یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الْقِصَاصُ فِیْ الْقَتْلَی الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالأُنثَی بِالأُنثَی فَمَنْ عُفِیَ لَہُ مِنْ أَخِیْہِ شَیْْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاء إِلَیْْہِ بِإِحْسَانٍ ذَلِک تَخْفِیْفٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَرَحْمَۃٌ فَمَنِ اعْتَدَی بَعْدَ ذَلِکَ فَلَہُ عَذَابٌ أَلِیْمٌ وَلَکُمْ فِیْ الْقِصَاصِ حَیَاۃٌ یَاْ أُولِیْْ الأَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ (البقرۃ۲: ۱۷۸، ۱۷۹)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو ،لکھا گیاہے اوپر تمہارے برابری کرنامارے گیوں کے بیچ ، آزاد بدلے آزاد کے اور غلام بدلے غلام کے اور عورت بدلے عورت کے ، تو جس کے لیے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی ہوئی ہو، تو پیروی کرنا ہے ساتھ اچھی طرح کے ، اور ادا کرنا ہے طرف اس کے ساتھ نیکی کے ، یہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارا بوجھ ہلکا کرنا ہے اور تم پر رحمت ، اس کے بعد جو زیادتی کرے ، تو اس کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ اور قصاص میں تمہارے لیے زندگی ہے اے اہلِ عقل تاکہ تم(قتل و خون ریزی سے، یعنی اللہ کے غضب سے کہ قتل و خون ریزی غضب کی ایک صورت ہے ) بچو‘‘۔
سورۃ البقرۃ کی آیت۱۷۸ کے پہلے حصے میں قصاص کی لزومیت کا بھر پور تاثر موجود ہے ۔ قرآن مجید میں فرضیت و لزومیت کے معنوں میں کُتِبَ مختلف مواقع پر استعمال ہوا ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ آیت کے اس حصے میں سب ایمان والوں (یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ) کو مخاطب کیا گیا ہے ، مومنین میں سے کسی اقلیت یا اکثریت کو نہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قصاص کی لزومیت کا تعلق اہلِ ایمان کی اجتماعی حیثیت سے ہے نہ کہ کسی فرد یا کسی مخصوص گروہ سے، وہ گروہ چاہے اقلیت میں ہو یا اکثریت میں۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید کے مطابق ، قصاص کی تنفیذ کا صحیح محل، اجتماع ہے ، جوا جتماعی اتھارٹی کو استعمال کرتے ہوئے قصاص (الْقِصَاصُ فِیْ الْقَتْلَی) کو یقینی بنائے گا ۔آج کے محاورے میں ہم یہ بات اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ فرد کے بجائے فقط ریاستی اتھارٹی ( یا ایمان والوں کی کوئی بھی مقتدر اجتماعی ہیت ) آیت کے اس حصے کی مخاطب ہے ۔ اور آیت کے الفاظ نہایت قطعیت کے ساتھ قصاص کی لزومیت کے آئینہ دار ہیں اور ریاستی اتھارٹی کے لیےْ قصاص کے علاوہ کوئی آپشن باقی نہیں رکھا گیا یعنی کسی قسم کی لچک کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی گئی ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ریاستی اتھارٹی کے ذمے محض قصاص کو بھر پور طریقے سے یقینی بنانا ہے ، جس کے پیچھے لازمی دوہری حکمت یہ ہے: (۱) قصاص کے اصول کی موجودگی اور اس کے پیچھے مقتدر اجتماعی ہیت کی قوت نافذہ ، ارتکابِ قتل کے رجحان کا قلع قمع کر سکے۔ (۲)مقتول کے ورثا اپنے طور پر بدلہ لینے کے خواہاں نہ ہو سکیں اور جذبات کی رو میں بہہ کر اشتعالی کیفیت میں ظلم و تعدی کے مرتکب نہ ہو سکیں ۔
قصاص کے حوالے سے مذکورہ اصول کی سختی و استواریت (اور اس میں پنہاں حکمت)کے بیان کے بعد فَمَنْ عُفِیَ لَہُ مِنْ أَخِیْہِ شَیْْء کے الفاظ، ایک طرف، لچک اور نرمی کے پہلو کو عیاں کرتے ہیں، اور دوسری طرف، مخاطب،مقتدر اجتماعی ہیئت کے بجائے افراد ہو جاتے ہیں ۔ یہاں دو سوالات جنم لیتے ہیں : ایک تو یہ کہ، آئیڈیلی استواراصول (الْقِصَاصُ فِیْ الْقَتْلَی)کے بیان کے بعد نرمی و لچک کا پہلو کیوں نکالا گیا؟ دوسرا یہ کہ ، مخاطب، مقتدر اجتماعی ہیئت کے بجائے افراد کو کیوں بنایا گیا؟ جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ شارع کی منشا ، حقیقت میں نرمی و لچک کی تنفیذ ہے وگرنہ لچک کی گنجائش ہی نہ نکالی جاتی اور سیدھے سادے طریقے سے محض قصاص کا حکم دے دیا جاتا۔ نرمی و لچک کے پہلو کا اس موقع پر بیان بنفسہٖ اس امر پر دال ہے کہ اس آیت کا اصل مقصود ، قتل ہونے کی صورت میں ، خون بہا کا دستور کے موافق تقاضا اور بھلے طریقے سے اس کا ادا کرنا ہے ۔جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ شارع نے اس سلسلے میں حکم و اصول کو حرکت میں لانے کے بجائے مومنین کی ’’اخلاقی قوت‘‘ کو انگیخت کرنے کی راہ نکالی ہے ۔ اگر یہاں بھی افراد کے بجائے مقتدر اجتماعی ہیت کو خطاب کیا جاتا، تو لازمی طور پر مومنین کی اخلاقی قوت کے ظہور کے بجائے ریاستی جبر سامنے آتا ، اور مقتدر حلقے (قاتل ہونے کی صورت میں )ہمیشہ جبراً خون بہا کے نام پر کچھ دے دلا کر مقتول کے ورثا کو فارغ کر دیتے جس کے نتیجے میں لازماََ انتشار پیدا ہوتا، کیونکہ مقتول کے ورثا کی عدم تسلی ، ردِ عمل کی کوئی نہ کوئی سبیل ضرور ڈھونڈ نکالتی۔مومنین کی اخلاقی قوت کو انگیخت کرنے کا بیان ہماری ذہنی اختراع نہیں ، کیونکہ واضح طوپر آیت ۱۷۸ میں اخیہکا لفظ اسی اخلاقی قوت کی نمائندگی کر رہا ہے ۔ قتل جیسے سنگین جرم کے ثابت ہونے کے بعد (ذرا غور کیجیے کہ الزام کے بعد نہیں )، قاتل و مقتول کو الفت و اخوت کی لڑی میں پرونے کا بیان ، ایسی اخلاقی قوت کے زور دار ظہور کا آئینہ دار نہیں ہے تو پھر کیا ہے ؟ ۔ سورۃ آل عمران کی آیت ۱۰۳ ہمارے موقف کی مزید تصریح کرتی ہے :
وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّہِ جَمِیْعاً وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْکُرُواْ نِعْمَتَ اللّہِ عَلَیْْکُمْ إِذْ کُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَیْْنَ قُلُوبِکُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِہِ إِخْوَاناً وَکُنتُمْ عَلَیَ شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَکُم مِّنْہَا کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللّہُ لَکُمْ آیَاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُونَ
’’ اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑے رکھو اور متفرق نہ ہو اور اللہ کی اس مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہو گئے ، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا ، اس طرح اللہ تم کو اپنی آیات کھول کھول کر سناتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ ‘‘
چونکہ اخلاقی قوت کی نمود ، ریاست کے ذریعے ممکن نہیں بلکہ محال ہے ، اس لیے اس اخلاقی قوت کی آبیاری کی ذمہ داری افراد اور معاشرے پر ڈال دی گئی ہے اور مخاطب بھی افراد اور معاشرہ ہیں ۔(خیال رہے کہ جہاں دو یا دو سے زیادہ افراد موجود ہوں وہاں معاشرہ وجود میں آجاتا ہے ، اور یہاں تو قاتل ومقتول کے دو خاندانوں کے علاوہ ان کے دوست احباب بھی اپنا اپنا کردار ادا کرنے لازماََ آ موجود ہوتے ہیں ) ۔
یہاں ایک بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب شارع نے افراد و معاشرہ کی اخلاقی قوت پر ہی بھروسہ کرنا ہے ، تو پھر یَاأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الْقِصَاصُ فِیْ الْقَتْلَی الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالأُنثَی بِالأُنثَی کے بیان کا مقصد کیا ہے ؟ ۔ قتل کا ذکر کر کے براہ راست دیت کی ادائیگی کا حکم دیا جا سکتا تھا ، کہ مقصود یہی ہے ۔ اگر غور کیا جائے تو یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الْقِصَاصُ فِیْ الْقَتْلَی الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالأُنثَی بِالأُنثَی کے بیان کی حکمت سمجھ میں آجاتی ہے ۔ اگرمعاشرے کی محض اخلاقی قوت پر بھروسہ کرتے ہوئے دیت کی ادائیگی کا حکم براہ راست دے دیا جاتا، تومرورِ ایام سے لازمی طور پر یہ اخلاقی قوت مضمحل ااور دبی دبی سی ہو جاتی ۔ مقتول کے ورثا کی تشفی نہ ہو پاتی اور دیت کی وصولی کے بعد بھی وہ نفسیاتی اعتبار سے خود کو مظلوم خیال کرتے اور بدلہ لینے کے درپے ہوتے ۔ اس لیے قصاص کا حکم مقتول کے ورثا کی نفسیاتی ضرورت کا لحاظ رکھے ہوئے ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی حیثیت ایک ’’ چیک ‘‘ کی بھی ہے کہ قصاص کی تلوار تلے ہی قاتل اور اس کے بھائی بندے خون بہا کی ادائیگی عمدگی (بِإِحْسَان) کے ساتھ کریں گے اور مقتول کے ورثا کے ممنون بھی رہیں گے۔
آیت ۱۷۸ میں عفی کے ذکر سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر قاتل کو مقتول کے ورثا سے معافی مل گئی تو پھر اس مقام پرخون بہا کا بیان کیا معنی رکھتا ہے؟ عفی کے ساتھ شئ کے ذکر سے معلوم ہوتا ہے کہ قصاص سے دست برداری، مکمل معافی کے بجائے ایک خاص درجے میں معافی کے زمرے میں آتی ہے ۔اگر مکمل معافی مقصود ہوتی تو (فَمَنْ عُفِیَ لَہُ مِنْ أَخِیْہِ) کے بعد شئ کا لفظ نہ ہوتا ، اور دستور کے موافق تقاضاکرنے اور عمدگی کے ساتھ اداکرنے کا بیان بھی موجود نہ ہوتا، لیکن عفیکا لفظ صاف ظاہر کر رہا ہے کہ مقتول کے ورثا کی طرف سے یہ عمل ، بہرحال کسی نہ کسی درجے میں معاف کر دینے کا ہی آئینہ دار ہے ۔اس آیت کے مندرجات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خون بہا ، قصاص کا بدل نہیں ہے ۔ اگر خون بہا ، قصاص کا بدل ہوتا تو درمیان میں معافی کا تذکرہ بھی ناگزیر نہ ہوتا ، اور عفی کے بجائے ایسا لفظ وارد ہوتا جو مدعا بہتر طریقے سے ادا کرسکتا تھا۔ اس آیت میں عفی کا لفظ اس امر پر دال ہے کہ اگرچہ مقتول کے ورثا خون بہا لینے پر آمادہ ہو جائیں، پھر بھی ان کی قصاص سے دست برداری ایک درجے میں’’ معافی‘‘ کے زمرے میں ہی آتی ہے، ’’چھوڑنے ‘‘ کے معنی میں نہیں اور قصاص کے’’ متبادل‘‘ کے معنی میں نہیں ۔ قرآن مجید کے اس اسلوبِ بیان سے مقتول کے ورثا کی ایک اور نفسیاتی ضرورت پوری ہوتی نظر آتی ہے ۔ اگرفقط خون بہا ہی قصاص کا متبادل ہوتا، تو مقتول کے ورثا نفسیاتی طور پر تذبذب کا شکار ہوتے کہ وہ آخر کیونکرمحض مال کے لالچ میں اپنے پیارے کی موت کا سودا کریں، اس لیے ان کا غالب رجحان ، خون بہا کے بجائے قصاص لینے کی طرف ہوتا ۔ معاف کر دینے کے بیان سے مقتول کے ورثا کی اس نفسیاتی الجھن کا خاتمہ کیا گیا ہے کہ وہ قصاص کے متبادل کے طور پر کسی قسم کا سودا کر رہے ہیں ۔لہٰذا مقتول کے ورثا کو یقینِ واثق ہوجاتا ہے کہ اولاً انہوں نے کسی نہ کسی درجے میں قاتل کو ’’معاف‘‘ کیا ہے پھر معاف کردینے کے ایسے رویے کے بعد ہی ’’خون بہا ‘‘ کا مرحلہ آیا ہے۔ دوسری طرف قاتل اور اس کا خاندان بھی یہ بات اچھی طرح سمجھ لیتے ہیں کہ محض مال کی ادائیگی سے ان کی جان نہیں چھوٹی بلکہ اس سے قبل مقتول کے ورثا اخوت و فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاف کر دینے کے انتہائی دشوار مرحلے سے گزرے ہیں۔ اور یہ لازمی بات نہیں کہ آئندہ کسی ایسی صورت میں کسی مقتول کے ورثا اتنی ہی فراخ دلی کا مظاہرہ کریں گے۔ یہ سبق قاتل اس کے خاندان اور دیگر لوگوں کی عبرت کے لیے کافی ہوتاہے ۔
مذکورہ نکتے سے ایک اور اہم نکتہ مترشح ہوتا ہے کہ اگر شارع کی منشا یہ نہ ہوتی کہ مقتول کے ورثا قصاص کے بجائے خون بہا لیں تو سیدھے سادے طریقے سے دو آپشنز ، مقتول کے ورثا کے لیے کھلے چھوڑ دیے جاتے ، قصاص کا بیان ہوتا اور اس کے متبادل کے طور پر خون بہا کا ۔ ایسی صورت میں اکثر و بیشتر حالات میں مقتول کے ورثا ، مذکورہ نفسیاتی الجھن کی وجہ سے قصاص لینے کو ترجیح دیتے ۔ بفرضِ محال ،اگر کوئی وارث نرمی سے کام لیتے ہوئے خون بہا لینے پر آمادہ بھی ہو جاتا تو ارد گرد کے لوگ طعنے دے کر اس کا جینا دوبھر کردیتے کہ خون کا سودا کر لیا ہے، اسے ہم معاشرتی جبر کہہ سکتے ہیں اور اس معاشرتی جبر کے سامنے مقتول کا پورا خاندان ہمیشہ رسوا ہوتا رہتا ۔ چونکہ شارع کی منشا قصاص کے بجائے خون بہا کی ادائیگی ہے ، اس لیے شارع نے اپنی منشا کی جانب راہ ہموار کرنے کی خاطر ، مقتول کے ورثا کی ایک بہت سنجیدہ الجھن کے خاتمے کا اہتمام کر کے، فَمَنْ عُفِیَ لَہُ مِنْ أَخِیْہِ کے ذریعے ، بالواسطہ طور پرخون بہا لینے کی ترغیب کا سامان پیدا کیا ہے، جس کی عد م موجودگی مقتول کے ورثا کو مشکلات سے دوچار کرتی اور قصاص لینے کی طرف مائل کرتی ۔لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ فَمَنْ عُفِیَ لَہُ مِنْ أَخِیْہِ کے الفاظ، شارع کی منشا پر دلالت کرتے ہیں۔
البقرۃ کی آیت ۱۷۸ کی متصل آیت ۱۷۹ میں پھر قصاص کا ذکر ہے ۔ یہ ذکر بہت شدت لیے ہوئے ہے کہ قصاص میں حیات ہے (فِیْ الْقِصَاصِ حَیَاۃٌ) ۔اہم بات یہ ہے کہ آیت ۱۷۸ کی ابتداء میں قصاص کا ذکر ہے اس کے بعد آیت ۱۷۹ میں اس کا بیان نہایت زوردار اسلوب میں ہوا ہے اور ان دونوں کے درمیان مذکورہ اخلاقی قوت کا تذکرہ ہے ۔ غور کیجیے کہ شارع ہمیں اصل اصول (قصاص )کی طرف متوجہ رکھنا چاہتے ہیں کہ کہیں اصول سے بے توجہی مقصود کو گنوا دینے کا باعث نہ بن جائے ۔اس لیے آیت ۱۷۹ میں اصل اصول (الْقِصَاصُ فِیْ الْقَتْلَی) کی یاد دہانی (فِیْ الْقِصَاصِ حَیَاۃٌ) بہت شدت لیے ہوئے ہے تاکہ مقصود(ایک خاص درجے میں معافی ، خون بہا کا معروف کے مطابق تقاضا اور اس کی عمدگی سے ادائیگی ) کی تحصیل کے عمل میں اصل (الْقِصَاصُ فِیْ الْقَتْلَی) نگاہوں سے پوشیدہ نہ ہو جائے ۔ کیونکہ اگر اصل نگاہوں سے پوشیدہ ہو گیا تو مقصود کی تحصیل اپنی اصل سپرٹ میں ممکن نہیں رہے گی ، کہ قصاص اصول کی سطح پر ہے اور معافی و خون بہا مقصود کی سطح پر۔ اگر آیت ۱۷۹ میں اصل کی تذکیر (فِیْ الْقِصَاصِ حَیَاۃٌ) نہ ہوتی تو عین ممکن ہے کہ آیت ۱۷۸ کے اصل (الْقِصَاصُ فِیْ الْقَتْلَی) کو مقصود کی تحصیل (معافی و خون بہا )کے ضمن میں بھلا دیا جاتا ، کہ مقصود تو حاصل ہو رہا ہے اور اصل کی حیثیت اب ثانوی ہے ۔ لیکن اصل کے متروک ہو نے سے ، ایک تو مقتول کے ورثا کے ہاتھ سے معاف کر دینے کا نفسیاتی اطمینان چھن جاتا ( کہ قصاص سرے سے موجود ہی نہیں ) ، اور دوسرا ، آ ہستہ آہستہ خون بہا کا معروف کے مطابق تقاضا اور اس کی عمدگی سے ادائیگی میں کافی گڑبڑ کی جاتی جو لازماً اخلاقی قوت کے زوال کا شاخسانہ ہوتی، اس طرح شارع کی منشا دھری کی دھری رہ جاتی ۔ لیکن شارع نے آیت ۱۷۹ میں نہ صرف تذکیراً بلکہ اصل پر تاکیداً زور دے کر کما ل حکمت سے اس احتمال کا خاتمہ کر دیا ہے ۔
البقرۃ کی آیت ۱۷۸ میں معاف کرنے اور خون بہا لینے کے بیان میں مخاطب مقتول کے ورثا ہیں ، اس لیے قاتل کے لیے کسی قسم کی وعید کا تذکرہ نہیں کیا گیا ، بلکہ مقتول کے ورثا کو معافی اور خون بہا کی طرف راغب کرنے کا واضح اہتمام کیا گیا ہے۔ اخیہ کے لفظ سے اور ذَلِک تَخْفِیْفٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَرَحْمَۃٌ کے بیان سے قاتل کے حوالے سے جو تاثر ملتا ہے، وہ اخوت و الفت اور نرمی و رحمت سے عبارت ہے۔ آیت کے آخر میں فَمَنِ اعْتَدَی بَعْدَ ذَلِکَ فَلَہُ عَذَابٌ أَلِیْمٌ کے الفاظ سے جو تنبیہ کی گئی ہے اس کا مصداق بھی محض قاتل کو قرار نہیں دیا جا سکتا ، بلکہ مقتول کے ورثا بھی مخاطب معلوم ہوتے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تومعلوم ہو گا کہ ذَلِک تَخْفِیْفٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَرَحْمَۃٌ کا بیان بھی صرف قاتل کے لیے نہیں ہے بلکہ مقتول کے وارثوں کے لیے بھی قصاص سے دست برداری ایک درجے میں تخفیف و رحمت کا باعث معلوم ہوتی ہے ۔ قصاص سے دستبردار ہو کر، در حقیقت مقتول کے ورثا منشائے الہی کے مطابق خود کو ڈھال لیتے ہیں ، جس سے وہ قصاص لینے کے عمل میں متوقع ، کسی بھی قسم کے ظلم و تعدی کے عمل سے رک جاتے ہیں۔(کہ مقتول ، مظلوم نہیں تھا ، بلکہ وہ خود بھی کسی طور قتل کی وجہ تھا ، اس لیے اسے بنی اسرائیل آیت ۳۳ کی طرح مظلوم نہیں کہا گیا)۔
اس آیت میں مضمر اخلاقی دلالتیں فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاء إِلَیْْہِ بِإِحْسَان کے بیان میں نہایت نمایاں ہو جاتی ہیں ۔ مقتول کے ورثا کو کہا جا رہا ہے کہ معروف کی اتباع کریں ، ایسا نہ ہو کہ وہ تھوڑی معافی دینے کے بعد ، قاتل کی نفسیاتی ممنونیت کو بھانپتے ہوئے ، دھونس زبردستی سے اسے اینٹھنے کی کوشش کریں جس کے نتیجے میں قاتل اور اس کا خاندان (خاص طور پر معاشی اعتبار سے) تباہ وبرباد ہو جائے ۔ معروف کی اتباع کا یہ حکم ، قاتل کے لیے بھی ہے کہ وہ معاف کیے جانے کی سبیل پانے کے بعد ، مقتول کے ورثا کا ایسا تقاضا ، جس کی خوبی عقل و شریعت سے ثابت ہوتی ہو ، رد نہ کرے ۔ عام طور پر کسی کے قتل کے بعد، دیگر لوگ صلح صفائی کے لیے دخیل ہو جاتے ہیں ، اور ان میں ایسے لوگ بھی ہوسکتے ہیں جو مشاورت کے عمل میں، قاتل و مقتول دونوں خاندانوں کی یا کسی ایک خاندان کی غلط راہنمائی کرکے معاملے کو سلجھانے کے بجائے بگاڑ نے کا باعث بن سکتے ہیں ، اس لیے قرآ ن مجید نے معروف کی اتباع کا حکم دیا ہے ۔ چونکہ مقتول کے ورثا ، کسی کے غلط سلط مشورے سے جلد بھڑک سکتے ہیں، اس لیے فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ کے بنیادی مخاطب وہی معلوم ہوتے ہیں کہ وہ عقل و منطق کو چھوڑ کر دھونس زبردستی کی روش نہ تو خود اپنائیں اور نہ ہی کسی ایسے مشورے یا حکم کے سامنے سرتسلیم خم کریں :
لاَّ خَیْْرَ فِیْ کَثِیْرٍ مِّن نَّجْوَاہُمْ إِلاَّ مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَۃٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلاَحٍ بَیْْنَ النَّاسِ وَمَن یَفْعَلْ ذَلِکَ ابْتَغَاء مَرْضَاتِ اللّہِ فَسَوْفَ نُؤْتِیْہِ أَجْراً عَظِیْماً (النساء ۰۴/ ۱۱۴)
’’ عام لوگوں کی اکثر سرگوشیوں میں خیر نہیں ہوتی، ہاں مگر وہ جو کہ صدقہ کا یا معروف کا یا لوگوں میں باہم اصلاح کر دینے کا حکم دے ، اور جو شخص یہ کام کرے گا اللہ کی رضا کے لیے ، ہم اسے عنقریب اجرِ عظیم عطا فرمائیں گے۔‘‘
اہم بات یہ ہے کہ قرآن نے معروف کی’’ اتباع‘‘ کا حکم تو دیا ہے لیکن معروف ہے کیا؟ اس کا تعین نہیں کیا ۔اب اگر معروف کا تعین مقتول کے ورثا پر چھوڑ دیا جائے تو دھونس زبردستی کا در آنا لازم ہو جاتا ہے۔ بِالْمَعْرُوفِ کے دیگر قرآنی اطلاقات سے یہ نکتہ کھل کر سامنے آتا ہے کہ معروف کا تعین کسی سماج کی مشترکہ ذمہ داری ہے ۔ کسی بھی مسئلے میں فریقین معروف کا تعین از خود نہیں کریں گے بلکہ انہیں اپنے سماج کے اجتماعی شعور پر بھروسہ کرنا ہو گا :
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاء بَعْضٍ یَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَیُقِیْمُونَ الصَّلاَۃَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاۃَ وَیُطِیْعُونَ اللّہَ وَرَسُولَہُ أُوْلَءِکَ سَیَرْحَمُہُمُ اللّہُ إِنَّ اللّہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ (التوبۃ ۰۹/ ۷۱)
’’ اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں معروف کا حکم دیتے ہیں اور منکر سے منع کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانتے ہیں ، ان لوگوں پر ضرور اللہ رحمت کرے گا ، بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے ‘‘
کُنتُمْ خَیْْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّہِ وَلَوْ آمَنَ أَہْلُ الْکِتَابِ لَکَانَ خَیْْراً لَّہُم مِّنْہُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَکْثَرُہُمُ الْفَاسِقُونَ (آل عمران ۰۳/۱۱۰)
’’ تم بہترین امت ہو ان سب امتوں میں سے جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں ، معروف کا حکم دیتے ہو اور منکر سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو اور اگر اہلِ کتاب ایمان لاتے تو ان کے لیے خیر تھا ، بعضے ان میں سے ایمان والے ہیں اور اکثر ان کے فاسق ہیں ‘‘ ۔
مومن مردوں اور مومن عورتوں کی رفاقت کا بیان ظاہر کرتا ہے کہ بات’’ سماج‘‘ کی ہو رہی ہے ۔ یہی بات امت کے حوالے سے سچ ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ معروف کیا ہے ؟ اس کا تعین حقیقت میں کوئی سماج اجتماعی طور پر کرتا ہے اور سماجی قوت کے بل بوتے پر متعین معروف کے استقلال کو یقینی بناتا ہے، البتہ اس متعین معروف کی تنفیذ کی ذمہ دارریاست قرار پاتی ہے کہ یَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ اورِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ کے الفاظ تحکمانہ لہجہ لیے ہوئے ہیں۔ لیکن ایک احتمال ہماری زیرِ نظر آیت میں پھربھی موجود رہتا ہے کہ معروف کی ’’نوعیت ‘‘اس میں واضح نہیں ہے۔ یَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ،ِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ کے مانند فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ میں بھی معروف عمومی نوعیت کا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں معروف کی اتباع کا حکم ہے اور وہاں معروف کے حکم کا بیان ہے۔ لیکن قرآن مجید کے بعض مقامات پر معروف کی نوعیت واضح کی گئی ہے، مثلاً: وَمَن کَانَ فَقِیْراً فَلْیَأْکُلْ بِالْمَعْرُوفِ / وَعَاشِرُوہُنَّ بِالْمَعْرُوف ( النساء ۴/۶،۱۹)،ِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیْحٌ بِإِحْسَانٍ / مَتَاعاً بِالْمَعْرُوفِ حَقّاً عَلَی الْمُحْسِنِیْن/ وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ حَقّاً عَلَی الْمُتَّقِیْنَ (البقرۃ۲/ ۲۲۹، ۲۳۶،۲۴۱)، فَأَمْسِکُوہُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوہُنَّ بِمَعْرُوفٍ ( الطلاق ۶۵/ ۲)۔ ہم سمجھتے ہیں کہ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ کے بعدِ وَأَدَاء کے الفاظ زیرِ نظر آیت میں معروف کی نوعیت کا اشاریہ بن جاتے ہیں کہ اس کا تعلق کسی ایسی چیز سے ہے جسے ایک ہی بار میں پورے کا پورا ’’ادا‘‘ کرنا لازم ہے ۔ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاء کے الفاظ سے ( قانونی اعتبار سے مکمل اور قدرے اخلاقی لحاظ سے بھی )مدعا ، اداہوجاتا ہے، سوال یہ ہے کہ اس کے بعد إِلَیْْہِ بِإِحْسَانٍ کے الفاظ کیوں بیان کیے گئے ہیں؟ہماری رائے میں ان کی بنیادی نوعیت، اخلاقی ہے۔ اگرچہ قاتل نے کسی نہ کسی جواز کے تحت ہی قتل کیا ہے(اس لیے مقتول ، مظلوم نہیں ہے ) ، لیکن جرم اپنی نوعیت میں نہایت سنگین ہے جس سے ایک طرف تو سماج کا اخلاقی نظم شدید متاثر ہوا ہے اور دوسری طرف یہ جرم خود سماج کی اخلاقی گراوٹ کی نشاندہی کرتا ہے ، اس لیے احسان کی داخلی معنویت ملحوظ رکھتے ہوئے اس لفظ کا خصوصی انتخاب کیا گیا ہے ۔ احسان کا مطلب ہے حق سے زیادہ دینا یا حق سے کم لینا ۔ معلوم ہوتا ہے کہ قاتل کی نفسیاتی شخصیت میں اسی قدر کی کمی نے اس سے قتل جیسا سنگین جرم کروایا تھا ( جوازِ قتل عام طورکوئی حق جتانے سے عبارت ہوتا ہے) ۔چونکہ قاتل سماج کا ہی ایک فرد ہے اس لیے ظاہر ہوتا ہے کہ سماج میں یہ قدر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی ہے۔ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاء کے بعد احسان کا تاکیدی ذکراس کمی کی تلافی کی نشاندہی کرتا ہے ۔لہٰذا شارع نے سزا دینے کے عمل میں ، سماج کے اخلاقی نظم کی سدھار کی خاطر قاتل کی مخصوص نفسیاتی کم زوریوں کی اصلاح کا بھی بیڑا اٹھایاہے ۔
یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مقتول کے ورثا کے ساتھ معاملہ معروف کے مطابق ’’طے‘‘ پا جائے تو اس کے بعد نظر ثانی کی گنجائش باقی رہتی ہے یا نہیں ؟ ۔ ظاہر ہے نظر ثانی کے کسی ایسے مطالبے کے پیچھے یہی منطق کارفرما ہو سکتی ہے کہ معاملہ اصلاً معروف کے مطابق طے نہیں پایا ۔اس سلسلے میں ان قرآنی آیات سے استشہاد کیا جا سکتا ہے :
کُتِبَ عَلَیْْکُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَکَ خَیْْراً الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْْنِ وَالأقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوفِ حَقّاً عَلَی الْمُتَّقِیْنَ (البقرۃ ۰۲/۱۸۰)
’’ تم پر فرض ہوا کہ جب تم میں سے کسی کو موت آئے اگر کچھ مال چھوڑے تو وصیت کر جائے اپنے ماں باپ اور قریب کے رشتہ داروں کے لیے معروف کے مطابق، یہ متقیوں پر حق ہے ‘‘
فَمَنْ خَافَ مِن مُّوصٍ جَنَفاً أَوْ إِثْماً فَأَصْلَحَ بَیْْنَہُمْ فَلاَ إِثْمَ عَلَیْْہِ إِنَّ اللّہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ (البقرۃ۰۲/۱۸۲)
’’ پھر جسے اندیشہ ہو اکہ وصیت کرنے والے نے کچھ بے انصافی یا گناہ کیا تو اس نے ان میں صلاح کرا دی اس پر کچھ گناہ نہیں ، بے شک اللہ بخشنے والا مہربا ن ہے ‘‘
معلوم یہ ہوتا ہے کہ گڑبڑ کی صورت میں، اصلاح کی خاطر ، مقتول کے ورثا کا نظر ثانی کا مطالبہ قابلِ غور ہو سکتا ہے ۔ لیکن دو احتمالات اس نتیجے کے آڑے آتے ہیں:
(۱)مقتول کے ورثا قدرے جارحانہ پوزیشن میں ہوتے ہیں چونکہ ان کا بھائی بندہ قتل ہوا ہے اس لیے معاملہ طے کرنے میں ان سے اسراف کی امید تو کی جاسکتی ہے، بخل کی نہیں ۔ان کی اسی پوزیشن کو دیکھتے ہوئے قرآن میں ، فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ کے بلیغ الفاظ استعمال ہوئے ہیں تاکہ وہ ذاتی اور نفسانی رجحانات کے تحت غیر معقول مطالبہ نہ کر بیٹھیں ۔ وصیت والے معاملے میں صور تِ حال مختلف ہے( اس کی وضاحت ہمارے موضوع سے خارج ہے ) ۔
(۲) بفرضِ محال، اگر انیس بیس کا فرق پایا بھی جاتا ہے تو اس کی تلافی وَأَدَاء إِلَیْْہِ بِإِحْسَانٍ کے الفاظ کرتے نظر آتے ہیں۔ احسان کا مطلب یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے ۔ وَأَدَاء إِلَیْْہِ بِإِحْسَانٍ کا حکم قاتل کے لیے ہے ۔
احسان کے لفظ کے قرآنی اطلاقات میں، ایسی دلالتیں موجود ہیں جن کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ ، یہاں پر اس لفظ کے انتخاب کا مقصد، قاتل کے تزکیے کو ظاہر کرنا ہے۔ اگر اس نے قتل کیا ہے تو ظاہر ہے کسی جواز کے تحت کیا ہے ۔ وہ جواز لازمی طور پر اس نوعیت کا ہے کہ اس نے قاتل کے ذہن کو اپنے کنٹرول میں لے کر اسے قتل جیسا انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کر دیا ۔ قصاص سے بچ جانے ، معافی پانے اور اس کے ساتھ خون بہا طے کرنے کے عمل سے وہ جواز اس کے ذہن سے نہیں نکلتا، خاص طور پر خون بہا طے کرنے کا عمل اس کے جواز کو مزید تقویت دے سکتا ہے کہ یہ خوامخواہ دینا پڑے گا، میں تو حق بجانب ہوں ۔ قرآن نے ادائیگی کے ضمن میں احسان کا لفظ اختیار کر کے قاتل کی اسی الجھن کا خاتمہ کیا ہے کہ وہ حق سے زیادہ دے اور حق سے کم لے ، یعنی ایک طرف ادا کرے اور دوسری طرف جواز چھوڑدے ۔ اب اگر قاتل معروف کے مطابق معاملہ طے پانے کے بعد ادائیگی کرتا ہے تواحسان کے جذبے سے کرتا ہے کہ ادائیگی کے حوالے سے اتنا حق نہیں بھی بنتا جتنا طے کیا گیا ہے تو پھر بھی حکمِ ربی کی اطاعت میں مجھے اتنا ہی ادا کر نا چاہیے ۔ یہ عمل قاتل کا تزکیہ کر کے اسے محسنین میں شامل کر دیتا ہے ۔ لہٰذا معروف اور احسان محض دو الفاظ نہیں، بلکہ ان معاشرتی اقدار کی تلافی کی صورتیں ہیں جن سے سماج میں ایسا اخلاقی توازن جنم لیتا ہے جس کی توقع اور تقاضا ، قرآن مجیدافرادِ معاشرہ سے کرتا ہے ۔
فَمَنْ عُفِیَ لَہُ مِنْ أَخِیْہِ شَیْْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاء إِلَیْْہِ بِإِحْسَانٍ کے ذکر کے بعد ذَلِک تَخْفِیْفٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَرَحْمَۃٌ کا بیان شارع کی منشا مزید واضح کرتا ہے ۔ غالباََ تَخْفِیْفٌ کا مصداق عُفِیَہے کہ قصاص سے جان بچ گئی ہے۔لفظ ’’تخفیف‘‘ کا انتخاب داخلی شہادت دے رہا ہے کہ شارع کی منشا بھی قصاص نہیں ہے، آخر کیوں؟ اس کیوں کا جواب اس آیت میں ملتا ہے جہاں تخفیف کا ذکر ، اس کے بیان کی ’’وجہ‘‘ کے ساتھ کیا گیا ہے :
یُرِیْدُ اللّہُ أَن یُخَفِّفَ عَنکُمْ وَخُلِقَ الإِنسَانُ ضَعِیْفاً (النساء ۰۴/۲۸)
’’ اللہ چاہتا ہے کہ تم پر تخفیف کرے اور انسان کم زور بنایا گیا ہے ‘‘ ۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ’’ ضعف ‘‘ انسان کی خلقی خصوصیات میں سے ہے ۔ اسی بنا پر انسان کے خالق نے ضعف کے ذکر کے ساتھ ہی(بلکہ اس سے پہلے ) تخفیف کے بیان سے اپنی بے پایہ رحمت کا اظہار کیا ہے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ضعف کی وجہ سے انسان کوئی جرم( قتل ) کر بیٹھتا ہے تو پھر ضعف کی خلقی خصوصیت کے پیشِ نظر، انسان کے لیے مکمل معافی کی سبیل کیوں نہیں نکالی گئی؟ البقرۃ آیت ۱۷۸ میں، قاتل کو مکمل معاف کرنے کی ترغیب کے بجائے عفی شئ یعنی کچھ معافی کے بیان سے مقتول کے ورثا کو خون بہا لینے کی طرف کیوں راغب کیا گیا؟ ( خیال رہے کہ عفی شئ اور تخفیف میں ایک داخلی ربط موجود ہے) جواب یہ ہے کہ اس ضعف کے علاوہ، رب العالمین نے انسان کو علم سے بھی نوازا ہے: الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ خَلَقَ الْإِنسَانَ عَلَّمَہُ الْبَیَانَ (الرحمن ۵۵/۱،۲،۳، ۴) اس علم کا تقاضا ہے کہ انسان خلقی ضعف کو ایک حد سے آگے بڑھنے نہ دے ، جب انسان اس ضعف کو اس کے فطری مقام سے آگے لے جاتا ہے تو اللہ رب العزت کے دیے گئے علم کی نفی کرتاہے ۔ چونکہ ضعف کو اس کے فطری مقام سے آگے لے جانے کا ایک ہی درجہ نہیں ہے بلکہ اس کے مختلف مدارج ہو سکتے ہیں ، اس لیے قرآن مجید نے ایک لحاظ سے، سزا تجویز کرتے وقت انہی مدارج کو مدِ نظر رکھا ہے ۔ آیت ہذا میں چونکہ قتلِ ناحق جیسا انتہائی سنگین جر م کیا گیا ہے جو ضعف کے فطری حالت سے آگے بڑھنے کی علامت ہے اس لیے مکمل معافی کی ترغیب نہیں دی گئی ( کہ ضعف ،شہ پاکر اس سے بھی اگلی خلافِ فطرت حالت تک پہنچ سکتا ہے ) ، اور قصاص جیسی انتہائی سخت سزا بھی اس لیے نہیں دی گئی کیونکہ ضعف ، علم کو روند تا ہوا اس خلافِ فطرت حالت تک ابھی نہیں پہنچا کہ انسان سزاوارِ قصاص ہو جائے ۔
جہاں تک ذَلِک تَخْفِیْفٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَرَحْمَۃٌ میں رحمت کے ذکر کا تعلق ہے ، اس کا داخلی ربط فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاء إِلَیْْہِ بِإِحْسَانٍ کے ساتھ معلوم ہوتا ہے۔ ذرا غور کیجیے کہ معافی کی گنجائش پیدا کرنے کے بعد اللہ رب العزت نے ایسی سزا تجویز کی ہے جس کے دیے جانے کے عمل میں ، ضعف کی تلافی کے ساتھ ساتھ اس علم کی بازیافت کی راہ بھی نکلتی ہے جو ضعف کے اس درجے میں انسان سے کھو گیا ہے ۔ ( اس سلسلے میں معروف و احسان کی معنویت کا بیان پچھلی سطور میں ہو چکا) ۔ ذَلِک تَخْفِیْفٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَرَحْمَۃٌ میں اسمِ ذات (اللہ )کے بجائے اسمِ صفت(رب) کا بیان ہوا ہے ۔رب کے معنی پروردگار کے بھی ہیں اور تربیت کرنے والے ، تدریجاََ نشوونما دے کر حد کمال تک پہنچانے والے کے بھی ۔ اس لیے من اللہ کے بجائے من ربکم کے خاص انتخاب سے عفو ، معروف و احسان کے بیان میں مضمر حکمت مزید واضح ہو جاتی ہے ۔
ذَلِک تَخْفِیْفٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَرَحْمَۃٌ کے بعد فَمَنِ اعْتَدَی بَعْدَ ذَلِکَ فَلَہُ عَذَابٌ أَلِیْمٌ سے مراد یہ ہے کہ جب ایک واقعہ ہوجانے کے بعد تمہارے خالق نے اس کے سلجھاؤ کا ، انتہائی حکمت پر مبنی حل دے دیا ہے ، ایسا سلجھاؤ ، جو سزا ہونے کے ساتھ ساتھ کھوئے ہوئے کردار کی بحالی سے عبارت ہے ، جس کی وجہ سے اس واقعہ میں ملوث مختلف کردارنہ صرف اس واقعہ سے سے قبل کی نارمل نفسیاتی اخلاقی صورتِ حال میں لوٹ جاتے ہیں بلکہ تربیت و تجربہ کا ایک درجہ طے کرنے کے سبب کمال کی سمت بڑھتے ہیں جس سے سماج کا اخلاقی نظم درہم برہم ہونے سے بچ جاتا ہے، پھر اس تمام عمل کے بعد اگر کوئی زیادتی کرنے میں’’ پہل ‘‘ کرتا ہے تو اس کے لیے درد ناک عذاب ہے ۔اس موقع پر فَلَہُ عَذَابٌ أَلِیْمٌ کا بیان تصورِ آخرت پر مبنی ہونے کی وجہ سے ، علم کی بنیاد پر تشکیل پائے اس نظامِ اقدار کا محافظ معلوم ہوتا ہے، جس کو گزند پہنچنے کے بعدنہایت حکیمانہ طریق پر بحال کیا گیاتھا ۔
خیال رہے کہ زیرِ نظر آیت( البقرۃ ۱۷۸) کے مطابق سزا کی انتہائی صورت قصاص ہے ۔ اس لیے اگر قصاص کو پہلی اور حتمی ترجیح میں رکھا جائے تو آہستہ آہستہ غلو کے باعث ، ظلم و تعدی کے در آنے کا اندیشہ موجود رہتا ہے ۔دوسری ترجیح جو معافی اور خون بہا سے عبارت ہے ، اس سے آگے اگرچہ( غلو کی صورت میں ) قصاص کی انتہائی صورت موجود ہے لیکن اس کے باوجود یہاں بھی تعدی پر تنبیہ کئی گئی ہے، فَمَنِ اعْتَدَی بَعْدَ ذَلِکَ فَلَہُ عَذَابٌ أَلِیْمٌ ، غور کیجیے کہ پھر قصاص میں غلو کی صورت میں اس سے آگے کیا ہو گا؟ اس لیے بدرجہ اولیٰ قصاص کے بیان کے ضمن میں شدید قسم کی تنبیہ کی زیادہ ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ شاید اسی لیے قرآن مجید میں جہاں بھی قصاص کا ذکر آیا ہے وہاں اس پہلو کو خاص مدِ نظر رکھا گیا ہے، مثلاً البقرۃ کی آیت ۱۷۹ ہی کو لیجیے اور غور کیجیے کہ اس میں قصاص کو حیات قرار دے کر ایک انتہائی صورت پیدا کی گئی ہے لیکن ساتھ ہی آیت کا اختتام تَتَّقُون کے بلیغ تنبیہی اشارے سے ہوتا ہے ، جس میں نہایت لطیف پیرایے میں ظلم و تعدی پر مبنی کسی بھی نوعیت کے عمل کی روک تھام مطلوب و مقصود دکھائی دیتی ہے۔البقرۃ ہی کی ایک اور آیت میں قصاص و تعدی کے محل اور تقوی( اللہ کے غضب سے بچنے کے معنی میں ) کے ساتھ ان کی مناسبت کو اجاگر کیا گیا ہے :
الشَّہْرُ الْحَرَامُ بِالشَّہْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ فَمَنِ اعْتَدَی عَلَیْْکُمْ فَاعْتَدُواْ عَلَیْْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَی عَلَیْْکُمْ وَاتَّقُواْ اللّہَ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ (البقرۃ۲/ ۱۹۴)
’’حرمت والا مہینہ حرمت والے مہینے کے بدلے ہے اور حرمتوں میں قصاص ہے پس اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی وہ تم پر کرے ویسی ہی تم اس پر کرو اور اللہ سے بچو اور جان لو کہ اللہ متقین کے ساتھ ہے ‘‘ ۔
بعض مقامات پر’’ الا بالحق ‘‘ کی مخصوص ترکیب سے تحدید کی گئی ہے ،مثلاً وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّہُ إِلاَّ بِالْحَقِّ ( الانعام ۰۶/ ۱۵۱)، وَلا تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّہُ إِلاَّ بِالحَقِّ (بنی اسرائیل ۱۷/۳۳)، وَلَا یَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللَّہُ إِلَّا بِالْحَقّ (ِالفرقان ۲۵/ ۶۸) ۔ اور فَلاَ یُسْرِف فِّیْ الْقَتْل (بنی اسرائیل ۱۷/۳۳) ، وَمَن لَّمْ یَحْکُم بِمَا أنزَلَ اللّہُ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ (المائدۃ۵/ ۴۵) ، میں مذکورہ تنبیہی امر نہایت واضح ہے۔
البقرۃ کی آیت ۱۷۸ کے بین السطور ایک اور تاثر ملتا ہے کہ قاتل نے اگرچہ ناحق قتل کیا ہے لیکن اس کے قتل کرنے کے پیچھے کوئی ’’ جواز ‘‘ بھی ہے ، یعنی ایک لحاظ سے شدید نوعیت کا ناحق قتل نہیں ہے( اور بالحق بھی نہیں ہے کہ بالحق قتل کی صورتوں کا قرآن مجید میں تعین کر دیا گیا ہے ) ۔ چونکہ شدید نوعیت کا ناحق قتل نہیں ہے اسی لیے ان آیات میں قصاص کے بجائے خون بہا کی ادائیگی کا بڑے سلیقے سے اہتمام کیا گیا ہے اور مذکورہ غلو کے وقوع پذیر ہونے کو نا ممکن بنایا گیا ہے ۔ معافی و خون بہا کو مقصود کی سطح پر رکھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کہیں قاتل کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہوجائے کہ اس کے پاس قتل کرنے کا کوئی نہ کوئی جوا ز ضرور ہے ۔ لیکن چونکہ کسی فرد نے اگرچہ جواز کے تحت ہی لیکن جان بوجھ کر’’ اپنے طور پر‘‘ قتل کرنے کا انتہائی قدم اٹھایا ہے ، اور شارع کے نزدیک ایسا طرزِ عمل کسی ایسے رجحان کے فروغ کا باعث بن سکتا ہے جو سماجی نظم کے اخلاقی پہلوؤں کو چیلنج کرنے کے ساتھ ساتھ ، مومنین کی مقتدر اجتماعی ہئیت کی ’’مقتدرحیثیت ‘‘کو بری طرح مجروح کر سکتا ہے، اس لیے قتل کا کوئی جواز ہوتے ہوئے بھی قصاص کی تنفیذ کی ذمہ داری مقتدر اجتماعی ہئیت پر ڈال دی گئی ہے ، تاکہ اس کی مقتدر حیثیت اور سماجی نظم کے اخلاقی پہلوؤں کی آن شان قائم رہے اور ظلم و تعدی کے پھیلاؤ کی کوئی صورت سر نہ اٹھا سکے ۔ قابلِ غور امر یہ ہے کہ مقتول کی کسی قسم کی مظلومیت کا کوئی اشارہ البقرۃ کی آیت ۱۷۸ میں نہیں پایا جاتا(اگرچہ اس کا مقتول ہونا بنفسہٖ ایک درجے کا مظلوم ہونا ہے )، بلکہ الْقِصَاصُ فِیْ الْقَتْلَی میں محض مطلق قتل کا بیان ہوا ہے، ایسے مطلق قتل کے بیان کے بعد معافی و خون بہا کی ترغیب اور تخفیف و رحمت کا بیان ، ایک درجے میں خود شاہد بن جاتا ہے کہ قتل کے پیچھے کوئی ایسا جواز ضرور ہے جس کی وجہ سے قصاص کو اصول کی سطح پر رکھتے ہوئے بھی( کہ مقتول ، مقتول ہونے کی وجہ سے بہر حال مظلوم ہے ) مقصود کی سطح پر نہیں رکھا گیا ۔ ویسے بھی یہ بدیہی امر ہے کہ بالحق قتل کے ماسوا قتل کی دیگر صورتوں میں، قاتل کسی جواز کے تحت ہی قتل کرتا ہے ، راہ چلتے خوامخواہ کوئی کسی کو قتل نہیں کرتا ۔ اگر ایسا ہو بھی تو یہ ایک استثنائی صورت ہو گی۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن مجید میں قتل کی دوصورتیں بیان کی گئی ہیں ، (۱) بالحق ، (۲) ناحق ۔ اگر قتل بالحق نہیں ہے تو ظاہر ہے کہ ناحق ہو گا۔ اب اگر بالحق قتل کی صورتیں متعین ہیں تو ان کے سوا قتل کی ہر نوع ناحق کے زمرے میں آئے گی ۔ چونکہ ناحق قتل کی ہر نوع، مختلف اعتبارات سے یکساں نہیں ہوسکتی ، اس لیے ہر ناحق قتل کو ایک ہی خانے میں فٹ نہیں جا سکتا ، بلکہ ان کی درجہ بندی ضروری ہو جاتی ہے ۔
قصاص کے قرآنی مفہوم کی جزئیات ، معاشرے کے ساتھ اس کے تعلق کی نوعیت اور اس کے مقاصد سے آگاہی درج ذیل آیت سے ہوتی ہے :
وَکَتَبْنَا عَلَیْْہِمْ فِیْہَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَیْْنَ بِالْعَیْْنِ وَالأَنفَ بِالأَنفِ وَالأُذُنَ بِالأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ فَمَن تَصَدَّقَ بِہِ فَہُوَ کَفَّارَۃٌ لَّہُ وَمَن لَّمْ یَحْکُم بِمَا أنزَلَ اللّہُ فَأُوْلَءِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ (المائدۃ۵/ ۴۵)
’’ اور ہم نے ان پر اس (تورات) میں یہ بات فرض کی تھی کہ جان بدلے جان کے اور آنکھ بدلے آنکھ کے اور ناک بدلے ناک کے اور کان بدلے کان کے اور دانت بدلے دانت کے اور خاص زخموں کا بھی بدلہ ہے پھر جو شخص اس کو صدقہ کر دے تو وہ اس کے لیے کفارہ ہو جائے گا اور جو شخص اللہ کے نازل کیے ہوئے کے موافق حکم نہ کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں ‘‘
اس آیت کے آغاز میں، بیان کے اعتبار سے ایسی اٹھان ہے جس سے نہ صرف بدلے و قصاص سے متعلق تمام اسالیب سامنے آجاتے ہیں بلکہ انصاف کے حصول کا یقین ، نفسیاتی تشفی کی راہ گزر سے ہوتا ہوا باطنی تطہیر کی سرحدوں میں داخل ہو جاتاہے ۔لیجیے دوبارہ غور کیجیے، أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَیْْنَ بِالْعَیْْنِ وَالأَنفَ بِالأَنفِ وَالأُذُنَ بِالأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ۔ قصاص و بدلے کی جزئیات دیکھیے اور ان کے محلات و وقوع پذیر ہونے کے محرکات کا تصور کیجیے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جزئیات کے باقاعدہ ذکر سے ، قرآن مجید نے ا نسان کی فطرت اور اس سے وابستہ بعض علائق کی نشاندہی کی ہے کہ عام معاشرتی صورتِ حال میں انسان آپس میں جھگڑتے رہتے ہیں ۔اس کی ایک وجہ تو یہی ہے کہ انسان معاشرتی حیوان ہے وہ اکیلا زندگی بسر نہیں کر سکتا ، اور معاشرے میں اکھٹے رہنے سے جہاں اسے بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں وہاں نقصانات سے بھی اس کاو اسطہ پڑتا ہے ۔ تقریباََ ہر شخص کسی نہ کسی حوالے سے دھونس زبردستی کرتا ہے ، دانستہ و نا دانستہ کسی کی حق تلفی کرتا ہے ، جس سے جھگڑوں کا رونما ہونا فطری امر ہو جاتا ہے ۔اس لیے ان جھگڑوں کی وجہ بظاہر معاشرتی معلوم ہوتی ہے لیکن حقیقت میں انسان کا خلقی ضعف ( جس کا ذکر ہوچکا ) اور جھگڑالو پن ، اسے مائل بہ جرم کرتا ہے:
خَلَقَ الإِنسَانَ مِن نُّطْفَۃٍ فَإِذَا ہُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ (النحل ۱۶/ ۰۴)
’’ پیدا کیا انسان کو نطفے سے ، تو جبھی کھلا جھگڑالو ہے ‘‘
أَوَلَمْ یَرَ الْإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاہُ مِن نُّطْفَۃٍ فَإِذَا ہُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ (یس ۳۶/ ۷۷)
’’ اور کیا انسان نے نہیں دیکھا کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا ، جبھی وہ صریح جھگڑالو ہے ‘‘
ایسی خلقی خصوصیات کے ہوتے ہوئے اگر انسان کسی کی آنکھ ، ناک ، کان ، دانت کو نقصان پہنچاتا ہے یا کسی کو زخمی کر دیتا ہے ، اس سے بھی بڑھ کر ، کسی کی جان ہی لے لیتا ہے تو یہ تعجب انگیز نہیں ہے ۔ عمومی صورتِ حال میں انسان باقاعدہ طے کر کے جان لینے کے ارادے سے لڑائی جھگڑا نہیں کرتا ، بلکہ کوئی خارجی صورتِ حال اس کے داخل میں موجود خصومت کے جذبے کو بھڑکا دیتی ہے(یا خصومت کا جذبہ ، جان لیوا خارجی صورتِ حال کو جنم دیتا ہے ) اور وہ انجانے میں کسی کی جان لے لیتا ہے یا ناک دانت وغیرہ توڑ دیتا ہے اور اس کے بعد پشیمانی سے دوچار ہوتا ہے ۔ایسی صورتِ حال میں یہ محض اتفاق ہوتا ہے کہ مضروب یا مقتول ، مضروب یا مقتول بن جاتا ہے، ورنہ امر واقعہ تو یہ ہے کہ وہی خصومت کا جذبہ مضروب یا مقتول کے داخل میں بھی موجود ہوتا ہے، اور عموماً وہ بھی اپنے تئیں ( انجانے میں سہی ) مقابل کو پچھاڑنے کی کوشش کرتا ہے ، یعنی مقتول یا مضروب بنانے کی۔ اسی لیے قرآن مجید نے اگرچہ یہاں بھی اصول کی سطح پر، قصاص ہی کا حکم دیا ہے لیکن منشا چونکہ ( البقرۃ آیت ۱۷۸ سے بھی بڑھ کر ) مکمل معافی ہے اس لیے ایک تو، اطلاقی پہلو سے اکثر و بیشتر صورتوں میں قصاص لیا ہی نہیں جا سکتا ، اور دوسرا یہ کہ ، اگر ایسی صورت بن بھی جائے تو فَمَن تَصَدَّقَ بِہِ کے حکیمانہ اسلوب میں معافی کی زبردست ترغیب دی ہے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں خون بہا لینے کا بیان کیوں نہیں کیا گیا ؟ قصاص یا مکمل معافی ، یہ دو انتہائیں کیوں ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ’’اور آنکھ بدلے آنکھ کے اور ناک بدلے ناک کے اور کان بدلے کان کے اور دانت بدلے دانت کے اور خاص زخموں کا بھی بدلہ ‘‘کے الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ ایسے جھگڑوں کی واقعیت اپنی جگہ ، لیکن ان کے محلات اور وقوع پذیری کے محرکات ، انسانی احوال و ظروف سے پرے نہیں ہٹتے۔اس لیے أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ بھی انہی محلات اور احوال و ظروف کی انتہائی صورت ہونے کے ناطے ، نوعیت کے اعتبار سے قتلِ ناحق کی شدید حالت کو ظاہر نہیں کرتا۔ اسی لیے(خالصتاً قانونی نقطہ نظر سے ) قصاص کو ایک انتہا پر رکھنے کا مقصد ، خارجی صورتِ حال کو نظم میں رکھنا ہے اور دوسری انتہا پر ( جو خالصتاً اخلاقی ہے) مکمل معافی کا مقصد ، اس امر کا اعتراف کرنا ہے کہ ضعف و خصومت کی بنا پر انسان سے گناہ سرزد ہو سکتے ہیں اس لیے انہیں بدلہ لینے کے انتقامی جذبے کے بجائے اپنے گناہوں کے کفارے کی سبیل نکالنی چاہیے۔ لہٰذا دو انتہاؤں کے بیان کے ساتھ اگر خون بہا کا بھی ذکر کیا جاتا ، تو ضعف و خصومت کے ہاتھوں انسان سے سرزد ہونے والے گناہوں کا کفارہ نہ ہونے سے ، بے غرضانہ معافی(دنیاوی لحاظ سے بے غرضانہ )کا کلچر پروان نہ چڑھ سکتا ، جس کی قرآن کے نظامِ اقدار میں بہت زیادہ اہمیت ہے۔
اس لیے زیرِ نظر آیت میں ’’قصاص ‘‘کے تقریباََ مخالف کھڑے ہو کر ’’ کفارہ ‘‘ نہایت اعلی درجے کی ترغیب کی علامت بن جاتا ہے ۔ اگر البقرۃ آیت ۱۷۸ کے اس حصے فَمَنْ عُفِیَ لَہُ مِنْ أَخِیْہِ شَیْْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاء إِلَیْْہِ بِإِحْسَانٍ کا المائدۃ آیت۴۵ کے اس حصےٌ فَمَن تَصَدَّقَ بِہِ فَہُوَ کَفَّارَۃٌ لَّہُ سے تقابل و موازنہ کریں کہ ہر دو جگہ محلات یکساں ہیں تو اخلاقی معنویت کی مختلف پرتیں کھلنی شروع ہو جاتی ہیں ۔ چونکہ المائدۃآیت ۴۵ میں مقصود، مکمل معافی ہے (اور اس کے مقابل صرف قصاص کی آپشن ہے)، اس لیے مضروب یا مقتول کے ورثا کو معاف کرنے کے لیے آمادہ کرنے کی خاطر ’’ عفو ‘‘ کے بجائے ’’صدقہ‘‘ کے لفظ کا انتخاب کیا گیا ہے ۔ صدقے کے داخلی مفہوم میں تزکیے کا پہلو بھی پایا جاتا ہے کہ صدقہ ، تزکیہ نفس ہے ۔ اس لیے قرآن مجید میں ’عفا اللہ‘ کی ترکیب تو ملتی ہے لیکن ’تصدق اللہ‘ کے بیان کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ چونکہ عفو میں تزکیے کا پہلو مفقود ہے اس لیے البقرۃ آیت ۱۷۸ میں قاتل و مقتول کے ورثا کے لیے، معروف و احسان کے الفاظ سے یہ عنصر، اس ماحول کے خاص سیاق میں شامل کر دیا گیا ۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ عنصر معافی دینے کے عمل کا حصہ نہیں بنتا ، بلکہ قدرے معافی (عفی شئ ) دیے جانے کے بعد دخیل ہوتا ہے ۔ لیکن المائدۃ آیت ۴۵ میں تزکیے کا یہ عنصر ، بعد میں شامل نہیں ہوتا بلکہ (صدقہ کی بنا پر ) معافی دیے جانے کے عمل کا حصہ ہے۔ ذرا غور کیجیے کہ اگر یہاں’’ عفو‘‘ استعمال کیا جاتا، تو کیا صرف دو آپشن کی موجودگی میں ورثا ، قصاص کو ترجیح نہ دیتے؟ قرآن مجید میں ’’ صدقے ‘‘ کے جو مفاہیم وارد ہوئے ہیں ، ان سے آگاہی کے بعد مضروب یا مقتول کے ورثا کے ’’ صدقے ‘‘ کے آپشن کو چننے کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں ، جو شارع کی بھی منشا ہے ۔ صدقے کا ایک قرآنی اطلاق ملاحظہ کیجیے :
وَإِن کَانَ ذُو عُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ إِلَی مَیْْسَرَۃٍ وَأَن تَصَدَّقُواْ خَیْْرٌ لَّکُمْ إِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَ (البقرۃ ۰۲/ ۲۸۰)
’’ اور اگر تنگ دست ہو تو اسے مہلت دو آسودگی تک ، اور اس پر بالکل چھوڑ دینا تمہارے لیے اور بھلا ہے اگر تم جانو ‘‘
ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ وَأَن تَصَدَّقُواْ خَیْْرٌ لَّکُمْ کے بیان میں صدقہ کرنے کی صورت میں، نتیجے کے اعتبار سے ’’خیر‘‘ کا ذکر ہے جو ایجابی معنی لیے ہوئے ہے۔ اس کے برعکس فَمَن تَصَدَّقَ بِہِ فَہُوَ کَفَّارَۃٌ لَّہُ کے بیان میں، نتیجے کے لحاظ سے ’’ کفارے‘‘ کا ذکر ہے جو قدرے سلبی معنی لیے ہوئے ہے۔ اس لیے اگر انسان ’’ خیر ‘‘ کے لیے صدقہ نہیں بھی کرتا تو کوئی مضائقہ نہیں ، کہ وہ اخلاقی اعتبار سے مفعولی حالت میں نہیں ( بلکہ صرف بہتری مقصود ہے )۔ اس کے برعکس ’’کفارے‘‘ کے قرآنی مفاہیم شاہد ہیں کہ اخلاقی لحاظ سے انسان کو مفعولیت کی پست سطح سے بلند کرنے کی خاطر ہی کفارے کا حکم دیا جاتا ہے:
لاَ یُؤَاخِذُکُمُ اللّہُ بِاللَّغْوِ فِیْ أَیْْمَانِکُمْ وَلَکِن یُؤَاخِذُکُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الأَیْْمَانَ فَکَفَّارَتُہُ إِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسَاکِیْنَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَہْلِیْکُمْ أَوْ کِسْوَتُہُمْ أَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ فَمَن لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلاَثَۃِ أَیَّامٍ ذَلِکَ کَفَّارَۃُ أَیْْمَانِکُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُواْ أَیْْمَانَکُمْ کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللّہُ لَکُمْ آیَاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ (المائدۃ ۰۵/ ۸۹)
’’ اللہ تمہیں نہیں پکڑتا تمہاری غلط فہمی کی قسموں پر ، ہاں ان قسموں پر گرفت فرماتا ہے جنہیں تم نے مضبوط کیا تو ایسی قسموں کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا دینا اپنے گھر والوں کو جو کھلاتے ہو اس کے اوسط میں سے ، یا انہیں کپڑے دینا یا ایک گردن آزاد کرنا ، تو جو ان میں کچھ نہ پائے تو تین دن کے روزے ، یہ کفارہ ہے تمہاری قسموں کا جبکہ تم قسم کھا لو اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو ، اسی طرح اللہ تم سے اپنی آیات بیان فرماتا ہے تاکہ تم شکر کرو ‘‘
سورۃ المائدۃ کی آیت ۹۵ کے اس حصے سے بھی کفارے کی نوعیت پر روشنی پڑتی ہے : أَوْ کَفَّارَۃٌ طَعَامُ مَسَاکِیْنَ أَو عَدْلُ ذَلِکَ صِیَاماً لِّیَذُوقَ وَبَالَ أَمْرِہِ ’’ یا کفارہ دے چند مسکینوں کا کھانا یا اس کے برابر روزے تاکہ اپنے کیے کی پاداش کا مزہ چکھ لے‘‘۔ ان قرآنی اسالیب کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ ہماری زیرِ نظر آیت (المائدۃ ۴۵)میں صدقے کے بعد کفارے کا تذکرہ ، معاف کر دینے کی انتہائی ترغیب کی علامت بن جاتا ہے ۔ چونکہ کفارہ سلبی معنی لیے ہوئے ہے ، اس لیے یہ تاثر بھی ابھرتا ہے کہ انسان کو(گناہ گار ہونے کے ناطے ) نفسیاتی طور پر’’ ہائی جیک ‘‘ کیا جا رہا ہے کہ وہ لازماََ معاف کر دے ، اگرچہ اس ترغیب کی تنفیذ کا مکمل انحصار ، مضروب یا مقتول کے ورثا کے اخلاقی شعور پر ہی کیا گیا ہے۔ ( ہائی جیک کی ترکیب اگرچہ منفی معنی کی حامل ہے لیکن چونکہ ایسا اسلوب خود قرآن نے بھی اختیار کیا ہے کہ منفی نوعیت کا لفظ استعمال کر کے ، مخاطب کو پورا تاثر ذہن نشین کرایا جائے ، مثلاً وَمَکَرُواْ وَمَکَرَ اللّہُ وَاللّہُ خَیْْرُ الْمَاکِرِیْنَ (آل عمران ۰۳/ ۵۴)، ا س لیے ہم نے بھی قرآنی ترغیب میں مضمر لزوم کی شدت ملحوظ رکھتے ہوئے ہائی جیک کا لفظ برتا ہے)
ایک اعتبار سے ، زیرِ نظر آیت کی تکمیل کافی سخت الفاظ سے ہوتی ہے : وَمَن لَّمْ یَحْکُم بِمَا أنزَلَ اللّہُ فَأُوْلَءِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں امرِ واقعہ کو ظلم نہیں کہا گیا، بلکہ واقعہ رونما ہونے کے بعد ، اللہ کے دیے گئے حکم کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والے کو ظالم کہا گیا ہے ،اس کا مطلب یہ ہوا کہ قصاص یا مکمل معافی کے بجائے اگر کوئی اور سزا (سخت یا نرم ) تعزیراََ تجویز کی جائے تو وہ قرآن کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوگی ، بلکہ بنفسہٖ ظلم ہو گی، اس لیے منفیت کے لحاظ سے امرِ واقعہ سے بھی بڑھ کر ہو گی ۔ اس کے برعکس سورۃ بنی اسرائیل آیت ۳۳ میں امرِ واقعہ کو ظلم کہا گیا ہے : وَمَن قُتِلَ مَظْلُوماً ’’ جو شخص مظلومانہ قتل کیا گیا ہو ‘‘ ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ المائدۃ آیت ۴۵ کے مطابق قتل کیا گیا شخص ، بہرحال مظلوم نہیں ہے اسی لیے قصاص کو اصول کی سطح پر رکھتے ہوئے بھی ، مکمل معافی کی مکمل ترغیب دی گئی ہے ، جبکہ بنی اسرائیل کی پوری آیت میں ایسی کسی ترغیب کا شائبہ تک نہیں ہے ۔
ایک اور زاویے سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بعض مماثلتوں کے باوجود ، المائدۃ آیت ۴۵ کا اختتام ، البقرۃ آیت ۱۷۸ کے برعکس کسی تخفیف و رحمت کے تذکرے کے بغیر ہی وَمَن لَّمْ یَحْکُم بِمَا أنزَلَ اللّہُ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ کے الفاظ سے ہو جاتا ہے۔ آخر کیوں؟ اس کا بدیہی جواب یہ ہے کہ یہاں قرآن نے’’صدقہ و کفارہ‘‘ کی مخصوص اصطلاحات کے ذریعے ، انسان کو ذہنی و نفسیاتی لحاظ سے ، مکمل معافی دینے کے لیے تقریباََ پابند کر دیا ہے۔ چونکہ انسان صدقہ کرکے ’’پہل ‘‘کرتا ہے جو نتیجے کے اعتبار سے اس کے لیے کفارہ بن جاتا ہے ، اس لیے صدقہ کے داخلی مفاہیم کو ملحوظ رکھتے ہوئے قرآن نے انسان کے پہل کرنے کے عمل کو سراہا ہے ۔آیت کے اختتام پر ، تخفیف و رحمت کے بیان سے انسان کے اس عمل پر ، جو تزکیہ نفس کی علامت ہے ، توجہ مرکوز نہیں رہ سکتی تھی ۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اس آیت میں قرآن نے انسانی اخلاقی شعور کی توقع و تقاضا ، البقرۃ آیت ۱۷۸ سے کہیں زیادہ کیا ہے ۔
(جاری)