برصغیر پاکستان و ہند کی مقتدر مسلم شخصیات میں سے سلطان محمود غزنوی( متوفیٰ اپریل ۱۰۳۰ ) اورمغل بادشاہ اکبر ( م اکتوبر ۱۶۰۵ )ایک عرصے سے متنازعہ چلے آ رہے ہیں۔ اورنگ زیب عالمگیر (م مارچ ۱۷۰۷ ) کو بھی بآسانی ایسی شخصیات میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ بعض لوگوں کے نزدیک محمود غزنوی لٹیرا ہے اور بعض کی نظر میں بت شکن۔ اسی طرح اگر ایک طرف اورنگ زیب کی پارسائی کے گن گائے جاتے ہیں تو دوسری طرف اسے ظالم بیٹا تصور کیا جاتا ہے جس نے اپنے سگے باپ کو برسوں قلعے میں محصور کیے رکھا۔ مغل بادشاہ اکبر کا معاملہ قدرے جدا ہے۔ اگر مذہبی اصطلاح ’’ اجماع ‘‘ کو مستعار لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اکبر کی’’ تجدد پسندی‘‘ کے خلاف مسلمانوں کے قدامت پسند حلقے کا اجماع ہو چکا ہے اور ایسے اجماع کے بعد بظاہر مزید کسی تحقیق و رائے زنی کی گنجایش باقی نہیں رہی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہماری راسخ العقیدہ دینی روایت ، قدامت پسندوں کے اعتقادی و تقلیدی رویوں سے بہت زیادہ مختلف رہی ہے اور خالصتاً دینی معاملات میں بھی تحقیق و جستجو کو تج دے کر اجماع کو حرفِ آخر تسلیم کرنے کوکبھی آمادہ نہیں ہوئی، چہ جائیکہ ایسے امور میں جہاں حکمرانوں کی پالیسیوں اور اقدامات کا تحلیل و تجزیہ مقصود ہو۔ امام شافعی ؒ (م ۲۰۴ھ) اور امام احمد بن حنبل ؒ (م ۲۴۱ھ) نے واضح طور پر اجماع کے اضافی پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کسی مخالف قول کا علم نہ ہو تو اس سے اجماع واقع نہیں ہو جاتا۔ اگر خالصتاً دینی معاملات میں اجماع حرفِ آخر نہیں تو پھر سیاسی نما مذہبی معاملات ( جن میں عزیمت کے بجائے رخصت کو پیشِ نظر رکھنا زیادہ مفید ہوتا ہے) میں کسی نام نہاد اجماع کی بابت حساسیت کم سے کم ہونی چاہیے اور خلط مبحث سے حتی المقدور گریز کرنا چاہیے۔ اسی سلسلے میں ہم سید حسین احمد مدنی ؒ (م ۱۹۵۷ء) کے اس ’’تفرد‘‘ کو یہاں نقل کرنا چاہیں گے جو اکبر کی تجدد پسندی سے متعلق ’اجماع‘ کے خلاف ہے تاکہ تجدد پسندی کے حوالے سے تصویر کے دونوں رخ سامنے آ سکیں ۔ ملاحظہ کیجیے :
’’ واقع میں ایک غیرت دار شخص کا یہ خیال بجا ہے، مگر اسی کے ساتھ چند امور قابلِ ملاحظہ ہیں۔ تاریخ بتلاتی ہے کہ ہند میں ابتداء اً جب مسلمان آئے، عام طور سے اہلِ ہند بودھ مذہب رکھتے تھے اور ترک چھوت چھات تو درکنار ، بیاہ شادی تک بخوشی کرتے تھے، جس طرح آج برہما، سیام، چین کھاسیا پہاڑوں وغیرہ میں رائج ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اختلاط نے نہایت قوی تاثیر کی، خاندان کے خاندان مسلمان ہو گئے، مغربی پنجاب خصوصاً سندھ میں مسلمانوں کی زیادتی کا راز یہی ہے۔ اس کے بعد جب محمود غزنوی مرحوم کا زمانہ آیا ہے تو ہندووں میں مختلف احوال کی وجہ سے اشتعال پیدا ہوتا ہے اور شنکر اچاریہ عام مذہب ہند کو بودھ سے نکال کر برہمنی بناتا ہے اور حکومت بودھ کی کمزوری کی بنا پر جو کہ افغانستان ، بلوچستان ، سندھ ، لاہور سے فنا کر دی گئی تھی اور وسط ہند کے بھی بودھ راجواڑے محمود مرحوم کے پے در پے حملوں سے یکسر کمزور ہوگئے تھے، شنکر اچاریہ کو عوام پر بڑی کامیابی حاصل ہو جاتی ہے ۔ چاروں طرف دبے ہوئے برہمن جن کو بودھوں نے تقریباً دفن کر دیا تھا، اٹھ پڑتے ہیں اور تھوڑی سی مدت میں پھر برہمنی مذہب اقطار ہند میں پھیل جاتا ہے، اسی کے دل دادہ ہو جاتے ہیں۔ برہمن چونکہ دیکھ رہے تھے کہ اسلام کا سیلاب اختلاط کی بنا پر ان کے اقتدار ہی کو نہیں بلکہ مذہب کو بھی مٹا رہا ہے ، جس کی بنا پر ان کی مذہبی اور دنیاوی سیادتوں کا خاتمہ ہو جائے گا، اس لیے انھوں نے عوام میں نفرت کا پروپیگنڈا پھیلایا اور مسلمانوں کو ملیچھ کا خطاب دیا۔ گاؤ کشی اور گوشت خوری کو اس کے لیے ذریعہ بنایا۔ عوام ہند کی ذہنیت ہمیشہ سے تارکینِ دنیا کی پرستش کرنے والی واقع ہوئی ہے، خصوصاً ہندو ذہنیت جس قدر سادھو اور فقیر کی پرستش کرتی ہے ، وہ اظہر من الشمس ہے۔ یہ ذہنیت بہت جلد شرق سے غرب اور شمال سے جنوب تک پھیل گئی اور وہ اس میں کامیاب ہو گئے۔ چونکہ اسلامی قوت کا قوت سے ان کو مقابلہ کرنے میں باوجود مساعی عظیمہ کامیابی نہیں ہوئی ، اس لیے اسی طریقے پر ان کی جدوجہد محصور ہو گئی اور اسی کو انھوں نے آلہ کار مدافعت بالقویٰ کا بھی بنانا چاہا ۔ پادشاہانِ اسلام نے اولاً اس طرف توجہ ہی نہیں کی ، بلکہ وہ تمام باتوں کا قوت سے مقابلہ کرتے رہے ، مگر شاہانِ مغلیہ کو ضرور اس طرف التفات ہوا ، خصوصاً اکبر نے اس خیال اور اس عقیدے کو جڑ سے اکھاڑنا چاہا اور اگر اس کے جیسے چند بادشاہ اور بھی ہو جاتے یا کم از کم اس کی جاری کردہ پالیسی جاری رہنے پاتی تو ضرور بالضرور برہمنوں کی یہ چال مدفون ہو جاتی اور اسلا م کے دل دادہ آج ہندوستان میں اکثریت میں ہوتے۔ اکبر نے نہ صرف اشخاص پر قبضہ کیا تھا بلکہ عام ہندو ذہنیت اور منافرت کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا تھا ، مگر ادھر تو اکبر نے نفس دین اسلام میں کچھ غلطیاں کیں جن سے مسلم طبقہ میں اس سے بد ظنی ہوئی ، اگرچہ بہت سے بد ظنی کرنے والے غافل اور کم سمجھ تھے، ادھر برہمنوں کے غیظ و غضب میں اپنی ناکامی دیکھ کر اشتعال پیدا ہوا۔ ادھر یورپین قومیں خصوصاً انگلستان کو اپنے مقاصد میں کامیابی کا ذریعہ تلاش کرنا پڑا اور سب سے بڑا ذریعہ اس کا منافرت بین الاقوام تھا اور ہے ۔ اب سیوا جی کی تاریخ اور سکھوں کی کارروائیوں اور صوبہ جات کے باغیانہ کارناموں لارڈ کلائیو کے بنگال وغیرہ میں بذریعہ ہندو قوم فتح مندیوں میں اس ہاتھ کو بہت زیادہ کھیلتے ہوئے پائیں گے ، آج ہماری مہربان گورنمنٹ اس کے ذریعے بہت زیادہ کامیاب ہو رہی ہے۔ اس بنا پر اگرچہ بڑے درجے تک برہمنوں نے مسلمانوں سے اپنی قوم کو بڑے درجے تک محفوظ رکھا مگر اس نے ان کی متحدہ قومیت کا بھی شیرازہ بکھیر دیا اور خود ان میں بھی چھوت چھات کا عقیدہ جہلا نے پیدا کر دیا حتیٰ کہ بعض بعض خاندان برہمنوں کے بھی دوسرے برہمن سے چھوت چھات کرنے لگے ۔
آپ کو معلوم ہے کہ صلح حدیبیہ ہی فتح مکہ اور فتح عرب کا پیش خیمہ ہے اور جس روز صلح حدیبیہ تمام و کمال کو پہنچی ہے ، اسی روز انا فتحنا الآےۃ نازل ہوتی ہے ، جس پر حضرت عمررضی اللہ عنہ تعجب کرتے ہوئے استفسار فرماتے ہیں ، او فتح ھو یا رسول اللہ۔ آپس میں اختلاط ہونا ، نفرت میں کمی آنا ، مسلمانوں کے اخلاق اور ان کی تعلیمات کا معائنہ کرنا ، دلوں سے ہٹ اور ضد کا اٹھ جانا ، یہی امور تھے جنھوں نے افلاذ اکباد قریش کو کھینچ کر صلح حدیبیہ کے بعد مسلمان بناتے ہوئے مکہ سے مدینے کو پہنچا دیا۔ حضرت خالد بن ولید ، عمرو ابن العاص وغیرہ رضی اللہ عنہم اس طرح حلقہ بگوش اسلام بن گئے کہ قریش کی ہستی فنا ہو گئی ۔
الغرض اختلاط باعثِ عدم تنافر ہے اور وہ اقوام کو اسلام کی طرف لانے والا اور تنافر باعثِ ضد اور ہٹ اور عدم اطلاع علی المحاسن ہے اور وہ اسلامی ترقی میں سدِ راہ ہونے والا اور چونکہ اسلام تبلیغی مذہب ہے ، اس لیے اس کا فریضہ ہے کہ جس قدر ہو سکے، غیر کو اپنے میں ہضم کرے، نہ یہ کہ ان کو دور کرے ۔ اس لیے اگر ہمسایہ قومیں ہم سے نفرت کریں تو ہم کو ان کے ساتھ نفرت نہ کرنا چاہیے۔ اگر وہ ہم کو نجس اور ملیچھ کہیں تو ہم کو ان کو یہ نہ کہنا چاہیے ۔ اگر وہ ہم سے چھوت چھات کریں، ہم کو ان سے ایسا نہ کرنا چاہیے۔ وہ ہم سے ظالمانہ برتاؤ کریں، ہم کو ان کے ساتھ ظالمانہ، غیر منصفانہ برتاؤ نہ کرنا چاہیے ۔ اسلام پدرِ شفیق ہے، اسلام مادرِ مہربان ہے، اسلام ناصح خیر خواہ ہے۔ اسلام جالبِ اقوام ہے ، اسلام ہمدرد بنی نوع انسان ہے۔ اس کو غیروں سے جزاء سےئتہ سےئتہ مثلہا پر کاربند ہونا شایان نہیں بلکہ اس کی غرض کے لیے سدِ یاجوج ہے۔ کفر نے کبھی اسلام سے عدل و انصاف نہیں کیا، ان یظہروا علیکم لا یرقبوا فیکم الا ولا ذمۃ (الخ) وغیرہ شاہد عدل ہیں، مگر اسلام نے انصاف، عدل و احسان کو کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑا اور نہ چھوڑنا مناسب تھا، اگرچہ انتقامیہ جذبات بہت کچھ چاہتے تھے۔ اگرچہ بعض دنیا دار بادشاہوں نے کوئی ظلم و ستم کیا ہے تو وہ اس کے ذمہ دار ہیں، اسلام ان کا روادار نہیں۔ اب تفصیلی باتیں عرض کرتا ہوں :
(۱) مشرکین بے شک نجس ہیں، مگر علت حکم آیت حسب سلیقہ عربیہ کہ مشتق کو محکوم علیہ قرار دینا ماخذ اشتقاق کو علت قرار دینا ہے، لہٰذا علت نجاست شرک ہو گا جو کہ نجس معنوی ہے۔ اسی بنا پر اگر مشرک کو سات سمندر سے غسل دیا جائے ، تب بھی بوجہ شرک وہ نجس ہی رہے گا، حالانکہ تین مرتبہ غسل سے نجاستِ ظاہری زائل ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمہور اسلام متفق ہیں کہ مشرک کا سور، عرق وغیرہ پاک ہے۔ آیت میں مسجدِ حرام سے صرف خانہ کعبہ یا مسجد مکہ معظمہ مراد نہیں، بلکہ تمام حدِ حرم مراد ہے۔ اس میں مشرکین داخل ہو کر یا قریب آکر تجارت کر سکتے ہیں۔ اسواقِ اربعہ میں سے کوئی بھی مجلس مکہ معظمہ بلکہ نفسِ مکہ معظمہ میں منعقد نہیں ہوتی تھی تو پھر وان خفتم عیلۃ سے کیا مناسبت ؟ متنبی کہتا ہے :
لا تشتروا العبد الا والعصا معہ ان العبید لانجاس مناکید
ترجمہ : غلام اگر خریدے تو ساتھ ہی اس کی تادیب و تعلیم کے لیے چھڑی بھی ضروری ہے، کیونکہ غلام طبیعت کے ناپاک اور بے خیر ہوتے ہیں ۔
ظاہر ہے کہ یہاں بھی مراد وہ ہی نجاست معنوی ہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کو مسجد میں باندھا، دفود مشرکین کو مسجد میں داخل فرمایا وغیرہ ۔
(۲) کفر ہمیشہ سے ایسے ہی کرتا آیا ہے۔ آنحضرت علیہ السلام اور صحابہ کرامؓ اور اسلاف کے کارنامے یاد کیجیے ، انبیاء علیہم السلام کی تذلیل کفار نے اس سے بدرجہا زائد کی، پھر کیا وہ ذلیل ہوگئے ؟
(۳) احکامِ سیاسیہ ایک حالت نہیں رکھتے۔ کبھی زہر علانیہ دینے کا موقع ہو گا تو کبھی شکر کا شربت پیش کرنا ہو گا۔ آپ کو محض انتقام کبھی لینا ہو گا اور کبھی شفقت کے ساتھ درگزر کرتے ہوئے اپنی طرف کھینچنا۔ آج موقع ہے کہ بڑے دشمن سے ترکِ موالات کیجیے اور اس کو زک دینے کے لیے غیروں کو ساتھ لیجیے، جیسے یہود بنی حارثہ کو خیبر میں، صفوان بن امیہ اور دیگر طلقاء مکہ کو حنین میں، خزاعہ کو حدیبیہ وغیرہ میں ساتھ لیا گیا ۔ ایسی ان کی تذلیلات نے ہی اسلام کو بڑی مدد پہنچائی۔ ادھر مسلمانوں کو ان سے نفرت ہوئی، ادھر ان کی اقوام کو اسلام کی طرف رغبت ہوئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کروڑوں آدمی تھوڑی سی مدت میں مسلمان ہو گئے۔ ۱۸۵۷ء میں مسلمانوں کی مردم شماری موجودہ کی تقریباً نصف ہے۔ اگرچہ مساوات اور عدالت آپ کے خیال کی تائید کرتی ہے، مگر جذبہ اسلامیہ تنگ دلی کی اجازت نہیں دیتا۔ مداراۃ بالاعداء مع البغض الباطنی بالفعل زیادہ ضروری اور مفید ہے اور حتی الوسع موالاۃ ممنوعہ سے بچتے رہنا چاہیے۔
(۴) ضروریاتِ اسلامیہ اور وقتیہ کا لحاظ رکھتے ہوئے الانفع فالانفع پر عمل پیرا ہو نا چاہیے اور اھونھما کو اختیار کرنا چاہیے ۔
(۵) انگریزوں کے ساتھ معاملہ سیاسی غیر مذہبی نہیں ہے بلکہ مذہبی ہے، البتہ وہ اکبر الاعداء اور اقوی الاعداء اور اضرالاعداء ہیں اور ان کے اسلامیت سے نا امیدی ہے۔ مانحن فیہ ایسا نہیں، اگر وہ اسلامی دنیا پر مظالم گزشتہ سے تلافی اور آئندہ کے لیے دست بردار ہو جائیں تو ترکِ موالات وغیرہ میں تخفیف ضرور ہو گی، البتہ تا بقاء کفر مصالحت کی بنا پر نہ موالات تامہ ہو گی اور نہ معادات۔
(۶) اگرچہ انگریز وہ معاملہ چھوت چھات کا نہیں کرتے، مگر اسلام کے بدترین اور اعلیٰ ترین دشمن ہیں، بخلاف ہنود ، یہ ہمارے پڑوسی ہیں اور پڑوسی اگرچہ کافر ہو، پڑوسی پر حق رکھتا ہے ، کما ورد فی الحدیث۔ ان کے ساتھ ہمارا خون ملا ہوا ہے، رشتہ اور قرابت داری ہے یا آبا کے ساتھ یا جدات کے ذریعے سے، ان کے ساتھ ہندوستان میں ہم کو مجبوراً رہنا اور درگزر کرنا ہے۔ بغیر میل جول جس قدر بھی ممکن ہو ، ہندوستان میں گزرکرنا عادت مستحیل ہے ۔ اس لیے ضروریاتِ زندگیہ اس طرف تخفیف ضرور پیدا کریں گی۔ انگریزوں سے ہم کو نہ یہ تعلقات ہیں نہ مجبوریت ۔
(۷) جائز بلکہ مستحسن ہے ۔
(۸) یہ بھی جائز بلکہ باعثِ ثواب ہے ۔
نئے تعلیم یافتہ اس چھوت چھات میں نہ صرف قومیت متفقہ کا ضرر سمجھتے ہیں بلکہ اپنی مذہبیت کا بھی شیرازہ بکھرتا ہوا پاتے ہیں اور انسانی اخوت کے خلاف پاتے ہوئے ازالے کی کوشش کر رہے ہیں اور اپنی سیاسی زندگی کے لیے وبالِ جان جانتے ہیں۔ گاندھی جی خود اس کے ازالے کے لیے کوشاں ہیں، مگر جو مرض قرن ہا قرن سے آ رہا ہے ، وہ اس قدر جلد کس طرح دور ہو جائے۔ تجربہ اس پر دلالت کر رہا ہے کہ چھوت چھات ہندو قوم کو روزافزوں کمی کی طرف دھکیل رہا ہے اور اسلام باوجود ہر طرح کی کمزوریوں کے ترقی کر رہا ہے۔ پس مسئلہ پر ٹھنڈے دل سے غور کیجیے۔ قلتِ وقت ہونے کی بنا پر چند مرتبہ ریل میں مضمون کو پورا کیا ہے ، معاف فرمائیے گا۔والسلام : ننگِ اکابر حسین احمد غفرلہ
۱۸ ربیع الاول ۱۳۵۰ھ ‘‘
[ مکتوبات شیخ الاسلام، مکتوب ۶۳، ص ۱۷۰ تا ۱۷۸ ]
سوال یہ ہے کہ’ ’ بد ظنی کرنے والے غافل اور کم سمجھ ‘‘ کے مصداق کون لوگ تھے اور کون لوگ ہیں؟ سید حسین احمد مدنی ؒ تو اکبر جیسے چند اور بادشاہوں کے خواہاں تھے یا کم از کم اس کی پالیسیوں کے تسلسل کے خواہش مند تھے ، تو کیا خود سید مدنی ؒ تجدد پسندی کی قدامت پسندانہ تعریف کے مصداق تھے؟ سوال یہ ہے کہ آج کی گلوبل دنیا میں پڑوسی کا مصداق کون ہے ؟ اور سید حسین احمد مدنی ؒ نے پڑوسی کے حوالے سے جس ’’ حق اور مجبوری ‘‘ کا ذکر کیا ہے، کیا اب اسے گلوبل تناظر میں دیکھنا تجدد پسندی کے زمرے میں آئے گا؟ سوال یہ ہے کہ آج کی گلوبل دنیا کے ’’ بودھ ‘‘ کون ہیں اور کون سا مسلم حکمران یا مسلم طبقہ ’’ محمود ‘‘ کا کردار ادا کر رہا ہے یا ادا کرنے کی کوششوں میں ہے اور برہنی موقع پرستوں کے لیے فضا ہموار کر رہا ہے؟ سوال یہ ہے کہ سید حسین احمد مدنی ؒ نے اکبر کی مذمت کرنے کے بجائے اس کے مخالفین کو غافل اور کم سمجھ کیوں قرار دیا؟ سوال یہ ہے کہ اکبر کی پالیسیوں پر تجدد پسندی کا لیبل لگا کر اس کی ’’اجماعی مخالفت‘‘ بہت بڑھ چڑھ کر کیوں کی گئی اور کیوں کی جا رہی ہے ؟
جواب یہ ہے کہ اکبر کے ’’ اجماعی مخالفین ‘‘ اس کے اقدامات کے مظہر phenomenon) ( پر نظریں گاڑے ہوئے ہیں، ان کے ہاں اس مظہر کی تسلیمیت (confession) جس قدر بھر پور ہے، اس سے بہت زیادہ اس مظہر کی تفہیم (understanding) مفقود ہے۔ سید مدنی ؒ کے اس مکتوب میں اکبری اقدامات کی تفہیم بھر پور ہے اور ظاہر ہے کہ بطور مظہر کے انھوں نے ان اقدامات کو تسلیم بھی کیا ہے۔ سیدحسین احمد مدنی ؒ کے اسی مکتوب کے حاشیے میں درج، شہنشاہ بابر (م دسمبر ۱۵۳۰) کی اس وصیت سے جو اس نے شہزادہ ہمایوں (م جنوری ۱۵۵۶ ) کو کی، زیرِ بحث نکتہ واضح ہو جاتا ہے:
’’اے پسر! ہندوستان مختلف مذاہب سے پر ہے۔ الحمد للہ اس نے بادشاہت تمہیں عطا فرمائی ہے ، تمہیں لازم ہے کہ تم تعصباتِ مذہبی کو لوحِ دل سے دھو ڈالو اور عدل و انصاف کرنے میں ہر مذہب و ملت کے طریق کا لحاظ رکھو ، جس کے بغیر تم ہندوستان کے لوگوں کے دلوں پر قبضہ نہیں کر سکتے۔ اس ملک کی رعایا، مراحم خسروانہ اور الطاف شاہانہ ہی سے مرہون ہوتی ہے۔ جو قوم یا ملت قوانینِ حکومت کی مطیع اور فرماں بردار رہے، اس کے مندر اور مزار برباد نہ کیے جائیں ، عدل و انصاف ایسا کرو کہ رعایا بادشاہ سے خوش رہے، ظلم و ستم کی نسبت احسان اور لطف کی تلوار سے اسلام زیادہ ترقی پاتا ہے ، شیعہ سنی جھگڑوں سے چشم پوشی کرو ، ورنہ اسلام کمزور ہو جائے گا۔ جس طرح انسان کے جسم میں چار عناصر مل جل کر اتفاق و اتحاد سے کام کرتے ہیں، اسی طرح مختلف مذاہب رعایا کو ملا جلا کر رکھو، ان میں اتحادِ عمل پیدا کرو تاکہ جسمِ سلطنت مختلف امراض سے محفوظ و مامون رہے۔ سرگزشتِ تیمور کو جو کہ اتفاق و اتحاد کا مالک تھا ، ہر وقت اپنی نظر کے سامنے رکھو ، تاکہ نظم و نسق کے معاملات میں پورا تجربہ حاصل ہو ۔‘‘
اس وصیت کے تنقیدی مطالعے سے اکبر کی پالیسیوں کی تفہیم آسان ہو جاتی ہے کیونکہ اس سے وہ پس منظر نمایا ں ہو جاتا ہے جس میں ہمایوں کے بیٹے اکبر کو کاروبارِ حکومت سنبھالنا پڑا تھا اور ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ سید حسین احمد مدنی ؒ نے اکبر کی ’’ تجدد پسندی ‘‘ کی حمایت اتنے واضح انداز میں کیوں کی۔ جس دور میں یہ وصیت لکھی گئی ، اس وقت برصغیر پاکستان و ہند بہت وسیع خطہ تھا، لسانی، نسلی، مذہبی اور ثقافتی تنوع سے مالا مال تھا ، زرعی دور ہونے (اور تکنیکی ترقی نہ ہونے) کے باعث ایک مرکز کے تحت اتنے بڑے خطے پر کنٹرول کرنا اور امن و امان قائم کرنا آسان نہیں تھا ،بالخصوص اس صورتِ حال میں جبکہ مسلمان غالب اکثریت میں نہیں تھے ، اسی لیے بابر نے حقیقت پسندانہ پیراڈائم (paradigm) اختیار کیا ۔ آج کی گلوبل دنیا کو بابر کے ہندوستان کے مصداق سمجھا جا سکتا ہے، کیونکہ تکنیکی ترقی کے باعث دنیا سمٹ چکی ہے ۔اب پوری دنیا لسانی، نسلی، ثقافتی اور مذہبی اعتبار سے تنوع کی حامل ہے اور مسلمان ( بابر کے ہندوستان کے مانند ) اکثریت میں نہیں ہیں۔ ذرا غور کیجیے کہ شہنشاہ بابر اسلام کی ترقی کن عناصر میں دیکھ رہا تھا؟ کیا انہی عناصر کی آبیاری کی ضرورت نہیں تھی اور کیا اب اس وقت بھی ضرورت نہیں ہے؟ دوبارہ غور کیجیے کہ بابر نے وصیت میں شیعہ سنی مسئلے کا خاص طور پر ذکر کیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بابر کے زمانے کے ہندوستان میں اس مسئلے کی جو اہمیت تھی اور اس حوالے سے جس سنجیدگی کے ساتھ مصالحت و موافقت کی ضرورت تھی، اب اس مسئلے کی بالکل ویسی ہی اہمیت اور اسی سنجیدگی کی مصالحت و موافقت ، اسلام کی ترقی کے لیے گلوبل سطح پر درکار ہے۔ موجودہ عالمی حالات ہماری رائے کی ثقاہت پر شاہد ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مسئلے کو سمجھے بغیر (کہ شیعہ سنی مسئلہ ہمارے تہذیبی مسلمات میں سے ہے)، قدامت پسندوں کا ایک بہت بڑا حلقہ ہمیشہ کی طرح ایسی موافقت پر ناک بھوں چڑھائے گا اور ہر طرح کی مصالحتی کوشش کو نہایت سنجیدگی کے ساتھ تجدد پسندی قرار دے کر اسلام کی ترقی میں رکاوٹ بنے گا۔ اسلامی تاریخ سے واقفیت رکھنے والا کوئی بھی غیر جانبدار شخص اس حقیقت سے انکار نہیں کرے گا کہ مسلم ریاستوں اور حکومتوں کی شکست و ریخت میں غیر مسلموں نے شیعہ سنی جھگڑے کو ایک موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا تھا اور اب بھی کر رہے ہیں۔ اس جھگڑے میں کون فاتح رہا تھا یا فاتح ہو گا، کسے شکست کی ہزیمت اٹھانی پڑی تھی یا شکست کھانی ہو گی، یہ ایک الگ مسئلہ ہے، لیکن اس حقیقت سے آنکھیں نہیں چرائی جا سکتیں کہ دونوں کی فتح و شکست سے قطع نظر، نقصان اسلام کا ہوا تھا اور اب بھی نقصان اسلام کا ہی ہو گا۔
اکبر کی پالیسیوں کو تجدد پسندی کا نام دینے والے اس کے ’’اجماعی مخالفین‘‘ تفہیم سے دوری کے باعث یہ اہم نکتہ بھی نظر انداز کر دیتے ہیں کہ ریاستوں اور حکومتوں کے اقدامات کے اثرات دیرپا اور مطلق نہیں ہوتے، بلکہ معاشرتی عناصر زیادہ گہرے اور زیادہ دیرپا اثرات مرتب کرتے ہیں، کیونکہ ایک ریاست کے اندر حکومتیں بدلتی رہتی ہیں اور حکومتوں کے بدلنے کے ساتھ حکومتوں (یا مقتدر شخصیات) سے منسلک اقدامات بھی ترک کر دیے جاتے ہیں اور اس پر کوئی خاطر خواہ ردِ عمل بھی سامنے نہیں آتا۔ (اسی لیے اکبر کی تجدد پسندی کے خاتمے پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا، اور یہی نکتہ سید حسین احمد مدنیؒ کے پیش نظر بھی نہیں رہا۔ وہ حکومتی سطح پر ہی اکبر کی پالیسیوں کے تسلسل کے خواہاں نظر آتے ہیں، حالانکہ یہ عمل سماجی سطح پر زیادہ موثر اور پائیدار ہوتا ہے) حکومتیں تو ایک طرف رہیں، ریاستیں بھی ٹوٹتی بنتی رہتی ہیں اور نتیجے کے طور پر ریاستی قوت و اقتدار کے بل بوتے پر کیے گئے اقدامات بھی طفیلی ہونے کے باعث ڈانواں ڈول رہتے ہیں۔ اس لیے اگر کوئی حکومت یا ریاست ’’تجدد پسندی‘‘ کی پالیسی اپناتے ہوئے ’’دینِ الہٰی‘‘ نافذ کرے یا روشن خیالی کے نام پر ’’حقوق نسواں بل‘‘ پاس کرے یا اسلامی نظام کے نفاذ کا لبادہ اوڑھ کر ’’حدود آرڈیننس‘‘ جاری کرے، اس کے کوئی خاص دیرپا اثرات مرتب نہیں ہوتے ۔ لیکن اگر کوئی کام سماجی سطح پر کیا جائے تو اس کے اثرات زیادہ مطلق، زیادہ اہم اور زیادہ دیرپا ہوتے ہیں، کیونکہ سماج کی عمر صدیوں پر محیط ہوتی ہے، اس لیے سماجی قوت کا اظہار بھی موثر اور صدیوں پر محیط ہوتا ہے۔
اس سلسلے میں ایک مثال دینی مدارس کی دی جاسکتی ہے کہ یہ مدارس، ریاستی و حکومتی سرپرستی سے بے نیاز ہو کر سماجی قوت کے بل بوتے پر پروان چڑھے ہیں اور مضبوطی سے قائم ہیں۔ ہمارے کہنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ قدامت پسندوں کو ایسی ’’ تجدد پسندی‘‘ سے زیادہ فکر مند نہیں ہونا چاہیے جو دینِ الہٰی یا حقوقِ نسواں کے نام سے ہو (کیونکہ ریاستی و حکومتی مظہر ہونے کے باعث ان کی عمر مختصر ہوتی ہے)، بلکہ قدامت پسندوں کو ان مظاہر پر گہری نظر رکھنی چاہیے جو سماجی ہونے کے باعث طویل العمر اور گہرے اثرات کے حامل ہیں۔ لیکن چونکہ قدامت پسندوں کے نزدیک تجدد پسندی کے ایک خاص معنی ہیں، اس لیے ان کی نظروں میں اکبری اقدامات جیسے مظاہرتو چبھ رہے ہیں، لیکن اعتقادی دھند میں انھیں تجدد پسندی کی وہ لہر دکھائی نہیں دے رہی جو پوری دنیا میں مذہب کا وہ ایڈیشن متعارف کروا رہی ہے جسے کمیونسٹوں نے عوام کے لیے افیون قرار دیا تھا۔ یہ لہر تبلیغ کے نام پر اٹھ رہی ہے اور فیملی سسٹم کو تباہ و برباد کر رہی ہے۔ اسلام /مغرب کشمکش کے موجودہ سنگین ماحول میں فیملی سسٹم ’’معیار اور پیمانہ ‘‘ بن چکا ہے، لیکن صلہ رحمی جیسی بنیادی اسلامی قدر جو فیملی سسٹم کے لیے درحقیقت ریڑھ کی ہڈی ہے، اس تجدد پسندی کی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔ اگر سروے کر کے اعداد و شمار جمع کیے جائیں تو خاندانوں کی تباہی کی داستان پر مشتمل ایک مبسوط دستاویز تیار کی جا سکتی ہے۔ اہلِ مغرب کو اب زیادہ پریشان ہو نے کی ضرورت نہیں، کیونکہ جو کام وہ کرنا چاہتے ہیں، ہمارے مہربان بغیر تنخواہ کے وہی کام بخوبی سر انجام دے رہے ہیں۔ اسلام میں فیملی سسٹم، صلہ رحمی اور اجتماعی رجحانات کو فروغ دینے کے دو بڑے مظاہر عید الفطر اور عید الاضحی ہیں۔ یہ تجدیدی لہر ان مظاہر کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے ۔ اب عیدین کے مواقع پر ایسے ’’مقدس لوگ ‘‘ ملتے ہیں جو اپنے ماں باپ، بیوی بچوں، بہن بھائیوں، عزیزو اقارب وغیرہ کے ساتھ عید منانے کے بجائے گھروں سے دور تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ سید نا عمر فاروقؓ نے ایک خاص حکمت کے تحت چار ماہ کے بعد فوجیوں کی چھٹی کو لازم قرار دیا تھا، لیکن تجدد پسندی کی اس لہر نے اس حکمت کے بھی تارو پود بکھیر دیے ہیں اور ایک سال کے مٹر گشت کی طرح ڈالی ہے۔ اس پر مستزاد یہ ہے کہ اگر کوئی مٹر گشت کے دوران میں کہیں آنا جانا چاہے تو ایسا کرنے کی صورت میں وہ ’’احساسِ گناہ‘‘ سے دوچار ہو جاتا ہے جیسے روزہ توڑ لیا ہو یا حج کو ادھورا چھوڑ آیا ہو ۔ سید حسین احمد مدنی ؒ نے اپنے مکتوب میں صلح حدیبیہ کا ذکر کیا ہے کہ اس عہد نامے کی دفعات بظاہر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تھیں، لیکن اس کا حتمی فائدہ اسلام اور مسلمانوں کو ہی پہنچا۔ تجدد پسندی کی مذکورہ لہر کو صلح حدیبیہ کے حوالے سے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ لہراسلام اور مسلمانوں کے بظاہر مفاد میں ہے، لیکن اس کا حتمی نقصان اسلام اور مسلمانوں کو ہو گا ۔ اس سارے عمل میں سب سے زیادہ سنگین پہلو یہ ہے کہ تجدد پسندی کی یہ لہر سماج سے اٹھی ہے اور سماج کو ہی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ سماج سے اٹھنے کے باعث یہ بہت زور آور ہے اور سماج کو لپیٹ میں لینے کے باعث اس کے اثرات بھی لازماً بہت دیرپا ہوں گے۔ اب اگر کوئی اس لہر کے مقابل آئے تو اسے انتہائی شدید ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ تجدد پسندی کی اس لہر کا بروقت محاسبہ کیوں نہ کیا گیا؟ جواب یہ ہے کہ مذہبی حلقے میں خود تنقیدی کے رویے کے نہ پنپنے سے تجدد پسندی کی یہ لہر رواج پا گئی۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی ایک یوتھ کنونشن میں ایک مذہبی نوجوان نے جنرل پرویز مشرف کی موجودگی میں جنرل موصوف کو خوب لتاڑا ۔ اس نوجوان کی تقریر مذہبی حلقے میں کافی مقبول ہو رہی ہے۔ اگر غور کیا جائے تو یہ کوئی ایسی قابلِ فخر بات نہیں ہے، کیونکہ ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں ہزاروں لاکھوں مذہبی نوجوان موقع ملنے پر ایسی تقریر کر سکتے ہیں بلکہ جمعے کے خطبات میں کرتے بھی ہیں ۔ وہی نوجوان اور دیگر مذہبی نوجوان، اپنے شیوخ و اکابر کے افکارواعمال کا بھی اگر اتنی ہی مستعدی سے پوسٹ مارٹم کریں جس بے باکی سے وہ حکومتی پالیسیوں اور شخصیات پر تنقید کرتے رہتے ہیں تو یہ بات یقیناًاہم اور دیرپا تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے، لیکن یہاں اکابر پرستی ، قصیدہ گوئی کی طرف مائل کرتی ہے، تنقید و تنقیح اور تحقیق کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حالانکہ اس حوالے سے اگر عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے اپنے متعلقین اور اپنے ماحول میں موجود لوگوں کو مخاطب کیا جس کے نتیجے میں بہت سے لوگ آپ کے مخالف ہو گئے ۔ ذرا غور کیجیے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے متعلقین کے بجائے غیروں کو مخاطب کرتے اور اپنے ماحول سے باہر کے لوگوں کے خلاف بات کرتے تو کیا آپ کے متعلقین اور آپ کا ماحول آپ کا ہم نوا اور حلیف نہ بنتا؟ اسی بات کو دوسرے رخ سے دیکھیے کہ جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسلام قبول کیا، کیا ان کے قبولیتِ اسلام میں خود تنقیدی کے عمل کا کوئی کردار نہیں تھا؟ یہ درحقیقت خود تنقیدی کا عمل تھا کہ اسلام قبول کرنے والے اپنے ہی ماں باپ، بہن بھائیوں، عزیز و اقارب، آبا و اجداد اور اپنے ہی قبائل کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس کے برعکس اسی زمانے میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصی موجودگی کے باوجود ، جو لوگ اسلام قبول نہ کر سکے، ان کے قبولیتِ اسلام میں مانع، خود تنقیدی کے رویے کا فقدان تھا ۔ ایسے لوگ صرف اس سچ کو مانتے تھے جو غیروں کے خلاف اور اپنے ماحول کے باہر کے لوگوں کو چیلنج کرنے سے عبارت تھا۔ اب فیصلہ قدامت پسندوں کو کرنا ہے کہ وہ تجدد پسندی کی ’’ری کنسٹرکشن‘‘ کرتے رہیں گے اور اپنے ماحول میں قصیدہ گوئی کو فروغ دیتے رہیں گے یا سید حسین احمد مدنی ؒ کے مانند صحابہ کرامؓ کے طرزِ عمل کی پیروی کرتے ہوئے خود تنقیدی کے رویے کی آبیاری کریں گے۔