مولانا حمید الدین فراہیؒ کا نام گرامی برصغیر کے علمی حلقوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ قرآن مجید کے فہم وتدبر کے باب میں مجتہدانہ انداز فکر کی بدولت مولانا علیہ الرحمۃ کی ایک امتیازی شان ہے اور اہل علم کا ایک مستقل حلقہ مولانا کے علمی وتحقیقی کام کے زیر اثر انھی کے منہج پر قرآنی علوم ومعارف کی خدمت کا تسلسل قائم رکھے ہوئے ہے۔ مولانا فراہی کی بلند پایہ تحقیقات کو جہاں اہل علم کے ہاں غیر معمولی پذیرائی ملی، وہیں قدرتی طور پر ان کی بعض منفرد اور اچھوتی آرا نقد وجرح کا موضوع بھی بنیں، بلکہ ان میں سے بعض تو اہل علم کے مابین معرکہ آرا بحثوں کا عنوان بھی بن گئیں۔ ایسی کم وبیش سبھی آرا کے پس منظر میں یہ اصولی بحث کارفرما ہے کہ تفسیر وحدیث کے ذخیرے میں موجود ان روایات کا علمی درجہ اور ان سے استفادہ کا صحیح منہج کیا ہے جو قرآن مجید کی آیات کے مطالب یا ان کے پس منظر پر مختلف حوالوں سے روشنی ڈالتی ہیں۔ مولانا فراہی کے منہج فکر میں ایسی روایات تفسیر کے ماخذ کے طور پر بنیادی نہیں، بلکہ ثانوی درجہ رکھتی ہیں اور انھیں قبول کرنے کے لیے ضروری ہے کہ خود قرآن کے داخلی نظام اور متن کی اندرونی دلالتوں کی حاکمیت ان پر قائم رکھی جائے، چنانچہ انھوں نے اپنے فہم کے مطابق اس معیار پر پورا نہ اترنے والی متعدد تفسیری روایات کو جو اس سے پہلے عام طور پر مستند سمجھی جاتی تھیں، قبول کرنے سے انکار کر دیا بلکہ ان پر شدید تنقید کی۔ ظاہر ہے کہ اس پر علمی بحث ومناقشہ کا سلسلہ شروع ہوا جو اب تک جاری ہے۔
زیر نظر کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس کے مصنف ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی بھارت کی معروف علمی شخصیت ہیں جو متنوع علمی موضوعات پر پچاس سے زائد کتابوں کے مصنف ہونے کے علاوہ مشہور تحقیقی جریدے ’’تحقیقات اسلامی‘‘ کی ادارت کی خدمت بھی انجام دے رہے ہیں۔ زیر نظر کتاب ان کے پانچ علمی مقالات کا مجموعہ ہے جو مولانا فراہی کے تفسیری منہج اور بعض تفسیری آرا کے تجزیہ وتنقید کے ضمن میں مختلف اوقات میں تحریر کیے گئے اور مختلف علمی جرائد میں شائع ہوتے رہے۔ اب انھیں افادۂ عام کی خاطر زیر نظر مجموعے میں یکجا کر دیا گیا ہے۔
پہلا مقالہ ’’تفسیر سورۃ الفیل‘‘ کے عنوان سے ہے اور اس میں سورۂ فیل کی تفسیر کے ضمن میں مولانا فراہی کی اس معروف رائے کا ناقدانہ جائزہ لیا گیا ہے جس کی رو سے ابرہہ کے لشکر پر سنگ باری اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے پرندوں نے نہیں بلکہ اہل مکہ نے کی تھی اور اللہ نے تیز وتند ہوا بھیج کر اس سنگ باری میں ایسی طاقت پیدا کر دی تھی جس سے ابرہہ کا پورا لشکر تہس نہس ہو کر رہ گیا۔ مولانا کی رائے میں سورۂ فیل میں جن پرندوں کا ذکر ہوا ہے، وہ مردار خور پرندے تھے جو سنگ باری کے لیے نہیں بلکہ ابرہہ کے لشکر کی لاشوں کو نوچنے کے لیے بھیجے گئے تھے۔ فاضل مصنف نے اس ضمن میں مولانا اور ان کے علمی مویدین کی طرف سے قرآن کے متن اور تاریخی روایات واشعار کے حوالے سے پیش کردہ دلائل وقرائن کا مفصل ناقدانہ جائزہ لیا ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ واقعہ فیل کی عملی تفصیلات کے حوالے سے عام مفسرین کی رائے ہی درست اور راجح ہے۔
راقم کی نظر میں فاضل مصنف کا اخذ کردہ نتیجہ درست ہے، البتہ دوسرے ناقدین کی طرح انھوں نے بھی زیادہ توجہ مولانا فراہی اور ان کے مویدین کے پیش کردہ تاریخی قرائن وشواہد اور قیاسات پر مرکو ز رکھی ہے جس سے خود قرآن کی زبان، اسلوب اور داخلی قرائن کی روشنی میں اس نقطہ نظر کی کمزوری واضح کرنے کا پہلو دب گیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مولانا کا زیربحث نقطہ نظر خود ان کے اپنے تفسیری منہج سے ہٹا ہوا ہے، کیونکہ اس پوری بحث کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ سورۂ فیل میں ’ترمیہم‘ کا فعل پرندوں کے لیے استعمال ہوا ہے یا اہل مکہ کے لیے۔ عام مفسرین اس کا فاعل ’طیرا’ کو قرر دیتے ہیں جبکہ مولانا فراہی کی رائے میں یہ مخاطب کا صیغہ ہے جس کا فاعل قریش ہیں۔ تاہم خود مولانا کے تفسیری اصول کے مطابق تفسیری وتاریخی روایات اور کسی بھی قسم کے خارجی قیاسات سے خالی الذہن ہو کر قرآن کے نفس متن کو پڑھا جائے تو ’وارسل علیہم طیرا ابابیل ترمیہم بحجارۃ من سجیل‘ کا بے تکلف اور متبادر مفہوم یہی بنتا ہے کہ رمی کو طیر سے متعلق قرار دیا جائے۔ کلام کو اس کے بالکل متبادر مفہوم پر محمول کرنا، جب تک کہ اس کے خلاف خود کلام میں کوئی داخلی قرینہ نہ ہو، مولانا کا بلکہ تمام مفسرین کا مسلمہ اصول ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہاں وہ کون سا قرینہ صارفہ ہے جو ’ترمی‘ کو ’طیرا‘ کے ساتھ متعلق ہونے سے روکتا ہے؟ مولانا اصلاحی نے اس کے جواب میں یہ نکتہ پیش کیا ہے کہ ’’فعل ’ترمی‘ چڑیوں کے لیے کسی طرح موزوں ہے ہی نہیں۔ چڑیاں اپنی چونچوں اور چنگلوں سے سنگ ریزے تو گرا سکتی ہیں، لیکن اس کو رمی نہیں کہہ سکتے‘‘، لیکن یہ ایک کمزور بات ہے، کیونکہ عربی زبان میں کسی فعل کے لیے اس کے نتیجے کے لحاظ سے لفظ استعمال کرنا ایک عام اسلوب ہے۔ پرندوں کا پتھر گرانا فی نفسہ یقیناً ’رمی‘ نہیں ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ تیز وتند ہوا بھیج کر اس سے وہی کام لے لیا جو رمی سے لیا جاتا ہے، چنانچہ اس کے لیے لفظ ’رمی‘ کا استعمال ہر اعتبار سے اسالیب زبان کے مطابق بلکہ بلاغت کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔ راقم الحروف نے یہ اعتراض ایک موقع پر استاذ گرامی جاوید احمد صاحب غامدی کی خدمت میں عرض کیا تو انھوں نے فرمایا کہ لفظ ’رمی‘ کے پرندوں کے لیے ناموزوں ہونے کا نکتہ بنیادی استدلال نہیں بلکہ بہت سے دوسرے قرائن کے ضمن میں ایک تائیدی نکتہ ہے۔ یہ بات درست ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی درست ہے کہ اس نکتے کے علاوہ خود کلام میں داخلی طو رپر اور کوئی قرینہ ایسا نہیں ہے جو ’ترمی‘ کو ’طیرا‘ سے متعلق ماننے سے روکتا ہو۔ مزید یہ کہ ’ارسل علیہم طیرا‘ کی تعبیر بھی اس صورت میں زیادہ بلیغ اور موثر محسوس ہے جب ان پرندوں کو عذاب الٰہی بنا کر بھیجا گیا ہو، نہ کہ عذاب کا شکار ہونے والے لشکر کی لاشوں کو نوچنے کے لیے۔
دوسری طرف ’ترمی‘ کو مخاطب کا صیغہ مان کر قرآن کے مخاطب اہل مکہ کو اس کا فاعل قرار دینا بھی بالکل تکلف لگتا ہے۔ اسے ’ارایت‘ اور ’الم تر‘ کے اسلوب پر قیاس نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اپنے مفہوم کے اعتبار سے لفظ رؤیت یا اس کے ہم معنی افعال اس کے پوری طرح متحمل ہیں کہ ان کی نسبت کلام کے ہر مخاطب اور سامع کی طرف کر دی جائے ، جبکہ فعل ’رمی‘ کی نوعیت یہ نہیں ہے۔ اسی طرح اسے ’تقتلون انبیاء اللہ‘ جیسی مثالوں پر بھی قیاس نہیں کیا جا سکتا جہاں عہد نبوی کے یہود کی طرف صدیوں پہلے ان کے آباواجداد کے ارتکاب کردہ جرم کی نسبت کی گئی ہے، کیونکہ اس اسلوب میں کسی گروہ کو بحیثیت گروہ مخاطب بنایا جاتا ہے اور اس کے لیے جمع کا صیغہ لایا جاتا ہے نہ کہ واحد کا، چنانچہ اگر سورۂ فیل میں یہ اسلوب اختیار کرنا پیش نظر ہوتا تو ’ترمیہم‘ کے بجائے ’ترمونہم‘ کا صیغہ استعمال کیا جاتا۔ خلاصہ یہ کہ عام مفسرین کی اختیار کردہ رائے کلام سے بالکل متبادر طو ر پر مفہوم ہے اور اس کے خلاف کوئی قرینہ صارفہ موجود نہیں، جبکہ مولانا فراہی کی تاویل کی صورت میں کلام میں ایک ایسا اسلوب فرض کرنا پڑتا ہے جو غیر معروف اور غیر مانوس ہے اور بعض ملتے جلتے اسالیب پر قیاس کے علاوہ بعینہ اس اسلوب کی کوئی نظیر کم از کم قرآن میں موجود نہیں۔ ان نکات کی روشنی میں، راقم کے نزدیک مولانا فراہی کی زیربحث تاویل خود ان کے اپنے تفسیری اصول سے متجاوز قرار پاتی ہے۔
بہرحال مصنف نے متعدد پہلووں سے اس رائے پر عمدہ علمی نقد کیا ہے، لیکن توازن کو ملحوظ رکھتے ہوئے بعض ناقدین کی طرح مولانا کی اس راے کے ڈانڈے انکار معجزات یا نیچریت کے ساتھ ملانے کے بجائے (جس کا کوئی جواز اس لیے نہیں کہ مولانا کی بیان کردہ صورت یعنی اہل مکہ کی سنگ باری سے اصحاب فیل کے تہس نہس ہو جانے میں بھی معجزے کا پہلو پوری طرح پایا جاتا ہے) اس کے وجود میں آنے کا سبب یہ متعین کیا ہے کہ ’’اشعار عرب کے وسیع وعمیق مطالعہ کے نتیجہ میں مولانا کے ذہن میں عربوں کی اخلاقی عظمت، شجاعت وبہادری، شہ سواری اور شمشیر زنی کی تصویر مرتسم ہو گئی تھی، اس لیے ان کو شبہ ہوا کہ انھوں نے لشکر ابرہہ سے ضرور مقابلہ آرائی کی ہوگی۔‘‘ (ص ۴۲)
’’تفسیری روایات‘‘ کے زیر عنوان دوسرے مقالے میں تفسیری روایات سے متعلق مولانا فراہی کے زاویہ نظر کو موضوع بنایا گیا ہے اور ان کے اصولی مسلک کے علاوہ تفسیری روایات کی تنقید کے مختلف پہلو بھی مثالوں کے ساتھ واضح کیے گئے ہیں۔ مصنف نے بتایا ہے کہ مولانا کے ہاں بعض روایات سے غلط استشہاد کی مثالیں موجود ہیں۔ اسی طرح مولانا نے اپنے زاویہ نگاہ کے تحت بہت سی صحیح روایات کو رد جبکہ بعض ضعیف روایات کو قبول کیا ہے۔ مصنف نے اپنی تحقیق کا حاصل یہ بتایا ہے کہ ’’تفسیر قرآن میں تفسیری روایات جتنی اہمیت کی مستحق تھیں، مولانا فراہیؒ نے انھیں اتنی اہمیت نہیں دی ہے۔‘‘ راقم کی رائے میں تفسیری روایات اور خاص طو رپر شان نزول کی روایات کو، چاہے ان کی سند صحیح ہو، زیادہ اہمیت نہ دینے کے معاملے میں مولانا فراہی اصولی طو رپر منفرد نہیں ہیں۔ یہ مسلک تفسیر بالماثور کے منہج کے مطابق اگرچہ نہیں، لیکن ایک مستقل تفسیری مسلک کے طو رپر اکابر مفسرین کے ہاں اس کی نمائندگی ملتی ہے۔ البتہ اس معاملے میں یقیناًمولانا فراہی سے اختلاف کیا جا سکتا ہے کہ جن مخصوص روایات کو انھوں نے رد کیا ہے، وہ فی الواقع قرآن کی داخلی دلالتوں کے منافی ہیں بھی یا نہیں۔
’’حدیث فہمی‘‘ کے عنوان سے تیسرے مقالے میں مولانا فراہی کے ہاں حدیث کے فہم اور اس سے علمی استفادہ کے متنوع پہلووں پر روشنی ڈالی گئی ہے، جبکہ ’’کچھ احادیث سے غلط استدلال‘‘ اور ’’کچھ احادیث کی صحت سے انکار‘‘ کے ذیلی عنوانات کے تحت بعض آرا پر تنقید بھی کی گئی ہے۔ اسی مقالے میں ’ویعلمہم الکتب والحکمۃ‘ کی تفسیر میں مولانا فراہی کی اس رائے پر بھی تنقید کی گئی ہے کہ یہاں ’الکتاب‘ سے مراد قرآن اور ’الحکمۃ‘ سے مراد سنت نہیں، بلکہ ’الکتاب‘ سے مراد قرآن مجید میں بیان کیے جانے والے احکام وقوانین جبکہ ’الحکمۃ‘ سے مراد عقائد، اخلاق فاضلہ اور حکمت شریعت ہے، گویا یہ دو الفاظ قرآن مجید ہی کے دو مختلف پہلو رکھنے والے مضامین کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔ مولانا نے اپنی اس رائے کے تفصیلی دلائل اپنی کتاب ’’مفردات القرآن‘‘ میں بیان کیے ہیں، تاہم مصنف کو اس سے اتفاق نہیں ہے۔ یہاں مصنف کی تنقید سرسری اور غیر اطمینان بخش محسوس ہوتی ہے اور دیگر نکات کے علاوہ مولانا فراہی کا یہ نکتہ بے حد قابل غور دکھائی دیتا ہے کہ حدیث وسنت میں حکمت پائے جانے کے باوجود اس کے لیے خاص طور پر ’الحکمۃ‘ کا عنوان اختیار کرنا اس لیے موزوں نہیں کہ اس میں قوانین اور احکام بھی بکثرت موجود ہیں۔ راقم کا طالب علمانہ رجحان یہ ہے کہ ’یتلوا علیہم آیاتہ‘ کے بعد ’ویعلمہم الکتب والحکمۃ‘ کو قرآن کے مضامین کے ساتھ مخصوص ماننے یا ’الحکمۃ‘ کا مصداق خاص طور پر سنت کو قرار دینے کے بجائے ان دونوں الفاظ کو عموم پر رکھتے ہوئے ’الکتاب‘ سے احکام وقوانین جبکہ ’الحکمۃ‘ سے عقائد واخلاق وغیرہ مراد لینا زیادہ موزوں ہے، خواہ یہ قرآن میں وارد ہوئے ہوں یا حدیث وسنت میں، کیونکہ آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کار منصبی کی وضاحت کی گئی ہے اور آپ نے احکام شریعت اور حکمت دین کی تعلیم امت کو قرآن کی صورت میں بھی دی ہے اور سنت اور حدیث کی صورت میں بھی۔
چوتھے مقالے میں مصنف نے مولانا فراہی کی ایک ناتمام اور غیر مطبوعہ تصنیف ’’احکام الاصول باحکام الرسول‘‘ کے بعض اقتباسات کا ترجمہ پیش کیا ہے جو ڈاکٹر معین الدین اعظمی کے پی ایچ ڈی کے مقالے ’’الفراہی واثرہ فی تفسیر القرآن‘‘ سے ماخوذ ہیں۔ مولانا نے اس کتاب میں حدیث اور قرآن کے باہمی تعلق کے مختلف پہلووں پر اپنے اصولی نقطہ نظر کی وضاحت کی ہے اور احادیث کے ذریعے قرآن میں نسخ یا تخصیص کے نظریے کی تردید کرتے ہوئے ایسے تمام احکام کو قرآن مجید پر مبنی اور ان سے ماخوذ قرار دیا ہے۔ اسی کتاب میں مولانا نے زانی کے لیے سزاے رجم کے قرآن کی آیت محاربہ پر مبنی ہونے کی وہ مشہور رائے ظاہر کی ہے جسے بعد میں مولانا امین احسن اصلاحی نے زیادہ شرح وبسط کے ساتھ ’’تدبر قرآن‘‘ میں پیش کیا اور جو ایک زور دار علمی مباحثے کا عنوان بنی رہی۔ مصنف نے اس مختصر مقالے میں مولانا کی ان آرا پر کوئی تعلیق یا تبصرہ کرنے کے بجائے صرف اقتباسات کا ترجمہ کرنے پر اکتفا کی ہے۔
کتاب کا آخری مقالہ ’’مناسک حج کی تاریخ‘‘ کے زیر عنوان ہے اور اس میں صفا ومروہ کی سعی، رمی جمار اور سیدنا اسماعیل کو ذبح کرنے کے حوالے سے حضرت ابراہیم کے خواب سے متعلق مولانا فراہی کی مخصوص آرا کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔ عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی بعض مرفوع روایات کی بنیاد پر عام رائے یہ ہے کہ صفا ومروہ کے مابین سعی حضرت ہاجرہ کی اس بھاگ دوڑ کی یاد میں کی جاتی ہے جو انھوں نے سیدنا اسماعیل کے لیے پانی کی تلاش میں کی جبکہ جمرات پر کنکر مارنا حضرت ابراہیم کے شیطان کو پتھر مارنے کی یاد کو تازہ کرتا ہے۔ مولانا فراہی نے ان روایات پر تنقید کرتے ہوئے متبادل توجیہ یہ پیش کی ہے کہ صفا ومروہ کی سعی کی رسم دراصل حضرات ابراہیم کی اس دوڑ دھوپ کی علامت ہے جو انھوں نے راہ خدا میں کی جبکہ جمرات کی رمی شیطان کے بجائے ابرہہ کے لشکر پر اہل مکہ کی طرف سے کی جانے والی سنگ باری کی یادگار ہے۔ اسی طرح ان کے خیال میں حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے کو ذبح کرنے سے متعلق جو خواب دیکھا، وہ ایک تمثیلی خواب تھا اور اس میں انھیں بیٹے کو حقیقتاً ذبح کرنے کا نہیں بلکہ راہ خدا میں نذر کر دینے اور خدا کے گھر کی خدمت کے لیے وقف کر دینے کا حکم ہوا تھا جسے انھوں نے ظاہری اور لفظی مفہوم میں لے کر اس پر عمل کرنا چاہا۔ مولانا فراہی کی مذکورہ آرا کی تائید مولانا شبلی نعمانی اور سید سلیمان ندوی کے ہاں بھی ملتی ہے۔ مصنف نے ان آرا پر نقد کرتے ہوئے نہایت قابل غور علمی سوالات اٹھائے ہیں اور مقبول عام موقف کی عمدہ اور مضبوط ترجمانی کی ہے۔ (رؤیائے ابراہیمی کے مفہوم ومطلب کے حوالے سے مذکورہ رائے کی تنقید میں جناب مولانا ارشاد الحق اثری نے بھی ایک فاضلانہ مقالہ سپرد قلم کیا ہے جو چند ماہ قبل ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ لاہور میں قسط وار شائع ہوا ہے۔)
۲۱۶ صفحات کے مختصر حجم پر مشتمل یہ کتاب عمدہ علمی نکات اور قابل مطالعہ مواد پر مشتمل ہے جس سے قرآنی علوم کے شائقین کو ضرور استفادہ کرنا چاہیے۔ مصنف کا تنقیدی اسلوب علمی، مدلل اور سلجھا ہوا بھی ہے اور متعلقہ علمی مباحث پر ان کی پختہ گرفت کا آئینہ دار بھی۔ البتہ یہاں یہ وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ مولانا فراہی اور ان کے علمی کام کا اصل تعارف سورۂ فیل کی تفسیر یا مناسک حج وغیرہ سے متعلق ان کی منفرد آرا نہیں۔ ان کی مرجوح اور علمی طو رپر کمزور آرا کو یقیناًنقد وجرح کا موضوع بننا چاہیے، لیکن اس کے ساتھ یہ توازن بھی ملحوظ رہنا چاہیے کہ مولانا قرآنی علوم ومعارف کے ایک بلند پایہ محقق ہیں اور کئی پہلووں سے ان کے افادات وتحقیقات نے قرآن پر غور وفکر کے بالکل نئے باب وا کیے ہیں۔ فاضل مصنف نے اسی تناظر میں کتاب کے ’’پیش لفظ‘‘ میں یہ برمحل وضاحت کی ہے کہ: ’’وہ شخص بڑا نادان ہوگا جو ان سے یہ تاثر قائم کرے کہ ان میں مولانا فراہیؒ کی تنقیص اور ان کی عظمت کو داغ دار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان مقالات سے ان کی عظمت پر کوئی حرف آنے والا نہیں ہے۔ انھوں نے تدبر قرآن کی جو جوت جگائی ہے اور قرآن کریم کو تمام علوم میں مرکزی مقام دینے کی جو تحریک برپا کی ہے، اس کی بنا پر وہ بجا طو رپر عہد حاضر کے امام قرار پاتے ہیں۔‘‘ (ص ۱۲)
کتاب عمدہ کاغذ پر معیاری انداز میں طبع کی گئی ہے۔ اس کی قیمت ۱۰۰ روپے درج ہے اور اسے دج ذیل پتے سے طلب کیا جا سکتا ہے:
مکتبہ اسلام، نشیمن مارکیٹ، میڈیکل کالج روڈ، علی گڑھ۔۲۰۲۰۰۲
(تبصرہ نگار: محمد عمار خان ناصر)