مکاتیب

ادارہ

(۱)

مکرمی جناب عمار خاں ناصر صاحب 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ

سب سے پہلے تو آپ کا شکر گذار ہوں کہ آپ نے میری تحریر ’’پر تشدد تحریکیں اور دیوبندی فکر ومزاج ‘‘ کو ’الشریعہ‘ کے نومبر/ دسمبر ۲۰۰۹ء کے شمارے میں جگہ دے کر ان خیالات کو اس قابل سمجھا کہ انہیں اپنے قارئین تک پہنچائیں۔ اس سے پہلے شیخ الحدیث حضرت مولانا سرفراز خاں صاحب ؒ کے بارے میں الشریعہ کا ضخیم خصوصی نمبر ملا۔ اتنے قلیل عرصے میں اتنی ضخیم اور معیاری پیش کش پر آپ، حضرت ؒ کے تمام عقیدت مندوں اور مداحوں کی طرف سے مبارک باداور شکریے کے مستحق ہیں، البتہ حضرت کے تلامذہ اور اور اولاد واحفاد کے حوالے سے ایک مستقل باب کی کمی محسوس ہوئی، اس لیے کہ حضرت جیسی شخصیت کا تعارف اس کے بغیر نامکمل سا محسوس ہوتا ہے ۔

الشریعہ کے دسمبر/ نومبر کے شمارے میں آپ کا مضمون بعنوان: ’’ جہاد کی فرضیت اور اس کا اختیار : چند غلط فہمیاں ‘‘ بھی نظر نواز ہوا ۔ ایک طالب علم کے طور پر مضمون کا اپنے استفادے کے لیے مطالعہ کیا۔ اسی وقت سے ارادہ ہورہا تھا کہ اس پر کچھ عرض کروں، لیکن ماشاء اللہ آپ کے مضامین میں علمی گہرائی اور گیرائی ہوتی ہے، اس لیے اس پر کچھ کہنے کے لیے بھی محنت اور مراجعتِ کتب کی ضرورت ہوتی ہے جس کا موقع نہیں مل سکا۔ خیال ہواکہ کچھ غیر مربوط سے خیالات ہی آپ کے ملاحظے کے لیے پیش کردیے جائیں۔

مضمون کے دو مرکزی سوالات (۱) جہاد کی فرضیت میں عملی حالات اور کسی پالیسی کے ممکنہ اثرات ونتائج کا دخل (۲) جہاد کا فیصلہ کرنے کا اختیار کس کو حاصل ہے، ان دونوں سوالات پر اپنے نقطۂ نظر کو فقہی عبارات کی روشنی میں ثابت کرنے میں آپ کامیاب رہے ہیں۔ جس انداز سے آپ نے مختلف مقامات سے فقہی عبارات کو جمع کردیا ہے، وہ صرف قابلِ مباک باد ہی نہیں قابلِ رشک بھی ہے۔ حضرت شیخ الحدیث ؒ کی تیسری نسل میں کتابی کیڑا ہونے کا وائرس اور علمی عرق ریزی کی روایت منتقل ہوتا دیکھ کر خوشی ہوتی ہے،اللہم زد فزد۔

میرے ناقص سے خیال میں ان دو سوالوں میں سے پہلے سوال کو مزید بعض پہلوؤں سے بھی دیکھا جاسکتا ہے ، مثلاً :

(۱) آپ کا موضوع اگرچہ ان دونوں سوالوں کو فقہی زاویے سے دیکھنا ہے ، لیکن ان میں سے پہلے سوال پر سیرتِ طیبہ کی روشنی میں بھی کافی کام کی گنجائش ہے ۔ عہدِ رسالت کے غزوات اور سرایا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے طرزِ عمل میں اس حوالے سے کافی روشنی ملنے کی امید ہے۔

(۲) یہ بات فقہاء واصولیین کے ہاں مسلّمہ ہے کہ ہر حکمِ شرعی میں استطاعت کی شرط ملحوظ ہوتی ہے۔ جہاد جیسے حکم میں استطاعت ہونے یا نہ ہونے کا معیار بظاہر کسی کاروائی کے ممکنہ نتائج کو بنایا جاسکتاہے۔ اس وقت بالتعیین حوالہ تو یاد نہیں آرہا، لیکن مولانا اشرف علی تھانوی ؒ نے کسی جگہ تغییرِمنکر والی مشہور حدیث ’’ من رأی منکم منکراً الخ ‘‘ کی تشریح میں یہ فرمایاہے کہ تغییر بالید یا تغییر باللسان کی استطاعت سے مراد محض یہ نہیں کہ انکارِ منکر کے لیے آپ کوئی عملی یا زبانی قدم اٹھا سکیں ، بلکہ مراد یہ ہے کہ اس اقدام کے نتائج کا تحمل بھی ہوسکے۔ مولانا تھانوی ؒ کا استدلال یہ ہے کہ مثلاً ایک آدمی شراب کا جام پینے کے لیے ہاتھ میں پکڑے ہوئے ہے ۔ اس موقع پر یہ تو ہوسکتاہے کہ ایک شخص میں اتنی جسمانی طاقت ہو کہ وہ اس سے یہ جام چھین لے یا اسے چھَلکا کر شراب گرا دے اور دوسرا شخص اتنی طاقت نہ رکھتا ہو، لیکن زبان سے کہنے کی حد تک تو ہر وہ شخص جو گونگا نہیں ہے، اسے یہ کہنے کی طاقت رکھتا ہے کہ یہ حرام ہے، اسے مت پیجئے، جبکہ حدیث میں تغییر باللسان کے بارے میں بھی ’’فإن لم یستطع‘‘ کے لفظ ہیں جو زبان کے بارے میں بھی استطاعت کے پائے جانے یا نہ پائے جانے کی دوصورتوں کو فرض کررہے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہاں استطاعت سے مراد محض زبان سے کہہ دینے کا کام نہیں ہے، بلکہ اس سے آگے کی کوئی چیز مراد ہے اور وہ یہی ہے کہ بات کہہ دینے کے بعد اس کے ممکنہ نتائج کا تحمل بھی ہو۔ اگر کسی شخص میں ان نتائج کا تحمل نہیں ہے تو اس میں تغییر باللسان کی استطاعت نہیں ہے۔ بظاہر استطاعت کی یہی تشریح حدیث کے تغییر بالید والے حصے اور اسی نوعیت کے دیگر ا حکام میں ہونی چاہیے۔

(۳) استطاعت ہی کے سلسلے کی ایک کڑی یہ ہے کہ سورۂ انفال کی آیت ’’الآن خفف اللہ عنکم الخ‘‘ کا مطلب تمام فقہاء کے ہاں یہی ہے کہ اگر دشمن کی تعداد دوگنی سے زائد ہو تو میدان سے بھاگنے کی گنجائش ہے۔ جہاں میدان سے بھاگنے کی گنجائش ہوگی، وہاں قتال نہ کرنے یا دشمن کی طاقت دیکھ کر جو بچتاہے، کم ازکم وہ بچانے کی خاطر کسی قدر کمپرومائز کی بھی گنجائش ہوگی۔ موجودہ حالات میں یہ بات دیکھنے کی ہے مسلمان اور مدّ مقابل کافر طاقت میں صرف تعداد ہی کا توازن دیکھا جائے گا یا طاقت کے دوسرے پہلوؤں کو بھی مدّنظر رکھا جائے گا؟ اس لیے کہ جدید ذرائعِ جنگ نے تعداد کی اہمیت کم کردی ہے۔ عین ممکن ہے کہ تلاش کرنے سے قدیم فقہاء اور مفسّرین کے ہاں بھی اس سوال کا صریح جواب مل جائے۔ ۲۰۰۱ء میں جب طالبان نے کابل ،بگرام اور قندھار سمیت بہت سے شہروں اور محاذوں سے باقاعدہ انخلا کا فیصلہ کیا تھا جسے شکست کی بجائے ’’ حکمت عملی‘‘ سے تعبیر کیا گیا تھا، اس کے لیے مجھے یاد نہیں کہ ان حضرات کے پیشِ نظر کیا شرعی دلیل تھی۔ بظاہر ان کے پاس شرعی جواز یہی ہوگا کہ انہوں نے محسوس کیا ہوگا کہ دشمن کی طاقت اتنی زیادہ ہے کہ اب ان محاذوں پر رہتے ہوئے مقابلہ کرنا مشکل ہے۔

(۴) فقہاء واصولیین کے ہاں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ جہاد حسن لغیرہ ہے ، حسن لعینہ نہیں ہے۔ حسن لغیرہ ہونے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ حسن تب بنے گا جبکہ اس کے ذریعے وہ غیر حاصل کرنا ممکن ہو جس کے لیے اسے حسن قرار دیا گیا ہے۔ اس کا حاصل بھی یہی نکلتاہے کہ جہاد یا قتال جیسے امور میں ان مرتب ہونے والے ممکنہ نتائج کی خاص اہمیت ہے۔ غالباً اسی امر کی طرف حضرت ابنِ عمرؓ نے اپنے اس جملے میں اشارہ کیا ہے: ’’ وأنتم تریدون أن تقاتلوا حتی تکون فتنۃ ویکون الدین لغیر اللہ‘‘ ۔

(۵) اسی طرح ایسٹ انڈیا کمپنی کی برّ صغیر میں آمد سے لے کر ۱۹۴۷ء تک یہاں کے فقہا اور مسلمان مفکرین کی سوچ اور اس میں ارتقا کا جائزہ بھی موضوع کے کئی گوشے مزید واضح کرسکتاہے۔

آپ کے اس مضمون میں میرے لیے خوشی کا باعث بننے والی ایک بات یہ بھی ہے کہ آپ نے (ص ۴۲ ) غزوۂ بدر کے بارے میں ابنِ ہشام کے حوالے سے یہ تحریر کیاہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدا میں صحابہ کو نکلنے کی جو ترغیب دی تھی، وہ قریش کے تجارتی قافلے کے حوالے سے تھی، جبکہ جس حلقۂ فکر کی طرف عموماً لوگ آپ کو منسوب کرتے ہیں، اس کی بعض شخصیات سے میں نے سنا کہ وہ اس بات کو نہ صرف قرآن کے خلاف قرار دیتے تھے بلکہ اسے لوٹ مار کی ایک شکل قرار دیتے تھے جس کی نسبت ظاہر ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہیں کی جاسکتی۔ آپ کی ذکر کردہ بات سے اندازہ ہوا کہ آپ اپنے حلقۂ فکر میں پائے جانے والی آرا سے اختلاف بھی فرماتے ہیں اور یہی اہلِ علم کا طریقہ رہا ہے۔

ص ۶۰ پر آپ نے رد المحتار کی جو عبارت ’’کل مصر فیہ والٍ مسلم الخ‘‘ پیش کی ہے، اس سے آپ نے یہ ثابت کیا ہے کہ غیر مسلم حکومت کے زیرِ سایہ مسلمانوں کو دیے گئے اختیارت سے فائدہ اٹھانا ضروری ہے، لیکن اس ناچیز کو اس عبارت سے ایسا کرنے کا جواز تو واضح طور پر ثابت ہوتا معلوم ہورہا ہے، وجوب پر اس عبارت کی دلالت راقم الحروف سمجھ نہیں سکا۔ ممکن ہے جناب کے ذہن میں وجوب ثابت کرنے کے لیے کوئی اضافی مقدمہ ہو جو ذکر سے رہ گیا ہو ۔ 

مسلم علاقوں پر غیر مسلموں کے تسلّط کی جو تقسیم آپ نے کی ہے، وہ آپ کی دقیقہ رسی کی آئینہ دار ہے ، لیکن اس سلسلے میں مزید دو صورتوں پر شاید مستقل بحث کی ضرورت ہو۔ آپ نے جو چار امکانات بیان کیے ہیں، وہ اس صورت سے متعلق معلوم ہوتے ہیں جبکہ کوئی کافر قوم محض عسکری قوت کے بل بوتے پر مسلمانوں کے کسی خطے پر قابض ہوجائے یا اس کی ابھی کوشش کرہی ہو ، جبکہ ایک ممکنہ صورت یہ ہے کہ کسی کافر قوم کی عمل داری محض عسکری طاقت کے ذریعے سے نہ ہو، بلکہ کچھ لڑ کر، کچھ آنکھیں دکھاکر، کچھ بہلا پھسلا کر اور سب سے بڑھ کر مسلمان حکومت کی اپنی اندورونی کمزوریوں اور مجبوریوں سے فائدہ اٹھاکر خود ان کے حکمرانوں ہی سے پروانے حاصل کرکے بتدریج اپنی عمل داری قائم کرلی جائے اور ’’ خلق خدا کی، ملک [مسلمان] بادشاہ کا ، حکم کمپنی کا‘‘ والی صورتِ حال پیدا ہو جائے، جیساکہ ہندوستان میں مغلیہ دور کے آخر میں تھی۔ یہ صورتِ حال اس لیے قابلِ غور معلوم ہوتی ہے کہ اس صورت میں اگرچہ شاہ عبد العزیز وغیرہ نے ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا فتوی دیا تھا اور اس کی تائید میں بر صغیر کے دیگر علما کے فتاوی بھی موجود ہیں، لیکن اول تو اسے متفقہ فتویٰ قرار دینا مشکل ہے، اس سے مختلف فتاوی بھی مل سکتے ہیں۔ دوسرے جہاں تک میری یاد داشت اور معلومات کا تعلق ہے، شاہ عبدالعزیز کے دارالحرب کے فتوے میں بھی جہاد کی فرضیت وغیرہ کا ذکر نہیں ہے۔ نہ تو انگریزوں کے خلاف جہاد کا ذکر ہے اورنہ ہی مسلمان بادشاہ یا دیگر مسلم حکام کے خلاف جنہوں نے انگریزاور اس کی فوج کو بہت سی سہولتیں دے رکھی تھیں جنہیں آج کل کی زبان میں انگریزوں کے ایجنٹ یا ان کے آگے گھٹنے ٹیکنے والا کہا جا سکتا ہے۔ بعد کے بعض واقعات کی کڑیاں شاہ عبد العزیز سے ملاتے ہوئے ہمارے کئی تاریخ نگار حضرات نے لگتا ہے ’’نکتہ بعد الوقوع‘‘ سے بھی کام لیا ہے۔ ۱۸۵۷ء کے واقعات اچانک ایک وقتی معاملے (انگریزی فوج میں کام کرنے والے ہندوستانی فوجیوں کے زیرِ استعمال کارتوس کا مسئلہ) سے پھوٹے تھے ، وگرنہ انگریزوں کے خلاف بے چینی کی وجوہات (جن کا ذکر سرسید احمد خاں نے ’’اسبابِ بغاوتِ ہند ‘‘ میں بھی کیا ہے) کے باوجود علما اورعامۃ المسلمین کا عام رویّہ صورتِ حال کو برداشت کرنے ہی کا تھا۔ ہندوستان کے دار الحرب ہونے کا فتوی جاری کرنے کے باوجود نہ صرف اسے دار الاسلام بنانے کے لئے فوری طور پر جہاد کی فرضیت کا فتوی نہیں دیا گیا بلکہ انگریزوں وغیرہ کی ایسی ملازمتیں جن میں کوئی ناجائز کام نہ کرنا پڑے، انہیں ناجائز قرار بھی نہیں دیاگیا۔ تحقیق کی جائے تو بہت سے اچھے اچھے لوگوں کا اس زمانے میں سرکار کی ملازمت اختیار کرنا بھی ثابت ہوجائے گا۔ (اس سلسلے میں مولانا مملوک علی پرنسپل عربک کالج دہلی کی مثال دی جاسکتی ہے جو مولانامحمد یعقوب نانوتویؒ کے والد اور مولانا محمد قاسم نانوتوی اور مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے استاذ تھے) ۔ خود ۱۸۵۷ء کے واقعات کے اولین کرداربننے والے فوجی بھی اب تک سرکار کی ملازمت ہی کررہے تھے۔ ۱۸۵۷ء کے حوالے سے انگریزں کے مستامن ہونے کا شبہ سرسید احمد خاں کے حوالے سے تو معروف ہے ہی، ممکن ہے دیگر حضرات کے ہاں بھی مل جائے۔

۱۸۵۷ء کا جہاد کا فتوی بھی کوئی متفقہ نہیں تھا۔ خود شاہ اسحاق صاحب کے بعض شاگردوں کو بھی اس سے اختلاف تھا۔ اس مسئلے پر شاہ اسحاق صاحب کے شاگردوں میں اختلافِ رائے کا تذکرہ تو مولانا عبید اللہ سندھیؒ نے بھی کیا ہے، اور اس فتوے سے اتفاق نہ کرنے والوں کے لیے کثیر ‘کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ان واقعات کے لیے جہادِ آزادی کی بجائے ’’غدر ‘‘ کا لفظ صرف سرسید جیسے لوگوں کے ہاں ہی نہیں، دیگر کئی علما کے ہاں بھی ملتاہے ، مثلاً مولانا تھانویؒ کے ملفوظات میں بکثرت یہ لفظ مل جائے گا،مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ کی مولانا محمد قاسم نانوتویؒ پر سوانحی رسالے میں۔ اس دور کا یہ اختلافِ رائے بھی ظاہر ہے فقہی تراث میں ہی آتا ہے۔ ان اقوال اور ان کے دلائل کی روشنی میں اس مخصوص صورتِ حال کے حکم پر بحث ہوسکتی ہے ۔

دوسری صورت جس پر شاید ذرا تفصیل سے بحث کرنے کی ضرورت ہو یہ ہے کہ پہلے تو عموماً یہ ہوتا تھا کہ کسی علاقے کے دارالحکومت، اہم شہروں اور آبادیوں پر جب کسی طاقت کا تسلّط ہوجاتا تھاتو عملًا یہ سمجھ لیا جاتا تھا کہ ان کا استیلا ہوگیا ہے اور عموما شکست کو تسلیم کرلیا جاتا تھا اور ایک طرح سے لڑائی کا خاتمہ ہوجاتا تھا، لیکن اب افغانستان اور عراق میں بظاہر شہروں کی حد تک امریکی تسلط یا طالبان کے’’ حکتِ عملی‘‘ پر مبنی انخلا کے باوجود وضعت الحرب أوزارہا  والی کیفیت پیدا نہیں ہوئی، بلکہ پہاڑوں ، جنگلوں اور غاروں میں جاکر قابض فورسز کے خلاف گوریلا جنگ کا آغاز کردیاگیا۔ دوسری طرف قابض قوّت نے ظاہری طور پر اپنی عمل داری قائم کرنے کی بجائے اسی ملک کے کچھ لوگوں کو آگے لا کر ان کی حکومت قائم کردی۔ کٹھ پتلی ہی سہی، حکمران ہیں تو مسلمان اور اسی ملک کے باشندے، پھرانتخابات کراکے ان پر عوامی نمائندگی کاغازہ بھی مل دیا گیا اور سارے نظام کو ایک دستورکے بھی تابع کردیا گیا جس پر الفاظ کی حد تک شایدزیادہ اعتراض کی گنجائش موجود نہ ہو۔ افغانستان کے حالیہ دستور میں تو اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے بارے میں ہماری قرار دادِ مقاصد سے ملتے جلتے الفاظ بھی موجود ہیں۔ ایسے ملک کو مسلمانوں کی عمل داری والا ملک کہا جائے گا یا کافروں کی؟ یہ دار الحرب ہوگا یا دار الاسلام؟ وہاں کے سیاسی نظام کا حصہ بننے کا کیا حکم ہوگا؟ ( برِّ صغیر میں تو اکابر علماء نے انگریزکے بنائے ہوئے اور انہی کی ماتحتی میں چلنے والے سیاسی نظام میں شرکت بھی کی تھی اور اسی سے آزادی کی راہ کے متلاشی بھی تھے ) کیا کسی مسلمان کو محض اس نظام کا حصہ بننے کی وجہ سے غدار اور مباح الدم قرار دیا جا سکے گا ؟ ان سوالات پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔

مطالعے کے دوران آپ کے مضمون کے بعض حصّے کشمیر اور فلسطین جیسے مقبوضہ خطوں کے حوالے سے کھٹکتے رہے ، البتہ مضمون کے آخر میں آپ نے وضاحت کردی کہ اس طرح کے مسائل میں مروّجہ بین الأقوامی عرف کو بھی مدّ نظر رکھا جانا چاہیے، یعنی کفار کے ایسے مقبوضہ علاقے جن پر قابض قوتوں کے قبضے کے جواز کو نہ تو وہاں کے باشندوں نے باقاعدہ طور پر تسلیم کیا ہے اور نہ ہی بین الاقوامی عرف اور قانون اسے تسلیم کرتاہے، وہاں کا حکم مختلف ہوگا۔ ایسے علاقے کے باسیوں کے لیے تو اپنے حقِّ خود ارادیت کے لیے لڑنے کے حق کو آپ نے ایک شرط کے ساتھ شرعی طور پر تسلیم کیا ہے، لیکن بحیثیتِ مجموعی آپ کے مضمون سے محسوس یہ ہوتا ہے کہ آپ ایسے علاقے کے کسی ہمسایہ مسلم ملک کے اس حق کو تسلیم نہیں کرتے کہ وہ اس معاملے میں فوجی مداخلت کرے یا اپنے شہریوں کو ان کی مدد کے لیے جانے کی اجازت دے، خاص طور پر جبکہ اس ہمسایہ مسلمان ریاست کا ظاہری اور علانیہ موقف یہی ہو کہ وہ عسکری مداخلت نہیں کررہی ، صرف خفیہ طورپر اپنے لوگوں بھیج رہی ہو یا اس کی اجازت دے رہی ہو۔ بظاہر آپ کی بات سے یہ معلوم ہوتاہے کہ یہ مداخلت واضح طور پر اخلاقی جواز سے خالی ہے، اس لیے کہ یہ دونوں ملک اقوامِ متحدہ اور بعض دیگر تنظیموں کے رکن ہونے کی وجہ سے یا دو کسی دو طرفہ معاہدے کی وجہ سے ایک دوسرے کے معاہد ہیں۔ میرے خیال میں یہ بحث اتنی سادہ نہیں ہے۔ اس وقت اس پر کچھ لکھنے کا موقع نہیں ہے۔ اس پر مولانا مودودی ؒ اور علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ کے درمیان خط وکتابت بھی موجود ہے جس کا آپ نے بھی حوالہ دیاہے۔ ( اگر یہ خط وکتابت بھی الشریعہ میں چھپ جائے تو بہت سے لوگوں کے علم میں اضافے کا باعث ہوگی۔ ویسے بھی مولانا انوار الحسن شیرکوٹی کی جس کتاب میں یہ خط وکتابت شامل ہے، وہ آج کل عموماً دستیاب نہیں ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس کے علاوہ کسی اور عام دستیاب کتاب میں بھی یہ خط وکتابت شامل ہے یا نہیں) 

مجھے اس وقت دو باتوں کی طرف اشارہ کرنا ہے۔ ایک یہ کہ آج کل صلح کے بین االأقوامی معاہدات موجود ہونے کے باوجود بھی بعض ملک بالخصوص بڑی طاقتیں دوسرے ملکوں میں (covert actions)کرتی ہیں اور انہیں عملاً برداشت بھی کیا جاتا ہے۔ ایسی خفیہ کاروائیوں کی خود بین الاقوامی قانون اور عرف میں کیا حیثیت ہے اور اس عرف سے آج کے دور میں مقبوضہ مسلمان خطوں کے ہمسایہ ملک (خاص طور پر جو بین الاقوامی سطح پر اس مسئلے کے مسلمہ فریق بھی ہیں) کس حد تک استفادہ کرکے اپنی کاروائیاں کرسکتے ہیں؟ یہ سوال قابلِ غورہے۔ اگر بین الاقوامی عرف کے ہم پابند ہیں تو جہاں یہ عرف ہمارے حق میں جاتا ہو، اس سے فائدہ اٹھانا بھی ہمارا حق ہے۔ اگر معاہدات آج کے ہیں تو ان کی خلاف ورزی ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ بھی آج ہی کے عرف کی روشنی میں بظاہر ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ کسی کاروائی کو محض اس وجہ سے غیر قانونی یا خلافِ عرف ومعاہدہ نہیں کہا جاسکتاکہ مسلمانوں کے ہاں اس کا نام جہاد ہے۔ میرا مقصد کوئی رائے قائم کرنا نہیں، محض سوال ہی سامنے رکھنا ہے، اس لیے کہ میں خود بین الاقوامی قانون اور عسکری امور سے ناواقف ہوں، لیکن میرا یہ سوال صرف ہمسایہ ریاست کے حوالے سے ہے، خود اس غیر مسلم ملک کے شہریوں کے بارے میں نہیں اور وہ بھی صرف اس صورت سے متعلق ہے جبکہ ایک ذمہ دار ریاست تما م عواقب ونتائج دیکھ کر اس طرح کی کسی مداخلت کا فیصلہ کرتی ہے۔ فرض کریں فلسطین کی کوئی ہمسایہ ریاست اس طرح کا فیصلہ کرتی ہے اور اس بات کا بھی یقین ہے کہ وہ کاروائیاں اس ریاست کے ہاتھ ہی میں رہیں گی، غیر ذمہ دارانہ ہاتھوں میں نہیں چڑھ جائیں گی۔

دوسری بات جس کی طرف اس وقت توجہ دلانا مقصود ہے، وہ یہ ہے کہ فقہا کے ہاں ایک اصول ’’ ظفر بالحق ‘‘ کا بھی ہے جس میں یہی ہوتا ہے کہ ایک چیز جس طریقے سے آپ حاصل کررہے ہوتے ہیں، وہ بذاتِ خود کوئی اچھا طریقہ نہیں ہوتا لیکن آپ چونکہ اس ذریعے سے جو کچھ حاصل کررہے ہوتے ہیں، وہ آپ کا حق ہوتا ہے اور آپ کو یقین ہوتا ہے کہ معروف طریقے سے یہ حق مجھے ملنے والا اور سیدھی انگلیوں سے یہ گھی نکلنے والانہیں ہے، اس لیے آپ اپنے حق کے حصول کے لیے کوئی ایسا راستہ اختیار کرتے ہیں جو عام حالات میں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ اس کی متعدد فقہا بعض احادیث کی روشنی میں اجازت دیتے ہیں۔ جن جگہوں پر کسی قوت کا قبضہ بین الاقوامی طور پر غیر قانونی ہونا مسلمہ ہے ، اس کے باوجود بین الاقوامی برادری کا رویہ بے حسی ہی نہیں، مجرمانہ طور پر دوہرے معیار کا شکار ہو ، جیسے ہم دیکھ رہے ہیں کہ کشمیری ساٹھ سال سے استصواب اور حق خودارادیت کے بارے میں اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں اور بھارت کے وعدوں پر عمل در آمد کا انتظار کررہے ہیں اور اب کم ازکم بزبانِ حال تقادم کا بہانہ بناکر ’’ رات گئی بات گئی ‘‘ پر عمل کا مسئلے کے متعلقہ فریقوں کو مشورہ دیا جارہا ہے۔ یہی صورتِ حال فلسطین کے بارے میں اقوامِ متحدہ کی متعدد قرار دادوں کی ہے۔ اس کے بر عکس مشرقی تیمور میں ( جہاں عیسائی اکثریت آباد ہے ) دیکھتے ہی ریفرنڈم بھی ہوتاہے اورعیسائی اکثریت پر مشتمل آزاد خود مختار ریاست بھی وجود میں آجاتی ہے، سوڈان کو جنوب میں ریفرنڈم کرانے کا اعلان کرنا پڑتا ہے، دار فور کے لوگوں کی داد رسی کے لیے دنیا بھر کا سوڈان پردباؤ ہے۔ ایسے میں اگر کسی مقبوضہ علاقے کی ہمسایہ ذمہ دار ریاست کو اس بات کا یقین ہوجاتاہے کہ یوں بیٹھے رہنے یا محض رسمی طور پر انٹر نیشنل فورمز پر آواز اٹھاتے اور لابنگ کرتے رہنے سے بات نہیں بنے گی، اس کے ساتھ یہ ذمہ دار ریاست تمام عواقب ونتائج پر اچھی طرح غور کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ اس مسلمہ حق کے حصول کے لیے فلاں قسم کی کاروائی ناگزیر ہے جو دوسرے ذمہ دار ممالک بھی کرلیتے ہیں اور انہیں کوئی نہیں پوچھتا، اگرچہ علانیہ طور پر وہ اس طرح کی کاروائیوں کو own نہیں کرتی، لیکن اس میں حصہ لینے والوں کو پتا ہے کہ یہ ریاست کا ذمہ دارانہ فیصلہ ہے تو کیا اسے بھی محض ظاہری اور تکنیکی طور پر عہد کی خلاف ورزی قرار دے کر اخلاقی اصولوں سے خارج قرار دیا جائے گا؟

روسی مداخلت کے خلاف افغانستان میں ہونے والی مزاحمت کے دوران امریکا یا اس وقت کی آزاد دنیا کہلانے والے ملکوں نے کبھی بھی سرکاری سطح پر اس بات کو تسلیم نہیں کیا کہ وہ وہاں مسلح کاروائیوں کی حمایت کرہے ہیں، یہی کہا جاتا تھاکہ ہم افغان مجاہدین کی اخلاقی اور سفارتی مدد کرتے رہیں گے، لیکن اصل حقیقت اس وقت بھی بچے بچے کو معلوم تھی۔ بین الاقوامی قانون اور عرف میں اس طرزِ عمل کو بین الاقوامی معاہدات کی خلاف ورزی کس حد تک سمجھاگیا تھا؟ اس سے بھی زیادہ واضح مثال ۱۹۷۰ء میں بہارت کی مکتی باہنی اور دسرے ذرائع سے مشرقی پاکستان میں مسلح مداخلت کی دی جاسکتی ہے۔ افغانستان میں تو کم از کم روس کی شکل میں غیر ملکی افواج کی موجودگی کا بہانہ تھا، مشرقی پاکستان میں تو یہ بات بھی نہیں تھی۔ پھر کشمیر اور فلسطین میں مسلمہ بین الاقوامی سرحد کا معاملہ نہیں ہے۔ پاکستانی اور ہندوستانی کشمیر کے درمیان بین الاقوامی سرحد نہیں ہے، صرف کنٹرول لائن ہے ، اور کشمیر وفلسطین دونوں تصفیہ طلب متنازعہ خطے تسلیم کیے جاتے ہیں، جبکہ مشرقی پاکستان متنازعہ خطہ بھی نہیں تھا اور بھارت نے باقاعدہ بین الاقوامی سرحد پار سے مسلح مداخلت کی تھی۔ اس پر بھارت کے خلاف بین الاقوامی قانون کتنا حرکت میں آیا؟ چلو ریاستوں کا معاملہ تو الگ رہا، مکتی باہنی کے ہاتھوں لٹ پٹ کر آنے والے عام خاندان اب بھی موجود ہیں۔ اب یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آچکی ہے کہ مکتی باہنی اس وقت بھارت ہی کا ایک ہاتھ تھا۔ کیا مکتی باہنی کا کوئی متاثرہ خاندان بھارت کے خلاف کسی فورم پرکوئی قانونی چارہ جوئی کرسکتاہے ؟

میرا مقصد اپنی رائے قائم کرنا نہیں ہے ، بلکہ بین الاقوامی قانون ، معاہدات اور عرف کے بارے میں اہلِ علم کے سامنے سوال ہی رکھنا ہے کہ اس طرح کی صورتِ حال میں بین الاقوامی عرف اور قانون کیا کہتاہے؟ کیا ایسے حالات میں کسی نظر انداز شدہ مقبوضہ اور تصفیہ طلب علاقے کے لوگوں کے لیے قضیے کے مسلّمہ ہمسایہ فریق کے لیے مداخلت کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی اور کیا اس کے لیے فقہا کے ’’ ظفر بالحق ‘‘ والے اصول سے کوئی سند نہیں ملتی؟ اسی بات کو یوں بھی کہا جاسکتاہے کہ ایک ملک کے دوشہری بھی ایک دوسرے کے معاہد ہوتے ہیں۔ فرض کریں کہ اس طرح کا ایک شہری دوسرے کا موبائل چھیننے کی کوشش کرتاہے ، دوسرا اپنا موبائل بچانے کی پوری کوشش کرتا ہے، اس کا روائی میں چھیننے والے کا بازو مروڑ دیتاہے یا اسے دوچار طمانچے رسید کردیتاہے جسے فقہا دفع الصائل سے تعبیر کرتے ہیں ، کیا اس کے اس عمل کا ان کے اس باہمی معاہدے پر اثر پڑے گا یا کیا ان کا باہمی معاہد ہونا اس کے اس عمل کے جواز پر اثر انداز ہوگا؟ قضیہ کشمیر کی ابتدا کی صورتِ حال ( خاص طور پر سیز فائر سے پہلے ) کم از کم یہی تھی۔ بھارت کی طرف سے تقسیمِ ہند کے طے شدہ فامولوں اور اصولوں سے انحراف ہورہا تھا، اگر کسی ریاست کے حکمرانوں کے فیصلے کا بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق میں اعتبار تھا جیسا کہ کشمیر میں بھارت کی پوزیشن تھی تو اسی اصول کے مطابق حیدرآباد اور جونا گڑھ پر اس کا کوئی حق نہیں بنتا تھا اور عوام کی رائے کا اعتبار تھا تو کشمیر پر اس کا حق نہیں بنتا تھا، کیونکہ اب تو پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے۔ اُس وقت تو کشمیری عوام کی بہت بھاری اکثریت واضح طور پر پاکستان کے سا تھ الحاق کے حق میں تھی۔ برّ صغیر کی عمومی فضا ہی کچھ ایسی تھی۔ اس لحاظ سے تو استصواب اب اگر ہو بھی جائے تو تب بھی محض تاخیر بھی عالمی برادری کی طرف سے مجرمانہ ناانصافی ہوگی۔

اس سے بحث نہیں کہ ایسے حالات میں بہتر اور مفید پالیسی کیا ہوسکتی ہے اور کیا مذکورہ بالا نوعیت کی مداخلت کاراستہ اختیار کرنا مقصد کے حصول کا واقعی ذریعہ ہوسکتا ہے یامقبوضہ علاقے کے لوگوں کی پر امن سیاسی جدو جہد کی بھر حمایت کرنا زیادہ فائدہ مند ہوسکتاہے۔ اس بحث سے قطع نظر ہمسایہ ملک کی مسلح مداخلت کے بارے میں مذکورہ بالا سوالات بہرحال موجود ہیں اور ایسی مداخلت کا اخلاقی جواز سے عاری ہونا اتنا بھی واضح اور بدیہی نہیں لگتا ، بالخصوص جبکہ اس بات کا یقین ہو کہ اس پالیسی سے کسی دوسری جماعت کو ہم خطرات سے دو چار نہیں کررہے ، جس کی مثالی صورت یہی ہے کہ لوگوں کی نمائندہ ذمہ دار حکومت اس طرح کا فیصلہ کرے ، یعنی اس طرح کا اگر فیصلہ ہو تو وہ واقعی پولٹیکل فیصلہ ہو۔ ایسا نہ ہوکہ وہ دکھاوے کی حدتک تو حکومتی اور سیاسی فیصلہ ہو حقیقت میں محض پروفیشنل فیصلہ ہو، اور اس فیصلے میں حکومت اپنے ہی کسی ماتحت ادارے کے آگے مجبور ہو۔ ( عالمِ اسلام میں بدقسمتی یہ ہے کہ اس میں یا تو صحیح معنی میں نمائندہ حکومتیں ہوتی ہی نہیں ہیں۔ اگر ہوں بھی تو ٹیکنو کریسی والی ذہنیت بہت سی جگہوں پر غالب نظر آتی ہے۔ یا تو چند پڑے لکھے ’’بابو‘‘ سیاسی قیادت کو بے وقوف سمجھنے پرتلے ہوتے ہیں یا بعض اداروں کی طرف سے اسے بزدل قرار دے کر فیصلے کرنے کا صحیح موقع نہیں دیا جاتا۔) اگرریاست کا کوئی ماتحت ادارہ یا اس کے کچھ افراد اپنی حدود سے تجاوز کرکے حکومتِ وقت کو غافل رکھ کر اس کی اس اجازت کے بغیر اس طرح کا کوئی قدم اٹھاتاہے (جس کی ایک مثال شاید کارگل کا واقعہ ہو) تو اس طرح کا ایکشن بظاہر rogue ہوگا، اس میں اور کسی پرائیویٹ تنظیم کے از خود اسی طرح کے کسی اقدام میں بڑا فرق ڈھونڈنا مشکل ہوگا ۔ 

یہ تو چند باتیں بطور سوال کے عرض کی ہیں۔ مزید دوباتوں پر اپنے ناقص خیال کا بھی اظہار کرنا چاہتاہوں۔ ایک تو یہ کہ آپ نے اپنے مضمون میں کلاسیکل فقہ کی اصطلاح استعمال کی ہے اور بظاہر آپ کی گفتگو سے یہ تأثر ابھرتا ہے (ہو سکتا ہے میں غلط سمجھاہوں) کہ بعض مسائل میں کلاسیکل فقہ تو کوئی راہ نمائی نہیں کررہی، البتہ اس سے ہٹ کر بعض دیگر زاویوں سے دیکھا جائے تو مسئلے کا جواب مل جاتاہے۔ میں کلاسیکل فقہ کی اصطلاح کے مفہوم سے تو واقف نہیں، البتہ اتنی بات واضح ہے کہ اس وقت فقہی مسائل، بالخصوص اجتماعی مسائل کے بارے میں تین بڑے رجحانات موجود ہیں: 

ایک یہ کہ فقہی کتب اور وہ بھی متاخرین کی کتب کی عبارات اور جزئیات کو اساس بنایا جائے اور حتی الامکان ان سے باہر نہ نکلا جائے۔ ہمارے ہاں فتوی سے متعلق بیشتر حضرات اسی رجحان پر عمل پیرا ہیں۔ 

دوسرا رجحان یہ ہے کہ فقہا کی کاوشوں سے استفادہ تو ضرور کیا جائے لیکن استدلال کی اصل بنیاد براہِ راست قرآن وسنت اور مقاصدِ دین اور ایک وسیع دائرہ رکھنے والے اجتہاد کو بنایا جائے۔

تیسرا رجحان ان دونوں کے درمیان ہے ، وہ یہ کہ اصل راہ نمائی تو مدوّن فقہ سے ہی لی جائے البتہ فقہاء کی جزئیات پر انحصار کرنے کی بجائے ان کی تعلیلات اور ادلہ کو بھی مدِّنظررکھا جائے جس بنیاد پران فقہا نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ اس کی صورت اگر تبدیل ہوگئی ہو تو اس کے مطابق حکم بھی تبدیل کرلیا جائے ، اگرچہ وہ حکم بظاہر بعض عبارات سے متصادم ہو ۔ مخصوص فقہ کے ساتھ ساتھ دوسرے فقہا سے بھی استفادہ کرلیا جائے ۔

آپ نے مضمون کے آخر میں بعض مسائل میں عصرِ حاضر کے بین الاقوامی قانون اور عرف کو بنیاد بنانے کی بات کی ہے جو بذاتِ خود درست ہے ، لیکن کلاسیکل فقہ سے آپ کی مراد اگر صرف پہلا رجحان ہے تو آپ کی یہ بات بھی درست ہوسکتی ہے کہ اس کلاسیکل فقہ میں اس مسئلے کا حل نہیں ملتا یا اس سے کچھ اور مستفادہوتاہے۔ اگر تیسرا رجحان بھی کلاسیکل فقہ میں داخل ہے تو چونکہ فقہا کے ذکرکردہ بہت سے احکام کی وجہ ہی اس زمانے کا بین الاقوامی عرف تھا، اس لے اس بنیاد یعنی عرف کے بدلنے سے حکم کی تبدیلی بذاتِ خود کلاسیکل فقہ کے اس شعبے کا تقاضاہے۔ اس وقت اس سے بحث نہیں کہ ان رجحانات میں سے کون سا زیادہ قابلِ عمل ہے یا سب ہی سے مختلف دائروں اور سطحوں پر استفادہ ہوسکتا ہے، کہنا یہ مقصود ہے کہ جس چیز کو آپ کلاسیکل فقہ کہہ رہے ہیں، اس میں فقہاء کی تعلیلات اور ان سے استفادہ بھی شامل ہے تو یہ تاثر صحیح نہیں ہوگا کہ ان مسائل میں اس فقہ نے ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں اور وہ ہمارے سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے ۔

دوسری بات جو اگرچہ آپ کے مضمون سے متعلق تو نہیں لیکن اسے عرض کرنا بہت ضروری معلوم ہوتاہے، وہ یہ کہ جناب حافظ محمد زبیر صاحب نے اپنے ایک مضمون میںیہ لکھا ہے کہ موجودہ حکمران چونکہ غاصب اور ظالم ہیں، اس لیے بذاتِ خود تو اس قابل ہیں کہ ان کے خلاف خروج نہ صرف جائز بلکہ واجب بھی ہو، مسئلہ صرف استطاعت کاہے۔ یہ بات دیگر بعض علما سے بھی سننے میں آئی ہے۔ پاکستان کے موجودہ حکمرانوں کی پالیسیوں پر اور لوگوں کی طرح مجھے بھی بہت سے اعتراضات ہیں، لیکن انہیں غاصب کہنا درست معلوم نہیں ہوتا، کیونکہ غاصب وہ ہوتا ہے جس نے کوئی چیز ناجائز ذریعے سے حاصل کی ہو۔ پاکستان میں ایک آئین موجود ہے اور اس آئین میں حکمرانی حاصل کرنے کا طریقہ بھی درج ہے۔ اس آئین اور اس طریقۂ کار پر دینی حلقوں سمیت سب نے بنیادی طور پر اتفاق کیا ہواہے۔ موجودہ حکومت بنیادی طورپر اسی طریقِ کار کے مطابق برسرِ اقتدار آئی ہے، عوام نے اسے حقِ حکمرانی دیاہے اور تقریباً تین سال بعد اس نے اپنی پانچ سالہ کارکردگی لے کر دوبارہ عوام کے سامنے پیش ہوناہے۔ ساتھ ساتھ بھی اس کی کارکردگی مختلف سطحوں پر جانچی جاتی رہتی ہے۔ ایسے میں اسے غاصب قرار دینے کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔ اگر یہ بھی غاصب ہیں تو جائز حق حکمرانی کس کو حاصل ہے؟ اس کے علاوہ حکمرانی حاصل کرنے کا ذریعہ تو ڈنڈا ہی ہوسکتا ہے۔ کیا ایک فریق کے لیے طاقت کے زور پر حکومت کے حصول کو جائز اور دوسرے کے لیے ناجائز کہا جاسکتا ہے ؟مذکورہ بالا نوعیت کی آرا کے اظہار کے نتائج بڑے دور رس ہوتے ہیں، اس لیے ان کے اظہار سے پہلے تمام پہلوؤں پر اچھی طرح غور کرلینا چاہیے۔

یہ کچھ سرسری سی بے ربط سی باتیں عرض کی ہیں جن میں سے بیشتر کا مقصد چند سوالات ہی اہلِ علم کے سامنے رکھنا ہے۔ ممکن ہے آپ یا کسی اور صاحبِ علم کی طرف سے ان پر مزید روشنی ڈالی جاسکے۔ میں خود کو اس وقت سوال کرنے سے زیادہ کی پوزیشن میں نہیں پاتا۔ ان سطور سے اگر آپ کی تضییع وقت ہوئی ہوتو معذرت خواہ ہوں۔

(مولانا مفتی) محمد زاہد 

جامعہ اسلامیہ امدادیہ، ستیانہ روڈ، فیصل آباد

zahidimdadia@yahoo.com

(۲)

مخدوم محترم حضرت مولانا زاہد الراشدی زیدت معالیکم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اللہ کرے مزاج گرامی بعافیت ہوں۔ الشریعۃ کی خصوصی اشاعت ابھی چند دن پہلے موصول ہوئی۔ اللہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو اعلیٰ علیین میں مقام عطا فرمائے، پڑھ کر طبیعت بے انتہا متأثر ہوئی۔ برا ہو ان سرحدوں کا، ہم کیسے عظیم خیر سے محروم رہے۔ لکھنے والوں نے جو حالات لکھے ہیں اور ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر لکھے ہیں، وہ واضح طور پر صدیقیت کی علامت ہیں۔ ’’والذین آمنوا باللہ ورسولہ اولٰئک ہم الصدیقون والشہداء عند ربہم، لہم اجرہم ونورہم‘‘ کے مصداق ان حضرات کی زندگی میں ایک خاص نور نظر آتا ہے۔

آپ اور سارے ہی اہل خانہ قابل رشک ہیں کہ ایسی عظیم نعمت پائی۔ ہمارے گھر میں حضرت مولانا صدیق صاحب باندوی ؒ کا تذکرہ بہت رہتا ہے۔ حضرت والد ماجدمولانا محمد زکریا سنبھلی مد ظلہم حضرت کی خدمت میں آٹھ سال رہے ہیں۔ اسی نسبت سے والد صاحب کے یہاں ان کا بڑا تذکرہ رہتا ہے۔ الشریعہ کا نمبر آیا تو گھر کی خواتین نے بھی پڑھا۔اب حضرت کے ایمان افروزحالات ہر مرد وزن کی زبان پر ہیں اور اسی طرح ہر مجلس میں بات بات پر حضرت کے واقعات ، حالات اور ملفوظات سنائے جارہے ہیں۔ لوگوں نے حضرت کو ایک عالم کی حیثیت سے تو بہت جانا ہے مگر مجھے تو خالص علمی پہلو سے کہیں زیادہ اہم ایک داعی ومصلح اور ربانی عالم کی شخصیت دیدہ زیب نظر آرہی ہے۔ اور الشریعہ اس اعتبار سے بڑی مبارک باد کا مستحق ہے کہ اس نے ان پہلووں کو اور یہاں تک کہ گھریلو زندگی کو بھی خالص عالمانہ پہلو سے دبنے نہیں دیا ہے۔ اللہم لا تحرمنا أجرہ ولا تفتننا بعدہ۔ 

دعاؤں کا طالب ہوں ، کاش آپ حضرات کی خدمت میں حاضری زیادہ مشکل نہ ہوتی۔

والسلام

نیاز مند: یحییٰ نعمانی

(مدیر ماہنامہ الفرقان، لکھنو)

(۳)

گرامی قدر مولانا عمار خان ناصر صاحب

السلام علیکم 

الشریعہ کے شمارہ نومبر/دسمبر ۲۰۰۹ء کے اکثر مضامین کامطالعہ کیا۔ ان میں خاص طورپر حضرت الاستاذ مولانا زاہد الراشدی صاحب کا انٹرویو، محترم جناب ڈاکٹر ممتاز احمد کی گفتگو اور محترم زاہد صدیق مغل کا مضمون کافی پسند آیا۔ مکتوبات میں محترم جناب سید مہرحسین بخاری کا خط پڑھ کر حیرت ہوئی کہ موصوف حضرت شیخ الحدیث مولانا سرفراز خان صفدرؒ سے عقیدت بھی رکھتے ہیں، اس کے باوجود حضرت شیخؒ کے شیعہ کے بارے میں بیان کردہ موقف کے برعکس اپنے مکتوب میں شیعہ کے کفر کے قائل نہ ہونے کا بھی اظہار کر رہے ہیں۔ موصوف حضرت شیخ الحدیثؒ کی رد شیعیت میں لکھی گئی کتاب ’’ارشاد الشیعہ‘‘ کا ہی مطالعہ کر لیتے تو اتنی بڑی ٹھوکر نہ کھاتے۔ مذکورہ کتاب میں حضرت شیخؒ نے واضح الفاظ میں شیعہ کے کفر کا اظہا ر کیا ہے۔ لگے ہاتھوں موصوف نے حضرت مولانا صوفی عبدالحمیدخان سواتی ؒ کی طرف بھی شیعہ کے کفر کے قائل نہ ہونے کی نسبت کر دی، حالانکہ حضرت صوفیؒ صاحب علی الاطلاق شیعہ کے کفر کے قائل نہ تھے، لیکن شیعہ اثنا عشریہ کو وہ بھی کافر ہی سمجھتے تھے۔ اس مسئلے پر صوفی صاحبؒ کے بڑے بیٹے محتر م مولانا فیاض خان سواتی سے میری تفصیلی بات ہوئی۔ وہ بھی یہی فرماتے ہیں کہ ہم تمام شیعہ فرقوں کو کافر نہیں کہتے، لیکن شیعہ اثنا عشریوں کو ہم بھی کافر سمجھتے ہیں جو کہ پاکستان میں شیعوں کا اکثریتی فرقہ ہے۔ 

موصوف نے شیعہ کی طرف تحریف قرآن کی نسبت کو بھی غلط کہاہے، جبکہ حضرت صوفیؒ اپنی مشہور تفسیر معالم العرفان کی جلد اول کے صفحہ ۸۳ پر اصول کافی (جو کہ شیعہ کی معتبر ترین حدیث کی کتاب ہے) کی مشہور روایت نقل کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جو قر آن حضرت جبرائیل حضورعلیہ الصلوۃوالسلام پر لائے تھے، اس کی سترہ ہزار آیتیں تھیں۔ اس سے معلوم ہو اکہ حضرت صوفی صاحبؒ کے نزدیک بھی شیعہ تحریف قرآن کے قائل ہیں۔ تحریف قرآن کے قائل کو بھلا حضرت صوفی صاحبؒ کیسے مسلمان کہہ سکتے ہیں!

علاوہ ازیں موصوف نے حضرت مولانا تقی عثمانی کی طرف بھی شیعہ کو کافر نہ کہنے کی نسبت کی ہے۔ ہماری حضرت تقی عثمانی سے تو کبھی ملاقات نہیں ہوئی، البتہ حضرت تقی مدظلہ کے والد گرامی مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیعؒ کا فتویٰ ہماری نظر سے گزرا ہے۔ اس میں مفتی صاحبؒ نے شیعہ کے بعض فرقوں کو کافر لکھاہے۔ مذکورہ فتویٰ ماہنامہ بینات کی خصوصی اشاعت بعنوان ’’خمینی اور اثناعشریہ کے بارے میں علماء کرام کا متفقہ فیصلہ‘‘ میں موجود ہے۔ مفتی تقی صاحب مدظلہ اپنے والد گرامی کے اس فتوی سے کیسے عدول کر سکتے ہیں؟ 

علاوہ ازیں، علماء کرام کے متفقہ فیصلہ میں مفتی اعظم ہندوستان حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی اور مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکیؒ نے متفقہ طور پر شیعہ اثنا عشریہ کوکافر لکھا ہے۔ مذکورہ فتویٰ پر ہندوستان اور پاکستان کے تقریباً تمام جید علماء کرام اورمفتیان عظام نے دستخط کیے ہیں۔ پاکستان کے جن علماء کرام نے اس فتوی پر دستخط کیے ہیں، ان کے نام سن کر یقیناًبخاری صاحب بھی حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکیں گے۔ دستخط کرنے والوں میں چند نام یہ ہیں:

مفتی نظام الدین شامزئی شہید، کراچی۔ مفتی زین العابدین، فیصل آباد۔ مفتی عبدالستار، خیرالمدارس ملتان۔ حضرت خواجہ خان محمد، امیرعالمی مجلس تحفظ ختم نبوت۔مولانا عبداللہ شہید، اسلام آباد۔ مولانا سرفراز خان صفدرؒ ، گوجرانوالہ۔ مولانا عبداللہ آزاد۔ مولانا عبید اللہ، مہتمم جامعہ اشرفیہ لاہور۔ مولانا محمد مالک کاندھلویؒ ۔ شیخ موسیٰ خان روحانی بازیؒ ، جامعہ اشرفیہ۔ مولانامحمد اجمل قادری۔ مولانا عبدالحق خان، اکوڑہ خٹک۔ مولانا عادل خا ن ۔ سیدنفیس الحسینی شاہؒ ۔ قاضی عبداللطیف جہلمیؒ ۔ مولانا عبدالمجید کہروڑپکا۔ حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ ۔ مفتی رشید احمد لدھیانویؒ اورمولانا یوسف لدھیانویؒ ۔ 

یہ وہ حضرات ہیں جن کے علم وتقویٰ پر تمام اہل علم اعتماد کرتے ہیں۔ یہ سب متفقہ طور پر شیعہ کو کافر لکھ رہے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی پاک وہند برطانیہ اور دیگر ممالک کے سینکڑوں علماء کرام کے دستخط اس فتویٰ پرموجود ہیں۔ گویا کہ شیعہ کے کفر پر تمام علماء کا اجماع ہے۔ مزید اگر تسلی مقصود ہوتو محترم بخاری صاحب سے گزارش ہے کہ شیعہ کے بارے میں علماء کے متفقہ فیصلہ کے علاوہ حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ کی تصنیف ’’ارشاد الشیعہ‘‘، مولانا منظور احمد نعمانی کی ’’ایرانی انقلاب اور شیعیت‘‘، مولانا ضیاء الرحمن فاروقی کی ’’خمینی ازم اوراسلام‘‘، مولانا مہر محمد کی ’’تحفہ امامیہ‘‘ اور بریلوی مسلک کے عالم دین مولانا محمد علی کی ’’تحفہ جعفریہ‘‘اور علامہ احسان الٰہی ظہیر کی ’’الشیعہ والقرآن‘‘ کا ضرور مطالعہ فرمائیں۔ قوی امید ہے کہ ان شاء اللہ شیعہ کے کفر پر شرح صدر نصیب ہو جائے گا۔ 

حافظ محمد عثمان 

فاضل جامعہ اشرفیہ ، لاہور

(۴)

برادر مکرم مولانا محمد عمار خان ناصر صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

امید ہے مزاج بخیر ہوں گے۔

ماہنامہ ’الشریعہ‘ (جنوری ۲۰۱۰ء) میں مجلہ المصطفیٰ کے ’’امام اہل سنت نمبر‘‘ پر آپ کا تبصرہ پڑھا۔ ماشاء اللہ آپ نے بہت خوب لکھا اور کمال ذکاوت سے چند اقتباسات کا انتخاب کر کے انھیں بیچ میں سجا دیا۔ جزاک اللہ خیراً۔ البتہ ایک بات آپ کے علم میں نہ ہونے کی وجہ سے آپ کو اعتراض ہوا، اس کی وضاحت کرتا چلوں۔ 

آپ نے بہت اچھا کیا کہ حضرت مفتی رفیع عثمانی صاحب مدظلہ کے مضمون سے وہ اقتباس جو دادا جان رحمہ اللہ کے موقف کی درست ترجمانی نہیں کرتا، نقل کر کے ہم پر گرفت کی کہ دیگر مضامین کی طرح اس مضمون کے ان اقتباسات کے بارے میں ’’بے لاگ احقاق حق‘‘ کی روایت برقرار نہیں رکھی جا سکی۔ واقعتا ایسا ہی ہے کہ جلد بازی کی وجہ سے احقر اس مضمون کے حاشیے میں اختلافی ووضاحتی نوٹ نہ لگا سکا۔ آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ کس قدر جلد بازی میں ہم نے یہ نمبر ترتیب دیا، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ’’کسی وضاحتی نوٹ کے بغیر اس کی شمولیت نہ اس اشاعت کے مرتبین کو کھٹکی اور نہ موصولہ مواد پر نظر ثانی کر کے منظوری دینے والے بزرگوں کو۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ یہ مضمون مرتب بے چارے کو بھی کھٹکا اور نظر ثانی کرنے والے بزرگوں (تایا جان مولانا عبد القدوس خان قارن مدظلہ) نے بھی اس کے نیچے حاشیہ میں ایک نوٹ لگانے کا حکم فرمایا تھا۔ فرمایا کہ حاشیے میں ابا جی (حضرت امام اہل سنتؒ ) کی وہ گفتگو جو مولانا نیازی سے ہوئی تھی، درج کر دینا اور وہ تمہارے ابو (مولانا عبد الحق خان بشیر مدظلہ) کو یاد ہوگی، ان سے لکھوا لینا۔ احقر نے والد مکرم کو مضمون دکھایا تو انھوں نے چند جملے حذف کرنے کے بعد فرمایا کہ میں ان شاء اللہ جلد ہی نوٹ لکھ کر بھیج دوں گا، لیکن اپنی شدید مصروفیات کی وجہ سے وہ نوٹ تحریر کر کے ارسال نہ فرما سکے جس کی وجہ سے وہ شامل اشاعت نہ ہو سکا۔

بہرحال توجہ دلانے کا ازحد شکریہ۔ آئندہ ایڈیشن میں ان شاء اللہ العزیز دادا جان رحمہ اللہ کا وہ مکتوب گرامی جو مولانا عبد الستار خان نیازی مرحوم کی طرف سے دیوبندی بریلوی مصالحت کے لیے کی جانے والی کوشش کے سلسلے میں ’الشریعہ‘ کی اشاعت خاص میں شائع ہوا ہے، حضرت مفتی صاحب مدظلہ کے مضمون کے حاشیہ میں درج کر دیا جائے گا۔ آپ بھی اگر مناسب سمجھیں تو احقر کے اس مکتوب کو ’الشریعہ‘ میں شائع فرما دیں تاکہ حضرت مفتی صاحب کے اس مضمون سے (جو ماہنامہ ’’البلاغ‘‘ اور روزنامہ ’’اسلام‘‘ میں بھی طبع ہو چکا ہے) دادا جان کے موقف کے بارے میں پیدا ہونے والی غلط فہمیاں دور ہو سکیں اور حضرت امام اہل سنت کے متعلقین ان کے درست موقف سے آگاہ ہو سکیں۔ 

باقی رہی بات ماہنامہ ’’ہدی للناس‘‘ گوجرانوالہ سے ماخوذ مواد بلا حوالہ درج کرنے کی تو وہ واقعتا احقر کی غلطی ہے جس پر میں ماہنامہ ’’ہدی للناس‘‘ کے منتظمین سے معذرت خواہ ہوں۔ دراصل جلد بازی، وقت کی کمی، ناتجربہ کاری، اکیلے پن، بجلی کی بے ڈھنگی لوڈ شیڈنگ کے باعث پریشانی اور دیگر بہت سے عوارض کی وجہ سے خصوصی نمبر میں بہت سی غلطیاں اور کمیاں کوتاہیاں رہ گئی ہیں جس کا اندازہ جابجا آپ کو بھی ہوا ہوگا۔ چند ایک کا تذکرہ آپ نے اپنے تبصرے میں بھی کیا۔ بہرحال بہت شکریہ۔ احسن بھائی جان نے بھی اس طرف توجہ دلائی ہے۔ جزاکم اللہ تعالیٰ خیراً۔ دوسرے ایڈیشن میں ان شاء اللہ ماخذ کا ذکر کر دیا جائے گا۔

نمبر کے بعض حصے پر جاندار تبصرہ فرمانے کا بھرپور شکریہ!

سرفراز حسن خان حمزہ

متعلم دار العلوم مدنیہ، بہاولپور

(۵)

مکرم جناب مولانا عمار خان ناصر صاحب زیدت معالیکم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

راقم الحروف نے ایک نجی نوعیت کا عریضہ آنجناب کی خدمت عالیہ میں ارسال کیا تھا جو ماہنامہ الشریعہ دسمبر کے شمارے میں شائع کر دیا گیا۔ اس کے رد عمل کے طور پر جنوری ۲۰۱۰ء کے شمارے میں حافظ عبد الجبار سلفی صاحب نے تبصرہ فرمایا ہے اور دار العلوم مدنیہ بہاول پور کے ایک طالب علم نے مفصل مکتوب لکھا ہے۔ 

حسین احمد صاحب متعلم دار العلوم مدنیہ کی خدمت میں عرض ہے کہ الشریعہ جنوری ۲۰۱۰ء ہی کے شمارے میں سید مشتاق علی شاہ صاحب کے مضمون پر جو حاشیہ صفحہ ۲۰ پر آنجناب کے قلم سے ہے، وہی ان کے لیے کافی ہے۔ مشہور مقولہ ہے کہ ’’صاحب البیت ادریٰ بما فیہ‘‘، یعنی گھر والا بہتر جانتا ہے جو گھر میں ہے۔ یقیناًآنجناب حضرت شیخ الحدیث صاحبؒ اور حضرت صوفی عبد الحمید صاحبؒ کے علوم ومعارف کے حقیقی وارث اور شارح ہیں۔ حسین احمد مدنی صاحب سے گزارش ہے کہ وہ آنجناب کے مذکورہ حاشیہ کو کھلے دل سے دو تین بار مطالعہ فرمائیں، ان شاء اللہ سکون قلب میسر ہوگا۔ * مزید تسلی کے لیے دار العلوم دیوبند کے پہلے مفتی صاحب کا فتویٰ پیش خدمت ہے:

’’محققین حنفیہ شیعہ تبرا گو اور منکر خلفاء ثلاثہ کو کافر نہیں کہتے۔ اگرچہ بعض فقہاء نے ان کی تکفیر کی ہے، مگر صحیح قول محققین کا ہے کہ سب شیخین اور انکار خلافت خلفاء کفر نہیں ہے، فسق وبدعت ہے۔‘‘ (فتاویٰ دار العلوم دیوبند (عزیز الفتاویٰ) کتاب المیراث جلد۷ و ۸، ص ۳۵۰، مطبوعہ کتب خانہ امدادیہ دیوبند)

حافظ عبد الجبار سلفی صاحب نے اپنے تبصرہ میں میری اس عبارت پر کہ ’’تحریف قرآن کی لچر اور بے ہودہ روایات تو بعض کتب اہل سنت میں بھی موجود ہیں‘‘ یہ خامہ فرسائی کی ہے کہ یہ عبارت بذات خود لچر اور بے ہودہ ہے۔ راقم نے لچر اور بے ہودہ کے الفاظ قرآن حکیم کے مخالف پر استعمال کیے ہیں، جیسا کہ مشہور ناصبی اور منکر حدیث تمنا عمادی نے ’’جمع القرآن‘‘ نامی کتاب میں ایسی بہت سی روایات اکٹھی کی ہیں اور مسلمانوں کا قرآن پر ایمان متزلزل کرنے کی سعی نامشکور کی ہے۔ مجھے بڑی حیرت ہے کہ اسلامی مدارس کے علماء وفضلا بھی مہذب اور شستہ زبان کے استعمال سے قاصر ہیں۔ 

حافظ عبد الجبار سلفی صاحب شاید نسخ اور اختلاف قراء ت کی اصل حقیقت کو سمجھ نہیں پا رہے۔ مکتب دیوبند کے سرمایہ افتخار انور شاہ صاحب کشمیری نور اللہ مرقدہ نے بھی فیض الباری ج ۳ ص ۳۹۵ میں اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔ بعض علما نے اس عبارت کا جواب دینے کی کوشش کی ہے ، تاہم عقلی ونقلی طور پر وہ صحیح نہیں ہے اور اس جواب سے یہود ونصاریٰ کی براء ت ہوتی ہے جو خود قرآن حکیم کے خلاف ہے۔ نسخ، اختلاف قراء ت اور تحریف میں نمایاں فرق ہے۔ سلفی صاحب کے اضافہ معلومات کے لیے گزارش ہے کہ جماعتی وابستگی سے ہٹ کر درج ذیل کتب کی طرف مراجعت فرمائیں:

(۱) فضائل القرآن، تالیف الامام ابی عبید القاسم بن سلام، المتوفی ۲۴ھ، مطبع دا ر الکتب المصریہ ص ۱۶۱، ۱۹۰، ۱۹۳ و۱۹۵ وغیرہ۔

(۲) کتاب المصاحف للحافظ ابوبکر عبد اللہ بن داؤد السجستانی، المتوفی ۳۱۶ھ، مطبع دار الکتب العلمیہ بیروت، ص ۴۳ و ۱۳۰۔

(۳) ’’الفرقان‘‘ لابن الخطیب، مطبع دار الکتب المصریہ قاہرہ،ص ۴۱، ۴۲، ۴۳، ۴۵ و ۵۰۔

چونکہ الشریعہ کے صفحات ایسی فرقہ وارانہ بحث کی اجازت نہیں دیتے، اس لیے تفصیل سے گریز کیا گیا ہے۔ راقم اثیم کو نہ مفتی ہونے کا دعویٰ ہے نہ عالم ہونے کا۔ حقائق سے رو گردانی اہل اہوا کا شیوہ ہے اور بات بات پر کفر کے فتوے، یہ اسلام کی خدمت نہیں ہے۔ ہر فرقہ دوسرے کو کافر کہہ رہا ہے۔ اگر یہ اسلام کی خدمت ہے تو حافظ عبد الجبار سلفی صاحب بتائیں کہ اسلام کہاں ہے اور مسلمان کہاں ہیں؟ 

تمام اسلامی فرقے جن کی وضاحت امام ابو الحسن اشعریؒ ، عبد القاہر بغدادیؒ اور شہرستانیؒ جیسے علما وفضلا کر چکے ہیں، قرآن مجید کی حقانیت پر کامل ایمان رکھتے ہیں، جیسا کہ ’’اظہار الحق‘‘ کے عالی قدر مصنف مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ نے بھی تحریر فرمایا ہے۔ دار العلوم کراچی سے شائع ہونے والے اس کتاب کے ترجمہ ’’بائبل سے قرآن تک‘‘ میں، جو مولانا تقی عثمانی صاحب جیسے نابغہ روزگار عالم کے محققانہ قلم سے نکلنے والے علمی مقدمہ سے مزین ہے، یہ عبارت موجود ہے، تاہم اب سعودیہ سے شائع ہونے والے نئے عربی ایڈیشن میں ناشرین نے علمی خیانت کا ارتکاب کرتے ہوئے یہ عبارت حذف کر دی ہے جو نہایت افسوس ناک امر ہے۔ شیعہ حضرات کی عقائد کی کتابیں ’’اعتقادات شیخ صدوق‘‘، ’’اوائل المقالات للشیخ مفید‘‘، ’’تصحیح الاعتقاد للشیخ مفید‘‘، ’’اعتقادات شیخ بہائی‘‘، ’’عقائد الامامیہ للشیخ محمد رضا مظفر‘‘ قرآن مجید کے غیر محرف ہونے پر شاہد ہیں۔

آخر میں سلفی صاحب کی خدمت میں گزارش ہے کہ جو فنی سہولتیں اپنے لیے پسند فرماتے ہیں، وہ دیگر تمام فرقوں کے لیے بھی پسند فرمائیں تو ان شاء اللہ اختلاف کی گنجائش ختم ہوگی۔ اللہ تعالیٰ قدیم وجدید تمام فتنوں سے حفاظت فرمائے اور اسلاف کے دامن سے وابستہ رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم۔

راقم ناکارہ گزشتہ ایک ماہ سے ریڑھ کی ہڈی میں شدید تکلیف کے باعث چارپائی پر ہے اور لیٹے لیٹے یہ عریضہ ارسال کیا ہے۔ بہت سی کتابوں کی طرف مراجعت نہ کر سکا۔ محض یادداشت کی بنا پر چند گزارشات پیش کی ہیں۔ یہ عریضہ بھی بحث برائے بحث نہیں ہے۔ ناقدین حضرات اس بات کو ملحوظ خاطر رکھیں۔

سید مہر حسین بخاری

کامرہ

* اس ضمن میں ماہنامہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے ’’مفسر قرآن نمبر‘‘ (اگست تا اکتوبر ۲۰۰۸ء) کے صفحہ ۴۷۱ پر حضرت صوفی صاحب رحمہ اللہ کے ایک خطبہ جمعہ سے نقل کیا جانے والا حسب ذیل اقتباس بھی قابل ملاحظہ ہے:

’’ایران وعراق گزشتہ دوسال سے آپس میں دست وگریبان ہیں۔ ہزاروں مسلمان ہلاک ہوچکے ہیں، املاک تباہ ہوچکی ہیں مگر ان کے درمیان صلح کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔ دونوں ملکوں کی آبادی کلمہ گو مسلمان ہیں۔ شیعہ اور سنی کہلانے والے بھی دونوں ممالک میں موجود ہیں، مگر پستی کا یہ عالم ہے کہ صلح کے متعلق کسی کی بات بھی سننے کے لیے تیار نہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر مسلمان آپس کے حالات کو درست نہیں کریں گے، آپس میں ہی لڑ لڑ کر کمزور ہوجائیں گے تو بیرونی طاقتیں تم پر چھا جائیں گی۔ تمہارا ملک اور دولت بھی چھین لیں گے اور تمہاری عزت و آبرو کو خاک میں ملادیں گے۔ اس وقت تمہاری یہ سودخوری، رشوت خوری اور عیش وعشرت سب ختم ہوجائیں گے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، اے ایمان والو! واصلحوا ذات بینکم آپس کے حالات کو درست کرلو، وگرنہ تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں۔‘‘ (خطبہ جمعہ ۳۰ ؍اپریل ۱۹۸۲ء) 

(مدیر)

(۶)

محترم جناب محمد عمار خان ناصر صاحب 

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میں نے آج کل سرگودھا یونیورسٹی جوائن کر لی ہے۔’الشریعہ‘ باقاعدگی کے ساتھ گھر کے پتہ پر موصول ہو رہا ہے۔آپ کی علمی کاوشیں انتہائی قابل قدر اور لائق ستائش ہیں۔ ہمارے شعبہ اسلامیات میں چند ماہ بعد پی ایچ ڈی پروگرام شروع ہونے والا ہے۔ آپ کی محققانہ کاوش ’’حدود تعزیرات: چند اہم مباحث‘‘ پی ایچ ڈی پروگرام کے کورس ورک کے تیسرے پیپر Shariah Law کی مجوزہ کتب میں شامل کی گئی ہے۔ ع 

اللہ کرے زورقلم اور زیادہ

’الشریعہ‘ جنوری ۲۰۱۰ میں مجلہ ’المصطفیٰ‘ کے امام اہل سنت نمبرپر آپ کے تبصرہ کے حوالے سے کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔ آپ نے بریلوی دیوبندی اختلاف کے ضمن میں مذکورہ مجلہ میں جناب مولانا مفتی رفیع عثمانی صاحب کے پیش کردہ تصور پرتحفظات ظاہر کیے ہیں۔ راقم دو جملوں کے حوالے سے، جو آپ نے انڈر لائن کیے ہیں، آپ کی توجہ کا طالب ہے۔پہلا جملہ ہے: ’’(بریلوی اور دیوبندی مکاتب فکر میں) حقیقت میں ایساکوئی اختلاف عقائد کے باب میں نہیں ہے جس کی بنا پر ایک دوسرے کو گمراہ یا فاسق قرار دیا جائے۔‘‘ اور دوسرا جملہ ہے: ’’(مفتی صاحب نے دیوبندی بریلوی ہم آہنگی کے حوالے سے مولانا سرفراز خاں صفدر مرحوم کے حضور اپنا مدعا بیان کیا تو انہوں نے) اس پر مسرت کا اظہار کیااور اس کی تائید فرمائی۔‘‘

آپ کا کہنا ہے کہ ’’بریلوی دیوبندی اختلاف سے متعلق مفتی صاحب کا یہ تجزیہ حضرت شیخ الحدیث کے منہج فکر سے کتنا ہم آہنگ ہے، یہ نکتہ زیادہ محتاج وضاحت نہیں، لیکن کسی وضاحتی یا اختلافی نوٹ کے بغیر اس کی شمولیت نہ اس اشاعت کے مرتبین کو کھٹکی ہے اور نہ موصولہ موادپر نظر ثانی کر کے اس کی منظوری دینے والے بزرگوں کو۔‘‘

میری گزارش یہ ہے کہ آپ جس نکتے کو زیادہ محتاج وضاحت نہیں سمجھ رہے، وہ بہت سے لوگوں کے نزدیک سخت محتاج وضاحت ہے۔ آپ براہ کرم یہ وضاحت ضرور شائع فرمائیں کہ مفتی رفیع عثمانی صاحب کا یہ خیال کہ’’ عقائد کے باب میں دونوں مکاتب فکر (بریلوی دیوبندی) کا اختلاف بڑی حد تک صرف تعبیر اور الفاظ کا اختلاف ہے،‘‘ آپ کے نزدیک کیوں محل نظر ہے۔ فرض کریں دونوں مکاتب فکر کا یہ اختلاف بڑی حد تک الفاظ کا اختلاف نہ بھی ہوتو بھی مفتی صاحب کا یہ جذبہ بے حد قابل تحسین ہے کہ دیوبندی اور بریلوی مکاتب فکر میں بڑھتی ہوئی خلیج کو پاٹنا چاہیے اور ایک دوسرے کو گمراہ و فاسق قرار دینے سے احتراز کا رویہ اپنانے کی راہ ہموار کرنا چاہیے۔ ورنہ اگر بدقت نظر دیکھیں تو مفتی صاحب سے سو فیصد اتفاق کرنا پڑے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ بریلوی دیوبندی اختلافات کی بنیادوں میں بالعموم ہر دو طرف سے ضد، تعصبات اور حسد کے جذبات کارفرما نظر آتے ہیں۔ دونوں مکاتب فکر کے بڑے بڑے ناموں کے بے حد احترام کے باوصف میں یہ کہنے کی جسارت کروں گاکہ یہ نور بشر، علم غیب اور حاضر ناظر وغیرہ پر نفیاً یا اثباتاً تالیفات عام طور پر سطحی محرکات کی پیداوار ہیں۔ یہ بات کتنی حیرت انگیز ہے کہ شارع ؐنے تو واضح طور پر بتا دیا کہ ان ان کا عقائدکا حامل مسلمان ہے اور یہ وہ عقائد ہیں جن کا زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق ہر مسلمان کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کے بغیر وہ مسلمان نہیں، مگر ہمارے کرم فرما ہیں کہ ان کے بیان کردہ عقائد کو شاید ہی کوئی سادہ مسلمان سمجھ سکتا ہو۔شارع ؐکے ہدایت فرمودہ عقائد تو ایک سطر میں بیان ہو سکتے ہیں مگر ہمارے مہربانوں نے دفتروں کے دفتر سیاہ کر دیے ہیں لیکن عقائد کا بیان ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آتا۔ مان لیتے ہیں کہ عقائد کی بہت ساری تفصیلات ہوتی ہیں جن کی تعبیر وتشریح اہل علم کو کرنا ہوتی ہے۔ تو جی بسم اللہ کرتے رہیے، لیکن اپنی اپنی ان موضوعی تعبیرات وتفصیلات کو خدارا عوام الناس پر تو یوں نہ تھوپیے کہ وہ شارع ؐ کے تعلیم فرمودہ عقائد کو ماننے کے باوجود اس وقت تک صحیح مسلمان (صحیح کا لفظ میں مروۃًاستعمال کر رہا ہوں، ورنہ زیر نظر اختلافات میں بہت سے مواقع پرتو اس کی گنجائش بھی نہیں چھوڑی جاتی) کہلانے کے مستحق نہ ہوں جب تک آپ کے پیش فرمودہ عقائد کو دل و جان سے نہ مان لیں۔ کاش مذکورہ قسم کے عقائدبرصغیر کے علماء میں بحث اور معرکے کا میدان نہ بنے ہوتے اور ان لایعنی مجادلوں پرکتابیں اور مضامین لکھ لکھ کر وقت اور انرجی کا ضیاع نہ کیا جاتا۔ یوں نہ صرف یہ قوم فتنہ و فساد میں مبتلا ہونے سے بچ جاتی بلکہ اقبال کی تعبیر کے مطابق قابل فخر’’ذہن ہندی‘‘کا مذہبی عنصردیگر واقعی مطلوب علمی معرکے سر کرنے میں اپنی توانائیاں صرف کر سکتا۔ مگرع اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔

محترم عمار صاحب! مفتی رفیع عثمانی صاحب کے مذکورہ الفاط راقم آثم کے نزدیک توبریلویوں اور دیوبندیوں کو اپنے اپنے مدارس کے باہر سائن بورڈز پر لکھ کرآویزاں کر لینے چاہییں کہ یہ ان کا بالخصوص موجودہ حالات میں ملک و ملت پر بہت بڑا احسان ہو گا۔

جہاں تک مفتی صاحب کے اس جملے پر آپ کے تحفظات کا تعلق ہے ،جس میں انہوں نے اپنی مذکورہ خواہش پر حضرت شیخ الحدیث کی مسرت و تائید کا ذکر فرمایا ہے تو اس کی وضاحت تو بطور خاص آپ کو لازماً کرنا چاہیے کہ کیا پھرآپ کے جد محترم اس خواہش پر ناراض ہوئے ہوں گے اور اس کی تائید نہیں فرمائی ہو گی؟ (جیسا کہ آپ کے تحفظات سے لگتا ہے کہ ایسا ہی ہوا ہو گا۔) نیز پھرحضرت شیخ الحدیث مرحوم ومغفور کے اس دوسرے رویہ کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

ڈاکٹر محمد شہباز منج

یونیورسٹی آف سرگودھا

drshahbazuos@hotmail.com

مکاتیب

(فروری ۲۰۱۰ء)

تلاش

Flag Counter