’’مقالاتِ جاوید‘‘ پر ایک نظر

ڈاکٹر محمد شہباز منج

فرزند اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال ملک کے معروف دانشور اور علمی وادبی حلقوں میں جانا پہچانا اور نمایاں نام ہیں۔ مختلف موضوعات پر آپ کی متعدد کتب اور مقالات شائع ہو چکے ہیں۔ آپ کا عشق ہے کہ پاکستان ایسا دکھائی دے جیسا اقبال اور قائد اعظم کا خواب تھا، اسلام کی نشأۃ ثانیہ ہو ،ملتِ اسلامیہ کی عظمتِ رفتہ بحال ہو،فکر اقبال سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے اہل اسلام جدید مغرب کے پیش کردہ سیاسی و معاشی افکار سے مرعوب ہونے کی بجائے قرآنی سیاسی و معاشی تصورات کو اپنائیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ قدامت پرستی اور تقلید سے نجات حاصل کریں۔ جدید مغربی تہذیب کی علمی و سائنسی ترقی اسلامی تہذیب کی علمی و سائنسی ترقی کا تسلسل ہے۔ لہٰذا اس کے اچھے پہلو اپنانے میں نہ صرف یہ کہ کو ئی حرج نہیں بلکہ اپنی عظمتِ رفتہ کی بحالی کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے۔ اجتہاد اور فکر و فقہِ اسلامی کی تشکیلِ نو وقت کا ایسا تقاضا ہے جس سے صرفِ نظر اسلام اور اہل اسلام کی خودی کی موت ہے۔ ڈاکٹر صاحب اپنے بعض افکار کی بناپر روایت پسند طبقے اور بعض افکار کی بناپر ترقی پسند طبقے کا ہدفِ تنقید بھی بنے ہیں۔ ہر صاحبِ علم کو آپ کے افکار سے اختلاف کا حق ہے، لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ آپ اسلام، اہل اسلام،پاکستان اور اہل پاکستان کا گہرا درد رکھنے والے اور ان کے سچے بہی خواہ ہیں۔

یہاں ہمیں جاوید اقبا ل کی جس تحریر پر ایک نگاہ ڈالنا ہے، وہ محمد سہیل عمر اور طاہر حمید تنولی کی مرتب کردہ کتاب ’’مقالاتِ جاوید‘‘ہے۔ اقبال اکادمی لاہور کی طرف سے شائع کردہ ۴۳۲ صفحات پر مشتمل یہ کتاب ڈاکٹر جاوید اقبال کے مختلف اوقات میں مختلف موضوعات پر تحریر کردہ مقالات کا مجموعہ ہے۔یہ چار حصوں میں منقسم ۳۹ مقالات کی حامل ہے۔ پہلا حصہ’’ اسلام کی سیاسی فکر ‘‘کے عنوان سے ہے اور سات مقالات پر مشتمل ہے۔ پہلے مقالے میں مصنف نے ریاست کے اسلامی تصور کو واضح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اسلام میں مقتدرِ اعلیٰ اللہ تعالی کی ذات ہے۔ خلیفہ یا سربراہِِ ریاست امورِ ریاست کو احکام خداوندی کے مطابق مسلمانوں کی مشاورت سے چلانے کا پابند ہے۔ اسلام میں بادشاہت و ملوکیت کی کوئی گنجائش نہیں، بعض لوگوں کا بعض قرآنی آیات سے اس کے حق میں استدلال لایعنی ہے۔ خلیفہ یا سربراہِ ریاست کے انتخاب کا کوئی خاص طریقہ اسلام نے نہیں بتایا، لہٰذا حالات و ضروریات کے مطابق کوئی بھی طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں مصنف سنت نبوی اور طریقۂ خلفائے راشدین سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضورؐ نے اپنے کسی صحابی کو پنا جانشین نامزد نہیں کیااور نہ ہی اس کے تقرر و عزل کا کوئی طریقہ تجویز کیا، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ خلفائے راشدین میں سے ہر ایک کی تقرری مختلف طریق سے عمل میں آئی جس میں حالات کے اختلاف اور سیاسی و سماجی نوعیت کی تبدیلیوں کا دخل حاصل تھا۔ ایک چیز البتہ ناقابلِ انکار ہے کہ خلیفہ کا تقررعوام کی مرضی و حمایت سے ہوتا تھا۔ قوم کو رائے دینے سے محروم نہیں رکھا گیا تھا اورا یک فقیہ کے مطابق کو تو عورت بھی جانشینی کی اہل تھی۔ انتخابِ سربراہ کے کسی خاص طریقے کے نہ ہونے کا ایک واضح ثبوت فقہا کے وہ استدلا لات بھی ہیں جو انہوں نے خلفائے راشدین کے بعد کے ادوار میں ان مختلف تبدیلیوں کوشرعی جواز فراہم کرنے کے لیے پیش کیے جو خلفائے راشدین کے طریق سے ہٹ کر عمل میں آئی تھیں۔ یہاں تک کہ غلبہ واستیلا کے ذریعے حکومت بھی اسلامی نقطہ نظر سے جا ئز تسلیم کر لی گئی، جیسا کہ غزالی ،الماوردی اور شاہ ولی اللہ وغیرہ کے افکار سے واضح ہے۔ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد خلیفہ کے اختیارات کے منتخب اسمبلی کو منتقل کرنے کا استدلال پیش ہوا اور بالآخر ایساکر دیا گیا۔ بعد ازاں دیگر مسلم ریاستوں میں مجالسِ قانون ساز تشکیل پائیں اور انہیں اسلامی قوانین کے خلاف تصور نہ کیا گیا۔ سربراہ کے اکثریت کی حمایت سے منتخب ہونے اور سیاسی جماعتوں کا تصور بھی اسلام میں موجود ہے۔ بنا بریں اسلام جمہوریت کا مخالف نہیں۔ جمہوریت میں بہت سے نقائص ہو سکتے ہیں، لیکن فی زمانہ کوئی اور طریقِ حکومت اسلامی نقطۂ نظر کے اس سے زیادہ قریب نہیں۔

راقم الحروف یہاں اس استدلال سے اتفاق کرتے ہوئے یہ کہنا چاہے گا کہ جب ہر طرح کی حکومت کو شرعی جواز فراہم ہو سکتا ہے تو جدید جمہوریت کی مخالفت کیسے کی جا سکتی ہے! فقہا کے استدلالات کے طرز پرتوکتاب و سنت اور طریقِ خلفائے راشدین سے جدید مغربی جمہوریت تک بدرجہ اولیٰ جائز ثابت کی جا سکتی ہے کہ مرضئ عوام بہر حا ل غلبہ واستیلا کی نسبت اسلامی نقطہ نظر سے قریب تر ہے،چہ جائیکہ جمہوریت کے اس تصور پرشرعی تناطر میں چیں بہ جبیں ہواجائے جس میں مغربی جمہوریت کے نقائص سے بچنے پر زور دیا جاتا ہے۔

دوسرے مقالے میں’’ اسلامی ریاست علامہ اقبال کی نگاہ میں‘‘ کے عنوان کے تحت گفتگو ہے۔مصنف واضح کرتے ہیں کہ اقبال کے نزدیک مغربی تہذیب کی ترقی میں مسلمانوں کا حصہ بدیہی ہے۔ لہٰذا اگر مسلمان مغربی تہذیب سے کچھ لیتے ہیں تو یہ اپنے تمدنی ارتقاکو جاری رکھنے کے لیے اپنے ہی علوم سے استفادہ متصور ہو گا۔ تاہم اس سلسلے میں اہل اسلام کو مقلدانہ نہیں بلکہ تنقیدی نگاہ کا حامل ہونا چاہیے۔ اقبال کے نزدیک اسلامی ریاست مغرب کی طرح دین و سیاست کی دوئی پر قائم نہیں ہو سکتی۔ مغرب میں لا دین ریاست کا تصور مادہ و روح کی بنیادی دوئی کے تصور پر استوار ہوا۔ اسلام زندگی کے روحانی ودنیوی دونوں پہلوؤں پر یکساں حاوی ہے، لہٰذا کوئی مسلم ریاست ’’لادین ریاست‘‘ نہیں ہو سکتی۔ تاہم کسی مسلم ریاست میں امورِ دینیہ کے الگ شعبہ کا قیام یورپ میں کلیسا اور ریاست کی ایک دوسرے سے علیحدگی کے مترادف نہیں ۔ 

مذکورہ استدلال عجیب محسوس ہوتا ہے۔ اگر دین وریاست الگ الگ نہیں تو امورِ دینیہ کا الگ شعبہ چہ معنی دارد! اس سے لامحالہ یہ تاثر ابھرتا ہے کہ ریاست کے باقی امور، امورِ دینیہ نہیں ۔ہاں، یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ کوئی شعبہ امورِ حج سے متعلق ہو، کوئی امربالمعروف ونہی عن المنکر سے متعلق، کوئی عدل و قضا سے متعلق ،کوئی مالیات اور کوئی نظم و نسق سے متعلق، و علیٰ ہذاالقیاس۔ یہ ایک انتظامی تقسیم ہوگی اور یہ سارے شعبے ’’دینی شعبے‘‘ ہی ہوں گے۔

اقبال کے خیال میں جمہوریت اسلام کی فطری سادگی کے قریب تر ہے۔ اسے قبول کیا جا چکا ہے اور اس کے تحت بننے والا سربراہِ ریاست خلیفہ و امام کا آئینی بدل ہے۔ انگریز نے۱۸۶۴ء میں منصبِ قضا کا خاتمہ کرکے اسلام کو مسلم عوام کی زندگیوں میں داخل رکھنے کی سبیل ختم کر دی۔ اب ملا کا دخل شروع ہوا جس نے مسلم عوام کو ان نظریات کی لپیٹ میں لے لیا جو اس کی خود ساختہ اسلامی تشریح پر مبنی تھے۔ اقبال کے نزدیک مسلمانوں کے زوال کی تین بڑی وجوہ تھیں : زوال پذیر بادشاہت ،ملائیت اور تصوف۔اقبال نے جدید تجربات کی روشنی میں اجتہاد پر زور دیااور قدیم فقہ پر نظرثانی کی اہمیت اجاگر کی۔ وہ علما میں کچھ ایسے افرادکی موجودگی کے خواہشمند تھے جو میانہ روی (Moderation) شعار کریں اور ’’دوام فی التغیر‘‘ کا فلسفہ ملحوظ خاطر رکھیں ۔لیکن ہوا یہ کہ علما نے انہیں مغرب زدہ سمجھا اور مغرب پرستوں نے رجعت پسند۔ ہمارے ہاں آج تک وہ میانہ روی پیدا نہ ہوسکی جس کے اقبال خواہشمند تھے۔

راقم کے خیال میں مغرب زدوں کے اقبال کورجعت پسند اور روایت پسندوں کے مغرب پرست سمجھنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کی تحریروں میں دونوں طبقاتِ فکر کے لیے مسالہ موجود ہے ۔مجھے اکثر یہ خیال ہوتا ہے کہ اقبال اپنی شاعری میں بالعموم روایت پسند اور راسخ العقیدہ ہیں اور نثری تحریروں میں عموماً جدت پسند۔کبھی کبھی اس موضوع پر کچھ لکھنے کو جی چاہتا ہے، مگر ہنوز ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔

تیسرا مقالہ ’’اقبال اورعصر جدید میں اسلامی ریاست کا تصور‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اس میں مصنف نے اقبال کے خطباتِ مدراس بعنوان: Reconstruction of Religious Thought in Islam کی روشنی میں عصر جدید میں اسلامی ریاست کے تصور پر گفتگوکی ہے ۔اس میں سب سے پہلے ان خطبات کی اہمیت اجاگر کی گئی ہے اور ان پر علما کی تنقید کا ذکر کیا گیا ہے ۔مصنف لکھتے ہیں کہ سید سلیمان ندوی اور مولانا ابوالحسن علی ندوی ایسے علما کا کہنا ہے کہ یہ خطبات شائع نہ ہوتے تو اچھا تھا۔لیکن یہ کہنا بے جا ہے ،حق یہ ہے کہ ان خطبات کی اہمیت غیر معمولی ہے۔یہ اہل اسلام کو زندگی میں ہونے والے تغیر کو ملحوظ رکھتے ہوئے ترقی و عروج کے حصول پر آمادہ کرنے والے ہیں۔فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید اصلاحِ اسلام نہیں،اصلاحِ فکرِ اسلام ہے۔اقبال مسلمانوں کے زوال کی ذمہ دار ملائیت،تصوف اور ملوکیت کو سمجھتے ہیں،چنانچہ مسلمان سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں :اے کشتہ سلطانی و ملائی و پیری،لہٰذا وہ ان تینوں کی اصلاح پر زور دیتے ہیں۔مسلم معاشرے سے متعلق اقبال کے تین تصورات نہایت واضح ہیں۔ایک یہ کہ مسلم معاشرہ رنگ، نسل یا علاقے کے اشتراک کی بجائے اشتراکِ ایمان پر قائم ہو۔دوسرے یہ کہ اسلام کا تصور شوکت کے بغیر ممکن نہیں،یعنی اسلام غلبہ چاہتا ہے، مغلوبیت نہیں ۔تیسرے اس شوکت اور غلبے کا مظہر ،اور وہ ریاست ہے ۔اقبال مسلم معاشرے میں ہمہ پہلو تبدیلی کے آرزو مند تھے ۔خاص طور پر فقہِ اسلامی میں اصلاح کے۔پھر واضح کیا ہے کہ اسلامی ریاست کا اصول انتخاب ہے۔اقبال نے اپنے چھٹے خطبے میں اسلامی ریاست کے اصولوں پر بحث کی ہے ۔وہ جدیدیت کے ضمن میں Innovation کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں اور حضرت عمر کو مسلمانوں میں پہلا Innovator قرار دیتے ہیں جنہوں اسلامی قانون کو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا۔اقبال بدعتِ حسنہ کے نہ صرف قائل تھے بلکہ اسے ضروری سمجھتے تھے اور مسلمانوں پر زور دیتے تھے کہ وہ اس ضمن میں حضرت عمر کی سی ذہنیت پیدا کریں۔ اقبال اتحادِ اسلامی ہی نہیں، اتحادِ انسانی کا تقاضا کرتے ہیں ۔ان کے یہاں رواداری یا روحانی جمہوریت کا تصور ہے ۔ ان کے نزدیک مسلم ریاست میں مسلمان اشتراکِ ایمانی اور غیر مسلم اشتراکِ وطنی کی بنا پر باہم مربوط ہوں گے۔ گویا اشتراکِ ایمانی اور اشتراکِ وطنی اتحا دِانسانیت کی بنیادیں ہیں۔

اقبال کا نظریہ ہے کہ ضرورت پڑنے پر قرآنی احکام کی توسیع یا تحدید کی جا سکتی ہے، جیسا کہ تاریخ میں ہو ا،اور یہ کام اجماع کی شکل میں مسلمانوں کے منتخب نمائندوں کو کرنا چاہیے۔ آگے چل کر واضح کیا ہے کہ سیکولر ریاست دراصل اسلامی ریاست ہے، باقی سب سیکولر ہونے کی جھوٹی دعویدار ہیں۔ سیکولر کا ترجمہ ’’لا دین‘‘ کرنا غلط ہے ۔سیکولر ریاست وہ ہے جس میں لوگوں کو مذہبی آزادی حاصل ہو، مذہب اور نگ ونسل وغیرہ کاکوئی امتیاز نہ ہو ،اور یہ چیزیں صرف اسلامی حکومت یقینی بناتی ہے۔ باقی کسی بھی جگہ دیکھ لیں، کوئی نہ کوئی امتیاز نظر آئے گا۔بنا بریں اگر صحیح معانی میں کوئی آئیڈیل سیکولر ریاست یا روحانی جمہوریت ہو سکتی ہے تو وہ اقبال کی تجویز کردہ جدید اسلامی ریاست ہے۔ معیشت سے متعلق اقبال کا تصور یہ ہے کہ یہ قرآن پر مبنی ہو ،نہ اشتراکی اور نہ سرمایہ دارانہ۔سیاسی گروہ بندیاں حضور کے فوراً بعد وجود میں آگئی تھیں: انصار، مہاجرین،بنوہاشم وغیرہ۔بہر حال اقبال نے جو تصور رِیاست دیا، ہم اس سے کوسوں دور اور دوسری تیسری صدی کے تقاضوں کے اسیر بنے ہوئے ہیں۔ہم نے سیاسی آزادی حاصل کر لی، لیکن ہمارے ذہن آزاد نہیں ہوئے، حالانکہ اقبال اپنے چھٹے خطبے کے آخر میں کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو اپنے آپ کو روحانی طور پر تمام دنیا سے زیادہ آزاد سمجھنا چاہیے کہ آئندہ کوئی وحی نازل نہیں ہونی۔

چوتھا مقالہ’’ اسلامی فلسفۂ سیاست اور اقبال ‘‘کے عنوان سے ہے جس میں مصنف نے واضح کیا ہے کہ حضرت علی کے دور سے شروع ہو کر ایک ہزار سال میں اسلامی فلسفہ سیاست پر جو کچھ لکھاگیا ہے، اس سے چار رجحانات سامنے آئے۔ ایک کے نمائندہ الماوردی ہیں جو وقتی سیاسی صورت حال کے پیش نظر اسلامی نظریۂ سیاست کی وضاحت کرتے اور سیاسی سلطنت اور زبردستی امیر بن جانے والوں کو اسلامی احکام کے نفاذ کی شرط پر شرعی جواز فراہم کرتے ہیں۔ دوسرے رجحان کے نمائندہ الفارابی ہیں جو تخیلی ریاست کا نقشہ پیش کرتے ہیں ۔تیسرے کے ابن باجہ ہیں جو وقتی سیاسی حقیقت سے مایوس وناامید اور متنفر ہو کر اور معاشرے سے قطع تعلق کر کے اسلام کے طریقِ حیات کے مطابق زندگی گزارنے کی تلقین کرتے ہیں۔ چوتھے رجحان کے نمائندہ ابن تیمیہ ہیں جو وقتی سیاسی حقیقت کو حکومت شرعیہ میں منتقل کرنے کی خاطر مسلسل جدو جہد کی ضرورت واہمیت پر زور دیتے ہیں۔اقبال میں یہ چاروں رجحانات پائے جاتے ہیں ۔

پانچواں مقالہ ’’مسلم قومیت کا اصول‘‘ ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ اقبال احیائے اسلام کے شاعراور مفکر ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری کو احیائے اسلام کے لیے وقف کردیا تھا۔وہ مسلم ہند میں پہلے شخص ہیں جنہوں نے قومیتِ اسلام کا عقیدہ قبول کیا۔ ان کے نزدیک ہیومنزم(جذبۂ انسانیت )کی مغربی تحریک اسلامی اثرات کا نتیجہ تھی۔ان کا کہنا تھا کہ ہیومنزم سائنسی ترقی کا ثمر ہے اور سائنسی ترقی اسلامی تمدن کی وسعت پذیری ہے۔ ان کے مطابق آج کے مسلمانوں کی جہالت کی حد یہ ہے کہ جو کچھ بڑی حد تک ان کے تمدن سے برآمد ہوا ہے، وہ اسے بالکل اجنبی سمجھتے ہیں۔ مثلاً اگر کسی مسلم دانشور کو معلوم ہو کہ آئن سٹائن کے نظریے سے ملتے جلتے خیالات پر سائنٹفک اسلامی حلقوں میں سنجیدگی سے بحث ہوتی تھی تو ان کو اس کا موجودہ نظریہ بالکل اجنبی معلوم نہ ہو۔اقبال کو معلوم تھا کہ احیا سے متعلق ان کے افکار کی علما مخالفت کریں گے،لیکن ان کے نزدیک ان کا اظہار ضروری تھا۔

چھٹا مقالہ’’ اسلامی اتحاد کی اہمیت‘‘ ہے۔ اس میں مصنف نے لکھا ہے کہ اقبال نے مسلم مملکتوں کے سیاسی اشتراک پر زور دیا،اگر ان کے یہاں یکساں روحانی فضا قائم ہو تو۔حکومتی ڈھانچہ کی بنیاد جمہوری ہونی چاہیے اور سربراہِ ریاست کے اقتدار کی حدود مسلمانوں کی جماعت کی رضا مندی کے تابع ہونی چاہییں۔جمہوری روح برقرار رہے تو کوئی بھی نظام اختیار کیا جا سکتا ہے ،نظامِ خلافت وغیرہ کا قیام ضروری نہیں۔ معتزلہ کا یہی موقف تھا اوریہی درست ہے۔

ساتویں مقالے میں مصنف نے احیاے و تجدیدِ اسلام کے سلسلے میں برپا ہونے والی اٹھارویں صدی اور اس کے بعد کی تحریکوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بہت سے لوگ پید ہوئے جنہوں نے مختلف فلسفوں کے تحت احیاے اسلام کے لیے کام کیا۔ ان میں برصغیر کے سر سید ،روس کے مفتی عالم جان،ترکی کے نگہت پاشااور مصر کے مفتی عبدہ نے مغرب کے اچھے نظریات کو اسلام میں ضم کرنے پر زور دیا۔ جمال الدین افغانی نے مغربی قوت کے راز کو سمجھنے پر زور دیتے ہوئے اس کے مثبت عناصر کو اپنانے کی تلقین کی۔اسلام کا تصور طاقت کے بغیر نہیں اور آج کل طاقت سائنس و ٹیکنالوجی ہے، لہٰذا اس کا حصول ناگزیر ہے۔

کتاب کے دوسرے حصے ’’اقبالیات‘‘ کے دو حصے ہیں۔ ایک ’’شخصیات‘‘ اور دوسرا ’’ علمی مباحث‘‘ کے عنوان سے۔ شخصیات میں تین مقالے شامل ہیں۔ پہلے مقالے میں ’’اقبال ایک باپ کی حیثیت سے ‘‘کے عنوان سے گفتگو ہے۔ اس میں مختلف باتیں ہیں۔ جیسے اولاد کے لیے اقبال کی محبت میں ایک منفرد نوعیت کا ضبط تھا۔آپ بیٹے کی پیدائش کی دعا کے لیے حضرت مجدد کی درگا پر گئے تھے ۔جب شعر کی آمد ہوتی تو بعض اوقات رات کو سوئے ہوئے اٹھ جاتے اور علی بخش کو بلوا کر شعر لکھواتے ۔سست طبیعت تھے،میلے کپڑے کو دھلوانے کا بھی خیال نہ آتا ۔انگریزی لباس سے نفرت تھی۔مجھے شلوار قمیض اور اچکن پہننے کو کہتے۔ منیرہ اگر بالوں کو دوحصوں میں گوندھتی تو برا مانتے اور کہتے کہ یہ یہودیوں کاطریقہ ہے۔ دوسرے مقالے میں مصنف نے علامہ اقبال کے ایک نہایت ہی مخلص رفیق اور بہی خواہ چودھری محمد حسین ایم۔ اے کا تذکرہ کیا ہے۔ آپ وہ عظیم شخصیت ہیں جن سے اقبال کے مراسم اور اقبال فہمی کی گہرائی کا بیان ناممکن ہے۔علامہ کا کوئی شعر ایسا نہیں جو آپ کے ہاتھوں سے نہ گذرا ہو ، ان سے بہتر اقبال شناس شاید ہی کوئی پیدا ہو۔ علامہ نے مرض الوفات میں آپ ہی کو جاوید اور منیرہ کا گارڈین مقرر کیا۔ علامہ کے بعد آپ کا ان کی اولاد سے انتہائی مخلصانہ رویہ رہا۔ترقی پسند ادیبوں سے لگا نہ کھاتے۔ ہوم ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت کے دوران فحاشی و عریانیت کی بنا پر کئی ترقی پسند رسالے ضبط کروائے۔منٹو آپ سے سخت نالاں تھا۔ اس نے اپنے فحش افسانوں کے مجموعے کا انتساب آپ کے نام کر دیا تھا۔ مجھے نصب العین کا تعین کرکے لکھنے کی تلقین کرتے۔ غالب کو ناقابل معافی سمجھتے تھے کہ اس نے اسلام کی سر بلندی کے لیے انگشت تک نہ ہلائی۔ آخر میں مصنف نے اقبال کے سونپے ہوئے فرائض کی ادائیگی کے بعد چودھری صاحب کی اس دنیا سے رخصتی کا اور اقبال سے جا ملنے ،جس کا انہیں یقینِ کامل تھا،نہایت الم انگیز تذکرہ کیا ہے۔ اس تحریر سے چودھری صاحب اقبال کے واحد سچے عاشق لگتے ہیں۔تیسرے مقالے میں شورش کاشمیری کی اقبال شناسی کا تذکرہ ہے۔

دوسرے حصے ’’علمی مباحث ‘‘میں پہلا مقالہ ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور کی تصنیف ’’شاد اقبال‘‘ کے حوالے سے ہے جو اقبال اورمہاراجہ سر کشن پرشاد کے تعلقات اوران کے مابین ہونے والی خط وکتابت کی تفصیل پر مشتمل ہے۔ دوسرا مقالہ’’ حکیم الامت کے نام دوسراخط‘‘ کے عنوان سے ہے جس میں جاوید اقبال نے اپنے پدرِ محترم سے ان کے انتقال کے بعدپیداشدہ حالات کے تناظر میں اپنے قومی تشخص اور اسلامی ریاست کے بارے میں رہنمائی کی غرض سے ایک تمثیلی گفتگو کی ہے اورافکارِ اقبال کے حوالے سے بعض سوالات اٹھائے ہیں۔مثلاً انہوں نے لکھا ہے کہ اے پدر محترم! آپ کافلسفہ تھا کہ ر یاستیں اشتراکِ ایمانی کی بنا پر وجود میں آتی ہیں نہ کہ اشتراک علاقہ و وطن کی بنیاد پر۔ اس کے برعکس مولانا حسین احمد مدنی کاموقف تھا کہ قومیں اوطان ہی سے بنتی ہیں۔لہٰذابرصغیر کے مسلمانوں کی قومیت ہندی ہے، لیکن ملت کے اعتبار سے وہ مسلم ہیں۔ آپ کا کہنا تھا کہ قوم وملت کے ایک ہی معنی ہیں، لیکن دوسری طرف آپ متفرق مسلم قومی ریاستوں کے وجود کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔ ایچ اے آرگب اس پر حیرت کا اظہار کرتا ہے کہ آپ علاقائی قومیت کے مخالف ہوتے ہوئے بھی برصغیر میں مسلمانوں کے علیحدہ وطن کی تحریک میں پیش پیش تھے۔ پھر قیامِ پاکستان کے بعدکی صورتِ حال میں بیشتر مواقع پر ہم نے عملاً ثابت کر دیا کہ ہم مسلم قوم کی بجائے پاکستانی قوم ہیں ۔مثلاً افغانستان کے مقابلے میں غیر مسلم ممالک سے اتحاد کر کے۔ جہاں تک اسلامی ریاست کا تعلق ہے ،اس کی کوئی حتمی شکل تاریخ میں نظر نہیں آتی۔ کیا یہ ایک ’’آئیڈیل ‘‘ہے؟کیا مسلم ممالک میں اسمبلیوں کا وجود اسلام کی اصل پاکیزگی کی طرف رجوع ہے؟ روحانی جمہوریت سے آپ کی کیا مراد ہے؟دین کی کون سی تشریح خیر اور کون سی شر ہے؟ علما ایک دوسرے کو برداشت نہیں کرتے، قانون سازی میں رہنمائی کیسے کریں گے؟اگر پاکستانی اسمبلیاں اسلامی قانون سازی کرتی ہیں تو فقہ کا ایک نیا نیشنل مدرسہ وجود میں نہیں آجائے گا؟

اقبال کے نام دوسرے خط میں جاوید اقبال نے جو سوالات اٹھائے ہیں، وہ واقعی بڑے اہم ہیں اور ہر سنجیدہ فکر آدمی کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ راقم کومعاف کیا جائے تو وہ اس نوعیت کے اور سوالات بھی کرنا چاہے گا۔ مثلاً یہ کہ اقبال ایک طرف مغربی تہذیب اور جدت پسندی پر سخت تنقید کرتے ہیں اور دوسری طرف روایت پسندی کے بھی سخت ناقد ہیں۔ایک طرف تصوف اور صوفیا سے والہانہ عقیدت کا اظہار ہے اور دوسری طرف یہ خیال بھی ہے کہ تصوف مسلمانوں کے زوال ایک بنیادی وجہ ہے۔ کینٹویل اسمتھIslam in Modern History میں کہتا ہے کہ اقبال متضاد افکار کے حامل ہیں ۔وہ ایسے لبرل ہیں جو لبرلزم کو نشانہ تنقیئ بناتے ہیں اور ایسے صوفی ہیں جو صوفی ازم پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ یہ پڑھ کر ہمارے جیسے عقیدت مند یہ توجیہ کر کے اپنے آپ کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ دراصل اقبال اس راسخ الاعتقادی کے شاکی ہیں جو جمود کا شکا ر ہو اور ایسے تصوف کو خلافِ اسلام سمجھتے ہیں جو حرکت و عمل کا دشمن ہے۔ مگر یہ موضوع اتنا سادہ نہیں اور گہرے غور وفکر اور سنجیدہ تحقیق کا متقاضی ہے۔ لہٰذاچھا ہوتا اگر جاوید اقبال، اقبال کے جواب شکوہ کی طرح اس نوعیت کے سوالات کے جوابات بھی اقبال کی طرف سے دے دیتے کہ یہ کام کرنے کی اہلیت انہی جیسے چنیدہ لوگوں میں ہے۔ لیکن زیر نظر کتاب اس اہتمام سے یکسر خالی ہے۔

تیسرا مقالہ ’’اقبال کا تصورِ اجتماعیت‘‘ کے عنوان سے ہے۔ چوتھا مقالہ ’’اقبال کے مابعدالطبیعیاتی تصور میں اخلاقیات کا مقام‘‘ ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ جب قومیں جسمانی و روحانی انحطاط کا شکار ہو جاتی ہیں توان کے اخلاقی نظریے تنگ ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ملا برائیوں کے نام زیادہ جانتے ہیں اور اچھائیوں کے کم۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا ملا منفی عینیت اور منکریت میں پھنساہوا ہے۔ ایک طاقتور جسم میں ایک مضبوط عزم ہی اسلام کا اخلاقی نصب العین ہے۔ اسلامی کا سیاسی نصب العین جمہوریت کا قیام ہے۔ چوتھا مقالہ’’ اقبال کا تصورِ اجتھاد‘‘ اور پانچواں ’’اقبال کا نظرےۂ اجتہاد‘‘ ہے۔ ان میں واضح کیا گیا ہے کہ اقبال اجتہاد مطلق پر زور دیتے ہیں اور اجتہاد کا اختیار اسمبلی کود یتے ہیں۔ وہ ترکوں کے پارلیمنٹ کے قیام کے اجتہاد کو درست اور حقیقی سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک اسلام کی نمود ایک استقرائی فراست کی نمود تھی۔وہ سورہ رحمن کے الفاظ کل یوم ھو فی شان سے اپنی ساری حرکیات اخذ کرتے اور اسے قرآن کی روح قرار دیتے ہیں۔

چھٹا مقالہ ’’اقبال کے معاشی تصورات‘‘ پر ہے ۔ اس میں لکھاہے کہ اقبال نے بیسویں صدی میں مغرب سے درآمد شدہ نظریات کو ایسے ہی رد کیاجیسے بارہویں صدی میں غزالی نے یونانی تصورات کو رد کیاتھا۔ بعض لوگوں نے اقبال کو اشتراکیت کا حامی قرار دیا، حالانکہ اقبال سرمایہ داری اور اشتراکیت دونوں کو افراط و تفریط پر مبنی قرار دیتے تھے۔ ان کے نزدیک :طریق کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی۔ وہ قرانی تصورِ معیشت کو اپنانے پر زور دیتے ہیں ۔ساتواں مقالہ ’’اقبا ل اور سیکولزم‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اس میں فکرِ اقبا ل کی روشنی میں سیکولرزم کو لادینیت پر محمول کرنے کوغلط رویہ قرار دیا ا ور واضح کیا گیا ہے کہ اس سے مذہبی معاملات میں غیر جانبداری مراد لینا چاہیے۔آٹھواں مقالہ’’ خطباتِ اقبال کی عصری معنویت‘‘ ہے جس میں جدید دنیا میں ترقی و کامیابی کے لیے اصولِ حرکت وتغیر کے تناظر میں خطباتِ اقبال کو نئی نسل کے لیے غیر معمولی اہمیت کا حامل بتایا گیاہے ۔نویں مقالے میں اقبا ل کے ادبی مقام پر گفتگو کرتے ہوئے واضح کیا گیا ہے کہ اقبال خود کو اسلامی شاعر کہتے تھے اور شاعری کوحیات بخش دیکھنا چاہتے تھے،ورنہ اسے موت خیال کرتے تھے۔دسواں مقالہ’’ نظریاتِ اقبال کی عملی اہمیت‘‘ پر ہے جس کی اہم بات یہ ہے کی اقبال نے اپنی تصنیف علم الاقتصاد میں غربت کے مسئلے کا ایک حل آبادی کو کنٹرول کرنا بتایا ہے۔

تیسرا حصہ ’’پاکستانیات ‘‘کے عنوان سے ہے ۔ اس کا پہلا مقالہ’’ میراثِ قائدِ اعظم اور نظریۂ پاکستان ‘‘ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان ان معانی میں اسلامی ہے کہ اس کی بنیاد اسلامی اصولوں پر استوار کی گئی ہے جو عالمگیر ہیں اور تمام انسانیت پر ان کا اطلاق ہوتا ہے، ورنہ یہ سیکولر ریاست ہے۔ پاکستانی قومیت کی اساس اسلام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمان پہلے اسلام کی بنیادپر ایک قوم بنے، پھر پاکستان بنا۔ لہٰذا پاکستان نے کسی قوم کو جنم نہیں دیا، مسلم قوم نے پاکستان کو جنم دیا۔

قو میت کے قضیے میں راقم کی رائے میں اب اس بات پر اصرار درست نہیں کہ عملاً چونکہ آج کل اقوام علاقہ کی بنیاد پر مانی جاتی ہیں، لہٰذ مسلم قومیت کی بنیاد پر پاکستان کا مطالبہ یا قیام غلط تھا۔ بالفاظِ دیگر قومیت کے مذہبی یا وطنی تصور کو پاکستان حوالے سے منفرد تناظر میں دیکھنا چاہیے کہ تاریخِ مسلمانانِ عالم میں اسلام کے نام پر الگ قوم بن کر الگ وطن تخلیق کرنے کی صرف دو ہی مثالیں ہیں:مدینہ کی اسلامی ریاست اور پاکستان۔

دوسرا مقالہ’’ نظریۂ پاکستان اور زمینی حقائق ‘‘ہے ۔ اس میں اس نوعیت کی باتیں ہیں: تحریکِ جہاد اور تحریکِ خلافت کی ناکامی کی وجہ وقت کے تقاضوں سے انحراف تھا،جبکہ تحریک پاکستان اس غلطی سے محفوظ رہنے کی بنا پر کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ قائد اعظم نے کہا کہ ان کی مسلم لیگ نے مسلمانوں کو تین منفی قوتوں؛ انگریز، ہندو اور مولوی سے نجات دلائی۔ اقبال قدیم وجدید کی بحث کو غیر ضروری سمجھتے تھے کہ قدیم کی تعمیر نو کر لی جائے تو وہ جدید ہو جاتا ہے۔اقبال کا تصورِ جدید قدیم سے ملحق ہے، لیکن انقلابی تصورِ جدید قدیم کو منہدم کرنا ہے۔ قائد اعظم پارلیمانی نظام کو اسلامی اصولوں کے منافی نہیں سمجھتے تھے۔ ضیاء الحق نے ایسا اسلام نافذ کیا جو بانیانِ پاکستان کے تصور کے خلاف تھا۔ 

تیسرامقالہ’’ نصب العین کا مسئلہ ‘‘ہے۔اس میں تعمیری ادب کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے ترقی پسندی کے نام پر تخریبی اور پاکستان مخالف لٹریچر کی تخلیق و اشاعت کے ذمہ داروں کو ہدفِ تنقید بنایا گیا ہے۔ پاکستان میں کس قسم کا ادب مطلوب ہے ؟اس کی مثال کے لیے مصنف نے مشہور فرانسیسی ادیب موپساں کے ایک افسانے کا حوالہ دیا ہے جس میں ایک طوائف کے بھی اپنی قوم کے لیے بلند عزم کا اظہار ہوتا ہے۔احمد ندیم قاسمی سے متعلق کہا گیا ہے کہ وہ پاکستان سے بھی محبت کرتے ہیں اور فحش نگارترقی پسندوں سے بھی۔ مصنف نے زور دیا ہے کہ اسلامی فلاسفہ اور فقہا اوراہل مغرب کی سائنسی کتب کا اردو ترجمہ کیا جائے اور پاکستانی ادیب ان کا مطالعہ کریں اور اپنے لیے نصب العین کا تعین کریں۔

یہاں یہ عرض کرنا خالی از فائدہ نہ ہو گا کہ ترقی پسند یاادب برائے ادب اور بامقصد و تعمیری ادب اہل ادب کے یہاں ایک کافی ما بہ النزاع معاملہ ہے۔اسی بنا پر شاعروں اور ادیبوں کی عظمت کے معاملے میں آرا مختلف ہوتی ہیں۔ مثلاًترقی پسندوں کے نزدیک غالب اور فیض بڑے شاعر ہیں، لیکن تعمیری اور مقصدی ادب والوں کے نزدیک اقبال۔ تعمیری ادب بلا شبہ مطلوب ہے،اس کے لیے خشکی اور عدمِ عالمگیریت کا طعنہ قطعاً غیر مناسب اور سطحیت کا شاخسانہ ہے۔ رومانس کی ضرروری مقدار اس میں بھی شامل ہو سکتی ہے، یہ اول الذکر سے زیادہ آفاقی ہو سکتا ہے۔ لہٰذانسانیت نوازی کے نام پر اپنی قوم و ملت کی بد خواہی اوررومانس اور تسکینِ احساساتِ جمالیات و لطائف کے لیے فحش نگاری انسانی عظمت کے منافی کہی جانی چاہیے۔ 

تیسرا مقالہ’’ پاکستان۔منزل یا حصولِ منزل کا ذریعہ‘‘ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ فکرِ اقبال کی روشنی میں پاکستان منزل نہیں بلکہ حصول منزل کا ذریعہ ٹھہرتا ہے۔ چوتھے مقالے میں ’’حصول پاکستان کے مقاصد میں ناکامی کی ذمہ داری‘‘ پر بات کرتے ہوئے بیان کیا گیا ہے کہ روٹی کے مسئلے کو اولیت ملنی چاہیے تھی، لیکن حالات نے دفاع کے مسئلے کو پہلی اہمیت دے دی۔ پانچویں مقالے’’ جوشِ عمل اور استحکام میں حیات ہے‘‘ میں تعلیمی اداروں میں رواداری، دوستی اور ہمدردی کو ان کی اصل پہچان باور کراتے ہوئے ،یہاں سے عنقا ہوجانے پر اظہار افسوس کیا گیا ہے۔چھٹے مقالے ’’پاکستان میں منصبِ قضا کااحیا‘‘میں اسلام کی عظمتِ رفتہ کی بحالی کے لیے منصبِ قضا کی بحالی کی اہمیت واضح کی گئی ہے۔ ساتویں مقالے میں’’ پریس کی ذمہ داری‘‘ کے زیر عنوان اس حقیقت کو موکد کیا گیا ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا۔ آٹھویں مقالے میں اسلامی ریاست کی پانچ شکلیں قرار دیتے ہوئے اسے سیکولر ریاست ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

حصہ چہارم ’’ادب‘‘ کے عنوان سے ہے جس میں چھ مقالات ہیں ۔پہلے مقالے میں اسلامی تہذیب کے فروغ میں اردو ادب کے حصے کا نمایاں ہونا ثابت کیا گیا ہے۔ دوسرے مقالے ’’ادب ،کلچر اور خرد افروزی‘‘ میں واضح کیا گیا ہے کہ حیات و کائنات کا اصل سرچشمہ روحانی ہے۔جدید سائنس نے دہریوں کے خیالات کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ تیسرے مقالے میں ’’بدلتی ہوئی دنیا میں ادب کا کردار‘‘ کے زیر عنوان آرٹ برائے آرٹ کے نعرے کو محض دھوکا قرار دیا گیا ہے۔ چوتھے مقالے ’’ادیب ۔قوم پرستی اور لا دینیت‘‘ میں ادیب کا فرض بتایا گیا ہے کہ وہ اپنی ملت سے وفاداری کا دم بھرے۔ پانچویں مقالے میں ’’اپنا گریباں چاک ‘‘پر شریف کنجاہی کے نکیرانہ تبصرے کو ہدف تنقید بناتے ہوئے ان کی پیش کردہ متعدد باتوں کو افسانہ قرار دیا گیا ہے۔چھٹے مقالے’’ تاریخ مجھ سے بات کر‘‘ میں تاریخ کی روشنی میں فلاحی ریاست کے اسلامی تصور کو سامنے لاتے ہوئے فکرِ اقبال کے مطابق پاکستانی ریاست کی استواری پر زور دیا اور کہا گیا ہے کہ پاکستان میں اقبال کے تصور کے مطابق جدید جمہوری ،فلاحی ریاست قائم نہیں ہوئی۔

’’مقالات جاوید‘‘ بحیثیت مجموعی بلاشبہ نہایت وقیع اور فکر انگیز کتاب ہے جس کی اشاعت پر اقبال اکادمی مبارکباد کی مستحق ہے۔ اس سے نئے حالات کے تناظر میں اسلامی فکر و فلسفہ اورتصور رِیاست ومعیشت اور فکرِ اقبال کو سمجھنے کے کئی دریچے وا ہوئے ہیں۔تاہم اس میں متعدد نقائص بھی ہیں جن کو دور کرناناگزیر ہے۔ کتاب کی پروف خوانی میں سخت تساہل سے کا م لیا گیا ہے۔ کمپوزنگ کی غلطیاں جگہ جگہ دکھائی دیتی ہیں۔ مزید برآں کتاب میں اقبال اور جاوید اقبال کے خیالات مختلف مقالات میں بے طرح منتشرحالت میں ملتے ہیں۔ ان کی مناسب ترتیب و تہذیب کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہر مقالے میں یہ خیالات عنوان کی ضروریات اور تقاضوں کو ملحوظ رکھے بغیر پیش کر دیے گئے ہیں۔ مختلف اوقات میں لکھے جانے والے مقالات میں تکرار تو ایک عام اور ناقابلِ گرفت بات ہے،لیکن عنوا ن کوئی ہو اور اس میں اکثر مواد کسی اور موضوع سے متعلق پیش کر دیا جائے، بہرحال خوش کن امر نہیں، خصوصاً ایک بڑے آدمی کے مقالات پر مشتمل اور ایک بڑے ادارے کی طرف سے شائع شدہ کتاب میں۔ 

تعارف و تبصرہ

(دسمبر ۲۰۱۲ء)

تلاش

Flag Counter