اٹھارہ سال تھی۔اس سلسلہ میں انہوں نے بعض دورازکار قسم کی تاویلات کا سہارا لے کر حدیث وسیرت کے ذخیرہ میں پائی جانے والی ان تمام روایات کو مسترد کردیا ہے جن میں حضرت عائشہؓ کی کم عمری اور نابالغی کا ذکر ہے۔ اس اندازِ فکر میں مغربی مستشرقین کے اعتراضات سے غیر شعوری مرعوبیت کی ایک جھلک سی نظر آتی ہے۔

دوسری طرف بعض حضرات نے سرے سے معترضین کے اس مقدمہ کو ہی تسلیم نہیں کیا کہ چھ اور نوسال کی عمر میں نکاح ورخصتی کوئی معیوب بات ہے۔ اس لیے ان کے نزدیک ان صریح روایات میں تاویل کی کوئی گنجائش نہیں جن میں بوقتِ نکاح حضرت عائشہؓ کی نابالغی کا ذکر ہے۔ ہمارا نکتۂ نظر بھی یہی ہے۔اس نکتۂ نظر کے قائل مختلف حضرات نے اپنے اپنے انداز میں اس کو ثابت کیا ہے۔ معمولی اختلاف کے ساتھ اس سلسلہ میں ہمارے استدلال کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کوئی چیز ہمیں بری لگتی ہے تو ضروری نہیں کہ فی الواقع بھی اس میں کوئی معیوب بات ہو۔ بنیادی اخلاقیات کہ جھوٹ نہیں بولنا چاہئے‘ ظلم نہیں کرنا چاہئے‘ گندگی نہیں پھیلانی چاہئے‘ دھوکہ نہیں دینا چاہئے‘ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ان میں تو کسی کا اختلاف نہیں‘لیکن بعض اوقات سماجی اور معاشرتی رویوں میں معمولی نوعیت کا ایسا اختلاف واقع ہوجاتا ہے کہ مثلا آپ اپنے ماحول کے زیرِ اثر کسی خاص رویے کو اپنے زاویہ سے دیکھتے او راسے ’’بے تکلفی ‘‘ کا نام دیتے ہیں جبکہ دوسرا آدمی اپنے ماحول کے زیرِ اثراسے ایک اور زاویہ سے دیکھتا ہے اور اسے ’’بے مروتی‘‘ کا نام دیتا ہے۔آپ ایسی کئی مثالیں خود اپنے اردگرد کے ماحول میں تلاش کرسکتے ہیں۔یہ نہیں کہا جا رہا کہ تمام سماجی رویوں کی یہی نوعیت ہوتی ہے ‘ بلکہ یہ کہ بعض خاص رویے اس طرز کے ہوتے ہیں۔اس نوعیت کے رویوں میں دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرانے سے پہلے خود اس کے زاویۂ نگاہ اور نیت وارادہ کے بارہ میں بھی معلومات کرلینی چاہئیں۔ ایسا نہ ہو کہ ہم ناحق کسی پہ وہ الزامات عائد کرتے پھریں جو اس کے خواب وخیال میں بھی نہیں۔اگر ہم غور کریں تو مخصوص ماحول اور تمدن میں پرورش پانے والی یہ ہماری نفسیات اور ذہنی افتاد ہی ہوتی ہے جو کسی بات کو اچھا محسوس کرتی ہے تو ہم اسے اخلاقیات میں شامل کرلیتے ہیں اور اگر کوئی بات اسے بری محسوس ہوتی ہے تو ہم اسے اخلاقیات کے دائرہ سے خارج کردیتے ہیں۔چنانچہ کسی ایک ماحول اور معاشرہ کی ’’اخلاقیات‘‘ کو کسی دوسرے معاشرہ کے سر نہیں تھوپا جاسکتا۔ وجہ وہی کہ ایک سماج اور علاقہ کے لوگ جس معاملہ کو ایک زاویہ سے دیکھ رہے ہیں ‘ عین ممکن ہے کہ دوسرے لوگ بعینہ اسی معاملہ کو ایک متضاد زاویہ سے دیکھ رہے ہوں۔ مثلایہی نابالغی کا نکاح لیجئے! جن حضرات کو اس پر اعتراض ہے ‘ ان کے اعتراض کی بنیاد یقیناً یہی ہے کہ اس میں نابالغ کے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے اور اس کی مرضی کے بغیر اس پہ ایک فیصلہ مسلط کیا جارہا ہے‘ جبکہ دوسری طرف ہمارے فقہاء بعینہ اسی معاملہ کو یکسر متضاد زاویہ سے دیکھ رہے ہیں کہ نابالغی کے نکاح سے مقصود خود نابالغ کے مستقبل کوتعمیر کرنا اور تحفظ دینا ہے۔ اس کی تفصیل ’’الہدایہ‘‘ کے حوالہ سے گزر چکی ہے۔ اب اگر کسی علاقہ یا زمانہ کے لوگ اپنے سماجی رویوں کے تناظر میں سمجھتے ہیں کہ ان کے ہاں نابالغی کا نکاح نابالغ کی حق تلفی او ر’’ذوی القربی‘‘(رشتہ داروں) کے ساتھ نیک سلوک کرنے کے قرآنی حکم کی خلاف ورزی کا ذریعہ بنے گا توٹھیک ہے‘ وہ اس سے اجتناب کریں‘ سطورِ بالا میں مذکور اس نکاح کی فقہی شرائط (خصوصاً حنفی شرائط) اور روحِ شریعت کا منشاء بھی یہی ہے۔ لیکن اس کی بنیاد پر انہیں اسلام میں اس نکاح کے اصولی جواز یا سیدہ عائشہؓ کے نکاح پر اعتراض کا کوئی حق نہیں کیونکہ یہ عین ممکن ہے کہ وہاں نابالغ کی حق تلفی کا کوئی شیبہ تک نہ ہو‘ جیساکہ حقائق سے اس کی تائید بھی ہوتی ہے۔ 

اگر حضرت عائشہؓ کا نکاح چودہ سو برس قبل عرب کے قبائلی سماج میں ہوا تھا تو اس معاملہ کو اس زمانہ اورعلاقہ کے تناظر میں ہی رکھ کر دیکھنا چاہئے نہ کہ آج کی دنیا کے سماجی رویوں کے تناظرمیں۔عرب کی قدیم معاشرت کے بارہ میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس طرز کا نکاح نہ تو اس میں نامانوس تھا اور نہ ہی اسے کوئی غیر اخلاقی فعل سمجھا جاتا تھا۔ اس کا ایک بڑا ثبوت خود نکاحِ سیدہؓ کا معاملہ ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن خود ان کی حیاتِ طیبہ میں ہی کم نہیں تھے۔ مشرکین، یہود ونصاری اور منافقین کی آپ کے ایک ایک عمل پر نظر رہتی تھی اور وہ آپ پر اعتراض کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ آپ کی ذات پر کیچڑ اچھالنے کے لیے انہوں نے باقاعدہ شعراء ’’پال‘‘ کے رکھے ہوئے تھے۔یہ ممکن نہیں کہ عرب معاشرت کی رو سے یا کسی بھی اور اعتبار سے وہ حضرت عائشہؓ کے نکاح کے معاملہ میں کوئی ادنی سا کم زور یا قابلِ گرفت پہلو پاتے اور اس پر خاموش رہتے۔ بلکہ تاریخ میں اس معاملہ پر مسلمانوں میں اور اہلِ کفر میں ہونے والا کوئی مکالمہ ضرور محفوظ ہوتا۔کتابوں میں یہ واقعات ملتے ہیں کہ طہارت سے متعلق باتیں سکھانے پر انہوں نے آپ کے خلاف زبان درازی کی۔(جامع الترمذی‘ حدیث ۱۶) منافقین نے غنیمت تقسیم کرنے کے معاملہ میںآپ پر ناانصافی کا الزام عائد کیا۔ (صحیح مسلم‘ حدیث ۱۰۶۳)خود ازواجِ مطہرات کے معاملہ میں خانۂ نبوت کو دو دفعہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک اس وقت کہ جب حضرت عائشہؓ پر تہمت باندھی گئی‘ یہ موقع ’’واقعۂ افک‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ دوسرا اس وقت کہ جب آپ نے عرب روایات کے برعکس اپنے منہ بولے بیٹے حضرت زید بن حارثہؓ کی مطلقہ بیوی سے نکاح فرمایا۔ ان دونوں موقعوں کی طرف قرآنِ مجید میں اشارہ کیا گیا ہے۔(سورۃ النور ‘ آیت ۱۱۔۔سورۃ الاحزاب ‘آیت ۳۷)سوال یہ ہے کہ بات بے بات منہ لگنے والوں نے حضرت عائشہ سے نکاح کے معاملہ پر انگشت نمائی کیوں نہ کی؟ ظاہر ہے کہ اس کا جواب اس کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا کہ عرب معاشرے میں کم عمری کے نکاح کو سرے سے کوئی معیوب کام ہی نہیں سمجھا جاتا تھا اور اس معاشرے میں پروان چڑھنے والی نفسیات اس واقعہ میں کوئی قابلِ گرفت پہلو تلاش نہیں کرپائی تھی۔ 

نیز کسی معاملہ کو مبنی بر انصاف یا خلافِ انصاف قرار دینے کے لیے اس معاملہ کے اصل اور داخلی فریقوں کی رائے سب سے زیادہ اہم ہوتی ہے۔ جب ہم اس زاویہ سے دیکھتے ہیں تو بھی ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ صاحبانِ معاملہ (حضرت ابوبکرؓ ۔حضرت عائشہؓ) کو نہ صرف اس پہ کوئی اعتراض نہیں تھا‘ بلکہ وہ اس پر بے حد مسرور اور اس کو اپنے لیے باعثِ اعزاز سمجھتے تھے۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ کی رخصتی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمائش پر نہیں ‘ بلکہ خود حضرت ابوبکرؓ کی خواہش پر ہوئی جبکہ حضرت عائشہؓ کی نبی اکرم کے ساتھ گرویدگی کی حد تک جو محبت تھی‘ اسے کوئی ماں کا لال چیلنج نہیں کرسکتا۔ باقی رہی یہ بات کہ جب آنحضور نے حضرت ابوبکرؓ کو پیغامِ نکاح بھیجا تو انہیں اس پر تعجب کیوں ہوا اور انہوں نے یہ کیوں کہا کہ عائشہ تو آپ کی بھتیجی کے برابر ہیں؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کا تعجب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عائشہؓ کے عمر کے تفاوت کی وجہ سے نہیں تھا، بلکہ اس اسلامی اخوت اور برادرانہ رشتہ کی وجہ سے تھا جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کے درمیان تھااور جس کی رو سے حضرت عائشہؓ آنحضور کے لیے بھتیجی یعنی بھائی کی بیٹی لگتی تھیں کیونکہ عربوں میں سگے بھائی کے ساتھ ساتھ منہ بولے بھائی کی بیٹی سے بھی شادی کو ناجائز سمجھاجاتا تھا۔چنانچہ اس پرآنحضور نے یہی وضاحت فرمائی کہ ابوبکر میرے دینی بھائی ہیں‘حقیقی نہیں۔ صحیح البخاری کی روایت ہے: ’’عن عروۃ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم خطب عائشۃ الی ابی بکر ‘ فقال لہ ابوبکر: انما انا اخوک ‘ فقال لہ : انت اخی فی دین اللہ وکتابہ‘ وہی لی حلال‘‘ [حدیث نمبر۵۰۸۱] یعنی ’جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکرؓ کے پاس عائشہؓ کے لیے پیغامِ نکاح بھیجا تو ابوبکرؓ کہنے لگے کہ میں تو آپ کا بھائی ہوں جس پر آنحضور نے ارشاد فرمایا کہ تم اللہ کے دین اورقرآن کی نسبت سے میرے بھائی ہو‘ اس لیے عائشہ میرے لیے حلال ہے۔‘‘

تہذیبی روایات کے اخلاقی جوازکی بحث:

مؤخر الذکر حضرات کا موقف بہت جان دار ہے‘ روایات سے بھی مطابقت رکھتا ہے اور امت کی اجماعی روایت کی بھی اس سے نفی نہیں ہوتی۔مگر اس میں صرف ایک دشواری یہ باقی رہ جاتی ہے کہ مسلمانوں کے دعوی کے مطابق آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں عدل وانصاف کا بول بالا کرنے‘ مظلوموں کی داد رسی ‘ غریبوں کی اشک شوئی ‘ کم زوروں کے حقوق کو تحفظ دینے ‘ باطل اور بے سروپارسومات وتوہمات کی بیخ کنی اورخلقِ عظیم کا عملی نمونہ پیش کرنے کے لیے تشریف لائے ہیں۔ آپ کی بعثت کا مقصد یہ نہیں کہ مختلف علاقوں اور معاشروں کی تہذیبی روایات کو اس لیے تحفظ دیا جائے کہ ان خاص علاقوں اور معاشروں میں یہ روایات معیوب نہیں سمجھی جاتیں یا اہل معاملہ کوان پر کوئی اعتراض نہیں۔ بلکہ آپ ڈنکے کی چوٹ پر حق کی آواز بلند کرنے اور کسی بھی علاقے میں رائج ناانصافی پر مبنی نظام اور رسومات وروایات پر خطِ تنسیخ پھیرنے کے لیے تشریف لائے ہیں۔ کئی رسومات ناانصافی یا توہم پرستی پر مبنی ہوتی ہیں ‘ مگر اہلِ علاقہ اور صاحبانِ معاملہ کو ان پر اعتراض نہیں ہوتا او ران کے کچھ اخلاقی جواز بھی انہوں نے گڑھ رکھے ہوتے ہیں ۔ اسلام ایسی رسومات وروایات کو قبول نہیں کرتا‘ بلکہ ان کے خلاف جہاد کرتا ہے۔ مثلااگرکسی علاقہ کے لوگ نہروں کو جاری رکھنے کے لیے ہر سال قرعہ انداز ی کے ساتھ کسی لڑکی کی بھینٹ دیتے ہوں یا کوئی توہم پرست اپنے پیر کے کہنے پر بیٹے کوبیٹے کی ہی اجازت اور رضامندی سے ذبح کردے تو کیا اسلام اسے اس وجہ سے قبول کرلے گا کہ اہل علاقہ اور صاحبانِ معاملہ کو اس پر اعتراض نہیں۔ خود عرب معاشرہ کی چند مثالیں ملاحظہ کیجئے: منہ بولے بیٹے کی بیوہ سے شادی کرنا معیوب بات سمجھا جاتا تھا‘ باپ کے وفات پانے کے بعد بیٹا اپنی سوتیلی ماں سے نکاح کرلیتا تھا‘ نومولود اور کم عمر کے ساتھ ساتھ ’’نامولود‘‘ یعنی پیٹ میں موجود حمل کے ساتھ نکاح کا رواج پایا جاتا تھا(سنن ابو داود‘حدیث۲۱۰۳)‘مرد کو نکاح وطلاق کا لامحدود اختیار حاصل ہوتا تھا‘ میراث میں عورت کو حصہ نہیں دیا جاتا تھا‘ قبائلی عصبیت عروج پر تھی‘ سرمایہ کی طرح پیسہ پر بھی نفع لینے کو وہ جائز سمجھتے تھے جسے ہم ربا اور سود کہتے ہیں‘ بیرونِ حرم سے آنے و الے حاجی کے لیے بیرونِ حرم سے لائی ہوئی چیز کھانا ناجائز سمجھتے تھے وغیرہ وغیرہ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اورعرب معاشرہ میں رائج اس طرح کی دیگر کئی رسومات وروایات کی برملا نفی کی اور انہیں محض اس لیے اپنے حال پر نہیں رہنے دیا کہ ہر علاقہ اورمعاشرہ کی اپنی اپنی روایات اور اخلاقیات ہوتی ہیں۔ ورنہ فی نفسہ اہلِ علاقہ اور صاحبانِ معاملہ کے پاس ان رسومات ورایات کے دلائل اوراخلاقی جواز بھی موجود تھے۔مثلاً:

  • لے پالک کی بیوی سے شادی کرنا گویا اپنی بیٹی کے ساتھ بیاہ رچانے کے ہم معنی تھا‘ اس لیے اسے معیوب سمجھتے تھے۔
  • سوتیلی ماں کے ساتھ بیاہ کرنے کو بڑی آسانی سے صلہ رحمی کانام دیا جاسکتا ہے اور سگی ماں نہ ہونے کی جہ سے اسے بیوی بنانے میں حرج محسوس نہیں کیا جاتا تھا۔ 
  • جیسے نابالغ کے ساتھ نکاح کرنے سے مقصود کسی گھرانے کے ساتھ گھریلو تعلقات قائم کرنا ہوتا تھا ‘ویسے حمل کے ساتھ نکاح کرنے کا بھی یہی مقصد ہوسکتا ہے۔
  • نکاح وطلاق کا لامحدود اختیار مرد کی سربراہی اور ذمہ داریوں کے پیشِ نظر تھا۔ اسلام نے بھی اگر چہ اس اختیار میں کمی ضرور کی مگر مساواتِ مردوزن کی بجائے مرد کو عورت کے مقابلہ میں چار بیویاں رکھنے (بشرطِ عدل) اور تین طلاقوں کا اختیار دیے رکھا۔
  • چونکہ گھریلو مالی کفالت کی تمام تر ذمہ داری مرد پر تھی اور عورت اس حوالہ سے برئ الذمہ ہوتی تھی ‘اس لیے میراث کا واحد حصہ دار بھی مرد ہوتا تھا۔چنانچہ اسلام بھی عورت کے مقابلہ میں مرد کو دوگنا دینے کی تعلیم دیتا ہے۔ 
  • قبائلی عصبیت کو ’’صلہ رحمی‘‘ کا نام دیا جاتا تھا۔ قبائلی عصبیت اور صلہ رحمی کا یہی تصور تھا جس نے عہدِ مکی میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور بہت سے صحابہ کرام ؓ کو خود کفار کی کئی دست درازیوں سے بچانے میں مدد دی‘ کیونکہ ان کے غیرمسلم رشتہ دار اپنی قبائلی عصبیت اور جذبۂ صلہ رحمی کے تحت ان کی حفاظت کے لیے آڑے آجاتے تھے۔ صرف ابوطالب کی مثال لیجئے! یہ غیرمسلم ہونے کے باوجود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حفاظتی دیوار بنے رہے۔ یہ صرف قبائلی عصبیت کی اسی روایت کی وجہ سے تھا۔
  • سود کا جواز جو غیر مسلم پیش کرتے تھے‘ وہ قرآن میں مذکور ہے: ’’ انما البیع مثل الربو‘‘ [سورۃ البقرۃ‘ آیت ۲۷۵] یعنی اگر سرمایہ کو زائد رقم کے ساتھ فروخت کر کے نفع کمانا جائز ہے تو پیسہ کو کچھ عرصہ کے لیے قرض میں دے کر اس پر نفع وصول کرنا کیوں منع ہے؟
  • بیرونِ حرم کیِ چیز کھانے سے اس لیے منع کرتے تھے کہ ان کے نزدیک اس میں حرم کی بے ادبی ہے کہ حدودِ حرم میں آکر بیرونِ حرم کی غذا استعمال کی جائے۔

سو ان رسومات اور بظاہر بے ضرر روایات کو اسلام نے محض اس لیے قبول نہیں کرلیا کہ ان کے اخلاقی جواز اہلِ علاقہ کے پاس موجود ہیں اور ہر علاقہ و معاشرہ کی اپنی اخلاقیات ہوتی ہیں‘ بلکہ ان کے باطن میں چھپی ناانصافی ‘ زر پرستی اور توہم پسندی کو بے نقاب کیا اور ان کے خلاف جہاد کیا۔

اس ساری گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ (بمطابق روایات) کم عمری میں کیے جانے والے حضرت عائشہؓ کے نکاح ورخصتی کے عمل کو محض اس لیے اخلاقی جواز نہیں بخشا جاسکتا کہ یہ عمل چودہ سو سال قبل عرب کی قدیم معاشرت میں ہوا اور ان کے معاشرے میں اس نوعیت کے نکاح کو معیوب نہیں سمجھا جاتا تھایا یہ کہ صاحبانِ معاملہ کو اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا‘ بلکہ اس کے نفع وضرر اور مثبت ومنفی تمام پہلوؤں پر غور ہونا چاہئے۔ اگر اس غور وفکر کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نابالغی کے نکاح میں نابالغ کی حق تلفی ہے تو نہ تو اسے شرعاً جائز کہا جائے او رنہ ہی نبی کی طرف اس ناانصافی کی نسبت کی جائے ‘ بلکہ ان روایات میں توجیہ کرنی چاہئے جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس عمل کی نسبت کی گئی ہے۔ ایسے میں یہ طریقہ درست نہیں کہ قدیم عرب معاشرت کی اپنی اخلاقیات کا حوالہ دے کر اسے جائز ٹھہرایا جائے۔

مؤخر الذکر حضرات کے موقف میں پائی جانے والی دشواری کی تفصیل آپ نے پڑھ لی ‘ اس دشواری کا ایک اصولی جواب یہ ہے کہ بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم محسنِ انسانیت اور مصلحِ اعظم ہیں‘ مگر آپ کی اصل حیثیت مصلح سے بڑھ کر ایک نبی کی ہے۔ آپ کی تمام تر جدوجہد عقل نہیں ‘ امرِ الہی کے تابع تھی۔ اگرلے پالک کی بیوہ سے نکاح نہ کرنے اور پیٹ میں موجود حمل سے نکاح کرنے کی رسم اور روایت خدا کو محبوب نہیں تھی تو خدا ہی کے حکم سے آپ نے ان روایات کی بیخ کنی کی اوردوسری طرف نابالغہ سے نکاح کرنے کی روایت اگراللہ کو ناپسند نہیں تھی تو آپ نے بھی اسے حسبِ سابق جائز ہی رہنے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن وسنت میں بھی جہاں ان رسومات وروایات کو موضوع بنایا گیا ہے ‘ وہاں ذیلی نکتہ آفرینیوں کی بجائے اس بنیادی نکتہ پراصل زور دیا گیا ہے کہ اس فیصلہ کا اختیار اللہ جل مجدہ کے پاس ہے کہ وہ کسے حلال ٹھہراتا ہے اور کسے حرام ‘ کس معاملہ کو پسند کرتا ہے اور کسے ناپسند ‘ اس کا فیصلہ آجانے کے بعد مؤمنوں کو روانہیں کہ بحث آرائیوں میں اپنا وقت ضائع کریں۔ مثال کے طور پر سود اور بیع کویکساں سمجھنے کے معاملہ پر اللہ رب العزۃ نے جو تبصرہ کیا ہے‘ وہ کچھ یوں ہے: ’’احل اللہ البیع وحرم الربوا‘‘[سورۃ البقرۃ‘آیت ۲۷۵] یعنی ’وہ کہتے ہیں کہ بیع اور سود ایک ہی طرح ہیں حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام ٹھہرا رکھا ہے۔‘‘

باقی اس میں شک نہیں کہ ’’عدل وانصاف کا قیام‘‘ مقاصدِ شریعت میں سے ایک عظیم الشان مقصد ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ جس دین نے انصاف کرنے والوں کو اللہ کا محبوب قرار دیا ہے‘ اس کی شریعت کسی ایسی رسم کو من وعن قبول کرلے جو ناانصافی پر مبنی ہو۔ کم عمری کے نکاح کامعاملہ ایسے ہی ہے۔ اس میں جو حکمت اور مصلحت مضمر ہے‘ وہ سراسر نابالغ کے حق میں جاتی ہے اور ذوی القربی(رشتہ داروں) کے ساتھ احسان کرنے کی قرآنی تعلیم کے مطابق نظر آتی ہے۔

(جاری)

سیرت و تاریخ

(دسمبر ۲۰۱۲ء)

تلاش

Flag Counter