باراک حسین اوباما نے امریکہ کے صدر کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا ہے اور امریکہ کی قومی تاریخ میں ایک نیا باب شروع ہو گیا ہے۔ وہ سیاہ فام آبادی جسے آج سے پون صدی پہلے تک امریکہ میں ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں تھا، اس کا نمائندہ آج امریکہ کے وائٹ ہاؤس میں بیٹھا ہے اور محاورہ کی زبان میں امریکہ کے سیاہ و سفید کا مالک کہلاتا ہے۔ تاریخ کے اس اہم موڑ پر امریکی معاشرہ کی اس اہم تبدیلی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور اس تبدیلی کا اس پہلو سے بہرحال خیر مقدم ہی کیا جانا چاہیے۔
لیکن کیا امریکہ کی قومی سیاست میں یہ انقلابی تبدیلی عالمی صورت حال اور خاص طور پر عالم اسلام کے بارے میں امریکی پالیسیوں میں کسی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوگی؟ ہمارے خیال میں اس کا مثبت جواب اتنی آسانی سے نہیں دیا جا سکتا جتنی توقعات ہمارے بعض حلقوں نے باراک حسین اوباما سے وابستہ کرلی ہیں، کیونکہ اس تبدیلی سے یہ ضرور ہوا ہے کہ وائٹ ہاؤس میں بیٹھ کر امریکہ بلکہ پوری دنیا پر حکومت کرنے والی شخصیت کا رنگ تبدیل ہو گیا ہے، لیکن رنگ کی یہ تبدیلی پالیسیوں میں کسی تبدیلی کی غماز نہیں ہے، اس لیے کہ امریکی صدر کے دنیا کے طاقت ور ترین حکمران ہونے کے باوجود امریکی پالیسیاں اداروں کے ذریعے طے ہوتی ہیں اور ان اداروں کی پشت پر جو اصل ادارے ’’تھنک ٹینکس‘‘ کے طور پر پالیسیاں وضع کرتے ہیں اور وہ لابیاں جو ان تھنک ٹینکس کی طے کردہ پالیسیوں کو مجاز اداروں سے منظور کرانے کے لیے ہر وقت اور ہر سطح پر متحرک رہتی ہیں، وہ وہی ہیں جو گورے صدروں کے دور میں تھیں بلکہ جو صدر بش کے دور میں تھیں۔
ادارے بھی وہی ہیں، لابیاں بھی وہی ہیں، امریکی مفادات بھی وہی ہیں، امریکی قوم کی نفسیات بھی وہی ہے، میڈیا بھی وہی ہے اور اسے مخصوص مقاصد کے لیے استعمال کرنے والے خفیہ ہاتھ بھی ہی ہیں، اس لیے امریکہ کی بین الاقوامی پالیسیوں میں کسی جوہری تبدیلی کی توقع کرنا خود کو فریب میں مبتلا کرنے والی بات ہوگی، البتہ عالم اسلام کی دینی تحریکات کو اس انقلابی تبدیلی کے اس پہلو پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ امریکہ کی سیاہ فام آبادی نے برابر کے شہری کا حق حاصل کرنے کے مطالبہ سے لے کر امریکہ کی صدارت تک پہنچنے کے یہ مراحل پون صدی کے دوران جس طرح پرامن، عدم تشدد پر مبنی اور سیاسی واخلاقی جدوجہد کے ذریعے طے کیے ہیں، کیا ہم اس تجربہ سے فائدہ اٹھانے پر غور کرنے کے لیے تیار ہو سکتے ہیں؟