(۱)
حضرت مولانا زاہدالراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مزاج گرامی!
ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ سے مسلسل فیض یاب ہو رہا ہوں۔ اللہ کریم آپ کی توانائیوں اور دینی وعلمی خدمات میں مزید برکت مرحمت فرمائے۔ آمین۔ دینی حلقوں میں پائے جانے والے فکری جمود کوتوڑنے کا عزم لائق تحسین ہے۔ اس سلسلے میں مختلف الخیال دینی وعلمی حلقوں کے افکار کی ’’الشریعہ‘‘ میں اشاعت قابل قدر ہے۔ اللہ کرے کہ یہ اقدام ’’تلذذ بالمسائل‘‘ کے بجائے قارئین ومعاونین میں دوسروں کی رائے صبر وتحمل کے ساتھ سننے اور معقول آرا پر غور وفکر کا ذریعہ بن جائے۔
عصر حاضر میں دینی مدارس کے اساتذہ کی فنی تربیت بہت ضروری ہے۔ یہ امر بہت حوصلہ افزا ہے کہ دینی حلقوں خصوصاً وفاق المدارس نے اس سلسلے میں کچھ اقدامات کیے ہیں۔ آپ نے ’’الشریعہ ‘‘ میں بھی اس سلسلے میں گاہے گاہے کچھ رپورٹیں اور مواد شائع کیا ہے، لیکن یہ امر محتاج بیان نہیں کہ ان سرگرمیوں کی حیثیت محض ابتدائی نوعیت کی ہے جو بالعموم اعتراف ضرورت اور ترغیبی وعظ سے زیادہ نہیں۔
یہ امر آپ سے مخفی نہیں کہ موجودہ دور میں فن تعلیم باقاعدہ ایک سائنس کامقام رکھتا ہے۔ چنانچہ اس میدان میں رسمی نظام تعلیم میں ہونے والی پیش رفت سے استفادہ کرتے ہوئے اسباق کی تیاری، پیشکش، سوالات کی ترتیب وتیاری، اسباق کا اعادہ، جائزہ( Evaluation) اور نظام امتحانات میں کافی بہتری لائی جا سکتی ہے تاکہ تدریس زیادہ دلچسپ اور موثر ہو، نظام امتحانات جملہ مقاصد تدریس (خصوصاً درسی مواد پر عبور اور رویے میں تبدیلی یعنی تعمیر سیرت وکردار) بشمول تلامذہ میں پیدا ہونے والی فکری اور تخلیقی صلاحیتوں کا قرار واقعی جائزہ لے سکے اور معلومات وکردار ی تبدیلیوں کی پیمائش بھی کی جا سکے۔ اس سلسلے میں ایسے ماہرین تعلیم جو رسمی علوم میں مہارت کے ساتھ ساتھ دینی علوم خصوصاً مدارس دینیہ میں مروج تعلیمی نظام سے کما حقہ آگاہی رکھتے ہوں، کے علوم، تجربات اور آرا سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
واضح رہے، میری ان گزارشات کا ہر گز یہ مدعانہیں کہ خدانخواستہ دینی مدارس کے نصابات اور تشخص میں کوئی بنیادی تبدیلی لائی جائے، بلکہ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ تدریس زیادہ موثر، بامقصد اور نتیجہ خیز ہو اور تشخص مزید مستحکم اور معتبر ہو۔ یہی روایت اور تشخص جاری نسلوں کی اسلامیت کا رہن ہے۔
امید ہے میری ان معروضات پر توجہ فرمائیں گے اور وفاق المدارس کے ذمہ داران کو بھی دعوت دیں گے۔
ابوطاہر
۴۴/۱ ، کورنگ ٹاؤن
اسلام آباد
(۲)
محترم مدیر صاحب
السلام علیکم
اگست کے شمارے میں شائع ہونے والے مضمون ’’مذہبی رویے۔ چند اصلاح طلب امور‘‘ میں تبلیغی جماعت پر کچھ غیر حقیقت پسندانہ اعتراضات کیے گئے ہیں۔
شکیل احمد صاحب لکھتے ہیں کہ ’’تبلیغی جماعت میں دین کے صرف ظاہری فارم کو بنانے پر زور دیا جاتا ہے نہ کہ اندرونی انسان سازی پر۔‘‘ مجھے ان کے اس جملے پر حیرت ہو رہی ہے۔ تبلیغی جماعت کے لوگوں کا نمازوں کے ذریعے اللہ پاک سے مسئلے حل کروانا، تہجد کی تنہائی میں اللہ کے حضور رونا، صبح وشام کی تسبیحات کا اہتمام کرنا کیا یہ سب ’’ظاہری فارم‘‘ ہے؟ آگے لکھتے ہیں: ’’اور خالص روایتی انداز میں بات کہی جاتی ہے بنا کسی دلیل کے۔‘‘ قرآن پاک کی آیات مبارکہ، احادیث مبارکہ، انبیاے کرام علیہم السلام اور صحابہ کرام کے واقعات بیان کرنا ان کے نزدیک ’’روایتی انداز‘‘ اور ’’بنا کسی دلیل کے‘‘ ہے۔
اس کے بعد اپنے محلے کے ایک صاحب کا واقعہ بیان کرتے ہیں جو ۱۷۰۰۰ کا رونا رو رہے ہیں، حالانکہ انھی صاحب کے داماد کا اگر امریکا یا کینیڈا کا ویزا لگ رہا ہوتا تو بخوشی چار ماہ نہیں بلکہ چار سال کے لیے بھی گوارا کرتے۔ پھر نہ تو بیٹی کی ڈلیوری کا شکوہ ہوتا اور نہ ہی ۱۷۰۰۰ کا۔ آگے تبلیغی جماعت سے جڑنے والوں کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’وہ خدا کی معرفت اور دین کی حقیقت سے ہمیشہ بے خبر رہتا ہے۔‘‘ گویا زنا، شراب، سود، رشوت، موسیقی اور دیگر برائیاں چھوڑ کر پابند صلوٰۃ بننے والے افراد، امت مسلمہ کے لیے اللہ پاک کے حضور رو رو کر دعائیں مانگنے والے افراد اور اپنا جان مال وقت خرچ کر کے لوگوں کی ہدایت کے لیے در در پھرنے والے افراد ’’خدا کی معرفت اور دین کی حقیقت سے بے خبر‘‘ رہتے ہیں۔ اس کے بعد تو کوتاہ علمی کی حد سے گزر کر فضائل اعمال اور فضائل صدقات کو ’’جھوٹے فضائل‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے، حالانکہ اہل علم بخوبی جانتے ہیں کہ فضائل اعمال اور فضائل صدقات میں موجود فضائل قرآن اور حدیث سے بحوالہ نقل کیے گئے ہیں۔
مضمون کے آخر میں وحید الدین خان صاحب نے خواص کی تبلیغی جماعت سے دوری کا مفروضہ قائم کیا ہے۔ اگر ان کے نزدیک ’’خواص‘‘ سے مراد علماے کرام ہیں تو الحمد للہ علما کی اکثریت تبلیغی جماعت کے کام سے مطمئن اور اس سے محبت رکھتی ہے اور اگر ان کے نزدیک ’’خواص‘‘ سے دنیاوی تعلیم یافتہ حضرات ہیں تو یہ حقیقت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ تبلیغی جماعت میں فوج اور سول اداروں کے بڑے بڑے افسران، یونی ورسٹی اور کالجز کے کثیر تعداد میں اساتذہ اور طلبہ سرگرم عمل ہیں۔
تبلیغی جماعت نے پوری دنیا میں ایک انقلاب سے برپا کیا ہوا ہے۔ صرف فرانس کی مثال لے لیجیے جہاں آج سے چالیس پچاس سال پہلے ایک مسجد بھی نہیں تھی اور گنتی کے چند مسلمان تھے۔ اب تبلیغی جماعت کی نقل وحرکت کی وجہ سے چار ہزار سے زائد مساجد اور ساٹھ لاکھ سے زائد مسلمان ہیں۔ تبلیغی جماعت کی دینی خدمات سے انکار دن کے اندر سورج کی روشنی سے انکار کے مترادف ہے۔
آخر میں ’الشریعہ‘ کے ذمہ داران سے گزارش کروں گا کہ اس انٹرنیشنل لیول کی دینی تحریک کے بارے میں اس قسم کے لچر اعتراضات پر مشتمل مضمون اپنے رسالہ شائع نہ کریں۔ کیا یہ بھی ایک ’’فکری‘‘ مضمون تھا؟
محمد وسیم انجم
جھنگ صدر
(۳)
بخدمت مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کے رسالہ میں تبلیغی جماعت کے بارے میں پڑھ کر کہ پہلے یہ میواتیوں کو مسلمان بناتی تھی، اب مسلمانوں کو میواتی بناتی ہے، دکھ ہوا۔ ہمارے بزرگوں کی بنائی ہوئی جماعت بے راہ روی کا شکار کیوں ہے؟ آپ حضرات اس کے لیے کھوئی ٹھوس قدم کیوں نہیں اٹھاتے تاکہ عوام کالانعام کا ایمان محفوظ ہو جائے؟ مولانا الیاسؒ اپنے ملفوظات میں فرماتے ہیں کہ چلہ چار ماہ لگا کر لوگوں میں دینی شعور آ جائے اور واپس آ کر علما کی خدمت میں حاضری دے کر اپنی بقیہ زندگی دین کے مطابق گزاریں۔ اب تو چلہ چار ماہ لگانے والا علما کا دشمن بن کر واپس آتا ہے۔ قرآن وحدیث کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ ان کے فیصلے مشورے سے طے ہوتے ہیں اور اپنے مشوروں کویہ لوگ الہامی قرار دے دیتے ہیں۔ گویا انھوں نے مشوروں کے ذریعے قرآن وحدیث کو ریٹائرڈ کر دیا ہے۔
ان کا اصول ہم سنتے تھے کہ کسی کے خلاف نہیں بولنا، لیکن یہ لوگ اب صحابہ کرام سے لے کر مولانا نانوتوی تک کسی کو معاف نہیں کرتے۔ بیس بیس لاکھ کے مجمع میں مجاہدین اور جہاد کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ لوگوں کے عقیدے برسرمیدان خراب کیے جا رہے ہیں۔ درس قرآن اور درس حدیث کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ آخر کب تک اس جماعت کو مقدس گائے سمجھتے رہیں گے؟ ا ن کو کچھ سمجھانا بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہے۔ یہ لوگ نجی محفلوں میں کہتے ہیں کہ جب تک مدارس دینیہ قائم ہیں، تبلیغ کا کام نہیں چل سکتا۔ مدارس کو چندے دینا حرام ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس بارے میں علماے کرام کی ایک فکری نشست رکھی جائے اور کوئی ٹھوس لائحہ عمل طے کیا جائے۔ انھوں نے ابلیسی ڈائیلاگ بنائے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب کوئی انھیں سمجھاتا ہے کہ تمہارا یہ کام قرآن وسنت کے خلاف ہے تو یہ کہتے ہیں کہ ’’سنو سب کی، کرو اپنی۔‘‘ ان کے بڑوں کو سمجھانا بھی فضول ہے۔ ان میں صرف ان لوگوں کی اصلاح ہو سکتی ہے جو نئے نئے تبلیغ میں وقت لگائیں۔ پرانوں کے بارے میں شیخ سلیم اللہ صاحب فرماتے ہیں کہ جو تبلیغ میں جتنا پرانا ہوتا ہے، اتنا ہی بگڑتا ہے۔
علماے دیوبند ان کو اپنا سمجھتے ہیں، لیکن یہ علماے دیوبند کے کسی کام میں شریک نہیں ہوتے بلکہ علماے دیوبند کو ہی دین کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ گردانتے ہیں۔ اس وقت تبلیغی جماعت میں وقت لگانے سے حق وباطل کی پہچان کی صلاحیت مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے۔ صرف تبلیغ کو ہی دین کا کام سمجھا جانے لگا ہے، باقی سارے شعبے بیکار گردانے جا رہے ہیں۔
نذیر احمد
نذیر کیمسٹ۔ بوہڑ بازار
راول پنڈی