انیسویں صدی کی آخری دہائی میں امت مسلمہ اپنی تاریخ کی نازک ترین گھڑیوں سے گزر ر ہی تھی کیونکہ موجودہ پرفتن دور میں جب کہ اسے شدید قحط الرجال کا سامنا ہے علماء امت کا لگاتار یکے بعد دیگرے اٹھتے چلے جانا یقیناًکسی ہرج مرج سے کم نہیں ہے۔ جانے والوں میں محققین، عُباد، زہاد، مبلغین، مصلحین، مفکرین، فقہاء اور دعاۃ بھی ہیں۔ مختلف علوم کے ماہرین اور بلند پایہ مصنفین بھی، قرآن کے مفسربھی ہیں حدیث کے ماہرین بھی، ادیب و شاعر بھی ہیں خطباء اور اسکالرز بھی۔ ابھی حال ہی میں عالم اسلام کی کئی جلیل القدر ہستیاں اللہ کو پیاری ہوگئیں جن میں مملکت سعودیہ کے مفتی شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن بازرحمہ اللہ بھی ہیں۔ مصطفی زرقاء جیسے فقیہ، علی الطنطاوی جیسے خطیب و ادیب کبیر، انور الجندی جیسے اسکالر، ڈاکٹر محمد حمید اللہ جیسے عظیم محقق، شیخ ناصر الدین البانی ؒ (۱) جیسے محدث جلیل اور علامہ شبیر احمد ازہر میرٹھی جیسے محدث ومفسر اورعلامہ محمد بہجۃ الاثری، علامہ محمود محمد شاکر، علامہ محمد صالح العثیمین ،شیخ الحدیث مولانا عبید اللہ رحمانی وغیرہم شامل ہیں۔ یہ سارے ہی لوگ مختلف مشرب رکھتے تھے اور مختلف مکاتبِ فکر سے ان کا تعلق تھا تاہم وہ سب پوری امت کی میراث اور عالم اسلام کا مشترکہ سرمایہ ہیں۔ ان میں سے کسی کی بھی رائے اور تحقیق سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ان کے خلوص، تقوی و للہیت پر شک و شبہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ اختلاف رائے کا حق ہر شخص کو حاصل ہے کہ امام دار الہجرت مالک رحمہ اللہ کے الفاظ میں ’’کل یؤخذ قولہ و یرد إلا صاحب ھذ القبر‘‘ کی رو سے مرجعیت حقیقی صرف اور صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے۔
دین کی اصل بنیاد قرآن کریم اور اس کی تشریح سنت صحیحہ ثابتہ ہیں۔ صحابہ اور سلفِ امت ہر معاملہ میں انھیں دونوں کی طرف رجوع کرتے تھے کیونکہ یہی دونوں أصالۃً فکر اسلامی کا اصل سرچشمہ ہیں،رہے اجماع(۲) واجتہاد (قیاس)(۳) تو وہ بھی مصدرشرعی ہیں لیکن یہ دونوں تبعاً مصدر ہیں یعنی قرآن و سنت ہی کے تابع ہوں گے۔ باقی رہیں علماء امت و ائمہ عظام کی آرا، اجتہادات اور مسالک فقہیہ و مشارب کلامیہ تو یقیناًوہ سب ہمارا سرمایہ ہیں، ہمیں عزیز ہیں، لیکن وہ بذات خود حجت و سند نہیں۔ ان کی صحت و سقم، غلطی و صواب کی اصل کسوٹی قرآن اور سنت صحیحہ ہیں۔ تمام محققین سلف کا بھی یہی طریقہ رہا ہے۔(۴) اسی کی رہنمائی قرآن یوں کرتا ہے:’’فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ‘‘(النساء:۵۹) ’’جب تم میں کسی چیز کے بارے میں اختلاف ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو۔‘‘
عالم اسلام پر طاری موجودہ زوال کا ایک بہت بڑا سبب یہ ہے کہ قرون مشہود لھا بالخیر کے معاًبعد اس رجحان میں نمایاں تغیر واقع ہو گیا۔ مختلف کلامی فرقے، فقہی تحزبات اور مکاتبِ فکر قائم ہوگئے، عجمی تصوف، یونانی تفلسف اور سیاسی دھڑے بندیوں نے اس زوال میں مزید اضافہ کر دیا۔ توحیدی فکر گم اور اسلامی شخصیت پژمردہ ہو کر رہ گئی۔ قرآن کو مختلف اور متضاد تاویلوں کا نشانہ بنا لیا گیا۔ حدیث کا انکار ہونے لگا۔ اسلامی عقیدہ مختلف ایجاد بندہ رسوم و بدعات کا شکار ہوگیا۔ اور وہ صورتِ حال مسلمانوں پر چھاگئی جس کا ماتم اقبالؔ جگہ جگہ کرتے ہیں۔ (۵)
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا تھا ’’لن یصلح آخر ہذہ الأمۃ إلا بما صلح بہ أولھا‘‘ (اس امت کے آخر کی اصلاح بھی اسی سے ہوگی جس سے اس کے اول کی اصلاح ہوئی تھی) اصلاح وتجدید کا یہ دائمی اصول ہے اور احیاء دین کی کوئی بھی کوشش اس کو نظر انداز کرکے کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اس اصول کا خلاصہ دو لفظوں میں قرآن اور سنت صحیحہ کی طرف دوبارہ رجوع کی دعوت ہے۔ زوال کے ادوار میں بھی خال خال ایسے مصلحین و مجددین پیدا ہوتے رہے ہیں جنھوں نے اس چشمۂ صافی کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دی، یہی حقیقی اسلامی فکر ہے اور یہی سلفیت حقہ ہے۔ محدث القرن العشرین، محی السنۃ علامہ محمد ناصر الدین البانی بھی اسی مبارک قافلے کے ایک رکن رکین تھے جنھوں نے دعوت و اصلاح، تجدید و ترشید اور تحقیق و اجتہاد سے بھرپور ایک عمر گزاری اور بہترین زاد راہ لے کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوگئے۔ آئندہ سطور میں ہم علامہ البانی رحمہ اللہ کے مکتب فکر کے بعض امتیازات و خصائص پر روشنی ڈالیں گے۔
البانیہ (۶) کے سابق دار الحکومت اچک درہ (اشقو درہ) کے ایک مفلس لیکن متدین اور علمی گھرانے میں شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے آنکھیں کھولیں۔ ان کانسبی تعلق ترک نژاد اور ناؤط قبیلہ سے ہے۔ تاریخ پیدائش ۱۳۳۳ھ مطابق ۱۹۱۴ء ہے۔ ان کے والد الحاج نوح نجاتی ایک متصلب حنفی عالم اور صوفی تھے۔ جنھیں اس علاقہ میں دینی و علمی مرجعیت حاصل تھی۔ محمد ناصر الدین کی پیدائش کے چند سال بعد ہی اس خاندان کو البانیہ کو خیر باد کہہ دینا پڑا۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ ترکی میں آنے والے انقلاب اور یوروپ کی ترقیات سے مرعوب ہو کر البانیہ کے والی احمد زاغو نے بھی اپنے ملک میں سیکولرزم کو اختیار کر لیا اور مذہبی لوگوں پر زیادتیاں شروع کر دیں اور جبراً مغربیت تھوپنے لگا۔ چنانچہ الحاج نوح البانیہ سے ہجرت کرکے دمشق (شام) چلے گئے اور وہیں مستقل سکونت اختیار کرلی ۔ اس وقت دمشق میں ایک نیم سرکاری چیریٹبل سوسائٹی جمعیۃ الاسعاف الخیریہ تعلیمی و رفاہی کاموں میں سرگرم تھی۔ اس کے تحت چلنے و الے ابتدائی مدرسہ میں محمد ناصر الدین نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔
چونکہ ان کے والد سرکاری اسکولوں کے مخصوص رجحانات کے باعث ان کے نظام اور نصاب سے اختلاف رکھتے تھے اور اس تعلیم کے ثقافتی اثرات و نتائج سے مطمئن نہ تھے۔ لہٰذا اپنے بیٹے کے لیے خود ہی ایک خاص نصاب بنایا اور اسی کے مطابق ان کو حفظ قرآن، تجوید کے ساتھ ہی لغت، صرف و نحو اور فقہ حنفی کی تعلیم دی۔ حفظ و تجوید کی تکمیل بروایت حفص کی۔ پھر دمشق کے متعدد علماء و مشائخ سے مختلف علوم حاصل کیے، (۷)اس دیار کے مشہور عالم شیخ سعید البرہانی سے لغت و بلاغت و ادب کے ساتھ فقہ حنفی کی معروف کتاب مراقی الفلاح، شرح نور الإیضاح وغیرہ پڑھیں۔ اپنی تعلیم کے دوران ہی محمد ناصر الدین علامۃ الشام شیخ بہجہ البیطار کے علمی حلقہ میں آئے اور ان کے دروس و افادات سے فیضیاب ہونے لگے۔
اسی حلقہ کا اثر تھا کہ درسیات کے ساتھ ہی محمد ناصر الدین کو خارجی مطالعہ کا شوق بھی پیدا ہو گیا۔ ان کے مطالعہ میں بطورِ خاص شیخ سید رشید رضا(۸) کی تحریریں اور ان کا رسالہ المنار رہتا تھا۔ رشید رضا محی السنۃ کے نام سے جانے جاتے تھے اور مصرو شام میں رجوع الی القرآن و السنۃ کی تحریک کے اولین نقیب تھے۔ ان کی تحریروں سے غذا پاکر نوجوان ناصر الدین اپنے متشدد حنفی والد کی رائے اور رجحان کے برخلاف اجتہادی اور سلفی مکتبِ فکر سے قریب تر ہوتے چلے گئے۔ اور ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ اور ان کے استاذ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی تحریروں کے مطالعہ نے مزید گہرائی اور رسوخ پیدا کر دیا۔
شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کو دمشق کے علمی مراکز سے سندیں اور ڈگریاں حاصل کرنے کا اتفاق تونہیں ہوا لیکن حدیث سے ان کی دل چسپی، انہماک اور تفوق کو دیکھتے ہوئے حلب کے مشہور عالم، محقق اور مورخ راغب الطباخ نے انھیں حدیث کی سند عطا کر دی۔ نوعمری میں ہی شیخ محمد ناصر الدین نے اپنے والد سے گھڑی سازی سیکھی اور بطور پیشہ اسی کو اپنایا۔ اس کی وجہ سے انھیں حدیث میں زیادہ سے زیادہ وقت لگانے کا موقع مل گیا کہ بقدر کفاف گھڑی سازی سے انہیں روزی حاصل ہوجاتی تھی۔ شروع میں وہ الساعاتی بھی کہے جاتے تھے۔ یاد رہے کہ الاخوان المسلمون کے بانی و مؤسس شیخ حسن البناء کے والد شیخ احمد البناء بھی گھڑی ساز تھے اور نامور محدث بھی جنھوں نے مسند احمد کی ایک ناتمام شرح الفتح الربانی کے نام سے لکھی ہے۔ (۹)
عمر کی دوسری دہائی میں شیخ محمد ناصر الدین نے اپنا پہلا حدیثی کارنامہ یہ انجام دیا کہ حافظ عراقی کی ’’المغنی عن جمل الأسفار فی تخریج مافی الإحیاء من الأخبار‘‘ پر تعلیقات چڑھائیں۔اس کام کی تقریب یوں پیدا ہوئی کی سید رشید رضا (۱۳۵۴ھ) کے مجلہ’’ المنار‘‘ میں انھیں کے قلم سے امام غزالی کی احیاء علوم الدین پر نقد و تبصرہ شائع ہوا۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے پڑھا اور اسی سے ان کو ’’الإحیاء‘‘ کے مطالعہ کا شوق ہوا۔ چنانچہ ’’احیاء‘‘ کو انھوں نے حافظ زین الدین العراقی رحمہ اللہ (۸۰۶ھ) کی تخریج احادیث کے ساتھ پڑھا۔ اور اس بالاستیعاب مطالعہ میں تعلیقات بھی لکھتے گئے۔ اسی مطالعہ نے انھیں تحقیق کی نئی راہ دکھا دی۔ آگے کی راہ بھی ہموار کر دی اور ان کا منہج عمل بھی متعین کر دیا۔ اب دمشق کے علمی حلقوں میں ان کی شہرت ہوگئی اور ان کا احترام کیا جانے لگا۔ حتی کہ شہر کے مشہور کتب خانہ ’’الظاہریہ‘‘ کے ذمہ داروں نے ان کی محنت، ذوق و شوق اور علمی لگن کو دیکھ کر ان کے مطالعہ کے لیے ایک کمرہ متعین کر دیا اور لائبریری کی چابی بھی انھیں دیدی کہ جس وقت چاہیں مطالعہ کر سکیں۔ (۱۰)
جس جگہ قبر ہو وہاں صلاۃ ادا کرنا اور اسے مسجد بنانا خاصا مختلف فیہ مسئلہ رہاہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ اس مسئلہ میں ابتداء ہی سے عدم جواز کی رائے رکھتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے ’’تحذیر الساجد من اتخاذ القبور مساجد‘‘ کے نام سے کتاب لکھی اور اس مسئلہ سے متعلق مختلف فقہی آراء کا تقابلی مطالعہ اور ان پر قرآن و حدیث کی روشنی میں محاکمہ کیا اور اپنی رائے کو مدلل طور پر پیش کیا۔ (۱۱) یہ بحث خاصی ہنگامہ خیز ثابت ہوئی اور کافی لے دے مچی۔ یہ کتاب کئی بار شائع ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ شیخ کے اولین کارناموں میں معجم طبرانی کی تخریج بھی ہے۔ جس کانام انھوں نے ’’الروض النضیر فی ترتیب و تخریج معجم الطبرانی الصغیر‘‘ رکھا۔شیخ البانی رحمہ اللہ کے ان تحقیقی کاموں نے دیار شام کے علماء میں انھیں ممتاز کر دیا اور شام کے محدث کبیر علامہ بدر الدین الحسینی کے جانشین کے طور پر دیکھے جانے لگے۔
حدیث و سنت کے دفاع، تحقیق و تنقید حدیث اور سلف صالحین کی فکر کی تشریح میں شیخ البانی کی تصنیفات کی تعداد تقریباً ۱۶۵تک پہنچتی ہے۔ جن میں بعض تالیفات ضخیم ہیں۔ بعض چھوٹے چھوٹے رسائل کی شکل میں ہیں۔ ان کتابوں میں اکثر شائع ہوچکی ہیں اور متعدد کا ترجمہ مختلف عالمی زبانوں میں ہو چکا ہے۔ بعض کتابیں ابھی غیر مطبوع ہیں، عصر حاضر کے مستند اور علمی اسلامی لٹریچر میں ان تصنیفات کا مقام نہایت بلند ہے۔ ان کی چند اہم اور مشہور ترین کتابیں درج ذیل ہیں۔ (واضح رہے کہ ان کے مخطوطات، منافشات وغیرہ کو جمع کرکے یہ عدد ۲۲۱تک پہنچ جاتا ہے)
۱۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ ۱۴ اجزاء ۵ جلدوں میں منظر عام پر آچکی ہے۔
۲۔ سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ و الموضوعۃ و أثرھا السیئ فی الأمۃ، فہارس ایک الگ جلد میں ہیں۔ یہ کتاب مکمل چھپ چکی ہے اور شیخ کی مقبول ترین کتابوں میں سے ہے۔ الصحیحۃ اور الضعیفۃ دونوں ہی شیخ کے ان قسطوار مضمونوں کا مجموعہ ہیں جو مجلۃ التمدن الإسلامی دمشق میں عرصہ تک شائع ہوتے رہے۔ بعد میں انہیں کتابی شکل دے دی گئی (۱۲) ۷ جلدیں شائع ہوگئیں۔ کل ۱۴ جلدوں میں آئے گی۔
۳۔ صحیح الجامع الصغیر و زیاداتہ ۔ طبع اول چھ جلدوں میں طبع ثانی دو جلدوں میں۔
۴۔ ضعیف الجامع الصغیر ۔ ۱۶؍ اجزاء مکمل دو جلدوں میں چھپ چکی ہے۔
۵۔ صحیح الترغیب و الترہیب للمنذری۔
۶۔ ضعیف الترغیب الترہیب للمنذری۔
۷۔ صحیح سنن أبی داوٗد۔
۸۔ ضعیف سنن أبی داوٗد۔
۹۔ صحیح سنن ابن ماجہ۔
۱۰۔ ضعیف سنن ابن ماجہ۔
۱۱۔ معجم الحدیث (۴۹ اجزا ) غیر مطبوع ہے۔ شیخ کی اکثر تخریجات و تحقیقات کی بنیاد یہی کتاب ہے۔ (۱۳)
۱۲۔ حجیۃ السنۃ مشہور کتاب ہے اور اس کے مختلف زبانوں میں ترجمے ہوچکے ہیں، اردو میں ہمارے استاذ مولانا بدرالزماں نیپالی مدنی نے ترجمہ کیا ہے۔ اسی موضوع پر ان کا ایک اور رسالہ ’’منزلۃ السنۃ فی الإسلام‘‘ کے نام سے بھی شائع ہوا ہے۔
۱۳۔ تسدید الإصابۃ إلی من زعم نصرۃ الخلفاء الراشدین الصحابۃ ۔ ۵ جلد مطبوع ہے۔
۱۴۔ صفۃ صلاۃ النبی من التکبیر إلی التسلیم کأنک تراھا۔ یہ بھی شیخ کی مشہور ترین کتابوں میں سے ہے۔ اور اس کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ (۱۴) اردو میں دو ترجمے پائے جاتے ہیں، ایک پاکستان میں ہوا ہے دوسرا ہندوستان میں۔
ان تصانیف کے علاوہ شیخ نے تقریباً ۵۰ کتابوں کی تخریج بھی کی ہے۔ ان پر تحقیقی حواشی اور تعلیقات لکھی ہیں۔ بیشتر طبع ہوچکی ہیں اور کئی کا متعدد زبانوں میں ترجمہ بھی ہو گیا ہے۔ ان کی مشہور ترین تخریجات یہ ہیں۔
۱۵۔ إرواء الغلیل فی تخریج أحادیث منار السبیل: ۷اجزاء۔ ایک علیٰحدہ جزء فہارس کا بھی ہے۔ منار السبیل فقہ حنبلی کی معروف کتاب ہے۔
۱۶۔ الذب الأحمد عن مسند الإمام أحمد۔ پاکستان کے ایک عالم نے مسند امام احمد کی اصلیت کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا اس کی تردید میں شیخ نے یہ کتاب لکھی ہے۔ (۱۵)
۱۷۔ تخریج احادیث کتاب شرح العقیدۃ الطحاویۃ مقدمہ اور تعلیقات کے ساتھ۔
۱۸۔ خطیب تبریزی کی مشکاۃ المصابیح کی تخریج ۳ جلد، مطبوع ہے۔
۱۹۔ ریاض الصالحین للإمام النووی کی تخریج مطبوع ہے۔
۲۰۔ مختصر صحیح مسلم للإمام المنذری کی تحقیق و تحشیہ مطبوع ہے۔
۲۱۔ الجمع بین میزان الاعتدال للذھبی و لسان المیزان لابن حجر کی تحقیق غیر مطبوع۔
۲۲۔ صحیح الأدب المفرد و ضعیف الأدب المفرد للامام البخاری رحمہ اللہ۔
۲۳۔ ان تحقیقات کے علاوہ حجاب المرأۃ المسلمۃ و لباسھا فی الصلاۃ لابن تیمیۃ رحمہ اللہ کو مزید تحقیق حواشی اور تعلیقات کے ساتھ شائع کیا۔ اس موضوع پر خود ان کی بھی مستقل کتاب موجود ہے جس کا نام حجاب المرأۃ المسلمۃ فی الکتاب و السنۃ ہے۔ اس کے دوسرے ایڈیشن میں شیخ نے مزید اضافے کیے اور یہی کتاب جلباب المرأ ۃ المسلمۃ کے نام سے شائع ہوئی۔ اس میں شیخ نے اپنی تحقیق کی روشنی میں سفور (چہرہ کا پردہ نہیں) کوترجیح دی ہے ۔وہ چہرہ کے پردہ کے وجوب کے قائل نہیں تھے لیکن اسے مستحب سمجھتے تھے اور اپنی اہلیہ اور خواتین کو پردہ کراتے تھے۔یہ مسئلہ خاصا مختلف فیہ ہے اور بہت سے علماء نے اس مسئلہ میں شیخ سے اختلاف کیا ہے۔(۱۶) ذاتی طور پر ناچیز شیخ البانی کی تحقیق کو راجح سمجھتا ہے۔
علاوہ ازیں ۲۴۔ مختصر کتاب الإیمان لابن تیمیۃ، ۲۵۔ کتاب العلم لأبی خیثمۃ، ۲۶۔ رسالۃ فی الصیام لابن تیمیۃ، ۲۷۔ اقتضاء العلم و العمل، خطیب بغدادی، ۲۸۔ المسح علی الجوربین، جمال الدین القاسمی، ۲۹۔مختصر العلوللذھبی، ۳۰۔ مختصر صحیح البخاری، ۳۱۔ الروضۃ الندیۃ صدیق حسن خاں بھوپالی، ۳۲۔ فضل الصلاۃ علی النبی، قاضی اسماعیل، ۳۳۔ الکلم الطیب لابن تیمیۃ وغیرہ کو اپنی تحقیق و تخریج کے ساتھ شائع کیا۔ ان کے علاوہ: ۳۴۔ آداب الزفاف فی السنۃ المطھرۃ، ۳۵۔أحکام الجنائز وبدعھا، ۳۶۔ حجۃ النبی ﷺ کما رواھا جابرؓ شیخ البانی کی اہم تصانیف میں شمار ہوتی ہیں۔ مزید براں شیخ البانی نے محمد الغزالی کی فقہ السیرۃ، سعید رمضان البوطی کی فقہ السیرۃ (۱۷) شیخ یوسف القرضاوی کی الحلال و الحرام فی الإسلام اور مشکلۃ الفقر وکیف عالجھا الإسلام کی تحریج بھی کی ہے۔ ان کے علاوہ بھی متعدد کتابیں، رسالے اور مقالے ہیں جن میں دوسرے معاصر علماء پر نقد، بعض کتابوں کا جواب اور علمی تعاقب ہے۔ (۱۸)
شیخ البانی رحمہ اللہ کی ایک بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ محض کتابی عالم اور گوشہ نشین محقق نہ تھے بلکہ محیر العقول علمی اور تحقیقی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ہی انھوں نے تمام عمر اپنی دعوتی و اصلاحی سرگرمیاں بھی جاری رکھیں۔ اس کے لیے انھوں نے اپنا اولین میدان دمشق (شام) کو بنایا تھا۔ جہاں غالی تصوف، متعصب و جامد فقہی مکاتبِ فکر اور شیعیت کے بطن سے جنم لینے والے نصیری، دروزی اور اسماعیلی جیسے گمراہ و بدعتی فرقوں کابڑا زور تھا اور صحیح اسلامی عقیدہ رفض و تشیع اور تصوف کی انھیں مختلف گمراہ کن شکلوں اور بدعات و خرافات کے گردو غبار میں روپوش تھا۔ انھوں نے عقائد کی اصلاح کے لیے چھوٹے بڑے رسائل بھی لکھے اور درسِ حدیث کے حلقے بھی قائم کیے۔ توحید، فقہی مسالک اور تقلید جامد جیسے مسائل پر ان کے اور مختلف مشائخ و فقہاء کے مابین مناظرے و مناقشے بھی ہوئے۔ شیخ ان مسائل میں بعض اوقات شدت اختیار کرلیتے تھے (جو کہ وقت کا تقاضا اور مطلوب تھی) اس کی وجہ سے مشائخ، صوفیاء اور عام مقلد علماء کے اندر شدید رد عمل ہوا۔ انھوں نے شیخ البانی رحمہ اللہ کی شدید مخالفت شروع کر دی۔
حتی کہ شیخ کے والد بھی جو ایک متشدد حنفی عالم اور صوفی تھے اور بیٹے کو بھی روحانی مراکز اور مزارات پر لے جانا چاہتے تھے ان کے خلاف ہوگئے۔ (۱۹) پورے علاقہ میں ان کے خلاف پروپیگنڈہ کے ذریعہ مخالفانہ فضا بنا دی گئی۔ لوگ انھیں ’’گمراہ وہابی‘‘ کہنے لگے۔ تاہم محقق اور راسخ العقیدہ علماء کی تائید و حمایت انھیں ہمیشہ حاصل رہی ۔ بطور خاص ان کے استاذ وشیخ علامہ بہجہ البیطار سے انھیں سرگرم حمایت و تقویت ملی نیز علامہ محب الدین الخطیب، شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز، علامہ عبد المحسنحمد العبّاد، ڈاکٹر ربیع ہادی اور علامہ مقبل بن ہادی وادعی اور شیخ محمد عبد الوہاب البنّاء وغیرہم نے آپ کی بھر پور تائید کی۔
اپنی اصلاحی ودعوتی سرگرمیوں کو شیخ البانی رحمہ اللہ نے دو حصوں میں تقسیم کیا ہوا تھا۔ ایک میں وہ ہفتہ میں دو مرتبہ تصحیح عقائد اور علمی مسائل میں درس دیتے تھے جن میں شیخ کے تلامذہ و رفقاء کے علاوہ جامعات کے طلبہ بھی حصہ لیتے تھے۔ جن کتابوں کا درس دیا جاتا تھا ان میں خاص یہ ہیں: الروضۃ الندیۃ مؤلفہ صدیق حسن خاں رحمہ اللہ (نواب بھوپال) جو الدرر البھیۃ للشوکانی کی شرح ہے۔ أصول الفقہ شیخ عبد الوہاب خلاف، الباعث الحثیث شرح اختصار علوم الحدیث لابن کثیر (تحقیق احمد شاکر) منھاج الإسلام فی الحکم محمد اسد، فقہ السنۃ از سید سابق جسے شیخ حسن البناء کے ایماء پرترتیب دیا گیا تھا۔ شیخ البانی نے اس کتاب کا تکملہ و تصحیح نامہ بھی لکھا ہے جس کا نام تمام المنۃ علی فقہ السنۃ ہے۔ (۲۰)
اپنے اصلاحی کاموں کے دوسرے حصہ میں وہ ماہانہ ٹور کرتے جو باقاعدگی اور پابندی سے ہوتے اور ہفتہ ہفتہ جاری رہتے۔ ان سفروں میں وہ خاص کر شام اور اردن کے مختلف علاقوں، شہروں اور بستیوں کادورہ کرتے اور لوگوں کو اپنے اصلاحی مواعظ، تقاریر اور دروس سے مستفید کرتے تھے۔ شیخ البانی کے علمی و تحقیقی منہج درس اور اصلاحی پروگرام کے بہت مثبت اثرات پڑے۔ ان کی دور رسی کا اندازہ معاندین اہل بدعت کو بھی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ کے خلاف ان کو جو بھی موقع ملتا وہ اس کو ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے ان کی مسلسل سازشوں اور غلط بیانیوں کے باعث حکام کو شیخ کے خلاف کر دیا گیا چنانچہ ۱۹۶۷ء میں انھیں ایک مہینہ تک جیل میں ڈال دیا گیا۔ دوسری بار پھر ۶مہینہ کے لیے انھیں حوالۂ زنداں کر دیا گیا۔ لیکن ان ساری پریشانیوں کو انھوں نے خندہ جبینی سے برداشت کیا۔ جیل میں بھی سنتِ یوسفی جاری رہی اور قیدو بند کی آزمائشوں کے باوجود شیخ کا علمی، دعوتی اور تحقیقی سفر جاری رہا۔
علامہ البانی رحمہ اللہ موجودہ زمانہ میں عمل بالکتاب والسنۃ کے پر جوش داعی و علمبردار تھے۔ حق گوئی و بے باکی کے نتیجہ میں ہمیشہ جلا وطنی اور مہاجرت کی زندگی گزاری، غیر اسلامی اور غیر شرعی اعمال پر امراء اور اربابِ اقتدار کو بھی ٹوکنے اور متنبہ کرنے سے نہ چوکتے۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ مختلف علاقوں میں قیام پذیر ہوتے رہے کبھی شام، کبھی کویت وحجاز اور کبھی اردن میں۔ ۲۰؍اکتوبر ۱۹۹۹ء کو عمان (اردن) میں انتقال ہوا۔ وہیں سپرد خاک ہوئے، وفات سے پہلے ہی آپ نے اپنی وصیت تحریر فرما دی تھی۔ (۲۱) اپنی عملی زندگی میں شیخ البانی رحمہ اللہ نے غیر معمولی نشاط وحرکت کا مظاہرہ کیا جس نے عالم اسلام کے اہم مراکز و رہنماؤں کو ان کی طرف متوجہ کر دیا اور مختلف جگہوں پر انھیں مختلف ذمہ داریاں تفویض کی گئیں جن میں سے کچھ خاص سرگرمیوں کا ذکر کیا جاتا ہے:
۱۔ شامی عالم و ادیب دکتور مصطفی السباعی رحمہ اللہ نے انھیں موسوعۃ الفقہ الإسلامی کے ابواب البیوع کی احادیث کی تخریج کے لیے منتخب کیا۔۱۹۵۵ء میں یہ موسوعہ شائع ہوا۔
۲۔ مصر وشام کے انضمام کے بعد متحدہ حکومت کے تحت ایک لجنۃ الحدیث کی تشکیل کی گئی جس کا مقصد کتبِ حدیث کی نشرواشاعت تھا۔ شیخ البانی کو اس لجنۃ (کمیٹی) کا ایک رکن منتخب کیا گیا۔
۳۔ ۱۳۷۳ھ میں سعودی عرب کے إدارۃ البحوث و الإفتاء و الدعوۃ و الإرشاد کی جانب سے شیخ نے مصر، مراکش اور برطانیہ کا دعوتی و تبلیغی سفر کیا اور عقیدہ، سنت اور اصول الدین پر اپنے محاضروں اوردرسوں سے اہل علم اور علمی مجالس کو مستفید کیا۔
۴۔ ۱۳۶۴ھ سے ۱۳۶۷ھ تک، تین سال آپ جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ میں استاذ حدیث و سنت رہے۔۱۳۹۵سے ۱۳۹۸ھ تک جامعہ اسلامیہ مدینہ طیبہ کی مجلس اعلیٰ کے رکن رہے۔ واضح رہے کہ ۱۳۸۸ھ میں انھیں سعودی وزیرتعلیم نے ام القری مکہ مکرمہ کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز کی صدارت کا عہدہ پیش کیا تھا۔ اسی طرح ہندوستان کی جامعہ سلفیہ بنارس نے بھی انھیں شیخ الحدیث کے منصب پر لانے کی کوشش کی تھی لیکن بعض وجوہات کی بنا پر شیخ البانی رحمہ اللہ دونوں ہی جگہ نہیں جا سکے۔
۶۔۱۹۹۹ء میں شیخ البانی رحمہ اللہ کو خدمتِ حدیث پر شاہ فیصل عالمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ویسے اس اعزاز سے علامہ کی قدرو منزلت میں کوئی اضافہ نہیں بلکہ خود اس ایوارڈ نے توقیر پائی۔ (۲۲)
عالم اسلام و عالم عرب میں البانی رحمہ اللہ ایک مستقل مدرسۂ فکر کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ جس کی بنیاد دو اصولوں تصفیۃ اور تربیۃ پر رکھی گئی ہے۔ مختصراً ان کا مفہوم یہ ہے کہ اسلام کے فکری و ثقافتی سرمایہ کو ضیعف، موضوع اور بے سروپا روایات و بدعات اور خرافات سے پاک صاف کرنا اور نئی نسلوں کی صحیح اسلامی عقیدہ کے مطابق روحانی اور اخلاقی تربیت کرنا۔ ان دواصولوں کی تشریح خود علامہ کی زبانی ملاحظہ کریں:
’’تصفیہ سے میری مراد مذہب اسلام کو ہر شک و شبہ سے پاک کرنا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ سنت مطہرہ کے ذخیرہ سے ضعیف و موضوع روایات کو چھانٹ کر الگ کر دیا جائے۔پھر قرآن کی اسی صحیح سنت اور سلف صالح کی فہم و فراستِ آیات کی روشنی میں تفسیر کی جائے۔ اس آخری شق کی تکمیل بغیر علوم حدیث خصوصاً جرح وتعدیل کا گہرا مطالعہ کیے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس سے میری مراد یہ نہیں ہے کہ میں تفسیر قرآن کو ان ہی حدود میں قید کرنا چاہتا ہوں جو سلف نے متعین کی ہیں بلکہ میری منشاء صرف یہ ہے کہ تفسیر کے باب میں منہج سلف کا التزام کیا جائے کیوں کہ اس التزام کا فائدہ یہ ہوگا کہ نتیجۂ فکر کا ارتکاز اور پراگندہ خیالی کا سد باب ہوجائے گا...‘‘۔
اس کے بعد دوسرے اصول کی توضیح یوں کی ہے:
’’اور تربیت سے میری مراد مسلم نسل کو قرآن و سنت سے ماخوذ صحیح اسلامی عقیدہ پر چلنا سکھانا ہے۔ یہاں پر یہ بات میں خصوصیت کے ساتھ ذکر کرنا چاہوں گا کہ مسلمان بچوں کو عبادت کا عادی بناتے ہوئے بعض لوگوں کی طرح ان بچوں کے سامنے عبادت کے مادی فوائد پر زیادہ کلام نہ کیا جائے اور اگر عبادت کے مادی فوائد کا ذکر ناگزیر ہی ہوجائے تو اسے آخری صورت کے طور پر استعمال کیا جانا چاہیے۔ یہاں پر یہ بات کہہ دینا بھی میں نہ بھولوں گا کہ اسلامی قانونِ شریعت کو اللہ اور اس کے حکم کی تابعداری کے طور پر پڑھایا جائے اور وقتِ تدریس اس کے مادی فوائد کو بیان کرنے کا زیادہ اہتمام نہ کیا جائے...‘‘۔ (۲۳)
البانی رحمہ اللہ مکتبِ فکر کے راقم سطور کی نظر میں یہ چند اہم خصائص و امتیازات ہیں۔ چنانچہ ان کے نزدیک:
۱۔ دین کی وہی تعبیر درست و معتبر ہے جو قرآن و سنت اور فہم سلف کے مطابق ہو اور ناجی وہ ہے جو کتاب وسنت کے فہم کے لیے سبیل المومنین پر کار بند ہو۔
اسی پہلو سے انھوں نے متعدد معاصر مسلم شخصیات، مصنفوں اور تحریکات پر رد فرمایا ہے۔ شیخ کے ردود و تعقبات کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ انھوں نے اخوان المسلمون اور جماعتِ اسلامی وغیرہ اسلامی تحریکات سمجھی جانے والی جماعتوں اور ان کی کئی تعبیرات پر بھی تنقید فرمائی۔ یہ دونوں جماعتیں جاہلیۃ القرن العشرین کے عنوان سے ایک اصطلاح استعمال کرتی ہیں اور اس کو اتنا عام کرتی ہیں کہ مسلم ممالک اور ان کے حکمرانوں کو بھی اس عموم میں شامل کرتی ہیں۔ اخوان المسلمون کے متشدد دھڑے جماعۃ التکفیر والہجرۃ نے تو اس اصطلاح کے حوالہ سے معاصر مسلم حکمرانوں کی حکمرانی کو جاہلیت قرار دے کر ان کے خلاف تشدد و ارہاب اور خروج کو جائز قرار دیا تھا۔ اسی جماعت کے ایک رکن خالد اسلامبولی نے انور سادات (مصری صدر) کو کافر اور دشمنوں کا ایجنٹ قرار دے کر گولی مار دی تھی۔ شیخ البانی نے اس مروجہ اصطلاح کا رد فرمایا۔ اور کفر اعتقادی و کفر عملی میں فرق و امتیاز کی وضاحت عبد اللہ بن عباسؓ کی تفسیر اور شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اور حافظ ابن القیم ؒ کے افکار کی روشنی میں فرمائی، انھوں نے ارہاب وتشدد کو حرام قرار دیا اور حکمرانوں کے خلاف خروج پر شدید نکیر فرمائی۔ (۲۴)
اپنے ایک طویل انٹرویو میں شیخ البانی نے فرمایا: تصفیہ و تطہیر کے اس عمل کے ساتھ ساتھ دوسری چیز جو اہم ہے وہ خالص اسلام کے سایہ میں نوجوان نسل کی تربیت اور انھیں پروان چڑھانے کا کام ہے۔ موجودہ صدی میں اسلام کے نام سے جو جماعتیں اور تنظیمیں وجود میں آئی ہیں جب ہم ان کے کاموں کا جائزہ لیتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان جماعتوں نے اس پہلو سے کوئی خاص استفادہ نہیں کیا ہے۔سوائے یہ چیخنے چلانے کے کہ وہ اسلامی حکومت کا قیام چاہتی ہیں۔ اپنی اس دلیل سے انھوں نے بہت سے معصوموں کے خون سے ہولیاں کھیلیں۔ ان کے کتاب و سنت سے متصادم عقائد و نظریات کی گونج برابر ہمارے کانوں میں سنائی دیتی رہی ہے۔ یہاں اسی مناسبت سے ہم ایک داعی کی بات نقل کر رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان کے متبعین اس کا التزام کریں اور اسے عملی جامہ پہنائیں۔ وہ فرماتے ہیں:
’’أقیموا دولۃ الإسلام فی قلوبکم تقم لکم علی أرضکم‘‘ (حسن البناء ؒ )
’’اسلام کی حکومت پہلے اپنے دلوں پر قائم کرو زمین پر بھی قائم ہوجائے گی‘‘۔
یہ حقیقت ہے کہ مسلمان جب اپنے عقائد کتاب وسنت پر مبنی ، صحیح اور درست کرلیں گے تو ان کی عبادات اور اخلاق و سلوک بھی صحیح ودرست ہوجائیں گے لیکن افسوس ہے کہ اس حکیمانہ بات کی طرف لوگوں کی توجہ نہیں صرف حکومت الٰہیہ کے قیام کے لیے چیخنا چلانا رہ گیا ہے۔ شاعر نے ایسے لوگوں کے متعلق کہا ہے
ترجو النجاۃ و لم تسلک مسالکھا
إن السفینۃ لا تجری علی الیبس (۲۵)
۲۔ البانی مکتبِ فکر کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ تقلید کا قائل نہیں۔ بطور خاص اہل علم کے لیے تقلید جامد اس کی نظر میں جائز نہیں۔ اس اصول کی توضیح شیخ نے اپنی متعدد تالیفات میں بتکرار کی ہے۔ شیخ علمی و عملی طور پر خود بھی سختی سے اس اصول کی پیروی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے:
أن العلم لا یقبل الجمود فھو فی تقدم مستمر من خطأ إلی صواب و من صحیح إلی أصح۔ (۲۶)
’’علم جمود کو گوارا نہیں کرتا، وہ ہمہ وقت غلط سے صحیح اور صحیح سے صحیح تر کی طرف گامزن رہتا ہے‘‘۔
اپنی علمی تحقیقات، حد یث کی تخریجات اور تصحیح و تضعیف وغیرہ میں کسی مسلک و مشرب کی پیروی وہ نہیں کرتے، نہ کسی شخصیت سے متاثر ہو کر کوئی رائے قائم کرتے بلکہ ٹھیٹ علمی اصول و ضوابط کی پیروی کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں لکھا ہے:
ومماینبغی أن یذکر بہذہ المناسبۃ أنی لا أقلد أحداً فیما أصدرہ من الأحکام علی تلک الأحادیث و إنما أتبع القواعد العلمیۃ التی وضعھا أھل الحدیث، وصبروا علیھا فی إصدار أحکامھم علی الأحادیث من صحۃ أو ضعف۔ (۲۷)
’’اس مناسبت سے یہ ذکر کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں ان احادیث پر حکم لگانے کے عمل میں کسی کی تقلید نہیں کرتا بلکہ علماء حدیث کے وضع کردہ علمی قواعد و اصول کی پیروی کرتا ہوں جن کی کسوٹی پر انہوں نے احادیث پر صحت و ضعف کا حکم لگایا ہے‘‘۔
مولانا مودودی ؒ اور سید قطب ؒ نے بڑے شدو مد سے دعویٰ کیا ہے کہ أخص خصائص الألوھیۃ الحاکمیۃ یعنی تشریع اور قانون سازی کا حق صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ اس میں کوئی انسان اس کا شریک ہے نہ کوئی کمیٹی اور تنظیم۔ شیخ اس تشریح کو ناکافی سمجھتے ہیں اور اس میں اضافہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’میں کہتا ہوں کہ اکثر تعلیم یافتہ نوجوانوں نے اسلامیات کے ان اسکالروں (اخوانیوں) کے ذریعہ یہ تو جان لیا کہ حاکمیت صرف اللہ کے لیے ہے۔ لیکن ٹھیک اسی وقت ان نوجوانوں میں سے اکثر کو اس کے بعد خیال نہیں آتا کہ اللہ تعالیٰ کے مبدأحاکمیت میں جس مشارک کی نفی کی گئی ہے اس کی بابت اس میں کچھ فرق نہیں کہ اللہ کو چھوڑ کر جس انسان کی پیروی کی گئی ہے وہ مسلمان ہو (جس نے اللہ کے کسی حکم کے اندر غلطی کی ہو) یا کافر ہو (جس نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شارع بنا لیا ہو) یا عالم ہو یا جاہل۔ ان میں سے ہر ایک اللہ کے مبدأ حاکمیت کے منافی ہے‘‘۔ آگے مزید لکھتے ہیں: ’’یہ چیز ہے تقلید کو دین بنا لینا اور کتاب و سنت کی نصوص کو تقلید کی وجہ سے رد کر دینا۔‘‘ (۲۸)
۳۔ خبر واحد کی حجیت: عام طورپر اصول فقہ کی کتابوں میں خبر واحد کو ظنی کہا جاتا ہے جس سے گمان ہوتا ہے کہ اس سے کسی قطعی حکم کا ثبوت نہیں ہوتا۔ حضرات حنفیہ اس اصول پر بہت زور دیتے ہیں اور موجودہ زمانے کے بہت سے مسلم مصنفین و مفکرین نے اسے ایک علمی مسلمہ کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ حالانکہ یہ نظریہ اپنے آپ میں نہایت خطرناک ہے۔ پھر بھی عجیب بات ہے کہ اہل علم نے بڑی تعداد میں اس بے اصل رائے کو اختیار کر رکھا ہے۔ خبر واحد کی ظنیت کے نظریہ کی آڑ میں منکرین حدیث اور دیگر متشککین نے پورے ذخیرۂ حدیث کو مشتبہ ومستردکرنے کی نامسعود کوشش کی ہے۔ عالم عرب میں شیخ البانی نے ظنیت کے اس فاسد نظریہ کی پرزور دلائل سے تردید فرمائی۔ اور الحدیث حجۃ بنفسہ فی العقائد و الأحکام لکھ کر ثابت کیا کہ خبر واحد بھی اپنے حکم میں قطعی اور واجب العمل ہے۔ اس کے علاوہ حجیۃ السنۃ کے عنوان سے ایک مدلل مقالہ بھی اسی موضوع پر ارقام فرمایا۔ہندوستان میں راقم کے علم کی حد تک، اس سلسلہ میں بڑی عمدہ اور تحقیقی بحث علامہ شبیر احمد ازہر میرٹھی رحمہ اللہ نے کی ہے۔ انھوں نے ناقابل تردید دلائل سے ثابت کیا ہے کہ خبر واحد کی ظنیت کا نظریہ غلط اور فاسد ہے اور خبر واحد کو یقینی اورواجب القبول سمجھنے پر صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع تھا۔ ان کی پوری بحث پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ (۲۹)
۴۔ فضائل اعمال میں بھی ضعیف احادیث پر عمل نہیں کرنا چاہیے: متعدد علماء وائمہ اور اکابر محدثین بھی باستثنائے چند فضائل اعمال کی احادیث کے سلسلہ میں تساہل برتتے آئے ہیں۔ تاہم محقق اور فقہاء محدثین اس بارے میں بھی سختی برتتے ہیں۔ شیخ البانی چونکہ ایک مجتہد محدث ہیں اس مسئلہ میں بھی اپنی ایک رائے رکھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ عبادات، عقائد و احکام، فضائل و مناقب، ترغیب وترہیب، زہد و رقاق غرض دین کے کسی بھی باب میں ضعیف احادیث پر عمل نہیں کرنا چاہیے۔ یہ رائے بظاہر اجنبی سی لگتی ہے لیکن گہرائی سے جائزہ لینے سے یہی رائے قوی معلوم ہوتی ہے۔ تمام المنۃ علی فقہ السنۃ پر اپنے مقدمہ میں علامہ البانی نے اصول حدیث کے سلسلہ میں بعض نہایت جلیل الشان اور دقیق قواعد بیان فرمائے ہیں۔ ان میں بارہویں قاعدہ کے تحت انھوں نے جو کچھ لکھا ہے ان کے الفاظ میں ملاحظہ ہو:
ترک العمل بالحدیث الضعیف فی فضائل الأعمال: اشتھر بین کثیر من أہل العلم و طلابہ أن الحدیث الضعیف یجوز العمل بہ فی فضائل الأعمال و یظنون أنہ لا خلاف فی ذلک کیف لا؟ والنووی رحمہ اللہ نقل الاتفاق علیہ فی أکثر من کتاب واحد من کتبہ۔ و فیما نقلہ نظر، لأن الخلاف فی ذلک معروف فإن بعض العلماء المحققین علی أنہ لا یعمل بہ مطلقا لافی الأحکام ولا فی الفضائل۔ قال الشیخ القاسمی فی قواعد التحدیث (ص ۹۴): حکاہ ابن سید الناس فی ’’عیون الأثر‘‘ عن یحییٰ بن معین و نسبہ فی فتح المغیث لأبی بکر بن العربی و الظاہر أن مذہب البخاری و مسلم ذلک أیضا.... و ھو مذہب ابن حزم.... قلت: و ہذا ھو الحق الذی لا شک فیہ عندی لأمور۔ (۳۰)
’’فضائل اعمال کے باب میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا: بہت سے اہل علم وطلاب علم کے درمیان یہ نظریہ رواج و شہرت حاصل کر چکا ہے کہ فضائل اعمال کے باب میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ہے۔ ایسا کیوں کر نہ ہو جبکہ نووی رحمہ اللہ نے اپنی ایک سے زائد کتابوں میں اس سلسلے میں علماء کا اتفاق نقل کیا ہے؟ میں کہتا ہوں کہ نووی رحمہ اللہ نے جو اتفاقِ علماء نقل فرمایا ہے وہ محل نظر ہے کیوں کہ اس باب میں علماء کا اختلاف مشہور و معروف ہے۔ بعض محقق علماء کرام کہتے ہیں کہ ضعیف حدیث پر عمل نہ احکام میں کیاجائے گا اور نہ فضائل اعمال میں۔ شیخ قاسمی نے ’’قواعد التحدیث‘‘ ص۹۴ میں لکھا ہے جسے ابن سید الناس نے ’’عیون الأثر‘‘میں یحییٰ بن معین سے نقل کیا ہے اور فتح المغیث میں ابوبکر ابن العربی سے منسوب کیا ہے، سے یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ اس باب میں بخاری و مسلم رحمہما اللہ کا مسلک بھی یہی ہے.... اور ابن حزم کا بھی یہی.... میرا خیال ہے کہ متعدد وجوہات کی بناء پر یہی حق ہے‘‘۔
اس کے بعد تفصیل سے اپنے دلائل دیئے ہیں۔ اس کے علاوہ ضعیف الترغیب کے مقدمہ میں بھی اس مسئلہ پر تفصیل سے کلام کیا ہے۔ اور اپنی رائے کے متعدد دلائل دیئے ہیں۔ یہاں یہ اشارہ کرنا بھی مناسب ہوگا کہ علامہ البانی رحمہ اللہ کی کتابوں کے مقدمے بھی بے نظیر، دقیق اور مہتم بالشان فوائد و افادات کے حامل ہوتے ہیں۔
علامہ البانی کے فکر و مؤلفات پر عربی میں ان کی زندگی میں ہی کام شروع ہو گیا تھا۔ ان کے تلامذہ ان کے منہج کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ علماء حدیث نے ان کی بعض تحقیقات و تفردات سے اختلاف و تعقب بھی کیا۔ ہندوستانی علماء میں علامہ حبیب الرحمٰن اعظمی نے الألبانی أخطاء ہ و شذوذہ کے نام سے ان کی تحقیقات و آراء سے اختلاف کیا تھا لیکن عجیب بات یہ ہے کہ یہ کتاب ارشد السلفی کے نام سے چھاپی گئی۔ (۳۱) شیخ البانی کی معاصر علماء فقہ و حدیث سے بھی خاصی چشمک اور ردو کد رہی بعض اوقات بات علمی زبان و اسلوب سے نکل کر سخت لب ولہجہ اور شدید تنقید تک پہنچ گئی، فریق مخالف میں مشہور حنفی عالم شیخ زاہد الکوثری رحمہ اللہ اور ان کے تلمیذ شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ سے علامہ البانی سخت ناراض تھے اور نہایت سخت اسلوب میں ان پر تنقید کرتے تھے۔ شیخ اسماعیل الانصاری سے بھی ان کے اختلافات رہے۔ انصاری نے شیخ کے رد میں تعقب لبعض أغلاط الألبانی کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے۔ شیخ کے بعض ہم مشرب علماء ومحققین حدیث نے بھی شیخ البانی کے منہج تحقیق پر نقد کیا ہے جس کو ملخصاً یوں بیان کیا جا سکتا ہے:
۱۔ شیخ البانی پر ایک اعتراض یہ ہے کہ وہ تدلیس کے مسئلہ میں زیادہ سختی برتتے ہیں۔ حالانکہ یہ ضروری نہیں کہ جس سند میں عنعنہ کرنے والا مدلس ہو وہ لازماً ضعیف ہی ہو بلکہ اس مسئلہ میں خاصی تفصیل ہے۔
۲۔ یہ بھی اعتراض ہے کہ وہ راویوں کے ایک دوسرے سے سماع پر زیادہ توجہ نہیں دیتے یہ چیز بھی حدیث پر حکم لگانے میں تساہل کا سبب ہے۔
۳۔ زیادۃ الثقۃ کے مسئلہ میں بھی ان کی الگ رائے ہے کہ اس میں انھوں نے بہت زیادہ توسع کا ثبوت دیا ہے اور بہت سے ان زیادات کو قبول کرلیا ہے جنہیں ائمہ حدیث نے شذوذ کے باعث ضعیف قرار دیا ہے۔
۴۔ علت و شذوذ کے مسئلہ میں عدم ترکیز کی بات کہی گئی ہے کہ شیخ بعض روایات کے بارے میں ائمہ متقدمین کے اقوال کی کچھ پرواہ نہیں کرتے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ انھوں نے متعدد ایسی باطل اور منکر احادیث کی تصحیح کر دی ہے جنھیں ائمہ متقدمین نے باطل قرار دیا ہے۔
۵۔ تصحیح احادیث میں تساہل: یعنی یہ کہ شیخ البانی رحمہ اللہ مستور، اسناد منقطع، مدلس اور صدوق سبھی کو شواہد ومتابعات میں قبول کر لیتے ہیں ظاہر ہے کہ یہ بھی تساہل کی بات ہے۔
۶۔ وہ شواہد و متابعات اور طرق ضعیفہ کی کثرت سے حدیث کو تقویت دے دیتے اور حسن قرار دیتے ہیں جبکہ سلف ایسا اسی وقت کرتے ہیں کہ طرق مضبوط ہوں۔
۷۔ شیخ البانی تخریج حدیث میں کبھی کبھی جلدی کر ڈالتے تھے اس عذر سے کہ متعلقہ ادارۂ نشر و اشاعت کام کی جلدی چاہتا ہے۔
۸۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ شیخ اپنی تحقیق میں تقریب التہذیب پر زیادہ اعتماد کرتے تھے۔ واضح رہے کہ تقریب التہذیب محض مختصر عنوانات کا مجموعہ ہے۔ متقدمین تقریب کی طرف صرف اسی وقت رجوع کرتے ہیں جب ترجیح بین الرواۃ کا معاملہ ہو سلف زیادہ تر مفصل تراجم کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ شیخ البانی پر اعتراض یہ ہے کہ وہ مفصل تراجم کی طرف کم رجوع کرتے تھے۔ یہ اعتراضات جو شیخ کے منہج تحقیق پروارد کیے گئے ہیں راقم سطور کا یہ منصب نہیں کہ وہ ان پراپنی رائے دے۔ حدیث کے ماہرین، اساتذہ اور البانیات کے اسکالرز ہی اس سلسلہ میں بہتر رائے دے سکتے ہیں۔ یہ اعتراضات ہم نے محض امانت علمی کے تحت نقل کر دیئے ہیں۔ شیخ البانی کی تنقیص حاشا و کلا بھی مقصود نہیں ہے۔ یہ تمام اعتراضات صرف شیخ البانی پر ہی نہیں بلکہ تمام ہی متاخرین پر صادق آتے ہیں۔ ودسرے یہ کہ ان انتقادات و اعتراضات سے شیخ کی جلالت علمی پر کوئی حرف نہیں آتا وہ ناصر السنۃ، قامع بدعۃ اور محدث القرن العشرین ہیں۔ جن اعتراضات کی تلخیص ہم نے نقل کی ہے ان کی تفصیل کے لیے انٹرنیٹ پر رجوع کریں: ملتقی أہل الحدیث: الانتقادات علی منھج الشیخ الألبانی رحمہ اللہ منھج المتأخرین۔ (۳۲)
حواشی
۱۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کے تفصیلی حالات کے لیے دیکھئے:
الف۔ ابراہیم محمد العلی: محمد ناصر الدین الألبانی رحمہ اللہ، محدث العصر و ناصر السنۃ، دار القلم دمشق، طبعۃ ثانیۃ ۲۰۰۳ء۔
ب۔ محمد بن ابراہیم الشیبانی: حیاۃ الألبانی و آثارہ و ثناء العلماء علیہ۔
ج۔ عبد الباری فتح اللہ مدنی: ترجمہ اردو، صفۃ صلاۃ النبی ﷺ۔ شروع میں مترجم کے قلم سے شیخ کے حالات
نیز انٹرنیٹ پر دیکھیں:
(۱) www.N.eman.com نداء الإیمان عظماء فی الإسلام پر شیخ کی مختصر و مکمل سوانح۔
(۲) www.albany.net موقع الامام محمد ناصر الدین پر نبذۃ مختصرۃ عن سیرۃ الشیخ الألبانی
۲۔ اجماع کو عموماً شرع کے چار ماخذمیں سے ایک سمجھا جا تاہے لیکن یہ واضح رہنا چاہیے کہ اجماع محض اکثریت کی رائے کو نہیں کہاجا سکتا ۔ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کتاب و سنت کے تابع ہو۔ طلاق ثلاثہ اور رکعات تراویح کے بارے میں صحیح احادیث موجود ہیں۔ جبکہ فقہاء اور علماء کی اکثریت دوسری رائے کی حامل ہے۔ یہاں صحیح احادیث کو یہ کہہ کر ناقابلِ عمل نہیں ٹھہرایا جا سکتا کہ وہ اجماع کے خلاف ہے۔ اسی طرح یہ مسئلہ کہ انسان اللہ کا خلیفہ ہے، اکثر مفسرین کرام انسان کو اللہ کا خلیفہ مانتے ہیں لیکن ان کی یہ رائے غلط اور کتاب و سنت کے خلاف ہے۔ اس لیے یہاں بھی اکثریت کے قول کا (بدلیل اجماع) اعتبار نہ ہوگا۔ اجماع کا مأخذ اصولیین سورۂ نساء کی آیت نمبر ۱۱۵(وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْم بَعْدِ مَاتَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ الآیۃ)کو قرار دیتے ہیں۔ تاہم مفسرابن حیان اندلسی نے اس پر شدید نقد کیا ہے: لکھتے ہیں: ’’والآیۃ بعد ہذا کلہ ہی وعید للکفار فلا دلالۃ فیھا علی جزئیات فروع مسائل الفقہ‘‘ (البحر المحیط المجلد الثالث ص۳۵۰)امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا رجحان یہ ہے کہ اجماع صحابہ رضی اللہ عنہمتو حجت ہے، بعد کے لوگوں کا حجت نہیں۔ ماضی قریب کے ایک محقق اسکالر ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے اجماع کے بارے میں اپنے ایک لیکچر میں کہا: ’’اتفاق رائے یا کثرت سے فیصلہ کرنے کے لیے اجماع کی اصطلاح کا بہت ذکر کیا جا تاہے۔لیکن علماء کرام مجھے معاف فرمائیں تو میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اجماع فقط ایک مفروضہ اور افسانہ ہے۔ اس کا کوئی وجود نہیں اور چودہ سو برس میں اجماع کے ذریعہ فیصلہ کا کوئی طریقہ مقرر نہیں کیا گیا‘‘۔’’ غطریف شہباز ندوی: ڈاکٹر محمد حمید اللہ مجدد علوم سیرت‘‘صفحہ ۷۸۔ فاؤنڈیشن فار اسلامک اسٹڈیز نئی دہلی طبع ۲۰۰۳ء۔
۳۔ اصول فقہ کی کتابوں میں بالعموم قیاس کو تیسرا مأخذ شرعی بتایا جاتاہے۔ دور جدید کے بعض فقہاء مثلا شیخ مصطفی زرقاء کہتے ہیں کہ قیاس نہیں بلکہ اجتہاد کہا جانا چاہیے کیونکہ قیاس تو اجتہاد کے وسائل و ذرائع میں سے ایک ہے۔ یہی رائے قوی معلوم ہوتی ہے۔
۴۔ فقہاء محدثین بالعموم اسی طریقہ پر عامل رہے ہیں۔ اس کی علمی تأسیس و تنقیح میں سب سے بڑا حصہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ان کے تلامذہ کا ہے۔ اس مکتبِ فکر کی اساس وہ حدیث صحیح ہے جس میں آپ ﷺ نے فرمایا: ترکت فیکم شیئین لن تضلوا ما تمسکتم بھما کتاب اللہ و سنتی۔ و لن یتفرقا حتی یردا علی الحوض۔(رواہ الحاکم عن أبی ہریرۃرضی اللہ عنہ صحیح الجامع الصغیر للألبانی رقم ۲۹۳۷)
۵۔ ایک جگہ کہتے ہیں:
خوار از مہجوری قرآں شدی
شکوہ سنج گردش دوراں شدی
اے چوں شبنم برزمین افتندئی
در بغل داری کتاب زندئی
۶۔ البانیہ یوروپ کے خطۂ بلقان میں واقع ہے۔ْ اس کے ایک طرف اٹلی، دوسری طرف یونان اور تیسری طرف جمہوریہ یوگوسلاویہ ہے۔ البانیہ میں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد ہے۔ جو ترک نژاد ہیں۔ ماضی میں وہ خلافت عثمانیہ ترکیہ کا حصہ رہ چکا ہے۔
۷۔ تفصیل کے لیے دیکھیں إبراہیم محمد العلی: محمد ناصر الدین الألبانی صفحہ ۱۲، دراستہ و أہم شیوخہ، ناصر الدین بچپن سے مطالعہ کے بہت شوقین تھے، خود اپنے بارے میں لکھا ہے: ’’فی أول عمری قرأت ما یقرأ و مالا یقرأ‘‘ صفحہ ۱۳، آگے اس کی تفصیل بھی دی ہے: ’’أول ما أولعت بمطالعتہ من الکتب: القصص العربیۃ، کالظاہر و عنترۃ، والملک سیف، و ما إلیھا... ثم القصص البولیسیۃ المترجمۃ کأرسین لوبین و غیرھا۔ ثم وجدت نزوعاً إلی القرآت التاریخیۃ‘‘ نفس المصدر ص ۱۵۔ اس کے بعد مجلہ المنار اور الإحیاء کی تحقیق کا قصہ بیان کیا ہے۔ شیخ البانی کے اس متنوع مطالعہ کا فائدہ یہ ہوا کہ زبان و بیان اور طرز و اسلوب بالکل اہل زبان کا ہو گیا۔ ان کی تحریروں میں ادبی لطف بھی ہے اور شجاعت ادبیہ کا مزہ بھی کہیں پر بھی عجمۃ وتکلف کا گمان نہیں ہوتا۔
۸۔ سید رشید رضا شیخ مفتی محمد عبدہ رحمہ اللہ اور ان کے استاذ جمال الدین افغانی رحمہ اللہ کے خوشہ چیں ہیں۔ محمد عبدہ کو الاستاذ الامام کہتے تھے۔ شیخ محمد عبدہ رحمہ اللہ مسلمانوں کی علمی نشاأ ثانیہ کے علمبردار تھے۔ شیخ رشید رضا بھی اسی فکر کے آدمی ہیں۔ البتہ قرآن اور حدیث پر ان کی نظر زیادہ گہری تھی اور یہیں سے سلفیت کی طرف ان کا رجحان ہوا۔ ان کا یہ ذوق برابر ترقی کرتا گیا حتی کہ محی السنۃ اور امام سلفیت کہے جانے لگے۔
۹۔ شیخ ساعاتی رحمہ اللہ نے پہلے مسند احمد کی تبویب فقہی مباحث کے لحاظ سے کی جس کا نام الفتح الربانی فی ترتیب مسند الإمام أحمد بن حنبل الشیبانی کے نام سے کی پھر اس کی شرح بلوغ الامانی کے نام سے لکھنی شروع کی۔ جس کی ۵ جلدیں شائع ہوگئی ہیں۔ یہ کتاب الصلاۃ تک ہے۔ پھر اس کو شیخ احمد شاکر مصری رحمہ اللہ نے بھی ایڈٹ کیا لیکن ان کا کام بھی ناتمام ہے۔ ہندوستان میں علامہ شبیر احمدازہر میرٹھی (وفات ۲۰۰۵ء) نے اردو میں مسند احمد کی مفصل شرح و تحقیق کا کام کیا۔ جو مسند سعد بن ابی وقاص رحمہ اللہ تک پہنچ گیا۔ یہ جلیل القدر علمی کا م بھی ناتمام رہ گیا۔ صرف پہلا حصہ ہی منظر عام پر آسکا جس کا نام نہایۃ التحقیق شرح مسند ابو بکر الصدیق ہے۔ بقیہ مسودات کی تفصیل حسبِ ذیل ہے: منتھی الآراب شرح مسند عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ۳ جلد۔ مواہب المنان شرح مسند عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ دوجلد، إرشاد الطالب شرح مسند علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ ۵ جلد، نیل المراد شرح مسند طلحۃ الجوادرضی اللہ عنہ ، نیل المرام شرح مسند الزبیر بن العوام رضی اللہ ایک جلد۔ درر الغواص شرح مسند سعد بن أبی وقاص رضی اللہ عنہ۔ یہ سب مسودات ابھی غیر مطبوعہ ہیں اور الماریوں کی زینت بنے ہیں۔ کاش کوئی صاحبِ خیر متوجہ ہو اور یہ منظر عام پر آسکیں )
۱۰۔ حتی إن إدارۃ المکتبۃ الظاہریۃ بدمشق خصصت غرفۃ خاصۃ لہ لیقوم فیھا بأبحاثہ العلمیۃ الخ۔ ملاحظہ ہو نبذۃ مختصرۃ عن سیرۃ الشیخ الألبانی (نیٹ پر) پہلا صفحہ۔ نیز حاشیہ پر ایک نمبر کے تحت مذکور تمام مراجع۔
۱۱۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ حافظ ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ، شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ اور علامہ امیر الصنعانی رحمہ اللہ اور محدثین ہند صدیق بن حسن، شمس الحق عظیم آبادی، عبد الرحمٰن محدث مبارکپوری وغیرہم رحمہم اللہ کی کتابوں سے شیخ البانی رحمہ اللہ نے سلفی منہج فکر اختیار کیا، اور اس کے پر جوش داعی بن گئے۔ انھوں نے اس کی ابتداء اپنے گھر، اقارب اور اساتذہ سے کی، ظاہر ہے کہ یہ بڑی عزیمت و استقلال کا کام تھا۔ ان کے و الد شیخ نوح نجاتی الألبانی مزارات سے استفادہ کے قائل تھے اور اپنے بیٹے کو بھی مقابر و مزارات پر لے جانے کی کوشش کرتے تھے۔ شیخ ناصر الدین نے توحید اور اس کے مسائل کے سلسلہ میں علمی دلائل کے ساتھ اپنے والد سے گفتگو کی۔ مزارات پر صلاۃ کے عدم جواز پر اپنے استاذ شیخ سعید البرھانی سے بات کی۔ اس کے بعد شہر کے دوسرے مشائخ سے وہ ملے، مناقشے کیے۔ اسی بحث و گفتگو کے دوران انھوں نے خود فقہ حنفی کی معتبر کتابوں سے استدلال کرتے ہوئے انبیاء و صالحین کی قبروں پر بنی مساجد میں صلاۃ کو مکروہ تحریمی قرار دیا اور کتاب تحذیر الساجد تالیف کی۔ کتاب میں دو امور پر ترکیز ہے۔ (۱) حکم بناء المساجد علی القبور (۲) حکم الصلاۃ فی ہذہ المساجد۔ ملاحظہ ہو إبراہیم محمد العلی: محمد ناصر الدین الألبانی محدث العصر و ناصر السنۃ ص ۲۲،۲۳۔
۱۲۔ ملاحظہ ہو مقدمہ کتاب الأحادیث الضعیفۃ و الموضوعۃ و أثرھا السئ علی الأمۃ للألبانی۔ المجلد الأول مکتبہ المعارف للنشر و التوزیع ریاض، الطبعۃ الثالثۃ ۲۰۰۰ء۔
۱۳۔ اس کتاب کی تقریبا ۴۹ جلدیں ہیں اور خود البانی صاحب فرماتے ہیں کہ ’’اس کتاب کی تالیف میں میں نے تیس سال سے زیادہ وقت صرف کیا ہے‘‘، اس میں ۱۶ ہزار مسند احادیث آگئی ہیں۔ تخریجِ احادیث میں شیخ البانی رحمہ اللہ عموما اسی کتاب پر اعتماد کرتے تھے۔ ابھی قلمی مسودہ کی شکل میں ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھئے عبد الباری فتح اللہ مدنی اردو ترجمہ کتاب صفۃ صلاۃ النبی للألبانی رحمہ اللہ ص ۶۳۔ مطبوعہ جمعیۃ أہل الحدیث التعلیمیۃ و الخیریۃ بالھند، دریاباد، یوپی۔
۱۴۔ ملاحظہ ہو وہی مرجع ص ۶۵۔
۱۵۔ پاکستان کے ایک عالم عبد القدوس ہاشمی نے یہ عجیب وغریب دعویٰ کیا کہ مسند احمد امام احمد کی کتاب نہیں ہے۔ اس کی نسبت ان کی طرف درست نہیں۔ اس کے راوی ابو بکر القطیعی عقیدۂ و اخلاق کے اعتبار سے ایک غلط آدمی تھے۔ انھوں نے مسند میں ضعیف و موضوع روایتیں بھر دی ہیں۔ اسی طرح امام احمد کے فرزند عبد اللہ بن احمد رحمہ اللہ نے اس میں اپنی مرویات کا اضافہ کرکے ابو بکر القطیعی کے واسطہ سے انھیں متصل بنا دیا ہے وغیرہ۔ شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ (مفتی کبیر سعودی عرب) کی ایماء پر علامہ البانی رحمہ اللہ نے مذکور عبد القدوس ہاشمی کے ان ہفوات کا رد فرمایا۔ اور ۱۰۱ صفحات پر مشتمل یہ رسالہ دار الصدیق سعودی عرب سے ۱۹۹۹ء میں شائع ہوا۔
۱۶۔ بعض علماء مثلا شیخ عبد الفتاح ابو غدہ وغیرہ نے شیخ کی اس کتاب پر اعتراض کرکے انہیں سفور (بے پردگی) کا علمبردار قرار دیا ہے۔ حالانکہ یہ بات درست نہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے حجاب اسلامی کی ۸ شرطیں بتائی ہیں:
(۱) استیعاب جمیع البدن إلا ما استثنی (۲) أن لایکون زینۃ فی نفسہ (۳) أن یکون خفیقا لا یشف (۴)أن یکون فضفاضا غیر ضیق (۵) أن لا یکون مبخرا مطیبا (۶) ألا یشبہ لباس الرجال (۷) أن لا یشبہ لباس الکافرات (۸) أن لا یکون لباس شھرۃ۔
ان تمام شرطوں کی کافی ووافی وضاحت فرمائی ہے ۔البتہ انھوں نے چہرہ کے پردہ کو واجب قرا رنہیں دیا اور بڑے شرح و بسط کے ساتھ چہرہ کے پردہ کی حدیثوں پر بحث کی ہے۔ مضبوط علمی دلائل سے جو رائے ان کے نزدیک راجح قرار پائی اس کا اظہار کر دیا ہے۔ شیخ کی اس رائے سے اختلاف بھی کیا گیا ہے۔ تاہم ان کے دلائل کی قوت سبھی تسلیم کرتے ہیں۔
۱۷۔ محمد الغزالی رحمہ اللہ اور د.سعید رمضان البوطی دونوں نے فقہ السیرۃ کے نام سے الگ الگ کتابیں لکھیں ہیں جن کی شیخ نے تخریج کی ہے۔ لیکن دونوں ہی مصنفوں نے شیخ کی متعدد رایوں سے اتفاق نہیں کیا۔ اس سلسلہ میں شیخ کے اور ان کے مابین کافی تلخی بھی ہوئی۔ البوطی کے تعقب میں شیخ البانی نے الگ سے ایک رسالہ بھی لکھا ہے: دفاع عن الحدیث النبوی و الرد علی جھالات الدکتور البوطی فی فقہ السیرۃ۔
۱۸۔ شیخ البانی کی تعقیبات، تنقیدات، ردود و مناظرات کی تعداد تقریباً ۲۴ تک پہنچتی ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: ابراہیم محمد العلی: محمد ناصر الدین الالبانی صفحہ ۹۴ تا ۱۱۳۔
۱۹۔ نفس مصدر صفحہ ۲۱ تا ۲۸۔
۲۰۔ فقہ السنۃ مصری عالم اور اخوان المسلمون کے رکن سید سابق رحمہ اللہ نے لکھی ہے جس میں مروجہ مذاہب فقہ کی بجائے سنت کو اصل بنیاد بنایا ہے۔ البتہ متعدد مسائل میں فقہ حنبلی کی طرف مصنف کارجحان بالکل واضح ہے۔ تاہم اس کتاب میں احادیث کی تصحیح و تحقیق میں متعدد فاش غلطیاں راہ پاگئی ہیں جس کی وجہ سے شیخ البانی نے اس کتاب پر تنقیدی نظر ڈالی اور اپنی تعلیقات کو ایک جلد میں جمع کر دیا ہے۔ جس کانام تمام المنۃ ہے۔ تمام المنۃ کے مقدمہ میں ترتیب وار سید سابق کی غلطیاں بیان کی ہیں۔ اس کے علاوہ ۱۵ علمی وتحقیقی قاعدے بھی بیان فرمائے ہیں۔ اس طرح دو سری کتابوں کے مقدموں کے ساتھ تمام المنۃ کا مقدمہ بھی بیش بہا علمی فوائد کا حامل اورخاصے کی چیز بن گیا ہے۔
۲۱۔ شیخ البانی دوبار شام میں قید کیے گئے۔ ایک بار ایک مہینہ تک اور دوسری بار ۶ ماہ تک۔ اس کے بعد رمضان ۱۴۰۰ھ میں دمشق سے عمان کو ہجرت پر مجبور ہوئے لیکن جلد ہی وہاں سے دمشق آنا پڑا۔ اس وقت خطہ کے حالات خاصے مخدوش تھے چنانچہ دمشق سے پھر بیروت گئے۔ بیروت میں زیادہ مدت تک قیام نہ رہ سکا۔ اور وہاں سے امارات آئے۔ امارات میں شیخ کے بعض احباء و تلامذہ نے پر جوش استقبال کیا۔ اور کافی مدت تک امارات میں قیام پذیر رہے اور علمی افادہ کا سلسلہ جاری ہوگیا۔ امارات کے زمانۂ قیام ہی میں خلیج کی دوسری ریاستوں قطر و کویت وغیرہ میں آنے جانے کے مواقع ملے۔ تین سال سعودی عرب میں آپ کا قیام رہا۔ جب مدینہ میں جامعہ اسلامیہ کی تاسیس ہوئی اور اس کے پہلے صدر اور مملکت کے مفتی اکبر شیخ محمد ابراہیم آل الشیخ کی ایماء پر آپ وہاں تشریف لے گئے اور ۱۳۸۱ھ تا ۱۳۸۳ھ وہیں رہے۔ اور حدیث کی تدریس کے فرائض انجام دیئے۔ وہاں آپ کا عہدہ برصغیر کی اصطلاح میں شیخ الحدیث کا تھا۔ اسی مدت میں آپ کے فکری منہج کی گہری چھاپ جامعہ اسلامیہ مدینہ پر پڑ گئی۔ تاہم اس کے بعد بحکم المعاصرۃ أصل المنافرۃ بعض حاسدوں نے آپ کے خلاف مہم چلائی۔ لہٰذا اس کے بعد شیخ پھر مکتبہ ظاہریہ دمشق لوٹ آئے۔
۲۲۔ وفی عام ۱۴۱۹ھ ۱۹۹۹ء منح الشیخ جائزۃ الملک فیصل العالمیۃ للدراسات الإسلامیۃ وذلک تقدیراً لجھودہ القیمۃ فی خدمۃ الحدیث النبوی تخریجا و تحقیقا و دراسۃ۔ ملاحظہ ہو إبراہیم محمد العلی: محمد ناصر الدین الألبانی محدث العصر و ناصر السنۃ صفحہ ۳۹۔ نیز حاشیہ نمبر ۱ کے تحقیق مذکور تمام مراجع۔
۲۳۔ ابراہیم محمد العلی دکتور: محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ محدث العصر و ناصر السنۃ دار القلم دمشق صفحہ ۴۹-۵۰طبعۃ ۲۰۰۳ء
۲۴۔ ملاحظہ ہو شیخ البانی کا طویل انٹرویو شائع کردہ ماہنامہ ’’التوعیہ‘‘ مرکز ابو الکلام للتوعیۃ الاسلامیہ نئی دہلی نومبر ۱۹۹۵ء۔ انٹرویو کا ترجمہ مولانا رفیق احمد سلفی کے قلم سے۔
۲۵۔ مرجع مذکور عربی شعر کا ترجمہ ہے: تم نجات تو چاہتے ہو لیکن اس کے رستے پر نہیں چلتے ، کشتی خشکی پر چلتی ہے؟
۲۶۔ ملاحظہ ہو: محمد ناصر الدین الألبانی: سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ المجلد الأول مکتبۃ المعارف الریاض للنشر و التوزیع۔ طبع ثانی ۲۰۰۰ء صفحہ ۴۷۔
۲۷۔ مصدر سابق صفحہ ۴۲۔
۲۸۔ محمد ناصر الدین الألبانی: الحدیث حجۃ بنفسہ فی العقائد و الأحکام اردو ترجمہ ’’حجیت حدیث‘‘ بدر الزماں نیپالی صفحہ ۹۰۔
۲۹۔ شبیر احمد ازہر میرٹھی رحمہ اللہ: تقریب المأمول فی أصول حدیث الرسول مقدمہ نھایۃ التحقیق شرح مسند أبو بکر الصدیق جزء اول مکتبہ ازہریہ رائد میرٹھ یوپی صفحہ ۲۸ تا ۳۱۔
۳۰۔ ملاحظہ محمد ناصر الدین الألبانی رحمہ اللہ: مقدمۃ تمام المنۃ فی التعلیق علی فقہ السنۃ طبعۃ جدیدۃ دار الرایۃ للنشر و التوزیع ۱۴۲۲ھ-۲۰۰۱ء القاعدۃ الثانیۃ عشرۃ صفحہ ۳۴۔
۳۱۔ ملاحظہ ہو محمد ناصر الدین الألبانی: الأحادیث الضعیفۃ و أثرھا السیء علی الأمۃ۔ مقدمہ۔ المجلد الأول مکتبۃ المعارف للنشر و التوزیع الریاض طبع ثانی ۲۰۰۰ء۔ نیز مولانا ابو سحبان روح القدس ندوی کا مختصر مقالہ ’’محدث جلیل علامہ محمد ناصر الدین البانی، حیات و خدمات‘‘، مولانا ندوی نے یہ تو لکھا ہے کہ مولانا حبیب الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ نے الألبانی أخطاء ہ و شذوذہ کے نام سے عربی میں ایک رسالہ تحریر فرمایا ہے۔ جس میں شیخ کے تفردات اور تحقیق کی غلطی کا جائزہ لیا گیا ہے جس سے اہل علم واقف ہیں۔ مگر مولانا ندوی یہ ذکر کرنا بھول گئے کہ عالم عرب میں اس کتاب کو ارشد السلفی کے نام سے شائع کیا گیا تھا۔
۳۲۔ یہ انتقادات اس سائٹ پر ملیں گے: