۲۶ ستمبر کو میں ’الشریعہ‘ کے زیر نظر شمارے کی ترتیب کو آخری شکل دے رہا تھا کہ صبح نو بجے کے قریب جناب مولانا مفتی محمد زاہد صاحب نے فون پر یہ اطلاع دی کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی انتقال کر گئے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ خبر اتنی اچانک اور غیر متوقع تھی کہ ایک لمحے کے لیے مجھے یقین نہیں آیا، لیکن مفتی صاحب نے بتایا کہ خبر مصدقہ ہے اور وہ ڈاکٹر محمد الغزالی سے بات کرنے کے بعد ہی مجھے اطلاع دے رہے ہیں۔ میں نے فوراً ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی صاحب سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ گزشتہ رات بارہ بجے کے قریب ڈاکٹر صاحب کو ہارٹ اٹیک ہوا جس پر انھیں اسپتال لے جایا گیا۔ فجر کی نماز کے وقت ان کی طبیعت قدرے بہتر تھی اور انھوں نے نماز بھی ادا کی، لیکن نماز کے بعد دوبارہ ہارٹ اٹیک ہوا جس سے ڈاکٹر صاحب جانبر نہ ہو سکے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
گزشتہ کچھ عرصے سے مسلسل یہ کیفیت ہے کہ کم وبیش ہر مہینہ دینی جدوجہد کے مختلف شعبوں میں نمایاں مقام رکھنے اور گراں قدر خدمات انجام دینے والے اہل علم وفضل کی جدائی کا پیغام لے کر آتا ہے اور بظاہر اگلی نسل میں ان کی جگہ لینے والے افراد دکھائی نہیں دیتے، جبکہ ڈاکٹر محمود احمد غازی کے علم وفضل اور دینی خدمات کا تو دائرہ بھی وہ تھا کہ جس میں امت کی راہ نمائی کی اہلیت رکھنے والے حضرات کو انگلیوں پر شمار کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب قدیم وجدید علوم پر گہری نظر رکھتے تھے، دور جدید کے فکری وتہذیبی مزاج اور نفسیات سے پوری طرح باخبر تھے اور آج کے دور میں اسلام اور مسلمانوں کو فکر وفلسفہ، تہذیب ومعاشرت، علم وتحقیق اور نظام وقانون کے دائروں میں جن مسائل کا سامنا ہے، وہ وسعت نظر، گہرائی اور بصیرت کے ساتھ ان کا تجزیہ کر سکتے تھے۔ ان کی عملی خدمات کا دائرہ بھی مختلف شعبوں میں پھیلا ہوا تھا اور انھوں نے بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، ادارۂ تحقیقات اسلامی اور اسلامی نظریاتی کونسل جیسے اداروں کے ساتھ ساتھ بیرون ملک کی اعلیٰ جامعات کو بھی اپنے علم وفضل سے سیراب کیا،جبکہ وفات کے وقت وہ وفاقی شرعی عدالت کے جج کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے تھے۔
۲۰۰۵ء میں ڈاکٹر صاحب نے الشریعہ اکادمی میں دور جدید کے فکری وتہذیبی چیلنج کے حوالے سے اہل علم کی ذمہ داریوں کے موضوع پر ایک وقیع خطبہ ارشاد فرمایا تھا جو بے حد مقبول ہوا اور برصغیر کے دسیوں رسائل وجرائد میں اسے نقل کیا گیا۔ اسی تناظر میں گزشتہ رمضان کے دوران میں، اکادمی کی طرف سے ڈاکٹر صاحب سے گزارش کی گئی کہ وہ دوبارہ یہاں تشریف لائیں اور ’’دینی مدارس میں تدریس قرآن‘‘ کے موضوع پر مجوزہ سیمینار میں اپنے نتائج فکر سے اہل علم کو مستفید فرمائیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ازراہ عنایت یہ دعوت قبول فرمائی اور ان کے مشورہ سے اس سمینار کے لیے ۳؍ اکتوبر کی تاریخ طے ہوئی، لیکن قضا وقدر کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں اور ان کی حکمتیں خالق کائنات خود ہی جانتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ڈاکٹر صاحب اور دیگر مرحوم بزرگوں کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات کو بلند فرمائے، ان کی خدمات کو اپنی بارگاہ میں قبولیت سے مشرف فرمائے اور ان حضرات کے رخصت ہو جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے، اس کی تلافی کے لیے امت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔ اللہم لا تحرمنا اجرہم ولا تفتنا بعدہم۔ آمین