(مصنف کی زیر ترتیب کتاب ’’شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر: حیات وخدمات‘‘ کا پہلا باب۔)
ولادت اور نام ونسب
بیسویں صدی عیسوی کے دوسرے عشرے اورچودھویں صدی ہجری کے عشرہ ثالثہ میں مملکت پاکستان کے صوبہ سرحد کے علاقہ ہزارہ میں واقع ضلع مانسہر ہ کی ایک غیر معروف بستی ڈھکی چیڑاں داخلی ’’کڑمنگ بالا‘‘ کے افق سے رشدو ہدایت کاایک آفتاب طلوع ہوا جس کو علمی دنیا میں امام اہل سنت، استاذ العلما،شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا ا بوالزاہد محمد سرفراز خان صاحب صفدر دامت برکاتہم کے نام سے شہرت دوام حاصل ہوئی۔
آپ نے ۱۹۱۴ء میں اس جہا ن رنگ وبومیں آنکھ کھولی۔ آپ کا آبائی گاؤں کڑمنگ بالاہے جوشاہراہ ابریشم پر شنکیاری سے کچھ آگے اوربٹل سے پہلے واقع ہے۔ اس گاؤں کے بالائی طرف پہاڑ پر واقع ایک چھوٹا ساڈیرہ’’ ڈھکی چیڑاں‘‘ کے نام سے موسوم تھا۔ یہی ڈیرہ آپ کی جاے پیدائش ہے۔ آپ کے برادر عزیز مفسر قرآن حضرت مولانا صوفی عبدالحمید خان صاحب سواتی ؒ بھی ۱۹۱۷ء میں اسی مقام پر پیدا ہوئے۔
آپ کا اسم گرامی محمد سرفرازخان، کنیت ابوالزاہد، تخلص صفدراور لقب امام اہل سنت ہے۔آپ نے ابوالزاہد کنیت اپنے بڑے فرزند مولانا زاہدالراشدی کے نام کی مناسبت سے اختیار کی، جبکہ تخلص ’صفدر‘ کی وجہ آپ خود یہ بیان فرمایا کرتے تھے: ’’ میں دارالعلوم دیوبند میں زیر تعلیم تھا۔ میں ایک روز کسی وجہ سے کچھ تاخیر سے جماعت میں حاضر ہوا اور طلبا کی صفوں کے درمیان سے گزرتا ہوا اپنی جگہ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ میرے استاد محترم شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ نے مجھے یوں جلدی جلدی آتے دیکھا تو فوراً بول اٹھے، صفدرآرہا ہے۔ تمام طلبہ نیا نام سن کر مسکر ا پڑے تو شیخ العرب والعجم ؒ نے فرمایا: یہ وہ صفدر ہے جوان شاء اللہ حق وباطل کی صفوں میں تمیز کرے گا‘‘ ۔ سبحان اللہ! کیسا سہانا وقت تھا اورکتنی مقبولیت کی گھڑی تھی کہ آپ کے استاد محترم کی زبان مبارک سے نکلا ہوا لفظ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایسا قبول ہو اکہ آپ زندگی بھر حق وباطل کی صفوں میں تمیز کرتے رہے۔ تمام فرق باطلہ کے عقائد باطلہ کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کاعلمی انداز میں رد کرتے رہے۔ بقول آپ کے:’’ عزیز طلبہ! میں نے چومکھی لڑائی لڑی ہے، یعنی جس جہت سے دین اسلام پر حملہ ہوا ہے میں نے بحمداللہ تعالیٰ اس کا بھرپور جواب دیا ہے‘‘۔
ممتاز اصحاب فضل وکمال نے آپ کی ہمہ جہت دینی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے فرط عقیدت سے آپ کوامام اہل سنت کے لقب سے موسوم کیا۔ مولانا مفتی احمدا لرحمن صاحب (جانشین محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری ؒ ) اور شیخ الحدیث والتفسیر مولانا زرولی خاں صاحب کی تحریک پر سفرکراچی کے دوران اصحاب علم ودانش نے آپ کو اسی لقب سے سرفراز فرمایا۔ حضرت شیخ الحدیث صاحب کی عاجزی وانکساری کایہ عالم کہ آپ اس لقب کی توجیہ ان الفاظ میں بیان فرمایا کرتے تھے: ’’ میں امام اہل سنت صرف اس مفہوم ومعنی میں ہوں کہ میں گوجرانوالہ شہرمیں واقع گگھڑ میں اہل سنت کی ایک مسجد کاامام ہوں‘‘۔
خاندانی پس منظر
حضرت شیخ الحدیث کاسلسلہ نسب درج ذیل ہے: ’’محمد سرفراز خان بن نور احمد خان بن گل احمد خان بن مولوی گل‘‘ ۔ قومیت کے اعتبار سے آپ یوسف زئی پٹھان ہیں۔ یوسف زئی خاندان کا یہ حصہ ہزارہ کے علاقہ میں سواتی برادر ی کے نام سے معروف ہے۔ آپ کا خاندانی تعلق اسی سواتی برادری کی شاخ مند راوی سے ہے ۔ ضلع مانسہرہ میں اورخاص طورپر شکیاری سے ایک میل آگے اچھڑیاں گاؤں میں آج کل یہ برادری بڑی تعداد میں آباد ہے ۔
آپ کے والد بزرگوار محترم نوراحمد خان مرحوم ایک نیک سیرت ،صوم وصلوۃ کے پابند اورباخدا انسان تھے۔ حضرت شیخ الحدیث صاحب اپنے ایک مضمون میں خود تحریر فرماتے ہیں: ’’ہم نے جب ہوش سنبھالا تووالدمحترم کوبالکل سفید ریش دیکھا۔ ایک بال بھی سراور داڑھی میں سیاہ نہ تھا۔ بخلاف اس کے ہمارے دادا جی مرحوم بھی اس وقت زندہ تھے، ان کی ڈاڑھی اور سر میں بال سیاہ بھی تھے اوران کی عمر سو سال کے لگ بھگ تھی۔ جب دونوں باپ بیٹا اکٹھے ہوتے تو دیکھنے والوں کو الٹ شبہ پڑتاتھا۔ ہمارے گھر کے قریب کوئی اورمکان نہ تھا تقریباً دو فرلانگ فاصلہ پر ہمارے دادا صاحب مرحوم اور ان کے چھوٹے بھائی میر عالم خان مرحوم کے دومکان تھے جو بالکل آس پاس تھے اورا نہوں نے اپنی سہولت کے لیے مسجد بھی تعمیر کر لی تھی۔ بحمداللہ سبھی بزرگ متشرع اور پختہ نمازی تھے۔ ہمارے والد محترم نے گھر سے باہر ایک چبوترہ نمازکے لیے بنا رکھاتھا اور جانوروں سے اس کی بڑی حفاظت کیاکرتے تھے۔ تہجد اور با قی سب نمازوں کی سختی سے پابندی کرتے تھے۔ یہی حال ہماری سوتیلی والدہ محترمہ کاتھا۔ والدمحترم کبھی کبھی اذان خود بھی کہتے تھے، مگر زیادہ تر مقابل میں دوسرے پہاڑ پر جگوڑی کے موذن کی اذان پر نمازوں اور افطاری وسحری کا انحصار تھا۔ والد محترم اور اسی طرح دادا محترم بالکل ان پڑھ تھے۔ جوانی کے دورمیں والد محترم نے قرآن کریم کاپہلا پارہ ناظرہ پڑھا تھا۔ اس کے بعض مقامات پڑھ لیا کرتے تھے۔ ہاں قرآن کریم کی بعض سورتیں خوب یاد تھیں ، نماز اور تلاوت میں انہیں سورتوں کو پڑھتے تھے۔ عمرگو خاصی تھی، مگر صحت بفضلہ تعالیٰ قابل رشک تھی، اور اپنا تمام کاروبار خودکرتے تھے ۔ ایک معمر نوکر رکھا تھا جو کوہ مری کے علاقہ کا تھا اور عباسی خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ بڑا پرہیز گار ، متشرع ،نمازی اور نہایت خدمت گزار تھا۔ ہمارے مال مویشی اکثر وہی چرایا کرتا تھا، اورہم بھی کبھی کبھی اس کے ساتھ مال مویشی چرا نے کے لیے شرکت کرتے تھے۔ پانی خاصی دور تھا اور وہ پانی بھی اکثر لایا کرتا تھا۔ ہمارا گھر گو اکیلاتھا، مگر مہمان بکثرت آتے رہتے تھے اور خصوصاً لمبی کے ہمارے پھوپھی زاد بھائی تو اکثر وہاں رہا کرتے تھے۔ خوب چہل پہل تھی۔ والد محترم بڑے مہمان نواز تھے۔ بٹ کس کی صاف شفاف ندی سے خود مچھلیاں پکڑ کر لاتے اور مہمانوں کی مچھلیوں اور اس کے علاوہ مرغوں اور گوشت سے خوب تواضع کیا کرتے تھے ۔ جب کسی موقع پر کوئی مہمان نہ آتا تو خاصے پریشان دکھائی دیتے تھے، لیکن مہمانوں کے نہ آنے کاواقعہ سال میں کبھی کبھی پیش آتا تھا‘‘۔
آپ کے والد محترم ریاست سوات کے ایک باعمل عالم دین، ولی کامل، خواجہ عبدالغفور اخوند ؒ کے دست حق پر ست پر بیعت تھے۔ آپ روحانی تربیت وتزکیہ کے لیے اکثر اپنے شیخ کامل کی خدمت میں حاضر ہوتے اور درخواست کرتے کہ حضرت دعا فرمائیں: ’’ میری اولاد عالم دین ہو‘‘۔ خداوندقدوس نے آپ کی قلبی خواہش اور آپ کے شیخ طریقت کی دعا کو یوں قبول فرمایاکہ آج آپ کی اولاد کاعلمی وروحانی فیض ہر سو عالم پھیلاہوا ہے۔ آپ کی اولاد حضر ت شیخ الحدیث صاحب اور مفسر قرآن مولانا صوفی عبدالحمید خان سواتی ؒ کے علمی وتدریسی، تحقیقی وتصنیفی کارناموں نے دنیاے اسلام کو متاثر کیا ہے۔ آج ان کا نام دنیاے علم میں انتہائی ادب واحترام سے لیاجاتا ہے اورا ن کوبرصغیر کی عظیم شخصیتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
آپ کے والدمحترم کی پہلی شادی اپنے حقیقی چچا محمد خان مرحوم کی بیٹی رحمت نور مرحومہ سے ہوئی۔ (یہ حضرت شیخ الحدیث صاحب وحضرت صوفی صاحب ؒ کی سوتیلی والدہ محترمہ تھیں اور قیام پاکستان کے بعد ۱۹۴۹ء میں گگھڑ ضلع گوجرانوالہ میں ان کی وفات ہوئی اور یہیں وہ مدفون ہیں) ان کے ہاں ایک بیٹا پید ا ہوا اور اس نومولود کانام خواجہ عبدالغفور اخوند کے نام کی مناسبت سے عبدالغفور رکھاگیا لیکن تقدیر الہٰی غالب آگئی اور ان کاجوانی ہی میں انتقال ہوگیا ۔ ان کے انتقال کے بعد تقریباً تیس سال تک حضرت شیخ کے والدمحترم کے ہاں باوجود والدہ مرحومہ کے علاج معالجہ کے کوئی اولاد نہ ہوئی ۔
جب آپ کے والد محترم کی عمر تقریباً ساٹھ سال ہوئی تو آپ کی سوتیلی والدہ مرحومہ اور خاندان کے بعض دیگر بزرگوں نے اولاد کی غرض سے ان کو دوسری شادی پر مجبور کیا تو ابتدا میں تو وہ پہلو تہی کرتے رہے مگر بالآخر وہ بھی راضی ہو گئے اور ڈنہ کے مقام کے چیچی خاندان کی پندرہ وسولہ سال کی ایک خاتون سے جن کانام بی بی بخت آور تھا خاصی کش مکش کے بعد نکاح ہوگیا۔ دونوں کی عمروں کے نامناسب ہونے کی وجہ سے بعض رشتہ دار ابتدائی مرحلہ میں سخت مخالف تھے۔ بالآخر یہ سب راضی ہوگئے۔ یہ حضرت شیخ کی حقیقی والدہ محترمہ تھیں۔ شادی کے بعد ان کے بطن سے ۱۹۱۱ ء میں ایک بیٹی حکم جان پیدا ہوئی۔ دوسرا بیٹا ۱۹۱۴ ء میں پیدا ہوا جس کا نام محمد سرفراز خان رکھا گیا جو بعدمیں امام اہلسنت ، استاذ العلماء شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا ابواالزاہد محمد سرفراز خان صفدر کے نام سے معروف ہوئے۔ تیسرا ہونہار فرزند ۱۹۱۷ء میں پیدا ہوا جن کو علمی دنیامیں مفسر قرآن ، شیخ المفسرین والمحدثین حضرت مولانا صوفی عبدالحمید خان سواتی ؒ کے نام سے شہرت دوام حاصل ہوئی۔ اس کے بعد ۱۹۲۰ء میں ایک بیٹی، بی بی خانم مرحومہ پیدا ہوئی (جن کی وفات ۱۹۴۴ء میں لاہور میں ہوئی اور وہ باغبانپورہ کے قبرستان میں مدفون ہیں کیونکہ اس وقت ان کے خاوند دولت خان ساکن اچھڑیاں وہاں ٹیکسالی میں ملازم تھے) ۱۹۲۰ء میں جب بی بی خا نم مرحومہ پیداہوئیں تو ابھی تقریباً وہ چالیس دن کی تھیں کہ ان کی حقیقی والدہ بی بی بخت آور مرحومہ چیچک کی بیماری میں مبتلا ہوکر تقریباً پچیس سال کی عمرمیں دنیاسے رخصت ہو گئیں۔ یوں یہ چاروں بہن بھائی اپنی حقیقی ماں کی مامتا سے محروم ہوگئے اوروہ بھی اپنے معصوم بچوں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے آخرت کوروانہ ہوگئیں۔ ان کے دل میں کیا کیا حسرتیں ہوں گی، کون اندازہ کرسکتا ہے! ان تمام حسرتوں کے عوض اللہ تعالی مرحومہ کو جنت الفردوس مرحمت فرمائے۔ حقیقی والدہ کے انتقا ل سے پہلے بھی چاروں بہن بھائی سوتیلی والدہ کی گود میں رہتے تھے اور حقیقی والدہ کی وفات کے بعد تو گود ہی وہی تھی۔ حضرت شیخ صاحب اپنی سوتیلی والدہ محترمہ کے حسن سلوک کو ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں: ’’ یہ بالکل ایک حقیقت ہے کہ ایسی نیک دل خدمت گزار، ہمدرد اور شفیق ومہربان سوتیلی والدہ شاید کسی کو میسر ہوئی ہو جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں مرحمت فرمائی۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے جوار میں جگہ مرحمت فرمائے۔ آمین ثم آمین۔ ‘‘
تعلیم کا آغاز
حضرت شیخ الحدیث صاحب نے جب ہوش سنبھالا تو زمینداری طریقہ سے گھر کے سب کام کاج میں
ہاتھ بٹانے لگے لیکن آپ کے والد مرحوم کو آپ کی تعلیم کی بے حد فکر تھی اور اس پسماندہ اور غیر معروف بستی میں تعلیم کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا لیکن حسن اتفاق سے آپ کے ایک پھوپھی زاد بھائی محترم سید فتح علی شاہ صاحب بن سید دین علی شاہ صاحب مرحوم ساکن لمبی بٹل میں واقع ایک سکول میں چھٹی جماعت میں پڑھتے تھے۔ ۱۹۲۷ء میں جب آپ تیرہ برس کی عمر کو پہنچے تو آپ کے والد محترم نے آپ کو اپنے بھانجے سید فتح علی شاہ صاحب کی نگرانی میں بٹل کے سکول میں پہلی جماعت میں داخل کروا دیا ۔ اس وقت آپ کی رہائش بٹل کی ایک بڑھیا خاتون کے ہاں تھی۔ اس بڑھیا کا گھر یعقوب خان مرحوم کے گھر کے قریب ہی تھا۔ حضرت شیخ اس خاتون کے ہاتھ کے پکے ہوئے لذیذ کھانوں کی بڑی تعریف کرتے تھے۔ اپنے ایک مضمون میں یوں تحریر فرماتے ہیں۔ مکئی کی روٹی اورکڑی اس مائی کے ہاتھ کی پکی ہوئی اب تک یاد ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو جزاے خیر دے۔
آپ کے پھوپھی زاد بھائی سید فتح علی شاہ نہ معلوم وجوہ اور اسباب کی بناپر بٹل سے ملک پور چلے گئے اور وہاں فقیرا خان مرحوم کی مسجد میں بحیثیت امام اپنے فرائض سرا نجام دینے لگے اور شیر پور کے مڈل سکو ل میں داخل ہوگئے۔ کچھ عرصہ بعد آپ کے والد محترم بھی آپ کو ملک پور چھوڑ آئے۔ اس وقت آپ کی رہائش ملک پور کی مسجد میں سید فتح علی شاہ کے پاس تھی اور حصول تعلیم کے لیے آپ اپنے برادر محترم کے ہمراہ روزانہ شیرپور کے مڈل سکول میں جایا کرتے تھے ۔ آپ نے شیرپور کے مڈل سکول سے دوسری جماعت پاس کی اور ا س کے ساتھ ساتھ اپنے برادر محترم سے قاعدہ ناظرہ قرآن کریم اور ضروری دینی مسائل کی تعلیم حاصل کی۔
برادر محترم نے شیر پور میں مڈل سکول پاس کر لیا اور آپ دوسری جماعت سے تیسری جماعت میں پہنچ گئے۔اسی موقع پر آپ کے والد محترم نے حضرت مولانا صوفی عبدالحمید خان سواتی کو بھی حصول تعلیم کے لیے ملک پور پہنچا دیا ۔ یہ حضرت صوفی صاحب کاپہلا سفر تھا لیکن چونکہ اپنے ہی رشتہ دار چند ہم عصر ساتھی پہلے سے وہاں موجود تھے، اس لیے انہوں نے کوئی زیادہ تکلیف محسوس نہ کی۔ (اس زمانہ میں اخبار زمیندار بہت عروج پر تھا اور افغانستان میں بچہ سقہ کی شورش کی شہ سرخیاں اخبارات میں نمایاں ہوئی تھیں)۔
اس زمانہ میں بطل حریت حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی اور محترم جناب غلام احمد (عرضی نویس) کی کوششوں سے ایک دینی مدرسہ اصلاح الرسوم کے نام سے قائم ہو ا اور سید فتح علی شاہ اس مدرسہ میں داخل ہوگئے اور رہائش مانسہرہ کے قریب گنڈاکی مسجد میں رکھی۔ حضرت شیخ اور حضرت صوفی صاحب دونوں بھائی ملک پور سے کوچ کرکے گنڈا چلے گئے اور مانسہرہ کے مدرسہ اصلاح الرسوم میں داخل ہوگئے۔ حضرت شیخ تیسری جماعت اور حضرت صوفی صاحب ابتدائی جماعت میں تھے۔ اس مدرسہ میں حضرت شیخ نے تیسری جماعت تکمیل کی اوردینی مسائل پر مشتمل ابتدائی کتاب تعلیم الاسلام اورنحو کی ابتدائی کتاب نحومیر حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی سے پڑھی۔ اس مدرسہ میں زیر تعلیم طلبہ کو فن تقریر بھی سکھایا جاتا تھا۔ چنانچہ آپ نے ا پنی استعداد کے مطابق تقریر کافن بھی سیکھا، اس دوران دونوں بھائی پیدل ہی گھر آجایاکرتے تھے ۔اس وقت بس وغیرہ کاکوئی انتظام نہ تھا اور آپ کے والد محترم بھی اکثر خبرگیری کے لیے تشریف لاتے اور دیکھ بھال کر تسلی دے کر کچھ رقم دے کر چلے جاتے۔
کٹھن اور مشکل حالات
اس اثنا میں آپ کے دادا محترم غالباً ۱۹۳۰ء کو رمضان المبارک کے مہینہ میں بحالت روزہ وفات پاگئے۔ چونکہ اس وقت سواری کا انتظام نہ ہوتا تھا، اس لیے دونوں بھائیوں کو اطلاع نہ بھیجی جا سکی، جب کہ گنڈا اور آپ کے گھر کے درمیان چھپیس میل کی مسافت تھی۔ دادامحترم کے انتقال کے ایک سال بعد رمضان المبارک ہی کے مہینہ میں ۱۹۳۱ء کے قریب آپ کے والد محترم کا بھی انتقال ہوگیا ۔ اس موقع پر دونوں بھائی حضرت شیخ اور حضرت صوفی صاحب گھر میں ہی تھے۔ چنانچہ دونوں بھائی اپنے دیگر رشتہ داروں کے ساتھ والد مرحوم کی تجہیز وتکفین میں شریک ہوئے اور آپ کے والد مرحوم کو ’’پادرے‘‘ کے قبرستان میں ان کے والد محترم(حضرات شیخین کے دادا مرحوم )کے پہلو میں سپردخاک کردیا گیا۔ اسی پادرے کے قبرستان میں آپ کی حقیقی والد ہ محترمہ بھی مدفون ہیں۔
آپ کی حقیقی والدہ محترمہ تو پہلے ہی انتقال فرما چکی تھیں اور پھر ۱۹۳۱ء میں والد محترم کے انتقال کے بعد ایک سخت ابتلاو آزمائش کادور شروع ہوا۔ حضرت شیخ صاحب کبھی کبھی اس زمانہ کو یاد کرکے خود فرمایا کرتے تھے: ’’ ہم نے یتیمی کی حالت میں بڑی غربت دیکھی ہے۔ ہمارے پاس کبھی کبھی پہننے کے لیے جوتے نہیں ہوتے تھے اور ہمارے کپڑے بہت پرانے ہوتے تھے‘‘۔ بہرحال یتیموں کی داستان خاصی دردناک اور طویل ہوا کرتی ہے جس سے حضرات شیخین کو بھی دو چار ہونا پڑا۔ حضرت شیخ کی زندگی میں بہت سارے نشیب وفراز آئے، تلخ وترش حالات سے دوچا رہوئے ، دنیا کی دھوپ چھاؤں دیکھی، لیکن غیرت وخود داری کے ٹھوس جذبے کو کبھی ٹھیس نہیں لگنے دی۔ آپ کو یہ پاکیزہ جذبہ اپنے آباء واجداد سے موروثی طور پر ملا تھا۔ چنانچہ آ پ کے والد محترم کے انتقال کے بعد آپ کی آبائی زمین پر لوگ صرف اس وجہ سے قابض ہوگئے تھے کہ یہ زمین آ پ کے خاندان کے نام نہ تھی جس کی وجہ بھی یہی تھی کہ آپ کے آباواجداد میں غیرت وخودداری بدرجہ کمال موجود تھی۔
جب مانسہر ہ میں ایک انگریز افسر زمینوں کے سرکاری کاغذات وغیرہ بنانے کے لیے آیا تو لوگوں نے آپ کے دادا گل احمدخان ؒ کو توجہ دلائی کہ کاغذات وغیرہ بنو ا کر زمین اپنے نام لکھوا لو۔ انگریزوں کی نفرت ان کے رگ وپے میں اس قدر سمائی ہوئی تھی کہ انہوں نے زمین کے کاغذات وغیرہ بنوانے کے لیے بھی اس قوم کے ایک انگریزافسر کے پاس جانا بھی مناسب نہ سمجھا اور جواب دیا ’’ میں اس سور کامنہ نہیں دیکھنا چاہتا‘‘۔ والدمرحوم کے انتقال کے بعد بظاہر تحصیل علم کے تمام اسباب مسدود ہوگئے تھے، لیکن جب مسبب الاسباب کسی خوش قسمت کو اپنے دین متین کی خدمت کے لیے منتخب فرمالیں تو اسباب خود ہی مرحمت فرما کر اسباب اور راحت وآسائش کی دنیا میں پلنے، بڑھنے والوں پر اپنی شان بے نیازی ظاہر فرماتے ہیں تاکہ ان پر یہ حقیقت واضح آجائے کہ وہ قادر مطلق ناتواں اور کمزوروں سے بھی خدمت دین کاکام لینے پر قادر ہے۔ ان المقادیر اذا ساعدت الحقت العاجز بالقادر (جب تقدیر الہٰی مدد کرتی ہے تو عاجز کو قادر کے ساتھ ملادیتی ہے)۔
آپ کے والد محترم کی وفات کے بعد خاندان کا شیرازہ کچھ ایسا بکھرا کہ اس کے بعد آپ سب بہن بھائی اور سوتیلی والدہ محترمہ کبھی اکٹھے نہیں رہ سکے۔ کہیں دو اکٹھے ہو جاتے اور کہیں تین، آپ کی سوتیلی والدہ محترمہ اور چھوٹی ہمشیرہ بی بی خانم مرحومہ کو آپ کی سوتیلی والدہ کے بھانجے حاجی گوہر امان خان اچھڑیاں لے گئے۔ بڑی ہمشیرہ کو پھوپھی درمرجان صاحبہ لمی لے گئیں جن کے فرزندسے آپ کے والدمرحوم اپنی زندگی ہی میں انکی منگنی کرچکے تھے۔ حضرات شیخین دونوں بھائی کبھی لمبی اور کبھی اچھڑیاں اور کبھی کورے میں اور زیادہ تر مسجدوں میں وقت گزارتے۔ گھر کا اثاثہ ، سامان اورجانور کچھ اس انداز سے تقسیم کیے گئے کہ آج تک وثوق سے نہیں کہاجا سکتا کہ ان سے فائدہ کس کس نے اٹھایا۔ اس دور میں سید فتح علی شاہ مرحوم کی شادی ہوگی اور وہ باوجود شوق کے تعلیم جاری نہ کرسکے اور اکثر گھر ہی میں رہنے لگے اور حضرات شیخین گنڈا سے نکل کر ادھر ادھر چلے گئے ۔
والد مرحوم کی وفات کے بعد گھر کے اجڑنے اور گنڈا سے نکل چکنے کے بعد تھوڑے عرصہ میں خاصی جگہیں بدلنا پڑیں چنانچہ آپ کچھ عرصہ بٹل میں پڑھتے رہے اس کے بعد ہروڑی پائیں میں حضرت مولانا سخی شاہ ؒ کے پاس رہے۔ وہاں نورالایضاح اور صر ف کی کچھ ابتدائی گردانیں یاد کیں۔ اس کے بعد کھکھو میں حضرت مولانا عیسی ؒ کے پاس رہے اور سنگل کوٹ میں مولانا احمد نبی ؒ صاحب کے پاس رہے اور نحومیر کاکچھ حصہ پڑھا پھر بائی پائین میں کچھ عرصہ رہے لیکن ان تما م جگہوں میں تعلیم کا خاطر خواہ انتظام نہ ہو سکا اور تعلیمی کام نہ ہونے کے برابر رہا۔ اس دوران حضرت صوفی ؒ صاحب زیادہ تر اچھڑیاں اور کورے میں رہے اور کبھی کبھار لمبی چلے جاتے۔
اس اثنا میں ایک خوش قسمت اورنیک دل بزرگ نے آپ کومشورہ دیاکہ تمہارا وطن میں کیا دھرا ہے، کہیں جاکر تعلیم حاصل کرو۔ چنانچہ حضرت شیخ اپنے برادر عزیز حضرت صوفی صاحب ؒ کو ساتھ لے کر ۱۹۳۳ء کے لگ بھگ حصو ل علم کے لیے روانہ ہوئے۔ کیا ہی صاحب بصیرت تھے وہ رجل مومن جنہوں نے مستقبل کی ان دوعبقری شخصیات کوحصول علم کا مشورہ دیا اور رسول برحق صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان فیض ترجمان سے نکلی ہوئی اس خوش خبری کامصداق ٹھہرے۔ الدال علی الخیر کفاعلہ۔ نیکی اور خیر کی طرف رہنمائی کرنے والانیکی کرنے والے کی طرح ہوتاہے ۔چنانچہ دونوں بھائی سفر کرتے ہوئے کوئٹہ(بلوچستان) جا پہنچے اور وہاں کوئٹہ کے متصل ایک بستی میں ایک پرانے طرز کے مدرسہ میں داخل ہوگئے۔ یہ مدرسہ ایک مسجد میں قائم تھا اس مدرسہ میں ابتدائی کتابیں پڑھناشروع کردیں لیکن کچھ عرصہ بعد نہ معلوم وجوہ کی بنا پر دونوں بھائی کوئٹہ سے عازم سفر ہوئے اورکلکتہ جاپہنچے وہاں کچھ دن رہ کر پھر تے پھراتے پھر وطن پہنچ گئے۔ اس کے بعد حضرت شیخ دوبارہ اپنے ایک رفیق سفر کے ہمراہ جو چٹہ بٹہ کا رہنے والا تھا عازم سفر ہوئے اور اجمیر شریف جا پہنچے کچھ عرصہ اجمیر شریف قیام کے بعد دوبارہ وطن واپس آگئے۔
اجمیر شریف سے واپسی پر آپ شیٹر کے مقام پر واقع گجر برادری کی ایک مسجد میں امامت کرنے لگے۔ اس مسجد کے آس پاس کوئی گھر نہ تھا۔ کبھی کچھ لوگ نماز کے لیے آجاتے تو جماعت ہوجاتی اور کبھی کوئی نہ آتا تو آپ اکیلے ہی اذان کہہ کر نماز پڑھ لیتے۔ ان دنوں آزاد قبائل انگریز کے خلاف برسرپیکار تھے جن کی قیادت مشہور مجاہد مولانا اللہ داد خان کرتے تھے۔ لمبی سے تقریباً د ومیل کی مسافت پر آزاد علاقہ شروع ہوتاتھا، جہازوں کی بمباری کے علاوہ توپوں مشین گنوں حتیٰ کہ رات کے وقت رائفلوں کی فائرنگ کی آواز سنائی دیتی تھی۔ حضرت شیخ نے ان دنوں شوق جہاد میں ایک تلوار بھی خریدی جبکہ آپ کے پاس بندوق توپہلے ہی سے موجود تھی۔
لمبی کے ایک بزرگ سید محمود شاہ نے ایک مرتبہ آپ کو پا س بٹھا کر بڑے نرم لہجہ میں آپ کو نصیحت کرتے ہوے فرمایا : ’’سرفراز!تو خاصا ذہین اور محنتی آدمی ہے اور ابھی تمہاری عمر بھی کوئی زیادہ نہیں، کہیں جا کر علم حاصل کرو اور ان گوجروں کی مسجد میں اپنا قیمتی وقت ضائع نہ کرو۔ ‘‘ان کی اس نصیحت کا دل پر گہرا اثر ہوا، چنا نچہ دفعتاً آپ کاوہاں سے دل اچاٹ ہوگیا اور آپ اپنے پھوپھی زاد بھائی محمد ایوب خان اور حضرت صوفی صاحب ؒ کے ہمراہ ہری پور جا پہنچے وہاں سے کھلا بٹ ہوتے ہوئے دو ڑ کی ندی کے کنارے پر نام کی ایک چھوٹی سی بستی میں مقیم ہوگئے اور پکا پیالہ میں دن کو جاکر سبق پڑھ آتے اور رات کو اپنے مستقر پر آجاتے۔ پہاروں نامی بستی کے ایک معمر بزرگ جناب سکندرخان آپ کے کھانے وغیرہ کاخصوصی خیال رکھتے تھے۔ کچھ عرصہ بعد حضرت صوفی صاحب سوتیلی والدہ مرحومہ اور چھوٹی حقیقی ہمشیرہ مرحومہ کے پاس واپس اچھڑیاں چلے آئے جب کہ آ پ خانپور (جو ہر ی پور سے جنوب مشرق کی طرف روہی کی ندی کے کنارے سر سبز علاقہ ہے اورراجوں کا خان پور کہلاتا ہے) چلے گئے اوروہاں لوہاروں کی ایک مسجد میں قیام پذیر ہوگئے اوراسی مسجد کے امام حضرت مولانا عبدالعزیز ؒ سے صرف کی ابتدائی کتابیں شروع کردیں۔ آپ چند ماہ وہاں رہے اور یہاں بھی تعلیمی کام نہ ہونے کے برابر رہا۔ اس دوران آپ اکثر اوقات حضرت مولاناعبدالعزیز ؒ کی بکریاں چرایا کرتے تھے، آپ دو تین میل باہر پہاڑوں پر چلے جاتے اور وہاں سے بکریوں کے لیے چارہ وغیرہ لاتے۔ اس دوران مولانا عبدالعزیز نے اپنی ہی برادری کی ایک لڑکی سے آپ کی شادی کرنے کی سعی شروع کر دی۔ جب آپ کواس پتہ چلا تو آپ واپس وطن چلے آئے اوروہاں سے اپنے برادر عزیز حضرت صوفی صاحب ؒ کو لے کر لاہور چلے آئے۔
حصول علم کے لیے لاہور آمد
آپ اپنے برادرعزیز کے ہمراہ حصول علم کے لیے مصری شاہ لاہور پہنچے اس زمانہ میں مصری شاہ لاہور میں ایک ڈاڑھی منڈھے مولوی صاحب رہتے تھے جن کا نام عبدالواحد تھا اور عرب استاد کے نام سے مشہور تھے۔ موصوف صر ف ونحو میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔ عربی زبان بڑی روانی سے بولتے تھے اور پشتو بھی بڑی فصیح اور سلیس بولتے تھے۔ ان کی علمی شہرت کی وجہ سے ان کے پاس دودراز سے طلبا نحو کی مشکل او ردقیق کتب ’’ عبدالغفور‘‘ اور ’’مغنی اللبیب ‘‘ وغیرہ پڑھنے کے لیے آتے تھے۔ دونوں بھائیوں کی جب عرب استاذ صاحب سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے یہ محسوس کیا کہ یہ طلبہ پڑھنے کابے حد شوق رکھتے ہیں لیکن ناتجربہ کاری کی وجہ سے کسی مناسب تعلیمی درسگاہ میں نہیں پہنچ سکے تو انہوں نے دونوں بھائیوں کو تحصیل ڈسکہ ضلع سیالکوٹ میں واقع اک گاؤں مرہانہ میں حضرت مولانا غلام محمد ؒ کے پاس بھیج دیا، چنانچہ حضرت شیخ صاحب اپنے برادر عزیز اورایک اور طالب علم مولوی عبدالحق ساکن کھکھو کولے کر مرہانہ پہنچے لیکن جب یہ تینوں ساتھی مرہانہ پہنچے تو تعلیمی داخلہ بند ہو چکا تھا۔ نیز یہ تینوں ابتدائی کتب کے طلبہ تھے او رمرہانہ کی تعلیمی درسگاہ میں طلبہ کی تعداد پہلے ہی سے زیادہ ہوچکی تھی اس لیے حضرت مولانا غلام محمد ؒ نے داخلہ سے تو معذوری ظاہر کر دی لیکن اللہ تعالیٰ انہیں بہترین جزاے خیردے کہ انہوں نے ان کی صحیح رہنمائی کرتے ہوئے انہیں مرہا نہ سے چند میل کی مسافت پر واقع ایک قصبہ وڈالہ سندھواں میں حضرت مولانا محمد اسحاق رحمانی ساکن چونیاں منڈی کی خدمت میں بھیج دیا۔
باقاعدہ تعلیم
حضرت شیخ اور حضرت صوفی صاحب ؒ کی باقاعدہ تعلیم کاآغاز ضلع سیالکوٹ کے اسی مشہور قصبہ وڈالہ سندھواں سے ہوا۔ اس قصبہ میں حضرت مولانا مفتی محمد کفایت اللہ دہلوی کے ایک شاگرد حضرت مولانا اسحاق رحمانی مسند تدریس پر رونق افروز تھے۔ آپ غضب کے ذہین بہترین مدرس اورچوٹی کے مقرر تھے۔ مسلکاً اہل حدیث تھے مگر خاصے معتدل تھے۔ فروعی مسائل میں نزاع اور اختلاف پسند نہ کرتے تھے۔ جب حضرت شیخ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے آپ سے داخلہ کاامتحان لیا اورمعرفہ ونکرہ کی تعریف دریافت فرمائی اور بھی بعض سوالات کیے۔ جب آپ نے فی الفور صحیح جوابات دے دیے تو بہت خوش ہوئے اور آپ کو اور آپ کے برادرعزیز کوداخلہ دے دیا۔ وڈالہ سندھواں کی مرکزی دو منزلہ مسجد میں تقریباً دو سال آپ مولانا محمدا سحاق ؒ کے پاس زیر تعلیم رہے۔ آپ نے سبعہ معلقہ ، شرح جامی اور قطبی تک کتابیں وڈالہ سندھواں ہی میں پڑھیں جب کہ حضرت صوفی صاحب ؒ کی ابتدائی کتابیں پڑھی تھیں۔ تقریباً دو سال کے بعد حضرت صوفی صاحب ؒ اپنے ایک اور رفیق درس مولانا سید امیر حسن شاہ ساکن تھب تحصیل باغ ضلع پونچھ کے ہمراہ بغیر اطلاع وڈالہ سندھواں سے چلے گئے۔
جب حضر ت صوفی صاحب وڈالہ سندھواں سے بغیر کچھ بتلائے چلے گئے تو حضرت شیخ وڈالہ سندھواں میں اکیلے رہ گئے۔ پھر کچھ دنوں بعد آپ ان کی تلاش میں نکلے۔ غربت کا زمانہ تھا رقم پاس نہ تھی چنانچہ پیدل ہی وہاں سے گوجرانوالہ پھر قلعہ دیدا ر سنگھ پھر حافظ آباد اور پھروہاں سے ونیکے تارڑ پہنچے۔ ان تمام مقامات پر اس زمانہ میں دینی کتب پڑھائی جاتی تھی اور بیرونی طلبہ پڑھتے تھے، مگر ان مقامات پر حضر ت صوفی صاحب کا کوئی پتہ نہ چل سکا۔ بالآخر آپ کشتی کے ذریعے دریاے چناب کو عبور کرتے ہوئے قادرآباد اور پھر وہاں سے’’انھی‘‘ کی مشہور در سگاہ میں جاپہنچے جہاں ماہر علوم عقلیہ ونقلیہ یادگار اسلاف حضرت مولاناولی اللہ ؒ (جانشین ماہر معقول ومنقول حضر ت مولانا غلام رسول ؒ ) پڑھاتے تھے۔
انھی کی درسگاہ بلامبالغہ برصغیر کی مشہور درسگاہوں میں سے ایک ہے جہاں ممتاز اصحاب علم وکمال زیر تعلیم رہے۔ یہ درسگاہ پہلے تو ماہر معقول ومنقول حضرت مولانا غلام رسول ؒ کے دم قدم سے آباد رہی پھر آپ ہی کے شاگرد رشید استاذ العلماء حضرت مولانا ولی اللہ ؒ کی محنت اور توجہ نے اس کومرکز علم وعرفان بنا دیا۔ مختلف علاقوں سے ذہین اور باذوق طلبہ کااس چھوٹے سے قصبے میں ہجوم رہتا تھا۔ حضرت شیخ بھی حضر ت صوفی صاحب کو تلاش کرتے ہوئے انہی کی اس درسگاہ میں پہنچ کر شریک درس ہوگئے۔ آپ انھی سے چندمیل دور ککہ میں مقیم ہوگئے جہاں کشمیر کے مولانا عبدالمجید صاحب بھی رہتے تھے۔ صبح سویرے دونوں ہی پیدل چل کر انھی آجاتے اور سبق پڑھ کر ظہر تک واپس چلے جاتے۔
انھی میں طریقہ تعلیم یہ تھا کہ طالب علم ہر فن کی کتاب کا مطالعہ کرتا اور خو ب سمجھ کر کتاب کا مطلب استاد کے سامنے بیان کر دیتا اور غلطی پر استاد اس کی اصلاح کردیتے۔ اس طریقہ سے طالب علم بمشکل ایک دو سبق ہی حل کر سکتا۔ نہایت ہی ذہین طالب علم تین اسباق پڑھ سکتا تھا۔ اس طرز سے طلبہ میں مطالعہ اور کتابوں کو سمجھنے اور حل کرنے کا جذبہ بخوبی اجاگر ہوتا تھا ۔ آپ نے اسی طریقہ تعلیم سے اس مشہور درسگاہ میں سے درس نظامی کی دقیق اورمشکل کتب خیالی ، میبذی اور ملا حسن وغیرہ پڑھیں۔
پھر آپ نے اپنے برادرعزیز کی تلاش میں رخت سفر باندھا اور انہی سے پکھی ،منڈی بہاؤالدین ، ملکوال، پنڈدادخان، بھیرہ، خوشاب سے ہوتے ہوئے شاہ پور اور پھر وہاں سے سرگودھا اور وہاں سے تقریباً بیس میل دور جہاں آباد پپدل پہنچے جہاں سے آپ کو اتنا معلوم ہوا کہ صوفی صاحب بمع اپنے رفیق کے یہاں آئے تھے اورکچھ دن یہاں رہے ہیں اور پھر چلے گئے ہیں چنانچہ آپ وہاں ایک رات رہ کر پھر عازم سفر ہوئے اور خوشاب، واں بھچراں، کندیاں، کلورکوٹ سے ہوتے ہوئے لائل پور (فیصل آباد) کے ایک قصبہ بازار والا میں واقع بریلوی مسلک کی ایک درسگاہ میں جاپہنچے جہاں بیرونی طلبہ بھی رہتے تھے۔ اس درسگاہ سے اتنا معلوم ہوا کہ حضر ت صوفی صاحب بمع اپنے رفیق کے ملتان میں مولانا عبدالعلیم صاحب کے مدرسہ میں زیر تعلیم ہیں۔
چنانچہ آ پ فیصل آباد سے ملتان روانہ ہوئے اور مولانا عبدالعلیم صاحب کے مدرسہ میں جاپہنچے جہاں آپ کی ملاقات حضر ت صوفی صاحب اورا ن کے رفیق درس حضرت مولانا سید امیر حسن صاحب سے ہوئی۔ حضرت شیخ اپنی اس ملاقات کو ان الفاظ میں بیا ن فرماتے ہیں : ’’ راقم فیصل آباد سے روانہ ہو کر ملتان پہنچا اور عزیزم عبدالحمید بمع اپنے رفیق کے وہاں موجود تھا۔ ملاقات ہوئی، گلہ شکوہ اور سفر کی تکلیفوں کاتذکرہ بھی ہوا اور ملاقات کر کے خوشی بھی ہوئی‘‘۔ تینوں حضرات کچھ عرصہ مولانا عبدالعلیم کے مدرسہ ہی میں رہے، اورموصوف سے علم میراث کاایک رسالہ پڑھاجس کے مصنف خود ہی مولانا تھے۔ حضرت شیخ موصوف کی مسلکی وابستگی کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں: ’’ مولانا بہت معمر تھے۔ ان کے فرزند مولانا عبدالحلیم اورا ن کے فرزند مولانا عبدالکریم اور ان کے فرزند مولانا عبدالشکور سب زندہ تھے ۔ لانگے خان کے باغ کے قریب ان کی مسجد تھی اور اس میں درس کتب جاری تھا۔ یہ حضرات نہ پکے دیوبندی اور نہ پختہ بریلوی تھے بلکہ بین بین تھے۔ علم اور علما سے بڑی عقیدت رکھتے تھے۔‘‘ جب تعلیمی سال ختم ہوا تو تینوں حضرات وہاں سے روانہ ہو کر ملتان کے قریب ہی پیراں غائب کے مقام پر پہنچے اور اتفاقاً وہاں ایک امام مسجد میاں عبداللہ سے ملاقات ہوگئی ۔ میاں صاحب سادات کی بڑی قدر کرتے تھے اور حسن اتفاق تینوں رفقاے سفر میں سے ایک رفیق سفر سید امیر حسن شاہ سادات کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے چنانچہ انہوں نے تینوں حضرات کی بڑی قدر کی اوران کے اصرار پر تینوں نے رمضان المبارک کا مہینہ ان کے ہاں گزارا۔
۱۹۳۷ء میں آپ حضر ت صوفی صاحب اور سید امیر حسن شاہ کے ہمراہ حصول علم کے لیے جہانیاں منڈی میں مولانا غلام محمد لدھیانویؒ کی خدمت حاضر ہوئے۔ موصوف حضرت مولانا سید انور شاہ کشمیری کے شاگرداور فضلائے دیوبند میں سے تھے اور جہانیاں منڈی کی مرکزی مسجد کے خطیب اورمدرس تھے۔ مسجد کے متصل طلبہ کی رہائش کے لیے کمرے تھے۔ چنانچہ وہاں اسباق شر وع ہوگئے۔ اسباق شروع ہونے کے چند دن بعد دارالعلوم دیوبند کے قدیم فضلا میں سے مولانا عبدالخالق مظفر گڑھی بھی بحیثیت مدرس وہاں تشریف لے آئے۔ حضرت شیخ نے وہاں عبدالغفور ،حمداللہ، مسلم الثبوت اور مختصرالمعانی وغیرہ کتابیں پڑھیں جب کہ حضر ت صوفی صاحب نے ملاں حسن اور شرح جامی وغیرہ کتابیں پڑھیں۔ تینوں رفقا ایک سال جہانیاں منڈی کے مدرسہ رحمانیہ میں زیر تعلیم رہے۔
جہانیاں منڈی میں تعلیمی سال کے اختتام کے قریب مولانا سیدا میر حسن شاہ کے اصرار پر تینوں رفقا گوجرانوالہ کے لیے رواانہ ہوئے اور رمضان سے قبل ہی مدرسہ انوارالعلوم گوجرانوالہ میں نئے سال کے داخلہ کی منظوری لے لی۔ اس وقت مدرسہ انوار العلوم گوجرانوالہ کے مہتمم محدث گوجرانوالہ مولانا عبدالعزیز (متوفی،۱۳۵۹ھ) تھے۔ آپ فضلاے دیوبند میں سے تھے اور وسیع ا لنظر ،علم حدیث اور طبقات روات پر بڑی گہری نگاہ رکھنے والے تھے۔
داخلہ کی منظوری کے بعد دونوں بھائیوں نے رمضان المبارک میں گوجرا نوالہ حافظ آباد اور شیخوپورہ کے بہت سے دیہات کا تبلیغی اور اکتسابی دورہ کیا۔ رمضان المبارک کے بعد ماہ شوال میں مدرسہ انوار العلوم تشریف لے آئے۔ اس وقت مدرسہ انوارالعلوم میں حضرت مولانا عبدالقدیر ؒ صدر مدرس تھے۔ مولانا عبدالقدیر کیمل پوری عوامی حلقوں میں توزیادہ معروف نہ تھے لیکن تدریسی حلقوں میں آپ کو ایک مایہ ناز استاد ،محقق دوراں اور شیخ المعقول والمنقول کے نام سے شہرت حاصل تھی۔ اگر آپ کو برصغیر کی چوٹی کے مدرسین کی فہرست میں شمار کیا جائے تو تدریسی میدان کے وابستگان جانتے ہیں کہ یہ مبالغہ نہ ہوگا۔ موصوف حضرت مولانا سید انور شاہ کے مایہ ناز شاگردوں میں سے تھے۔ حضرات شیخین تقریباً تین سال مدرسہ انوارالعلوم میں رہے اور یہ وہ دورتھا جس میں ہٹلر کی اتحادیوں سے جنگ عظیم چھڑی ہوئی تھی اور سر کار برطانیہ کی قوت کی چولیں ڈھیلی دکھائی دیتی تھی۔ حضرت شیخ اپنے علمی ذوق وشوق کے بارے میں خود فرمایا کرتے تھے ’’ میرا تعلیمی ذوق وشوق اور علمی استعداد استاد محترم حضرت مولانا عبدالقدیر کی خصوصی شفقت اور توجہ کی مرہون منت ہے‘‘۔ استاد محترم آپ کے ذوق وشوق ، قوت حافظہ اور علمی استعداد سے اس قدر مطمئن تھے کہ زمانہ طالب علمی ہی میں اپنی نگرانی میں آپ کوتدریس کاموقع عطا فرما کر آ پ کی علمی لیاقت پر اعتماد کیا ۔
مفسر قرآن شیخ الحدیث والتفسیر حضر ت مولانا صوفی عبدالحمید خان سواتیؒ اپنے استاذ محترم ؒ کی شفقت کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں: ’’احقر نے تقریباًتین سال دوران تعلیم آپ کی خدمت میں گزارے۔ شیخ الحدیث مولانا سرفراز خان صفدر توآپ کے اجل تلامذہ میں سے تھے ان کی ذہانت اورفطانت کی وجہ سے مولاناان کا بہت خیال فرماتے تھے، لیکن احقرکی طبعی خاموشی اورمسکینی کی وجہ سے اوراس لیے کہ صبح کی نماز باجماعت ادا کرتا تھا، بہت لحاظ فرماتے تھے۔‘‘ حضرات شیخین نے موقوف علیہ تک کی تمام اہم کتابیں انہی سے پڑھیں۔ راقم کے استفسار پر ایک مرتبہ حضرت شیخ نے فرمایا کہ میں نے تما م اہم کتابیں مثلاً ہدایہ اولین، اخیرین، تفسیرجلالین، تفسیر بیضاوی، تصریح، اقلیدس ، صدرا، قاضی مبارک، شمس بازغہ، شرح نخبۃ الفکر، حسامی، توضیح وتلویح، حمداللہ، خیالی، متن متین، ملا حسن اور حماسہ وغیرہ کتابیں حضرت ہی سے پڑھیں جبکہ مطول، سراجی، شرح وقایہ وغیرہ کتب مدرسہ انوارالعلوم میں مفتی شہر حضرت مولانا مفتی عبدالواحد ؒ سے پڑھیں۔
جب آپ مدرسہ انوارالعلو م سے اپنے اسباق کی تکمیل کرچکے توآپ کے دل میں یہ پاکیزہ جذبہ پیدا ہواکہ مسلمانوں کی نامور علمی ودینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند کی روح پروراورایمان افروز فضا میں دینی تعلیم کاآخری سال گزاریں اوراسی درسگاہ سے سند فراغت حاصل کریں، لیکن آپ کو اپنے شوق کی تکمیل کے لیے دوبرس مزید انتظار کرناپڑا۔ چونکہ آپ کی خواہش تھی کہ آپ کے برادرعزیز مولانا صوفی عبدالحمید خان سواتی ؒ بھی آپ کے ساتھ ہی دارالعلوم دیوبند جائیں، لہٰذا جب انہوں نے اپنے اسباق مکمل کرلیے توپھر اپنے برادرعزیز کے ہمراہ دارالعلوم کی طرف عازم سفر ہوئے۔ حضرت صوفی صاحب جب مدرسہ انوارالعلوم میں اپنے اسباق کی تکمیل کر رہے تھے تو اس دوران حضرت شیخ بحکم استاد محترم تقریباً ڈیڑھ سال پرائیویٹ طور پر ایک جگہ پچیس روپے ماہانہ مشاہراہ پرمولوی فاضل کا کورس پڑھاتے رہے۔
مصری شاہ لاہور میں تحصیل علم کے لیے تشریف آوری سے لے کر مدرسہ انوارالعلوم گوجرانوالہ میں اسباق کی تکمیل تک حضرات شیخین کا اپنے رشتہ داروں سے کوئی رابطہ نہ ہوا۔ کچھ پتہ نہ تھا کہ دونوں بھائی کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں۔ حضرات شیخین کی والدہ محترمہ اور آپ کی ہمشیرگان ان کے بارے میں سخت متفکر اور پریشان تھیں۔ اس زمانہ میں آپ کی برادری کے ایک بزرگ محترم گل خان ساکن اچھڑیاں راہوالی میں ریلوے کے محکمہ میں ملازم تھے۔ ان کی وساطت سے گھروالوں کو دونوں بھائیوں کی خیریت معلوم ہوئی۔ چنانچہ آپ کے خالہ زاد بھائی حاجی گوہر امان خان ملاقات کے لیے گوجرانوالہ تشریف لائے اوران کے ذریعہ گھر اور خاندان کے دیگر افراد کی خیروعافیت کا حضرات شیخین کو بھی علم ہوا ۔ پھر چند دنوں بعد حضرت شیخ وطن تشریف لے گئے او ر اعزہ واقارب سے ملاقات ہوئی اور بعض مقامات پر تقریریں بھی کیں۔ حضرت شیخ نے چند روز اپنے وطن میں قیام کیا اورواپس گوجرانوالہ تشریف لے آئے۔
دارالعلوم دیوبند کا سفر
۱۹۳۹ء میں حضرات شیخین نے اپنے چند دیگر رفقا کے ہمراہ دارالعلوم دیوبند کی طرف رخت سفر باندھا۔ جب آپ دارالعلوم دیوبند پہنچے تواس وقت دارالعلوم کی مسند تدریس پر بہت سی ایسی ہستیاں رونق افروز تھیں جن کو بجاطورپر علمی دنیا میں مسند تدریس کی آبرو کہاجاسکتاہے ۔ بالخصوص شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد ؒ مدنی مدینۃ الرسول میں ایک عرصہ تک علم وعرفان کے موتی بکھیر کر اوروہاں کے علمی وروحانی سوتوں سے بقدرتوفیق الٰہی اپنی روح کوسیرا ب کرکے واپس دیوبند تشریف لاچکے تھے۔ حضرات شیخین نے دارالعلوم میں داخلہ کا امتحان دیا اور بفضلہ تعالیٰ کامیاب رہے اور حدیث شریف کے دورہ میں شریک ہوگئے ۔ اس سال دارالعلوم میں زیر تعلیم طلبہ کی تعداد ۱۹۹۵تھی جب کہ دورہ حدیث میں شریک طلبہ کی تعدد ۳۳۳ تھی۔ جضرات شیخین کے علاوہ حضرت مولانا خواجہ خان محمدصاحب اور حضرت مولانا محمد یوسف صاحب پلندری بھی دورۂ حدیث میں شریک تھے۔ آپ حضرات کوجن اصحاب فضل وکمال کے دامن فضل سے وابستگی اور سرچشمہ علم وفن سے کسب فیض اور اکتساب علم کا شرف حاصل ہوا، ان میں سے اکثر اس زمانہ کے عبقری رہنما اور علوم دینیہ کے ممتاز مدرس تھے۔
حضرت شیخ نے بخاری شریف اور ترمذی جلداول حضرت مدنی ؒ کے پاس پڑھی۔ حضرت مدنی صبح کے وقت دو گھنٹے ترمذی اور ایک گھنٹہ بخاری شریف جلد اول پڑھاتے تھے اور رات کے وقت بخاری جلددوم پڑھاتے تھے۔ دوران درس طلبا کو کیسا ایمان پرور ماحول نصیب ہوتا تھا، اس کی ایک ہلکی سی جھلک حضرت صوفی صاحب کی اس تحریر میں ملاحظہ فرمائیں: ’’دوران سبق شرکا کو ایسا عجیب روحانی ماحول نصیب ہوتاتھا کہ ہر شریک درس کی یہ دلی خواہش ہوتی تھی کہ کاش یہ مجلس دراز سے دراز ہوتی جائے۔ ہم کو یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ہمارے قلوب زنجیروں کے ساتھ عالم بالا میں جکڑے ہوئے ہیں ۔ جو علما اور طلبا شریک درس ہوتے تھے، اپنے شکوک وشبہات اور اعتراضات پرچیوں پر لکھ کر بھیجتے تھے۔ آپ (حضرت مدنی) ان کو پڑھ کر ہر ایک سوال کا جواب دیتے تھے۔کسی معترض کی تلخ کلامی یا غلط تحریر پڑھ کر کبھی ناراض نہ ہوتے تھے‘‘۔
آپ نے مسلم شریف (کامل) حضرت مولانا ابراہیم ؒ سے پڑھی جب کہ ابوداؤد مکمل اور ترمذی جلدثانی اور شمائل ترمذی شیخ الادب مولانا اعزاز علی امروہوی سے پڑھی۔ نسائی شریف مولانا عبدالحق نافع گل، اورابن ماجہ حضرت مولانا مفتی ضیاء الدین سے پڑھی، موطاامام مالک حضرت مولانا ادریس کاندھلوی سے اورطحاوی مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع سے پڑھی(ان تمام اساتذہ گرامی کے اسما حضرت شیخ نے خود راقم کو ایک ملاقات میں بتلائے) تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبہ دیگر ہم نصابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے، خاص طور پر دارالعلوم دیوبند میں فن خطابت میں طلبہ بڑے جوش وخروش سے اپنی اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھاتے تھے۔ حضرت شیخ نے تقریر کافن تو بچپن ہی میں حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی کے قائم کردہ مدرسہ اصلاح الرسوم سیکھ لیاتھا جبکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس فن میں پختگی اور حسن پیدا ہوتا چلا گیا حتیٰ کہ دارالعلوم دیوبند میں ایک دوتقریر کے بعدہی یہ تاثر قائم ہوگیاتھا کہ آپ ایک بہترین مقرر ہیں۔ علامہ صابری نے ایک مرتبہ حضرت شیخ کی تقریر سے متاثر ہو کر جو تبصرہ کیا، قارئین حضرت شیخ کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں۔ ’’ راقم کے بارے میں بلاوجہ ایک دو تقریروں کے بعد یہ تاثر قائم کر لیا گیا کہ یہ اچھا مقرر ہے بلکہ ایک موقع پر مشہور شاعر محمد انور صابری نے راقم کی تقریر سن کر یہ فرمایا کہ سر حدیوں میں سے یہ ابو الکلام کہاں سے پیدا ہو گیا ہے؟‘‘
حضرت مدنی ؒ کی گرفتاری
دوران سال مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ نے مراد آباد میں ایک تقریر فرمائی۔ اس سلسلہ میں حکومت برطانیہ کی طرف سے آپ پر مقدمہ چلا اور آپ گرفتار ہوگئے۔ اس گرفتاری کے خلاف طلبہ کا مشتعل ہونا ایک فطری امر تھا، چنانچہ طلبہ نے حضرت کی گرفتاری کے خلاف زبردست احتجاج کیاحتیٰ کہ پولیس اور فوج کومداخلت کرنا پڑی۔ طلبہ نے اپنے احتجاج کو منظم کرنے کے لیے طلبہ میں سے متحدہ ہندوستان کے ہر صوبے کے لیے ایک ایک نمائندہ مقر ر کر دیا۔ اس وقت متحدہ ہندوستان کے گیارہ صوبے تھے۔ حضرت شیخ کو صوبہ سرحد اور افغانستان کانمائندہ مقرر کیا گیا اور پھر ان تمام نمائندوں کا صدر بھی آپ ہی کو منتخب کیا گیا۔ حضرت مدنی کی گرفتاری کے خلاف طلبہ کی اس تحریک کی قیادت میں آپ نے بھر پور قائدانہ کردار اداکیا ۔ چونکہ آپ طلبہ تحریک کے رہنما تھے اس لیے ارباب دارالعلوم دیوبند ،مجلس شوریٰ کے اراکین اور حکومت کے نمائندوں کاسلسلہ بھی آپ سے وابستہ ہوگیا۔ اس نازک موقع پر آپ ارباب دارالعلوم، مجلس شوریٰ کے اراکین اور طلبہ کے اعتماد پر بفضلہ تعالیٰ پورے اترے اور آپ نے سیاسی بصیرت کا ثبوت دیا ۔
اس تحریک میں ایک ایسا موقع بھی آیا کہ اراکین دارالعلوم مدرسہ کے مستقبل کے بارے میں سخت متفکر ہوگئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ حکومت برطانیہ غیر معین عرصہ تک دارالعلوم بند کردے یا حکومت برطانیہ کوئی اور ایسا فتنہ کھڑا کر دے جس کو سبنھالنا اراکین دارالعلوم کے بس میں نہ ہو۔ چنانچہ حضرت مفتی محمد کفایت اللہ دہلوی ؒ نے حضرت شیخ کو بلایا اور اس پر یشانی سے آگاہ کرتے ہوئے یہ مخلصانہ مشورہ دیا کہ عزیز! تم اس وقت طلبہ کے نمائندے ہو، اس وقت دارالعلوم کامفاد اسی میں ہے کہ ہنگامہ ختم کر دیا جائے اور طلبہ جلسوں اور جلوسوں اور نعرہ بازی سے گریز کریں اور فوراً اپنی اپنی کلاسوں میں چلے جائیں اور ذوق وشوق سے تعلیم جاری رکھیں‘‘۔ حضرت شیخ نے حضرت مفتی صاحب ؒ کے اس مخلصانہ اور معقول مشورہ کو بغور سنا اور آپ سے اتفاق کیا، لیکن آپ کے لیے مشکل یہ تھی کہ ایک طرف حضرت مفتی صاحب کی یہ معقول اور وزنی رائے تھی اور دوسری طرف طلبہ کے قلبی جذبات تھے جن کو یک لخت ٹھنڈا کرنا بظاہر ناممکن نظر آرہا تھا۔ بہرحال توفیق الہٰی شامل حال ہوئی۔ آپ نے انتہائی مدبرانہ سیاست اور فہم وبصیرت سے طلبہ کے جوش وخروش کا رخ نہ صرف اراکین دارالعلوم کی طے کردہ حکمت عملی کی طرف پھیر دیا بلکہ طلبہ اپنی اپنی کلاسوں میں جانے کے لیے بھی تیار ہو گئے۔ آپ کی اس سیاسی بصیرت اور حکمت عملی کی تفصیل ان شاء اللہ قارئین آئندہ صفحات میں بعنوان’’ حضرت شیخ کا سیاسی کردار‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں گے۔ چنانچہ دارالعلوم میں تعلیم کا سلسلہ جاری ہوگیا اور طلبہ دورۂ حدیث نے بخاری اور ترمذی کا بقیہ حصہ مولانا اعزازعلی سے پڑھا۔ بعدازاں اللہ تعالیٰ نے حضرت مدنی ؒ کو بھی باعزت رہائی نصیب فرمادی۔
جب سالانہ امتحان قریب آیا تو پھر چند ہنگامہ خیز طبیعتوں کے حامل افراد نے دفعتاً ہنگامہ برپاکر دیااور مطالبہ یہ رکھا کہ امتحان کے بغیر ہی ہمیں تصور پاس کیاجائے اور مفت میں اسناد مل جائیں اوراس ہنگامہ میں غبی، بے محنت اور نالائق طلبہ پیش پیش تھے مگر چونکہ یہ مطالبہ سراسر غیرمعقول تھا اس لیے اراکین مدرسہ نے اس پر آمادہ نہ ہوئے اور معمول سے چند دن پہلے ہی دارالعلوم بندکر دیا گیا اور اہتمام کی طرف سے صاف اعلان کر دیا گیا کہ کسی مناسب موقع پر ان شاء اللہ امتحان ہو گا اور کامیاب طلبہ کو اسناد دی جائیں گی۔
وطن واپسی
حضرات شیخین دارالعلوم سے سیدھے اچھڑیاں اپنے وطن پہنچے جہاں سوتیلی والدہ محترمہ اور چھوٹی ہمشیرہ بی بی خانم مرحومہ تھیں۔ یہاں پہنچ کر سب سے پہلے آپ نے اپنی ہمشیرہ کی شادی کا انتظام کیا اور ان کی شادی محترم دولت خان سے کردی۔ اس ضروری کام سے فارغ ہوکر آپ اپنے دیگر اعزہ واقربا اور دوست احباب سے ملتے رہے۔ بعدازاں دونوں بھائی مدرسہ انوارالعلوم گوجرانوالہ تشریف لے آئے ۔ گوجرانوالہ تشریف آوری کے بعد حضرت شیخ کو آپ کے اساتذہ نے مدرسہ انوارالعلوم میں پندرہ روپے ماہانہ وظیفہ پر درجہ وسطی کاا ستاد مقرر کر دیا جب کہ حضرت صوفی صاحب کھیالی (گوجرانوالہ) کی ایک مسجد میں خطیب مقرر ہوگئے۔ اسی اثنا میں تمام طلبا دارالعلوم کو امتحان کے لیے طلب کر لیا گیا چنانچہ حضرات شیخین بھی گوجرانوالہ سے روانہ ہو کر دیوبند پہنچ کرامتحان میں شریک ہوگئے ۔امتحان سے فراغت کے بعد واپس گوجرانوالہ تشریف لے آئے، کچھ عرصہ بعد دارالعلوم کی طرف سے دونوں بھائیوں کو بذریعہ ڈاک کامیابی کی اسناد بھی موصول ہوگئیں۔
حضرت مدنی ؒ کی طرف سے خصوصی سند
آپ کے ممتاز استاد گرامی حضرت مدنی ؒ نے دونوں بھائیوں کی علمی لیاقت پر اعتماد کرتے ہوئے دارالعلوم کی سند کے علاوہ اپنی طرف سے بھی خصوصی سند واجازت عطا فرمائی۔ حضرت صوفی صاحب نے دارالعلوم سے تحصیل علم کے بعد بھی حصول علم کا سفر جاری رکھا، چنانچہ آپ دارالمبلغین (لکھنو) تشریف لے گئے اورامام اہل سنت رئیس المناظرین مولانا عبدالشکور فاروقی لکھنوی سے تقابل ادیان کی تعلیم حاصل کی اور مناظرہ کافن سیکھا۔ بعدازاں آ پ نے نظامیہ کالج حیدر آباد (دکن) میں علم طب کا چارسالہ کورس بھی کیاا ور کالج میں چاروں سال فرسٹ پوزیشن حاصل کی۔ پھر آپ ۱۹۵۱ء میں واپس گوجرانوالہ تشریف لائے اور کچھ عرصہ تک طب کے شعبہ سے وا بستہ ہوکر عوامی خدمات انجام دیتے رہے۔ ۱۹۵۲ء میں انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں مدرسہ نصرۃ العلوم کی بنیاد رکھی گئی اور صوفی صاحب زندگی بھر اس مرکز حق میں حق وصداقت کی آواز بلند کرتے رہے اور اسی مرکز سے اپریل ۲۰۰۸ء میں عالم دنیا سے عالم عقبی کی طرف روانہ سفر ہوئے ۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے