سرمایہ دارانہ نظام کے پیدا کردہ بحران ۔ اسباب اور حل

مولانا محمد عیسٰی منصوری

۱۵ ستمبر ۲۰۰۸ء کو مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کا بدترین بحران سامنے آیا جب امریکہ کے دوسرے بڑے بینک لیہمن برادرز (Lehman Brothers) کا خسارہ ناقابل برداشت حدود کو پار کر گیا۔ نیویارک سٹاک ایکسچینج میں ایک شئیر کی قیمت 80 ڈالر سے گر کر 1.65 ڈالر پر آگئی، یعنی اس بینک کے سرمایہ کی مالیت 185 ارب ڈالر سے گر کر صرف 565 ارب ڈالر رہ گئی اور لیہمن برادرز کے 130 ملکوں میں پھیلے ہوئے 16000 ملازمین کی نوکریاں خطرے میں پڑگئیں۔ اسی دن امریکہ کی بین الاقوامی شہرت کے حامل انشورنس کمپنی AIG (امریکن انٹرنیشنل گروپ) کریش کر گئی اور اس نے اپنی بقا کے لیے امریکن حکومت سے 85 ارب ڈالر کی رقم کا مطالبہ کر دیا۔ صورت حال اس قدر خطرناک ہوگئی کہ نیویارک اسٹاک ایکسچینج ایک ہی رات میں 084 پوائنٹس سے گرا اور امریکی شیئر مارکیٹ 60 گھنٹوں میں 8 فی صد گر گئی۔ صرف ستمبر کے مہینے میں بینکوں کے ایک لاکھ انسٹھ ہزار ملازمین اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان میں وال اسٹریٹ کے تیس ہزار ملازمین بھی شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یورپین ممالک سے لے کر مشرق بعید تک پورا سرمایہ دارانہ نظام لڑ کھڑا گیا۔ کمیونزم کے بعد کیپٹل ازم کا اقتصادی نظریہ ونظام ناکام ہوکر زمین بوس ہوتا نظر آیا۔ بش حکومت نے اپنے سرمایہ دارانہ نظام کو بچانے کے لیے لیہمن برادرز اور AIG کو کنٹرول میں لے لیا۔ ظاہر ہے کہ ایک ہی رات میں ڈیڑھ کھرب کے خسارے کو امریکن حکومت کے منظورکردہ پیکج کے 700 ارب ڈالر بچا نہیں سکتے تھے۔ ماہرین کے مطابق اس بحران سے دنیا میں چھ، سات کھرب (ٹریلین) ڈالر ڈوب سکتے ہیں اور لاکھوں کروڑوں انسان اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی سے محروم ہو کر بھکاری بن سکتے ہیں۔ اس سے پہلے ۱۹۲۹ میں امریکہ میں اسی طرح کا اقتصادی بحران آچکا ہے جب سینکڑوں کی تعداد میں ا مریکن بینک دیوالیہ ہوگئے تھے، امریکی سٹاک مارکیٹ پوری طرح تباہ ہو کر بکھر گئی تھی اور ڈالر بے وقعت ہو گیا تھا۔ اس وقت کے امریکی صدر روز ویلٹ نے اس وقت بھی امریکی عوام کی ٹیکس کی رقم سے سرمایہ کاری کر کے سرمایہ دارانہ نظام کی عمارت کو زمین بوس ہونے سے بچالیا تھا۔ آج ٹھیک ۷۸ سال بعدیہ عمارت پھر دھڑام سے زمین پر آرہی۔ 

موجودہ اقتصادی بحران کے اسباب 

امریکہ کے اس بینکنگ بحران کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بینکوں نے سود کی لالچ میں لوگوں کو آسایش وخواہشات کی راہ پر ڈال دیا کہ آؤ، ہم سے قرضہ لے کر اپنی خواہشیں پوری کرواور ہمیں سود دو۔ مثلاً ایک امریکی شخص بینک سے دو لاکھ ڈالر قرضہ لے کر مکان خریدتا ہے۔ دوسال بعد اسے بینک کا لیٹر ملتا ہے کہ اب تمہارے مکان کی قیمت (ویلیو) اڑھائی لاکھ ہوگئی ہے، اس لیے ہم سے مزید 50 ہزار ڈالر قرضہ لے کر نئی کار، نیا ٹی وی، نیا فرنیچر خر ید سکتے ہو، چنانچہ وہ شخص بینک سے مزید ۵۰ ہزار ڈالر قرض اٹھا کر نئی چیزیں خرید لیتا ہے۔ غرض بینکوں نے سود کی حرص و لالچ میں ایسے لوگوں کو قرضہ دیا جن میں قرضہ لوٹانے کی طاقت نہیں تھی۔ اسے موجودہ بینکنگ کی اصطلاح میں N.I.N.J.A LAONSکہتے ہیں۔ یعنی NO INCOME NO JOB, ONLY APPLICATION( نہ آمدنی ،نہ کام ،صرف درخواست کرکے قرضہ اٹھائے لوگ)۔ جب بینکوں سے قرضہ لینے والے لوگوں کی بھاری اکثریت ایسے لوگوں پر مشتمل ہوگئی جن کے پاس قرضہ کی ادائیگی کے لیے نہ آمدنی تھی نہ کام اور بینکوں نے محسوس کرلیا کہ ہمارے اکثر قرضے وصول نہیں ہوں گے توانہوں نے امریکی حکومت کے سامنے اپنے ہاتھ اٹھا دیے کہ اگرتم نے مزید سرمایہ فراہم نہیں کیا توہمارے پاس مارکیٹ چھوڑ کر بھاگنے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا۔ امریکی حکومت خوب جانتی ہے کہ بینکوں یا زیادہ صحیح الفاظ میں بینکاروں (سرمایہ داروں) کی راہ فرار سے ملک میں ایسی ہاہا کار مچے گی کہ چند دن حکومت چلانا مشکل ہو جائے گا، اس لیے صدر بش نے بینکوں کو بچانے کے لیے 700 ارب ڈالر کا پیکج کانگریس کے سامنے پیش کر دیا۔ پہلے مرحلے میں کانگریس نے اسے نامنظور کردیا۔ نامنظور کرنے والوں میں اکثریت کا تعلق خود صدر بش کی حکمران ری پبلک پارٹی سے تھا۔ یہی صحیح فیصلہ تھا کہ ۷۰۰ ارب ڈالر کی خطیر رقم سے بینکاروں کی جیبیں بھرنے کی بجائے اس سرمایہ سے نئی صنعتیں اور انڈسٹریاں لگا کر عوام کو روز گار فراہم کیا جاتا (کیوں کہ یہ 700 ارب ڈالر عوام ہی کے پیسے تھے) جوعوام کے ٹیکسوں سے وصول کیے جائیں گے) اس بحران کی دوسری اہم وجہ صدر بش کی احمقانہ جنگی پالیسیاں ہیں جو یہودی اور اسرائیل بنکاروں کاآلہ کار بن کر دنیا بھر میں روا رکھی گئی ہیں۔ صدر بش کے جنگی جنون نے امریکہ کاجنگی خسارہ ماہانہ 70 ارب ڈالر تک پہنچا دیایعنی فی منٹ 112500 ڈالر۔ ان احمقانہ جنگوں نے امریکی معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ صدر بش نے بینکوں کے لیے جتنی رقم (700ارب ڈالر) کا پیکیج منظور کیا ہے، تقریباً اتنی ہی عوام کے ٹیکسوں کی رقم وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ضائع کرچکے ہیں۔ اب پھر صدر بش نے عوام کے ٹیکس کے 700 ارب ڈالر ان سرمایہ داروں (بنکاروں) کی جیبوں میں ڈال دیے۔ اس 700ارب ڈالر کے پیکیج کے منظور ہوتے ہی امریکی بنکاروں نے ایسے جشن منائے کہ ایک ہی رات لاکھوں ڈالر شراب، شباب پر اڑا دیے اور اپنی تنخواہیں مزید بڑھا لیں۔ پہلے ہی ان کی تنخواہیں کئی کئی ملین ڈالر ہیں۔ یہ ہے مختصر کہانی سرمایہ دارانہ نظام کے حالیہ بحران کی۔ 

مغربی ملکوں کی اقتصادی دہشت گردی 

یہاںیہ بات قابل ذکر ہے کہ دنیا بھرمیں پھیلے ہوئے غیر سودی یا اسلامی بینک اس بحران سے پوری طرح محفوظ ہیں۔ اگرچہ میرے نزدیک موجودہ اسلامی بینک سو فیصد اسلامی نہیں، البتہ اسلام کے مبارک اقتصادی نظام کی طرف ایک کوشش ضرور کہے جا سکتے ہیں۔ اس عالمگیریت کے دور میں جب دنیا سکڑ کر ایک گاؤں بن گئی ہے،عالمی اقتصادی نظام پر مغربی سرمایہ داروں کا غلبہ وتسلط قائم ہے۔ اس منحوس نظام سے پوری طرح آزاد ہوکر مکمل طورپر اسلامی معاشی نظام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک پوری اسلامی دنیا ہمت کر کے ایک ساتھ اس مبارک غیر سودی نظام کو اپنانے کا فیصلہ نہ کرے۔ اس بحران سے مغرب کی سرمایہ دارانہ دہشت گردی اور مکاری پھر طشت ازبام ہوگئی۔ وہ اس طرح کہ ایک طرف CAT معاہدہ اور قومی مارکیٹ اکانومی کے مغرب نواز نظام کے ذریعہ مغرب کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ہر ملک میں گھس کر اپنا جال بچھانے، نفع کمانے، سرمایہ لوٹنے اور قوموں اور تہذیبوں کو نچوڑ کر کنگال بنانے کی پوری آزادی ہے۔ اب جب کہ مغرب کی غلط پالیسیوں کی بدولت دنیا اقتصادی بحران کی لپیٹ میں آئی تو ہم نے دیکھا امریکہ، برطانیہ، فرانس سمیت ہر ملک صرف اپنے ملک وقوم کو اس بحران سے بچانے کی فکر کر رہا ہے۔ غریب لوگوں اور ملکوں کی جو تباہی مغرب کی غلط پالیسیوں کے سبب ہوئی ،ہے ان کو تباہی سے بچانے کے لیے کچھ نہیں کیا جا رہا بلکہ مغرب نے اس بحران میں سب سے پہلے عربوں اور مشرقی ممالک کے سرمایہ پر ہاتھ صاف کیا جنہوں نے مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام پر اعتماد کرکے گزشتہ نصف صدی سے اپنی تمام جمع پونجی امریکہ ویورپ کے بینکوں میں رکھ چھوڑی تھی۔ بہرحال دنیا کے اقتصادی ماہرین اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ امریکی صدربش نے 700 ارب ڈالر کا پیکیج منظور کر کے اپنے (سرمایہ دارانہ) نظام کو بچانے کی جو کوشش کی، اس کی مثال ایسے ہے جیسے کسی کو ماکے مریض کی مشین کے ذریعے سانسیں جاری رکھی جائیں۔ یہ محض وقتی حیلہ ہے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام ٹوٹ کر بکھرنے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ کاش ہم مسلمان اس قابل ہوتے کہ دنیا کو بتا سکتے کہ انسانیت کو تباہی سے بچانے کا نسخہ ہمارے پاس ہے۔ اسلامی نظام ( اقتصادی) پہلے بھی تقریباً ایک ہزارسال تک بین الاقوامی طور پر دنیا کے بڑے حصہ (ایشیا، افریقہ، یورپ) پر نہایت کامیابی سے چلا ہے اور اس طویل عرصہ میں سے نہ اس طرح کا کوئی معاشی بحران آیا نہ اس طرح کی کمرتوڑ مہنگائی۔ آئیے، آج کی مجلس میں ہم دونوں اقتصادی نظاموں (اسلامی ومغربی) کا موازنہ و تجزیہ کریں۔ 

اسلامی اقتصادی نظام کی بنیادیں

جس طرح انسانی حیات کے لیے اس کی رگوں میں خون کی گردش ضروری ہے، اسی طرح نظام کائنات کی حیات مال کی صحیح گردش پر موقو ف ہے جو تجارت اور اقتصادی نظام کے ذریعے وجود میں آتی ہے ،او رجس طرح خون کا جسم کے کسی حصے میں جمع ہوجانا اور دوسرے حصو ں تک نہ پہنچ پانا جسم کی موت ہے، اسی طرح سرمایہ اور دولت کا چندہاتھوں میں جمع ہوکر رہ جانا نظام کائنات کی تباہی ہے۔ اسلام کے اقتصادی نظام کی بنیاد قرآن کی زبان میں کی لا تکون دولۃ بین الاغنیاء منکم ہے ، تاکہ دولت وسرمایہ چند ہاتھوں میں مرتکز (جمع) نہ ہوجائے۔ اسلام کے اقتصادی نظام کی بنیادزکوۃ وصدقات، عشر وخراج پر ہے یعنی زراعت، باغات اور زمین کی پیداوار میں غریب عوام کا حق۔ اگر زمین بارش سے سیراب ہو رہی ہوتو دسواں حصہ اور اگر کسان نے خود مشقت کرکے زمین کوپانی دیا تو بیسواں حصہ۔ اسی طرح اسلام نے وراثت کی تقسیم کرکے ایسے جامع اور پرحکمت احکامات دیے کہ اگر ساری دنیا کی دولت بھی کوئی فرد اکٹھی کرلے تو چند پشتوں میں وہ ساری دولت وراثت کے احکامات کے ذریعے معاشرہ میں پھیل جائے گی۔ غرض ہر وہ چیز جس سے مال وسرمایہ چندہاتھوں میں مرتکز ہو جاتا ہے، اسے اسلام نے ممنوع وحرام قرار دیا جیسے سود، ذخیرہ اندوزی، جوا وغیرہ وغیرہ۔ اسلام کے پورے اقتصادی نظام کا مقصد تو اہل ثروت سے مال لے کر بے وسائل اور غربا تک پہنچاناہے۔ اسلام انسانوں میں ایک دوسرے کے ساتھ یہی ہمدردی، اخوت، تعاون، مواساۃ کا معاشرہ تشکیل دیتا ہے۔ یاد رہے کہ قرآن کا اقتصادی نظریہ افزایش دولت produltionکے بجائے تقسیم دولت Distributionکا نظریہ ہے۔ یہی وہ بنیادی فرق ہے جو اسلامی معاشی نظام کو دوسرے معاشی نظاموں سے ممتاز کرتاہے۔ ، دنیا کے تقریباً تمام ہی معاشی نظام افلاطون کے یوٹو پیائی نظام سے لے کر موجودہ دور کے مارکسی نظام معیشت یامغرب کے سرمایہ دارانہ نظام تک سب کا مقصد زیادہ سے زیادہ حصول دولت اور ارتکاز سرمایہ ہ۔ یہ سب معاشی نظام حصول دولت کے لیے معاشرے کو تباہ کرنے والے اور نقصان پہنچانے والے غلط ذرائع کے اختیار کرنے میں کوئی قباحت نہیں دیکھتے۔ جب دنیا میں کوئی قرآن کا پیش کردہ اقتصادی نظام قائم ہوا تو چند سالوں کے اندر ایسی خوش حالی کا دور دورہ ہو اکہ مملکت اسلامی کے کسی شہر میں کوئی زکوٰۃ لینے والا نہیں ملتا تھا۔غورکیاجائے تو اسلام کی اصل بنیاد دو ہی چیزیں ہیں۔ اولاْ خدائے واحد کی عبادت کا قیام ا ور دوسرا انسانیت کو سود کی لعنت سے نجات دلانا۔ سودا تنی بڑی لعنت وبرائی ہے کہ اسلام نے سود کے مسئلہ پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، حتیٰ کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نجران کے عیسائیوں سے معاہدہ کیا تو اس میں صراحت کی گئی تھی کہ سودی کاروبار کی صورت میں یہ معاہدہ کالعدم سمجھا جائے گا۔ یعنی اگر کوئی کسی مسلمان کو قتل کردے یا مسلمانوں کے خلاف سازش کرے، جاسوسی کرے تو سزاے موت صرف اس فردکو ملے گی، من حیث القوم انہیں کچھ نہیں کہاجائے گا۔ مگر سودی لین دین پر پوری قوم کے ساتھ کیاگیا معاہدہ ختم ہو جائے گا۔ اسی طرح خلفاے راشدین کے عہد زریں میں دنیا بھر کی اقوام مذاہب وتہذیبوں سے جو معاہدے ہوئے، ان تمام میں واضح طور یہ شق تھی کہ اگر تم نے سودی لین دین کیا تو ہم سے معاہدہ ختم ہو جائے گا۔ سواس درجہ کی برائی، شراور لعنت ہے جو کسی حالت میں برداشت نہیں کی جاسکتی۔ سود واحد جرم ہے جس کو قرآن نے اللہ اور رسول کے ساتھ کھلا اعلان جنگ کہا ہے۔ افسوس آج مسلم ممالک کے ہر چور اہے اور ہر سڑک پر اللہ اور رسول کے ساتھ اعلان جنگ قبول ومنظور کرنے کا اظہار سودی بینکوں کی شکل میں کر رکھاہے۔ یہ بات پورے یقین ووثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اگر آج بھی مسلمان قرآن کے اصولوں پر صرف مالیاتی نظام لے آئیں تو مغرب کی بالادستی وغلبہ سے نجات پاجائیں۔ 

سرمایہ دارانہ اقتصادی نظام کی خرابیاں

اسلام کے اقتصادی نظام کے مقابلے میں موجودہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جو بیسیویں صدی کے اوائل سے دنیا بھرمیں غالب ومروج ہے۔ اس سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادسود، ذخیرہ اندوزی اورجوا(سٹہ) ہے۔ اس نظام کے ثمرات ونتائج یہ ہیں کہ دنیا بھر میں امیر زیادہ امیر اور غریب زیادہ غریب ہوتا جا رہا ہے اور پوری دنیا کا سرمایہ و وسائل چند مٹھی بھر ہاتھوں میں منتقل ہو رہا ہے۔ اس وقت پوری دنیا کا۸۰ فی صد سے زائد سرمایہ ۵۰۰ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ملکیت بن چکا ہے۔ تقریباً دنیا کے ہر ملک میں سرمایہ ووسائل چند لوگوں کے ہاتھ میں سمٹ گئے ہیں۔ مثلاً بھارت کی آبادی ایک ارب کے قریب ہے۔ وہاں ۸۰ کروڑ انسانوں کے پاس جتنا سرمایہ ہے، اتنا بھارت کے چار مشہو ر سرمایہ داروں کے پاس ہے۔ پاکستان کے ۱۴کروڑ لوگوں کے پاس جتنا سرمایہ ہے، اس کا بڑا حصہ چند لوگوں کے پاس ہے۔ دنیا میں تیزی سے دوطبقات وجود میںآئے ہیں۔ (۱)انتہائی امیر (۲) انتہائی غریب۔ متوسطہ طبقہ تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مغرب کی ذہنی غلامی میں پوری دنیا مغرب کے قرون وسطیٰ کے تاریک دورکی طرف بڑھ رہی ہے، جب یورپ میں لارڈ اور جاگیر دار یا ان کے غلام تھے، حتیٰ کہ دنیا بھر کی حکومتیں بشمول امریکہ ویورپ کے مٹھی بھر سرمایہ داروں کی غلام بن چکی ہیں۔ آج جمہوریت کی تعریف یہ نہیں رہی کہ عوام کی حکومت عوام کے ذریعے ، اور عوام کے مفاد کے لیے بلکہ آج جمہوریت کا مطلب ہے سرمایہ داروں کی حکومت، سرمایہ داروں کے ایجنٹوں کے ذریعے، سرمایہ داروں کے مفاد کے لیے۔ اس غیر فطری اور انسان دشمن اقتصادی نظام نے پوری دنیا کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ 

سرمایہ دارانہ نظام کی ابتدا کیسے ہوئی؟

مغرب کے اس سرمایہ دارانہ نظام کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ جو لوگ سونے چاندی کاکاروبار کرتے تھے یعنی سنار، وہ اپنے سونے کی حفاظت کے لیے مضبوط ومستحکم مکان وتجوریاں بنواتے تھے۔ عام لوگ بھی اپنی بچت کا سونا حفاظت کے لیے ان کے پاس جمع کرتے۔ یہ سنار حفاظت کرنے کی مخصوص رقم لیت، اور لوگوں کو رسیدلکھ دیتے کہ اس شخص کا اتنا سونا ہمارے پاس جمع ہے۔ اب وہ شخص اس رسید سے مکان ،زمین یا کوئی چیز خریدتا یا اپنا قرضہ ادا کرتا۔ اس طرح چالاک سناروں نے اندازہ لگایاکہ لوگ جمع شدہ سونے کا دسواں حصہ خرچ کرتے ہیں اور نو حصے ان کے پاس جمع رکھتے ہیں۔ انھوں نے حرص،لالچ اور بددیانتی سے لوگوں کے امانت رکھے ہوئے سونے کے بدلے نوالگ الگ رسیدیں جاری کرنی شروع کردیں، یعنی نہ سناروں کے پاس سونا موجود نہ لوٹانے کی طاقت، محض لوگوں کے اعتبار پر رسیدوں کا کاروبار چلتا رہا اور یہودی سناروں کا سرمایہ بڑھتا رہا۔ جب یورپ میں موجودہ بینکنگ کانظام شروع ہوا تو چونکہ سارا سرمایہ ان کی تجوریوں میں تھا، اس لیے بینکوں پر خود بخود ان کا قبضہ ہوگیا۔ عوام کے پا س جو تھوڑی بہت بچت تھی، اس پر قبضہ کرنے کے لیے ان چالاک سناروں نے لوگوں کودوسرا جھانسا یہ دیا کہ اگر تم خود کاروبار کروگے تو سرمایہ ڈوب بھی سکتاہے، اس لیے نقصان کے غم میں گھلنے کے بجائے اپنی رقم ہمیں دے دو۔ ہم تمہیں ہرماہ ہر سال ایک مقرر ( FIXED) منافع دیتے جائیں گے۔ اس طرح عام لوگوں کا بچا ہوا روپیہ بھی ان کے قبضے میںآگیا۔ اب یہ سنار، بینکار بن کر پورے یورپ کے آقا ومالک بن بیٹھے۔ ان سنارو ں کی بھاری اکثریت نسلاْ یہودی تھی۔ یہودیوں کی سودخوری کی تاریخ ضرب المثل رہی ہے، جس پر تمام آسمانی کتب شاہد ہیں، حتیٰ کہ انہوں نے سونے کے بچھڑے کی پوجا اپنے نبی حضرت موسیٰ کی موجودگی ہی میں شروع کر دی تھی۔ ظہور اسلام کے وقت مدینہ اورعرب کے تمام قبائل یہودیوں کے سود کے جال میں جکڑے ہوئے تھے اور تمام تجارت وبازاروں پران کا قبضہ تھا۔ یاد رہے کہ سود خوری،خود غرضی، ظلم،استحصال اور لوٹ کھسوٹ کاذہن پیداکرتی ہے۔ اکثر دیکھاگیاہے کہ سودخود کی حرص ولالچ اورحرام خوری کی عادت کی بدولت قمار بازی (سٹہ) کی لت پڑ رہی ہے۔ آج دنیا کے سٹاک ایکس چینجز کی تقریباً ستر فی صد رولنگ ( سرمایہ کی گردش ) سٹہ یعنی جوئے پر ہو رہی ہے۔ سود کینہ وحسد پیداکرتاہے جس کے نتیجہ میں فساد اور جنگیں چھڑتی ہیں۔ سود خور جنگیں بھڑکا کر عوام اورقیدیوں کو غلام بناتے ہیں ،مثلاً پہلی جنگ عظیم کے وقت برطانیہ پر اور دوسری جنگ عظیم تک امریکہ پرکوئی قرضہ نہیں تھا۔ ان یہودی بینکاروں نے جنگ کی آگ بھڑکا کر مختلف حیلوں سے برطانیہ اور امریکہ بلکہ پورے یورپ کو جنگ میں الجھا کراپنامقروض وتابعدار بنا لیا۔ ان ہی خونخوار بینکاروں نے موجودہ بینکنگ کا بحران پیداکر کے ایک بار پھرعوام کے ٹیکسوں سے 700 ار ب ڈالر ہڑپ کر لیے۔ یہ مکار بینکار پوری بات دنیا کو کبھی نہیں بتاتے۔ مثلاً یہ تو سب جانتے ہیں کہ پاکستان پر 42 ارب ڈالر قرضہ ہے، برطانیہ وفرانس پر ہزاروں ارب ڈالر اور امریکہ پر تقریباً دس کھرب (ٹریلین) ڈالر مگریہ حقیقت د نیاکے سامنے کبھی نہیں آئی کہ یہ قرض کن درندوں کا ہے۔ ان بنکاروں کی بھیانک شکل کبھی سامنے نہیں لائی جائے گی۔ واشنگٹن ڈی سی میں روڈ کی ایک طرف ورلڈ بینک کا دفتر ہے اور دوسری طرف IMF کا۔ ایک دنیا بھر کے ملکوں کو قرضہ دیتا ہے، دوسرا وصول کرتاہے۔ ان دونوں کے اصل مالکوں کانام زبان پر لانے کی جرات نہ صدر بش میں ہے نہ برطانیہ کے گورڈن براؤن میں۔ ان سب حکمرانوں کی حیثیت یہودی بینکار وں کے زر خرید کنیز وباندی سے زیادہ نہیں، شایداس لیے کہ ایک یہودی سکالر سموئیل ہنٹنگٹن نے کلیش آف سولائزیشن کا نظریہ پیش کیا تاکہ مغربی تہذیب کے خاتمہ کو تہذیبوں کا تصادم بناکرمسلمانوں کے سرمنڈھ دے اور تباہی پھیلانے والے درندوں کو صاف بچالے جائے۔ ہماری بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے جتنے معاشیات واقتصادیات کے ماہرین ہیں، وہ ذہنی طور پر اس قد رغلام ہیں کہ مغرب نے انہیں معاشیات کا جو سبق رٹا دیا، اس سے آگے سوچ نہیں سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم ممالک کے وزرائے خزانہ یامشیرخزانہ جب اپنے ملکوں کی اقتصادی منصوبہ کرتے ہیں تو ان کے سامنے اپنے ملکوں سے زیادہ مغرب کامفاد ہوتا ہے۔ پاکستان کے سابق وزرائے اعظم ہوں یا آج کے حکومتی ذمہ داران، یہ سب لوگ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے ایجنٹ ہیں۔ ان کی اصل ڈیوٹی ان اداروں کے بروقت سودکی ادائیگی کے لیے کام کرناہے۔ اربوں میں سود لیتے ہیں اورکھربوں میں سود اداکرتے ہیں۔ یہ سب لوگ اسی کی تنخواہ پاتے ہیں۔ بالآخر ان لوگوں نے دوبارہ پاکستان کو IMFکے جال میں پھنساہی دیا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کا انجام مکمل تباہی ہے

آج سود کے منحوس نظام کی بدولت دنیا کی ۹۰فی صد عوام کا جینا دو بھر ہو چکا ہے۔ سود اور مہنگائی لازم وملزوم ہے۔ جب سے اس منحوس نظام نے دنیا پر اپنے خونی پنجے گاڑے ہیں، روز مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ مہنگائی بڑھانے کے جنون کا حال یہ ہے کہ امریکہ ہرسال اپنے کسانوں کو 12ارب ڈالر اس لیے دیتاہے کہ وہ مہنگائی بڑھانے کے لیے زرعی پیدا وار میں کمی کریں۔ ظاہر ہے کہ اتنی بڑی فالتو رقم امریکہ کے پاس بھی نہیں ہوتی چنانچہ انہیں خونخوار بینکاروں سے سود پر قرض لے کر رقم کسانوں کو دی جاتی ہے۔ یہ شقاوت وبدبختی کی نہایت عبرت ناک مثال ہے۔ قرآن نے تقریباً چودسوسال پہلے یہ حقیقت انسانوں کے سامنے واشگاف طور پر بیان کی تھی اور پیغمبر اسلام نے فرمایا تھا کہ سود کا مال کتنا ہی بڑھ جائے، اس کا انجام افلاس وتباہی ہے۔ معاشیات کی پوری اس پر شاہد ہے کہ سودی معیشت جب کساد بازاری کا شکار ہوتی ہے تو انسانیت ایسے ہولناک انجام سے دوچا ر ہوتی ہے کہ ایک لمحہ میں کروڑوں انسانوں کی جمع پونجی ڈوب جاتی ہے۔ آج دنیا کا کوئی ماہر معاشیات ایسا نہیں جس نے معاشر ہ پر سودکے مہلک ومنفی اثرات کو تسلیم نہ کیاہو اور موجودہ دور کے تمام ماہرین معاشیات واقتصادیات خواہ وہ امریکہ ویورپ کے ہوں یا روس وجاپان کے، اس بات پرمتفق ہیں کہ سودی نظام بہت جلد پوری دنیاکو تباہ کردے گا۔ بہت جلد دنیابھر کے تمام سرمایہ ووسائل کے مالک مٹھی بھر بنکار بن جائیں گے تو اس دنیاکے سات ارب انسانوں کے اندرجو رد عمل ہوگا، ایسی بھیانک تباہی آئے گی، کروڑوں اربوں کاخون بہے گا، یہ ماہرین اقتصادیات اس کے تصور ہی سے کانپ اٹھتے ہیں۔ 

تباہی سے بچنے کا واحد راستہ 

موجودہ دور کے تمام ماہرین معاشیات اس نکتہ پر متفق ہیں کہ اقتصادی تباہی سے دنیا کو بچانے کا واحد راستہ یہ ہے کہ سود کو ختم کیا جائے۔ سودکی شرح کو گھٹاتے گھٹاتے صفر کی حد پر لایا جائے یا سود کی شرح صرف اتنی رکھی جائے کہ نظام چلانے کے اخراجات نکل سکیں، تقریباً ایک ڈیڑھ فی صد۔ چنانچہ گزشتہ ۸ سال سے یورپی اقتصادی کونسل نے شرح سود ساڑھے تین فی صد برقرار رکھی ہے اوریہاں کے ماہرین معاشیات کا کہناہے کہ اسے تدریجاً کم کرتے کرتے صفر یاایک فیصد کر دیاجائے مگر یہاں کے خونخوار بنکار جن کی بھاری اکثریت صہونیوں پر مشتمل ہے اورجوسودی نظام کی بدولت پوری دنیا کے آقا بنے ہوئے ہیں ،وہ اس انسانیت دشمن منحوس نظام کوجاری رکھناچاہتے ہیں کیونکہ سود کی بدولت ان کا ایک ایک فرد اس قدر طاقتور ہوگیا ہے کہ درجنوں ملکوں سے زیادہ دولت سرمایہ ایک ایک پاس جمع ہوگئی ہے ، جیسے جورج سوروس Jeorge Sorosاور روشیلڈ Rothchild وغیرہ۔ایسا ایک شخص برطانیہ اور فرانس جیسی مضبوط معیشت کو بھی ایک رات میں تباہ کر سکتا ہے۔ جورج سوروس نے ۸۰ کی دہائی میں مشرق بعید (انڈونیشیا، ملائیشیا، ہانگ کانگ) وغیرہ کی معیشت ایک رات میں تباہ کی تھی۔ 

مغرب کے سیاسی ومعاشی نظاموں کی ناکامی

مغرب آج تک اپنے جس سیاسی نظام (ڈیموکریسی ) اور معاشی نظام(فری مارکیٹ اکانومی) پر فخر کرتا تھا اور ساری دنیا کو اپنی پیروی کی دعوت دیتا تھا ،موجودہ بحران نے اس پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔ برطانیہ کے مشہور اخبار ڈیلی گارڈین نے کیا خوب تبصرہ کیا ہے کہ آج تک کہا جاتاتھاکہ جمہوریت وفری مارکیٹ توام (جڑواں بہنیں) ہیں لیکن اس بحران نے ثابت کر دیا ہے کہ آزاد معیشت جمہوریت کے ساتھ نہیں چل سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ ویورپ کی حکومتیں بنکوں کو نیشلائز کر رہی ہیں حتیٰ کہ مغربی میڈیا صدر بش کو کامر یڈبش اور USAکو USSAR یعنی یونائیٹڈ سوشلسٹ سٹیٹ ری پبلک آف امریکہ کہہ رہے ہیں۔ مغرب کو اپنا حشر روس کی طرح نظر آنے لگا ہے۔ کہاوت ہے کہ کند جنس باہم جنس پرواز۔ جب حرام خوری کی لت پڑجائے تو حلال میں مزہ نہیں آتا، اس لیے مغرب قرآن کی پیش کردہ یقینی فلاح وکامیابی اورانسانی بہبود کے معاشی نظام کے بجائے دوبارہ سوشلسٹ معیشت کی گلی سڑی لاش کی طرف متوجہ ہو رہا ہے اور بنکوں کونیشلائز کر رہا ہے۔ یہ تجربہ ایشیا میں پوری طرح ناکام ہو چکاہے۔

موجودہ دور کے تمام ماہرین اقتصادیات صدیوں کی ریسرچ وتحقیقات اور تجربات کے بعد جس حقیقت تک پہنچے ہیں کہ اقتصادی تباہی کا واحد سبب سودی نظام ہے، قرآن نے اس حقیقت کو ۱۴۰۰سال پہلے انسانیت کے سامنے آشکارا کردیا تھا اور انسانیت کی بہبود کے لیے پیغمبر اسلام نے ایسا معاشی نظام قائم کر دیا تھا جس سے انسانیت تقریباً ہزار سال تک مستفید ہوتی رہی۔ مغرب کے متعدد بینک قرآن کے اس غیر سودی معاشی نظام کو اپنا رہے ہیں اور دن بدن غیر سودی معیشت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کیااب بھی اس کا وقت نہیں آیا کہ امت مسلمہ اور مسلم ممالک قرآن کے معاشی نظام پرلبیک کہیں اور انسانیت کی رہنمائی کریں؟ حقیقت بالآخر خود کومنوا کر رہتی ہے۔ آج نہیں تو کل دنیاکو قرآن کے پیش کردہ معاشی نظام کی طرف آنا ہی ہوگا، کیوں کہ اس کے سوا تباہی سے بچنے کاکوئی اور راستہ ہے ہی نہیں۔ 

آراء و افکار

(فروری ۲۰۰۹ء)

تلاش

Flag Counter