وَمَن یَقْتُلْ مُؤْمِناً مُّتَعَمِّداً فَجَزَآؤُہُ جَہَنَّمُ خَالِداً فِیْہَا وَغَضِبَ اللّہُ عَلَیْْہِ وَلَعَنَہُ وَأَعَدَّ لَہُ عَذَاباً عَظِیْماً (النساء ۴:۹۳)
’’اور وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی جزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ، اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے ‘‘
اس آیت کی تفہیم سے قبل ایک مقدمہ کا سمجھنا ضروری ہے کہ: النساء آیت ۹۲ میں ، مومن کو خطا سے قتل کرنے کا ذکر ہے ، البقرۃ آیت ۱۷۸ کے آغاز میں (یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الْقِصَاصُ فِیْ الْقَتْلَی) کے الفاظ سے مومنین کو مخاطب کرتے ہوئے قصاص کا حکم دے دیا گیا ہے ، اس سے بھی بڑھ کر (الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالأُنثَی بِالأُنثَی) کے الفاظ سے مزید وضاحت کر دی گئی ہے ، اسی طرح المائدۃ آیت ۴۵ کے آغاز میں ہی( النفس بالنفس) کا عمومی بیان، مومن کو بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے ۔النساء آیت ۹۲ میں قتلِ خطا کی تصریح (وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ أَن یَقْتُلَ مُؤْمِناً إِلاَّ خَطَئاً) سے یہ تو خودبخود ظاہر ہو جاتا ہے کہ دیگر مقامات پر قتل کا بیان بہ اعتبارِ نوعیت قتلِ خطا سے الگ قسم کا حامل ہے ، اس لیے کم از کم، قتلِ خطا ہرگز نہیں ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب قتلِ خطا اور اس کے مقابل قتل کی نوع کا باقاعدہ سزاؤں کے ساتھ ذکر ہو چکا ہے تو پھر یہاں(النساء آیت ۹۳ میں )الگ سے مومن کے قتل کا تذکرہ کیوں کیا جا رہا ہے؟ کیا اس آیت کے بغیر شارع کی منشا پوری نہیں ہو رہی؟
معلوم ہوتا ہے کہ شارع نے قتل خطا کے مقابل قتل کی نوع کی درجہ بندی کی ہے ۔ البقرۃ آیت ۱۷۸ اور ا لمائدۃ آیت۴۵ میں اگر مقتول کو مومن تصور کر لیا جائے تو قرینہ بتاتا ہے کہ قتل بشری کم زوری کی وجہ سے ہوا ہے یا کسی نہ کسی حوالے سے مقتول خود بھی قتل کی وجہ بنا ہے ، اسی لیے وہاں مقتول کے مومن ہوتے ہوئے بھی قاتل کے لیے قدرے نرمی دکھائی گئی ہے اور مقتول کے ورثا کو قصاص لینے کے بجائے خون بہا لینے(البقرۃ) یا مکمل معاف کرنے(المائدۃ) کی ترغیب دی گئی ہے۔ بنی اسرائیل آیت ۳۳ میں مقتول کو مومن یا غیر مومن نہیں کہا گیا ، البتہ مظلوم ضرور کہا گیا ہے اور ورثا کو خون بہا لینے یا معاف کرنے کی کوئی ترغیب دینے کے بجائے اسراف فی القتل سے منع کیا گیا ہے۔ اگر قتلِ خطا کے مقابل ، قتل کی ان انواع کو جانچا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ البقرۃ اور المائدۃ میں بیان کیا گیا قتل ’’جواز کے تحت ‘‘ قتل کے زمرے میں آتا ہے اور بنی اسرائیل میں بیان کیا گیا قتل ، بدیہی طور پر مظلومانہ قتل یا ظالمانہ قتل کا نام پا سکتا ہے ۔ ان تینوں مقامات پر ’’ خطا یا عمد ‘‘ کا ذکر نہیں کیا گیا ۔ بنی اسرائیل آیت ۳۳ میں مقتول کے مظلوم ہونے کی وجہ سے ، اسے قتلِ عمد میں آسانی سے شامل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن البقرۃ آیت ۱۷۸ اور المائدۃ ۴۵ میں ایسی تخصیص کافی مشکل ہے کہ قتل کی نوعیت کے حوالے سے وہاں کوئی لفظ نہیں ملتا ۔ البتہ سزاؤں کو مدِ نظر رکھ کر یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ البقرۃ میں بیان کیے گئے قتل میں ، عمد کا شائبہ موجود ہے ، جبکہ المائدۃ میں خطا کا احتما ل پایا جاتا ہے ۔ اس لیے ہر دو مقامات پر اصول کی سطح پر قصاص کو قائم رکھتے ہوئے ، بالترتیب ، معافی کی کچھ گنجایش نکالی گئی ہے ، اور مکمل معاف کیا گیا ہے ۔
بنی اسرائیل آیت ۳۳ میں قاتل کو سزا دینے کے لیے مقتول کے ولی کی (ایک لحاظ سے ) قانونی پوزیشن (ًفَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہِ سُلْطَاناً) کے الفاظ میں واضح کی گئی ہے، لیکن النساء آیت ۹۳ میں مقتول مومن کے ولی کی قانونی پوزیشن کی تصریح کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ، بلکہ مزید غور سے دیکھا جائے تو ولی ہی کا بیان موجود نہیں، قانونی پوزیشن کی صراحت تو خیر اگلی بات تھی ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے اندازِ بیان سے شارع کی منشا کیا ہے؟ ( خیال رہے کہ البقرۃ آیت ۱۷۸ میں (فَمَنْ عُفِیَ لَہُ مِنْ أَخِیْہِ شَیْْءٌ) کے الفاظ اور المائدۃ آیت ۴۵ میں (فَمَن تَصَدَّقَ بِہِ فَہُوَ کَفَّارَۃٌ لَّہُ) کے الفاظ کسی فریق ثانی یا ولی کی موجودگی پر دلالت کر رہے ہیں ) جبکہ النساء آیت ۹۳ میں فریق ثانی وہ مومن ہے جس کو عمداََ قتل کیا جا چکا ہے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مقتول مومن کا قائم مقام آخر کون ہو گا؟ ہم سمجھتے ہیں کہ مقتول مومن کے قائم مقام کو تلاش کرنے سے ہی ، اس آیت میں کسی فریق ثانی یا ولی کی عدم موجودگی کے پیچھے پوشیدہ شارع کی منشا و حکمت سامنے آ سکتی ہے ۔
مقتول مومن کے قائم مقام کی تلاش میں بنی اسرائیل آیت ۳۳ اور النساء آیت ۹۳ کا تقابلی مطالعہ کافی معاونت کر سکتا ہے ۔ سورۃ بنی اسرائیل آیت ۳۳ میں (وَمَن قُتِلَ مَظْلُوماً) کے بیان سے ، سورۃ النساء آیت ۹۳ میں (وَمَن یَقْتُلْ مُؤْمِناً مُّتَعَمِّداً) کے ذکر کی بظاہر کوئی گنجایش باقی نہیں رہتی ، کہ مقتول مظلوم ، مومن بھی ہو سکتا ہے ۔ لیکن غور کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل آیت ۳۳ میں مقتول کی’’ مظلومیت کی نوعیت ‘‘بیان نہیں کی گئی ۔ چونکہ مقتول مظلوم ، غیر مومن بھی ہو سکتا ہے ، اس لیے قرینہ بتاتا ہے کہ مظلومیت ، نوعیت کے اعتبار سے دنیاوی پہلو کی حامل ہے ،مثلاََ سماج میں طبقاتی کھینچا تانی کے عمل میں کوئی شخص مظلومانہ قتل ہو سکتا ہے یا کارا کاری جیسی کسی قبیح رسم کی بھینٹ چڑھ سکتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔اسی لیے شارع نے ایک طرف (بنی اسرائیل آیت ۳۳کے تناظر میں ) النساء آیت ۹۳ میں ’’ مومن ‘‘ پر فوکس کیا ہے اوردوسری طرف (البقرۃ آیت ۱۷۸ کے تناظر میں ) ’’ عمد ‘‘ پر توجہ مرکوز رکھی ہے کہ کسی بھی قسم کے جواز کے بغیر ، جانتے بوجھتے مومن کو عمداََ قتل کرنا ، اللہ کے غضب اللہ کی لعنت اور جہنم میں ہمیشہ رہنے کے عذابِ عظیم کو دعوت دینے والی بات ہے ۔ اس تقابلی مطالعہ سے یہ نکتہ بھی سامنے آتا ہے کہ اگر کسی شخص کا طبقاتی کھینچا تانی وغیرہ کے عمل میں ، مظلومانہ قتل ہو جائے اور وہ شخص مومن بھی ہو تو ، اس کے قاتل کے جرم کی سنگینی بہت بڑھ جاتی ہے ، غالباََ اسی سنگینی کو باقاعدہ ظاہر کرنے کے لیے ہی، بنی اسرائیل آیت ۳۳ کے برعکس مقتول (اور اس کے ولی ) کے بجائے زیرِ نظر آیت میں قاتل پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے (فَجَزَآؤُہُ جَہَنَّمُ خَالِداً فِیْہَا وَغَضِبَ اللّہُ عَلَیْْہِ وَلَعَنَہُ وَأَعَدَّ لَہُ عَذَاباً عَظِیْماً) جیسی سخت وعید بیان کی گئی ہے ۔اس وعید میں یہ معنویت بھی مستور ہے کہ چونکہ مومن قرآن کے نظامِ اقدار کا متشکل روپ یا تجسیم ہے ،اس لیے اسے عمداََ قتل کرنا ایسے ہی ہے جیسے قرآن کو حق جانتے ہوئے نہ صرف جھٹلا یا جائے بلکہ اس کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی مذموم کوشش بھی کی جائے ۔لہذا ، اس آیت سے یہ معانی اخذ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ مومن کو بلا جوازعمداََ قتل کرنا درحقیقت قرآنی اقدار پر مبنی ہیتِ اجتماعی کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے اس لیے ایسے مقتول مومن کا قائم مقام یا ولی صرف اور صرف ہیتِ اجتماعی یا حاکم ہی ہو سکتا ہے ، کوئی دوسرا نہیں ۔
اب ذرا، النساء آیت ۹۳ کے اس حصے (فَجَزَآؤُہُ جَہَنَّمُ خَالِداً فِیْہَا وَغَضِبَ اللّہُ عَلَیْْہِ وَلَعَنَہُ وَأَعَدَّ لَہُ عَذَاباً عَظِیْماً) میں سے (فَجَزَآؤُہُ) پر غور کیجیے اور دیگر قرآنی مقامات سے اس کا موازنہ کیجیے، مثلاً البقرۃ آیت ۱۷۸ کے اس حصے (فَمَنْ عُفِیَ لَہُ مِنْ أَخِیْہِ شَیْْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاء إِلَیْْہِ بِإِحْسَانٍ ذَلِک تَخْفِیْفٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَرَحْمَۃٌ فَمَنِ اعْتَدَی بَعْدَ ذَلِکَ فَلَہُ عَذَابٌ أَلِیْمٌ) میں سے (فَمَنْ عُفِیَ) پرتدبر کیجیے ، اور المائدۃ آیت ۴۵ کے اس حصے (فَمَن تَصَدَّقَ بِہِ فَہُوَ کَفَّارَۃٌ لَّہُ وَمَن لَّمْ یَحْکُم بِمَا أنزَلَ اللّہُ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ) میں سے (فَمَن تَصَدَّقَ) پرغور و فکر کیجیے ، اور بنی اسرائیل آیت ۳۳ کے اس حصے (وَمَن قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہِ سُلْطَاناً فَلاَ یُسْرِف فِّیْ الْقَتْلِ إِنَّہُ کَانَ مَنْصُوراً) میں سے (فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہِ سُلْطَاناً) کا تجزیہ کیجیے ۔ انتہائی قابلِ غور مقام ہے کہ النساء آیت ۹۳ میں فقط (فَجَزَآؤُہُ) کا بیان ہے ، جبکہ دیگر مقامات پر (فَمَنْ عُفِیَ)، (فَمَن تَصَدَّقَ)، اور (فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہِ سُلْطَاناً) جیسے الفاظ موجود ہیں، ان کا تنقیدی تقابلی مطالعہ نہایت صراحت سے بیان کر رہا ہے کہ (فَجَزَآؤُہُ) میں یک طرفہ کاروائی ہے ، نہ تو قاتل کے لیے کوئی گنجایش (قانونی ، اخلاقی ، سماجی وغیرہ ) ہے اور نہ ہی کسی بھی درجے میں مقتول مومن کے ورثا کی رائے یا جذبات کا احترام ملحوظ ہے ، بلکہ ایک لحاظ سے یہ ’’طے‘‘ کر دیا گیا ہے کہ مومن کو عمداََ قتل کرنے والے قاتل کے لیے ایک ہی فیصلہ ہے اور وہ یہ ہے: جَہَنَّمُ خَالِداً فِیْہَا وَغَضِبَ اللّہُ عَلَیْْہِ وَلَعَنَہُ وَأَعَدَّ لَہُ عَذَاباً عَظِیْماً۔ اس مقام پر مناسب ہو گا کہ دیگر قرآنی مقامات کی مدد سے ، جہاں جہنم کو جزا کی حیثیت دی گئی ہے’جزا‘ کے مفہوم کے تعین کی کوشش کی جائے :
سَیَحْلِفُونَ بِاللّہِ لَکُمْ إِذَا انقَلَبْتُمْ إِلَیْْہِمْ لِتُعْرِضُواْ عَنْہُمْ فَأَعْرِضُواْ عَنْہُمْ إِنَّہُمْ رِجْسٌ وَمَأْوَاہُمْ جَہَنَّمُ جَزَاء بِمَا کَانُواْ یَکْسِبُونَ (التوبۃ۹:۹۵)
’’اب تمہارے آگے اللہ کی قسمیں کھائیں گے جب تم ان کی طرف پلٹ کر جاؤ گے اس لیے کہ تم ان کے خیال میں نہ پڑو تو ہاں تم ان کا خیال چھوڑ دو وہ تو نرے پلید ہیں اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے بدلہ اس کا جو کماتے تھے ‘‘۔
قَالَ اذْہَبْ فَمَن تَبِعَکَ مِنْہُمْ فَإِنَّ جَہَنَّمَ جَزَآؤُکُمْ جَزَاء مَّوْفُوراً (الاسراء ۱۷ :۶۳)
’’ کہا جا پس جو کوئی پیروی کرے گا تیری ان میں سے ، تو بے شک جہنم ہے جزا تمہاری جزا پوری ‘‘ ۔
وَعَرَضْنَا جَہَنَّمَ یَوْمَءِذٍ لِّلْکَافِرِیْنَ عَرْضاً ۔ الَّذِیْنَ کَانَتْ أَعْیُنُہُمْ فِیْ غِطَاء عَن ذِکْرِیْ وَکَانُوا لَا یَسْتَطِیْعُونَ سَمْعاً ۔ أَفَحَسِبَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا أَن یَتَّخِذُوا عِبَادِیْ مِن دُونِیْ أَوْلِیَاء إِنَّا أَعْتَدْنَا جَہَنَّمَ لِلْکَافِرِیْنَ نُزُلاً ۔ قُلْ ہَلْ نُنَبِّءُکُمْ بِالْأَخْسَرِیْنَ أَعْمَالاً ۔ الَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُہُمْ فِیْ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَہُمْ یَحْسَبُونَ أَنَّہُمْ یُحْسِنُونَ صُنْعاً ۔أُولَءِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا بِآیَاتِ رَبِّہِمْ وَلِقَاءِہِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُہُمْ فَلَا نُقِیْمُ لَہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَزْناً۔ ذَلِکَ جَزَاؤُہُمْ جَہَنَّمُ بِمَا کَفَرُوا وَاتَّخَذُوا آیَاتِیْ وَرُسُلِیْ ہُزُواً (سورۃ الکھف ۱۸:۱۰۰-۱۰۶)
’’اور ہم اس دن جہنم کافروں کے سامنے لائیں گے۔ وہ جن کی آنکھوں پر میری یاد سے پردہ پڑا تھا اور حق بات سن نہ سکتے تھے۔ تو کیا کافر یہ سمجھتے ہیں کہ میرے بندوں کو میرے سوا حمایتی بنا لیں گے بے شک ہم نے کافروں کی مہمانی کو جہنم تیار کر رکھی ہے۔ تم فرماؤ کیا ہم تمہیں بتا دیں کہ اعمال کے اعتبار سے سب سے بڑھ کر خسارہ میں کون ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی ساری کوشش دنیا کی زندگی میں گم گئی اور وہ اس خیال میں ہیں کہ اچھا کام کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو رب کی آیتوں اور اس کے ملنے کا انکار کر رہے ہیں ، سو ان کے سارے اعمال غارت ہو گئے ، تو قیامت کے روز ہم ان کا ذرا بھی وزن قائم نہیں کریں گے۔ یہ ہے جزا ہے ان کی ، جہنم ، بسبب اس کے کہ کفر کیا ہے انہوں نے ، اور پکڑا نشانیوں میری کو ، اور رسولوں میرے کو ٹھٹھا بنایا ‘‘۔
وَمَن یَقُلْ مِنْہُمْ إِنِّیْ إِلَہٌ مِّن دُونِہِ فَذَلِکَ نَجْزِیْہِ جَہَنَّمَ کَذَلِکَ نَجْزِیْ الظَّالِمِیْنَ (الانبیاء۲۱:۲۹ )
’’اور ان میں جو کوئی کہے کہ میں اللہ کے سوا الہ ہوں تو اسے ہم جہنم کی جزا دیں گے ہم ایسی ہی جزا دیتے ہیں ظالموں کو‘‘۔
’جہنم کی جز ا‘ کے ان قرآنی اطلاقات سے مزیدصراحت ہو جاتی ہے کہ ’جزا‘ یک طرفہ (ایک لحاظ سے خود کار )کاروائی ہے جس کے پیچھے (جوازاََ) اتمامِ حجت کی ایسی دلالت پائی جاتی ہے جس کے بعد کسی حیل و حجت کی گنجایش باقی نہیں رہتی ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ النساء آیت ۹۳ میں ’مومن‘ ایسی ہی دلالت کی علامت ہے ، اس کی وضاحت سورۃ الحجرات کی اس آیت سے یوں ہوتی ہے :
قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَکِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْإِیْمَانُ فِیْ قُلُوبِکُمْ وَإِن تُطِیْعُوا اللَّہَ وَرَسُولَہُ لَا یَلِتْکُم مِّنْ أَعْمَالِکُمْ شَیْْئاً إِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ (۱۴)
’’ کہتے ہیں گنوار کہ ہم ایمان لائے ، آپ کہیے تم ایمان نہیں لائے بلکہ تم یوں کہو ہم مسلمان ہوئے اور ابھی نہیں داخل ہوا ایمان تمہارے قلوب میں، اور اگر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو گے تو اللہ تمہارے اعمال میں سے کچھ کمی نہیں کرے گا اللہ یقیناًبخشنے والا رحم کرنے والا ہے ‘‘ ۔
مومن کی مذکورہ دلالت واضح ہونے کے بعد ’جزا‘ کی ایک اور معنوی سطح منکشف ہوتی ہے ۔ ذرا غور کیجیے کہ النساء آیت ۹۳ میں ’’قصاص ‘‘ کے بجائے ’جزا‘ کا بیان ہوا ہے ۔ اس بیان سے ظاہری طور پر یہ مغالطہ ہوتا ہے کہ جزا (فَجَزَآؤُہُ) اور اس کے بعد کا بیان (جَہَنَّمُ خَالِداً فِیْہَا وَغَضِبَ اللّہُ عَلَیْْہِ وَلَعَنَہُ وَأَعَدَّ لَہُ عَذَاباً عَظِیْماً)، صرف اور صرف اخروی زندگی کی سزا کے لیے آیا ہے دنیاوی سزا سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ لیکن حقیقت میں ایسا ہرگز نہیں ہے۔البقرۃ اور المائدۃ کی قصاص سے متعلق آیات میں ’قصاص‘ کا ذکر کیا گیا ہے ، اور قصاص ، برابری کے معنی میں مستعمل ہے ، حتیٰ کہ سزا دیتے وقت ظاہری صورت میں بھی برابری مقصود ہوتی ہے ، اسی لیے قتل کے سوا اکثر دیگر صورتوں میں قصاص کا اطلاق ممکن نہیں ہوتا ۔ النساء آیت ۹۳ میں بھی اگر مقتول مومن کے قاتل کے لیے قصاص کا لفظ برتا جاتا ، تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ اسے بھی قتل کر دیا جائے ، اس طرح قصاص یا برابری واقع ہو جاتی ۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ اس عمل سے جان کے بدلے جان تو لے لی جاتی ، لیکن مقتول کی ’مومنیت‘ دھری کی دھری رہ جاتی ۔(خیال رہے کہ بنی اسرائیل آیت۳۳ میں فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہِ سُلْطَاناً فَلاَ یُسْرِف فِّیْ الْقَتْلِ إِنَّہُ کَانَ مَنْصُوراً کا بیان مقتول کی مظلومیت کا التزام رکھے ہوئے ہے کہ اس کے قاتل کے قتل میں اسراف تو نہ کیا جائے ، لیکن قاتل کو معافی بھی ہرگز نہ دی جائے اور لازماََ قتل کیاجائے )، اس لیے شارع نے النساء آیت ۹۳ میں مقتول کے ایمان کا پورا دھیان رکھا ہے ، زیرِ نظر آیت کی ابتدائی سطروں میں بھی ہم نے بطور مقدمہ یہ نکتہ اٹھایا تھا کہ اس آیت میں ’مومن‘ کے بیان کے بغیر شارع کی منشا پوری نہیں ہورہی۔ بہرحال ! اب اگر مقتول کے علاوہ’ مومن‘ پر بھی توجہ مرکوز کی جائے تو قصاص کے بجائے جزا کے انتخاب کی حکمت سمجھ میں آتی ہے ۔ پورے قرآن مجید میں ’جزا ‘ کے اطلاقات پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی معنویت قصاص کے مانند صرف ظاہری برابری تک ہی محدود نہیں ، بلکہ کیفیت میں عدمِ مطابقت کے تدارک کے لیے اور وزن و کمیت میں برابری کی خاطر ، ظاہری طور پر مختلف صورت کا اپنایا جانا بھی ، جزا کے معنوی دائرے میں شامل ہے ،مثلاً:
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُواْ أَیْْدِیَہُمَا جَزَاء بِمَا کَسَبَا نَکَالاً مِّنَ اللّہِ وَاللّہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ (المائدۃ۵ :۳۸)
’’ اور جو مرد یا عورت چور ہو تو ان کا ہاتھ کاٹو ، ان کے کیے کی جزا اللہ کی طرف سے عبرت ، اور اللہ غالب حکمت والا ہے ‘‘
اگر جزا کا مطلب ویسا ہی بدلہ ہے توچور کی سزا چور کے ہاں چوری کی صورت میں ہونی چاہیے تھی، لیکن چونکہ ایسی ظاہری مطابقت ممکن نہیں تھی ، اس لیے عدم مطابقت کے تدارک کے لیے قطع ید کی جزا مقرر کی گئی۔پھر عام طور پر چور کا کٹا ہوا ہاتھ ، سماجی کلنک کی علامت بھی بن جاتا ہے جسے اللہ رب العزت نے (نَکَالاً مِّنَ اللّہِ) کے الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا قطع ید اور (نَکَالاً مِّنَ اللّہِ) جرم کے عین مطابق سزا کے بجائے زیادہ سزا پر دلالت کرتے ہیں؟اس سلسلے میں ’جزا‘ کے دیگر قرآنی اطلاقات ، قطعیت کے ساتھ راہنمائی کرتے ہیں کہ سزا کی ایسی نوعیت سزا میں کسی قسم کا اضافہ نہیں ہے ، لہذا اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے ’ ظلم‘ کی علامت بھی نہیں ہے بلکہ حقیقت میں کسی منفی فعل یا جرم کا عین بدل ہے ، مثلاً:
مَن جَاء بِالْحَسَنَۃِ فَلَہُ عَشْرُ أَمْثَالِہَا وَمَن جَاء بِالسَّیِّءَۃِ فَلاَ یُجْزَی إِلاَّ مِثْلَہَا وَہُمْ لاَ یُظْلَمُونَ (الانعام۶ :۱۶۰)
’’جو ایک نیکی لائے تو اس کے لیے اس جیسی دس ہیں اور جو برائی لائے تو اسے جزا نہ ملے گی مگر اس کے برابر ، اور ان پر ظلم نہ ہو گا ‘‘۔
مَن جَاء بِالْحَسَنَۃِ فَلَہُ خَیْْرٌ مِّنْہَا وَمَن جَاء بِالسَّیِّءَۃِ فَلَا یُجْزَی الَّذِیْنَ عَمِلُوا السَّیِّءَاتِ إِلَّا مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ (القصص۲۸ :۸۴)
’’جو نیک کام کرے اسے اس سے بہتر صلہ ملے گا اور جو برا کام کرے تو انہیں جو برا کام انجام دیتے ہیں ، جزا نہیں ملے گی سوا اس کے جو وہ کرتے تھے ‘‘
الْیَوْمَ تُجْزَی کُلُّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ لَا ظُلْمَ الْیَوْمَ إِنَّ اللَّہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ (غافر ۴۰:۱۷)
’’ آج ہر جان اپنے کیے کی جزا پائے گی آج کسی پر ظلم نہیں ، بے شک اللہ جلد حساب لینے والا ہے ‘‘
مَنْ عَمِلَ سَیِّئَۃً فَلَا یُجْزَی إِلَّا مِثْلَہَا وَمَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِّن ذَکَرٍ أَوْ أُنثَی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَأُوْلَئِکَ یَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ یُرْزَقُونَ فِیْہَا بِغَیْْرِ حِسَابٍ (غافر ۴۰ :۴۰)
’’ جو برا کام کرے اسے جزا نہیں دی جائے گی مگر اتنی ہی ، اور جو اچھا کام کرے مرد ہو یا عورت اور وہ ہو مومن ، پس وہ جنت میں داخل کیے جائیں گے وہاں بے حساب رزق پائیں گے ‘‘
وَخَلَقَ اللَّہُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ وَلِتُجْزَی کُلُّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ وَہُمْ لَا یُظْلَمُونَ (الجاثیۃ ۴۵ :۲۲)
’’ اور اللہ نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ بنایا اور اس لیے کہ ہر جان اپنے کیے کی جزا پائے اور ان پر ظلم نہ ہو گا ‘‘
(چور کو قطع ید کی جزا اور اللہ کی طرف سے عبرت ، اگرچہ ظاہری طور پر زیادہ سزا معلوم ہوتے ہیں ، لیکن اگر قرآن مجید میں کسی کا مال حرام طریقے سے کھانے وغیرہ ، اور کسی سماج میں مال کی اہمیت وغیرہ ، کو مدِ نظر رکھا جائے تو قطع ید کی جزا ،وزن و کمیت کے لحاظ سے جزا کی معنوی سطح پر پوری اترتی ہے اور جرم کا عین بدل معلوم ہوتی ہے ) ۔ اس لیے زیرِ نظر النساء آیت ۹۳ کے مطابق بھی مقتول مومن کے قاتل کو قتل کرنا ہی جزا نہیں کہ ایسی جزا میں مقتول کے ’ایمان‘کا دھیان نہیں رکھا جاتا ، اس لیے جرم کی نوعیت کے لحاظ سے ، جزا کی معنوی سطح کا اطلاق(بہ اعتبار وزن و کمیت ) اسی صورت ممکن ہے جب قاتل کے قتل سے بھی بڑھ کر سزا تجویز کی جائے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ المائدۃ آیت ۳۸ میں سے (نَکَالاً مِّنَ اللّہِ) اور النساء آیت ۹۳ میں سے (وَغَضِبَ اللّہُ عَلَیْْہُِ) کا تنقیدی تقابلی مطالعہ ، شارع کی منشا جاننے کی راہ ہموار کر سکتا ہے ۔ اس سلسلے میں قرآنی مغضوبین کی ’ ذلت و محتاجی کی حالت‘ (نَکَالاً مِّنَ اللّہِ ) سے بھی بڑھی ہوئی معلوم ہوتی ہے، ملاحظہ کیجیے :
وَإِذْ قُلْتُمْ یَا مُوسَی لَن نَّصْبِرَ عَلَیَ طَعَامٍ وَاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنبِتُ الأَرْضُ مِن بَقْلِہَا وَقِثَّآءِہَا وَفُومِہَا وَعَدَسِہَا وَبَصَلِہَا قَالَ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِیْ ہُوَ أَدْنَی بِالَّذِیْ ہُوَ خَیْْرٌ اہْبِطُواْ مِصْراً فَإِنَّ لَکُم مَّا سَأَلْتُمْ وَضُرِبَتْ عَلَیْْہِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ وَبَآؤُوْاْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّہِ ذَلِکَ بِأَنَّہُمْ کَانُواْ یَکْفُرُونَ بِآیَاتِ اللَّہِ وَیَقْتُلُونَ النَّبِیِّیْنَ بِغَیْْرِ الْحَقِّ ذَلِکَ بِمَا عَصَواْ وَّکَانُواْ یَعْتَدُونَ (البقرۃ ۲ :۶۱)
’’اور جب تم نے کہا کہ موسیٰ ! ہم سے ایک ( ہی ) کھانے پر صبرنہیں ہو سکتا تو اپنے رب سے دعا کیجیے کہ ترکاری اور ککڑی اور گیہوں اور مسور اور پیاز ( وغیرہ) جو نباتات زمین سے اگتی ہیں ، ہمارے لیے پیدا کردے ۔ انھوں نے کہا کہ بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے بدلے ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو ؟ ( اگر یہی چیزیں مطلوب ہیں) تو کسی شہر میں جا اترو ، وہاں جو مانگتے ہو مل جائے گا ۔ اور ( آخرکار) ذلت ( اور رسوائی ) اور محتاجی ( و بے نوائی ) ان سے چمٹا دی گئی اور وہ اللہ کے غضب میں گرفتار ہو گئے ۔ یہ اس لیے کہ وہ اللہ کی آیات سے انکار کرتے تھے اور ( اس کے ) نبیوں کو ناحق قتل کر دیتے تھے یہ اس لیے کہ نافرمانی کیے جاتے اور حد سے بڑھے جاتے تھے ‘‘
ضُرِبَتْ عَلَیْْہِمُ الذِّلَّۃُ أَیْْنَ مَا ثُقِفُواْ إِلاَّ بِحَبْلٍ مِّنْ اللّہِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَبَآؤُوا بِغَضَبٍ مِّنَ اللّہِ وَضُرِبَتْ عَلَیْْہِمُ الْمَسْکَنَۃُ ذَلِکَ بِأَنَّہُمْ کَانُواْ یَکْفُرُونَ بِآیَاتِ اللّہِ وَیَقْتُلُونَ الأَنبِیَاءَ بِغَیْْرِ حَقٍّ ذَلِکَ بِمَا عَصَوا وَّکَانُواْ یَعْتَدُونَ (آل عمران ۳ :۱۱۲)
’’ان پر جما دی گئی خواری ، جہاں ہوں امان نہ پائیں ، مگر ہاں ایک تو ایسے ذریعہ کے سبب جو اللہ کی طرف سے ہے اور ایک ایسے ذریعہ سے جو انسانوں کی طرف سے ہے ، اور مستحق ہو گئے اللہ کے غضب کے ، اور جما دی گئی ان پر محتاجی ، یہ اس وجہ سے ہوا کہ وہ لوگ منکرہو جاتے تھے اللہ کی آیتوں سے ، اور قتل کر دیا کرتے تھے نبیوں کو ناحق ، اور یہ اس وجہ سے ہوا کہ نافرمانی کی انہوں نے اور حد سے نکل جاتے تھے ‘‘
إِنَّ الَّذِیْنَ اتَّخَذُواْ الْعِجْلَ سَیَنَالُہُمْ غَضَبٌ مِّن رَّبِّہِمْ وَذِلَّۃٌ فِیْ الْحَیْاۃِ الدُّنْیَا وَکَذَلِکَ نَجْزِیْ الْمُفْتَرِیْنَ (الاعراف ۷ :۱۵۲)
’’یقیناََ جنہوں نے بچھڑا بنایا انہیں پہنچے گا غضب ان کے رب کی طرف سے اور ذلت اس دنیاوی زندگی میں اور ایسی ہی ہم جزا دیا کرتے ہیں جھوٹ باندھنے والوں کو‘‘۔
لہٰذا، زیرِ نظر النساء آیت ۹۳ میں ’جزا‘ کے مذکورہ مفہوم کو ذہن میں رکھتے ہوئے ، قرآنی مغضوبین کی ذلت و رسوائی پر بھی توجہ کی جائے ، تو استدلال کیا جا سکتا ہے کہ المائدۃ آیت ۳۸ کے مانند ، مومن کے قتل کی جزا کا وزن و کمیت کے لحاظ سے اطلاق ، قاتل کی ذلت و رسوائی کے بغیر ممکن نہیں ۔اہم بات یہ ہے کہ النساء آیت ۹۳ کے علاوہ ، قرآن مجید میں جن دو مقامات پر مغضوب و ملعون کااکٹھے ذکر کیا گیا ہے وہاں بھی دنیاوی ذلت و رسوائی کا واضح اہتمام موجود ہے :
قُلْ ہَلْ أُنَبِّءُکُم بِشَرٍّ مِّن ذَلِکَ مَثُوبَۃً عِندَ اللّہِ مَن لَّعَنَہُ اللّہُ وَغَضِبَ عَلَیْْہِ وَجَعَلَ مِنْہُمُ الْقِرَدَۃَ وَالْخَنَازِیْرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوتَ أُوْلَءِکَ شَرٌّ مَّکَاناً وَأَضَلُّ عَن سَوَاء السَّبِیْلِ (المائدۃ ۵ :۶۰)
’’تم فرماؤ کیا میں بتا دوں جو اللہ کے یہاں اس سے بدتر درجہ میں ہیں وہ جن پر اللہ نے لعنت کی اور غضب فرمایا اور ان میں سے کر دیے بندر اور سور اور طاغوت کے پجاری ، یہ لوگ جگہ کے لحاظ سے بدتر اور سیدھے راستے سے زیادہ ہٹے ہوئے ہیں ‘‘۔
وَیُعَذِّبَ الْمُنَافِقِیْنَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِکِیْنَ وَالْمُشْرِکَاتِ الظَّانِّیْنَ بِاللَّہِ ظَنَّ السَّوْءِ عَلَیْْہِمْ دَاءِرَۃُ السَّوْءِ وَغَضِبَ اللَّہُ عَلَیْْہِمْ وَلَعَنَہُمْ وَأَعَدَّ لَہُمْ جَہَنَّمَ وَسَاء تْ مَصِیْراً (الفتح ۴۸ :۶)
’’اور عذاب دے منافق مردوں اور منافق عورتوں اورمشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو ،جو اللہ کی نسبت برے گمان رکھتے ہیں، ان پر برا وقت پڑنے والا ہے اور اللہ ان پر غضب ناک ہے اور ان پر لعنت کرتا ہے اور اس نے ان کے لیے جہنم تیار کر رکھی ہے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے ‘‘
ہماری رائے میں النساء آیت۹۳ میں (فَجَزَآؤُہُ) کے بعد ، جہنم میں خلود ، اللہ کا غضب و لعنت اور عذابِ عظیم کی تیاری کابیان، (کیفیت میں عدم تطابق کے تدارک اور وزن و کمیت میں برابری کی خاطر )مقتول مومن کے قاتل کے قتل سے بڑھ کر کسی ایسی مرکب سزا کی راہ دکھاتا ہے جس میں ذلت و رسوائی کا پہلو بدرجہ اتم موجود ہو ۔ یہاں منطقی طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسی مرکب سزا کی ظاہری نوعیت کیا ہو گی ؟۔ کیونکہ مرکب سزا تو خیر دور کی بات ہے ، النساء آیت ۹۳ کے ظاہری الفاظ ، کسی بھی قسم کی دنیاوی سزا پر دلالت نہیں کرتے ۔ اس سلسلے میں ( فَجَزَآؤُہُ جَہَنَّمُ خَالِداً فِیْہَا ) کے پیشِ نظر ، قرآنی جہنمیوں کی دنیاوی سزا کی تلاش کے لیے قرآن مجید کا مطالعہ کیاجائے تو سورۃ توبہ کی آیت ۷۳ کافی مددگار معلوم ہوتی ہے:
یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ جَاہِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنَافِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْْہِمْ وَمَأْوَاہُمْ جَہَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ
’’ اے نبی ! کافروں پر اور منافقوں پر جہاد کرو اور ان پر سختی (وَاغْلُظ) فرماؤ اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور کیا ہی برا انجام‘‘۔
اس آیت میں (وَاغْلُظْ) رقت کے متضاد معنی میں استعمال ہوا ہے اور مخاطب نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کی حیثیت مومنین کی ہیتِ اجتماعی کے قاید کی ہے ۔سورۃ توبہ میں ہی مومنین کو اجتماعی طور پر مخاطب کرکے سختی کا حکم دیا گیا ہے :
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ قَاتِلُواْ الَّذِیْنَ یَلُونَکُم مِّنَ الْکُفَّارِ وَلْیَجِدُواْ فِیْکُمْ غِلْظَۃً وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ (التوبۃ۹:۱۲۳)
’’ اے ایمان والو ان کافروں سے جنگ کرو جن کا علاقہ تمہارے ساتھ ملتا ہے اور ان کے ساتھ تمہیں سختی (غِلْظَۃً) کے ساتھ پیش آنا چاہیے اور یہ جان لو کہ اللہ متقین کے ساتھ ہے‘‘۔
قابلِ غور مقام ہے کہ نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کو قاید کی حیثیت میں اور مومنین کو اجتماعی حیثیت میں ’سختی ‘ اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اس کا ایک مطلب یہ ہوا کہ النساء آیت ۹۳ میں مقتول مومن کے وارث کی حیثیت ’ مومنین کے قا ید یا مومنین کی ہیتِ اجتماعی‘ ہی کو حاصل ہے کہ دیگر ورثا کی جانب سے ’رقت‘ کا احتمال موجود ہے جبکہ شارع کی منشا سختی ہے (اسی لیے مقتول مومن کے وارث یا ولی کاذکر ہی سرے سے موجود نہیں )۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہوا کہ مومنین کے قاید یا ہیتِ اجتماعی کو مومن کے قاتل کے ساتھ صرف اور صرف سختی ہی کے ساتھ پیش آنا چاہیے ۔سورۃ النور میں زنا کی سزا کے ضمن میں بھی صرف سختی اپنانے کا حکم دیا گیا ہے :
الزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِءَۃَ جَلْدَۃٍ وَلَا تَأْخُذْکُم بِہِمَا رَأْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللَّہِ إِن کُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَلْیَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَاءِفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ (النور ۲۴:۲)
’’ اور جو عورت بدکار ہو اور جو مرد تو ان میں ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ اور تمہیں ان پر ترس نہ آئے اللہ کے دین میں، اگر تم ایمان لاتے ہو اللہ اور پچھلے دن پر، اور چاہیے کہ ان کوعذاب کرتے وقت مومنین کا ایک گروہ حاضر ہو ‘ ‘۔
لہٰذا، مومن کے قاتل کے لیے بدرجہ اولی سختی کے اہتمام کی زیادہ ضرورت ہے ، اسی لیے قاتل کا ہمیشہ کے لیے جہنمی ہونا ، اس پر اللہ کا غضب و لعنت اور اس کے لیے عذابِ عظیم کی تیاری ، انتہائی سختی و درشتی پر دلالت کرتے ہیں ۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ قاتل کے ساتھ سختی کی ’نوعیت‘ کیا ہوگی ؟۔ اس سلسلے میں سورۃ الزخرف کی آیات، جہنمی مجرموں کی بابت آگاہ کرتی ہیں کہ وہ ظالم تھے :
إِنَّ الْمُجْرِمِیْنَ فِیْ عَذَابِ جَہَنَّمَ خَالِدُونَ ۔ لَا یُفَتَّرُ عَنْہُمْ وَہُمْ فِیْہِ مُبْلِسُونَ ۔ وَمَا ظَلَمْنَاہُمْ وَلَکِن کَانُوا ہُمُ الظَّالِمِیْنَ (۷۴-۷۶)
’’بے شک مجرم جہنم کے عذاب میں ہمیشہ رہنے والے ہیں وہ کبھی ان پر سے ہلکا نہ پڑے گا اور وہ اس میں بے آس رہیں گے اور ہم نے ان پر کچھ ظلم نہ کیا ہاں وہ خود ہی ظالم تھے ‘‘
زیرِ نظر النساء آیت ۹۳ میں مومن کے قاتل کو جہنمی کے علاوہ ملعون بھی قرار دیا گیا ہے اور قرآن مجید میں ملعونین کو ظالم گردانا گیا ہے :
وَنَادَی أَصْحَابُ الْجَنَّۃِ أَصْحَابَ النَّارِ أَن قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقّاً فَہَلْ وَجَدتُّم مَّا وَعَدَ رَبُّکُمْ حَقّاً قَالُواْ نَعَمْ فَأَذَّنَ مُؤَذِّنٌ بَیْْنَہُمْ أَن لَّعْنَۃُ اللّہِ عَلَی الظَّالِمِیْنَ (الاعراف۷ :۴)
’’اور جنت والوں نے دوزخ والوں کو پکارا کہ ہمیں تو مل گیا جو سچا وعدہ ہم سے ہمارے رب نے کیا تھا تو کیا تم نے بھی پایا جو تمہارے رب نے سچا وعدہ تمہیں دیا تھا ، بولے ہاں ، تو ایک اعلان کرنے والا اعلان کرے گا کہ ا للہ کی لعنت ہو ظالموں پر‘‘۔
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَی عَلَی اللّہِ کَذِباً أُوْلَئِکَ یُعْرَضُونَ عَلَی رَبِّہِمْ وَیَقُولُ الأَشْہَادُ ہَؤُلاء الَّذِیْنَ کَذَبُواْ عَلَی رَبِّہِمْ أَلاَ لَعْنَۃُ اللّہِ عَلَی الظَّالِمِیْنَ (ہود ۱۱ :۱۸)
’’اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے وہ اپنے رب کے حضور پیش کیے جائیں گے اور گواہ کہیں گے یہ ہیں جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ بولا تھا ، سن لو ، لعنت ہے اللہ کی اوپر ظالموں کے ‘‘۔
یَوْمَ لَا یَنفَعُ الظَّالِمِیْنَ مَعْذِرَتُہُمْ وَلَہُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَہُمْ سُوءُ الدَّارِ (غافر ۴۰ :۵۲)
’’ جس دن ظالموں کو ان کے بہانے کچھ کام نہ دیں گے اور ان کے لیے لعنت ہے اور ان کے لیے برا گھر ‘‘
اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو جہنمی و لعنتی ہے وہ ظالم ہے اور جو ظالم ہے وہ لعنتی و جہنمی ہے ۔ لہذا جودنیاوی سزا ظالم کے لیے مقرر کی گئی ہے وہ مومن کے قاتل جہنمی و لعنتی کو بھی دی جا سکتی ہے ۔ مثال کے طور پر سورۃ بنی اسرائیل آیت ۳۳ میں مقتول کو مظلوم کہا گیا ہے ، (یعنی قاتل ظالم ٹھہرا) ، پھر نرمی کی کوئی گنجایش رکھے بغیر انتہائی سرد لہجے میں قاتل کو قتل کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ اس لیے مومن کے قاتل کو بھی ظالم گردانتے ہوئے قتل کیا جا سکتا ہے(بلکہ جہنمی و ملعون ہونے کی بنا پر دوہراظالم قرار دے کر برے طریقے سے قتل کیا جا سکتا ہے ) ۔سورۃ البقرۃ کی درج ذیل آیات کے مطابق ، جہنم کے سزاوار دنیاوی زندگی میں فسادی اور نفس کے تابع ہوتے ہیں :
وَإِذَا تَوَلَّی سَعَی فِیْ الأَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیِہَا وَیُہْلِکَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللّہُ لاَ یُحِبُّ الفَسَادَ۔ وَإِذَا قِیْلَ لَہُ اتَّقِ اللّہَ أَخَذَتْہُ الْعِزَّۃُ بِالإِثْمِ فَحَسْبُہُ جَہَنَّمُ وَلَبِءْسَ الْمِہَادُ (البقرۃ۲ :۲۰۵، ۲۰۶)
’’اور جب وہ لوٹتا ہے تو تو عملاََ اس کی تگ و دو یہ ہوتی ہے کہ زمین میں فساد مچائے اور کھیتی اور نسل (انسانی) کو تباہ کرے اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا ، اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈرو تو اپنی عزت کی خاطر گناہ پر جم جاتا ہے تو جہنم اسے کافی ہے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے ‘‘
جہنمی کے فسادی ہونے کے علاوہ فسادی کے لعنتی ہونے کا بھی پورا قرینہ موجود ہے :
وَالَّذِیْنَ یَنقُضُونَ عَہْدَ اللّہِ مِن بَعْدِ مِیْثَاقِہِ وَیَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللّہُ بِہِ أَن یُوصَلَ وَیُفْسِدُونَ فِیْ الأَرْضِ أُوْلَئِکَ لَہُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَہُمْ سُوءُ الدَّارِ (الرعد ۱۳ :۲۵)
’’اور وہ جو اللہ کاعہد اس کی مضبوطی کے بعد توڑتے ہیں اور جس کے جوڑنے کو اللہ نے فرمایا اسے قطع کرتے اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں ان کے لیے لعنت ہے اور ان کا نصیب برا گھر ‘‘
قرآن مجید نے لعنتی اور فسادی کے لیے یہ ’جزا‘مقرر کی ہے :
إِنَّمَا جَزَاء الَّذِیْنَ یُحَارِبُونَ اللّہَ وَرَسُولَہُ وَیَسْعَوْنَ فِیْ الأَرْضِ فَسَاداً أَن یُقَتَّلُواْ أَوْ یُصَلَّبُواْ أَوْ تُقَطَّعَ أَیْْدِیْہِمْ وَأَرْجُلُہُم مِّنْ خِلافٍ أَوْ یُنفَوْاْ مِنَ الأَرْضِ ذَلِکَ لَہُمْ خِزْیٌ فِیْ الدُّنْیَا وَلَہُمْ فِیْ الآخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ (المائدۃ ۵:۳۳)
’’وہ کہ اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے اور زمین میں فساد کرتے پھرتے ہیں ،ان کی یہی جزا ہے کہ گن گن کر قتل کیے جائیں یا سولی دیے جائیں یا ان کے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹے جائیں یا زمین سے دور کر دیے جائیں ، یہ دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے بڑا عذاب ‘‘
مَلْعُونِیْنَ أَیْْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِیْلاً (الاحزاب ۳۳ :۶۱)
’’وہ موردِ لعنت ہیں جہاں بھی وہ پائے جائیں پکڑے جائیں اور پوری طرح قتل کیے جائیں‘‘۔
قرآن مجید نے حق راہ واضح ہونے کے بعد رسول کے خلاف چلنے والے اور(قابلِ غور ہے کہ ) مومنین کی راہ سے الگ راہ لینے والے کو جہنم کی وعید سنائی ہے :
وَمَن یُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدَی وَیَتَّبِعْ غَیْْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہِ مَا تَوَلَّی وَنُصْلِہِ جَہَنَّمَ وَسَاء تْ مَصِیْراً (النساء ۴ :۱۱۵)
’’اور جو رسول کا خلاف کرے بعد اس کے کہ حق راستہ اس پر کھل چکا اور مومنین کی راہ سے الگ راہ چلے ہم اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں گے اور اسے جہنم میں داخل کریں گے اور کیا ہی بری جگہ پلٹنے کی‘‘۔
چہ جائے کہ الگ راہ لینے سے کئی درجے بڑھ کر مومن کو عمداََ قتل کر دیا جائے ، خیال رہے النساء آیت ۹۳ میں ’عمد‘ حق راہ جاننے کے حوالے سے اتمامِ حجت اور تحقق پر بھی دلالت کرتا ہے ۔ بہرحال ، قرآن نے مطلق انسان کے قتل کو انتہائی نا پسندیدہ قرار دیا ہے چہ جائے کہ مومن ہو :
مِنْ أَجْلِ ذَلِکَ کَتَبْنَا عَلَی بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ أَنَّہُ مَن قَتَلَ نَفْساً بِغَیْْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِیْ الأَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعاً وَمَنْ أَحْیَاہَا فَکَأَنَّمَا أَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعاً وَلَقَدْ جَاء تْہُمْ رُسُلُنَا بِالبَیِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ کَثِیْراً مِّنْہُم بَعْدَ ذَلِکَ فِیْ الأَرْضِ لَمُسْرِفُونَ (المائدۃ ۵ :۳۲)
’’اسی وجہ سے بنی اسرائیل پر ہم نے یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی ، مگر ان کا حال یہ ہے کہ ہمارے رسول پے درپے کھلی کھلی ہدایات لے کر آئے پھر بھی ان میں بکثرت لوگ زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہیں۔‘‘
خیا ل رہے کہ تخلیقِ آدم سے قبل فرشتوں نے کہا تھا کہ انسان تو زمین میں فساد پھیلائے گا قتل و غارت کرے گا ، اور اللہ نے فرمایا تھا کہ جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے، اس لیے یہاں یہ قرینہ پایا جاتا ہے کہ مومن ، فرشتوں کے اس سوال کا جواب ہونے کے ناطے ایک جہت سے آیتِ الہی ہے اور دوسری جہت سے آیاتِ الہی کی تجسیم ہے ، نہ فسادی اور نہ قتل و غارت پر تلا ہوا ۔اس لیے اگر اس کا قتل ، آیتِ الہی کے خاتمے کی کوشش خیال کیا جائے تو اس کے قاتل کو ’جزا‘ کے طور پر لوگوں کے لیے آیت بنا دیا جانا چاہیے ،جیسا کہ سورۃ الفرقان میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے :
وَقَوْمَ نُوحٍ لَّمَّا کَذَّبُوا الرُّسُلَ أَغْرَقْنَاہُمْ وَجَعَلْنَاہُمْ لِلنَّاسِ آیَۃً وَأَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِیْنَ عَذَاباً أَلِیْماً (۳۷)
’’اور نوح کی قوم کو جب انہوں نے رسولوں کو جھٹلایا ہم نے ان کو ڈبو دیا اور انہیں لوگوں کے لیے نشانی کر دیا اور ہم نے ظالموں کے لیے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے ‘‘۔
مذکورہ نکتے کی مزید تصریح درج ذیل آیات سے ہوتی ہے :
وَیَا قَوْمِ ہَذِہِ نَاقَۃُ اللّہِ لَکُمْ آیَۃً فَذَرُوہَا تَأْکُلْ فِیْ أَرْضِ اللّہِ وَلاَ تَمَسُّوہَا بِسُوءٍ فَیَأْخُذَکُمْ عَذَابٌ قَرِیْبٌ (ہود ۱۱:۶۴)
’’ اور اے میری قوم ، یہ اللہ کا ناقہ ہے تمہارے لیے آیت ، تو اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھائے ، اور اس کو برائی کے ساتھ ہاتھ بھی مت لگانا ، پس پکڑے گا تم کو عذاب فوری‘‘۔
قَالُوا إِنَّمَا أَنتَ مِنَ الْمُسَحَّرِیْنَ۔ مَا أَنتَ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا فَأْتِ بِآیَۃٍ إِن کُنتَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ ۔ قَالَ ہَذِہِ نَاقَۃٌ لَّہَا شِرْبٌ وَلَکُمْ شِرْبُ یَوْمٍ مَّعْلُومٍ ۔وَلَا تَمَسُّوہَا بِسُوءٍ فَیَأْخُذَکُمْ عَذَابُ یَوْمٍ عَظِیْمٍ ۔ فَعَقَرُوہَا فَأَصْبَحُوا نَادِمِیْنَ ۔ فَأَخَذَہُمُ الْعَذَابُ إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَآیَۃً وَمَا کَانَ أَکْثَرُہُم مُّؤْمِنِیْنَ (الشعراء ۲۶ :۱۵۳-۱۵۸)
’’ وہ کہنے لگے تم تو ایک سحر زدہ آدمی ہو ، تم ہمارے ہی جیسے ایک آدمی ہو اگر تم سچے ہو تو کوئی آیت لاؤ ، کہا آیت یہ ناقہ ہے ایک دن اس ناقہ کے پانی پینے کے لیے مقرر ہے اور ایک دن تم سب کے لیے ، اسے کوئی دکھ نہ پہنچانا ورنہ ایک بڑے دن کا عذاب تمہیں آ لے گا ، سو انہوں نے اس اونٹنی کو مار ڈالا پھر صبح کو پچھتاتے رہ گئے ، تو انہیں عذاب نے آ لیا بے شک اس میں ضرور آیت ہے اور ان میں اکثر ایمان نہیں لاتے ‘‘
اگرمومن کی دوسری جہت ، یعنی آیاتِ الہی کی تجسیم کو پیشِ نظر رکھا جائے تو :
وَالَّذِیْنَ سَعَوْا فِیْ آیَاتِنَا مُعَاجِزِیْنَ أُوْلَءِکَ لَہُمْ عَذَابٌ مِّن رِّجْزٍ أَلِیْمٌ (سبا ۳۴ :۵)
’’ اور جنہوں نے ہماری آیتوں میں ہرانے کی کوشش کی ، ان کے لیے سخت درد ناک عذاب ہے ‘‘
کے مصداق ، اس کا قتل ، آیاتِ الہی کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے اس لیے خدائی نظام میں فتنہ و فساد برپا کرنے کی کوشش ہے اور قرآن مجید کا فیصلہ ہے : وَالْفِتْنَۃُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ (البقرۃ ۲:۱۹۱) ’’اور فتنہ سخت تر ہے قتل سے‘‘وَالْفِتْنَۃُ أَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ (البقرۃ ۲ :۲۱۷) ’’اور فتنہ انگیزی ، قتل سے بھی بڑھ کر ہے‘‘۔ ایسے فتنہ و فساد پر قرآن نے خاموشی اختیار نہیں کی اور نہ ہی محض اخروی سزاؤں پر انحصار کیا ہے بلکہ ان کے سدِ باب کے لیے سخت دنیاوی تدابیر و سزائیں مقرر کی ہیں ، مثلاً: سورۃ النور آیت ۲ میں زانی مرد و عورت پر ترس نہ کھانے اور مومنین کے ایک گروہ کی حاضری کا حکم آیا ہے ، ظاہر ہے کہ اس حکم کے پیچھے جواز یہی ہے کہ زانی لوگ ، ایک لحاظ سے آیاتِ الہی کو چیلنج کرتے ہوئے ، قرآنی اقدار پر مبنی اجتماعی نظم میں خلل اندازی کی کوشش کرتے ہیں، اس لیے وہ ترس کے بجائے ذلت و رسوائی کے زیادہ مستحق ہیں ۔ زنا کے مقابلے میں مومن کا قتل ، آیاتِ الہی کو کلی اعتبار سے چیلنج کرنے کے مترادف اور اجتماعی نظم میں خلل اندازی کی انتہائی کوشش ہے ، اس لیے منطقی طور پر اس کے قاتل کے لیے نہ تو نرمی کا کو ئی گوشہ ہونا چاہیے اور نہ ہی اس کی ذلت و رسوائی میں کوئی کسر باقی چھوڑنی چاہیے۔ زیرِ نظر النساء آیت ۹۳ کو دوبارہ دیکھیے (وَمَن یَقْتُلْ مُؤْمِناً مُّتَعَمِّداً فَجَزَآؤُہُ جَہَنَّمُ خَالِداً فِیْہَا وَغَضِبَ اللّہُ عَلَیْْہِ وَلَعَنَہُ وَأَعَدَّ لَہُ عَذَاباً عَظِیْماً)، اس میں کہیں بھی کوئی ایسا لفظ استعمال نہیں کیا گیا جس میں قاتل کے لیے کسی حوالے سے نرمی کی ذرہ برابر بھی گنجایش نکلتی ہو ۔ اس کے برعکس ، سورۃ بنی اسرائیل آیت ۳۳ میں مقتول کے مظلوم ہونے کے باوجود ظالم قتل کے لیے (فَلاَ یُسْرِف فِّیْ الْقَتْلِ) کے الفاظ ، ایک حد تک نرمی ظاہر کرتے ہیں ۔ اس لیے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ النساء آیت ۹۳ میں اس اسراف (سختی و رسوائی )کی اجازت (بلکہ حکم ) دیا گیا ہے جس کی بنی اسرائیل آیت ۳۳ میں ممانعت کی گئی ہے ۔اگرالمائدۃ آیت ۳۲ کے بیان (مَن قَتَلَ نَفْساً بِغَیْْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِیْ الأَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعاً وَمَنْ أَحْیَاہَا فَکَأَنَّمَا أَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعاً) ’’جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی ‘‘ میں انسانی جان کی حرمت اور قرآن میں مومن کے مقام پر نظر رکھتے ہوئے، النساء آیت ۹۳ میں قصاص کے مقابل ’جزا‘ کی معنویت کا احاطہ کرکے ، مذکور سزاؤں جہنم غضب لعنت عظیم عذاب پر غور و خوض کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مومن کے قاتل کے ساتھ ’اسراف‘ کرنے کی صورت میں بھی ’جزا‘ کا معنوی اطلاق (قاتل کے فعل کے مساوی ، وزن و کمیت کے لحاظ سے ) ممکن نہیں ہوتا ، اس لیے قاتل کی سزا کے لیے ایسے الفاظ (جہنم غضب لعنت عظیم عذاب) برتے گئے ہیں جو بدیہی طور پر اخروی سزا پر دلالت کرتے ہیں ، یعنی دنیاوی سزا کی کوئی بھی نوعیت چونکہ قاتل کے فعل کا بدل نہیں ہو سکتی ، اس لیے آخرت میں بھی اسے لازماََ سزا ملے گی ۔
زیر نظر النساء آیت ۹۳ کا ایک قابلِ اعتنا پہلو ، تشنہ طلب ہے کہ ’مومن‘ کون ہے؟ کیا اس کی کوئی جامع تعریف موجود ہے ؟ قرآنی مطالعہ بتاتا ہے کہ مومنین ، مساوی نہیں ہیں :
اَََّّّ یَسْتَوِیْ الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْْرُ أُوْلِیْ الضَّرَرِ وَالْمُجَاہِدُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ بِأَمْوَالِہِمْ وَأَنفُسِہِمْ فَضَّلَ اللّہُ الْمُجَاہِدِیْنَ بِأَمْوَالِہِمْ وَأَنفُسِہِمْ عَلَی الْقَاعِدِیْنَ دَرَجَۃً وَکُلاًّ وَعَدَ اللّہُ الْحُسْنَی وَفَضَّلَ اللّہُ الْمُجَاہِدِیْنَ عَلَی الْقَاعِدِیْنَ أَجْراً عَظِیْماً (النساء ۴ :۹۵)
’’برابر نہیں ہیں مومنین میں سے بغیر معذوری کے گھر میں بیٹھنے والے اور اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ، اللہ نے اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھے رہنے والوں پردرجے میں فضیلت دی ہے اور یوں تو ہر ایک سے اس نے بھلائی کا وعدہ کیا ہے اور جہاد کرنے والوں کو پیچھے رہنے والوں پر بہت بڑے اجر کے ساتھ فضیلت دی ہے‘‘۔
قرآن مجید کے مطابق ایمان کی کیفیات کے بھی مدارج ہیں :
الَّذِیْنَ قَالَ لَہُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُواْ لَکُمْ فَاخْشَوْہُمْ فَزَادَہُمْ إِیْمَاناً وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ (آل عمران ۳ :۱۷۳)
’’وہ کہ جن سے لوگوں نے کہا کہ لوگوں نے تمہارے مقابلہ کے لیے بڑا لشکر جمع کیا ہے ان سے ڈرو تو اس سے ان کے ایمان میں اور اضافہ ہوا اور انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور بڑا اچھا کارساز‘‘۔
لہٰذا ، یہاں منطقی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ النساء آیت ۹۳ میں مذکور مقتول مومن کو ایمان کے کس درجے کا حامل خیال کیا جائے کہ درجے کے تعین کے بعد اور درجے کے مطابق، اس کے قاتل سے معاملہ نمٹایا جائے؟ بنظرِ غائر ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ اس زاویے سے معاملے کو نمٹانا، انسانی اختیار کی حدود سے تجاوز کرنے کے مترادف ہے ۔ اس لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ قرآن مجید میں ’مومن‘ کی کوئی ایسی تعریف تلاش کی جائے جس کا اطلاق تمام مومنین پر یکساں ہو سکے۔ سورۃ النساء آیت ۹۴ ، اس سلسلے میں ہماری راہنمائی کرتی ہے :
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ إِذَا ضَرَبْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ فَتَبَیَّنُواْ وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ أَلْقَی إِلَیْْکُمُ السَّلاَمَ لَسْتَ مُؤْمِناً تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا فَعِندَ اللّہِ مَغَانِمُ کَثِیْرَۃٌ کَذَلِکَ کُنتُم مِّن قَبْلُ فَمَنَّ اللّہُ عَلَیْْکُمْ فَتَبَیَّنُواْ إِنَّ اللّہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیْراً
’’اے ایمان والو جب سفر کرو اللہ کی راہ میں تو تحقیق کر لیا کرو اور مت کہو اس شخص کو جو تم سے سلام علیک کہے کہ تو مومن نہیں ، تم چاہتے ہو اسباب دنیا کی زندگی کا ، سو اللہ کے ہاں بہت غنیمتیں ہیں ، تم بھی تو ایسے ہی تھے اس سے پہلے ، پھر اللہ نے تم پر فضل کیا ، سو اب تحقیق کر لو ، بے شک اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے ‘‘۔
اس لیے خالصتاً قانونی پہلو سے ، کسی کی باطنی کیفیات کے اعتبار سے ایمان کے تعین کے بجائے ظاہری حالت کا لحاظ ہی ممکن اور قرین مصلحت معلوم ہوتا ہے ۔ اور اگر کوئی شخص اپنے ظواہر و شعائر سے ایمان والا دکھائی دیتا ہو ، تو اس کی اس حالت کو قانوناََ تسلیم کیا جانا چاہیے۔ لہٰذا، النساء آیت ۹۳ کا اطلاق کسی مخصوص مومن پر ہی نہیں ہوتا ، بلکہ ہر درجے کے مومنین اس کے دائرہ میں آ جاتے ہیں ۔
اسی بحث کے ضمن میں ایک اور سوال قابلِ غور ہے کہ مومن کا قاتل اگر کافر ہو تو کفر کے سبب اسے ہمیشہ جہنم میں رہنا ہے ، اگر قاتل خود بھی مومن ہو تو کیا وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا ؟ جبکہ جہنم میں ہمیشگی کے سزاوار کافر و مشرک ہیں ، مومن نہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مومن کے قاتل کی سزاؤں کا مذکورہ تنقیدی مطالعہ ، اس امر پر شاہد ہے کہ اس کا قاتل اگر مومن تھا بھی ، تو وہ قتل کرنے کے عمل کے دوران میں ایمان سے محروم ہو جاتا ہے ۔اس حوالے سے زیرِ نظر النساء آیت ۹۳ میں (مُّتَعَمِّداً) کی مستور معنویت کا کھوج ، قاتل کے لیے ہر اعتبار سے اتمامِ حجت و تحقق پر دلالت کرتا ہے ۔ سورہ الشوری میں ارشادِ ربانی ہے :
وَالَّذِیْنَ یُحَاجُّونَ فِیْ اللَّہِ مِن بَعْدِ مَا اسْتُجِیْبَ لَہُ حُجَّتُہُمْ دَاحِضَۃٌ عِندَ رَبِّہِمْ وَعَلَیْْہِمْ غَضَبٌ وَلَہُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ (آیت ۱۶)
’’اور وہ جو اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں بعد اس کے کہ اسے قبول کیا جا چکا ، ان کی حجت ان کے رب کے نزدیک بے ثبات ہے اور ان پر غضب ہے اور ان کے لیے سخت عذاب ہے ‘‘
اس لیے قاتل اگر مومن ہے تواس کا مومن کوعمداََ قتل کرنا، ذہنی حالت کے لحاظ سے اتما مِ حجت کے بعد حجت بازی کی علامت بن جاتا ہے ، جس کے باعث وہ مغضوب قرار پاتا ہے اور شدید عذاب کا مستحق ٹھہرتا ہے ۔ سیاقِ کلام سے قاتل کی تکفیر کی مزید تصریح ہوتی ہے: وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ أَن یَقْتُلَ مُؤْمِناً إِلاَّ خَطَئاً (النساء ۴ :۹۲)، ذرا غور کیجیے کہ بیان کے لیے جو اسلوب اختیار کیا گیا ہے، اس میں کس قدر زور ہے، اور اس زور میں شدت و قطعیت (إِلاَّ خَطَئاً) سے مزید نمایا ں ہوئی ہے۔ لہٰذا ، قاتل اگر مومن تھا تو وہ مومن کوعمداََ قتل کرکے ’بالفعل ارتداد‘ کا مرتکب ہو گیا ہے ، اس لیے اس کی سزا میں مرتد ہونے کے باعث تخفیف کی کوئی گنجایش نہیں نکلتی بلکہ مزید اضافہ ہی ہو تاہے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسے تجدیدِ ایمان کی توفیق نصیب ہو سکتی ہے؟ سیاقِ کلام میں (تَوْبَۃً مِّنَ اللّہِ) کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور کلام میں ( تَوْبَۃً مِّنَ اللّہِ) کی عدم موجودگی و سزاؤں کی نوعیت پر نظر رکھتے ہوئے اس کا جواب نفی میں ملتا ہے ۔
بحث کے اس مقام پریہ لطیف نکتہ سامنے آتا ہے کہ مومن ، مومن کا قتل (خَطَئاً ) ہی کر سکتا ہے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ البقرۃ ، المائدۃ اور الاسراء میں قتل کی جن انواع کا ذکر ہواہے ، کیا مومن ان سے مبرا ہے یا ان انواع کو خطا کے ذیل میں لیا جائے گا؟ ہم سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید میں قتلِ عمد و قتلِ خطا ، دو انتہاؤں کا بیان ہوا ہے ، قتل کی دیگر اقسام ان کے بین بین ہیں۔
اس خطِ مستقیم کو دائیں سے بائیں دیکھیں تو عمد کی شدت میں کمی واقع ہوتی جاتی ہے اور خطا کا مقام آ جاتا ہے اور بائیں سے دائیں نظر دوڑائیں تو خطا کی نوعیت سنگین ہوتے ہوتے ظلم کے مرحلے سے گزر کر عمد سے جا ملتی ہے ۔
المائدۃ آیت ۴۵ و البقرۃ آیت ۱۷۸کے تکمیلی الفاظ سے قبل کے احکامات ، قاتل کے مومن ہونے کی صورت میں بھی اس کی قانونی پوزیشن(ایمان) کو موضوع بحث نہیں بناتے اورنہ ہی الاسراء آیت ۳۳ میں ایسا قرینہ ملتا ہے ۔ اس کا ایک مطلب یہ ہوا کہ مومن ، خطا کی ان سنگین صورتوں یا عمد کی تخفیف حالتوں کا مصداق ہو سکتا ہے۔
اختتامی کلمات کی طرف بڑھتے ہوئے گزارش کریں گے کہ سورۃ النساء آیت ۹۳میں دنیاوی سزا کی تلاش کے حوالے سے مذکورہ داخلی شواہد کو نظر میں رکھتے ہوئے ،اب ذرا سورۃ البقرۃ آیت ۱۷۸ کے تکمیلی الفاظ (فَمَنِ اعْتَدَی بَعْدَ ذَلِکَ فَلَہُ عَذَابٌ أَلِیْمٌ) اور سورۃ المائدۃ آیت ۴۵ کے تکمیلی الفاظ (وَمَن لَّمْ یَحْکُم بِمَا أنزَلَ اللّہُ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ) پر غور کیجیے کہ کیا ان دو مقامات پر بھی سزا کی ایسی ہی نوعیت کی گنجایش موجود نہیں ہے؟ اور کیا قاتل (اگر مومن ہو) کی قانونی پوزیشن مشکوک نہیں ہو جاتی؟ ہماری رائے میں اعْتَدَی، عَذَابٌ أَلِیْمٌ اور الظَّالِمُونَ جیسے الفاظ مذکورہ سزاؤں ( جن کا بیان النسا آیت ۹۳ کے ضمن میں ہوا ) کی تنفیذ کے لیے داخلی شہادت دے رہے ہیں ۔ لیکن ان کا محل یہ ہے کہ اگر الٰہی احکامات (یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الْقِصَاصُ فِیْ الْقَتْلَی الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالأُنثَی بِالأُنثَی فَمَنْ عُفِیَ لَہُ مِنْ أَخِیْہِ شَیْْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاء إِلَیْْہِ بِإِحْسَانٍ ذَلِک تَخْفِیْفٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَرَحْمَۃٌ) کے بعدیا الٰہی احکامات (وَکَتَبْنَا عَلَیْْہِمْ فِیْہَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَیْْنَ بِالْعَیْْنِ وَالأَنفَ بِالأَنفِ وَالأُذُنَ بِالأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ فَمَن تَصَدَّقَ بِہِ فَہُوَ کَفَّارَۃٌ لَّہُ) کے علاوہ ، کوئی حیل و حجت کی گئی ہو تو ایسے سرکش و ظالم کو (مذکورہ النساء آیت ۹۳ کی تصریح کے مطابق ) ، ظالم ، لعنتی ، فسادی اور فتنہ باز قراردیا جا سکتا ہے ، یعنی البقرۃ آیت ۱۷۸ ، اور المائدۃ آیت ۴۵ میں ، پہلے ہی مرحلے میں کسی فریق یا فریقین کو اس انداز میں نہیں لیا جا سکتا جیسے النساء آیت ۹۳ میں مومن کے قاتل کو پہلے ہی مرحلے میں لیا گیا ہے کہ اس سے معاملہ مومنین کا قاید یا ہیتِ اجتماعی ، یک طرفہ طور پر سختی و درشتی اور ذلت و رسوائی کے انداز میں نمٹائے گی ، جبکہ ا لبقرۃ و المائدۃ میں یہ معاملہ ہماری رائے میں پہلے مرحلے میں ناکامی کے بعد اس کے تسلسل میں دوسرے مرحلے پر آتا ہے ، یعنی مومنین کے قاید یا ہیتِ اجتماعی کو اس وقت کلی اختیار حاصل ہو جاتا ہے جب فریقین یا کوئی فریق پہلے حکم کی تکفیر و تکذیب کرے ، اس کے نتیجے میں وارث ولی وغیرہ کا عمل دخل و اختیار بھی بالکلیہ ختم ہوجاتا ہے ۔
حاصل مطالعہ
قصاص و دیت کے قرآنی احکامات کے طالب علمانہ مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت نے خالق ہونے کے ناطے مخلوق کے خلقی ، ذہنی، نفسیاتی اور واقعاتی عوامل کا دھیان رکھا ہے ۔ یہ احکامات خالی خولی ، قانونی قسم کی سرد زبان میں نہیں ہیں، بلکہ قرآنی لب و لہجہ انسانی احوال و ظروف سے پورا پورا میل کھاتا نظر آتا ہے ۔ ان احکامات میں ، تقریباًہر مقام پر ایک حفاظتی حصار قائم ہوتا دکھائی دیتا ہے ، جو قرآن مجید کی نہایت اعلیٰ حکمت پر دلالت کرتا ہے ، مثلاً: سورۃ البقرۃ آیت ۱۷۸ میں مقصود ، معافی و خون بہا کی ادائیگی ہے ، اور اس مقصود کے گرد قصاص کے عنوان سے فصیل کھڑی کر دی گئی ہے ۔ سورۃ المائدۃ آیت ۴۵ میں قرآنی مطمح نظر ، مکمل معافی ہے ، اور اس کے اوپر نہایت اٹھتے ہوئے اسلوب میں ، قصاس و بدلہ کا آسمان کھڑا کر دیا گیا ہے ۔ اسی طرح سورۃ بنی اسرائیل آیت ۳۳ میں اسراف سے رکنے کا حکم دے کر، قصاص لینے کا سامان پیدا کیا گیا ہے ۔
اس مطالعہ سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن مجید جس قتل کی سزا بدیہی طور پر قصاص(یا اس سے بھی بڑھ کر ) دیناچاہتا ہے، اسے وہ تقریباََ استثنائی انداز میں لیتا ہے کہ کبھی کبھا ہی ایسا واقعہ رونما ہوگا ، مثلاََ قتلِ مومن اور مظلومانہ قتل ۔اس کا ایک مطلب یہ ہوا کہ قرآن، مومنین کی اوسط اخلاقی قوت سے یہ توقع ہی نہیں کرتا کہ قتل کے دیگر واقعات میں وہ قصاص لینے پر اصرار کریں گے اور یوں قصاص، زندگی کا غالب رجحان بن کر مومنین کی اخلاقی گراوٹ کی نمائندگی کرے گا ۔اس کا دوسرا مطلب یہ ہوا کہ قصاص کے احکامات کی تنفیذ سے قبل مومنین کا اوسط اخلاقی سطح پر آنا نہایت ضروری ہے ۔ اس لیے اگر مسلم معاشرہ میں قتل کے واقعات میں اکثر اوقات دیت و معافی کے بجائے قصاص پر عمل کیا جائے تو اس کا حل یہ نہیں کہ قصاص کو سرے سے ختم ہی کردیا جائے کہ اس کے نہایت خطرناک اثرات مرتب ہوں گے اور معاشرہ ظاہری نظم سے بھی بہرہ مند نہیں رہے گا ، البتہ قصاص لینے کے عمومی رجحان پر تشویش ضرور ہونی چاہیے کہ معاشرہ عفو و احسان ، صدقہ و کفارہ جیسی جملہ اقدار و خصوصیات سے دور ہوتا جا رہا ہے۔
اس مطالعے میں کہیں ایسا مقام نہیں آیا جہاں حکمرانوں کو قصاص معاف کر دینے کا اختیار دیا گیا ہو، کہ وہ اپنی طاقت استعمال کرکے مصنوعی اخلاقی معیار ظاہر کرنے کی کوشش کریں البتہ دیت و معافی کے حکم کی عمومی قبولیت کو ممکن بنانے کے لیے، بطور حاکم ان کی یہ ذمہ داری بنتی نظر آتی ہے کہ اپنے تئیں مطلوب معاشرتی فضا قائم کرنے کی حتی المقدور کوشش کریں ۔ قرآن نے اس کی حقیقی ذمہ داری معاشرے پر ڈالی ہے کہ معاشرتی تحرکات اور ثقافتی متغیرات کے ذریعے ایسا ماحول تشکیل پانا چاہیے جہاں عفو احسان اور صدقہ و کفارہ ، کوروزہ مرہ کی حیثیت حاصل ہو ، نہ کہ استثنا کی ، کہ کبھی کبھار کسی نے معاف کر دیا ۔ اس مطالعے کے مطابق حکمرانوں کو یہ حق بھی نہیں دیا گیا کہ وہ کسی بہانے، دیت و معافی کے اختیار کو سلب کرنے کی مذموم کوشش کریں ۔یہاں کسی کو یہ مغالطہ نہیں ہونا چاہیے کہ البقرۃ و المائدۃ میں یہ اختیار سلب کرنے کا حق دیا گیا ہے ، کیونکہ دونوں مقامات پر مومنین کے قاید یا ہیتِ اجتماعی کا براہ راست دخل صرف اور صرف تکمیلی حکم کی اتباع میں ، پہلے حکم کی تنفیذ کے بعد ناکامی کی صورت میں شروع ہوتا ہے۔ اس لیے البقرۃ میں قصاص یا کچھ معافی و دیت ، اور المائدۃ میں قصاص یا مکمل معافی کا حکم ، لازماََ قابلِ نفاذ ہوتا ہے ، ان کی تنفیذ سے قبل ، صورتِ حال کو تکمیلی حکم کا مصداق قرار دینا ، نصوص کی کھلی خلاف ورزی ہو گی ، اور ایسا حاکم خود تکمیلی حکم کے مطابق سزاوار ہو گا ۔
اس وقت مسلم دنیا کی صورتِ حال یہ ہے کہ ایک طرف حکمران ہیں جن کا فرضِ منصبی ، قصاص کی چھتری کو قائم رکھنا ہے تاکہ اس کے سائے تلے افہام و تفہیم کی فضا کسی قسم کی اخلاقی کرپشن سے آلودہ نہ ہوسکے ، لیکن وہ قصاص کو ترک کرنا چاہتے ہیں ، منشاے ربانی کی تائید میں نہیں ،بلکہ ذہنی مفلوجیت کے ہاتھوں غیر ملکی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ، اور دوسری طرف ، نام نہاد علماے دین ہیں جنہوں نے اپنے تئیں خدائی قانون کی بالادستی کا علم بلند کر رکھا ہے اور لفظیات میں الجھ کر، قصاص کو منشاے ربانی قرار دے کر وہ کام اپنے ذمہ لے رکھا ہے جو درحقیقت حکمرانوں کا ہے، اپنی ذمہ داری سے یہ لوگ خیر سے آگاہ ہی نہیں۔ یہ دو انتہائیں ہیں ، دونوں غلط ہیں، اور ان د ونوں کے درمیان ، قرآن مجید کی حقیقی منشا گم ہو چکی ہے ۔
بہر حال، ہمیں اس مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآن مجید ، انسان کے اخلاقی وجود کی تکمیل اور اس کی حفاظت کو نہایت اہم خیال کرتا ہے ۔ اس لیے جہاں کہیں اخلاقی وجود میں دراڑیں پڑیں وہاں سزا دینے کے عمل میں، انہی مخصوص اخلاقی لطائف کی بڑھوتری کا خاطر خواہ بندوبست کیاگیا ، جو اخلاقی شکستگی کا موجب بنے تھے ۔ اور جہاں کہیں اخلاقی وجود اس قدر پامال ہوتا نظر آیا جس کے بعد کسی اصلاح کی توقع نہیں کی جا سکتی ، وہاں قرآن مجید نے نہایت سنجیدگی سے انتہائی سخت گیر رویہ ظاہر کیا ۔ اہم بات یہ ہے کہ قرآن عمومی طور پر ، مومنین پر کوئی ایسا قانونی حکم لاگو کرتا نظر نہیں آتا ، جس کی بنیاد پر کہا جا سکے کہ وہ قرآنی قانون کے مطابق مومن نہیں رہے (سوائے النساء آیت ۹۳ کے )۔ لیکن مومنین کی قانونی پوزیشن برقرار رکھتے ہوئے ، ان کے اخلاقی انحطاط پر تشویش کا اظہار ضرور کرتا دکھائی دیتا ہے ، تشویش کے اس اظہار میں قرانی زبان اگرچہ تنبیہی ہو جاتی ہے ، لیکن رحمت و محبت کا چھایا ہوا اسلوب ، انسان کو پژمردہ کرنے کے بجائے اخلاقی بحالی کے مراحل سے گزارتا ہے۔